پیغام حدیث-1 کتاب بدء الوحی تا کتاب صدقۃ الفطر

۱۔ کتاب بدء الوحی (آغازِ وحی)


۱۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:

خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اکرمﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولتِ دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، پس اُس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے شمار ہو گی جن کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے ہجرت کی ہے۔

۲۔ حضورﷺ پر وحی کس طرح آتی تھی؟

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام کے پوچھنے پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح کی آواز آتی ہے،جو مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ جب فرشتے کی کہی بات کو اخذ کر چکتا ہوں تو یہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے۔کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے سخت سردی والے دن آپﷺ پر وحی اترتے ہوئے دیکھی۔جس کے بعد آپﷺ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔

۳۔ وحی کا آغاز اچھے خواب سے ہوا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اﷲﷺ پر شروع ہوئی، وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپﷺ دیکھتے تھے وہ صاف صاف صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپﷺ کو خلوت کی محبت دے دی گئی چنانچہ آپﷺ غارِ حراء میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات لگاتار عبادت کیا کرتے تھے، بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادِ راہ بھی لے جاتے۔

۴۔پہلی مرتبہ وحی آنے کا احوال:

غار ِحراء میں فرشتہ آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو! آپﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپﷺ کو پکڑ کر زور سے بھینچا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے ! تو آپﷺ نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے تین مرتبہ ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا کہ اِقْرَا بِاسْمِ رَبِکَ الخ (العلق : ۳ - ا)’’اپنے پروردگار کے نام کی برکت سے پڑھو جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور یقین کر لو کہ تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہےٍ۔

۵۔ورقہ بن نوفل سے آپﷺ کی ملاقات:

رسول اﷲﷺ کا دل پہلی وحی کے واقعہ سے خوف کے مارے ہلنے لگا اور آپﷺ اُمّ المومنین خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے آپﷺ کو کمبل اُڑھا دیا جب آپﷺ کے دل سے خوف جاتا رہا تو خدیجہؓ سے سارا حال بیان کیا۔ خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بوڑھا نابینا تھا اور انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا۔ رسول اﷲﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کیا تو ورقہ نے آپﷺ سے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اے کاش میں اس وقت زندہ رہتا جب آپﷺ کو آپ کی قوم مکہ سے نکالے گی۔کیونکہ جس شخص نے آپﷺ کی جیسی بات بیان کی اس سے ہمیشہ دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپﷺ کی نبوت کا دَور مل گیا تو میں آپﷺ کی بہت ہی بھرپور طریقے سے مدد کروں گا۔ مگر چند ہی روز میں ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لئے رک گئی۔

۶۔ زمین و آسمان کے درمیان معلق فرشتہ:

سیدناجابر بن عبداللہ مروی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ایک دن میں چلا جا رہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارِ حراء میں میرے پاس آیا تھا ایک کرسی پر زمین و آسمان کے درمیان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس کے دیکھنے سے ڈرگیا تو میں نے گھر میں آ کر کہا مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ اس موقعہ پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (ترجمہ) اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے ! اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو۔ (المدثر: ۵ - ۱) اس کے بعد وحی کی آمد خوب سرگرم ہو گئی اور لگاتار آنے لگی۔

۷۔ہونٹوں کو جلد ی جلدی ہلا کر وحی کو یاد کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲﷺ کو نزولِ قرآن کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ رسول اﷲﷺ کی یہ حالت دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں : (ترجمہ) اے نبیﷺ ! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ‘‘(سورۃ القیامتہ: ۱۷۔۱۶)۔ پھر اس کے بعد جب آپﷺ کے پاس جبرئیلؑ کلامِ الٰہی لے کر آتے تھے تو آپﷺ توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیلؑ چلے جاتے تو اس کو نبیﷺ اُسی طرح پڑھتے تھے جس طرح جبرئیلؑ نے اس کو آپﷺ کے سامنے پڑھا تھا۔

۸ ۔رمضان کی ہر رات جبرئیلؑ کا آپؐ سے ملنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپﷺ رمضان میں سخی ہو جاتے تھے خصوصاً جب آپﷺ سے جبرئیلؑ آ کر ملتے تھے اور جبرئیلؑ آپﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپﷺ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقیناً اس وقت رسول اﷲﷺ خلق اﷲ کی نفع رسانی میں تند و تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت میں تیز ہوتے تھے۔

۹۔شاہِ روم ہرقل کی گواہی:

سیدنا ابن عباسؓ نے ابو سفیانؓ بن حرب سے بیان کیا کہ شاہِ روم ہر قل نے قریشی تاجروں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور حضرت محمدﷺ کے سب سے زیادہ قریب النّسب، ابوسفیانؓ سے کہا کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں،جو اپنے کو نبی کہتا ہے۔ پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقیناً میں آپﷺ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے مجھ سے پوچھا تھا، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں۔ پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں پھر ہر قل نے کہا کہ کیا اُن کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر ہر قل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ میں نے کہا امیروں نے نہیں بلکہ کمزور لوگوں نے۔ پھر ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیروکار دن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں ؟ میں نے کہا کم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان لوگوں میں سے کوئی اُن کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بد ظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں، اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مہلت کے زمانہ میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپﷺ کے حالات میں داخل کر دیتا۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو ہر قل بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مثل رہتی ہے کہ کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ۔ ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرکیہ کی باتیں وعبادتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو۔ اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ یہ باتیں سن کر ہرقل نے کہا کہ اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے۔ اور بے شک میں کتب سابقہ کی پیش گوئی سے جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا.

۱۰۔شاہِ روم کے نام رسول اﷲﷺ کا خط:

’’ اﷲ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے یہ خط ہے اﷲ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمدﷺ کی طرف سے بادشاہِ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو قہرالٰہی سے بچ جاؤ گے اور اﷲ تمہیں تمہارا ثواب دو گنا دے گا اور اگر تم میری دعوت سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر تمہاری تمام رعیت کے ایمان نہ لانے کا گناہ ہو گا اور … ’’اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اﷲ کے پروردگار بنائے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہلِ کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ ہو کہ ہم تو اﷲ کی اطاعت کرنے والے ہیں ‘‘ (آل عمران: ۶۴)

۱۱۔کاہن ہرقل کا رسولﷺ کو غالب دیکھنا:

ابوسفیان کہتے ہیں کہ ابن ناطور جو ایلیا کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیرپادری، وہ بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب ایلیاؔ میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان اٹھا۔ ہر قل کا ہن تھا اور علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے خواص سے یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو دیکھو کہ اس دَور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں حاکموں کو لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیئے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اﷲﷺ کی خبر بیان کرتا تھا۔ سو جب ہر قل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو اپنے لوگوں سے کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے۔ اور ہر قل نے اس سے عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہر قل نے کہا کہ یہی (نبیﷺ ) اس دَور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔

۱۲۔ہرقل کے کاہن دوست کی تصدیق:

پھر ہر قل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ یہ حال لکھ بھیجا اور وہ علم نجوم میں اسی کا ہم پایہ تھا اور یہ لکھ کر ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط آ گیا وہ بھی نبیﷺ کے ظہور کے بارے میں ہر قل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور اُس نے لکھا تھا کہ وہ نبی ہیں۔

۱۳۔نبی کی بیعت کر لو، ہرقل کا مشورہ:

اس کے بعد ہر قل نے سردارانِ روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں، تو وہ بند کر دئیے گئے۔ پھر ہر قل اپنے بالا خانے سے نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارا بھی ہے ؟ اور تمہیں یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے تو اس نبیﷺ کی بیعت کر لو۔ یہ بات سنتے ہی وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہر قل نے ان کی نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا مقصودتھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔

٭٭

۲۔کتاب الایمان

۱۔ اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ مروی ہیں :نبیﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ (۱)اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی بھی دینا کہ محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ (۲) نماز پڑھنا۔( ۳) زکوٰۃ دینا۔ (۴) حج کرنا۔ (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔

۲۔ حیا ایمان کا حصہ ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔ سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پکامسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ایذا نہ پائیں اور اصل مہاجر وہ ہے جو اُن چیزوں کو چھوڑ دے جن کی اﷲ نے ممانعت فرمائی ہے

۳۔کون سا اسلام افضل ہے ؟

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ کون سا اسلام افضل ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اس شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ایذا نہ پائیں۔

۴۔آشنا، نا آشنا سب کو سلام کرنا:

سیدناعبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہویا نہیں جانتے ہو۔

۵۔ دوسرے مسلمان کے لیے یکساں سوچنا:
سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا یہاں تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

۶۔والدین و اولاد سے زیادہ حُبِّ رسول:

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اس پاک ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اس کے ماں باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ سیدنا انسؓ کی روایت میں اتنا اضافہ مزید ہے کہ ’’ اور میں تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ‘‘

۷۔ ایمان کی شیرینی تین باتوں میں ہے:

سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی کامزہ پائے گا۔ (۱) اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اُس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں۔( ۲) اور جس کسی سے محبت کرے تو اﷲ ہی کے لیے اُس سے محبت کرے۔ (۳) اور کفر میں واپس جانے کو ایسا بُرا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ہر کوئی بُرا سمجھتا ہے۔

۸۔ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت:

سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔

۹۔دیدہ و دانستہ کسی پر بہتان باندھنا:

سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اﷲﷺ نے اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا : تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنانہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان کسی پر باندھنا جس کو تم دیدہ و دانستہ اپنے سامنے بناؤ اور کسی اچھی بات میں اﷲورسول کی نافرمانی نہ کرنا۔ پس جو کوئی تم سے اس عہد کو پورا کریگا تو اس کا ثواب اﷲ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان بُری باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں اُس کی سزا اُسے مل جا ئے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی۔ اور جوان بُری باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور اﷲ اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھے گا تو وہ اﷲ کے حوالے ہے اگر چاہے تو اس سے درگزر کرے اور اگر چاہے تو اسے عذاب کرے۔سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ ہم سب لوگوں نے آپﷺ سے ان باتوں پر بیعت کر لی۔

۱۰۔اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لئے بھاگنا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ مسلمان کا اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں چلا جائے تا کہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے۔

۱۱۔اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا کون؟

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب لوگوں کو نیک اعمال کرنے کا حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کو وہ ہمیشہ کر سکیں۔عباداتِ شاقہ کی ترغیب کبھی ان کو نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اﷲ کے رسولﷺ ہم آپ کی مثل نہیں ہیں۔ بے شک اﷲ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیئے۔اس پر آپﷺ غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ چہرۂ مبارک میں غضب کا اثر ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا کہ تم سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کا جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔

۱۲۔ادنیٰ درجہ کے مومن کا جہنم سے نکالا جانا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ مروی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو اس کے بعد اﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہو، اُس کو دوزخ سے نکال لو۔ پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ جل کر سیاہ ہو گئے ہوں گے۔ پھر وہ نہر حیات میں ڈالے جائیں گے۔اس حدیث کے ایک راوی امام مالکؒ کا کہنا ہے کہ تب وہ تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح دانہ تروتازگی کے سا تھ پانی کی روانی کی جانب اگتا ہے۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔

۱۳۔حضرت عمرؓ کا دین اور حضورؐ کا خواب:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے بدن پر قمیصیں ہیں۔ بعضے قمیص تو صرف پستانوں ہی تک ہیں اور بعضے ان سے نیچے ہیں۔ عمر بن خطابؓ کے بدن پر جو قمیص ہے وہ اتنی نیچی ہے کہ وہ اس کو کھینچتے ہوئے چلتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ قمیص کی تعبیر میں نے دین سے کی ہے۔

۱۴۔حیاء ایمان میں سے ہے:

سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ ایک مرتبہ کسی انصاری مَرد کے پاس سے گزرے اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔

۱۵۔مجھے قتال کا حکم دیا گیا ہے، رسولﷺ:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کو اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی بھی گواہی دیں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں۔ پس جب یہ باتیں کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال بچا لیں گے۔

۱۶۔ ایمان عمل کا نام ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کو ن سا عمل افضل ہے ؟ فرمایا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے ؟ فرمایا کہ حجِ مبرور۔

۱۷۔مومن اور مسلم کا فرق:

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا لیکن ایک ایسے شخص کو نہیں دیا جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا۔ تو میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اﷲ کی قسم میں تو اُسے مومن سمجھتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ مومن سمجھتے ہو یا مسلم؟ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس کی وجہ سے میں نے اپنی وہی بات دہرائی۔ بالآ خر آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اے سعد! میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور اﷲ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے ‘‘۔ اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا۔

۱۸۔ شوہر کی ناشکری بھی کفر ہے:

سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اُس میں مَیں نے زیادہ تر عورتوں کو پایا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا اﷲ کا کفر کرتی ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ اے شخص اگر تو کسی عورت کے ساتھ عرصہ دراز تک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد کوئی ناگوار بات تجھ سے وہ دیکھ لے تو فوراً کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تجھ سے آرام نہیں پایا۔

۱۹۔ غلاموں سے ایساکام نہ کرانا جو اُن پر شاق ہو:

سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کو گالی دی۔ یہ خبر جب نبیﷺ تک پہنچی تو آپ نے مجھ سے فرمایا :بے شک تم میں ابھی تک جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ ان کو اﷲ نے تمہارے قبضے میں دے د یا۔ پس جو خود کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو اُسے بھی پہناؤ۔اپنے غلاموں سے ایسا کام کرنے کو نہ کہو جوان پر شاق ہو اور جو ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔

۲۰۔ قاتل اور مقتول مسلمان دونوں جہنمی ہیں:

سیدنا ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب دو مسلمان تلواروں کی ساتھ لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ یہ قاتل کی نسبت جو آپ نے فرمایا اس کی وجہ تو ظاہر ہے مگر مقتول کیوں دوزخ میں جائے گا تو آپؐ نے فرمایا اس وجہ سے کہ وہ اپنے حریف کے قتل کا خواہشمند تھا۔

۲۱۔ بے شک شرک بڑا ظلم ہے:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (ترجمہ) ’’ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا (الانعام: ۸۲) نازل ہوئی تو رسول اﷲﷺ کے اصحاب بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تو اﷲ بزرگ و برتر نے یہ آیت (ترجمہ) ’’ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ‘‘ (لقمان: ۱۳) نازل فرمائی۔

۲۲۔ منافق کی پہچان کیا ہے ؟

سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک بات ہو گی تو بھی اُس میں ایک بات نفاق کی ضرور ہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے۔( ۱) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (۲) اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴) اور جب لڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔

۲۳۔ شبِ قدر میں عبادت، گذشتہ گناہ معاف:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو کوئی ایمان رکھتے ہوئے، ثواب جان کر، شبِ قدر میں عبادت کے لیے بیدار رہے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

۲۴۔ اﷲ کی راہ میں جہاد، ایمان میں شامل ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص کے لئے جو اس کی راہ میں جہاد کرنے کو نکلے اور اس کو اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے پیغمبروں پر ایقان ہی نے جہاد پر آمادہ کر کے گھر سے نکالا ہو، اس امر کا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ یا تو میں اﷲ اسے اس ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا ہے یا اسے شہید بنا کر جنت میں داخل کر دوں گا۔ اور رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو کبھی کسی سریہ (یعنی جس جنگ میں رسول اﷲﷺ شریک نہ تھے ) سے بھی پیچھے نہ رہتا۔ اور میں (یعنی نبیﷺ ) یقیناً اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اﷲ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔

۲۵۔ رمضان کے روزے اور تراویح کی فضیلت:

سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان میں، ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب سمجھ کر عبادت (یعنی نمازِ تراویح پڑھا) کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ رسول اﷲﷺ نے مزید فرمایا کہ جو شخص ماہِ رمضان میں ایماندار ہو کر اور ثواب سمجھ کر روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

۲۶۔ اسلام بہت آسان دین ہے:

سیدنا ابوہر یرہؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ یعنی خود پیدا کردہ سختی کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ پس تم لوگ راست و میانہ روی کرو اور ایک دوسرے سے قریب رہو اور خوش ہو جاؤ کہ تمہیں ایسا آسان دین ملا ہے۔ اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ دیر رات میں عبادت کرنے سے قوت حاصل کرو۔

۲۷۔ سولہ مہینے بیت المقدس قبلہ رہا:

سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے انصاری ننھیال کے ہاں اترے اور آپﷺ نے مدینہ آنے کے بعد سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے۔ چنانچہ جب قبلہ کعبہ کی طرف ہو گیا تو آپؐ نے کعبہ کی طر ف رُخ کر کے سب سے پہلے عصر کی نماز پڑھی تھی۔جب آپﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود اور جملہ اہلِ کتاب بہت خوش ہوتے تھے مگر جب آپﷺ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا تو یہ ان کو ناگوار گزرا۔

۲۸۔نیکی کا بدلہ دس گُنا سے سات سَو گُنا تک:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ فرماتے تھے کہ جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور اس کا اسلام اچھا خوب سے خوب تر اور مضبوط ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد معاوضہ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ نیکی کا بدلہ اس کے دس گُنا سے سات سو گُنا تک اور بُرائی کا اسی کے موافق دیا جاتا ہے مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے۔

۲۹۔ دینی کام جو ہمیشہ کیا جائے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ نبیﷺ اُن کے پاس آئے۔حضرت عائشہؓ نے اپنے پاس بیٹھی عورت کی نماز کی کثرت کا حال بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دیکھو! تم اپنے ذمہ اسی قدر اعمال کی بجا آؤری رکھو جن کی ہمیشہ کرنے کی تم کو طاقت ہو۔ اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا تاوقتیکہ تم خود عبادت کرنے سے تھک جاؤ اور اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ دین کا کام ہے جسے ہمیشہ کیا جائے۔

۳۰۔کم ایمان والا بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا:

سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہہ دے اور اُس کے دل میں ایک جَو برابر نیکی یعنی ایمان ہو تو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے اور اُس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر نیکی یعنی ایمان ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔ اور جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے اور اُس کے دل میں ذرے کے برابر نیکی یعنی ایمان ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔

۳۱۔یہودیوں کا ایک قرآنی آیت پر رشک کرنا:

امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ امیر المومنین! آپ کی کتاب یعنی قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر وہ آیت نازل ہوتی تو ہم اس دن کو (جس دن وہ نازل ہوئی) عید مناتے۔ امیر المومنین نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے ؟ یہودی بولا (ترجمہ) ’’ آج میں (اﷲ) نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا‘‘ (المآ ئدۃ :۳)۔سیدنا عمرؓ یہ سن کر کہنے لگے کہ بے شک ہم نے اس دن کو اور اس مقام کو یاد کر لیا ہے جس میں یہ آیت نبیﷺ پر نازل ہوئی۔ آپﷺ اس دن عرفہ میں مقیم تھے اور جمعہ کا دن تھا۔

۳۲۔نماز، روزہ و زکوٰۃ: فرض اور نوافل کا فرق:

سیدنا طلحہ بن عبید اﷲؓ سے روایت ہے کہ نجد کا رہنے والا ایک پراگندہ حال شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اسلام کی بابت پوچھا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ وہ شخص بولا کہ کیا اِن کے علاوہ بھی کوئی نماز میرے اوپر فرض ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں ! مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے نفل پڑھے۔پھر رسول اﷲﷺ نے فرمایا اور ماہِ رمضان کے روزے۔ اس نے عرض کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور روزے بھی میرے اوپر فرض ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا نہیں ! مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے۔ رسول اﷲﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر اس کے علاوہ اور کوئی صدقہ بھی فرض ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے دے۔ سیدنا طلحہؓ کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا پلٹا کہ اﷲ کی قسم میں ان مذکورہ فرائض میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی کروں گا۔ تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔

۳۳۔جنازہ و تدفین میں شرکت کرنا ثواب ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے ایمان کا تقاضہ اور ثواب سمجھ کر جاتا ہے اور جب تک کہ اس پر نماز نہ پڑھ لی جائے اور اس کے دفن سے فراغت حاصل نہ کر لی جائے، اس کے ہمراہ رہتا ہے تو وہ دو حصہ ثواب کے لے کر لوٹتا ہے اور ان میں سے ہر ایک حصہ احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے اور جو شخص صرف جنازے پر نماز پڑھ لے پھر تدفین سے پہلے لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے۔

۳۴۔ مسلم کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ نے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلم کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

۳۵۔ نبی کریمؐ معین شب قدر بتلانا چاہتے تھے:

سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ ایک مرتبہ لوگوں کو شب قدر بتانے کے لیے نکلے مگر اتفاق سے اس وقت دو مسلمان باہم لڑ رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت میں اس واسطے نکلا تھا کہ تمہیں معین شب قدر بتا دوں مگر چونکہ فلاں اور فلاں باہم لڑے اس لئے اس کی قطعی خبر دنیا سے اٹھا لی گئی۔ اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو کہ اب تم شب قدر کو رمضان کی۲۵ویں، ۲۷ ویں اور ۲۹ ویں تاریخوں میں تلاش کرو۔

۳۶۔ایمان کیا چیز ہے ؟

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک آپ کے سامنے ایک شخص آیا اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور آخرت میں اﷲ سے ملنے پر اور اﷲ کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔

۳۷۔اسلام کیا چیز ہے ؟

پھر اس شخص نے پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔

۳۸۔ احسان کیا چیز ہے ؟

پھر اُس شخص نے کہا کہ احسان کیا چیز ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اﷲ کی عبادت اس خشوع و خضوع اور خلوص سے کرو گویا کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اور اگریہ حالت نہ نصیب ہو کہ تم اس کو دیکھتے ہو تو یہ خیال رہے کہ وہ تو ضرور تمہیں دیکھتا ہے۔

۳۹۔ قیامت کب ہو گی؟

پھر اس شخص نے کہا کہ قیامت کب ہو گی؟ تو اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ میں خود بھی تم سے زیادہ اس کو نہیں جانتا۔البتہ میں تم کو اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور سیاہ اونٹوں کو چرانے والے اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے لگیں تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے اور قیامت کا علم تو اُن پانچ چیزوں میں سے ہے کہ جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیلؑ تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

۴۰۔ مشتبہ چیزوں سے بچ گیا تو اپنا دین بچا لیا:

سیدنا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو فرماتے سنا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا۔

۴۱۔ جو شخص شبہ کی چیزوں میں ملوث ہو گیا:

اور جو شخص شبہ کی چیزوں میں ملوث ہو گیا تو وہ مثل اس چروا ہے کے ہے جو سلطانی چراگاہ کے قریب چراتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اپنے مویشی اس میں چھوڑ دے۔ اے لوگو! آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔

۴۲۔ دل خراب تو سارا بدن خراب:

اور خبردار ہو جاؤ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کاہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے خوب سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔

۴۳۔مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ، خمس ادا کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ عبدالقیس کے لوگ جب نبیﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔ (ا) اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ ) اﷲ کے رسول ہیں ( ۲) اور ان کو حکم دیا نماز پڑھنے کا۔(۳) اور زکوٰۃ دینے کا (۴) اور رمضان کے روزے رکھنے کا اور حکم دیا اس بات کا کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں دے دیا کرو۔

۴۴۔چار قسم کے برتنوں میں پینا منع ہے:

آپﷺ نے چار قسم کے برتنوں میں پانی یا اور کوئی چیز پینے سے منع کیا ہے۔ (۱) سبز لاکھی مرتبان (حنتم) سے۔ (۲) اور کدو کے تونبے (الُّدبَّا) سے۔(۳) اور کریدے ہوئے لکڑی کے برتن (النَّقْیِر) سے ( ۴) اور روغنی برتن (الَمزَفتَّ یامقیر)سے۔

۴۵۔ اعمال کے نتیجے نیت کے موافق ہوتے ہیں:

سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اعمال کے نتیجے نیت کے موافق ہوتے ہیں۔ اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو وہ نیت کرے لہٰذا جس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اﷲ کے ہاں اس کی ہجرت اسی کام کے لئے لکھی جاتی ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی۔

۴۶۔ اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ:

سیدنا ابو مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب سمجھ کر خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ کا حکم رکھتا ہے۔

۴۷۔ مسلمانوں سے خیر خواہی دین کا حصہ ہے:

سیدنا جریر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کے اقرار پر بیعت کی۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپﷺ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، تو آپﷺ نے مجھے اسلام پر قائم رہنے اور ہر مسلم کی خیر خواہی کرنے کی شرط عائد کی۔ پس اسی پر میں نے آپﷺ سے بیعت کی۔

٭٭٭

۳۔کتاب العلم


۱۔قیامت کب قائم ہو گی؟

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی مجلس میں ایک اعرابی آیا اور اس نے آپﷺ سے پوچھا کہ قیامت کب ہو گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اُس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہو گا؟ فرمایا جب معاملہ نا اہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔

۲۔وضو میں اعضاء خشک رہنے پر آگ کا عذاب:

سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی رفاقت میں کئے گئے ایک سفر میں نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپﷺ ہم سے اس حال میں ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کر دی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے۔ جلدی کی وجہ سے ہم اپنے پیروں پر پانی لگانے لگے کیونکہ دھونے میں دیر ہوتی ہے۔یہ دیکھ کر آپﷺ نے اپنی بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ خشک رہنے کی صورت میں پیروں کے ٹخنوں کو آگ کے عذاب سے خرابی ہونے والی ہے۔

۳۔کھجور کا درخت مسلمان کے مشابہ ہے:

سیدنا ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ایک درخت ایسا ہے کہ اُس کا پت جھڑ نہیں ہوتا اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے۔ تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے ؟ صحابہ کرام ٍؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ آپ ہی ہمیں بتائیے کہ وہ کونسا درخت ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

۴۔حق کی تلاش میں قوم کی نمائندگی کرنا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں، ایک دفعہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور صحابہؓ سے دریافت کیا تم میں سے محمد (ﷺ ) کون ہیں ؟ تو ہم لوگوں نے کہا یہ مرد صاف رنگ تکیہ لگائے ہوئے جو بیٹھے ہیں انہی کا نام نامی محمدﷺ ہے۔ پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے ! میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کو تمام آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا، اﷲ کی قسم ہاں۔ پھر اُس نے کہا کہ میں آپ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کیا دن رات میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا اﷲ نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اﷲ کی قسم ہاں۔ پھر اُس نے کہا کہ میں آپ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کیا ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کا اﷲ نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اﷲ کی قسم ہاں۔ پھر اُس نے کہا کہ میں آپ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کیا اﷲ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مال داروں سے لیں اور اسے ہمارے مستحقین پر تقسیم کریں ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا، اﷲ کی قسم ہاں۔ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس شریعت پر ایمان لایا، جو آپﷺ لائے ہیں۔ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر سے ضمام بن ثعلبہ ہوں اور اپنی قوم کا بھیجا ہوا نمائندہ ہوں۔

۵۔شاہِ ایران کا نبیﷺ کے خط کو چاک کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے اپنا ایک خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دے دے۔ چنانچہ اُس نے دے دیا اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسریٰ (شاہِ ایران) تک پہنچا دیا۔ پھر جب کسریٰ نے اس کو پڑھا تو اپنی بدبختی سے اس کو چاک کر ڈالا۔ رسول اﷲﷺ نے یہ سن کر اُن لوگوں کو بددعا دی کہ وہ لوگ بھی بالکل اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں گے۔

۶۔چاندی کی انگوٹھی میں کندہ مہرِ نبوت:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک خط (شاہِ روم یا ایران) کو لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ بے مہر کے خط کو وقعت نہیں دیتے۔ چنانچہ آپﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں مُحَمَّدْ رَسُوْلُ اﷲ کندہ تھا۔

۷۔ اللہ سے رجوع کرنے والا:

سیدنا ابو واقدؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ مسجد میں بیٹھے وعظ فرما رہے تھے کہ تین افراد آئے۔ دو افراد آپﷺ کے سامنے آ گئے۔ وہ دونوں کچھ دیر رسول اﷲﷺ کے پاس کھڑے ہوئے پھر ان میں سے ایک نے حلقہ میں گنجائش دیکھی تو وہ اس کے اندر بیٹھ گیا اور دوسرا سب کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیا۔ پس جب رسول اﷲﷺ نے وعظ سے فراغت پائی تو صحابہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی حالت نہ بتاؤں کہ ان میں سے ایک نے اﷲ کی طرف رجوع کیا اور اﷲ نے اس کو جگہ دی اور دوسرا شرمایا تو اﷲ نے بھی اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اﷲ نے بھی اس سے اعراض فرمایا۔

۸۔مسلمانوں کے مال، خون و عزت کی حرمت:

سیدنا ابو بکرہؓ سے روایت ہے کہ ذوالحجہ کے مہینہ میں قربانی کے دن ایک مرتبہ آپﷺ اپنے اونٹ پر بیٹھے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھا۔ آپﷺ نے صحابہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں آپس میں ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن میں، تمہارے اس مہینہ میں، تمہارے اس شہر میں حرام سمجھے جاتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔

۹۔نصیحت کرنے کے لئے وقت اور موقعہ کی رعایت:

سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے تھے اور ہمارے اُکتا ہو جانے کے خیال سے ہر روز وعظ نہ فرماتے تھے۔

۱۰۔ خوشخبری سناؤ، لوگوں کو ڈرا کر متنفر نہ کرو:

سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوشخبری سناؤ اور زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انہیں متنفر نہ کرو۔

۱۱۔اﷲ بھلائی کرنا چاہے تو دین کی سمجھ دیتا ہے:

سیدنا معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اﷲ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اُس کو دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور نبیﷺ نے فرمایا کہ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اﷲ ہی ہے اور یاد رکھو کہ یہ امت ہمیشہ اﷲ کے حکم (دین) پر قائم رہے گی تو جو شخص ان کا مخالف ہو گا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔

۱۲۔دو قسم کے افراد پر رشک کرنا جائز ہے:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ حسد (رشک) جائز نہیں مگر دو قسم کے افراد پر۔ایک اس شخص پر جس کو اﷲ نے مال دیا ہو اور اس بات کی توفیق و ہمت بھی کہ اسے راہِ حق میں صرف کرے۔دوسرے اس شخص پر جس کو اﷲ نے علم و حکمت عنایت کی ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلے اور عمل کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔

۱۳۔ علم و ہدایت بارش کی مانند ہے:

سیدنا ابو موسیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے،اس کی مثال زمین پر برسنے والی تیز بارش کی سی ہے۔ جو زمین زرخیز ہوتی ہے، وہ پانی کو جذب کر لیتی ہے پھر اس سے بہت سارا چارا اور گھاس اُگتا ہے۔ اور جو زمین سخت ہوتی ہے، وہ پانی کو روک لیتی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، وہ اس کو پیتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں اور زراعت کو سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش زمین کے اس حصہ کو پہنچا کہ جو بالکل چٹیل میدان ہے، نہ پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ اگاتا ہے۔ پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اﷲ کے دین میں فقیہ ہو جائے اور جس چیز کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے، اس کو فائدہ دے اور وہ اس کو پڑھے اور پڑھائے۔ اور مثال اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور اﷲ کی اس ہدایت کو، جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔ بے آب و گیاہ بنجر زمین اور چٹیل میدان کی طرح ہے۔

۱۴۔کثرت شراب نوشی قیامت کی علامت:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا بے شک یہ باتیں قیامت کی علامتوں میں سے ہیں کہ علم اُٹھ جائے اور جہالت باقی رہ جائے اور شراب نوشی کثرت سے ہونے لگے اور اعلانیہ زنا ہونے لگے۔

۱۵۔عورتوں کی کثرت،۵۰ عورتوں پر ایک مرد:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آج میں تم لوگوں کو ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد شاید کوئی تم سے نہ بیان کرے گا۔ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ علم کم ہو جائے، جہالت غا لب آ جائے، زنا اعلانیہ ہونے لگے، عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت ہو جائے یہاں تک کہ پچاس عورتوں پر صرف ایک مرد ہو گا۔

۱۶۔نبیﷺ کا خواب اور سیدنا ابن عمرؓ کا علم:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ سے یہ سنا کہ اس حالت میں کہ مَیں سو رہا تھا، خواب میں مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا، تو مَیں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیری کے سبب سے رطوبت میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمر بن خطابؓ کو دے دیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ علم۔

۱۷۔مناسکِ حج کی ترتیب میں بھول چوک:

سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ حجتہ الوداع میں لوگوں کے لئے منیٰ میں ٹھہر گئے جہاں لوگ آپ سے مسائل پو چھتے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ نادانستگی میں مَیں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا تو آپﷺ نے فرمایا اب ذبح کر لے اور کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ نادانستگی میں مَیں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی تو آپﷺ نے فرمایا اب رمی کر لے اور کوئی حرج نہیں عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ اس دن آپﷺ سے مناسکِ حج کی ترتیب کے بارے میں جس چیز کی بابت پوچھا گیا، خواہ وہ مقدم کر دی گئی ہو یا موخر کر دی گئی ہو، تو آپﷺ نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کوئی حرج نہیں۔

۱۸۔ جہالت اور فتنے غالب ہو جائیں گے:

سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ عنقریب علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت اور فتنے غالب ہو کر پھیل جائیں گے اور قتل بڑھ جائے گا

۱۹۔سورج گرہن اور نمازِ کسوف:

سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کہتی ہیں کہ میں عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، تو میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کیوں اس قدر گھبرا رہے ہیں ؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ دیکھو آفتاب میں گرہن ہے۔ پھر اتنے میں سب لوگ نمازِ کسوف کے لئے کھڑے ہو گئے، تو عائشہؓ نے کہا سبحان اﷲ۔ میں نے پوچھا کہ یہ گرہن کیا کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔

۲۰۔قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی:

پھر جب نماز کسوف ختم ہو چکی اور گرہن جاتا رہا تو نبیﷺ نے اﷲ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا کہ جو چیز اب تک مجھے نہ دکھائی گئی تھی، اسے میں نے اس وقت اپنی اسی جگہ میں کھڑے کھڑے دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ اپنی قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی، مسیح دجال کی آزمائش کے مثل یا اسی کے قریب قریب۔ کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص سے کیا واقفیت ہے ؟ تو اگر مومن ہے تو وہ کہے گا کہ وہ محمدﷺ ہیں اﷲ کے پیغمبر۔ ہمارے پاس معجزات اور ہدایت لے کر آئے تھے، لہٰذا ہم نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی کی اور وہ محمدﷺ ہیں۔یہ کلمہ تین مرتبہ کہے گا۔ پس اس سے کہہ دیا جائے گا کہ تو آرام سے سوتا رہ! بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمدﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا کہے گا میں حقیقت تو نہیں جانتا مگر میں نے لوگوں کو ان کی نسبت کچھ کہتے ہوئے سنا چنانچہ میں نے بھی وہی کہہ دیا۔

۲۱۔دودھ شریک میں نکاح درست نہیں:

سیدنا عقبہ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو إہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا، اس کے بعد ایک عورت نے آ کر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس لڑکی کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے، دودھ پلایا ہے (پس یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں ان میں نکاح درست نہیں )۔ عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے اس سے پہلے کبھی مجھے اس بات کی اطلاع دی۔ پھر عقبہ مکہ سے سوار ہو کر رسول اﷲﷺ کے پاس مدینہ گئے اور آپﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اب کس طرح تم اس سے ازدواجی تعلق قائم رکھو گے ؟ حالانکہ یہ جو بیان کیا گیا اس سے حرمت کا شبہ پیدا ہوتا ہے پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور اُس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔

۲۲۔با جماعت نماز کو طول نہ دینے کی ہدایت:

سیدنا ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ یا رسول اﷲﷺ میں عنقریب جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکوں گا، کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتا ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبیﷺ کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلانے والے ہو دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ ہر رکن کے ادا کرنے میں تخفیف کرے، اس لئے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہیں، کمزور بھی ہیں اور ضروری کام والے بھی ہیں۔

۲۳۔گری پڑی لا وارث چیز کا حکم:

سیدنا زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک شخص نے گری پڑی لا وارث چیز کا حکم پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی بندش کو پہچان لے یا یہ فرمایا کہ اس کے ظرف کو اور اس کی تھیلی کو پہچان لے پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے یعنی اس کے اصل مالک کو تلاش کرے پھر اس کے بعد اگر کوئی مالک اس کا نہ ملے تو اس سے فائدہ اٹھا لے اور اگر اس کا مالک سال بعد بھی آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے۔

۲۴۔ کھویا ہوا مویشی ملنے کا حکم:

پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ اگر ملے تو اس کو کیا کیا جائے ؟ تو آپﷺ غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب؟ اس کی مشک اور اس کا پاپوش اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچے گا تو پانی پی لے گا اور درخت کے پتے کھا لے گا، لہٰذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری کا پکڑ لینا کیسا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا اگر کسی کے ہاتھ نہ لگی تو پھر بھیڑیئے کی۔

۲۵۔سمجھانے کے لیے اہم بات کی تکرار کرنا:

سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ جب کوئی اہم بات کہتے تو تین مرتبہ اس کی تکرار کرتے تاکہ اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور جب چند لوگوں کے پاس تشریف لاتے اور ان کو سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے۔

۲۶۔تین قسم کے افراد کے لیے دُگنا ثواب ہے:

سیدنا ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کے لیے دُ گنا ثواب ہے (ا) وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو، اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور پھر محمدﷺ پر بھی ایمان لائے (۲) اور مملوک غلام، جب کہ وہ اﷲ کے حق کو اور اپنے مالکوں کے حق کو ادا کرتا رہے۔(۳) اور وہ شخص جس کے پاس اس کی لونڈی ہو، اس نے اسے ادب سکھایا اور عمدہ تربیت کی اور اسے اچھی و عمدہ تعلیم دی پھر اسے آزاد کر دیا اور اس سے نکاح کر لیا، پس اس کے لئے دُگنا ثواب ہے۔

۲۷۔ عید میں عورتوں کا صدقہ میں زیورات دینا:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی طرف نکلے اور آپ کے ہمراہ سیدنا بلا لؓ تھے۔ آپﷺ نے یہ گمان کیا کہ شاید عورتوں نے خطبہ صحیح طرح نہیں سنا، تو آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے صدقہ دینے کا حکم دیا۔ پس کوئی عورت بالی اور کوئی انگوٹھی ڈالنے لگی کوئی کچھ اور اور بلالؓ اپنے کپڑے کے دامن میں سمیٹنے لگے۔

۲۸۔روزِ حشر آپؐ کی شفاعت کا حقدار کون ہو گا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے پوچھا کہ قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ بہرہ مند آپﷺ کی شفاعت سے کون ہو گا؟ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ !بے شک مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی یہ بات مجھ سے نہ پوچھے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے دریافت کرنے کی تمہاری حرص دیکھ لی ہے۔تو سن لو! قیامت کے دن سب سے زیادہ بہرہ مند میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا جو اپنے خالص دل سے لَا اِلہَ اِلَّا اﷲ کہہ دے۔

۲۹۔ بغیر علم فتویٰ د ے کر گمراہی پھیلائیں گے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار (یعنی مفتی اور پیشوا) بنا لیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

۳۰۔فوت شدہ تین کمسن بچوں کی ماں کی فضیلت:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ عورتوں کی درخواست پر نبیﷺ نے ان کے لیے وعظ کا ایک دن مخصوص کیا ہوا تھا۔ایسے ہی ایک وعظ میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جو عورت تم میں سے اپنے تین لڑکے آگے بھیج دے گی (یعنی اس کے تین لڑکے اس کے سامنے مر جائیں گے ) تو وہ اس کے لئے دوزخ کی آگ سے حجاب (آڑ) ہو جائیں گے۔ ایک عورت بولی اور اگر کوئی دو لڑکے آگے بھیجے ؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ دوکا بھی یہی حکم ہے۔ اور سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ تین لڑکے ایسے ہوں جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں۔

۳۱۔حساب کی جانچ کی گئی تو وہ ہلاک ہو گیا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں جس کا حساب لیا گیا، اسے ضرور عذاب کیا جائے گا۔ عائشہ کہتی ہیں یہ سن کر میں نے کہا کہ کیا اﷲ پاک نہیں فرماتا ’’عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا‘‘ (الانشقاق۔ ۸)۔ معلوم ہوا کہ آسان حساب کے بعد عذاب کا ہونا کچھ ضروری نہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے درحقیقت حساب نہیں ہے بلکہ اعمال کا صرف پیش کر دینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی تو وہ یقیناً ہلاک ہو گا۔

۳۲۔مکہ میں لڑائی کو اللہ نے حرام کیا ہے:

سیدنا ابو شریح ؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن اﷲ کی حمد و ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا کہ مکہ میں جنگ و جدل وغیرہ کو اﷲ نے حرام کیا ہے اور اسے آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ پس جو شخص اﷲ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو تو اُس کو جائز نہیں کہ مکہ میں خون ریزی کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہاں کوئی درخت کاٹا جائے۔ پھر اگر کوئی شخص رسول اﷲﷺ کے مکہ میں لڑنے سے ان چیزوں کا جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اﷲ نے اپنے رسولﷺ کو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی، پھر آج اس کی حرمت حسبِ سابق ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے کل تھی، پس حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے۔

۳۳۔ نبیؐ کے اوپر جھوٹ بولنے والا جہنمی ہے:

سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میرے اوپر ہرگز جھوٹ نہ بولنا، کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے تو اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔ اسی طرح سیدنا سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو کوئی میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔

۳۴۔ابوالقاسم نام رکھنے کی ممانعت:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت (ابوالقاسم ) نہ رکھو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا۔ اس لئے کہ شیطان میری شکل و شباہت اختیار نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص عمداً میرے اوپر جھوٹ بولے تو اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔

۳۵۔مکہ میں قتال نبیوں پر بھی حلال نہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اﷲﷺ اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ ہو مکہ میں قتال کرنا نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لئے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو اب وہ اس وقت حرام ہے۔

۳۶۔مکہ میں درخت کاٹنا اور چیز اٹھانا منع ہے:

مکہ کا کانٹا نہ توڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے اور جس کسی کا کوئی عزیز قتل کیا جائے تو اسے ان دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے۔اتنے میں قریش کے ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے اس لئے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ہاں اذخر کے سوا اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے۔

۳۷۔عبادت کے لیے سونے والیوں کو جگانا:

اُمّ المومنین اُمِّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ ایک رات نبیﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ سبحان اﷲ آج کی رات کس قدر فتنے نازل کئے گئے ہیں اور کس قدر خزانے کھولے گئے ہیں۔اے لوگو ! ان حجرہ والیوں کو جگا دو کہ کچھ عبادت کریں کیونکہ بہت سی دنیا میں پہننے والی ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔

۳۸۔فجر کی سنتیں گھر میں، فرض مسجد میں ادا کرنا:

ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ اُمُّ المومنین میمونہ بنت حارثؓ کے گھر میں سویا اور نبیﷺ اُس شب میں انہیں کے ہاں تھے۔ پس نبیﷺ نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چار رکعتیں پڑھیں اور سو رہے پھر بیدار ہوئے اور فرمایا کہ چھوٹا لڑکا سو گیا؟ پھر نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے اور میں بھی وضو کر کے آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا اور پانچ رکعتیں پڑھیں اس کے بعد دو رکعتیں سنت فجر پڑھیں پھر سو رہے یہاں تک کہ آپﷺ کے خراٹے لینے کی آواز میں نے سنی پھر آپ نماز فجر کے لیے مسجد تشریف لے گئے۔

۳۹۔حضرت ابوہریرہؓ نے کثیر احادیث بیان کیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ نے بہت سی حدیثیں بیان کیں اور اگر کتاب اﷲ میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک حدیث بھی نہ بیان کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھتے تھے ’’ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہوں ‘‘ (البقرہ: ۱۶۰۔ ۱۵۹)۔

۴۰۔ابو ہریرہؓ بیشتر وقت نبیؐ کے پاس ہوتے :

… بے شک ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خرید و فروخت کرنے کا شغل رہتا تھا اور ابو ہریرہؓ اپنا پیٹ بھر کے نبیﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور ایسے اوقات میں حاضر رہتا تھا کہ لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کر لیتا تھا جو وہ لوگ نہ یاد کرتے تھے۔

۴۱۔سیدنا ابو ہریرہؓ کے حافظہ کا ذکر:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے کہا کہ میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں مگر انہیں بھول جاتا ہوں، تو آپ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ۔ چنانچہ میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے فرضی چلو بنا کر اس چادر میں ڈال دیا پھر فرمایا کہ اس چادر کو اپنے اوپر لپیٹ لو چنانچہ میں نے لپیٹ لیا پھر اس کے بعد میں کچھ نہیں بھولا۔

۴۲۔مسلمانوں کا باہم گردن زنی کرنا کفر ہے:

سیدنا جریرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان سے حجتہ الوداع میں فرمایا کہ تم لوگوں کو چپ کرا دو۔ جب لوگ خاموش ہو گئے تو اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن زنی کرنے لگے۔

۴۳۔موسیٰ علیہ السلام سے بڑا عالمِ:

سیدنا ابی بن کعبؓ نے روایت کی ہے آپﷺ فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے دورانِ خطبہ پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اﷲ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کی نسبت اﷲ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اﷲ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے۔

۴۴۔موسیٰ علیہ السلام کا بڑے عالمِ کو تلاش کرنا:

موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو اور مجمع البحرین کی طرف چلو پھر جس مقام پر اس مچھلی کو نہ پاؤ تو سمجھ لینا کہ وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سرزمین پر رکھ لئے اور سوگئے تو یہیں مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنالی پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ۔اب جو اُن کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی۔ تب انہوں نے کہا کہ کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ جب ہم اُس پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی بھول گیا تھا۔

۴۵۔ ملنا حضرت خضرؑ کاموسیٰؑ سے:

موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ مقام ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس اس پتھر تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو خضر ؑ نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں موسیٰؑ ہوں۔ خضرؑ نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰؑ ؟ انہوں نے کہا ’’ہاں ‘‘۔موسیٰؑ نے کہا :کیا میں اس امید پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھادو؟ انہوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰؑ !بے شک اﷲ نے مجھے ایک خاص علم عطا کیا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ اور جو علم اﷲ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اُسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اﷲ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا۔

۴۶۔موسیٰؑ کا حضرت خضرؑ کے ساتھ سفر کرنا:

چنانچہ خضرؑ راضی ہو گئے پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے۔ ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس سے گزری تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضرؑ پہچان لئے گئے اور کشتی والوں نے انہیں بے کرایہ بٹھالیا۔ اسی اثناء میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضرؑ بولے کہ اے موسیٰؑ ! میرے اور تمہارے علم نے اﷲ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔

۴۷۔خضرؑ کا کشتی میں سوراخ کرنا:

پھر خضرؑ نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔موسیٰؑ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضرؑ نے کہا ’’ کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے ‘‘ موسیٰؑ نے کہا میں بھول گیا تھا اس لئے میرا مواخذہ نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجیے۔یہاں نبیﷺ نے وضاحت کی کہ پہلی بار موسیٰؑ نے بھولے سے یہ اعتراض کیا۔

۴۸۔خضرؑ کا لڑکے کو قتل کرنا:

پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر چلے تو ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بے گناہ جان کو بے وجہ کے تم نے قتل کر دیا۔ خضر علیہ السلام نے کہا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ ہرگز صبر نہ کر سکو گے ؟

۴۹۔مہمانی نہ کرنے والوں کا بلا اجرت کام کرنا:

پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا مانگا مگر اُن لوگوں نے اِن کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔اب پھر موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اُجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام بولے کہ بس اب ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبیﷺ نے اس قدر بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کئے جاتے۔

۵۰۔اﷲ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے ؟

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! اﷲ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے ؟ اس لئے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب سے لڑتا ہے اور کوئی ذاتی و گروہی حمیّت کی خاطر جنگ کرتا ہے۔ پس آپﷺ نے اپنا سرمبارک اس کی طرف اس سبب سے اٹھایا کہ وہ کھڑا ہوا تھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس لئے لڑے کہ اﷲ کا کلمہ بلند ہو جائے اور اسی کا بول بالا ہو تو وہی اﷲ کی راہ میں لڑتا ہے۔

۵۱۔روح کیا ہے ؟

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ مَیں نبیﷺ کے ہمراہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپﷺ کھجور کی ایک چھڑی کو زمین پر ٹکا کر چل رہے تھے کہ اتنے میں یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے آپﷺ گزرے۔ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو القاسم!ﷺ ! روح کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے سکوت فرمایا۔ابن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ پھر جب نزولِ وحی والی کیفیت آپﷺ سے دور ہوئی تو آپ نے فرمایا (ترجمہ) ’’ اور یہ لوگ آپ (ﷺ ) سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں۔ تو آپ انہیں جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ‘‘۔

۵۲۔اللہ کے معبود، محمدؐ کے رسول ہونے کی گواہی:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے سیدنا معاذؓ کو تین مرتبہ مخاطب کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ’’ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘ تو اﷲ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کر دوں تاکہ وہ بھی خوش ہو جائیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت جب تم ان کو خبر کرو گے تو لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں گے اور عمل سے باز رہیں گے اور معاذؓ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت علم کو چھپانے کے گناہ کے خوف سے بیان کر دی۔

۵۳۔احتلام سے غسل فرض ہو جاتا ہے:

اُمّ المومنین اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ امّ سلیم، رسول اﷲﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اﷲﷺ ! اﷲ حق بات سے نہیں شرماتا تو یہ بتائیے کہ کیا احتلام سے عورت پربھی غسل فرض ہو جاتا ہے ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ہاں جب کہ وہ پانی کو (اپنے کپڑے یا شرمگاہ پر) دیکھے۔ اُمِّ سلمہؓ نے مارے شرم کے اپنا منہ چھپا لیا اور کہا کہ یا رسول اﷲﷺ کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا بچہ اس کے مشابہ کیوں ہوتا ہے ؟

۵۴۔جریان میں صرف وضو فرض ہے:

سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ مجھے جریان مذی (پیشاب کے ساتھ منی نکلنا) کی شکایت تھی تو میں نے مقدادؓ سے کہا کہ وہ نبیﷺ سے اس کا حکم پوچھیں۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے نکلنے میں صرف وضو فرض ہوتا ہے۔

۵۵۔احرام کس مقام سے باندھا جائے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ ہمیں احرام باندھنے کا کس مقام سے حکم دیتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام کے لوگ حجفہ سے احرام باندھیں اور نجد کے لوگ مقامِ قرن سے احرام باندھیں۔ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا، لوگوں کا خیال ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں تاہم میں نے یہ بات صاف نہیں سنی۔

۵۶۔حج یا عمرہ کرنے والا محرم کیا پہنے:

سیدنا ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا کہ محرم (حج یا عمرہ کرنے والا) کیا پہنے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہ کرتا پہنے اور نہ عمامہ اور نہ پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگ گئی ہو، پھر اگر نعلین ( چپلیں ) نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں کاٹ دے تاکہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔


٭٭٭

۴۔کتاب الوضوء


۱۔کوئی نماز وضو کے بغیر قبول نہیں ہوتی:

سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو شخص حَدَثْ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔کسی نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ ! ’’ حَدَثَ ‘‘ کیا چیز ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ پیشاب یا پاخانہ کے مقام سے کسی چیز کا خارج ہونا‘‘۔

۲۔روزِ محشر وضو کے سبب ہاتھ پاؤں کا چمکنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے، اور ان کے بعض اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ وضو کرنے کے سبب چمک رہے ہوں گے۔ پس تم میں سے جو کوئی چمک و سفیدی بڑھانا چاہے تو بڑھا لے۔

۳۔محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا:

سیدنا عبداﷲ بن زید الانصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جس کو خیال بندھ جاتا ہے کہ نماز میں وہ ہوا کو نکلتے ہوئے محسوس کر رہا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ نماز سے لوٹے نہیں یہاں تک کہ ریح کی آواز سن لے یا بُو پائے۔

۴۔وضو بہ کمال و تمام اعضاء کا پورا دھونا:

سیدنا اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ عرفہ سے چلے یہاں تک کہ جب شعب میں پہنچے تو اترے اور پیشاب کیا پھر وضو کیا، مگر وضو پورا نہیں کیا، تو میں نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ نماز کا وقت آ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے یعنی مزدلفہ میں پڑھیں گے۔ پھر جب مزدلفہ آ گیا تو آپﷺ اترے اور پورا وضو کیا پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی اور آپؐ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔

۵۔چند چُلو پانی سے وضو کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا۔ چنانچہ پانی کا ایک چلو لے کر اسی سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اسے اس طرح کیا یعنی دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا اس لپ سے منہ دھویا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا داہنا ہاتھ دھویا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا بایاں ہاتھ دھویا (کہنی تک) پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنے داہنے پیر پر ڈالا یہاں تک کہ اسے دھو ڈالا۔ پھر دوسرا چلو پانی کا لیا اور اس سے اپنے بائیں پیر کو دھویا۔ پھر راوی نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا۔

۶۔ بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دُعا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب پاخانے میں داخل ہوتے تو کہتے (ترجمہ) ’’ اے اﷲ میں خبیث جنوں اور جنّیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔

۷۔رفع حاجت کے وقت قبلہ رُخ نہ ہونا:

سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور نہ اس کی طرف اپنی پشت کرے۔ بلکہ مخالف سمت منہ کرو یا پیٹھ۔

۸۔ عورتوں کا رفع حاجت کے لئے گھر سے باہر جانا:

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی بیویاں رات کو جب رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر جاتی تھیں، تو مناصع (فراخ ٹیلہ) کی طرف نکل جاتی تھیں۔ اور سیدنا عمرؓ نبیﷺ سے کہا کرتے تھے کہ آپﷺ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے مگر رسول اﷲﷺ ایسا نہ کرتے تھے۔ تو ایک شب عشاء کے وقت اُمّ المومنین سودہؓ باہر نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں تو انہیں عمرؓ نے محض اس خواہش سے کہ پردہ کا حکم نازل ہو جائے، پکارا کہ آگاہ رہو اے سودہؓ ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے پردہ کا حکم نازل فرما دیا۔

۹۔پانی سے استنجاء کرنا سنت ہے:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب رفع حاجت کے لیے نکلتے تھے تو میں اور ایک اور لڑکا دونوں آپﷺ کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔ سیدنا انسؓ سے ایک دوسری روایت ہے کہ جب رسول اﷲﷺ قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک اور لڑکا پانی کا ایک ظرف اور عنزہ نیزہ اٹھا لیتے۔پانی سے آپﷺ استنجاء فرماتے تھے۔

۱۰۔ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت:

ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی تم میں سے پانی پیئے تو چاہیئے کہ برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانے کے لیے جائے تو اپنی شرمگاہ کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔

۱۱۔ ڈھیلوں سے استنجاء کرنا بھی مسنون ہے:

ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پیچھے پیچھے چلا۔ آپﷺ اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے نکلے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا مجھے پتھر تلاش کر دو تاکہ میں اس سے پاکی حاصل کروں۔ اور ہڈی میرے پاس نہ لانا اور نہ گوبر۔ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے دامن میں پتھر رکھ کر آپﷺ کے پاس لے گیا اور ان کو میں نے آپﷺ کے پہلو میں رکھ دیا۔ اور میں آپﷺ کے پاس سے ہٹ آیا۔ پس جب آپﷺ قضائے حاجت کر چکے تو پتھروں کو استعمال کیا۔

۱۲۔ وضو میں اعضاء کا کئی مرتبہ دھونا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔ سیدنا عبداﷲ بن زید انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈالا اور ان کو دھویا۔ (پھر چُلو میں پانی لیا) اور کلی کی اور ناک صاف کی۔ پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سرکا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر ٹخنوں تک تین بار دھوئے۔ پھر کہا کہ نبیؐ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میرے اس وضو کی مثل وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے، اور ان میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

۱۳۔اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھنا:

ایک دوسری حدیث میں امیرالمومنین عثمانؓ نے وضو کرنے کے بعد کہا کہ میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں نے رسول اﷲﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اس کے بعد کوئی فرض نماز پڑھے تو جتنے گناہ اس نماز سے دوسری نماز کے پڑھنے تک ہوں گے، وہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

۱۴۔ وضو کرتے ہوئے ناک صاف کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جو کوئی وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک صاف کرے اور جو کوئی پتھر سے استنجاء کرے تو چاہیئے کہ طاق پتھروں سے کرے۔

۱۵۔پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا … اور جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنے ہاتھ کو وضو کے پانی میں ڈالنے سے پہلے دھو لے۔ اس وجہ سے کہ تم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں جسم کے کس کس حصے پر پھرتا رہا ہے۔

۱۶۔ نعلین پہنے وضو میں دونوں پیروں کا دھونا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے ابن جریج نے کہا کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ طواف میں سوا دونوں یمانی رکنوں کے اور کسی رکن کو تم مَس نہیں کرتے اور میں نے تمہیں دیکھا کہ تم سبتی جوتیاں پہنتے ہو اور میں نے دیکھا کہ تم زردی سے اپنے بالوں یا لباس کو رنگ لیتے ہو اور میں نے تمہیں دیکھا کہ جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو، لوگ تو جب چاند ذی الحجہ کا دیکھتے ہیں اسی وقت سے احرام باندھ لیتے ہیں اور تم جب تک آٹھ ذوالحجہ کا دن نہیں آ جاتا احرام نہیں باندھتے۔ تو عبداﷲ بن عمرؓ بولے کہ بے شک میں یہ باتیں کرتا ہوں۔ تو ان میں جہاں تک ارکانِ یمانی کا طواف میں مَس کرنا ہے تو میں نے رسول اﷲﷺ کو ان دونوں یمانی (رکنوں ) کے سوا اور کسی رکن کو مَس کرتے نہیں دیکھا۔ اسی طرح سبتی جوتے ہیں تو بے شک میں نے رسول اﷲﷺ کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا ہے جن پر بال نہ ہوں۔ اور آپﷺ اسی جوتے میں وضو فرماتے تھے (یعنی پیر دھوتے تھے، مسح نہیں کرتے تھے )۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ ایسے ہی جوتے پہنوں۔ اسی طرح زردی کا رنگ ہے۔ تو بے شک میں نے رسول اﷲﷺ کو اس سے رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ اسی سے رنگوں۔ اور اسی طرح احرام باندھنا ہے تو میں نے رسول اﷲﷺ کو احرام باندھتے ہوئے نہیں دیکھا تاوقتیکہ آٹھویں تاریخ کو آپﷺ کی سواری نہ چلے۔

۱۷۔وضو اور غسل داہنی طرف سے شروع کرنا:

اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ کو جوتی پہننے میں،کنگھی کرنے، طہارت (وضو و غسل) کرنے میں غرض تمام کاموں میں داہنی جانب سے ابتداء کرنا اچھا معلوم ہوتا تھا۔

۱۸۔ وضو کے پانی میں برکت، حضورؐ کا معجزہ:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ نماز کا وقت آ گیا تھا اور لوگوں نے وضو کے لئے پانی تلاش کیا لیکن کہیں سے نہ ملا۔ تو رسول اﷲﷺ کے پاس ایک برتن میں وضو کے لئے پانی لایا گیا، پس آپﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کو دیکھا کہ آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔

۱۹۔ کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں سے کتا پانی وغیرہ پی لے تو تمہیں چاہیئے کہ اسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔

۲۰۔ دورِ رسالت میں مسجد میں کتوں کا آ جانا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے دور میں کتے مسجد میں آتے جاتے رہتے تھے بعض اوقات پیشاب بھی کر جایا کرتے تھے لیکن لوگ ان کے آنے جانے کے سبب سے مسجد میں پانی وغیرہ چھڑکتے تک نہ تھے۔

۲۱۔مسجد میں نماز کا انتظار، نماز میں شمار ہوتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ بندہ برابر نماز میں شمار ہوتا ہے جب تک کہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تاوقتیکہ حدث نہ کرے۔ تو ایک عجمی شخص نے کہا کہ اے ابو ہریرہؓ! حدث کیا چیز ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آواز یعنی ریح۔

۲۲۔کوئی شخص اپنے ساتھی کو وضو کراسکتا ہے:

سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اﷲﷺ کے ہمراہ تھے اور آپﷺ اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ اور جب آپﷺ واپس آئے تو مغیرہ آپﷺ کے اعضاء مبارکہ پر پانی ڈالنے لگے اور آپﷺ وضو کرنے لگے یعنی آپﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کا مسح کیا اور موزوں پر بھی مسح کیا۔

۲۳۔ وضو کا مسنون طریقہ:

سیدنا عبداﷲ بن زیدؓ سے ایک شخص نے کہا کہ کیا آپ مجھے دکھلاسکتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے ؟ تو عبداﷲ بن زیدؓ نے کہا ہاں میں دکھا سکتا ہوں۔ پھر انہوں نے پانی منگایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا پھر اپنے ہاتھ دو مرتبہ دھوئے پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا پھر اپنے منہ کو تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک، دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سرکا، اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ سر کے پہلے حصے سے ابتداء کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے دونوں پاؤں دھو ڈالے۔

۲۴۔نبیؐ کے وضو کا بچا ہوا پانی بطور تبرک:

سیدنا ابوجحیفہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے تو وضو کا پانی آپﷺ کے پاس لایا گیا چنانچہ آپﷺ نے وضو کیا جب آپﷺ وضو کر چکے تو لوگ آپﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے لگے اور اس کو اپنے چہرے اور آنکھوں پر ملنے لگے۔ پھر نبیﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں (قصر) پڑھیں اور آپﷺ کے سامنے نیزہ بطورِ سترہ کے گڑا ہوا تھا۔

۲۵۔نبیﷺ کی پشت پر مہر نبوت:

سیدنا سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں کہ مجھے میری خالہ نبیﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ میری بہن کا یہ لڑکا بیمار ہے۔ پس آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا کی، پھر آپﷺ نے وضو فرمایا تو میں نے آپﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پی لیا۔ پھر میں آپﷺ کے پس پشت کھڑا ہو گیا تو میں نے مہر نبوت کو دیکھ لیا جو آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مثل حجلہ کی گھنڈی کے تھی۔

۲۶۔مرد کا اپنی عورت کے ساتھ وضو کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں مرد اور عورت سب ایک برتن سے اکٹھے وضو کرتے تھے۔

۲۷۔۸۰ افراد کا پیالہ بھر پانی سے وضو کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نماز کا وقت آیا تو جس شخص کا گھر وہاں سے قریب تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور چند لوگ رہ گئے۔ پھر رسول اﷲﷺ کے پاس پتھر کا ایک ظرف لایا گیا جس میں پانی تھا اور برتن میں یہ گنجائش نہ تھی کہ آپﷺ اپنی ہتھیلی اس میں پھیلا سکیں۔ پس تمام لوگوں نے اسی تھوڑے سے پانی سے وضو کیا۔راوی کہتے ہیں ہم نے سیدنا انسؓ سے پوچھا کہ تم لوگ کتنی تعداد میں تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اسّی بلکہ اسّی سے کچھ زیادہ ہی تھے۔

۲۸۔نبیؐ ۶ لٹر پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب غسل فرماتے تھے تواس میں ایک صاع سے پانچ مد(۶ لٹر) تک پانی صرف کیا کرتے تھے اور وضو ایک مد ( سَوالٹر)پانی سے کر لیا کرتے تھے۔

۲۹۔با وضو موزے پہنے ہوں تو پھرمسح کافی ہے:

سیدنا مغیرہؓ کہتے ہیں میں ایک سفر میں نبیﷺ کے ہمراہ تھا تو میں نے وضو کے وقت چاہا کہ آپﷺ کے دونوں موزوں کو اتار ڈالوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو رہنے دو۔ میں نے ان کو پیروں کی طہارت کی حالت میں پہنا تھا۔ پھر آپؐ نے ان پر مسح کیا۔

۳۰۔بکری کا گوشت اور ستو کھا کر وضو نہیں کیا:

سیدنا عمرو بن امیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے بکری کا ایک شانہ کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ نے نماز پڑھی اور دوبارہ وضو نہیں کیا۔ سیدنا سوید بن نعمانؓ سے روایت ہے کہ فتح خیبر کے سال وہ رسول اﷲﷺ کے ہمراہ جب خیبر سے بہت قریب صہبا کے مقام پہنچے تو آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی اور پھر تو شہ (ناشتہ) منگوایا تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین صرف ستو آپﷺ کے پاس لائے۔ آپﷺ نے اور ہم سب نے کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ مغرب کی نماز پڑھنے کو کھڑے ہو گئے اور صرف کلی کی اور ہم نے بھی صرف کلی کی اور نماز پڑھ لی اور دوبارہ وضو نہیں کیا۔

۳۱۔ دودھ پینے کے بعد کلی کی جائے:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے دودھ پیا تو کلی کی اور فرمایا کہ دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔

۳۲۔نماز میں اُونگھ آ جائے تو نماز توڑ کر سوجائے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص اونگھ جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے چاہیئے کہ نماز توڑ کر سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے۔ اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی نیند کی حالت میں نماز پڑھے گا تو وہ کچھ نہیں جانتا۔ شاید استغفار کرتا ہو اور وہ انجانے میں اپنے نفس کو بددعاء دے ڈالے۔

۳۳۔ بغیر حدث کے وضو پر وضو کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے۔ جب کہ ہم میں سے ہر ایک کو جب تک وہ حدث نہ کرے،ایک ہی وضو کافی ہوتا تھا۔

۳۴ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کا عذاب:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی باغ کے پاس سے گزرے جہاں موجود دو قبروں کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپﷺ نے ایک شاخ منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اﷲ! آپﷺ نے ایساکیوں کیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں، ان دونوں پر عذاب کم رہے گا‘‘۔

۳۵۔دیہاتی کا مسجد میں پیشاب کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا تو لوگوں نے اسے مارنا چاہا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو اس لیے کہ تم لوگ آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو اور سختی کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے ہو۔

۳۶۔شیر خوار بچوں کا پیشاب:

اُمُّ قیس بنت محصنؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲﷺ کے پاس اپنا ایک چھوٹا دودھ پیتا بچہ لے کر آئیں۔ تو اسے رسول اﷲﷺ نے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ بچہ نے آپﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپﷺ نے پانی منگوایا اور اُس پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔

۳۷۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت:

۱۶۸: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی قوم کے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ کے قریب تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ ایک اور روایت میں حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کے ایک دفعہ جب رسول اﷲﷺ نے ایک دیوار کی آڑ میں پیشاب کیا تو میں آپﷺ سے الگ ہو گیا تو آپﷺ نے میری طرف اشارہ کیا چنانچہ میں آپﷺ کے پاس گیا اور آپﷺ کے پیچھے (آڑ کی غرض سے ) کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ آپﷺ فارغ ہو گئے۔

۳۸۔ ایّام سے آلودہ کپڑے کا دھونا کافی ہے:

اسمائؓ کہتی ہیں ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور اُس نے کہا کہ بتائیے ہم میں سے کسی کو کپڑے میں حیض آئے تو وہ اسے کیا کرے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اسے کھرچ ڈالے، پھر اسے پانی ڈال کر رگڑے اور اسے مزید پانی سے دھو ڈالے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔

۳۹۔اکثر مستحاضہ رہنے والی نماز کیسے ادا کرے:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ یا رسول اﷲﷺ میں ایک ایسی عورت ہوں کہ اکثر مستحاضہ رہتی ہوں پھر بہت دنوں تک پاک نہیں ہو پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ رسول اﷲﷺ نے فرمایا نہیں یہ ایک رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ پس جب تمہارے حیض کا زمانہ آ جائے تو نماز چھوڑ دو اور جب گزر جائے تو خون اپنے جسم سے دھو ڈالو۔ اس کے بعد نماز پڑھو۔ پھر ہر نماز کے لیے وضو کیا کرو یہاں تک کہ پھر حیض کا وقت آ جائے تو پھر نماز ترک کر دینا۔

۴۰۔کپڑے سے جنابت کو دھونا:

اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نبیﷺ کے کپڑے سے جنابت (منی کے نشانات) کو دھو دیتی تھی۔ پھر آپﷺ (اسی کپڑے کو پہن کر) نماز کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے اگرچہ آپﷺ کے کپڑوں پر دھبے نظر آ رہے ہوتے تھے۔

۴۱۔نبیﷺ کے چروا ہے کے قاتلوں کا انجام:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ باہر سے مدینہ آئے اور انہیں مدینہ کی ہوا موافق نہ آئی تو وہ مدینہ میں بیمار ہو گئے۔ آپﷺ نے انہیں چند اونٹنیاں دینے کا حکم دیا اور یہ حکم بھی دیا کہ وہ لوگ ان کا دودھ پئیں۔ پس وہ جنگل میں چلے گئے اور ایسا ہی کیا۔ جب اچھے ہو گئے تو نبیﷺ کے چروا ہے کو قتل کر ڈالا اور جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ آپﷺ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے۔ چنانچہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے۔ پس آپﷺ کے حکم پر ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور وہ گرم سنگلاخ پر ڈال دئیے گئے، پانی مانگتے تھے تو انہیں پانی نہ پلایا جاتا تھا۔ اس لئے کہ انہوں نے بھی احسان فراموشی کی تھی۔

۴۲۔مویشیوں کے باڑے میں نماز ادا کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں مسجد کے بنائے جانے سے پہلے نبیﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

۴۳۔ اگر گھی میں نجاست پڑ جائے:

اُمّ المومنین میمونہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ سے ایک چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو نکال دو اور اس کے گرے کی جگہ کے اردگرد جس قدر گھی ہو وہ بھی نکال دو اور باقی گھی کھا لو۔

۴۴۔جہاد میں لگے زخم سے مشک کی خوشبو:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو جو زخم اﷲ کی راہ میں لگایا جاتا ہے وہ قیامت کے دن اپنی اُسی (تر و تازگی کی) حالت میں ہو گا (جیسا کہ اس وقت تھا) جب وہ لگایا گیا تھا (یعنی) خون بہے گا۔ رنگ تو خون کا سا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک کی سی ہو گی۔

۴۵۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو، پیشاب نہ کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اسے پھر کبھی اسی پانی میں غسل کرنا پڑے۔

۴۶۔ابوجہل، عتبہ اور شیبہ کا انجام:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے چند دوست اونٹنی کی اوجھڑی لے آئے اور سب سے زیادہ بد بخت عقبہ اٹھا اور جب نبیﷺ سجدہ میں گئے تو فوراً ہی اُس نے اِس کو آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا پھر وہ لوگ ہنسنے لگے اور رسول اﷲﷺ سجدہ میں تھے، اپنا سر نہ اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ الزہرہؓ تشریف لائیں اور انھوں نے اسے آپﷺ کی پیٹھ سے ہٹایا۔ پس آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور بد دعا کی کہ ’’یا اﷲ! اپنے اوپر قریش کی ہلاکت کو لازم کر لے ‘‘ تین مرتبہ آپﷺ نے یہی فرمایا۔پس یہ ان کافروں پر بہت شاق گذرا۔ کیونکہ آپﷺ نے انہیں بددعا دی تھی۔ عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ وہ کافر جانتے تھے کہ اس شہر مکہ میں دعا مقبول ہوتی ہے۔ پھر آپﷺ نے ہر ایک کا نام لیا کہ اے اﷲ! ابو جہل کی ہلاکت کو اپنے اوپر لازم کر لے اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف اور عقبہ ابن ابی معیط کی ہلاکت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ پس قسم اس ذوالجلال ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ان لوگوں کو جن کا نام رسول اﷲﷺ نے لیا تھا، بدرؔ کے کنویں میں بے گورو کفن گرا ہوا دیکھا۔

۴۷۔ تازہ راکھ سے بھر کر زخم کا علاج کرنا:

سیدنا سہل ابن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز سے نبیﷺ کے زخم کا علاج کیا گیا؟ تو وہ بولے کہ امیر المومنین حضرت علیؓ اپنی ڈھال میں پانی لے آتے تھے اور سیدہ فاطمہ الزہرہؓ آپﷺ کے چہرۂ ا نور سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک چٹائی لا کر جلائی گئی اور اس کی راکھ آپﷺ کے زخم میں بھر دی گئی۔

۴۸۔ مسواک کرنا سنت ہے:

سیدنا ابو موسیؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ مسواک کر رہے ہیں اور ’’ اع، اع ‘‘ کرتے جاتے تھے اور مسواک آپﷺ کے منہ میں تھی گویا کہ آپ قے کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ جب نبیﷺ رات کو اٹھتے تو اپنے دانتوں کو مسواک سے رگڑ کر صاف کرتے تھے۔

۴۹۔ مسواک کا تحفہ دیناسنت ہے:

سیدنا ابن عمرؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو مسواک سے دانت صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے۔ ایک ان میں دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ ’’ بڑے کو دے دیجئے ‘‘۔ پھر میں نے وہ مسواک ان میں سے بڑے کو دے دی۔

۵۰۔ با وضو سونے کی فضلیت:

سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کر لیا کرو۔ پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاؤ پھر اس کے بعد کہو (ترجمہ) ’’ اے اﷲ! میں نے تجھ سے امیدوار اور خائف ہو کر اپنا منہ تیری جناب میں جھکا دیا اور اپنا ہر کام تیرے سپرد کر دیا اور میں نے تجھے اپنا پشتی بان و پناہ شدہ بنا لیا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تیرے غضب سے، سوا تیرے پاس کے کوئی پناہ و نجات کی جگہ نہیں ہے۔ اے اﷲ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ہے اور تیرے اس نبیﷺ پر بھی جسے تو نے ہدایتِ خلق کے لیے بھیجا ہے ‘‘۔ پس اگر تم اپنی اسی رات میں مر جاؤ گے تو ایمان پر مرو گے اور ان کلمات کے بعد کلام نہ کرو۔


٭٭٭

۵۔کتا ب ا لغسل


۱۔ غسل سے پہلے وضو کرنا سنت ہے:

اُمُّ المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب جنابت کا غسل فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر وضو فرماتے جس طرح نماز کے لیے وضو فرماتے تھے، پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر اپنے سر پر تین چُلو پانی اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈالتے پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔

۲۔غسلِ جنابت کے آداب:

اُمُّ المومنین میمونہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے غسل کے وقت پہلے وضو فرمایا جس طرح نماز کے لئے آپؐ کا وضو ہوتا تھا، سوا دونوں پیروں کے دھونے کے اور اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں نجاست لگ گئی تھی اسے بھی دھو ڈالا پھر اپنے او پر پانی بہا لیا۔ اس کے بعد اپنے دونوں پیروں کو اس جگہ سے ہٹا لیا اور ان کو دھو ڈالا یہ طریقہ آپؐ کا غسلِ جنابت کا تھا۔

۳۔ خاوند کا اپنی بیوی کے ہمراہ نہانا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں اور نبیﷺ ایک ظرف سے یعنی ایک قدح (ٹب) سے جس کو فرق کہتے ہیں،غسل کر لیا کرتے تھے۔

۴۔کم سے کم ایک صاع پانی سے غسل کرنا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے ایک شخص نے غسل کے بارے میں پوچھا کہ کس قدر پانی سے کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ ایک صاع(ساڑھے تین لٹر) پانی تجھے کافی ہے۔ ایک شخص بولا کہ مجھے کافی نہیں ہے، تو جابرؓ نے کہا کہ ایک صاع پانی رسول اﷲﷺ کو کافی ہو جاتا تھا جن کے بال تجھ سے زیادہ گھنے تھے۔ پھر جابرؓ نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز میں ہماری امامت کی۔

۵۔غسل میں اپنے سر پر تین بار پانی بہانا:

سیدنا جبیر بن مطعمؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں اور یہ کہہ کر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔

۶۔غسل جنابت سے قبل خوشبو لگانا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ جب جنابت سے غسل فرماتے تھے تو کوئی چیز مثل حلاب وغیرہ لگاتے تھے اور اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر پہلے سر کے داہنے حصہ سے ابتداء کرتے پھر بائیں جانب میں لگاتے تھے پھر دونوں ہاتھ اپنے سر کے درمیان میں رگڑتے تھے۔

۷۔خوشبو لگا کر بیویوں کے پاس جانا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں رسول اﷲﷺ کو خوشبو لگاتی تھی پھر آپﷺ اپنی سب بیویوں کے پاس جاتے اور ہم بستری فرماتے۔ پھر دوسرے دن احرام باندھتے ہوئے خوشبو جھاڑ دیتے تھے۔

۸۔جماع کے بعد بغیر غسل دوبارہ جماع کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنی تمام بیویوں کے پاس ایک ہی ساعت کے اندر رات اور دن میں دورہ کر لیتے تھے اور وہ گیارہ تھیں، اور ایک روایت میں ہے کہ نو عورتیں تھیں، تو انسؓ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ ان سب کی طاقت رکھتے تھے ؟ وہ بولے کہ ہاں بلکہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپﷺ کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔

۹۔غسل میں بالوں کے نیچے کی کھال کو تر کرنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے اور وضو فرماتے جس طرح آپﷺ کا وضو نماز کے لئے ہوتا تھا۔ پھر غسل کرتے اور اپنے ہاتھ سے اپنے بالوں کا خلال کرتے تھے یہاں تک کہ جب آپﷺ سمجھ لیتے کہ کھال تر ہو گئی ہے تو اس پر تین بار پانی بہاتے پھر اپنے باقی ماندہ بدن کو دھوتے۔

۱۰۔سر ڈھکے بغیر نماز پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز قائم کی گئی اور صفیں کھڑی کر کے درست کی گئیں، پھر رسول اﷲﷺ ہماری طرف تشریف لائے تو جب آپ نماز پڑھانے کی جگہ پر کھڑے ہو گئے تو اس وقت یاد کیا کہ جنبی ہیں، پھر ہم سے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو اور آپﷺ لوٹ گئے اور غسل کیا اس کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا پھر آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ (گویا آپﷺ ننگے سر تھے۔ غسل کر کے سیدھے مسجد تشریف لائے، نہ بالوں کو خشک کیا اور نہ ہی سر ڈھا نپنے کا تکلف کیا)

۱۱۔ تنہائی میں برہنہ ہو کر غسل کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل برہنہ غسل کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ چونکہ موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل کیا کرتے تھے لہٰذا بنی اسرائیل کہتے کہ واﷲ موسیٰ علیہ السلام کو ہم لوگوں کے ہمراہ غسل کرنے سے سوا اس کے کچھ مانع نہیں کہ وہ فتق (ایک قسم کی مردانہ بیماری) میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور اپنا لباس پتھر پر رکھ دیا۔ وہ پتھر ان کا لباس لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ’’ ثوبی یا حجر ثوبی ‘‘ (اے پتھر میرے کپڑے دے دے ) یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھ لیا اور کہا کہ واﷲ موسیٰ علیہ السلام کو کچھ بیماری نہیں ہے اور پتھر ٹھہر گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم موسیٰ علیہ السلام کی مار سے اس پتھر پر چھ یا سات نشان اب تک باقی ہیں۔

۱۲۔ حضرت ایوبؓ پرسونے کی ٹڈیاں برسنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ایک مرتبہ حضرت ایوب علیہ السلام برہنہ نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں تو ایوب علیہ السلام ان کو اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے تو انہیں ان کے پروردگار نے آوازدی کہ اے ایوبؓ ! کیا میں نے تمہیں ان سونے کی ٹڈیوں سے جو تم دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں قسم تیری بزرگی کی تو نے مجھے بے نیاز کر دیا ہے۔ لیکن میں تیری برکت کے حصول سے بے پرواہ و بے نیاز نہیں۔

۱۳۔ نہانے کی حالت میں پردہ کرنا:

سیدہ اُمُِّ ہانی بنتِ ابی طالبؓ کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اﷲﷺ کے پاس گئی تو میں نے آپؐ کو غسل کرتے ہوئے پایا اور سیدہ فاطمہ الزہرہؓ آپﷺ پر پردہ کئے ہوئے تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں اُمُِّ ہانیؓ ہوں۔

۱۴۔ مومن نجس نہیں ہوتا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کی کسی گلی میں انہیں رسول اﷲﷺ مل گئے اور سیدنا ابو ہریرہؓ جنبی تھے پس ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں آپﷺ سے کنی کترا گیا اور جا کر غسل کیا پھر آیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! تم کہاں چلے گئے تھے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ میں جنبی تھا اور ناپاکی کی حالت میں، مَیں نے آپ کے پاس بیٹھنا بُرا جانا تو آپﷺ نے فرمایا سبحان اﷲ مومن (کسی حال میں ) نجس نہیں ہوتا۔

۱۵۔ جنبی کا قبل از غسل سوناجائز ہے:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی بحالتِ جنابت سوسکتا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں جب تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ وضو کر کے سوئے۔

۱۶۔فرضیتِ غسل کے لیے انزال ضروری نہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مرد جب اپنی عورت کے چاروں کونوں کے درمیان بیٹھ گیا پھر اس کے ساتھ جماع کی کوشش کرے تو یقیناً غسل واجب ہو گیا۔حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب ختان، ختان سے تجاؤز کرجائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے یعنی غسل کے لیے صرف دخولِ ذکر کافی ہے، انزالِ منی ضروری نہیں۔


٭٭٭

۶۔کتاب الحیض


۱۔حائضہ مناسکِ حج میں طوافِ کعبہ نہ کرے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم سب لوگ مدینہ سے حج کا خیال کر کے نکلے۔ پھر جب مقامِ سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔رسول اﷲﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا، کیا تمہیں حیض آ گیا؟ میں نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جو اﷲ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے، لہٰذا جو مناسک حج کرنے والا ادا کرتا ہے، تم بھی کرو مگر تم کعبہ کا طواف نہ کرنا۔ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ پھررسول اﷲﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔

۲۔حائضہ کا اپنے شوہر کا سر دھونا اور کنگھی کرنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں بحالتِ حیض رسول اﷲﷺ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپﷺ مسجد میں معتکف ہوتے اور اپنا سر مبارک اُمُّ المومنین عائشہؓ کے حجرہ میں کر دیتے اور وہ بحالتِ حیض، اپنے حجرہ میں رہتے ہوئے رسول اﷲﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کر دیا کرتی تھیں۔

۳۔ حائضہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر تلاوت کرنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ میری گود میں سر رکھ کر تکیہ لگا لیتے تھے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ پھر آپﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴۔حائضہ کے ساتھ ایک ہی چادر میں لیٹنا:

اُمُّ المومنین اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نبیﷺ کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ یکا یک مجھے حیض آ گیا تو میں آہستگی سے کھسک گئی اور اپنے حیض کے کپڑے سنبھالے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں نفاس آ گیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے بلایا اور میں آپ کے ہمراہ اسی ایک چادر میں لیٹ گئی۔

۵۔ حائضہ عورت سے اختلاط کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں اور نبیﷺ ایک ظرف سے غسل کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور حالتِ حیض میں مجھے آپﷺ حکم دیتے تھے تو میں ازار پہن (باندھ) لیتی تھی، پھر آپ مجھ سے اختلاط کرتے تھے (یعنی صرف جسم سے جسم ملا لیتے لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے ) اور آپ بحالتِ اعتکاف اپنا سر میری طرف نکال دیتے تھے اور میں اس کو دھو دیتی تھی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ایک روایت میں اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بی بی حائضہ ہو جاتی تھی اور رسول اﷲﷺ اُس سے اختلاط کرنا چاہتے تو اسے حکم دیتے تھے کہ اپنے حیض (کے زور اور غلبہ) کی حالت میں ازار پہن (باندھ) لے، پھر آپﷺ اُس سے اختلاط کرتے تھے (لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے )۔ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ تم میں سے اپنی شہوت پر کون اس قدر قابو رکھ سکتا ہے جس قدر نبیﷺ اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے۔

۶۔ لعن طعن اور شوہر کی ناشکری کا انجام جہنم ہے:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ عید کے دن نکلے اور عیدگاہ میں عورتوں کی جماعت پر گزرے تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو اس لئے کہ میں نے تمہیں معراج میں زیادہ دوزخی دیکھا ہے۔ وہ بولیں کہ یا رسول اﷲﷺ ایسا کیوں ؟ آپﷺ نے فرمایا تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو....

۷۔عورتوں کا عقل اور دین میں ناقص ہونا:

..... اور مَیں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک زیرک اور تجربہ کار مرد کو دیوانہ بنانے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا کمی ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف کے برابر نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا پس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

۸۔استحاضہ والی عورت کا اعتکاف کرنا:

اُمُّ المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے ہمراہ آپﷺ کی کسی بیوی نے بھی اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں۔(استحاضہ میں خون کا اخراج ماہواری نہیں بلکہ ایک بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے، لہٰذا اس پر حیض کے احکام لاگو نہیں ہوتے )۔

۹۔شوہر کی موت پر چار ماہ دس دن سوگ:

سیدہ اُمّ عطیہؓ کہتی ہیں رسول اﷲﷺ کے دَور میں ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کی ممانعت کی جاتی تھی مگر شوہر پر چار مہینہ دس دن تک سوگ کا حکم تھا اور ایسی حالت میں نہ ہم سرمہ لگاتے نہ خوشبو لگاتے اور نہ رنگین کپڑا سوا عصب (جس کپڑے کا سوت بناوٹ سے پہلے رنگا گیا ہو) کے پہنتے۔

۱۰۔عورتوں کا جنازوں میں جانے کی ممانعت:

اور ہمیں طہارت کے بعد، جب کوئی ہم میں سے حائضہ ہو، تھوڑی کُست اظفار (خوشبو) کی اجازت دے دی گئی تھی اور ہمیں جنازوں کے ہمراہ جانے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔

۱۱۔حائضہ کا عمرہ سے رُکے رہنا مگر حج ادا کرنا:

اُمُّ المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کے ہمراہ حجتہ الوداع میں احرام باندھا۔ میں ان لوگوں میں تھی جنہوں نے حج تمتع کا ارادہ کیا تھا اور قربانی کا جانور اپنے ہمراہ نہ لائے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ حائضہ ہو گئیں اور شبِ عرفہ تک پاک نہ ہوئیں۔ تب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! یہ عرفہ کے دن کی رات ہے اور میں نے عمرہ کے ساتھ تمتع کیا تھا تو رسول اﷲﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنا احرام کھول دو اور کنگھی کرو اور اپنے عمرہ سے رکی رہو اور حج کر لو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا پس جب میں حج کر چکی تو آپﷺ نے میرے بھائی عبدالرحمنؓ کو حصبہ کی رات میں حکم دیا اور وہ میرے اس عمرہ کے بدلے جس کا میں نے احرام باندھا تھا، اور مکمل نہیں کیا تھا، مجھے تنعیم سے عمرہ کروا لائے۔

۱۲۔مخصوص ایّام میں نماز کی رخصت:

اُمُّ المومنین عائشہؓ سے کسی عورت نے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کسی کو اِسی قدر نماز پڑھنا کافی ہے جب کہ وہ پاک ہو؟ تو عائشہؓ نے کہا کہ کیا تو حرور یہ ( منکرِ حدیث)ہے ؟ جب ہم نبیﷺ کے ہمراہ رہتے اور حائضہ ہوتے تھے تو آپﷺ ہمیں (دورانِ حیض نہ پڑھی جانے والی) نمازکی قضا پڑھنے کا حکم نہ دیتے تھے

۱۳۔روزے میں بوس و کنار جائز ہے:

اُمُّ المومنین اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مجھے اس حالت میں حیض آ گیا کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ چادر میں لیٹی ہوئی تھی۔ نبیﷺ میرے بوسے لیتے تھے اور آپﷺ روزہ دار ہوتے تھے۔

۱۴۔ حائضہ کا عیدین کی نماز میں حاضر ہونا:

سیدہ اُمّ عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ’’جوان عورتیں اور پردہ نشین اور حائضہ عورتیں باہر نکلیں اور مجالسِ خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں اور حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں ‘‘۔ پوچھا گیا کیا حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں ؟ تو سیدہ اُمّ عطیہؓ بولیں کیا حائضہ عورتیں عرفہ میں اور فلاں فلاں کام میں حاضر نہیں ہوتیں ؟

۱۵۔ حیض میں شمار نہیں ہوتا:

سیدہ اُمّ عطیہؓ کہتی ہیں کہ ہم (غیر زمانۂ حیض میں ) زردی اور مٹیالے رنگ کے سیال مادہ کو حیض میں شمار نہیں کرتے تھے۔

۱۶۔اگر طوافِ زیارت کے بعد حیض آ جائے:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ یا رسول اﷲ! صفیہ بنت حیّ حج کے دوران میں حائضہ ہو گئی ہیں، تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا شاید وہ ہمیں روکیں گی؟ کیا انہوں نے تم لوگوں کے ہمراہ طوافِ زیارت نہیں کیا؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہاں کیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا پھر کچھ حرج نہیں، چلو۔

۱۷۔حائضہ عورت کے سامنے نماز کی ادائیگی:

اُمُّ المومنین حضرت میمونہؓ کہتی ہیں کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں تو نماز نہ پڑھتی تھیں اور رسول اﷲﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ کے سامنے برابر لیٹی ہوتی تھیں۔ آپﷺ اپنی چادر پر نماز پڑھتے، جب سجدہ کرتے تو آپﷺ کا کچھ کپڑا مجھ سے لگ جاتا تھا۔


٭٭٭

۷۔کتاب التیمم


۱۔عائشہؓ کے ہار کی گمشدگی، آیتِ تیمم کا نزول:

اُمُّ المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم کسی سفر میں رسول اﷲﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا تو رسول اﷲﷺ نے اس کو ڈھونڈھنے کے لیے قیام کیا۔ لوگ بھی آپﷺ کے ہمراہ ٹھہر گئے جبکہ اس مقام پر کہیں پانی نہ تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا۔ لہٰذا لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہؓ نے کیا کیا۔ اُمُّ المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے مجھ پر غصہ کیا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچہ مارنے لگے۔ رسول اﷲﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا اور آپ سو رہے تھے اس لئے میں درد کی شدت سے جنبش بھی نہ کر سکی۔ رسول اﷲﷺ صبح کو جب اٹھے تو پانی کا وجود نہیں تھا۔چنانچہ اﷲ بزرگ و برتر نے آیتِ تیمّم نازل فرمائی۔ پس سب نے تیمّم کیا تو اسی دن سیدنا اسید بن حضیرؓ نے کہا کہ اے آلِ ابوبکرؓ ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ جس اونٹ پر میں تھی، اس کو اٹھایا گیا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔

۲۔خاتمۃ النبییّنﷺ کی پانچ منفرد فضیلتیں:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئی تھیں۔ (۱) مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعہ مدد دی گئی۔( ۲) پوری زمین میرے لئے مسجد اور پاک بنا دی گئی کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لی جائے۔ (۳) اور میرے لئے غنیمت کے مال حلال کر دیئے گئے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے حلال نہ کئے گئے تھے۔( ۴) اور مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ (۵) اور ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔

۳۔غسل اور وضو کا تیمّم یکساں ہے:

سیدنا عمار بن یاسرؓ نے امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی اور میں اپنے تئیں اجتہاد کرتے ہوئے مٹی میں اُلٹ پلٹ گیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبیﷺ سے اس کو بیان کیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ تجھے اس طرح کرنا کافی تھا۔ یہ کہہ کر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک دیا پھر ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔

۴۔نبیﷺ کو نیند سے کوئی بیدار نہ کرتا تھا:

سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبیﷺ کے ہمراہ تھے اور ہم رات کو چلے اور اخیر رات میں ہم سب سوگئے۔ پھر ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کیا۔ پہلے تین افراد جاگے پھر سیدنا عمر بن خطابؓ چوتھے جاگنے والے ہوئے اور نبیﷺ جب سوتے تھے تو ان کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا یہاں تک کہ آپ خود بیدار ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کے لیے آپ کے خواب میں کیا ہو رہا ہے۔

۵۔حالتِ جنابت: پانی نہ ملے تو تیمم کافی ہے:

جب سیدنا عمرؓ بیدار ہوئے تو انہوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے یہاں تک کہ ان کی آواز کے سبب سے نبیﷺ بیدار ہوئے۔ پس جب آپﷺ بیدار ہوئے تو فرمایا کچھ نقصان نہیں۔اس لئے کہ یہ سونا عمداً نہیں تھا۔ پھر چلے اور تھوڑی دُور جا کر اتر پڑے، وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جس نے نماز نہیں پڑھی آپﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ تو اس نے کہا کہ مجھے جنابت ہو گئی تھی اور پانی نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ پاک مٹی سے تیمّم کر لو،یہی کافی ہے۔

۶۔ عورت کا پانی کی دو مشکوں کے ساتھ ملنا:

پھر نبیﷺ چلے تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپﷺ پھر اتر پڑے اور ایک شخص کو بلایا اور سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے ہمراہ بھیجا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔ پس وہ دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کی دو مشکوں کے درمیان اپنے اونٹ پر بیٹھی چلی جا رہی تھی۔ ان دونوں نے اس سے کہا کہ اب تو رسول اﷲﷺ کے پاس چل۔ سیدنا عمرانؓ کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اسے اس کے اونٹ سے اتارا اور نبیﷺ نے ایک برتن منگوایا اور دونوں مشکوں کے منہ کھول کر اس میں سے کچھ پانی اس برتن میں نکالا۔اس کے بعد ان کے اوپر والے منہ کو بند کر دیا اور نچلے منہ کو کھول دیا اور لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ پانی پیو اور اپنے جانوروں کو بھی پلالو۔ جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا، ایک جنبی شخص کو ایک برتن پانی کا دے کر آپﷺ نے فرمایا جا اس کو اپنے اوپر ڈال لے۔ وہ عورت کھڑی ہوئی یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔

۷۔اہلِ قافلہ سیراب ہو گئے مگر پانی کم نہ ہوا:

اور اﷲ کی قسم جب پانی لینا اس کے مشکوں سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب پہلے سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے جمع کر دو۔ لوگوں نے اسکے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ جمع کر دئیے یہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا اس کے لئے جمع کر دیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر دیا اور کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔ پھر آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ کم نہیں کیا، لیکن اﷲ ہی نے ہمیں پلایا۔

۸۔عورت کا بستی والوں سمیت اسلام لانا:

پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور انہیں بتلایا کہ بڑی عجیب بات ہوئی۔ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے بے دین کہا جاتا ہے اور اس نے ایسا ایسا کام کیا۔ پس قسم اﷲ کی یقیناً وہ شخص سب سے بڑا جادوگر ہے یا وہ سچ مچ اﷲ کا رسول ہے۔ پس مسلمان اس کے بعد، اُس کے آس پاس کے مشرکوں سے لڑتے رہے اور جس بستی میں وہ عورت رہتی تھی اسے چھوڑ دیتے تھے۔ تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بے شک یہ لوگ عمداً تمہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ پس کیا تمہیں اسلام میں کچھ رغبت ہے ؟ تو انہوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔


٭٭٭

۸۔کتاب الصّلاۃ (نماز کا بیان)


۱۔ قبل از معراج نبیؐ کو حکمت و ایمان سے بھرا گیا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ابوذرؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:مکہ میں ایک شب میرے گھر کی چھت کھولی گئی پھر جبرئیلؑ اترے۔ انہوں نے میرے سینہ کو چاک کیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک طشت سونے کا حکمت و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا اور سینے کو بند کر دیا۔

۲۔محمدؐ کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے:

اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمانِ دنیا پر پہنچا تو جبرئیلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھول دو تو اس نے پوچھا کہ کون ہے ؟ وہ بولے کہ میں جبرئیل ہوں۔ داروغہ نے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں میرے ہمراہ محمدﷺ ہیں پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں۔ پس جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے۔

۳۔حضرت آدمؑ کا جنتی اور دوزخی روحوں کو دیکھنا؛

پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر نظر پڑی جو بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی داہنے جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب بھی کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے داہنی جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا ’’مرحبا خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے ‘‘ میں نے جبریلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ آدم ؑ ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ داہنی جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی لیے جب وہ اپنی داہنی جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔

۴۔ فرشتوں کے قلم کے چلنے کی آوازسنائی دی:

راوی نے کہا: سیدنا ابن عباسؓ اور ابوحبہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں فرشتوں کے قلم کے چلنے کی آواز میں سنتا تھا۔

۵۔۵۰؍ نمازوں کی فرضیت اور موسیٰؑ کی نصیحت:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا پھر اﷲ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ جب موسیٰ ؑ پر گزرا تو اور انہیں بتلایا کہ پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ موسیٰ ؑ نے یہ سن کر کہا کہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے۔ اس لئے کہ آپ کی اُمت اس قدر عبادت کی طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اﷲ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ ایسا کئی بار ہوا حتیٰ کہ اﷲ نے فرمایا ’’ اچھا یہ پانچ نمازیں مقرر کی جاتی ہیں اور یہ درحقیقت باعتبار ثواب کے پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجئے۔ میں نے کہا: مجھے اپنے پروردگار سے بار بار کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔

۶۔ جنت میں مشک کی مٹی اور موتیوں کے ہار:

پھر جبرئیلؑ مجھے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک چلے جہاں پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے۔میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی مشک ہے۔

۷۔سفر و حضر کی نمازوں کا فرق:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ اﷲ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو، دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں بھی اور سفر میں بھی۔ تو سفر کی نماز اپنی اصلی حالت پر قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔

۸۔ایک کپڑے میں نماز کی ادائیگی:

سیدنا عمر بن سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان میں تفریق کر دی تھی یعنی اُلٹ کر کندھوں پر ڈال لیا۔ایک اور روایت میں سیدہ اُمّ ہانی بنت ابو طالبؓ کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبیﷺ نے ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی۔سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اﷲﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں ؟ سیدنا ابو ہریرہؓ ہی کی روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس میں اس کے شانے پر کچھ نہ ہو۔

۹۔ مسلمان کسی کو پناہ دے تو دوسرا قتل نہ کرے:

سیدہ اُمّ ہانیؓ اس روایت میں کہتی ہیں کہ آپﷺ نے فتح مکہ کے دن ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت نماز پڑھی،جب فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! میری ماں کے بیٹے سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کو مار ڈالوں گا حالانکہ میں نے ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو پناہ دی ہے تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا اے اُمّ ہانیؓ ! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔

۱۰۔جب کپڑا تنگ ہو نماز کیسے پڑھی جائے:

سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ ایک رات کو اپنی کسی ضرورت سے میں آپﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اور میرے جسم کے اوپر ایک کپڑا تھا۔ پس میں نے اس کو زور سے لپیٹ لیا اور آپﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر میں نے بھی نماز پڑھی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کپڑا لپیٹنا جو میں نے دیکھا، کیسا تھا؟ میں نے کہا ایک کپڑا تھا۔ تو آپﷺ نے فرمایا اگر کپڑا وسیع ہو تو اس سے التحاف کر لیا کرو اور اگر تنگ ہو تو اس کی ازار یعنی تہبند بنا لو۔… سیدنا سہلؓ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبیﷺ کے ہمراہ بچوں کی طرح اپنی ازاروں کو اپنے شانوں پر باندھ کر نماز پڑھتے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا جاتا تھا کہ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ جائیں اپنے سروں کو نہ اٹھانا۔کیونکہ مردوں کے پاس ایک ہی کپڑا ہونے کی وجہ سے بے پردگی کا ڈر ہوتا تھا۔

۱۱۔برہنہ ہونے میں کراہیت محسوس کرنا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ نبوت سے قبل نبیﷺ کعبہ کی تعمیر کے لیے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ کے جسم اطہر پر آپ کی ازار بندھی ہوئی تھی تو آپؐ کے چچا سیدنا عباس نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! کاش تم اپنی ازار اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے۔ جابرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے ازار کھول ڈالی اور اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا تو بیہوش ہو کر گر پڑے پھر اس کے بعد آپﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔

۱۲۔مشرکوں کے حج کرنے پر پابندی کا اعلان:

سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں مجھے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے اس حج میں (جو حجۃ الوداع سے پہلے کیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکرؓ اس میں سب کے امیر تھے ) قربانی کے دن منیٰ میں یہ اعلان کرنے بھیجا کہ اگلے سال سے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرے۔ پھر نبیﷺ نے ابوبکر صدیق ؓ کے پیچھے سیدنا علیؓ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۃ برات کا اعلان کریں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں : پس سیدنا علیؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر طواف کرے۔

۱۳۔لشکرِ محمدﷺ کا خیبر میں داخل ہونا:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے خیبر میں جہاد کیا تو ہم نے صبح کی نماز خیبر کے قریب اندھیرے میں پڑھی۔ پھر آپﷺ وادی کے اندر داخل ہو گئے تو فرمایا (ترجمہ) ’’ اﷲ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، خیبر کی خرابی آ گئی۔ بے شک ہم جس قوم کے میدان میں جنگ کے لیے اترے ہوں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بُری حالت میں ہوتی ہے ‘‘ اسے تین بار فرمایا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں خیبر کے لوگ اپنے کاموں کے لیے نکلے تو انہوں نے کہا محمدﷺ اور خمیس یعنی لشکر بھی آ گیا پس ہم نے خیبر کو بزور شمشیر حاصل کیا۔

۱۴۔فتح خیبر کے موقع پر لونڈیوں کی تقسیم:

پھر قیدی جمع کئے گئے تو سیدنا دحیہؓ آئے اور انہوں نے کہا کہ اے اﷲ کے نبیﷺ مجھے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اﷲ کے نبیﷺ ! آپ نے صفیہ بنت حی قبیلہ قریظہ اور طضیر کی سردار دحیہ ؓ کو دے دی حالانکہ وہ سوائے آپﷺ کے کسی کے قابل نہیں ہیں۔ تو آپ نے فرمایا اُن کو صفیہ کے ساتھ لے آؤ۔ پس جب نبیﷺ نے صفیہ کی طرف نظر کی تو فرمایا کہ ان کے علاوہ کوئی اور لونڈی قیدیوں میں سے لے لو۔

۱۵۔صفیہ بنت حیّ سے نکاح اور نبیؐ کا ولیمہ:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں پھر نبیﷺ نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا۔ یہاں تک کہ جب راہ میں (چلے ) تو اُمّ سلیم نے اُمُّ المومنین صفیہؓ کو آپﷺ کے لئے آراستہ کیا اور شب کو آپ کے پاس بھیجا تو صبح کو نبیﷺ دولہا تھے پھر آپﷺ نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ ہو وہ اسے لے آئے اور آپﷺ نے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھا دیا۔ پس کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لانے لگا۔ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ سیدنا انسؓ نے ستو کا بھی ذکر کیا پھر کہتے ہیں پھر انہوں نے ان سب کو ملا کر ملیدہ بنایا تو یہی رسول اﷲﷺ کا ولیمہ تھا۔

۱۶۔دورِ رسالت: عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنا:

حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ فجر کی نماز پڑھتے تھے تو آپ کے ہمراہ کئی مسلمان عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں۔ پھر وہ اپنے گھروں کی طرف ایسے وقت لوٹ جاتی تھیں کہ اندھیرے کے سبب سے کوئی انہیں پہچانتا نہ تھا۔

۱۷۔نقش و نگار والے کپڑے میں نماز پڑھنا:

اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے ایسی خمیصہ (چادر) میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے تو آپ کی نظر اُس کے نقوش کی طرف پڑی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری اس خمیصہ کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے ابو جہم کی سادہ خمیصہ لادو کیونکہ اس خمیصہ نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا تھا۔

۱۸۔ تصویر دار کپڑا اور نماز:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک پردہ تھا۔ انہوں نے اس سے اپنے گھر کے ایک گوشے کو ڈھانپا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہمارے پاس سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو اس لئے کہ نماز میں اس کی تصویریں برابر میرے سامنے آتی ہیں۔

۱۹۔ریشمی جبہ اور پرہیز گاری:

سیدنا عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ (کوٹ) ہدیہ کیا گیا تو آپﷺ نے اسے پہن لیا اور اس میں نماز پڑھی، پھر جب فارغ ہوئے تو اسے زور سے کھینچ کر اتار ڈالا۔ گویا آپﷺ نے اسے بُرا جانا اور فرمایا کہ پرہیزگاروں کو یہ زیبا نہیں ہے۔

۲۰۔ سرخ کپڑے میں نماز پڑھنا:

سیدنا ابو جحیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمہ میں دیکھا اور سید بلالؓ کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ کے لیے وضو کا پانی لیا اور لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اس وضو کے پانی کو دست بدست لینے لگے۔ پھر جس کو اس میں سے کچھ مل جاتا تو وہ اسے اپنے چہرے پر مل لیتا تھا اور جسے اس میں سے کچھ نہ ملتا وہ اپنے پاس والے کے ہاتھ سے تری لے لیتا۔ پھر میں نے سیدنا بلالؓ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک غنزہ (نیزہ) اٹھایا اور اسے گاڑھ دیا اور نبیﷺ ایک سرخ پوشاک میں اپنی چادر اٹھائے ہوئے برآمد ہوئے اور غنزہ کی طرف لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے لوگوں اور جانوروں کو دیکھا کہ وہ غنزہ کے آگے سے نکل جاتے تھے یہاں نیزہ کو بطورِ سترہ استعمال کیا گیا ہے۔

۲۱۔ منبر رسولؐ غابہ جنگل کے جھاؤ کا بنا ہوا تھا:

سیدنا سہل بن سعدؓ سے پوچھا گیا کہ منبر نبویﷺ کس چیز کا تھا؟ تو وہ بولے اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ اب کوئی نہیں رہا۔ وہ غابہ جنگل کے جھاؤ کا بنا ہوا تھا۔ اسے ایک عورت کے غلام نے رسول اﷲﷺ کے لئے بنایا تھا اور جب بنا کر رکھا گیا تو رسول اﷲﷺ اس پر کھڑے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے قرأت کی اور رکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکوع کیا۔ پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا پھر منبر پر چڑھ گئے اور قرأت کی اور رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ پس منبر کا یہ قصہ تھا۔

۲۲۔ چٹائی پر نماز پڑھنا:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی مُلیکہؓ نے نبیﷺ کو کھانے کے لیے بلایا جو انہوں نے خاص آپﷺ کے لئے تیار کیا تھا۔ پس آپﷺ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ میں تمہارے لئے پڑھ دوں۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں میں اپنی ایک چٹائی کی طرف متوجہ ہوا جو کثرتِ استعمال سے سیاہ ہو گئی تھی تو میں نے اسے پانی سے دھو دیا۔ رسول اﷲﷺ اس پر کھڑے ہو گئے اور میں نے اور ایک یتیم نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھ لی اور مُلیکہؓ ہمارے پیچھے تھی۔ پس رسول اﷲﷺ نے ہمارے لئے دو رکعتیں پڑھ دیں اور لوٹ گئے۔

۲۳۔بستر پر نماز پڑھنا:

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نبیﷺ کے سامنے سو جاتی اور میرے دونوں پیر آپﷺ کے سجدہ کی جگہ میں ہوتے تھے جب آپؐ سجدہ کرتے تھے تو مجھے دبا دیتے تھے۔ میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تھے تو میں انہیں پھیلا دیتی تھی۔ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں اس وقت تک گھروں میں چراغ نہ تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے تھے اور وہ آپﷺ کے اور سجدہ کی جگہ کے درمیان (بچھونے پر) جنازہ کی مثل لیٹی ہوتی تھیں۔

۲۴۔ گرمی کی شدت میں کپڑے پر سجدہ کرنا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتے تھے۔

۲۵۔جوتوں سمیت نماز پڑھنا:

سیدنا انس بن مالکؓ سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اﷲﷺ اپنے جوتوں سمیت نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ! پڑھتے تھے۔

۲۶۔ موزے پہن کر نماز پڑھنا:

ہمام بن حارثؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا جریر بن عبداﷲؓ نے پیشاب کے بعد وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد لوگوں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ لوگوں کو یہ حدیث اچھی معلوم ہوتی تھی کیونکہ جریرؓ سب سے آخر میں اسلام لائے تھے۔

۲۷۔نماز میں دونوں ہاتھوں کو کشادہ رکھنا:

سیدنا عبداﷲ بن مالک بن بحینہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی رکھتے یہاں تک کہ آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوتی تھی۔

۲۸۔ قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہی مسلمان ہے۔اس کے لیے اﷲ کا ذمہ اور اﷲ کے رسولﷺ کا ذمہ ہے۔ تو تم اﷲ کی خیانت اس کے ذمہ کے بارے میں نہ کرو۔

۲۹۔عمرہ میں طوافِ کعبہ اور صفا و مروہ کی سعی:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے عمرہ کے لیے کعبہ کا طواف کیا تھا اور صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کیا تھا کہ آیا وہ اپنی عورت کے پاس آئے یا نہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ نبیﷺ مدینہ سے تشریف لائے تو سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی اور صفا و مروہ کے درمیان طواف (سعی) فرمایا اور بے شک رسول اﷲﷺ کی ذات میں تمہارے لئے عمدہ پیروی ہے۔

۳۰۔نبیؐ کعبہ میں داخل ہوئے اور نماز نہیں پڑھی:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے تمام گوشوں میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپﷺ کعبہ سے نکل آئے۔ پھر جب نکل آئے تو آپ نے کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہ قبلہ ہے۔

۳۱۔سواری پر نفل نماز پڑھنا:

سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنی سواری پر جس سمت بھی وہ رخ کرتی (اسی سمت نفل) نماز پڑھتے رہتے اور جب فرض (نماز پڑھنے ) کا ارادہ فرماتے تو اتر پڑتے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیتے۔

۳۲۔ نبیﷺ کی نماز، بشری خطا اور سجدہ سہو:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے نماز پڑھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپﷺ نے نماز میں کچھ زیادہ کر دیا تھا یا کم کر دیا تھا۔ پھر جب آپ سلام پھیر چکے تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! کیا نماز میں کوئی نئی بات ہو گئی؟ آپﷺ نے فرمایا وہ کیا؟ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس قدر نماز پڑھی۔ پس آپﷺ نے اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ لیا اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور دو سجدے کئے۔ اس کے بعد سلام پھیرا۔ پھر جب ہماری طرف منہ کیا تو فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم ہو جاتا تو میں تمہیں پہلے سے مطلع کرتا۔ لیکن میں تمہاری طرح ہی ایک بشر ہوں۔ جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلاؤ اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیئے کہ ٹھیک بات سوچ لے اور اسی پر اپنی نماز تمام کرے۔ پھر سلام پھیر کر دو سجدے سہو کے کرے۔

۳۳۔ اللہ نے تین باتوں میں عمرؓ کی موافقت کی:

امیر المومنین سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار سے تین باتوں میں موافقت کی۔ میں نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں پس یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ) ’’ اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کرو ‘‘ (البقرہ: ۱۲۵) اور حجاب کی آیت بھی میری خواہش کے مطابق نازل ہوئی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! کاش آپﷺ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دے دیں۔ کیونکہ ان سے ہر نیک و بد گفتگو کرتا ہے۔ پس حجاب کی آیت نازل ہوئی۔ اور ایک مرتبہ نبیﷺ کی بیویاں آپﷺ پر جوش میں آ کر جمع ہوئیں تو میں نے ان سے کہا کہ ’’ اگر وہ (نبیﷺ ) تم کو طلاق دے دیں تو عنقریب ان کا رب انہیں تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے میں دے دے گا ‘‘ (التحریم: ۵) پس یہی آیت نازل ہوئی۔

۳۴۔ مسجد میں اگر تھوک کی حاجت ہو:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے جانبِ قبلہ میں کچھ تھوک دیکھا تو آپﷺ کو ناگوار ہوا۔ پھر آپ کھڑے ہو کر اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا۔ اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے منا جات کرتا ہے یا آپ نے یہ فرمایا کہ اس کا پروردگار اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہیئے کہ اپنے قبلہ کے سامنے نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے۔

۳۵۔دورانِ نماز داہنی جانب نہ تھوکے:

سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا ابو سعیدؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص(دورانِ نماز) بلغم تھوکے تو نہ اپنے منہ کے سامنے تھوکے اور نہ اپنے داہنے جانب اور چاہیئے کہ اپنی بائیں جانب یا پیر کے نیچے تھوکے۔

۳۶۔مسجد میں تھوکنے کا کفارہ:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا دفن کر دینا اس کا کفارہ ہے۔

۳۷۔ مقتدیوں کے بارے میں نبیؐ کا فرمان:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تم میرا منہ اس طرف سمجھتے ہو حالانکہ اﷲ کی قسم مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع اور میں یقیناً تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (یہ رسول اللہﷺ کا معجزہ تھا)

۳۸۔ مسجد کو لوگوں کی طرف منسوب کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کے ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ نے سدھائے گئے گھوڑوں کے درمیان مقامِ حفیاء سے ثنیتہ الوداع تک گھوڑ دوڑ کرائی۔ اور جو گھوڑے سدھائے ہوئے نہ تھے ان کے درمیان ثنیہ بنی زریق کی مسجد تک گھوڑ دوڑ کرائی۔ عبداﷲ بن عمرؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے یہ گھوڑ دوڑ کی تھی۔

۳۹۔مسجد میں مال و اسباب کا تقسیم کرنا:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کے پاس کچھ مال بحرین سے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلا دو۔ پھر جب رسول اﷲﷺ نماز پڑھ چکے تو اس کے پاس بیٹھ گئے اور جس جس کو دیکھتے اسے ضرور دیتے تھے۔پس رسول اﷲﷺ وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک وہاں ایک بھی درہم باقی تھا۔

۴۰۔ گھروں میں مسجدیں بنانا:

سیدنا محمود بن ربیع الانصاریؓ کہتے ہیں کہ شریکِ بدر صحابی سیدنا عتبان بن مالکؓ رسول اﷲﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ میں اپنی بینائی کو خراب پاتا ہوں اور میں اپنی قوم کو نماز بھی پڑھاتا ہوں۔ لیکن بارش میں، مَیں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا۔ تو یا رسول اﷲﷺ ! میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اسی مقام کو مصلیٰ بنا لوں۔ چنانچہ رسول اﷲﷺ اور ابوبکرؓ دوسرے دن تشریف لائے۔ اور فرمایا کہ تم اپنے گھر میں سے کس مقام پر چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں ؟ تو سیدنا عتبانؓ کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا تو رسول اﷲﷺ وہاں کھڑے ہو گئے اور اﷲ اکبر کہا۔ ہم نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھی۔ پس آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد سلام پھیر دیا۔ سیدنا عتبانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ کو (گوشت اور آٹا ملا کر بنایا جانے والا کھانا) خزیرہ کھانے کے لئے روک لیا جو آپﷺ کے لئے ہم نے تیار کیا تھا۔

۴۱۔ دل سے لا الٰہ الا اﷲ کہنے والے پر جہنم حرام:

پھر محلے والوں میں سے کئی لوگ گھر میں جمع ہو گئے اور ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ مالک بن دخیشن کہاں ہے ؟ تو ان میں سے کسی دوسرے نے کہا کہ وہ تو منافق ہے، اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو دوست نہیں رکھتا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کیا تم نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے لا الٰہ الا اﷲ کہا ہے۔ وہ شخص بولا کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو زیادہ علم ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے اس کی توجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے حق میں دیکھی ہے تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اﷲ بزرگ و برتر نے اس شخص پر آگ کو حرام کر دیا ہے جو لا الٰہ الا اﷲ کہہ دے اور اس سے اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی اسے مقصود ہو۔

۴۲۔نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنا لینا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ اُمّ حبیبہ اور اُمّ سلمہؓ نے ایک گرجا حبش میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، تو انہوں نے نبیﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرد ہوتا اور وہ مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں یہ تصویریں بنا دیتے۔ یہ لوگ اﷲ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین خلق ہیں۔

۴۳۔نبیؐ کا مدینہ کی بلندی پر چوبیس روز قیام:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلے میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں، اترے اور ان لوگوں میں نبیﷺ نے چوبیس شب قیام فرمایا پھر آپﷺ نے بنی نجار کو بلوا بھیجا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے۔ اب گویا میں نبیﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپ کے ہمردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپ کے گرد ہے یہاں تک کہ آپ نے سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے مکان میں اپنا اسباب اتارا اور آپ دوست رکھتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کے رہنے کی جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے اور آپ نے مسجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

۴۴۔ہجرتِ مدینہ اور باغ بنی نجار کی ترتیبِ نَو:

پھر بنی نجار کے لوگوں کو آپﷺ نے بلوا بھیجا اور فرمایا کہ اے بنی نجار! اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اﷲ کی قسم ہم اس کی قیمت نہ لیں گے مگر اﷲ بزرگ و برتر سے۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ اس باغ میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے کہتا ہوں یعنی مشرکوں کی قبریں، ویرانہ اور کھجور کے درخت تھے تو نبیﷺ نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں۔ پھر حکم دیا کہ ویرانے کو برابر کر دیا جائے اور درختوں کو کاٹ دیا جائے پھر کھجور کے درخت مسجد کی جانب قبلہ میں نصب کر دیئے اور اس کی بندش پتھروں سے کی اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبیﷺ ان کے ہمراہ تھے اور آپﷺ فرماتے تھے (ترجمہ) ’’فائدہ جو کچھ کہ ہے فائدہ وہ آخرت کا فائدہ۔ بخش دے انصار اور مہاجرین کو اے اﷲ‘‘۔

۴۵۔اونٹ کو بطور سترہ کر کے نماز پڑھنا:

راوی حدیث نافع کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ نے اپنے اونٹ کی طرف (اسے بطور سترہ کر کے ) نماز پڑھی اور فرمایا کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔

۴۶۔حالتِ نماز میں حضورؐ کو دوزخ دکھلائی گئی:

سیدنا انسؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے اس حال میں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا دوزخ کی آگ لائی گئی۔

۴۷۔گھروں میں بھی نماز پڑھنے کی ہدایت:

سیدنا ابن عمرؓ ، رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’اپنی کچھ نماز، اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور انہیں قبریں نہ بناؤ‘‘۔

۴۸۔نبیوں کی قبروں کو مسجد بنانے کی مذمت:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ اور سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اﷲﷺ پر وفات کی بیماری طاری ہوئی تو آپ اپنی چادر اپنے منہ پر ڈالنے لگے۔ پھر جب اس سے آپﷺ کو گرمی معلوم ہوتی تو اس کو اپنے چہرے سے ہٹا دیتے پھر اسی حالت میں فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اﷲ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا آپﷺ ان کے افعال سے ڈراتے تھے۔

۴۹۔مسجد میں عورت کے لیے خیمہ لگایا گیا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ کسی قبیلے کی ایک آزاد کردہ حبشی لونڈی اسی قبیلے کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ لونڈی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اسی قبیلے کی ایک لڑکی باہر نکلی تو اس کے جسم پرسے سرخ چمڑے کی حمائل (جڑاؤ) گر پڑی۔ایک چیل نے اسے گوشت سمجھا اور جھپٹ لے گئی۔ باندی کہتی ہے کہ ان لوگوں نے اسے تلاش کیا مگر نہ ملنے پر اس کا الزام مجھ پر لگا دیا اور وہ لوگ میری تلاشی لینے لگے کہ اچانک وہی چیل گزری اور اُس نے اِس حمائل کو گرا دیا۔ وہ کہتی ہے کہ حمائل ان کے درمیان آ کر گری۔
اُمُّ المومنین عائشہؓ کہتی ہیں پھر وہ رسول اﷲﷺ کے پاس آئی اور اسلام لے آئی تو مسجد میں اس کا ایک خیمہ یا ایک چھوٹا سا حجرہ تھا۔ اور وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ اور میرے پاس وہ جب بھی آتی تو یہ ضرور کہتی کہ ’’حمائل والا دن ہمارے پروردگار کی عجیب قدرتوں میں سے ہے۔ آگاہ رہو اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات دی‘‘۔ (یہ ایک خصوصی واقعہ ہے۔ عام حالات میں عورتوں کا مسجد میں قیام یا سونا منع ہے )

۵۰۔ مَردوں کا مسجد میں سونا:

سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت کہ رسول اﷲﷺ سیدہ فاطمہ الزہرہؓ کے گھر آئے تو سیدنا علیؓ کو گھر میں نہ پایا تو پوچھا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟ وہ بولیں کہ میرے اور ان کے درمیان میں کچھ تنازعہ ہو گیا تو وہ مجھ پر غضبناک ہو کر چلے گئے اور میرے ہاں نہیں سوئے تو رسول اﷲﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں ؟ وہ دیکھ کر آیا اور اس نے کہا کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ پس رسول اﷲﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہ لیٹے ہوئے تھے ان کی چادر ان کے پہلو سے گرگئی تھی اور ان کے جسم میں مٹی بھر گئی تھی، رسول اﷲﷺ انکے جسم سے مٹی جھاڑتے اور یہ فرماتے تھے کہ اے ابوترابؓ ! اٹھو۔ اے ابوترابؓ ! اٹھو۔

۵۱۔ مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھنا:

سیدنا ابوقتادہ سلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

۵۲۔ مسجد نبویﷺ کی ابتدائی تعمیرات کا بیان:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کچی اینٹ سے تعمیر کی ہوئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑیوں کے تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اس میں کچھ زیادتی نہیں کی جبکہ سیدنا عمرؓ نے اس میں زیادتی کر دی اور اس کو رسول اﷲﷺ کے زمانے کی عمارت کے موافق کچی اینٹ اور کھجور کی شاخوں سے بنایا اور اس کے ستون پھر لکڑی کے لگائے۔ اس کے بعد سیدنا عثمانؓ نے اس کو بدل دیا اور اس میں بہت سا اضافہ کیا۔

۵۳۔تعمیر مسجد میں ایک دوسرے کی اعانت کرنا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ مسجد نبویﷺ کی تعمیرات کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور سیدنا عمارؓ دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے۔ نبیﷺ نے انہیں دیکھا تو آپﷺ ان کے جسم سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرماتے جاتے تھے کہ عمارؓ کی مصیبت، انہیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ یہ اُن کو جنت کی طرف بلاتے ہوں گے اور وہ اِن کو دوزخ کی طرف بلاتے ہوں گے۔ ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ عمارؓ کہا کرتے تھے کہ ’’ میں فتنوں سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔

۵۴۔مسجد بنانے کا بدلہ جنت میں گھر ہے:

سیدنا عثمان بن عفانؓ نے مسجد نبویﷺ اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کی۔ جب لوگوں نے اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے میرے بارے میں بہت کچھ کہا۔ حالانکہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسجد بنائے اور اﷲ کی رضامندی چاہتا ہو، اﷲ اس کے لیے اسی کے برابر جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔

۵۵۔ مسجدیا بازار سے گزرنا: لوگوں کا خیال کرنا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں سے گزرا اور اس کے پاس کچھ تیر تھے تو اس سے رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تیر کے پھل کو پکڑ لو (کہ اس سے آدمی زخمی ہو سکتا ہے )۔ایک اور روایت میں سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص ہماری مسجدوں یا بازاروں میں سے تیر کے ساتھ گزرے تو اسے چاہیے کہ اس کی پیکانوں کو پکڑے کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھ سے کسی مسلمان بھائی کو زخمی کر دے۔

۵۶۔مسجد میں اشعار پڑھنا:

سیدنا حسان بن ثابت انصاریؓ نے سیدنا ابو ہریرہؓ سے گواہی طلب کی کہ میں تمہیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا تم نے نبیﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ مجھ سے فرماتے تھے کہ ’’ اے حسانؓ ! رسول اﷲﷺ کی طرف سے مشرکوں کو اشعار میں جواب دو، اے اﷲ! حسانؓ کی روح القدس سے تائید فرما‘‘ تو سیدنا ابو ہریرہؓ بولے کے ہاں میں نے سنا تھا۔

۵۷۔اسلحہ بردار لوگوں کا مسجد میں داخل ہونا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازہ پر دیکھا جب حبش کے لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے اور رسول اﷲﷺ مجھے اپنی چادر سے چھپا رہے تھے اور میں ان کے کھیل کو دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ حبشی اپنی تلواروں سے کھیلتے تھے۔

۵۸۔مسجد میں قرض دار سے تقاضا کرنا:

سیدنا کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور گفتگو میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ رسول اﷲﷺ نے سنا تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور کعبؓ سے فرمایا کہ تم اپنے اس قرض سے کچھ کم کر دو اور اس کی طرف اشارہ کیا یعنی نصف کم کر دو۔ کعبؓ نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! میں نے کم کر دیا۔ آپﷺ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اٹھ اور اسے ادا کر دے۔

۵۹۔مسجد میں جھاڑو دینا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، جب وہ مر گئی تو نبیﷺ نے اس کی بابت پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو مر گئی۔ فرمایا کہ تم نے مجھے اطلاع کیو ں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتا دو۔چنانچہ لوگوں نے بتا دی تو آپ نے اس پر نماز پڑھی۔(یہ نبی ؐ کا خاصہ تھا)

۶۰۔حضورؐ کا شراب کی تجارت کو حرام کہنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب سُود کے بارے میں سورۂ بقرہ کی آیتیں نازل کی گئیں تو نبیﷺ مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور ان آیتوں کو لوگوں کے سامنے پڑھ دیا۔ پھر آپﷺ نے شراب کی تجارت حرام کر دی۔

۶۱۔سرکش جن کا نبیؐ کے سامنے آنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک سرکش جن گزشتہ شب میرے سامنے آیا تاکہ میری نماز قطع کر دے۔مگر اﷲ نے مجھے اس پر قابو د ے دیا اور میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح کو اُسے تم لوگ دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان ؑ کی دعا یاد آئی کہ ’’ اے میرے پروردگار! مجھے ایسی سلطنت دے، جو میرے بعد کسی کو نہ ملے ‘‘ (صٓ: ۳۵)

۶۲۔ مسجد میں بیماروں کے لیے خیمہ لگانا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ غزوۂ خندق کے دن سیدنا سعدؓ کے زخم لگ گیا تو نبیﷺ نے ایک خیمہ مسجد میں نصب کیا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کریں۔ مسجد میں بنی غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب اِن کی طرف خون بہہ کر آنے لگا تو ان لوگوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیا ہے ؟ تب انہیں پتہ چلا کہ سیدنا سعدؓ کے زخم سے خون بہہ رہا ہے۔ پس وہ اسی سے شہید ہو گئے۔

۶۳۔ سوار ہو کر کعبہ کا طواف کرنا:

اُمُّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرو۔ پس میں نے طواف کیا اور رسول اﷲﷺ کعبہ کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپﷺ سورۂ ’’طور ‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے۔

۶۴۔ دو صحابی کے لیے نور کے چراغ روشن کیے گئے:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عباد بن بشرؓ اور دوسرے غالباً سیدنا اسید بن حضیرؓ اندھیری رات میں مسجد نبویﷺ سے باہر نکلے۔ صحبتِ نبویﷺ کی برکت سے ان دونوں کے ہمراہ نور کے دو چراغ سے تھے جو ان کے سامنے روشنی کرتے تھے۔ پھر جب وہ دونوں علیحدہ ہو گئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک چراغ ہولیا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔

۶۵۔ مسجد میں کھڑکی اور گزرگاہ بنانا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک روز خطبہ پڑھا تو فرمایا کہ بے شک اﷲ سبحانہٗ نے ایک بندہ کو دنیا کے اور اس چیز کے درمیان، جو اﷲ کے ہاں ہے، اختیار دیا ہے کہ جس کو چاہے پسند کر لے۔ تو اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا جو اﷲ کے ہاں ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ رونے لگے۔ ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس شیخ کو کون سی چیز رُلا رہی ہے ؟ مگر آخر میں معلوم ہوا کہ وہ بندہ رسول اﷲﷺ تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکرؓ ! تم نہ روؤ بے شک سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے، اپنی صحبت اور اپنے مال میں ابوبکر صدیق ہیں۔ اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو یقیناً ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت اور اس کی محبت کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر کے دروازہ کے سوا سب کا دروازہ بند کر دیا جائے۔

۶۶۔ مسجدوں میں دروازے اور تالے لگانا:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مکہ میں تشریف لائے تو عثمان بن طلحہؓ کو بلایا۔ انہوں نے کعبہ کا دروازہ کھول دیا۔ پھر نبیﷺ اور بلالؓ اور اسامہ بن زیدؓ اور عثمان بن طلحہؓ اندر گئے۔بعد اس کے دروازہ بند کر لیا گیا۔ پھر آپﷺ اس میں تھوڑی دیر رہے۔ اس کے بعد سب لوگ نکلے۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں کعبہ کی طرف جلدی سے بھاگا اور بلالؓ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کس مقام میں ؟ انہوں نے کہا دونوں ستونوں کے درمیان میں۔

۶۷۔رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بنانا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ منبر پر تھے کہ ایک شخص نے نمازِ شب کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دو دو رکعت پڑھنی چاہیئے۔ پھر جب تم میں سے کوئی صبح ہو جانے کا خوف کرے تو ایک رکعت اور پڑھ لے، پس وہ ایک رکعت اس کے لیے جس قدر پڑھ چکا سب کو وتر کر دے گی۔ اور سیدنا ابن عمرؓ کہا کرتے تھے کہ رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ اس لئے کہ نبیﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔

۶۸۔مسجد میں چت لیٹنے کی روایت:

سیدنا عبداﷲ بن زید انصاریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا اور آپﷺ اپنا ایک پیر دوسرے پیر پر رکھے ہوئے تھے۔

۶۹۔با جماعت نماز گھر کی نماز سے افضل ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جماعت کی نماز، اپنے گھر کی نماز اور اپنے بازار کی نماز سے پچیس درجے ثواب میں فوقیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور مسجد میں محض نماز ہی کا ارادہ کر کے آئے تو وہ جو قدم رکھتا ہے، اس پر اﷲ اُس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو نماز میں سمجھا جاتا ہے، جب تک کہ نماز اسے روکے۔ فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے۔ فرشتے یوں دعا کرتے ہیں کہ ’’ اے اﷲ! اس کے گناہ معاف فرما دے، اے اﷲ! اس پر رحم کر ‘‘ یہ دعا اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ بے وضو نہ ہو جائے۔

۷۰۔مومن، مومن کے لئے عمارت کے مثل ہے:

سیدنا ابو موسیٰ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مومن، مومن کے لئے عمارت کے مثل ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت دیتا ہے اور آپﷺ نے تمثیلاً اپنی انگلیوں میں تشبیک فرمائی یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ میں داخل کر کے دکھلایا۔

۷۱۔نماز میں سہواً رکعت کم پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ہمیں زوال کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی تو آپﷺ نے ہمیں دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو گئے جو عرضاً مسجد میں رکھی ہوئی تھی اور اس پر آپ نے تکیہ لگایا جیسے آپﷺ غضبناک ہوں اور آپ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک فرمائی۔ جلد باز لوگ مسجد کے دروازوں سے نکل گئے تو صحابہؓ نے عرض کیا نماز کم کر دی گئی؟ اور لوگوں میں سیدنا ابوبکر و عمرؓ تھے، مگر وہ دونوں آپﷺ سے کہتے ہوئے ڈرے۔تاہم لمبے ہاتھوں والے ایک شخص ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں (اپنے خیال میں ) نہ بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ کیا ایسا ہی ہے جیساذوا لیدین کہتے ہیں ؟ تو لوگوں نے کہا ہاں۔ پس آپﷺ آگے بڑھ گئے اور جس قدر نماز چھوڑی تھی پڑھ لی۔

۷۲۔بطحا کی وادی اور نبیﷺ کی جائے نماز:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ عمرہ یا حج کے لیے جاتے ہوئے مقام ذوالحلیفہ میں بھی اترتے تھے اور جب کسی غزوہ سے لوٹتے اور اس راہ میں سے ہو کر آتے یا حج یا عمرہ میں ہوتے تو وادی کے اندر اتر جاتے۔ پھر جب وادی کے گہراؤ سے اوپر آ جاتے تو اونٹ کو اس بطحا میں بٹھلا دیتے جو وادی کے کنارے پر بجانب مشرق ہے۔ پس آخر شب میں وہیں آرام فرماتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔یہ مقام اس مسجد کے پاس نہیں ہے جو پتھروں سے بنی ہے اور نہ اس ٹیلہ پر ہے جس کے اوپر مسجد ہے بلکہ اس جگہ ایک چشمہ تھا کہ سیدنا عبداﷲؓ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کے اندر کچھ تودے ریت کے تھے۔ نبیﷺ وہیں نماز پڑھتے تھے۔ پھر اس میں بطحا سے سیلاب آیا یہاں تک کہ وہ مقام جہاں سیدنا عبداﷲؓ نماز پڑھتے تھے پُر ہو گیا۔

۷۳۔ روحاء کی بلندی پر نبیﷺ کا نماز پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے اس مقام پر نماز پڑھی ہے جہاں چھوٹی مسجد ہے، جو اس مسجد کے قریب ہے جو روحاء کی بلندی پر ہے اور سیدنا عبداﷲؓ اس مقام کو جانتے تھے جہاں نبیﷺ نے نماز پڑھی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ مقام وہاں تمہارے داہنی طرف ہے جب تم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو اور یہ مسجد راستے کے داہنے کنارے پر ہے جب کہ تم مکہ کی طرف جا رہے ہو، اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان ایک پتھر کا ٹپہ ہے یا اس کے قریب۔

۷۴۔روحاء کے آخری کنارے والی پہاڑی:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ اس پہاڑی کے پاس بھی نماز پڑھا کرتے تھے جو روحاء کے آخری کنارے کے پاس ہے اور مکہ کو جاتے ہوئے اس پہاڑی کا کنارہ مسجد کے قریب روحاء کے آخری کنارے کے درمیان ہے اور اس جگہ ایک دوسری مسجد بنا دی گئی ہے، مگر عبداﷲ بن عمرؓ اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے پیچھے بائیں جانب چھوڑ دیتے تھے اور اس کے آگے (بڑھ کر) خاص پہاڑی کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور سیدنا عبداﷲؓ روحاء سے صبح کے وقت چلتے تھے، پھر ظہر کی نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ اس مقام میں پہنچ جاتے، پس وہیں ظہر کی نماز پڑھتے اور جب مکہ سے آتے تو اگر صبح سے کچھ پہلے یا آخر شب میں اس مقام پر پہنچتے تو وہیں ٹھہر جاتے یہاں تک کہ صبح کی نماز وہیں پڑھتے۔

۷۵۔اترنا نبیؐ کا مقامِ رویثہ کے قریب:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ مقامِ رویثہ کے قریب راستہ کے داہنی جانب اور راستہ کے سامنے کسی گھنے درخت کے نیچے کسی وسیع اور نرم مقام میں اترتے تھے۔ یہاں تک کہ آپﷺ اس ٹیلے سے جو برید روثیہ سے قریب دو میل کے ہے، باہر آتے اور اس درخت کے اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے اور وہ درمیان سے دہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے اور اس کی جڑ میں ریت کے بہت سے ٹیلے ہیں۔

۷۶۔آپؐ نے عرج کے ٹیلہ پربھی نماز پڑھی:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے اس ٹیلے کے کنارے پر بھی نماز پڑھی ہے جو مقام عرج کے پیچھے ہے، جب کہ تم قریہ ہضبہ کی طرف جا رہے ہو۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں اور قبروں پر پتھر رکھے ہیں۔ وہاں آپﷺ نے راستہ کی داہنی جانب راستہ کے پتھروں کے پاس نماز پڑھی ہے، انہیں پتھروں کے درمیان میں۔ سیدنا عبداﷲؓ بعد اس کے کہ دوپہر کو سورج ڈھل جاتا، مقام عرج سے چلتے اور ظہر کی نماز اس مسجد میں پڑھتے۔ مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کے درمیان اب مسجد بن چکی تھی۔

۷۷۔اترنا نبیؐ کا مرالظران کے مسیل پر:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے کہا کہ رسول اﷲﷺ اس مسیل پر بھی اترے تھے جو مقامِ مرالظہران کے اخیر میں مدینہ کی طرف ہے جبکہ کوئی شخص صفراوات کے پہاڑوں سے اترے۔ آپﷺ اس مسیل کے گھراؤ میں راستہ کی بائیں جانب، جب کہ تو مکہ کی طرف جا رہا ہو، نزول فرماتے تھے۔ رسول اﷲﷺ کے اترنے کی جگہ اور راستہ کے درمیان صرف ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے۔

۷۸۔ذی طویٰ میں شب بسری اور نمازِ فجر:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مقامِ ذی طویٰ میں اترتے تھے اور رات کو وہیں رہتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور صبح کی نماز پڑھتے۔یہ اس وقت جب کہ آپﷺ مکہ تشریف لاتے اور رسول اﷲﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک سخت ٹیلہ پر ہے نہ کہ اس مسجد میں، جو وہاں بنائی گئی ہے بلکہ اس سے نیچے اسی سخت ٹیلہ پر ہے۔

۷۹۔ پہاڑ کے دو کونے،سیاہ ٹیلہ کے اوپر:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ اس پہاڑ کے دو کونوں کے سامنے آئے وہ کونہ کہ جو اس پہاڑ اور بڑے پہاڑ کے درمیان کعبہ کی طرف ہے۔ پھر آپﷺ نے اس مسجد کو جو وہاں بنائی گئی ہے، اس مسجد کی بائیں جانب چھوڑ دیا جو ٹیلہ کی طرف ہے اور نبیﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلہ کے اوپر ہے، ٹیلے سے دس گز یا اس کے قریب چھوڑ کر۔ پھر پہاڑ کے اس دونوں کونوں کی طرف جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہیں منہ کر کے نماز پڑھو۔


٭٭٭

۹۔کتاب سترہ


۱۔ امام کا سترہ مقتدیوں کا بھی سترہ ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب عید کے دن نماز پڑھانے نکلتے تو حکم دیتے کہ حربہ (چھوٹا نیزہ) آپﷺ کے سامنے گاڑ دیا جائے اور آپﷺ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھاتے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے ہوتے اور سفر میں بھی آپﷺ یہی کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابی جحیفہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے بطحا میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ ظہرکی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت، اس حالت میں کہ آپﷺ کے سامنے ایک نیزہ گڑا ہوا تھا، اور آپﷺ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے نکل رہے تھے۔

۲۔نماز ی اور سترہ کے درمیان فاصلہ:

سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے نکل جانے کے بقدر فاصلہ ہوتا تھا۔

۳۔ ستون کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا:

سیدنا سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجدِ نبوی میں اس ستون کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے جو مصحف کے قریب تھا تو ان سے پوچھا گیا کہ اے ابو مسلم! تم اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش کیا کرتے ہو؟ تو انہوں نے کہا میں نے نبیﷺ کو اس کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش فرماتے دیکھا ہے۔

۴۔کعبہ کے اندر رسولﷺ نے نماز کیسے پڑھی:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے۔جب وہ باہر آ گئے تو میں نے سیدنا بلالؓ سے پوچھا کہ نبیﷺ نے کعبہ کے اندر کیا کیا؟ سیدنا بلالؓ نے کہا کہ آپﷺ نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب کر لیا اور ایک ستون کو اپنی داہنی جانب اور تین ستونوں کو پیچھے کر لیا اور نماز پڑھی اور اس وقت کعبہ چھ ستونوں پر بنا ہوا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے امام مالکؒ کہتے ہیں کہ دو ستونوں کو اپنی داہنی جانب کر لیا۔

۵۔ اونٹ اور کجا وہ کو سترہ بنا کر نماز پڑھنا:

سیدنا ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ اپنی سواری کو عرضاً بٹھا دیتے تھے اور اسکی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔راوی سے جب پوچھا گیا کہ جب اونٹ مست ہو جاتے تو پھر آپﷺ کیا کرتے تھے ؟ وہ بولے کہ آپﷺ کجاوے کو لے لیتے تھے اس کے پچھلے حصے کی طرف یا یہ کہا کہ اس کے موخر کی طرف نماز پڑھ لیتے تھے اور ابن عمرؓ بھی یہی کرتے تھے۔

۶۔ نمازی، سامنے سے نکلنے والے کو واپس کر دے:

سیدنا ابو سعید خدریؓ جمعہ کے دن کسی چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے کہ قبیلہ بنی ابی معیط کے ایک جوان نے ان کے آگے سے نکلنا چاہا تو سیدنا ابو سعیدؓ نے اس کے سینہ میں دھکا دیا۔ جب اس جوان نے کوئی سبیل نکلنے کی، سوائے ان کے آگے کے نہ دیکھی تو پھر اس نے چاہا کہ نکل جائے۔ پس ابو سعیدؓ نے پہلے سے زیادہ سخت اسے دھکا دیا، اس پر اس نے ابو سعیدؓ کی بے حرمتی کی۔پھر وہ مروان کے پاس گیا اور ابو سعیدؓ کی شکایت کی۔ پیچھے پیچھے ابو سعیدؓ بھی مروان کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو جو اسے لوگوں سے چھپائے پھر کوئی شخص اس کے سامنے سے نکلنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ اسے ہٹا دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لئے کہ وہ شیطان ہی ہے۔

۷۔ نمازی کے سامنے سے نکلنے والے کا گناہ:

سیدنا ابو جہیمؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر نماز ی کے سامنے سے نکلنے والا یہ جان لیتا کہ اس پر کس قدر گناہ ہے تو بے شک اسے چالیس دن تک کھڑا رہنا بھلا معلوم ہوتا اس بات سے کہ اس کے سامنے سے نکل جائے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مجھے شبہ ہے کہ آپﷺ نے چالیس دن کہا، چالیس مہینے یا چالیس برس۔

۸۔سوئے ہوئے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ بے شک رسول اﷲﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور میں عرضاً آپﷺ کے سامنے بستر پر سو رہی ہوتی تھی۔ پس جب آپﷺ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔

۹۔بچہ کو اپنی گردن پر اٹھائے نماز پڑھنا:

سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نماز پڑھتے تھے اور آپﷺ اسی حالت میں اپنے داماد ابو العاصؓ کی بیٹی امامہ بنت زینبؓ کو اٹھائے ہوتے تھے۔ پھر جب سجدہ کرتے تو ان کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو ان کو اٹھا لیتے۔


٭٭٭

۱۰۔کتاب مواقیۃ الصلاۃ (اوقاتِ نماز )


۱۔جبریلؑ اور نبیﷺ کا پانچ وقت نماز پڑھنا:

سیدنا ابو مسعود انصاریؓ مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہؓ ! تم نے یہ کیا کیا؟ تم نہیں جانتے کہ ایک دن جبریلؑ نازل ہوئے اور انہوں نے نماز پڑھی تو رسول اﷲﷺ نے بھی پڑھی، پھر دوسری نماز پڑھی تو رسول اﷲﷺ نے بھی پڑھی، پھر تیسری نماز پڑھی تو رسول اﷲﷺ نے بھی پڑھی، پھر چوتھی نماز پڑھی تو رسول اﷲﷺ نے بھی پڑھی، پھر پانچویں نماز پڑھی تو رسول اﷲﷺ نے بھی پڑھی، پھر جبریلؑ نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔

۲۔نماز گناہوں کا کفارہ ہے:

سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں نبیﷺ کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے بالکل اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپؐ نے فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پھر بیان کیجئے تو میں نے کہا کہ آدمی کا فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر با المعروف اور نہی عن المنکر اس کو مٹا دیتا ہے۔

۳۔ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں:

سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے لیا پھر وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ سے بیان کیا تو اﷲ بزرگ و برتر نے یہ حکم نازل فرمایا ’’ نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ‘‘ تو وہ شخص بولا کہ اﷲ کے رسولﷺ ! کیا یہ میرے ہی لئے ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’میری تمام امت کے لئے ہے ‘‘۔ ایک اور روایت میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ’’ میری امت میں سے ہر ایک صغیرہ گناہ کا کام کرنے والے کے لیے یہ کفارہ ہے ‘‘

۴۔نماز وقتِ معین پر پڑھنے کی فضیلت:

سیدنا عبداﷲ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ اﷲ کے نزدیک کو ن سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا نماز جو اپنے وقت پر پڑھی گئی ہو۔ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کو ن سا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کو ن سا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا۔

۵۔پانچوں نمازیں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ فرماتے تھے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر ہو۔ اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ نہانا اس کے میل کو باقی رکھے گا؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ اس کے میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے اﷲ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

۶۔ سجدے میں ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ بچھاؤ:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھوکے تو چاہیے کہ اپنے آگے نہ تھوکے اور نہ اپنے داہنی جانب اس لئے کہ وہ اپنے پروردگار سے منا جات کرتا ہے۔

۷۔سردی و گرمی کا سبب، جہنم کا سانس لینا ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈک میں پڑھا کرو۔ اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اﷲ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی۔ ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔

۸۔گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈک میں پڑھنا:

سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبیﷺ کیساتھ تھے، موذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو۔ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو۔ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔

۹۔ظہر کا وقت زوال کے وقت سے شروع:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲﷺ جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپؐ نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا کہ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔

۱۰۔ جنت سے عمدہ، جہنم سے بُری چیز کوئی نہیں:

اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے۔ تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام میں ہوں، تو لوگوں نے رونے کی کثرت کی … حضرت عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ’’ ہم اﷲ جل جلالہ کے رب ہونے سے، اسلام کے دین ہونے سے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں ‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے۔ ایسی عمدہ چیز جیسی جنت ہے اور ایسی بری چیز جیسی دوزخ ہے، کبھی نہیں دیکھی۔

۱۱۔پانچوں نمازوں کے اوقات:

سیدنا ابو برزہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا۔ اس میں ساٹھ آیتوں اور سو آیتوں کے درمیان قرأت کرتے تھے اور ظہر کی نماز جب آفتاب ڈھل جاتا تھا، پڑھتے تھے اور عصر کی نمازایسے وقت کہ ہم میں سے کوئی مدینہ کے کنارے تک جا کر لوٹ آئے اور آفتاب متغیر نہ ہوا ہو۔ راوی کہتے ہیں اور مغرب کے بارے میں جو کچھ کہا تھا میں بھول گیا اور عشاء کی تاخیر میں تہائی رات تک آپﷺ کچھ پرواہ نہ کرتے تھے۔ اس کے بعد راوی نے کہا کہ نصف شب تک۔

۱۲۔جمع بین الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کو جمع کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء کی سات رکعتیں ایک ساتھ پڑھیں۔ یعنی ظہر آخری وقت میں جبکہ عصر ابتدائی وقت میں۔ اسی طرح مغرب آخری وقت میں اور عشاء ابتدائی وقت میں۔

۱۳۔ عشاء سے قبل سونا اور بعد عشاء بات کرنا:

سیدنا ابو برزہؓ عشاء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو بُرا جانتے تھے ‘‘ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے تھے، اس کے بعد آدمی بنی عمر و بن عوف کے قبیلے تک جاتا تو انہیں نمازِ عصر پڑھتے ہوئے پاتا۔

۱۴۔عصر کی نماز کا بہترین وقت:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور تیز ہوتا تھا۔ پھر جانے والا عوالی تک جاتا تھا اور ان لوگوں کے پاس ایسے وقت پہنچ جاتا کہ آفتاب بلند ہوتا تھا اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ سے چار میل پر یا اسکے قریب ہیں۔

۱۵۔جس کی نمازِ عصر جاتی رہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جس کی نمازِ عصر جاتی رہے، ایسا ہے گویا کہ اس کا گھر اور مال ضائع ہو گیا۔

۱۶۔ نمازِ عصر عمداً چھوڑ نے کا گناہ:

سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کسی غزوہ میں بارش والے دن کہا کہ نمازِ عصر سویرے پڑھو۔ اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو یقیناً اس کا نیک عمل ضائع ہو جاتا ہے۔

۱۷۔نمازِ عصر کی فضیلت اور اللہ کا دیدار:

سیدنا جریر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ بے شک تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں دقت، تکلیف یا مشکل محسوس نہ کرو گے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب سے پہلے کی نمازِ عصر پر شیطان سے مغلوب نہ ہو۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ترجمہ) ’’پس آفتاب کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو ‘‘۔

۱۸۔دن و رات کے فرشتوں کا فجر و عصر میں جمع ہونا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کچھ فرشتے رات کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور کچھ فرشتے دن کو۔ اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے ہیں آسمان پر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے۔ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

۱۹۔غروب و طلوعِ آفتاب سے متصل پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نمازِ عصر کا ایک سجدہ آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے پالے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب نمازِ فجر کا ایک سجدہ طلوعِ آفتاب سے پہلے پالے تو اسے بھی چاہیئے کہ اپنی نماز پوری کر لے۔

۲۰۔اہلِ قرآن کا اَجر اہلِ کتاب سے دُگنا ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ مروی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ سابقہ امتوں کے اعتبار سے تمہاری بقا کی مدت ایسی ہی ہے جیسے نمازِ عصر سے لیکر غروبِ آفتاب تک۔ توریت والوں کو توریت دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا۔ وہ تھک گئے اور انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انہوں نے عصر کی نماز تک کام کیا پھر وہ تھک گئے اور انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ بعد اس کے ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروبِ آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے تو دونوں اہلِ کتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم کام میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ اﷲ عزوجل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے ؟ وہ بولے نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا یہ میری بخشش ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں۔

۲۱۔مغرب کا وقت کب شروع ہوتا ہے ؟

سیدنا رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مغرب کی نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک نماز پڑھ کے ایسے وقت لوٹ آتا تھا کہ وہ اپنے تیر کے گرنے کے مقامات کو دیکھ لیتا تھا۔

۲۲۔نبیﷺ کی نمازوں کے عمومی اوقات:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ نے کہا کہ نبیﷺ ظہر کی نماز دوپہر کو پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ آفتاب صاف ہوتا تھا اور مغرب کی جب آفتاب غروب ہو جاتا اور عشاء کی کبھی کسی وقت کبھی کسی وقت۔ جب آپؐ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلد پڑھ لیتے اور جب آپؐ دیکھتے کہ لوگوں نے دیر کی تو دیر میں پڑھتے۔ صبح کی نماز نبیؐ اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

۲۳۔ عشاء کی نماز میں تاخیر:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ایک شب عشاء کی نماز میں رسول اﷲﷺ نے تاخیر کر دی اور یہ واقعہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کاہے پس آپﷺ نہیں نکلے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ نے آپﷺ سے آ کر کہا کہ عورتیں اور بچے سو رہے ہیں۔ پس آپﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ زمین والوں میں سوائے تمہارے کوئی اس نماز کا منتظر نہیں۔سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرے وہ ساتھی جو کشتی میں میرے ہمراہ آئے تھے، بقیع بطحال میں اترے ہوئے تھے اور نبیﷺ مدینہ میں تھے۔ایک دن ہم سب نبیﷺ کے پاس گئے اور آپﷺ کو اپنے کام میں مصروفیت تھی لہٰذا عشاء کی نماز میں آپﷺ نے تاخیر کر دی یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ اس کے بعد نبیﷺ باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔

۲۴۔دو ٹھنڈی نمازیں جنت میں داخلہ کا سبب:

سیدنا ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔

۲۵۔ فجر اور عصر کی نماز کے بعد نفل نماز نہ پڑھو:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میرے سامنے امیر المومنین حضرت عمرؓ نے یہ بیان کیا کہ رسول اﷲﷺ نے صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے، نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

۲۶۔طلوع و غروبِ آفتاب: نماز نہ پڑھنا:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم اپنی نمازیں طلوع آفتاب کے وقت ادانہ کرو اور نہ ہی غروبِ آفتاب کے وقت۔سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آفتاب کا کنارہ نکل آئے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے اور جب آفتاب کا کنارہ چھپ جائے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ پورا آفتاب چھپ جائے۔

۲۷۔قضا نماز کے لیے اذان کہنا:

سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک شب نبیﷺ کے ہمراہ سفر کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ کاش آپﷺ اخیر شب میں معہ ہم سب لوگوں کے آرام فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم نماز فجر سے غافل ہو کرسو جاؤ۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ بولے کہ میں تم سب کو جگا دوں گا۔ لہٰذا سب لوگ لیٹے رہے اور سیدنا بلالؓ اپنی پیٹھ اپنی اونٹنی سے ٹیک کر بیٹھ گئے مگر ان پر بھی نیند غالب آ گئی اور وہ بھی سوگئے۔ پس نبیﷺ ایسے وقت بیدار ہوئے کہ آفتاب کا کنارہ نکل آیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا اے بلالؓ ! تمہارا کہنا کہاں گیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ایسی نیند میرے اوپر کبھی نہیں ڈالی گئی۔ آپ نے فرمایا سچ ہے اﷲ نے تمہاری جانوں کو جس وقت چاہا قبض کر لیا اور جس وقت چاہا واپس کیا، اے بلالؓ ! اٹھو اور لوگوں میں نماز کے لیے اذان دے دو پھر آپﷺ نے وضو فرمایا اور جب آفتاب بلند ہو گیا اور سفید ہو گیا تو آپؐ کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھی۔

۲۸۔غزوۂ خندق میں عصر کی نماز کا قضا ہونا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ غزوۂ خندق میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اپنی قیام گاہ سے حاضر ہوئے اور کفارِ قریش کو برا کہنے لگے اور کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! میں عصر کی نماز نہ پڑھ سکا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ واﷲ میں نے بھی عصر کی نماز ابھی تک نہیں پڑھی۔ پھر ہم مقامِ بطحان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپﷺ نے نماز کے لئے وضو فرمایا اور ہم سب نے بھی نماز کے لئے وضو کیا پھر آپﷺ نے عصر کی نماز آفتاب غروب ہو جانے کے بعد پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

۲۹۔ نماز بھول جانا:جب یاد آئے پڑھ لے:

سیدنا انس بن مالکؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جو شخص کسی نماز کو بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے، پڑھ لے۔ اس کا کفارہ یہی ہے۔

۳۰۔ اصحابِ صفہؓ کی ضیافت:

سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحابِ صفہ کچھ غریب لوگ تھے اور نبیﷺ نے فرما دیا تھا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ ان میں سے تیسرے کو لے جائے۔ اور اگر چار کا ہو تو پانچواں یا چھٹا ان میں سے لے جائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ تین آدمی لے گئے اور نبیﷺ دس افراد لے گئے۔

۳۱۔صدیقِ اکبرؓ کی ضیافت:کھانا بڑھ گیا:

حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ کے ہاں رات کا کھانا کھایا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء کی نماز پڑھی اور قدرے تاخیر سے اپنے گھر لوٹے تو بیوی نے کہا کہ آپ کو آپ کے مہمانوں سے کس نے روک لیا تھا؟ تو وہ بولے کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر وہ نہیں مانے یہاں تک آپ آ جائیں۔ پس ابوبکر صدیقؓ نے بہت سخت سست کہا اور مہمانوں سے کہا کہ تم خوب سیر ہو کر کھاؤ۔ اﷲ کی قسم میں ہرگز نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم ہم جب کوئی لقمہ لیتے تھے تو اس کے نیچے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ پھر جب سب مہمان آسودہ ہو گئے اور کھانا جس قدر پہلے تھا اس سے زیادہ رہ گیا تو ابوبکر صدیقؓ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اسی قدر تھا جیسا کہ پہلے تھا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔


٭٭٭

۱۱۔کتاب الاذان


۱۔اذان کی ابتداء کیسے ہوئی:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تھے تو نماز کے لیے وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دن مسلمانوں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ کوئی اعلان ضرور ہونا چاہیے تو بعض نے کہا کہ نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس بنا لو اور بعض نے کہا کہ یہود کے بگل کی طرح ایک بگل بنا لو۔ پس سیدنا عمرؓ نے کہا کہ کیوں نہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے کہ وہ الصلوٰۃ الصلوٰۃ پکار دیا کرے۔ پس رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ بلالؓ اٹھو اور نماز کی اطلاع کرو۔

۲۔ اذان کی آواز سے شیطان کا دور بھاگنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جب نماز کی اذان کہی جاتی ہے تو شیطان تیزی سے بھاگتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو پھر سامنے آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب نماز کی اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے حتیٰ کہ جب اقامت بھی مکمل ہو جاتی ہے تو پھر سامنے آ جاتا ہے تاکہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان وسو سے ڈالے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ وہ باتیں جو اس کو یاد نہ تھیں۔

۳۔اذان دیتے وقت آواز بلند کرنا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب اذان کہو تو اپنی آواز بلند کرو اس لئے کہ موذن کی دُور کی آواز کو بھی جو کوئی جن یا انسان یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔

۴۔ اذان سن کر قتال و خونریزی بند کرنا:

سیدنا انسؓ رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپﷺ ہمارے ساتھ کسی قوم سے جہاد کرتے تو ہم سے لوٹ مار نہ کرواتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور آپﷺ انتظار کرتے۔ پس اگر اذان سن لیتے تو ان لوگوں کے قتل سے رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے۔

۵۔ اذان سن کر کیا کہنا چاہیئے ؟:

سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم اذان کی آواز سنو تو اسی طرح کہو جو موذّن کہہ رہا ہے۔سیدنا امیر معاویہؓ نے اذان کے جواب میں اَشْہَدْ اَنَّ مُحَمَّدً ا رَسُوْلُ اﷲِ تک اذان کی طرح کہا اور جب موذّن نے حیَّ علی الصَّلَاۃ کہا تو انہوں نے لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کہا اور کہا کہ میں نے نبیﷺ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔

۶۔ اذان کے بعد کی دعا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ دعا پڑھے کہ (ترجمہ) ’’ اے اﷲ، اے میرے پروردگار! اس کامل دعا اور قائم ہونے والی نماز کو قبول فرما اور ہمارے سردار محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عنایت فرما اور انہیں اس مقامِ محمود میں اٹھانا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ‘‘ تو اس کو قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔

۷۔ اذان دینے کا ثواب:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ جان لیں کہ اذان میں اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے اور قرعہ ڈالے بغیر اسے نہ پائیں تو ضرور قرعہ ڈالیں اور اگر جان لیں کہ اوّل وقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو بے شک سبقت کریں اور اگر جان لیں کہ عشاء اور صبح کی نماز با جماعت ادا کرنے میں کیا ثواب ہے تو ضرور ان دونوں کی جماعت میں آئیں اگرچہ گھٹنوں کے بل چل سکیں۔

۸۔نابینا شخص کا اذان دینا:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ بلالؓ رات کو(تہجد کی) اذان دیتے ہیں پس تم لوگ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابنِ اُمّ مکتومؓ (فجر کی)اذان دے دیں۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابنِ اُمّ مکتومؓ نابینا آدمی تھے وہ اذان نہ دیتے تھے یہاں تک کہ لوگ کہتے کہ صبح ہو گئی صبح ہو گئی۔

۹۔نمازِ فجر سے قبل دو رکعتیں پڑھنا:

اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب صبح کی اذان ہو جاتی تو دو رکعتیں ہلکی سی فرض کے قائم ہونے سے پہلے پڑھ لیتے تھے۔

۱۰۔بلالؓ کا نمازِ تہجد کے لیے اذان دینا:

سیدنا ابن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کو بلالؓ کی اذان اس کی سحری سے باز نہ رکھے اس لئے کہ وہ رات کو اذان کہہ دیتے ہیں تاکہ تم میں سے تہجد پڑھنے والا فراغت کر لے۔یا تم میں سے سونے والے کو بیدار کر دیں۔ اس لیے نہیں ہے کہ کوئی شخص کہے کہ صبح ہو گئی ہے۔

۱۱۔اذان و اقامت کے درمیان نفل نماز پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن مُغفل مزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہر دو اذانوں کے درمیان میں ایک نماز کا فصل ہے۔ آپﷺ نے ایساتین مرتبہ کہہ کر فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ نبیﷺ نے دو مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان ایک نماز ہے پھر تیسری مرتبہ فرمایا اگر کوئی چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔

۱۲۔ ایک ہی موذّن کا اذان دینا:

سیدنا مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس آئے اور ہم بیس شب و روز آپﷺ کی خدمت میں رہے اور رسول اﷲﷺ نرم دل مہربان تھے جب آپﷺ نے خیال کیا کہ ہم کو اپنے گھر والوں کے پاس پہنچنے کا اشتیاق ستا رہا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ واپس لوٹ جاؤ اور ان ہی لوگوں میں رہو اور ان کو تعلیم دو اور اچھی باتوں کا حکم دو اور نماز قائم کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سے سب سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔

۱۳۔خراب موسم: اذان کے بعد اضافی جملہ کہنا:

سیدنا ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیؐ سردی یا بارش کی رات میں جب سفر میں ہوتے تو موذّن کو حکم دے دیتے تھے کہ وہ اذان کے بعد یہ کہہ دے کہ ’’ اپنی اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھ لو ‘‘ اور جماعت کے لیے نہ آؤ۔‘‘

۱۴۔جماعت کی کچھ رکعتوں کا چھوٹ جانا:

سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپﷺ نے کچھ لوگوں کی آواز سنی۔ پس جب آپﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ یعنی یہ شور کیوں ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے نماز کے لیے بہت جلدی کی۔ آپﷺ نے فرمایا اب ایسا نہ کرنا۔ جب تم نماز کے لیے آؤ تو نہایت اطمینان سے آؤ پھر جس قدر نماز پاؤ اس قدر پڑھ لو اور جس قدر تم سے جاتی رہے اس کو پورا کر لو۔

۱۵۔ اقامت کے وقت امام کو دیکھ کر کھڑے ہونا:

سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔

۱۶۔ اقامت کے بعد امام کا ضرورتاً تاخیر کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کی اقامت ہو گئی اور نبیﷺ مسجد کے ایک گوشہ میں کسی شخص سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے پس آپﷺ نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے۔

۱۷۔نماز با جماعت کا واجب ہونا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یقیناً میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیوں کو جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لیے حکم دوں کہ اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں کچھ لوگوں کی طرف جاؤں اور ان کے گھروں کو ان پر جلادوں۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ فربہ ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا تو یقیناً عشاء کی نماز میں ضرور آئے۔

۱۸۔ با جماعت نماز ۲۷ درجہ افضل ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جماعت کی نماز،تنہا نماز پر ستائیس درجہ ثواب میں زیادہ ہے۔

۱۹۔نمازِ فجر: دن ا ور رات کے فرشتوں کا یکجا ہونا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ فرماتے تھے کہ جماعت کی نماز تم میں سے کسی کی تنہا نماز سے پچیس درجے ثواب میں زیادہ ہے اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں یکجا ہوتے ہیں۔

۲۰۔دور سے مسجد آنے کا ثواب زیادہ ہے:

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ ثوابِ نماز کے حقدار دہ وہ لوگ ہیں جن کی مسافت مسجدسے دور ہے۔اسی طرح امام کے ہمراہ پڑھنے کی خاطر نماز کا منتظر رہنے والا اُس شخص سے جو جلدی سے نماز پڑھ کے سو جاتا ہے، زیادہ ثواب پائے گا۔

۲۱۔ ڈوب کریا طاعون سے مرنے والا شہید ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو معاف کر دیا پھر آپﷺ نے فرمایا کہ شہید پانچ لوگ ہیں جو طاعون میں مرے اور جو پیٹ کے مرض میں مرے اور جو ڈوب کر مرے اور جو دب کر مرے اور جو اﷲ کی راہ میں شہید ہے۔

۲۲۔مسجد جاتے وقت ہر قدم کا ثواب ملتا ہے:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں بنی سلمہ نے یہ چاہا کہ اپنے مکانوں سے اٹھ کر نبیﷺ کے قریب کہیں قیام کریں تو نبیﷺ نے اس بات کو بُرا سمجھا کہ مدینہ کو ویران کر دیں پس آپﷺ نے فرمایا کہ اے بنی سلمہ! کیا تم اپنے قدموں سے چل کر مسجد میں آنے میں ثواب نہیں سمجھتے ؟۔

۲۳۔منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز گراں گزرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ کوئی نماز منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ گراں نہیں گزرتی۔ اور اگر وہ یہ جان لیں کہ ان دونوں کے وقت پر پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو ضرور ان میں آئیں اگر چہ گھٹنوں کے بل چل کر آئیں۔

۲۴۔۷ آدمیوں کو اﷲ اپنے سائے میں لے لے گا:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا سات آدمیوں کو اﷲ اپنے سائے میں لے لے گا کہ جس دن سوائے اﷲ کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (۱) عادل حاکم۔ (۲) وہ نوجوان جو اپنے پروردگار کی عبادت میں بچپن سے بڑا ہوا ہو۔ ( ۳) وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو۔ ( ۴) وہ دو اشخاص جو باہم صرف اﷲ کے لیے دوستی کریں۔ (۵) وہ شخص جسے کوئی منصب اور جمال والی عورت (بدکاری کے لیے ) بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں۔( ۶) وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ اس کا داہنا ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے۔( ۷) وہ شخص جو خلوت میں اﷲ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسووں سے تر ہو جائیں۔

۲۵۔صبح و شام مسجد جانے کی فضیلت:

سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص صبح شام دونوں وقت مسجد میں جائے اﷲ اس کے لیے جنت سے اس کی مہمانی مہیا کرے گا جس قدر بھی گیا ہو گا۔

۲۶۔بعد اقامت فرض کے علاوہ کوئی نماز نہیں:

سیدنا عبداﷲ بن مالک بن بحینہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کو دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا حالانکہ اقامت ہو چکی تھی۔ رسول اﷲﷺ نے اُس شخص سے فرمایا کہ کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں، کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں ؟

۲۷۔ حالتِ بیماری میں حضورؐ کا مسجد میں آنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ اپنے اس مرض میں جس میں آپﷺ نے وفات پائی، مبتلا ہوئے اور نماز کا وقت آیا اور اذان ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ آپﷺ سے عائشہؓ نے عرض کیا کہ ابوبکرؓ نرم دل آدمی ہیں تو جب آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو شدتِ غم سے وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ دوبارہ آپﷺ نے فرمایا لیکن پھر وہی عرض کیا گیا۔ تیسری بار آپﷺ نے پھر حکم فرمایا اور فرمایا کہ تم تو یوسفؑ کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو؟ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں چنانچہ ابوبکرؓ نماز پڑھانے چلے گئے۔ پھر نبیﷺ نے اپنے آپ میں کچھ خفت (مرض کی) پائی تو آپﷺ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے۔ پس سیدنا ابوبکرؓ نے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں تو نبیﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپﷺ لائے گئے یہاں تک کہ ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ نبیﷺ نماز پڑھتے تھے اور ابوبکر صدیقؓ آپﷺ کی نماز کی اقتدا کرتے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی نماز کی اقتدا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ ابوبکر صدیقؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور ابوبکر صدیقؓ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے۔

۲۸۔عائشہ صدیقہؓ کا اعزاز:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ بیمار ہوئے اور مرض بڑھ گیا تو آپؐ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ میرے گھر میں آپﷺ کی تیمار داری کی جائے تو سب نے اجازت دے دی۔

۲۹۔خراب موسم،جمعہ کی نماز اور حضورؐ کی سنت:

سیدنا ابن عباسؓ نے ایک دفعہ بارش والے دن میں جمعہ کا خطبہ پڑھا اور موذّن کو جب وہ حیّ علی الصلوٰۃ پر پہنچا یہ حکم دیا کہ کہہ دے اَلصَّلٰاۃُ فِی الرِّحالِ ( اپنی اپنی جگہ پر نماز ادا کر لو) تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے گویا کہ انہوں نے اس کو بُرا سمجھا تو سیدنا ابن عباسؓ نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اس کو بُرا سمجھا ہے تو بے شک اس عمل کو اُس نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی نبیﷺ نے۔ بے شک جمعہ واجب ہے اور مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ تمہیں حرج میں ڈالوں کہ تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے آؤ۔

۳۰۔چاشت کی نماز اور سنتِ رسولﷺ:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک موٹے شخص نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ میں معذور ی کے سبب آپﷺ کے ہمراہ نماز نہیں پڑھ سکتا چنانچہ اس نے آپﷺ کو اپنے مکان میں بلایا اور آپﷺ کے لئے چٹائی بچھا دی اور چٹائی کے ایک کنارے کو دھو دیا تو اس پر آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اتنے میں آلِ جارود میں سے ایک شخص نے سیدنا انسؓ سے پوچھا کہ کیا نبیﷺ نماز چاشت پڑھا کرتے تھے ؟ تو سیدنا انسؓ نے کہا کہ میں نے سوائے اس دن کے کبھی آپﷺ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔

۳۱۔ کھانا سامنے آ جائے تونمازسے پہلے کھا لو:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب کھانا آگے رکھ دیا جائے تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنے کھانے میں عجلت نہ کرو۔

۳۲۔گھر یلو کام کاج کے دوران نماز کا وقت:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ سے پوچھا گیا کہ نبیﷺ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ وہ بولیں کہ اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے پھر جب نماز کا وقت آ جاتا تو آپﷺ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

۳۳۔ نماز سکھانے کے لیے دکھا کر نماز پڑھنا:

سیدنا مالک بن حویرثؓ نے کہا کہ میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں اور میرا مقصود نماز پڑھنا نہیں بلکہ جس طرح میں نے نبیﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح تمہارے دکھانے کو پڑھتا ہوں۔

۳۴۔ دورانِ نمازسبحان اﷲ کہنا اور تالیاں بجانا:

سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ بنی عمرو بن عوف کی طرف ان میں باہم صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ نماز کا وقت آ گیا تو موذّن کی درخواست پر صدیقِ اکبرؓ نماز پڑھانے لگے۔تو اتنے میں رسول اﷲﷺ تشریف لے آئے اور آپﷺ صفوں میں داخل ہوئے یہاں تک کہ پہلی صف میں جا کر ٹھہر گئے۔ لوگوں کے تالی بجانے پر صدیقِ اکبرؓ نے پیچھے دیکھا تو رسول اﷲﷺ کو پایا تو ابوبکر صدیقؓ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اﷲﷺ آگے بڑھ گئے اور آپﷺ نے نماز پڑھائی۔ پھر جب آپﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا سبب ہے کہ میں نے تم کو بکثرت تالیاں بجاتے دیکھا؟ دیکھو! جب کسی کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو اسے چاہیے کہ سبحان اﷲ کہہ دے کیونکہ وہ سبحان اﷲ کہہ دے گا تو اس کی طرف التفات کیا جائے گا اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لئے جائز ہے۔

۳۵۔نبیؐ کی بیماری میں ابو بکرؓ کا نماز پڑھانا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اﷲﷺ بیمار ہوئے تو آپﷺ نے پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں، اے اﷲ کے رسولﷺ ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے لئے طشت میں پانی رکھ دو،میں نہاؤں گا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ پس آپﷺ نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش میں آئے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو کہلا بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ حضرت عمرؓ سے بولے کہ اے عمرؓ ! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو سیدنا عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں تب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان دِنوں میں نماز پڑھائی۔

۳۶۔ امام کے پیچھے مقتدی کب سجدہ کرے ؟

سیدنا بَراء بن عازبؓ نے بیان کیا کہ جب نبیﷺ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ اس وقت تک نہ جھکاتا جب تک کہ نبیﷺ سجدہ میں نہ چلے جاتے آپﷺ کے بعد ہم لوگ سجدے میں جاتے تھے۔

۳۷۔ امام سے پہلے سراٹھانا گناہ عظیم ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے تو کیا وہ اس بات کا خوف نہیں کرتا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سا سر بنا دے ؟

امیر کی اطاعت کا حکم:

۳۸۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ کوئی حبشی ہی تم پر حاکم بنا دیا جائے اور جس کا سر سوکھے انگور کے برابر ہو۔

۳۹۔ امام کی غلطی کا گناہ مقتدی پر نہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ تمہیں نماز پڑھاتے ہیں اگر ٹھیک ٹھیک پڑھائیں گے تو تمہارے لئے ثواب ہے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو تمہارے لئے تو ثواب ہی ہے اور ان پر گناہ ہے۔

۴۰۔ امام کی طویل قرأت :مقتدی کا نماز چھوڑ نا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ نبیﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھتے اس کے بعد گھر واپس جاتے تو اپنی قوم کی امامت کرتے۔ایک مرتبہ انہوں نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی تو ایک شخص نماز چھوڑ کر چل دیا۔ سیدنا معاذؓ کو اس سے رنج رہنے لگا۔ یہ خبر نبیﷺ کو پہنچی تو آپ نے معاذؓ سے تین مرتبہ فرمایا ’’ فَتَّانً ‘‘ ’’ فَتَّانً ‘‘ (یعنی لوگوں میں فتنہ ڈالنے والا) اور آپﷺ نے معاذؓ کو وسط مفصل کی دو سورتوں کے پڑھنے کا حکم دیا۔

۴۱۔امام کو قیام میں تخفیف کرنا چاہیے:

سیدنا ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! اﷲ کی قسم میں صبح کی نماز سے صرف فلاں شخص کی باعث پیچھے رہ جاتا ہوں کیونکہ وہ ہماری نماز میں طول دیتا ہے۔ پس میں نے رسول اﷲﷺ کو کبھی نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں کچھ لوگ آدمیوں کو عبادت سے نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو شخص تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو چاہیے کہ وہ تخفیف کرے کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور صاحبِ حاجت بھی۔

۴۲۔بچے کے رونے کی آوازسن کر نماز کو مختصر کرنا:

سیدنا ابوقتادہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اس میں طول دوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز میں اختصار کر دیتا ہوں۔ اس امر کو بُرا سمجھ کر کہ میں اس کی ماں کی تکلیف کا باعث ہو جاؤں گا۔

۴۳۔امام کا مقتدیوں کی صفوں کو بَرابَر کرانا:

سیدنا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ صفوں کو بَرابَر کر لو ورنہ اﷲ تعالیٰ تمہارے چہروں میں تغیر کر دے گا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنی صفوں کو درست کر لو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ اس لئے کہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔

۴۴۔اگر امام اور مقتدی کے درمیان سترہ ہو

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نمازِ شب (تہجد) اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے اور حجرے کی دیوار چھوٹی تھی تو لوگوں نے نبیﷺ کا جسم دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپﷺ کی نماز کی اقتداء کرنے کھڑے ہو گئے پھر صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔دو تین رات لوگوں نے یہی کیا یہاں تک کہ جب اس کے بعد رات ہوئی تو رسول اﷲﷺ بیٹھ رہے اور نماز پڑھنے نہیں نکلے۔ صبح کو لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس بات کا خوف کیا کہ اس التزام کی وجہ سے کہیں نمازِ شب تم پر فرض نہ کر دی جائے۔اسی واقعہ میں سیدنا زید بن ثابتؓ مزید روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ صبح کو تشریف لائے تو فرمایا کہ میں نے جو تمہارا فعل دیکھا اور سمجھ لیا کہ تم کو عبادت کا شوق ہے۔ تو اے لوگو! سوائے فرض نماز کے،اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ آدمی کی نفل نمازوں میں افضل نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ادا ہو۔


٭٭٭

۱۲۔کتاب صفۃ الصلاۃ (نماز کی صفتوں کا بیان)


۱۔رکوع میں رفع الیدین کرنا:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں یعنی کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہتے اور دونوں سجدوں میں یہ عمل(رفع الیدین) نہ کرتے تھے۔

۲۔نماز میں دایاں ہاتھ،بائیں کلائی پر رکھنا:

حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کا لوگوں کو حکم تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں۔

۳۔تکبیر اور قرأت کے درمیان سکوت:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اور امیر المومنین ابوبکر صدیق و عمر فاروقؓ ، نماز کی ابتداء (یعنی جہر، بلند آواز سے قرأت کا آغاز) اَلْحْمدُﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ تکبیر اور قرأت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! تکبیر اور قرأت کے مابین سکوت کرنے میں آپﷺ کیا پڑھتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں (ترجمہ) اے اﷲ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کر دیا ہے، اے اﷲ! مجھے گناہوں سے پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اﷲ! میرے گناہوں کو پانی اور بَرف اور اولوں سے دھو ڈال۔

۴۔ نماز میں امام کی طرف نظر اٹھانا:

سیدنا خبابؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اﷲﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں کچھ پڑھتے تھے ؟ خبابؓ نے کہا ہاں۔ پوچھا گیا کہ آپ یہ بات کس طرح سمجھتے تھے ؟ تو حضرت خبابؓ نے فرمایا کہ آپﷺ کی ڈاڑھی مبارک کے ہلنے سے۔

۵۔ نماز میں آسمان کی طرف نظر نہ اُٹھانا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ اپنی نماز میں اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ؟ پس اس کے بارے میں آپﷺ کی گفتگو بہت سخت ہو گئی یہاں تک کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اس سے باز آئیں ورنہ ان کی بینائیاں لے لی جائیں گی۔

۶۔ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے رسول اﷲﷺ سے سوال کیا کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ شیطان کی جھپٹ ہے وہ آدمی کی نماز پر ایک جھپٹ مارتا ہے۔

۷۔سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی:

سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔

۸۔نماز اطمینان و سکون سے ادا کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لے گئے۔ اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبیﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جانماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ پس وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسی کہ اس نے پہلے پڑھی تھی، پھر واپس آیا اور نبیﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے فرمایا جانماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی ایسا تین مرتبہ ہوا تب وہ بولا کہ ’’ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس سے بہتر نماز ادا نہیں کر سکتا لہٰذا آپﷺ مجھے تعلیم کر دیجئے ‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو۔اس کے بعد جو تمہارے پاس قرآن موجود ہو اس کو پڑھو۔ پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہو جاؤ۔ پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں اطمینان سے ہو جاؤ۔ پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔

۹۔پہلی رکعت میں لمبی اور دوسری میں چھوٹی سورۃ:

سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور کوئی اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں لمبی قرأت کرتے تھے اور دوسری میں اس سے چھوٹی سورت پڑھتے۔ کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے اور عصر کی نماز میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دو سورتیں، پہلی رکعت میں لمبی اور دوسری میں اس سے چھوٹی سورت۔ نمازِ صبح میں بھی پہلی رکعت میں بڑی سورت اور دوسری رکعت میں اس سے چھوٹی سورت پڑھتے تھے۔سیدنا زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو مغرب کی نماز میں دو بڑی سورتوں میں سے ایک بڑی سورۃ پڑھتے ہوئے سنا۔

۱۰۔ نماز مغرب میں تلاوت بلند آواز کرنا:

سیدنا جبیر بن مطعمؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو مغرب میں سورۂ وَالطُّوْرِ پڑھتے سنا۔

۱۱۔ نماز عشاء میں سجدے والی سورت پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابو القاسمﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے اِذَا اسَّمَآء انْشَقَّتْ پڑھی اور اس سورۃ کے فلاں مقام پر سجدہ کیا لہٰذا میں ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ ان سے مل جاؤں۔ سیدنا برائؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی سفر میں تھے اور آپﷺ نے عشاء کی نماز میں وَالتّْینِ وَالزَّیْتُوْنِ پڑھی۔ اور ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے زیادہ خوش آواز یا اچھا پڑھنے والا نہیں سنا۔

۱۲۔ نماز: صرف سورۃ فاتحہ پڑھنا بھی کافی ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ تما م نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے پھر جن نمازوں میں رسول اﷲﷺ نے بلند آواز سے پڑھ کر ہمیں سنایا ان میں ہم بھی تم کو سناتے ہیں اور جن میں آہستہ آواز سے پڑھ کر ہم سے چھپایا ان میں ہم بھی تم سے چھپاتے ہیں۔ اور اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھو تو بھی کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لو تو بہتر ہے۔

۱۳۔جنوں پر شہابِ ثاقب پھینکا جانا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ اپنے چند اصحاب کے ہمراہ سوقِ عکاظ کی طرف گئے۔اس وقت شیاطین کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حجاب کیا جاچکا تھا اور ان پر شہابِ ثاقب پھینکے جاتے تھے۔ پس شیاطین اپنی قوم کے پاس لوٹ آئے۔ قوم نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ اس مرتبہ کوئی خبر نہیں لائے تو شیاطین نے کہا ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان میں کسی ایسی چیز نے حجاب پیدا کر دیا ہے جو ابھی ظاہر ہوئی ہے لہٰذا زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں سفر کرو اور دیکھو کہ وہ کیا چیز ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اس تلاش میں نکلے تو جو لوگ ان میں سے تہامہ کی طرف آئے تھے وہ نبیﷺ کے پاس آئے۔ آپﷺ اس وقت اپنے اصحاب کے ہمراہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب ان جنّوں نے قرآن کو سنا تو اس کو سنتے ہی رہ گئے۔ کہنے لگے کہ اﷲ کی قسم یہی ہے جس نے تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حجاب ڈال دیا۔ پس وہیں سے جب اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے تو کہنے لگے کہ اے ہماری قوم! ’’ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی راہ بتاتا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے اور اب ہم ہرگز اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہ بنائیں گے ‘‘ (سورۂ الجن: ۷۲)

۱۴۔نمازوں میں قرأت و سکوت کا حکم:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو جن نمازوں میں حکم دیا گیا ان میں آپﷺ نے قرأت کی اور جن میں حکم نہیں دیا گیا ان میں سکوت کیا اور ’’ تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے ‘‘ (کہ بھولے سے کوئی غلط حکم دے دے۔ سورۂ مریم : ۶۴) ’’ اور بے شک تم لوگوں کے لیے رسول اﷲﷺ (کے افعال و اقوال) میں ایک اچھی پیروی ہے ‘‘ (سورۂ الاحزاب: ۲۱)۔

۱۵۔ ایک رکعت میں دو سورتوں کا پڑھنا:
سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے رات کو مفصل سورت ایک رکعت میں پڑھی اور کہا کہ میں نے اس قدر جلد پڑھا جیسے شعر جلد پڑھا جاتا ہے۔ بے شک میں ان ہم شکل سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبیﷺ ایک ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے۔پھر اس نے مفصلی بیس سورتیں ذکر کیں کہ ان میں سے دو سورتیں ہر رکعت میں رسول اﷲﷺ پڑھا کرتے تھے۔

۱۶۔آخری۲رکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا:

سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں اور پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف اُمُّ الکتاب (یعنی سورۃ فاتحہ) پڑھتے تھے اور ہم کو کوئی آیت کبھی کبھی سنا دیتے تھے اور پہلی رکعت میں اس قدر طول دیتے تھے کہ دوسری رکعت میں نہ دیتے تھے اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں بھی۔

۱۷۔نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اس لئے کہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین سے مل جائے گی تو اس کے گناہ جو پہلے ہو چکے معاف کر دیئے جائیں گے۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو ملائکہ آسمان میں آمین کہتے ہیں

۱۸۔رکوع کرنے کا طریقہ:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے تھے۔ پھر جس وقت رکوع کرتے تھے تو تکبیر کہتے تھے۔پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے اور سَمعَ اﷲُلِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تھے۔ پھر کھڑے ہونے ہی کی حالت میں رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے تھے۔

۱۹۔ رکوع میں ہتھیلیوں کا گھٹنوں پر رکھنا:

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے ان کے بیٹے مصعب نے ان کے پہلو میں نماز پڑھی۔ مصعب کہتے ہیں میں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا لیا پھر ان دونوں کو اپنے گھٹنوں کے درمیان دبا لیا تو مجھے میرے والد نے منع کیا اور کہا کہ ہم اسی طرح کرتے تھے تو ہمیں اس سے منع کر دیا گیا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے ہاتھ رکوع میں گھٹنوں پر رکھیں۔

۲۰۔رکوع و سجود کا وقفہ یکساں ہونا:

سیدنا برائؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا رکوع اور آپﷺ کے سجدے اور سجدوں کے درمیان کی نشست اور وہ حالت جب کہ آپﷺ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے تقریباً برابر برابر ہوتے تھے سوائے قیام اور قعود کے کہ یہ طویل ہوتے تھے۔

۲۱۔حالتِ رکوع میں دعا کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ اپنے رکوع اور اپنے سجدوں میں کہا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔’’اے اﷲ! میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ اے ہمارے پروردگار! میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اﷲ! میرے گناہ معاف فرما دے ‘‘۔

۲۲۔ اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب امام سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم اَللَّہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہو۔جس کا قول ملائکہ کے قول کے موافق یعنی ہم آواز ہوا تو اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

۲۳۔آخری رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ بے شک میں نبیﷺ کی جیسی نماز کو قریب کر دوں گا یعنی جس طرح نبیﷺ نماز پڑھاتے تھے، میں بھی اسی طرح سے نماز پڑھاؤں گا۔ اور سیدنا ابو ہریرہؓ ظہر اور عشاء اور فجر کی نماز کی آخری رکعت میں سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ ٗ کہنے کے بعد قنوت (نازلہ) پڑھتے تو مسلمانوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے دور میں فجر اور مغرب کی نماز میں قنوت (نازلہ) پڑھا جاتا تھا۔

۲۴۔فرشتوں کا نیکی لکھنے میں سبقت کرنا:

سیدنا رفاعہ بن رافع زرقیؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو جب آپﷺ نے اپنا سر رکوع سے اٹھایا تو فرمایا سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ تو آپﷺ کے پیچھے ایک شخص نے کہا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْداً کَثِیْراً طیّباً سُّبَارَ کاًفِیْہِ تو آپﷺ جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کون بولنے والا تھا؟ اس شخص نے کہا کہ میں تھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس سے کچھ زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اس پر باہم سبقت کرتے تھے کہ ان میں کون اس کو پہلے لکھ لے۔

۲۵۔ رکوع سے اُٹھ کر اطمینان سے کھڑا ہونا:

سیدنا انسؓ نبیﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتے تھے تو وہ نماز پڑھ کر بتاتے تھے پس جس وقت وہ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو کھڑے ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ یقیناً آپ سجدے میں جانا بھول گئے۔

۲۶۔جب سجدہ کرے تو تکبیر کیساتھ جھکے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تھے تو سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد کہتے تھے اور کچھ آدمیوں کے نام لے کر دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اﷲ! ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو کفار مکہ کے پنجہ ظلم سے نجات دے۔ اے اﷲ! اپنا عذاب قبیلۂ مضر پرسخت کر دے اور اس کو ان پر قحط سالیاں بنا دے جیسے یوسفؓ کے دور کی قحط سالیاں ہیں۔ اس وقت (قبیلہ) مضر کے مشرقی لوگ آپﷺ کے مخالف تھے۔

۲۷۔روزِ حشر اللہ کا دیدار ہو گا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کیا تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں شک کرتے ہو، جب اس کے اوپر بادل نہ ہو؟ ن لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا تو کیا تم آفتاب کے دیکھنے میں شک کرتے ہو جب کہ اس کے اوپر ابر نہ ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں تو آپﷺ نے فرمایا پس تم اسی طرح اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔

۲۸۔چاند سورج کی پرستش کرنے والے:

قیامت کے دن لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو دنیا میں جس کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہولے۔ چنانچہ کوئی ان میں سے آفتاب کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے بتوں کے پیچھے ہو جائے گا اور یہ ایمان داروں کا گروہ باقی رہ جائے گا اور اسی میں اس امت کے منافق بھی شامل ہوں گے۔ پس اﷲ تعالیٰ اس صورت میں جس کو وہ نہیں پہچانتے، ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں تو وہ کہیں گے،ہم تجھے نہیں جانتے۔ ہم اس جگہ کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے پاس آ جائے اور جب وہ آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے۔

۲۹۔جہنم کی پشت پر بنے پل پر سے گزرنا ہو گا:

پھر اﷲ عزوجل ان کے پاس (اس صورت میں ) آئے گا (جس کو وہ پہچانتے ہیں ) اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں ؟ تو وہ کہیں گے ہاں تو ہمارا پروردگار ہے۔ پس اﷲ انہیں بلائے گا اور جہنم کی پشت پر (پل بنا کر) ایک راہ نکالی جائے گی تو تمام پیغمبر جو اپنی امتوں کے ساتھ (اس پل سے ) گزریں گے، ان سب میں سے پہلا میں ہوں گا۔

۳۰۔جہنمی آنکڑے بُرے لوگوں پر اُچکیں گے:

اور اس دن سوائے پیغمبروں کے کوئی بول نہ سکے گا اور پیغمبروں کا کلام اس دن اَللّٰہُمَّ سَلِّم سَلِّم ہو گا اور جہنم میں سعدا ن کے کانٹوں کے مشابہ آنکڑے ہوں گے، کیا تم لوگوں نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں ؟ صحابہؓ نے عرض کیا ہاں آپﷺ نے فرمایا تو وہ سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے سوائے اس کے کہ ان کی بڑائی کی مقدار سوائے اﷲ کے کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں پر ان کے اعمال کے موافق اچکیں گے تو ان میں سے کوئی اپنے اعمال کے سبب جہنم میں گر کر ہلاک ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے مارے زخموں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

۳۱۔ سجدوں کے نشان پر جہنم کی آگ حرام ہے:

جب اﷲ دوزخیوں میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو اﷲ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اﷲ کی پرستش کرتے تھے وہ نکال لئے جائیں۔ چنانچہ فرشتے انہیں نکالیں گے اور فرشتے انہیں سجدوں کے نشانوں سے پہچان لیں گے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔

۳۲۔ جہنمی مسلمانوں کو آگ سے نکالا جائے گا:

پس ابن آدم کے سوائے سجدوں کے نشان کے بقیہ کل جسم کو آگ کھا لے گی۔وہ آگ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر ان کے اوپر آب حیات ڈالا جائے گا تو اس کے پڑنے سے وہ ایسا نمو پکڑیں گے جیسے دانہ سیل کے بہاؤ میں اگتا ہے۔

۳۳۔جنت اور جہنم کے درمیان والا:

اس کے بعد اﷲ بندوں کے درمیان میں فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا اور ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان باقی رہ جائے گا اور وہ تمام دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا کہے گا کہ اے میرے پروردگار! میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے چونکہ مجھے اس کی ہوا نے زہر آلود کر دیا ہے اور مجھے اس کے شعلہ نے جلا دیا ہے۔ اﷲ فرمائے گا: اچھا! اگر تیرے ساتھ یہ احسان کر دیا جائے تو تُو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے ؟ وہ کہے گا کہ تیری بزرگی کی قسم نہیں کچھ نہیں مانگوں گا۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس شخص کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا پھر جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا تو اس کی تر و تازگی دیکھے گا تو کچھ دیر وہ آدمی چپ رہے گا۔ اس کے بعد کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے تو اﷲ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے وعدہ نہ کیا تھا کہ کچھ اور نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار! میں تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنوں۔ تو اﷲ فرمائے گا کہ اگر تجھے یہ بھی عطا کر دیا جائے تو تُو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ تیری بزرگی کی قسم !میں اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے گا۔ پس جب وہ جنت کے دروازے پر پہنچ جائے گا اور اس کی تر و تازگی اور سرور اس میں دیکھے گا تو کچھ دیر چپ رہنے کے بعد پھر کہے گا اے میرے پروردگار مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اﷲ عزوجل فرمائے گا کہ اے ابن آدم! تو کس قدر عہد شکن ہے۔ کیا تو نے وعدہ نہ کیا تھا کہ اور کچھ نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ کر۔ پس اﷲ تعالیٰ اس کی باتوں سے ہنسنے لگے گا اور خوش ہو گا۔ اس کے بعد اس کو جنت میں جانے کی اجازت دے دے گا۔

۳۴۔ سجدہ سات ہڈیوں کے بل کرنے کا حکم:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔وہ سات اعضاء یہ ہیں۔ پیشانی بمعہ ناک کی نوک کے۔ یہ بتاتے ہوئے رسول اﷲﷺ نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا۔ اور دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں۔

۳۵۔ طاق رکعتوں میں سیدھا بیٹھنا پھر کھڑا ہونا:

سیدنا مالک بن حویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا تو دیکھا کہ جب آپؐ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تھے تو جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے تھے، کھڑے نہ ہوتے تھے۔

۳۶۔ تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت تکبیر کہنا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز پڑھائی تو جس وقت انہوں نے اپنا سر پہلے سجدے سے اٹھایا اور دوسرا سجدہ کیا۔ اور جب دوسرے سجدے سے سر اٹھایا اور جب دو رکعتوں سے فراغت کر کے اٹھے تو ان سب مواقع پر بلند آواز سے تکبیر کہی اور کہا کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

۳۷۔ تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز میں بیٹھتے تو چار زانو بیٹھتے تھے۔ ان کے بیٹے نے بھی انہیں دیکھ کر ایسا ہی کیا تو عبداﷲ بن عمرؓ نے انہیں منع کیا اور کہا کہ نماز کا طریقہ تو یہی ہے کہ تم اپنا داہنا پیر کھڑا کر لو اور بایاں دہرا کر لو۔ بیٹے نے کہا آپ بھی تو ایسا کرتے ہیں تو وہ بولے کہ میرے پیر کمزور ہو گئے ہیں اور میرا وزن اٹھا نہیں سکتے۔

۳۸۔رسول اللہﷺ کی نماز کا طریقہ:

سیدنا ابو حمید ساعدیؓ سے روایت ہے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اﷲﷺ کی نماز یاد ہے میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ جب آپﷺ نے تکبیر تحریمہ پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی بلندی تک اٹھائے اور جب آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے پھر اپنی پیٹھ کو جھکا دیا اور جس وقت آپﷺ نے اپنا سر رکوع سے اٹھایا تو سیدھے ہو گئے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ پر چلی گئی اور جب آپﷺ نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھ دیئے نہ ان کو بچھایا اور نہ سمیٹا اور اپنے پیر کی انگلیاں آپﷺ نے قبلہ رخ کر لی تھیں پھر جس وقت آپﷺ دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے اور داہنے پیر کو آپﷺ نے کھڑا کر لیا پھر جب آخری رکعت میں بیٹھے تو آپﷺ نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا اور داہنے پیر کو کھڑا کر لیا اور اپنی سرین پر بیٹھ گئے۔

۳۹۔قعدہ اولیٰ بھول جانے پر سجدہ سہو کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن بحینہؓ کہتے ہیں اور وہ قبیلہ ازدِ شنوئَ ۃ کے ہیں اور بنی عبد مناف کے حلیف اور نبیﷺ کے اصحاب میں سے تھے کہ نبیﷺ نے ایک دن لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی تو بھولے سے پہلی دو رکعتوں کے اختتام پر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں تو لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب آپﷺ نماز مکمل کر چکے اور لوگ آپﷺ کے سلام پھیرنے کے منتظر ہوئے تو آپؐ نے بیٹھے ہی بیٹھے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے اس کے بعد سلام پھیرا۔

۴۰۔ دوسرے قعدہ میں تشہد پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم جب نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے تو قعدہ میں یہ پڑھا کرتے تھے کہ اﷲ پر سلام، جبریل پر سلام، میکائیل پر سلام اور فلاں پر سلام اور فلاں پر سلام تو ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا کہ اﷲ تو خود ہی سلام ہے تو اس پر سلام بھیجنے کی کیا ضرورت؟ پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو کہے (ترجمہ) ’’ تمام قولی، بدنی، اور مالی عبادتیں اﷲ کے لیے ہیں۔ اے نبی! تم پر سلام اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ہم پر سلام اور اﷲ تعالیٰ کے سب نیک بندوں پر سلام۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے ہیں اور اس کے پیغمبر ہیں ‘‘ کیونکہ جس وقت تم یہ کہہ دو گے تو یہ دعا اﷲ کے نزدیک ہر بندے کو پہنچ جائے گی خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں۔ اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔

۴۱۔عذابِ قبر اور قرض سے پناہ مانگنا:

حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے (ترجمہ) ’’ اے اﷲ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور دجال کے فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کی خرابی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اﷲ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپؐ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی قرض دار ہو جاتا ہے تو جب وہ بات کہتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔

۴۲۔نماز میں مانگنے کی دُعا:

امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمایئے جسے میں اپنی نماز میں مانگوں۔ تو آپﷺ نے فرمایا یہ پڑھا کرو کہ (ترجمہ) ’’ اے اﷲ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں پس تو مجھے اپنی رحمت سے معاف کر دے اور مجھ پر مہربانی کر بیشک تو معاف کرنے والا مہربان ہے ‘‘۔

۴۳۔نماز کے اختتام پر سلام پھیرنا:

اُمُّ المومنین اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ اختتامِ نماز پر جب سلام پھیرتے تو جس وقت آپﷺ اپنا سلام پورا کر چکتے تو عورتیں کھڑی ہو جاتی اور چل دیا کرتی تھیں۔ اور آپﷺ اپنے کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہر جایا کرتے تھے یعنی وہیں بیٹھے رہتے تھے۔

۴۴۔امام کے ساتھ مقتدی بھی سلام پھیر دے:

سیدنا عتبان بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیر دیا۔

۴۵۔ نماز کے بعد اﷲ کا ذکر کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوں تو اس وقت بلند آواز سے ذکر کرنا نبیﷺ کے دَورِ اقدس میں رائج تھا اور آپؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب میں سنتا تھا کہ لوگ ذکر کرتے ہوئے لوٹے ہیں تو میں نماز کے مکمل ہو جانے کو معلوم کر لیتا تھا۔

۴۶۔ سُبْحَانَ اﷲِ، الْحَمْدُﷲ اور اﷲ اَکْبَرُ پڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس کچھ فقیر آئے اور انہوں نے کہا کہ زیادہ دولت والے لوگ بڑے بڑے درجے اور دائمی عیش حاصل کر رہے ہیں وہ نماز پڑھتے ہیں جیسی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں۔غرض جو عبادت ہم کرتے ہیں وہ اس میں شریک ہیں۔ اور ان کے پاس مال و دولت کی زیادتی ہے جس سے وہ حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی بات نہ بیان کروں کہ اگر اس پر عمل کرو تو جو لوگ تم سے آگے نکل گئے ہوں تم ان کو پا لو اور تمہیں تمہارے بعد کوئی نہ پائے گا اور تم ان تمام لوگوں میں جن کے درمیان تم ہو بہتر ہو جاؤ گے سوائے اس کے جو اسی مثل عمل کرے۔ لہٰذا تم ہر نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اﷲِ، الْحَمْدُﷲِ اور ۳۴ مرتبہ اﷲ اَکْبَرُ پڑھا کرو۔

۴۷۔ امام سلام پھیر کر لوگوں کی طرف منہ کرے:

سیدنا سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب کوئی نماز پڑھ چکتے تھے تو اپنا منہ مبارک ہماری طرف کر لیا کرتے تھے۔

۴۸۔ ستاروں پر ایمان : اللہ کا انکار ہے:

سیدنا زید بن خالد جہنیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے حدیبیہ میں بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی اور لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ تمہارے پروردگار عزوجل نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ مومن بنے اور کچھ کافر۔ تو جن لوگوں نے کہا کہ ہم پر اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو ایسے لوگ میرے اوپر (یعنی اﷲ پر) ایمان لائے اور ستاروں (وغیرہ) کا انکار کیا اور جب لوگوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کے سبب سے بارش ہوئی تو وہ میرے (یعنی اﷲ تعالیٰ کے ) منکر ہوئے اور ستاروں پر ایمان لائے۔

۴۹۔ نماز کے بعد ضرورتاً لوگوں کو پھاند کر جانا:

سیدنا عقبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز پڑھی تو آپﷺ سلام پھیر کر عجلت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آدمیوں کی گردنیں پھاند کر اپنی کسی بیوی کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپﷺ کی اس قدر تیزی سے گھبرا گئے پھر آپﷺ اُن لوگوں کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپﷺ کی اس قدر تیزی کی وجہ سے متعجب ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے کچھ سونا یاد آ گیا تھا جو ہمارے ہاں رکھا ہوا تھا تو میں نے اس بات کو برا سمجھا کہ وہ مجھے اﷲ کی یاد سے روکے۔ لہٰذا میں نے اس کو تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔

۵۰۔نماز کے بعد دائیں اور بائیں گھومنا:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں سے خواہ مخواہ شیطان کا کچھ حصہ نہ لگائے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس پر ضروری ہے کہ نماز کے بعد صرف اپنی داہنی طرف کو گھومے۔ یقیناً میں نے نبیﷺ کو اکثر اپنی بائیں طرف کو گھومتے دیکھا ہے۔

۵۱۔کچے لہسن اور پیاز کھا کر مسجد نہ آؤ:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جو شخص اس درخت یعنی لہسن میں سے کھائے وہ ہماری مسجد میں ہم سے نہ ملے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کس قسم کا لہسن مراد ہے ؟ تو سیدنا جابرؓ بولے کہ میں یہی جانتا ہوں کہ کچا لہسن مراد ہے۔

۵۲۔رات میں عورتوں کا مسجدجانا:

سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب رات کے وقت تم سے تمہاری عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دو۔(واضح رہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ امارت میں فتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے خواتین کو مساجد میں آنے سے منع کر دیا تھا۔)


٭٭٭

۱۳۔کتاب الجمعۃ


۱۔نبیﷺ کی اُمت سب سے آگے ہو گی:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم با اعتبارِ ترتیبِ امم، سب امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں جانے میں سب سے آگے ہوں گے۔ ہاں یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے کتاب ضرور دی گئی تھی۔ جمعہ کے دن عبادت کرنا ان پر فرض کیا گیا تھا مگر انہوں نے اختلاف کیا۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت کر دی۔ پس سب لوگ اس بات میں ہم سے پیچھے ہیں۔ یہود ہفتہ کو اور نصاریٰ اتوار کے دن عبادت کریں گے۔

۲۔جمعہ کے دن غسل کرنا اور خوشبو لگانا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر بالغ پر جمعہ کے دن نہانا ضروری ہے اور یہ کہ مسواک کرے اور اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔

۳۔نماز جمعہ کی فضیلت کا بیان:

سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن خوب اچھی طرح غسل کرے اور نماز کے لیے چلے تو گویا اس نے ایک اونٹ کا صدقہ کیا جو دوسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی اور جو تیسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا اور جو چوتھی گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک مرغی صدقہ میں دی اور جو پانچویں گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک انڈا صدقہ میں دیا۔جب امام خطبہ پڑھنے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے اندر آ جاتے ہیں اور ثواب کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے۔

۴۔ جمعہ کی نماز کے لیے تیل لگا کر جا نا:

سیدنا سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، بالوں کو تیل لگائے، خوشبو استعمال کرے پھر اس کے بعد جمعہ کی نماز کے لیے نکلے اور مسجد کے اندر بیٹھے آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ پھر جس قدر اس کی قسمت میں ہو نماز پڑھے۔ امام کے خطبہ کے دوران چپ رہے تو اس کے اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیان کے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

۵۔جمعہ کے دن غسل کرنا اور سروں کو سنوارنا:

سیدنا ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن غسل کرو، اگرچہ جنابت نہ ہو اور اپنے سروں کو اچھی طرح سنوارو اگرچہ تم جنبی نہ ہو اور خوشبو کا استعمال کرو۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اس پر فرمایا کہ غسل تو ٹھیک ہے لیکن خوشبو کے متعلق مجھے علم نہیں۔

۶۔ ہر نماز کے وقت مسواک کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی امت پر اگر شاق نہ سمجھتا تو بے شک انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے مسواک کی فضیلتوں کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔

۷۔ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں کیا پڑھا جائے ؟:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور ہَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرَ (سورۂ دہر پارہ ۲۹) پڑھا کرتے تھے۔

۸۔سب اپنی اپنی رعیت کے ذمہ دار ہیں:

سیدنا ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تم سب لوگ مسول یعنی ذمہ دار ہو اور تم سب لوگوں سے تمہاری رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ امام بھی مسول ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت باز پرس ہو گی۔ مرد اپنے گھر میں مسول ہے اور اس سے اس کی رعیت کی باز پرس ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں مسولہ ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت باز پرس ہو گی اور خادم اپنے آقا کے مال میں مسول ہے اور اس سے اس کی اور رعیت کی بابت باز پرس ہو گی۔

۹۔اُمتِ محمدیؐ قیامت میں سب سے آگے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم با اعتبارِ ترتیبِ امم، سب اُمتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں جانے کے سبب، سب سے آگے ہوں گے۔

۱۰۔نمازِ جمعہ کے لیے دور دراز سے آنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے اطراف کے گاؤں سے نماز جمعہ میں آیا کرتے تھے۔ گردو غبار کی وجہ سے ان کے جسم پر غبار اور پسینہ ہوتا تھا۔ ایسے ہی ایک شخص سے رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کاش تم لوگ اس دن گرد و غبار اور بدبو سے صاف رہا کرتے۔

۱۱۔کام کاج کے بعد غسل کر کے نماز جمعہ پڑھنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے جاتے تو اپنی اسی حالت میں چلے جاتے تھے تو ان سے کہا گیا کہ کاش تم غسل کر لیا کرو۔

۱۲۔ سردیوں، گرمیوں میں نمازِ جمعہ:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کی نماز آفتاب کے ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب خوب سردی ہوتی تھی تو نبیﷺ جمعہ کی نماز سویرے پڑھتے تھے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو نماز کو ٹھنڈا کر کے یعنی ٹھنڈے وقت پڑھتے تھے۔

۱۳۔ نمازِ جمعہ کے لیے پیدل چل کر جانا:

سیدنا ابو عبسؓ نمازِ جمعہ کے لیے جا تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میں نے نبیﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : جس کے دونوں پیر اﷲ کی راہ میں غبار آلود ہو جائیں تو اس کو اﷲ نے دوزخ کی آگ پر حرام کر دیا ہے۔

۱۴۔کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھنا منع ہے:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ عرض کیا گیا کہ کیا صرف جمعہ میں ؟ فرمایا کہ جمعہ میں بھی اور اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی۔

۱۵۔امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اذانِ جمعہ دینا:

سیدنا سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن اذان نبیﷺ اور امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جائے۔پھر حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے اور مسلمان لوگ زیادہ ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے مدینہ کے ایک بازار زوراء کے مقام پر تیسری اذان بڑھا دی۔ سیدنا سائب بن یزیدؓ ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے عہد میں صرف ایک ہی موذن تھا اور وہ جمعہ کے دن کی اذان اسی وقت دیتا تھا جب امام اپنے منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔

۱۶۔ منبر پر بیٹھے امام کا اذان سن کر جواب دینا:

سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ سے روایت ہے کہ وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ موذن نے اذان کہی۔ تو جب اس نے کہا اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر معاویہؓ نے بھی کہا اﷲُ اکبر اﷲُ اکبر پھر موذن نے کہا اشہدُ ان الاَّ الہَ الاَّ اﷲ تو معاویہؓ نے کہا ’’ وَاَنَا ‘‘ موذن نے کہا اَشْہَدُ اَنَّ محمّد رسُول اﷲُ تو معاویہؓ نے کہا ’’ وَ اَنَا ‘‘ پھر اذان ختم ہو چکی تو معاویہؓ نے کہا کہ اے لوگو! میں نے رسول اﷲﷺ سے اسی منبر پر سنا کہ جب موذن نے اذان دی تو آپﷺ وہی فرماتے جاتے تھے جو تم نے میری گفتگو سنی۔

۱۷۔رسولﷺ سے دوری پر ستون کا رونا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ایک ستون تھا جس پر ٹیک لگا کر نبیﷺ کھڑے ہوتے تھے پھر جب آپﷺ کے لئے منبر رکھ دیا گیا تو ہم نے ستون سے دس ماہ حاملہ اونٹنی جیسی رونے کی آواز سنی یہاں تک کہ نبیﷺ منبر سے اترے اور اپنا ہاتھ اس ستون پر رکھا تب وہ آواز ختم ہو گئی۔

۱۸۔جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے اس کے بعد بیٹھ جاتے تھے۔ پھر کھڑے ہو جاتے تھے جیسا کہ تم اب کرتے ہو۔

۱۹۔قبیلہ انصار اور رسولﷺ کی ہدایت:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ لوگوں کے ساتھ اپنی آخری مجلس میں منبر پر چڑھے۔ آپﷺ کے شانوں پرایک بڑی چادر تھی اور سر مبارک پر ایک پٹی سی بندھی ہوئی تھی۔ آپﷺ نے لوگوں کو اپنے قریب بلایا اور فرمایا ’’ اما بعد! پس یہ قبیلہ انصار کم ہوتے جائیں گے اور دوسرے لوگ بڑھتے جائیں گے۔ لہٰذا جو شخص امت میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور وہ اختیار رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر یا کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اس کو چاہیئے کہ انصار میں سے نیکو کار کی نیکی کو قبول کرے اور ان میں بدکار کی بدی سے تجاوز کرے ‘‘۔

۲۰۔ دورانِ خطبہ امام کا تحیۃ المسجد کی ہدایت کرنا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا۔ اس وقت نبیﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے تو نبیﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ چکا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔

۲۱۔جمعہ کے خطبہ میں بارش کے لیے دعا مانگنا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط سالی پڑی تو جمعہ کے دن اس حالت میں کہ نبیﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے، ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ! مال تلف ہو گیا اور کنبہ بھوکا ہے۔ آپﷺ ہمارے لئے بارش کی دعا کیجئے۔ پس آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔اس وقت آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ مگر آپﷺ ابھی اپنے ہاتھوں کو سمیٹنے بھی نہ پائے کہ بادل پہاڑوں کی طرح چھا گیا، پھر آپﷺ اپنے منبر پر سے اترے نہیں کہ میں نے بارش کو آپؐ کی داڑھی مبارک پر ٹپکتے ہوئے دیکھا۔

۲۲۔بارش کی کثرت پر نبیﷺ کی منفرد دعا:

دوسرے جمعہ تک بارش برستی رہی تو جمعہ کے وقت پھر کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ بارش کی کثرت سے مکان گرگئے اور مال ڈوب گیا پس آپﷺ اﷲ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیے تو آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا ’’ اے اﷲ! ہمارے آس پاس مینہ برسا اور ہم پر نہ برسا‘‘ پھر آپﷺ بادل کے جس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ ہٹ جاتا تھا اور پورا مدینہ بادل سے صاف ہو کر مثل حوض کے ہو گیا اور وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینے تک بہتا رہا۔

۳۲۔ خطبہ جمعہ کے دوران چپ رہنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اگر جمعہ کے دن جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو اور تو اپنے پاس والے سے یہ کہے کہ چپ رہ تو بے شک تو نے لغو حرکت کی۔

۲۴۔ جمعہ کے روز دعا کی مقبولیت کی گھڑی:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا: اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس کو جو مسلمان بندہ پا جائے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرے گا۔

۲۵۔جمعہ میں لوگوں کا امام سے علیحدہ ہونا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں شام کی طرف سے قافلہ آیا جو غلہ لا دے ہوئے تھے۔ لوگ اس قافلے کی طرف متوجہ ہو گئے اور نبیﷺ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’ اور جب ان لوگوں نے کسی تجارت یا کھیل کو دیکھا تو اس کی طرف چل دیئے اور (اے نبیﷺ ) تمہیں خطبہ میں کھڑا چھوڑ دیا ‘‘ (الجمعہ: ۱۱)

۲۶۔ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد نہ پڑھتے تھے یہاں تک کے اپنے گھر لوٹ آتے اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔


٭٭٭

۱۴۔ کتاب صلاۃ الخوف


۱۔میدانِ جنگ میں نمازِ خوف کی ادائیگی:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے ہمراہ نجدؔ کی طرف جہاد کیا تو ہم دشمن کے مقابل جا پڑے۔ ہم نے ان لوگوں کے لیے صف بندی کی پھر رسول اﷲﷺ ہمیں نماز پڑھانے لگے تو ہم میں سے ایک گروہ آپﷺ کے سا تھ کھڑا ہوا اور دوسرا دشمن کے سامنے رہا۔ پھر رسول اﷲﷺ نے اپنے ساتھ والوں کے ہمراہ ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے اس کے بعد وہ لوگ (جو آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھے )، اس گروہ کی جگہ پر چلے گئے جس نے نماز نہ پڑھی تھی۔ اب دوسرا گروہ آیا تو رسول اﷲﷺ نے ایک رکعت ان کے یساتھ پڑھی اور دو سجدے کئے اس کے بعد سلام پھیر دیا پھر ان میں سے ہر شخص نے اکیلے ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے ادا کئے۔

۲۔ نمازِ خوف سوار ی پر بھی پڑھی جاسکتی ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ ایک دوسری روایت میں رسول اﷲﷺ کافر مان نقل فرماتے ہیں کہ اگر دشمن، مسلمان سپاہیوں سے زیادہ ہوں تو مسلمان سپاہی پیادہ اور سوار جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لیں۔

۳۔میدانِ جنگ میں دشمنوں کا خطرہ اور نماز:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب غزوۂ احزاب سے واپس ہوئے تو ہم سے فرمایا کہ کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں پہنچ کر۔جب عصر کا وقت راستہ ہی میں ہو گیا تو بعض لوگوں نے یہ کہہ کر نماز پڑھ لی کہ نبیﷺ کے منع کرنے کا یہ مطلب نہ تھا کہ نمازِ عصر کا وقت ہی نکل جائے۔یہ بات جان کر آپﷺ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔


٭٭٭

۱۵۔کتاب العیدین


۱۔عید کے دن تفریح کی غرض سے کھیلنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں تھیں جو بعاث کی لڑائی کا قصہ گا رہی تھیں پس رسول اﷲﷺ لیٹ رہے اور آپﷺ نے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر ابو بکر صدیقؓ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانی آلات نبیﷺ کے پاس؟ پس رسول اﷲﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو۔پھر جب ابوبکرؓ دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے ان دونوں لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا اور حبشی لوگ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اﷲﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تو یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپﷺ نے مجھ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپﷺ کے رخسارکے ساتھ مَس کر رہا تھا۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ۔

۲۔نمازِ عید الفطر سے پہلے کچھ کھا لینا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ عیدالفطر کے روز دن نہ چڑھنے دیتے تھے اور نمازِ عید سے پہلے چند کھجوریں کھا لیتے تھے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ طاق کھجوریں کھاتے تھے۔

۳۔ عید قرباں پر پہلے نماز پھر قربانی:

سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو خطبہ میں فرماتے ہوئے سنا کہ ہم اپنے اس عید کے دن سب سے پہلے نماز پڑھیں۔ اس کے بعد واپس آ کر قربانی کریں۔ پس جو کوئی ایسا کرے گا وہ ہماری سنت کی راہ پر پہنچ جائے گا۔

۴۔نمازِ عید سے قبل کی گئی قربانی کی حقیقت:

سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے عید الضحیٰ کے دن نماز کے بعد خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کی قربانی نہیں ہے۔ پس ابو بردہ بن نیار، برائؓ کے ماموں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے قربان کی ہے اور نماز سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہے (قربانی کی نہیں ہے ) تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ہمارے پاس ایک بھیڑ کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ پیارا ہے تو کیا وہ مجھے کفایت کر جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور تمہارے بعد کسی کو کفایت نہ کرے گا۔

۵۔نمازِ عیدین کے لیے اذان نہیں:

سیدنا ابن عباس اور جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کے عہد میں عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن نمازِ عید کی اذان نہ کہی جاتی تھی۔

۶۔عید ین میں عید کی نماز کے بعد خطبہ دینا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز رسول اﷲﷺ اور امیر المومنین ابو بکرو عمر و عثمانؓ کے ساتھ پڑھی۔ یہ سب لوگ خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔

۷۔ایام تشریق میں عبادت کی فضیلت:

سیدنا ابن عباسؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ایّام تشریق کے دس دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا جہاد بھی نہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو جہاد میں اپنی جان اور مال پیش کرتا ہوا نکلا پھر کسی چیز کو لے کر نہ لوٹا۔

۸۔ تکبیر اور تلبیہ کہنا:

سیدنا انسؓ سے تلبیہ کی بابت پوچھا گیا کہ تم نبیﷺ کے ہمراہ کس طرح کیا کرتے تھے ؟ سیدنا انسؓ نے کہا کہ تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہہ لیتا تھا اسے ممانعت نہ کی جاتی تھی اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہہ لیتا تھا تو اسے بھی ممانعت نہ کی جاتی تھی۔

۹۔عیدگاہ میں قربانی اور واپسی پرراستہ بدلنا:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اونٹ کی یا کسی اور جانور کی قربانی عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک راستے سے عیدگاہ جاتے اور دوسرے راستے سے واپس آتے۔


٭٭٭

۱۶۔کتاب الوتر


۱۔نمازِ وتر کے بارے میں:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نمازِ شب کی بابت پوچھا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ نمازِ شب کی دو دو رکعتیں ہیں۔ پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا خوف ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت جس قدر نماز وہ پڑھ چکا ہے سب کو وتر بنا دے گی۔

۲۔نمازِ شب میں طویل سجدہ کرنا سنت ہے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے یعنی یہ آپﷺ کی نمازِ شب ہوتی تھی اس میں سجدہ اتنا طویل کرتے تھے کہ کوئی تم میں سے پچاس آیتیں پڑھ لے قبل اس کے کہ آپﷺ اپنا سر اٹھائیں۔ اور دو رکعتیں نمازِ صبح سے قبل پڑھا کرتے تھے پھر اپنی بائیں جانب لیٹ رہتے تھے یہاں تک کہ موذن نماز کی اطلاع کے لیے آپﷺ کے پاس آتا۔

۳۔ وتر رات کے مختلف حصوں میں پڑھنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رات کے ہر حصہ میں نبیﷺ نے نمازِ وتر پڑھی ہے۔ کبھی اوّل شب میں، کبھی نصف شب اور کبھی آخر شب میں اور آخر میں نبیؐ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔

۴۔رات کی آخر ی نماز وتر ہو:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم رات کے وقت اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔

۵۔سواری پر نمازِ وتر پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ سفر میں نمازِ وتر اپنی سواری پر پڑھا کرتے تھے۔

۶۔ وتر:رکوع سے پہلے دعائے قنوت کا پڑھنا:

سیدنا انسؓ سے قنوت کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بے شک قنوت نبیﷺ کے عہد میں پڑھا جاتا تھا۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رکوع سے پہلے۔ سیدنا انسؓ نے مزید فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھا تھا۔


٭٭٭

۱۷۔کتابُ الاستسقاء (بارش کی دعاء)


۱۔ نبیﷺ کا کفارِ مکہ کو قحط سالی کی بد دعا دینا:

سیدنا عبداﷲ ابن مسعودؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے جب قبولِ دعوتِ اسلام سے لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو اﷲ سے دعا کی کہ اے اﷲ! ان پر سات برس قحط ڈال دے جیسا کہ یوسفؑ کے عہد میں سات برس تک مسلسل قحط رہا تھا۔ پس قحط نے انہیں آ لیا۔ جس نے ہر نوع کی روئیدگی کو نیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے۔

۲۔ نبیﷺ کی دعاء پر برساتی نالوں کا بہنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ اکثر میں شاعر کے قول کو یاد کر کے نبیﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھتا تھا جب کہ آپﷺ دعائے استسقاء مانگتے تھے۔ پس آپﷺ منبر سے نہ اترنے پاتے تھے کہ پر نالے بہنے لگتے تھے۔وہ قول شاعر کا یہ ہے : ’’گورا ان کا رنگ، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے۔ لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقے سے ‘‘۔ اور یہ ابو طالبؔ کا کلام ہے۔

۳۔دعائے استسقاء کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا:

سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ’’ اے اﷲ! پانی برسا دے۔ اے اﷲ! پانی برسا دے۔ اے اﷲ! پانی برسا دے ‘‘۔ عبداﷲ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف پھیر لی اور قبلے کی طرف منہ کر لیا اور دعا مانگنے لگے۔ اس کے بعد اپنی چادر الٹ لی۔پھر ہم لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی۔ ان میں بلند آواز سے قرأت کی۔

۴۔دعا ئے استسقاء میں ہاتھ زیادہ بلند کرنا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کسی دعا میں نہ اٹھاتے تھے جتنے دعا استسقاء میں۔ اور آپﷺ استسقاء میں ہاتھ اس قدر بلند اٹھاتے تھے کہ آپﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

۵۔ جب پانی برسے تو کہے : صَیِّباً نَافِعاً:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب مینہ برستا دیکھتے تو فرماتے صَیِّباً نَافِعاً یعنی اے اﷲ! فائدہ دینے والا پانی برسا۔

۶۔ہوا سے نبیﷺ کی مدد کی گئی:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہوا کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قومِ عاد، دبُور نامی ہوا سے برباد کی گئی تھی۔

۷۔نجد سے شیاطین کا گروہ نکلے گا:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اے اﷲ! ہمارے شامؔ میں اور ہمارے یمنؔ میں برکت دے۔ جب لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے نجدؔ میں بھی برکت کی دعا مانگیں تو آپﷺ نے فرمایا وہاں زلزلے ہوں گے اور فتنے ہوں گے اور شیاطین کا گروہ وہیں سے نکلے گا۔

۸غیب کی۵ کنجیاں : اﷲ کے سِوا کوئی نہیں جانتا:

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (۱)کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا۔( ۲) کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحموں میں کیا چیز ہے۔ (۳) کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا۔(۴) کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس مقام میں مرے گا۔( ۵) کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہو گی۔


٭٭٭

۱۸۔کتابُ الکسوف (سورج گرہن)


۱۔سورج گرہن میں نماز پڑھنا:

سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے عہد میں ایک مرتبہ سورج گرہن اس روز ہوا جس دن کہ فرزند رسولﷺ سیدنا ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابراہیم کی وفات کے سبب سے سورج گرہن ہوا ہے۔ یہ سن کر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ سورج اور چاند نہ کسی کے مرنے سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کے جینے سے۔ لہٰذا جب تم گرہن کو دیکھو تو نماز پڑھو اور اﷲ سے دعا کرو۔ ایک دوسری روایت میں سیدنا ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ سورج گرہن ہو گیا تو رسول اﷲﷺ کھڑے ہوئے اور جلدی میں اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ داخل ہوئے۔ پھر ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ آفتاب صاف ہو گیا۔

۲۔سورج گرہن میں صدقہ دینا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے دور میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو رسول اﷲﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور نماز میں بہت طویل قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ پھر رکوع کے بعد قیام کیا تو بہت طویل قیام کیا اور پہلے قیام سے کم تھا۔ پھر آپﷺ نے طویل رکوع کیا اور پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر آپﷺ نے سجدہ کیا اور بہت طویل سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی کے مثل کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا اس کے بعد نماز مکمل کی اور اس وقت تک آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ پھر لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا اﷲ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور فرمایا کہ تم جب گرہن دیکھو تو اﷲ سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور نماز پڑھو اور صدقہ دو۔ اے اُمتِ محمد (ﷺ )! اﷲ کی قسم اگر تم لوگ ان باتوں کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ روؤ۔

۳۔گرہن کی نماز کے لیے اعلان کرنا:

سیدنا عبداﷲ ابن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے عہد میں جب سورج گرہن ہوا تو ’’الصلوٰۃ جامعۃ ‘‘ یعنی نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا۔

۴۔گرہن میں عذاب قبر سے پناہ مانگنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہود یہ ان سے کچھ دریافت کرنے آئی اور اس نے بطور دعا کے اُمُّ المومنینؓ سے کہا کہ اﷲ تمہیں عذابِ قبر سے پناہ دے تو حضرت عائشہؓ نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جائے گا؟ تو رسول اﷲﷺ نے عذابِ قبر سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا کہ ہاں۔ پھر حضرت عائشہؓ نے گرہن والی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ رسول اﷲﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ عذابِ قبر سے پناہ مانگیں۔

۵۔جنت کے انگور کی طرف نبیؐ کا ہاتھ بڑھانا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ نے گرہن کی حدیث طول کے ساتھ ذکر کی پھر بتلایا کہ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! اس وقت ہم نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ اپنی جگہ میں کھڑے کھڑے کوئی چیز اپنے ہاتھ میں پکڑ رہے تھے پھر ہم نے آپﷺ کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ میں نے جنت کو دیکھا تو انگور کے ایک گچھے کی طرف میں نے ہاتھ بڑھا دیا۔اگر میں اسے لے آتا تو تم اسے کھایا کرتے جب تک کہ دنیا باقی رہتی۔

۶۔جہنم: شوہر کی ناشکری کرنے والیوں کی کثرت:

اس کے بعد مجھے دوزخ دکھائی گئی تو میں نے آج کے مثل کبھی خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے عورتوں کو دوزخ میں زیادہ پایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ یہ کیوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کے کفر کے سبب سے۔ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اﷲ کا کفر کرتی ہیں ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں اگر تو ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے۔ پھر اتفاقاً کوئی بدسلوکی تیری جانب سے دیکھ لے تو بلا تامل کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

۷۔ سورج گرہن میں غلام آزاد کرنا:

سیدنا اسماء بنت ابی بکر صدیقؓ کہتی ہیں کہ بے شک نبیﷺ نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔

۸۔گرہن میں اﷲ کا ذکر و استغفارکرنا:

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نبیﷺ خوف زدہ ہو کر کھڑے ہو گئے آپﷺ کو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں قیامت نہ ہو جائے۔ پھر آپﷺ مسجد میں تشریف لائے اور طویل نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اﷲ عزوجل اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے۔ لہٰذا جب تم اسے دیکھو تو اﷲ کے ذکر کی طرف اور اس سے دعا مانگنے اور اس سے استغفار کرنے کی طرف جھک جاؤ۔

۹۔ نماز کسوف میں بلند آواز سے قرأت کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے نمازِ کسوف میں اپنی قرأت بلند آواز سے کی۔ پھر جب آپﷺ اپنی قرأت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی پھر رکوع کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو کہا سمع اﷲ لمن حمدہٗ ربّنا ولک الحمد اور دوبارہ قرأت کرنے لگے مگر یہ بات صرف نمازِ کسوف یعنی گرہن کی نماز میں آپﷺ نے کی۔ غرض اس نماز میں دو رکعتوں کے اندر چار رکوع اور چار سجدے کئے۔


٭٭٭

۱۹۔ کتاب سجود القرآن (سجدۂ تلاوت)


۱۔ سورۃ نجم اور سجدۂ تلاوت:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے مکہ میں سورۂ نجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ہمراہ سب لوگوں نے سجدہ کیا سوائے ایک بوڑھے شخص کے۔ اس نے ایک مٹھی کنکریاں یا مٹی لے لی اور اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہا مجھے یہی کافی ہے تو میں نے اس کو آخر میں دیکھا کہ بحالتِ کفر قتل کر دیا گیا (اسلام نصیب نہ ہوا)۔

۲۔ سورۃ ’’صٓ ‘‘ میں سجدہ کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ سورۂ ’’صٓ ‘‘ کا سجدہ میں ہمارے لیے کوئی تاکید نہیں ہے تاہم میں نے نبیﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (یہ سجدہ داؤدؑ نے توبہ کے لیے کیا تھا اور نبیﷺ نے انہی کی سنت پریہ سجدہ کیا تھا)

۳۔مشرکوں کامسلمانوں کے ساتھ سجدہ کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے سورۃ نجم کا سجدہ کیا۔ اور آپﷺ کے ہمراہ اس وقت مسلمانوں، مشرکوں نے اور جن وانس سب نے سجدہ کیا۔

۴۔ آیت سجدہ سن کر فوراً سجدہ نہ کرنا:

سیدنا زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے سامنے سورۃ نجم پڑھی تو آپﷺ نے اس وقت سجدہ نہیں کیا۔(گویا فوری سجدہ کرنا لازم نہیں، بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے )

۵۔سورۃ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ میں سجدہ کرنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے نبیﷺ کو سجدہ کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں سجدہ نہ کرتا۔

۶۔ہجوم میں سجدۂ تلاوت کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہمارے سامنے وہ سورت پڑھتے تھے جس میں سجدہ ہوتا تھا تو آپﷺ سجدہ کرتے تھے اور ہم بھی اسی وقت سجدہ کرتے تھے۔ البتہ ہم میں سے کوئی شخص ہجوم کی وجہ سے اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ پاتا تھا۔


٭٭٭

۲۰۔کتاب تقصیر الصلاۃ (دورانِ سفر نمازِ قصر کا بیان)


۱۔مسافرکانمازِ قصر پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر) اُنیس دن قیام فرمایا اور برابر قصر کرتے رہے۔(اڑتالیس میل سے زائد کی مسافت اور پندرہ دن سے کم قیام کی نیّت ہو تو نماز قصر پڑھی جاتی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر پندرہ دن قیام کی نیّت نہ تھی)۔سیدنا انسؓ کہتے ہیں ہم نبیﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ تک گئے تو آپؐ برابر دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ واپس آ گئے اور ہم وہاں دس دن ٹھہرے تھے۔

۲۔منیٰ میں نماز کو قصر کرنا:

سیدنا عبد اﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے منیٰ میں نبیﷺ اور امیر المومنین ابوبکر و عمرؓ کے ہمراہ دو رکعت نماز پڑھی اور امیر المومنین عثمانؓ کے ہمراہ بھی اُن کے ابتدائی دورِ خلافت میں دو ہی رکعت پڑھی اس کے بعد انہوں نے پوری نماز شروع کر دی۔سیدنا حارثہ بن وہبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے نہایت امن کی حالت میں مقامِ منیٰ میں ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جب اُن سے کہا گیا کہ امیر المومنین عثمان بن عفانؓ نے منیٰ میں ہم لوگوں کو چار رکعت نماز پڑھائی تو انہوں نے کہا کہ اِنَّاﷲِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اﷲﷺ کے ہمراہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اے کاش بجائے ان چار رکعتوں کے میرے حصے میں وہی دو مقبول رکعتیں آتیں جو نبیﷺ اور امیر المومنین ابوبکر و عمرؓ پڑھا کرتے تھے۔

۳۔عورت محرم کے بغیر دن رات کا سفر نہ کرے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اﷲ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت کا سفر اس حال میں کرے کہ اس کے ہمراہ کوئی محرم نہ ہو۔

۴۔نمازِ مغرب: سفر میں بھی تین رکعات ہی ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو دیکھا کہ جب آپﷺ کو سفر میں عجلت ہوتی تھی تو مغرب کی نماز میں تاخیر کر دیتے پھر جب اس کو پڑھتے تو تین رکعات پڑھتے اور پھر تھوڑی ہی دیر ٹھہر کر عشاء کی نماز پڑھ لیتے اور اس کی دو رکعتیں پڑھتے پھر سلام پھیر دیتے اور عشاء کے بعد نفل نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ نصف شب کو اٹھتے اور تہجد کی نماز پڑھتے۔

۵۔سواری پر قبلہ رُخ کے بغیر نفلی نماز ادا کرنا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نفل نماز سوار ہونے کی حالت میں ہی پڑھ لیتے تھے حالانکہ آپﷺ قبلہ کی بجائے کسی اور سمت جات رہے ہوتے۔سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھی اور ان کا منہ قبلہ کے بائیں طرف تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے خلاف قبلہ نماز پڑھی تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں نے رسول اﷲﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔

۶۔نمازِ قصر میں سنتیں نہ پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ سفر میں بہت رہا ہوں مگر میں نے آپﷺ کو سفر میں سنتیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا اور اﷲ تعالیٰ سورۂ الممتحنہ میں فرماتا ہے کہ (ترجمہ) ’’ بے شک تم لوگوں کے لیے رسول اﷲﷺ کے افعال میں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘۔

۷۔ سفر میں نفلی نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں:

سیدنا عامر بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ رات کو سفر میں اپنی سواری پر نفل نماز پڑھتے تھے۔خواہ اس سواری کا منہ کسی بھی طرف ہو یعنی خلاف کعبہ ہو تب بھی۔

۸۔سفر میں نمازوں کو ملا کر پڑھنا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب سفر میں ہوتے تو ظہر اور عصر جمع کر لیتے اور مغرب اور عشاء کو بھی جمع کر کے ادا فرماتے تھے۔ (امام ابو حنیفہ کی تشریح کے مطابق اول نماز آخری وقت میں اور ثانی نماز اول وقت میں اس طرح پڑھی جاسکتی ہے۔گویا دونوں نمازیں الگ الگ پڑھی جاتی ہیں مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملا کر پڑھی گئیں ہیں )

۹۔مجبوراً بیٹھ کر اور لیٹ کر نماز پڑھنا:

سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے رسول اﷲﷺ سے نماز کی بابت پوچھا کہ بیٹھ کر پڑھوں تو جائز ہے یا نہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر پڑھو اور اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پھر اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھو۔

۱۰۔نفلی نماز جزوی طور پر بیٹھ کر ادا کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ کو شب کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ جب آپﷺ کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی تو آپﷺ بیٹھ کر قرأت کرتے پھر جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو جاتے اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ ایک روایت میں کہتی ہیں کہ دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے تھے پھر جب آپﷺ نماز مکمل کر لیتے تو دیکھتے اگر میں جاگتی ہوتی تو میرے ساتھ باتیں کرتے اور اگر میں سوئی ہوتی تو آپﷺ لیٹ رہتے۔


٭٭٭

۲۱۔کتاب التَّہَجُّد


۱۔ نماز تہجد اور اللہ کی حمد و ثناء:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے اٹھتے تو کہتے (ترجمہ) ’’اے اﷲ! ہر طرح کی تعریف تیرے لئے ہے، تو مدبّر ہے آسمان و زمین کا اور اُن چیزوں کا جو اُن کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو نور ہے آسمان اور زمین کا اور اُن چیزوں کا جو اُن کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو بادشاہ ہے آسمان اور زمین کا اور اُن چیزوں کا جو اُن کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو سچاہے اور تیرا وعدہ سچاہے اور تیرا ملنا برحق ہے اور تیری بات سچی ہے اور جنت دوزخ برحق ہے اور کُل پیغمبر برحق ہیں اور محمدﷺ سچے ہیں اور قیامت برحق ہے۔ اے اﷲ! میں تیرا فرمانبردار ہوں اور تجھ پر ایمان لایا ہوں اور تجھ پر بھروسہ کیا ہے اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے مخالفین کے ساتھ جھگڑتا ہو ں اور تجھ ہی کو حاکم بناتا ہوں تو میرے اگلے پچھلے، ظاہر پوشیدہ گناہوں کو معاف فرما دے، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، کوئی معبود نہیں مگر تو ہی ‘‘۔

۲۔نمازِ تہجد کی فضیلت:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے عہد میں مسجد میں سویا کرتا تھا ایک رات میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا ہے اور مجھے دوزخ کی طرف لے گئے تو یکایک میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایسی پیچ دار بنی ہوئی ہے جیسے کنواں اور اس کے دو کھمبے ہیں۔ اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچان لیا۔چنانچہ میں کہنے لگا کہ دوزخ سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ سیدنا عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ پھر ہمیں ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم ڈرو نہیں۔ اس خواب کو میں نے اپنی ہمشیرہ اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ سے اور انہوں نے اسے رسول اﷲﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ عبداﷲ کیا اچھا آدمی ہے۔ کاش تہجد پڑھتا ہوتا تو اس کے بعد عبداﷲ بن عمرؓ رات کو بہت کم سوتے تھے۔

۳۔بیماری میں تہجد کے لیے نہ اٹھنا:

سیدنا جندب بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ بیمار ہوئے تو ایک رات یا دو رات آپﷺ تہجد کے لیے نہیں اٹھے۔

۴۔نمازِتہجد کی ترغیب دینالیکن اصرار نہ کرنا:

امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک شب ان کے اور سیدہ فاطمہؓ ، بنت نبیﷺ کے پاس گئے اور فرمایا کہ تم دونوں (تہجدکی) نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اﷲ ہماری جانیں تو اﷲ کے اختیار میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا ہم اٹھیں گے۔ جب میں نے یہ کہا تو رسول اﷲﷺ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے سنا کہ آپﷺ اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور یہ فرماتے تھے (ترجمہ) ’’ اور انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے ‘‘۔

۵۔حضرت عائشہ صدیقہؓ اور نمازِ چاشت:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ کو کوئی کام محبوب بھی ہوتا تھا تو اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے اور وہ ان پر فرض کر دیا جائے گا۔ رسول اﷲﷺ نے نمازِ چاشت کبھی نہیں پڑھی اور میں اسے پڑھتی ہوں۔

۶۔نمازِ تہجد کی طوالت سے نبیؐ کا پاؤں سوج جانا:

سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے دونوں پیر یا دونوں پنڈلیاں ورم کر جاتی تھیں۔ جب آپﷺ سے کہا جاتا تھا کہ اس قدر عبادتِ شاقہ نہ کیجئے تو آپؐ جواب میں فرماتے تھے کہ کیا میں اﷲ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟

۷۔حضرت داؤدؑ جیسا پسندیدہ نماز اور روزہ:

سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کہتے کہ رسول اﷲﷺ نے ان سے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کو تمام نمازوں سے زیادہ پسند داؤدؑ کی نماز جیسی نماز ہے اور تمام روزوں میں زیادہ پسند اﷲ تعالیٰ کو داؤدؑ کے روزے جیسا روزہ ہے۔ وہ نصف شب سوتے تھے اور تہائی رات میں نماز پڑھتے تھے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں سو رہتے تھے۔وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے۔

۸۔ہمیشہ کیا جانے والا عمل پسندیدہ ہے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جو عمل ہمیشہ کیا جاسکے وہ عمل رسول اﷲﷺ کو پسند تھا۔ کہا گیا کہ آپﷺ رات کو کس وقت اٹھتے تھے ؟ انہوں نے کہا اس وقت اٹھتے تھے جب مرغ کی آواز سن لیتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے اخیر شب میں نبیﷺ کو اپنے پاس سوتے ہوئے ہی پایا۔

۹۔نبیﷺ کی رات میں نمازوں کی تعداد:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی رات کی نماز تیرہ رکعت کی ہوتی تھی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے انہیں میں وتر اور سنتِ فجر کی دو رکعتیں بھی ہوتی تھیں۔

۱۰۔نبیؐ کی راتیں : نماز بھی پڑھنا اور سونا بھی:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کسی مہینے میں افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ خیال کرتے تھے کہ آپﷺ اب اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے مگر جس مہینے آپﷺ روزہ رکھنے لگتے تھے تو پے در پے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ خیال کرتے تھے کہ اب آپﷺ اس مہینے میں بالکل افطار نہ کریں گے اور آپﷺ کی (نماز پڑھنے اور سونے کی) یہ حالت تھی کہ اگر تم چاہتے کہ آپﷺ کو رات کے وقت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو دیکھ لیتے اور اگر تم چاہتے کہ آپﷺ کو سوتا ہوا دیکھ لیں تو دیکھ لیتے۔

۱۱۔سونے والے پر شیطان کا پھونک مارنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کی گردن کے پیچھے گدی پر شیطان اس وقت تین گرہ دے دیتا ہے جب وہ سونے لگتا ہے۔ ہر گرہ میں یہ پڑھ کر پھونک دیتا ہے (ترجمہ) ’’ ابھی بہت رات باقی ہے سو تارہ ‘‘ پھر اگر وہ بیدار ہوا اور اس نے اﷲ تعالیٰ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور اگر اس نے وضو کر لیا تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے پھر اگر اس نے نماز پڑھ لی تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو دلشاد اٹھتا ہے ورنہ صبح کو سست مزاج اٹھتا ہے۔

۱۲۔جو صبح تک مسلسل سوتا رہے:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا وہ برابر صبح تک سوتا رہتا ہے نمازِ تہجد کے لیے بھی نہیں اٹھتا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔

۱۳۔شبِ آخر دعا کی قبولیت کی گھڑی:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بزرگ و برتر ہر رات کو آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کر لوں ؟ کوئی ہے جو مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے عطا کر دوں ؟ کوئی ہے جو استغفار کرے تو میں اسے معاف کر دوں ؟۔

۱۴۔شروع رات میں سونا اور اخیر رات میں جاگنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا کہ رات کو نبیﷺ کی نماز کس طرح ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ شروع رات میں سوتے تھے اور اخیر رات میں اٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد پھر اپنے بستر کی طرف لوٹ آتے تھے پھر جب موذن اذان دیتا تو آپﷺ اٹھتے پس اگر آپ کو ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔

۱۵۔نبیؐ کا شب میں گیارہ رکعتیں پڑھنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے رسول اﷲﷺ کی رمضان کی نماز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اﷲﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نماز نہ پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے تھے پس تم ان کی خوبی اور ان کے طول کی کیفیت نہ پوچھو۔ اس کے بعد پھر آپﷺ چار رکعت نماز پڑھتے تھے پس تم ان کی خوبی اور ان کے طول کی کیفیت نہ پوچھو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا :یا رسول اﷲﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوجاتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔

۱۶عبادت میں اپنی جان پر سختی کرنا مطلوب نہیں:

سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مسجد میں نبیﷺ داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک رسی دونوں ستونوں کے درمیان لٹک رہی ہے آپﷺ نے فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ رسی اُمُّ المومنین حضرت زینبؓ کی لٹکائی ہوئی ہے۔ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو تھام لیتی ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا نہیں ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیئے اس کو کھول دو۔ تم میں سے ہر ایک اپنی طبیعت کے خوش رہنے تک نماز پڑھے پھر جب تھک جائے تو چاہیئے کہ بیٹھ جائے۔

۱۷۔ تہجد پڑھنے والے کا تہجد ترک کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ اے عبداﷲ! تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کرتا تھا پھر اُس نے رات کا اٹھنا اور نماز پڑھنا ترک کر دیا تھا۔

۱۸۔ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنا اور دعا مانگنا:

سیدنا عبادہ بن صامتؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رات کو اٹھے اور کہے (ترجمہ) ’’ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اﷲ ہی کے لیے ہر طرح کی تعریف ہے۔اﷲ تعالیٰ پاک ہے اور اﷲ بہت بڑا ہے۔ طاقت و قوت کسی میں نہیں مگر اﷲ کی مدد سے ‘‘ اس کے بعد کہے اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ’’ اے اﷲ! میرے گناہ معاف کر دے ‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ پھر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول ہو گی۔

۱۹۔عبداﷲ بن رواحہ کی سچی شاعری:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے وعظ میں رسول اﷲﷺ کا ذکر کرنے لگے کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہارا بھائی عبداﷲ بن رواحہ لغویات نہیں کہتا۔ دیکھو وہ ان اشعار میں کیسے سچے مضامین بیان کر رہا ہے ): (ترجمہ) ’’ ہم میں اﷲ کے رسول ہیں جو اسی کی کتاب پڑھ کر ہمیں سناتے ہیں جب صبح کی پو پھٹتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے، اسی نے رستہ بتلا دیا۔ بات ہے اس کی یقینی جو کہ دل میں اتر جاتی ہے۔ رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ اور کافروں کے خواب گاہ کو نیند بھاری کرتی ہے ‘‘۔

۲۰۔رسول اللہﷺ نے استخارہ کی تعلیم دی:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم فرمایا کرتے تھے اور اس اہتمام کے ساتھ کہ جس طرح ہمیں آپﷺ قرآن کی کسی سورت کی تعلیم فرماتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا قصد کرے تو اسے چاہیئے کہ نمازِ فرض کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھ کر کہے :’’اے اﷲ! میں تیرے علم سے طلبِ خیر کرتا ہوں اور تیری قدرت سے طاقت مانگتا ہوں اور تجھ سے تیرا فضل عظیم چاہتا ہوں۔بے شک تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ تو چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اﷲ! اگر تو جانتا ہو کہ یہ کام میرے دین اور دنیا میں اور میرے کام کے آغاز اور انجام میں بہتر ہے تو اس کو میرے لئے مقرر کر دے اور اس کو میرے لئے آسان کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لئے مُضر ہے، میرے لئے دین میں یا دنیا میں اور میرے کام کے آغاز میں اور انجام میں تو اس کومجھ سے علیحدہ کر دے اور مجھ کو اس سے علیحدہ کر دے۔ اور جہاں کہیں بھلائی ہو وہ میرے لئے مقدر کر دے اور اس سے مجھ کو خوش کر دے ‘‘ آپﷺ نے فرمایا اور اپنی حاجت کو اﷲ سے عرض کر دے۔

۲۱۔فجر کی دو رکعات سنتوں کی حفاظت:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ کسی چیز کی اتنی حفاظت نہیں فرماتے تھے جتنا کہ فجر کی دو رکعات سنتوں کی حفاظت فرماتے تھے۔

۲۲۔فجر کی سنتوں میں چھوٹی سورتیں پڑھنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ان دونوں رکعتوں کو جو نمازِ فجر سے پہلے پڑھی جاتی ہیں، بہت ہلکی پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ میں اپنے دل میں کہتی تھی کہ شاید آپﷺ نے اُمُّ القرآن یعنی سورۂ فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں۔

۲۳۔ہر مہینے تین روزے رکھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں مجھے نبیﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے کہ میں انہیں مرتے دم تک نہ چھوڑوں۔ وہ تین باتیں یہ ہیں (۱) ہر مہینے میں تین روزے رکھنا۔ (۲) نماز چاشت کا پڑھنا۔ ( ۳) وتر پڑھ کر سونا۔


٭٭٭

۲۲۔کتاب العمل فی الصلاۃ (نماز کے دوران عمل)


۱۔نماز میں کلام کا ممنوع ہونا:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ پہلے ہم نبیﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کیا کرتے تھے اور آپﷺ ہمیں جواب بھی دیا کرتے تھے۔ پھر جب ہم بادشاہِ حبش نجاشی کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے پہلے کی طرح آپﷺ کو نماز میں سلام کیا، تو آپؐ نے ہمیں جواب نہ دیا اور نماز مکمل کرنے کے بعد فرمایا کہ نماز میں اﷲ کے ساتھ مشغولی ہوتی ہے اس لئے نماز میں اور کسی طرف مشغول نہ ہونا چاہیئے۔

۲۔دورانِ نماز جائے سجدہ کو صاف کرنا:

سیدنا معیقبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک شخص کو جو سجدہ کرتے وقت مٹی برابر کیا کرتا تھا۔ یہ فرمایا کہ اگر تو ایسا کرے تو ایک مرتبہ سے زیادہ نہ کر۔

۳۔دورانِ نماز اگر جانور بھاگنے لگے:

سیدنا ابو برزہ اسلمیؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے جنگ کی حالت میں نماز اس طرح پڑھی کہ اُن کی سواری کی لگام ان کے ہاتھ میں تھی۔ سواری آگے بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اُس کے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ پوچھنے پر فرمانے لگے کہ میں نے نبیؐ کے ہمراہ چھ سات جہاد کئے ہیں اور میں نے آپﷺ کی آسان روی دیکھی ہے۔ مجھے اپنی سواری کے ہمراہ رہنا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ اسے چھوڑ دیتا اور وہ یہاں سے دور چلی جاتی اور پھر مجھے تکلیف ہوتی۔

۴۔نماز میں سلام کا جواب نہ دینا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲﷺ نے اپنے کسی کام سے بھیجا۔واپسی پر آپؐ کو سلام کیا تو آپﷺ نے مجھ کو سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید تاخیر سے واپس آنے پر رسول اﷲﷺ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ جب تیسری مرتبہ میں نے آپﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے مجھے جواب دیا اور فرمایا کہ مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے یہ امر مانع تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس وقت رسول اﷲﷺ اپنی سواری پر تھے، قبلہ کی طرف منہ بھی نہ تھا۔ (غالباً آپؐ نفلی نماز پڑھ رہے تھے۔)

۵۔نماز میں کولہے پر ہاتھ رکھنا منع ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی آدمی کولہے پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھے۔

۶۔ اگر پانچ رکعت پڑھ لیا توسجدۂ سہو کر نا:

سیدنا عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک مرتبہ ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھیں تو نماز کے بعد آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ کیا نماز میں کچھ زیادتی کر دی گئی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کیا مطلب؟ عرض کیا گیا کہ آپﷺ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپﷺ نے سلام کے بعد دو سجدے سہوکے کئے۔


٭٭٭

۲۳۔کتابُ الجنائز ( نمازِ جنازہ)


۱۔شرک نہ کرنے والا جنت میں جائے گا:

سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس ایک آنے والا میرے پروردگار کے پاس سے آیا اور اس نے مجھے بشارت دی کہ جو شخص میری اُمت میں سے اس حال میں مرے گا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں ہو گا۔میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور اگرچہ چوری کی ہو آپ نے فرمایا اگرچہ زنا کیا ہو اگرچہ چوری کی ہو۔سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اﷲ کے ساتھ شرک کرتا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔

۲۔جنازوں کیساتھ جانے کا حکم:

سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ ہمیں نبیﷺ نے سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے منع فرمایا تھا۔ہم کو حکم دیا تھا (۱)جنازوں کے ہمراہ جانے کا۔(۲) مریض کی عیادت کرنے کا۔(۳) دعوت قبول کرنے کا۔ (۴) مظلوم کی مدد کرنے کا۔(۵) قسم کے پورا کرنے کا۔ (۶) سلام کا جواب دینے کا۔(۷) اور چھینکنے والے کو دعا دینے کا۔ اور ہمیں منع فرمایا تھا (۱)چاندی کے برتن کے استعمال سے۔(۲) سونے کی انگوٹھی سے (۳) ریشم سے۔(۴) دیباج سے۔(۵) قسی سے (۶) استبرق سے (یہ سب ریشمی کپڑے ہیں ) اور ساتویں چیز ان سے رہ گئی ہے۔

۳۔کسی کے اُخروی معاملات کی گواہی نہیں دی جاسکتی:

اُمُّ العلاء ایک انصاری خاتون بیان کرتی ہیں کہ مہاجرین کے لیے قرعہ اندازی ہوئی تو ہمارے حصے میں سیدنا عثمان بن مظعونؓ آئے تو ہم نے انہیں اپنے گھر میں اتارا۔پھر وہ بیمار ہوئے اور اسی میں وفات پا گئے۔جب انہیں کفن دے دیا گیا تو رسول اﷲﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا کہ اے ابو سائب! تم پر اﷲ کی رحمت میری شہادت تمہارے حق میں یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں سرفراز کر دیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ اﷲ نے انہیں سرفراز کر دیا۔بے شک انہیں اچھی حالت میں موت آئی ہے اور میں بھی ان کے لیے بھلائی کی امید رکھتا ہوں لیکن بالیقین میں نہیں کہہ سکتا کہ اﷲ نے انہیں معاف کر دیا۔ اﷲ کی قسم میں نہیں جانتا، حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ اُمُّ العلاء کہتی ہیں کہ اس کے بعد پھر میں نے کسی کے پاک ہونے کی شہادت نہیں دی۔

۴۔نبیؐ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب نجاشی نے وفات پائی تو آپﷺ عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور لوگوں کو صف بستہ کھڑا کر کے چار تکبیریں کہیں یعنی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔

۵۔غزوۂ موتہ: خالد بن ولید کے ہاتھوں فتح ملی:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ موتہ میں ایک دن نبیﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ اس وقت زیدؔ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر جعفرؔ نے جھنڈا لے لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر عبداﷲؔ بن رواحہ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے اور رسول اﷲﷺ کی آنکھیں اس وقت آنسووں کی کثرت کی وجہ سے بہہ رہی تھیں پھر خالدؔ بن ولید نے بغیر سرداری کے جھنڈا لیا اور ان ہاتھوں پر لڑائی میں فتح ہوئی۔

۶۔ تین نابالغ بچے وفات پا جائیں وہ جنتی ہے:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا کہ جس مسلمان کے تین نابالغ بچے وفات پا جائیں تو اﷲ اس رحمت کے نتیجے میں جو وہ ان بچوں سے رکھتا تھا، اسے بھی جنت عطا کرے گا۔

۷۔میت کو بیری کے پتے ملے پانی سے غسل دینا:

اُمُِّ عطیہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپﷺ کی صاحبزادی کو غسل دے رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا انہیں تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔پانی اور بیری کے پتوں سے اور اخیر میں کافور ملا دو پھر جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپﷺ کو اطلاع دی تو آپﷺ نے اپنی ازار ہمیں دی اور فرمایا کہ اس سے ان کے جسم کو لپیٹ دو۔


۸۔میت کے غسل کی ابتداء داہنی جانب سے:

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کی داہنی جانب سے اور وضو کے مقامات سے غسل کی ابتداء کرنا۔ اُمّ عطیہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے ان کو کنگھی کر کے بالوں کے تین حصے کر دیئے۔

۹۔نبیﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا:

اُمُّ المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کو یمن کے تین سفیدسوتی کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔ان کپڑوں میں نہ قمیص تھا اور نہ عمامہ۔

۱۰۔احرام کی حالت میں مرنے والے کا کفن:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص عرفات میں اچانک اپنی سواری سے گر پڑا اور اس سواری نے اسے کچل ڈالا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ اس کو غسل دو چاہے صرف پانی سے یا بیری کے پانی سے۔ اور اس کو دو کپڑوں میں کفن دے دو اور اس کے جسم میں خوشبو نہ لگانا اور اس کا سر نہ ڈھانپنا۔قیامت کے دن یہ اسی طرح بحالتِ احرام لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔

۱۱۔کفن ناکافی ہو تو میت کے سر کو چھپا نا:

سیدنا خبابؓ کہتے ہیں کہ سیدنا مصعب بن عمیرؓ احد کے دن شہید ہوئے۔ ہمیں ان کے مال میں سے اتنا بھی نہ ملا کہ جس سے انہیں کفن دے دیتے۔صرف ایک چادر ملی اور وہ بھی اتنی چھوٹی کہ اس سے اُن کا سر ڈھانکتے تو پیر کھل جاتے تھے اور جب ہم اُن کے پیر ڈھانکتے تو اُن کا سر کھل جاتا تھا۔ نبیﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اُن کا سر چھپا دیں اور اُن کے پیروں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں۔

۱۲۔مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار رکھنا:

سیدنا سہلؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبیﷺ کے پاس بُنی ہوئی حاشیہ دار چادر تحفتاً لائی۔اس عورت نے کہا کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے اور اس لئے لائی ہوں تاکہ آپﷺ اس کو پہنیں۔ چنانچہ نبیﷺ نے اسے قبول کر لیا۔ اس وقت آپﷺ کو کپڑے کی ضرورت بھی تھی۔ پھر ایک شخص نے اس چادر کی تعریف کی اور اسے مانگ لیا۔لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو نے اچھا نہ کیا اسے نبیﷺ نے نہایت ضرورت کی حالت میں پہنا تھا اور تو نے آپﷺ سے مانگ لیا۔اس شخص نے جواب دیا کہ اﷲ کی قسم میں نے اس لئے نہیں مانگا کہ اس کو پہنوں بلکہ میں نے اسے اس لئے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو گی۔ سیدنا سہلؓ کہتے ہیں کہ پھر وہی چادر ان کا کفن ہوئی تھی۔

۱۳۔عورتوں کا جنازوں کے ہمراہ جانا منع ہے :

اُمّ عطیہؓ کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو جنازوں کے ہمراہ جانے سے ممانعت کر دی گئی تھی مگر کوئی سخت تاکید کے ساتھ ممانعت نہیں کی گئی۔

۱۴۔شوہر کا سوگ چار مہینے اور دس د ن:

اُمُّ المومنین اُمّ حبیبہؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کو جو اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہو، یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر شوہر کا سوگ چار مہینے اور دس د ن کرے۔

۱۵۔قبر پر رونے والی عورت کا قصّہ:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ اﷲ سے ڈر اور صبر کر۔ اس نے کہا کہ مجھ سے الگ رہو اس لئے کہ تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ جب اس عورت کو پتہ چلا کہ آپ نبیﷺ تھے تُو وہ نبیﷺ کے دروازے پر حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ میں نے آپﷺ کو پہچانا نہ تھا۔اس سبب سے مجھ سے گستاخی ہوئی اب میں صبر کرتی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ صبر شروع صدمہ کے وقت معتبر ہوتا ہے۔

۱۶۔ نوحہ کرنے کے سبب میت کو عذاب ملنا:

سیدنا مغیرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے اوپر جھوٹ بولنا ایسا نہیں ہے جیسے تم میں سے کسی پر جھوٹ بولنا جو شخص میرے اوپر جھوٹ بولے اسے چاہیئے کہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے۔ اور میں نے نبیﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی پر نوحہ کرے گا اس پر اس نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔

۱۷۔گریبان پھاڑنے والا ہم میں سے نہیں:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو غم میں اپنے رخساروں پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے۔

۱۸۔ورثاء کو مالدار چھوڑ جانا افضل ہے:

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ حجتہ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ میرے مرض کی یہ کیفیت ہے اور میں مالدار ہوں اور میرے بعد وارث بجز میری لڑکی کے کوئی نہیں تو کیا میں اپنے مال کی دو تہائی خیرات کر دوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ نصف لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تہائی؟ تو آپﷺ نے فرمایا ایک تہائی کر دو مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں فقیر چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔ اور تم جو کچھ بغرض الٰہی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے اس کا بھی ثواب ملے گا۔

۱۹۔غم میں چلانے والی، گریبان پھاڑنے والی:

سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ ایک مرتبہ سخت بیمار ہو گئے تو ایک دن ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور ان کا سر ان کے اقربا میں سے کسی عورت کی گود میں تھا تو وہ رونے لگیں۔ سیدنا ابو موسیٰؓ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ ان کو منع کرتے۔ پھر جب ہوش ہوا تو کہنے لگے کہ میں اس شخص سے بَری ہوں جس سے محمد رسول اﷲﷺ نے برات کا اظہار فرمایا۔ بے شک رسول اﷲﷺ نے حالتِ غم میں چِلا کے رونے والی اور سر منڈوانے والی اور گریبان وغیرہ پھاڑنے والی عورت سے برات ظاہر فرمائی ہے۔

۲۰۔صحابہؓ کی شہادت کی خبر پر اظہارِ رنج و غم:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ کے پاس زید بن حارثہ اور جعفر اور عبداﷲ ابن رواحہ کی شہادت کی خبر آئی تو آپﷺ بیٹھ گئے۔ آپﷺ کے چہرہ پر رنج کا اثر معلوم ہوتا تھا اور میں کواڑ کی درز سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک شخص آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے سیدنا جعفرؓ کی عورتوں کا اور ان کے رونے کا ذکر کیا تو آپﷺ نے اسے حکم دیا کہ انہیں منع کرے۔ آپﷺ نے دو بار اسی طرح منع کیا جب وہ پھر تیسری بار آپﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ وہ مجھ پر غالب آ گئیں میرا کہا نہیں مانتیں۔ تو اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ نے محاورتاً فرمایا کہ جا کر ان کے منہ میں خاک ڈال دے۔

۲۱۔مصیبت کے وقت اپنے رنج کا اظہار نہ کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو طلحہؓ باہر گئے ہوئے تھے کہ ان کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔ پس ان کی بیوی نے اس کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب رات کو ابو طلحہؓ گھر آئے تو پوچھا کہ لڑکا کیسا ہے ؟ تو ان کی بیوی نے کہا کہ سکون میں ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ وہ آرام سے ہے۔ ابو طلحہؓ سمجھے کہ وہ سچ کہہ رہی ہیں۔ پس ابو طلحہؓ شب کو اپنی بیوی کے پاس رہے پھر جب صبح ہوئی تو غسل کیا اور باہر جانے لگے تب انہوں نے انہیں بتایا کہ لڑکا انتقال کر چکا ہے۔ پس انہوں نے نبیﷺ کے ہمراہ صبح کی نماز پڑھی اور اس واقعہ کی اطلاع نبیﷺ کو دی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’امید ہے اﷲ تعالیٰ ان دونوں کو ان کی اس رات میں برکت دے گا‘‘۔

۲۲۔ سیدنا ابراہیم کی وفات پر نبیؐ کا رنجیدہ ہونا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اﷲﷺ کے ہمراہ ابو سیف لوہار کے ہاں گئے اور وہ سیدنا ابراہیم کی دائی کے شوہر تھے تو رسول اﷲﷺ نے سیدنا ابراہیم کو لے لیا اور انہیں پیار کیا اور ان کے اوپر منہ مبارک رکھا۔ پھر ہم اس کے بعد ابو سیف کے ہاں گئے تو سیدنا ابراہیم اپنی جان اﷲ تعالیٰ کو دے رہے تھے تو رسول اﷲﷺ کی دونوں آنکھیں بہنے لگیں۔ پس عبدالرحمن بن عوفؓ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ آپ بھی روتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابن عوفؓ ! یہ تو ایک رحمت ہے پھر آپ اور روئے اور فرمایا کہ آنکھ رو رہی ہے اور دل رنجیدہ ہے۔ ہم زبان سے نہیں کہتے مگر وہی بات جس سے ہمارا پروردگار راضی ہو۔ اور اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے یقیناً رنجیدہ ہیں۔

۲۳۔اللہ آنسو بہانے پر عذاب نہیں کرتا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ بیمار ہوئے تو نبیﷺ ان کی عیادت کے لئے، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص اور عبداﷲ بن مسعود کے ہمراہ تشریف لائے پھر جب آپﷺ وہاں پہنچے تو انہیں ان کے گھر کے بستر پر لیٹا ہوا پایا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا انتقال کر گئے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ نہیں۔ پھر نبیﷺ روئے۔ جب لوگوں نے نبیﷺ کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ آنکھ سے آنسو بہانے پر عذاب نہیں کرتا اور نہ دل کے رنج پر بلکہ اس کی وجہ سے عذاب کرتا ہے یا رحم کرتا ہے اور آپﷺ نے زبان کی طرف اشارہ کیا اور بے شک میت پر بوجہ اس کے اقربا کے ناجائز طور پر رونے کے عذاب کیا جاتا ہے۔

۲۴۔ نبیﷺ نے نوحہ نہ کرنے کا عہد لیا تھا:

اُمّ عطیہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ہم لوگوں سے بیعت کے وقت یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ نہ کریں گے مگر اس عہد کو سوائے پانچ عورتوں کے کسی نے پورا نہیں کیا۔ اُمّ سلیم، اُمّ علاء، ابو سبرہ کی بیٹی جو سیدنا معاذؓ کی بیوی تھیں اور دو دیگر عورتیں۔

۲۵۔ جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہو جانے کی ہدایت:

سیدنا عامر بن ربیعہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص جنازہ کو دیکھے تو اگر اس کے ساتھ نہ جا رہا ہو تو کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ وہ اس سے آگے بڑھ جائے یا قبل اس کے کہ وہ آگے بڑھے یا رکھ دیا جائے۔

۲۶۔جنازے رکھنے سے قبل نہ بیٹھنا:

ایک جنازے کے دوران سیدنا ابو ہریرہؓ نے مروان کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ دونوں بیٹھ گئے قبل اس کے کہ جنازہ رکھا جائے۔ عین اسی وقت سیدنا ابو سعید خدریؓ آئے انہوں نے مروان کا ہاتھ پکڑا اور کہا اٹھ کھڑا ہو بے شک سیدنا ابو ہریرہؓ جانتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ہم لوگوں کو اس سے منع فرمایا ہے تو سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں۔

۲۷۔غیر مسلم کا جنازہ دیکھ کر بھی کھڑا ہونا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبیﷺ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔

۲۸۔مُردے کی آواز،ما سوا انسانوں سب سنتے ہیں:

سیدنا ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جب جنازہ رکھ دیا جاتا ہے اور اسے مرد اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ صالح ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو اور اگر صالح نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ میری خرابی ہے مجھے کہاں لئے جاتے ہو اس کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر انسان اس کو سن لے تو فوراً مر جائے۔

۲۹۔جنازہ کا جلد لے جانا مسنون ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جنازہ کو جلد لے چلو اس لئے کہ اگر وہ نیک ہو گا تو ایک نیکی ہے جس کو تم آگے بھیجتے ہو اور اگر برا ہے تو ایک بری چیز ہے جس کو تم اپنی گردنوں سے رکھ دو گے۔

۳۰۔جنازہ کے ہمراہ جانے کا ثواب:

سیدنا ابن عمرؓ سے بیان کیا گیا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جو شخص جنازہ کے ہمراہ جائے اس کو ایک قیراط ثواب ملے گا تو سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ ابو ہریرہؓ نے ہم پر احادیث کی کثرت کر دی۔پھر انہوں نے اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کرایا تو انہوں نے سیدنا ابو ہریرہؓ کی تصدیق کی اور کہا کہ ہاں میں نے رسول اﷲﷺ کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ ہم نے بہت سے قیراطوں یعنی ثواب کا نقصان کیا۔

۳۱۔قبروں پر مسجد بنانے والوں پر اللہ کی لعنت:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے اپنے اس مرض میں جس میں آپﷺ نے وفات پائی ہے یہ فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کیونکہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا تو آپﷺ کی قبر ظاہر کر دی جاتی مگر میں خوف کرتی ہوں کہ وہ مسجد بنالی جائے گی۔

۳۲۔جنازہ کی نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا:

سیدنا ابن عباسؓ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۂ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی اور کہا کہ میں نے بلند آواز سے اس لئے پڑھا تاکہ تم لوگ جان لو کہ سورۂ فاتحہ کا نمازِ جنازہ میں پڑھنا سنت ہے۔

۳۳۔تدفین کے بعد مردہ کا احوال:

سیدنا انس بن مالکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کو دفن کر کے واپس ہونے لگتے ہیں تو مردے کو اس وقت ایسا ادراک ہوتا ہے کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھلاتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد (ﷺ ) کی نسبت کیا کہتا تھا پس اگر وہ کہہ دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے پیغمبر ہیں۔ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے مقام کو جو دوزخ میں تھا دیکھ اس کے عوض میں اﷲ تعالیٰ نے تجھے جنت کا ایک مقام دیا ہے۔ نبیﷺ فرماتے تھے کہ وہ دونوں مقامات کو دیکھ لیتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق یہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جو کچھ دوسرے لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیتا تھا پس اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو نے عقل کے ذریعہ پہچانا اور نہ نقل کے ذریعہ۔ اس کے بعد لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب اس کے دونوں کانوں کے درمیان ماری جائے گی جس کی وجہ سے وہ ایک چیخ مارے گا کہ اس کے قریب کے تمام ذی روح اس چیخ کو سنیں گے سوائے انسانوں اور جنوں کے۔

۳۴۔ ارضِ مقدس میں دفن ہونے کی خواہش:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ملک الموت سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا تھا تو جب وہ آیا تو سیدنا موسیٰ ؑ نے اس کے ایک طمانچہ مارا کہ اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور وہ اپنے پروردگار کے پاس واپس گیا اور عرض کیا تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی آنکھ دوبارہ اسے عنایت فرمائی اور حکم دیا کہ موسیٰ ؑ کے پاس پھر جا اور ان سے کہہ کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں۔ پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے، اتنے ہی سال کی زندگی انہیں دی جائے گی چنانچہ فرشتہ آیا اور موسیٰ ؑ کو پیغام باری سنایا تو انہوں نے کہا کہ اے پروردگار جب وہ سب برس گزر جائیں گے تو پھر کیا ہو گا؟ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت آئے گی انہوں نے کہا کہ ابھی سہی۔ پس انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کی انہیں ارض مقدس سے بقدر ایک پتھر پھینکنے کے قریب کر دے۔رسول اﷲﷺ نے یہ بیان فرما کر مزید کہا کہ اگر میں اس مقام پر ہوتا تو تمہیں موسیٰ ؑ کی قبر، راستہ کی طرف سرخ ٹیلے کے پاس دکھا دیتا۔

۳۵۔شہداء کو نہ غسل دیا نہ نماز جنازہ پڑھی:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اُحد کے شہیدوں میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں رکھتے تھے۔ پھر آپﷺ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا زیادہ عالم کون ہے ؟ پس ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو آپﷺ قبر میں پہلے اس کو رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیامت کے دن میں ان لوگوں کے مومن ہونے کا گواہ ہوں۔ آپﷺ نے ان کو ان کے خون کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا اور ان لوگوں کو نہ غسل دیا گیا نہ ان پر نماز پڑھی گئی۔

۳۶۔نبیؐ کا شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ پڑھنا:

سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک دن مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور آپﷺ نے شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جیسی کہ آپﷺ میت پر پڑھتے تھے۔ پھر آپﷺ واپس ہوئے اور منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمہارا پیش خیمہ ہوں۔ اور تمہارا گواہ ہوں اور میں، اﷲ کی قسم یقیناً اس وقت اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کی چابیاں دے دی گئی ہیں۔ اﷲ کی قسم میں تم لوگوں پر اس بات کا خوف نہیں رکھتا کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے بلکہ تم پر اس بات کا خوف رکھتا ہوں کہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے۔

۳۷۔ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ جس طرح جانور صحیح و سالم بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ سیدنا ابو ہریرہؓ یہ حدیث بیان کر کے یہ آیت پڑھتے تھے : ’’ اس فطرت پر جس پر اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اﷲ کی بَنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں کی جاسکتی یہی صحیح اور سیدھا دین ہے ‘‘ (سورۃ روم۔ ۳)۔

۳۸۔ مشرکوں کی وفات پر دعا کی ممانعت:

سیدنا مسیّب بن حزنؓ کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات قریب ہوئی تو رسول اﷲﷺ ان کے پاس تشریف لائے پس آپﷺ نے ان کے پاس ابوجہل بن ہشام اور عبداﷲ ابن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ سیدنا مسیّب کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ابو طالب سے فرمایا کہ اے چچا! لَا اِلہَ اِلَّا اﷲُ کہہ دو میں تمہارے لئے اﷲ کے ہاں اس کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ نے کہا کہ اے ابو طالب کیا تم عبدالمطلب کے طریقے سے پھرے جاتے ہو؟ پھر رسول اﷲ متواتر کلمۂ شہادت پر ان کو دعوت دیتے رہے۔ اور وہ دونوں وہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے سب سے اخیر گفتگو جو ان سے کی اس میں یہ کہا کہ وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہیں اور انہوں نے لَا اِلہَ اِلَّا اﷲُ کہنے سے انکار کر دیا (پھر وہ مر گئے ) تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں اﷲ کی قسم تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھ کو اس سے ممانعت نہ کی جائے (چنانچہ آپﷺ استغفار کرنے لگے ) جس پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) ’’ پیغمبر اور ایمان والوں کو زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعا کریں ‘‘ (سورۂ توبہ: ۱۱۳)۔

۳۹۔سعید روحوں کو نیکی میں آسانی ہوتی ہے:

امیر المومنین علیؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک جنازہ کے ہمراہ بقیع کے قبرستان میں تھے کہ نبیﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم لوگ آپﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپﷺ اسے زمین پر مارنے لگے پھر فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کے لیے اس کا مقام جنت یا دوزخ میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ گنہگار ہے یا پرہیزگار۔ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ کیا ہم اسی بات پر اعتماد کر کے عمل کو چھوڑ نہ دیں کیونکہ جس کا نام پرہیز گاروں میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع کرے گا اور جس کا نام گنہگاروں میں لکھا ہے وہ ضرور برائی کی طرف جائے گا تو آپﷺ نے فرمایا (نہیں بلکہ) سعید روحوں کو نیک کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور گنہگار روحوں کو برے کاموں میں آسانی نظر آتی ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) ’’ جس نے اﷲ کی راہ میں مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور دین اسلام کو سچ مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی جنت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے ‘‘ (سورۃ و اللیل ۷-۵)

۴۰۔ خودکشی کرنے والے کی سزا:

سیدنا ثابت بن ضحاکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی اپنے آپ کو جھوٹا جان کر قسم کھائے مثلاً یہ کہے کہ فلاں بات یوں ہوئی تو میں یہودی ہوں تو ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ہے اور جو شخص اپنے آپ کو کسی ہتھیار سے قتل کرے اس کو اسی ہتھیار سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔

۴۱۔اپنی جان خود دینے والے پر جنت حرام:

سیدنا جندبؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کے کچھ زخم لگ گیا تھا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے اپنی جان خود دے دی لہٰذا میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا۔سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی جان گلا گھونٹ کر دیتا ہے وہ اپنا گلا دوزخ میں برابر گھونٹا کرے گا۔ اور جو شخص زخم لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے وہ دوزخ میں برابر اپنے آپ کو زخم لگایا کرے گا۔

۴۲۔لوگوں کا میت کے نیک و بد کی گواہی دینا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ لوگ ایک جنازہ سامنے سے لے کر گزرے۔ صحابہؓ نے اس کی تعریف کی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ وَجَبَتْ (یعنی واجب ہو گئی) پھر لوگ دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو انہوں نے اس کی برائی بیان کی۔ نبیﷺ نے پھر فرمایا کہ وَجَبَتْ تو سیدنا عمر بن خطابؓ نے عرض کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لیے جنت اور جس کی تم لوگوں نے برائی بیان کی اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی اور تم لوگ زمین میں اﷲ کی طرف سے گواہ ہو۔

۴۳۔مسلمان کے نیک ہونے کی گواہی:

امیر المومنین عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کے نیک ہونے کی چار آدمی گواہی دیں تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ ہم نے عرض کیا اور تین آدمی جس کے اچھے ہونے کی گواہی دیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا اور تین آدمی جس کے نیک ہونے کی گواہی دیں اس کو بھی جنت ملے گی پھر ہم نے عرض کیا اور دو آدمی جس کے اچھے ہونے کی گواہی دیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا اور دو آدمی جس کے اچھے ہونے کی گواہی دیں اس کو بھی جنت ملے گی پھر ہم نے ایک کی گواہی کی بابت آپﷺ سے نہیں پوچھا۔

۴۴مومن کا قبر میں فرشتوں کے سامنے شہادت دینا:

سیدنا براء بن عازبؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جب مومن اپنی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ شہادت دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ نے (سورۂ ابراہیم۔ ۲۷ میں )جو یہ فرمایا ہے کہ (ترجمہ) ’’ اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں توحید پر مضبوط رکھتا ہے ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔

۴۵مُردے سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے :

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے کنویں میں جھانکا جہاں بدر کے مشرکین مقتولین پڑے ہوئے تھے اور فرمایا کہ کیا جو کچھ تم سے تمہارے پروردگار نے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم نے پا لیا؟ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ کیا آپﷺ مُردوں کو سناتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ ہاں وہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔

۴۶۔عذاب قبر سے پناہ مانگنا:

سیدنا ابو ایوبؓ کہتے ہیں ایک دن غروبِ آفتاب کے بعد نبیﷺ باہر تشریف لائے تو آپﷺ نے ہولناک آواز سنی اور فرمایا کہ یہودیوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اﷲ میں عذابِ قبر سے اور عذابِ دوزخ سے اور زندگی اور موت کی خرابی سے اور مسیح دجال کے فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

۴۷۔مُردوں کو روزانہ اُن کا آخری ٹھکانہ دکھلانا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص تم میں سے مر جاتا ہے تو ہر صبح و شام اسے اس کا مقام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو جنت کے مقامات میں سے اور اگر اہل دوزخ میں سے ہے تو دوزخ کے مقامات میں سے۔ اس کے بعد اس سے کہا جاتا کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جب تجھے اٹھائے گا تو یہی تیرا مقام ہو گا جس میں داخل ہو گا۔

۴۸۔مسلمانوں کی فوت ہونے والی کم سن اولاد:

سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ جب فرزندِ رسول سیدنا ابراہیم کی وفات ہوئی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی مقرر کی گئی ہے۔

۴۹۔مشرکوں کے نا بالغ بچوں کا انجام:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کی بابت پوچھا گیا کہ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا، اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے۔ (امام ابو حنیفہ ؒ نے غیر مسلموں کی نابالغ اولاد کے سلسلہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بعض کی نجات ہو جائے گی اور بعض کی نہیں ہو گی۔کن کی نجات ہو گی اور کن کی نہیں، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا تعلق علمِ تکوینیات سے ہے )

۵۰۔جھوٹی باتیں کرنے والے کا انجام:

سیدنا سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیﷺ جب فجر کی نماز پڑھ چکے تو ہم سے فرمایا: میں نے آج شب دو اشخاص کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر مجھے ایک مقدس زمین میں لے گئے جہاں ایک آدمی بیٹھا ہے اور دوسرا آدمی ہاتھ میں لوہے کا ایک آنکڑا لئے کھڑا ہے۔ وہ اسے اس بیٹھے ہوئے آدمی کے منہ میں داخل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک طرف کا جبڑا پھاڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہے اور اس کا وہ جبڑا مند مل ہو جاتا ہے پھر دوبارہ ایسا ہی کرتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے تو ان دونوں نے مجھے جواب دیا کہ آگے چلئے۔… اس طویل حدیث میں آگے بتلایا گیا ہے کہ… وہ شخص جھوٹ بولنے والا تھا۔ دنیا میں جھوٹی باتیں کیا کرتا تھا اور اس سے نقل کی جاتی تھیں یہاں تک کہ تمام اطرافِ عالم میں پہنچ جاتی تھیں۔ لہٰذا اس کے ساتھ روزِ قیامت تک ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا۔

۵۱۔بے عمل عالمِ قرآن کا انجام:

… ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے کہ وہ چت لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے سرہانے ایک چھوٹا یا بڑا پتھر لئے ہوئے کھڑا تھا پس وہ اس پتھر سے اس لیٹے ہوئے آدمی کے سر کو پھوڑتا تھا۔ جب اسے مارتا اور پتھر لڑھک جاتا تو جا کر اس کو اٹھا لیتا اور جب تک اس لیٹے ہوئے آدمی کے پاس واپس آتا اُس وقت تک اُس کا سر ٹھیک ہو چکتا تھا اور جو حالت اس کی پہلے تھی وہی ہو جاتی تھی پس وہ دوبارہ اسے مارتا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ آگے چلئے …اس طویل حدیث میں آگے بتلایا گیا ہے کہ… یہ وہ شخص ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا مگر وہ رات کو بھی اس سے غافل ہو کر سوجاتا اور دن میں بھی اس پر عمل نہ کرتا لہٰذا روزِ قیامت تک اس کے ساتھ اس طرح کیا جائے گا۔

۵۲۔زنا کار لوگوں کا انجام:

…ہم آگے چلے تو ایک گڑھے کی طرف ہمارا گزر ہوا وہ مثل تنور کے تھا، منہ اس کا تنگ تھا اور پیندا اس کا چوڑا تھا اس گڑھے میں آگ جل رہی تھی اس کے اندر کچھ برہنہ مرد اور عورتیں تھیں جب آگ بہت بھڑک اٹھتی تو وہ لوگ اٹھ جاتے یہاں تک کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے تو میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ آگے چلئے …اس طویل حدیث میں آگے بتلایا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہیں آپؐ نے گڑھے میں دیکھا تھا تو وہ زنا کار لوگ ہیں۔

۵۳۔سود خوری کا انجام:

… چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ خون کی ایک نہر پر پہنچے جس کے درمیان ایک آدمی تھا اور نہر کے کنارے پر بھی ایک آدمی تھا جس کے سامنے کچھ پتھر تھے اور وہ نہر والے شخص کے سامنے کھڑا ہوا تھا پس جب وہ اس نہر سے باہر نکلنا چاہتا تو یہ شخص ایک پتھر اس کے منہ میں کھینچ کر مارتا تو وہ جہاں تھا وہیں واپس ہو جاتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ آگے چلئے …اس طویل حدیث میں آگے بتلایا گیا ہے کہ… وہ شخص جس کو آپﷺ نے خون کی نہر میں دیکھا تھا، وہ سود خور ہے۔

۵۴۔عام مسلمانوں کا اُخروی ٹھکانہ:

…چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ایک نہایت شاداب اور سرسبز باغیچہ میں پہنچے۔ اس میں ایک بڑا سا درخت لگا ہوا تھا اس کی جڑ کے پاس ایک بوڑھے آدمی اور کچھ بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ یکایک میں کیا دیکھتا ہوں کہ درخت کے قریب ایک آدمی ہے جس کے سامنے کچھ آگ ہے جسے وہ روشن کر رہا ہے۔ پھر وہ دونوں مجھے اس درخت پر چڑھا لے گئے۔ اس درخت کے اندر ایک گھر تھا۔ اس میں مجھے داخل کیا میں نے کبھی اس سے عمدہ اور شاندار مکان نہیں دیکھا۔ اس گھر میں کچھ بوڑھے، کچھ جوان، کچھ عورتیں اور کچھ بچے تھے۔اس طویل حدیث میں آگے بتلایا گیا ہے کہ وہ بوڑھے صاحب جو درخت کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ابراہیمؑ تھے اور اُن کے گرد چھوٹے بچے وہ تھے جو قبل از بلوغت فوت ہو گئے تھے۔ وہ شخص جو آگ روشن کر رہا تھا، مالک فرشتہ تھا جو دوزخ کا داروغہ ہے۔ اور وہ پہلا مکان جس میں آپؐ تشریف لے گئے تھے عام مسلمانوں کا گھر ہے۔

۵۵۔آخرت میں شہداء کا شاندار گھر:

…پھر وہ دونوں آدمی مجھے اس گھر سے نکال لائے اور درخت کی دوسری شاخ پر مجھے چڑھایا۔ اس میں بھی ایک گھر تھاجس میں مجھے داخل کیا گیا۔یہ گھر بھی نہایت عمدہ شاندار تھا اس میں بھی کچھ بوڑھے اور جوان مرد تھے۔ جب میں یہ سب کچھ دیکھ چکا تو میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ تم نے مجھے رات بھر گشت کرایا۔ اب بتاؤ کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم بتاتے ہیں۔دوسرا گھر جو آپؐ نے دیکھا، شہیدوں کاہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائیل ہیں۔

۵۶۔نبی کریمﷺ کا افضل ترین مقام:

اب آپﷺ اپنا سر اٹھائیے۔ میں نے سر اٹھایا تو یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی مانند کوئی چیز ہے انہوں نے بتایا کہ یہ آپﷺ کا مقام ہے میں نے کہا کہ مجھے اپنے مقام میں داخل ہونے دو تو ان دونوں نے کہا کہ ابھی کچھ عمر آپﷺ کی باقی ہے جسے آپﷺ نے پورا نہیں کیا۔ اگر آپﷺ اسے پورا کر چکے ہوتے تو اپنے مقام میں جاسکتے تھے۔

۵۷۔نبیؐ کی وفات حضرت عائشہؓ کے گھر میں ہوئی:

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ اپنے مرضِ وفات میں بار بار دریافت کرتے تھے کہ میں آج کہاں رہوں گا میں کل کہاں رہوں گا (یعنی اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کی باری کا انتظار کرتے تھے ) پھر جب میری باری کا دن آیا تو آپؐ کی روح اس حال میں قبض گئی کہ آپؐ میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں دفن کئے گئے۔

۵۸۔مُردوں کو بُرا بھلا نہ کہو:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ مُردوں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا بھی عمل کیا تھا اس کا بدلہ پا لیا۔

٭٭٭

۲۴۔کتاب الزکاۃ


۱۔زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے:

سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے سیدنا معاذ کو قاضی بنا کر یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ اے معاذؓ ! تم وہاں کے لوگوں کو اس امر کے اقرار پر رغبت دلانا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اﷲ کا رسولﷺ ہوں۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو انہیں بتا دینا کہ اﷲ نے ہر رات اور دن میں پانچ نمازیں ان پر فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس بات کو بھی مان لیں تو انہیں بتا دینا کہ اﷲ نے ان کے مال پر زکوٰۃ فرض کیا ہے جو اُن کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔

۲۔نماز، زکوٰۃ اور صلہ رحمی:

سیدنا ابو ایوبؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبیؐ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔لوگوں نے کہا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے تو نبیﷺ نے فرمایا کہ صاحب ضرورت ہے اور اسے کیا ہو گیا ہے (اچھا سن تجھے ایسا عمل بتا دیتا ہوں ) تو اﷲ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور نماز پڑھا کر اور زکوٰۃ دیا کر اور صلہ رحمی کیا کر۔

۳۔جنتی شخص کی پانچ نشانیاں :

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبیؐ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ میں اس کو کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں تو آپؐ نے فرمایا کہ تو اﷲ کی عبادت کر اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور فرض نماز پڑھا کر اور فرض زکوٰۃ دیا کر اور رمضان کے روزے رکھا کر۔وہ اعرابی بولا کہ قسم اُس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس میں زیادتی نہ کروں گا۔ جب وہ چل دیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی اہل جنت میں سے کسی شخص کو دیکھنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ اِس شخص کو دیکھ لے۔

۴۔منکرینِ زکوٰۃ سے ابوبکرؓ کا اعلانِ جنگ:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اﷲﷺ کی وفات ہوئی اور ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے تو بعض عرب قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے ان سے لڑنے کا ارادہ کیا تو سیدنا عمرؓ نے کہا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے لڑسکتے ہیں جب کہ رسول اﷲﷺ فرما چکے ہیں کہ ’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لَا اِلہَ اِلّا اﷲ کہہ دیں پس جو شخص لَا اِلہَ اِلّا اﷲ کہہ دے تو بے شک اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لی مگر بحق اسلام اور اس کا حساب اﷲ پر ہے ‘‘۔ سیدنا ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اﷲ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق سمجھے گا۔سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ کو شرح صدر عطا فرمایا تھا اور بعد میں، مَیں بھی اسی نتیجہ پر پہنچا کہ ابو بکرؓ ہی حق پر تھے۔

۵۔مویشیوں کی زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کا عذاب:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اونٹ، کہ جن کی زکوٰۃ نہ دی گئی خوب موٹے تازے اچھی حالت میں اپنے مالک پر سوار ہو کر آئیں گے اور اپنے مالک کو پاؤں تلے روندیں گے۔ اور بکری کہ جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی ہو گی خوب موٹی تازی اچھی حالت میں اپنے مالک پر سوار ہو کر آئے گی اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں تلے روندے گی اور اپنے سینگوں سے مارے گی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ پانی پلانے کے گھاٹ پر وہ د وہی جائے ( اور اس کا دودھ ان محتاجوں کو جو وہاں کھڑے رہتے ہیں دیا جائے ) اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن بکری یا اونٹ کو اپنی گردن پر لاد کر میرے سامنے نہ آئے کہ وہ بکری یا اونٹ چلاتی ہو پھر مجھ سے وہ شخص کہے کہ اے محمدﷺ میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تیرے لئے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں تو حکم الٰہی پہنچا چکا۔

۶۔بغیر زکوٰۃ والا مال سانپ بن کرڈسے گا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اﷲ جسے مال دے اور وہ اس مال کی زکوٰۃ نہ دے تو اس کا مال قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کے ہم شکل کر دیا جائے گا جس کے منہ کے دونوں کناروں پر جھاگ ہو گا وہ سانپ قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنایا جائے گا پھر اس کے دو جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔

۷۔ زکوٰۃ کا نصاب۵ء۵۲ تولے چاندی:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے چاندی) سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے اور پانچ وسق (ساڑھے چار یا پانچ من) سے کم کھجور پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

۸۔کھجور جتنا صدقہ کا اُحد پہاڑ جتنا بڑھنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے اور اﷲ تو پاک ہی چیز کو قبول فرماتا ہے تو اﷲ اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں لے کر اس کو صدقہ دینے والے کے لیے بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچے کو بڑھائے یہاں تک کہ وہ کھجور کے برابر والا صدقہ اُحد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔

۹۔ انکار کی نوبت آنے سے قبل صدقہ کرنا:

سیدنا حارثہ بن وہبؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ’’ اے لوگو! صدقہ دو اس لئے کہ تمہارے اوپر ایک دَور ایسا آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لئے پھرے گا مگر کسی ایسے شخص کو نہ پائے گا جو اسے قبول کر لے۔ جسے وہ صدقہ دینا چاہے گا، وہ کہے گا کہ کاش تو کل لایا ہوتا تو میں لے لیتا لیکن آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

۱۰قیامت سے قبل دولت کی فراوانی ہو جائے گی:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ تم میں دولت کی ریل پیل ہو کر اُبل نہ پڑے۔ یہاں تک کہ صاحبِ مال اس شخص کو تلاش کرے گا جو اس کا صدقہ لے لے اور اسے جب کسی کے سامنے پیش کرے گا تو وہ کہے گا کہ آج مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۱ روزِ حشر اللہ، بندے کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو گا:

سیدنا عدی بن حاتمؓ کہتے ہیں رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ یقیناً تم میں سے ہر شخص قیامت کے دن اﷲ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اس کے اور اﷲ کے درمیان نہ کوئی حجاب ہو گا اور نہ کوئی ترجمان۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟ وہ عرض کرے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر کو نہ بھیجا تھا؟ (جو تجھے زکوٰۃ کی فرضیت سے آگاہ کرتا)۔وہ عرض کرے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پس وہ شخص اپنی داہنی جانب نظر کرے گا تو بجز آگ کے کچھ نہ دیکھے گا لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو چاہیئے کہ آگ سے بچے اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے صدقہ دینے سے سہی۔ پھر اگر کھجور کا ٹکڑا بھی میسر نہ ہو تو عمدہ بات کہہ کر۔

۱۲۔قحط الرجال: ایک مَرد اور چالیس عورتیں:

سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک دَور آئے گا جس میں آدمی صدقہ کا سونا لے کر گشت کرے گا مگر کوئی لینے والا نہ پائے۔ اور مَردوں کی قلّت اور عورتوں کی کثرت کے سبب سے ایک مَرد کے پیچھے چالیس عورتیں دیکھی جائیں گی جو اس کے ساتھ لگی رہیں گی۔ (یعنی عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت ہو گی)

۱۳۔صدقہ کا حکم نبویؐ اور لوگوں کا طرزِ عمل:

سیدنا ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب ہمیں صدقہ کا حکم دیتے تھے تو کوئی شخص ہم میں سے بازار کی طرف جاتا اور بار برداری کرتا۔ اور اسے مزدوری میں جو غلہ وغیرہ مل جاتا تو اسی کو صدقہ میں دے دیتا۔ اس وقت ایسی تنگدستی کی حالت تھی اور آج بعض لوگوں کے پاس ایک لاکھ درہم موجود ہیں۔

۱۴۔بیٹیوں کی آزمائش میں دوزخ سے حجاب:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ سوال کرتی ہوئی آئی۔ میرے پاس صرف ایک کھجور تھا جو میں نے اسے دے دیا۔ اُس نے اُس کھجور کو اپنی دونوں لڑکیوں میں تقسیم کر دیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ جب نبیﷺ کو میں نے اس بات کی خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لڑکیوں میں سے کسی کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کر دیا جائے تو وہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے حجاب ہو جاتی ہیں۔

۱۵۔کو ن سا صدقہ ثواب میں افضل ہے ؟

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کو ن سا صدقہ ثواب میں زیادہ ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا یہ کہ تو صدقہ اس حال میں دے کہ تو صحیح ہو، مال و دولت کا خواہشمند ہو، فقیری سے ڈرتا ہو اور مالدار ہونے کی آرزو رکھتا ہو۔ اور صدقہ دینے میں اتنی دیر مت کر کہ جب جان حلق میں پہنچ جائے اور تُو کہے کہ اتنا مال فلاں شخص کو دے دینا حالانکہ اب تو وہ مال وارث کا ہو چکا۔

۱۶۔حضرت زینب بنت جحشؓ کی فضیلتِ صدقہ:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی بعض بیویوں نے آپؐ سے عرض کیا کہ (آپﷺ کی وفات کے بعد ہم لوگوں میں سے ) سب سے پہلے آپؐ سے کون ملے گی؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ جس کا ہاتھ تم سب سے لمبا ہو گا تو انہوں نے ایک بانس کا ٹکڑا لے کر ہاتھ ناپنے شروع کئے تو سودہؓ کا ہاتھ سب میں بڑا نکلا۔مگر جب سب سے پہلے اُمُّ المومنین زینب بنت جحشؓ کی وفات ہوئی تو ہم نے جان لیا کہ ہاتھ کے بڑے ہونے سے آپؐ کی مراد کثرتِ صدقہ تھی۔چنانچہ وہ نبیؐ کے ساتھ سب سے پہلے ملیں کہ وہ صدقہ دینے کو بہت پسند کرتی تھیں۔

۱۷۔عورت کا گھر کے کھانے میں سے صدقہ دینا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے صدقہ دے بشرطیکہ اس کی نیت گھر بگاڑنے کی نہ ہو تو اس عورت کو صدقہ دینے کا ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کو کمائی کا اور ان میں سے کسی ایک کے ثواب کو بھی کم نہیں کیا جائے گا۔

۱۸۔عمدہ صدقہ: جو فاضل مال سے دیا جائے:

سیدنا حکیم بن حزامؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کی ابتداء اہل و عیال اور قریبی رشتہ داروں سے کرو۔ اور عمدہ صدقہ وہ ہے جو فاضل مال سے دیا جائے اور جو شخص سوال کرنے سے بچے گا تو اﷲ بھی اسے سوال کرنے سے بچائے گا۔ اور جو شخص بے پرواہ رہنا چاہے گا تو اﷲ بھی اسے بے پرواہ کر دے گا۔

۱۹۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اور اس وقت آپﷺ منبر پر تھے اور آپﷺ صدقہ کا اور سوال سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔اوپر والا ہاتھ تو دینے والا اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔

۲۰۔صدقہ کے لیے ترغیب دینا بھی کارِ ثواب:

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے پاس سائل آتا یا آپﷺ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپﷺ فرماتے کہ اس کی حاجت روائی کے لیے سفارش کرو تو تمہیں بھی ثواب ملے گا۔

۲۱۔بے حساب دو گے تو اللہ بے حساب دے گا:

اسماء بنت ابی بکر صدیقؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے اسمائ! خیرات کو مت روکو ورنہ تمہارے رزق میں سے خیر و برکت کو بھی روک لیا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ ’’ مال و دولت کو گنو مت ورنہ اﷲ بھی تجھے گن گن کر دے گا‘‘۔ یعنی بغیر حساب کے خیرات کرو تو اﷲ تعالیٰ بھی بے شمار دے گا۔

۲۲۔حالتِ کفر میں صدقہ،پھر اسلام لے آنا:

سیدناحکیم بن حزامؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ بتائیے کہ جو کام عبادت کے، مَیں جاہلیت کی حالت میں کرتا تھا مثلاً صدقہ کرنا اور غلام آزاد کرنا اور اور صلۂ رحمی کرنا تو کیا ان کا بھی کچھ ثواب مجھے ملے گا؟ تو نبیﷺ نے فرمایا کہ تم جتنی نیکیاں کر چکے ہو ان ہی کے سبب سے تو مسلمان ہوئے ہو۔ اور تم ان سب نیکیوں کے ساتھ مسلمان ہوئے ہو۔

۲۳۔مالک کے حکم سے صدقہ دینا ثواب ہے:

سیدنا ابو موسیٰؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان خزانچی جو امانت دار ہو، صاحب مال کا حکم نافذ کرے یا اس کا صاحب جس قدر صدقہ دلائے وہ پورا اس کو دے دے جس کو دلایا گیا۔ اور اس سے اس کا دل بھی خوش ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں شامل ہو گا۔

۲۴۔خرچ کرنے والے اور بخل کر نے والے:

سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا کہ ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک یہ کہتا ہے : ’’اے اﷲ ہر خرچ کرنے والے کو اس کے خرچ کرنے کا نعم البدل عنایت فرما‘‘ اور دوسرا کہتا ہے : ’’اے اﷲ ہر بخل کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد کر دے ‘‘۔

۲۵۔صدقہ دینے والے اور بخیل کی مثالیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا بخیل کی اور صدقہ دینے والے کی مثال ان آدمیوں کے مثل ہے جن کے جسم پر سینہ سے لے کر گردن تک لوہے کے دو جُبّے ہوں۔ تو سخی جب خرچ کرنا چاہتا ہے تو وہ جبہ کشادہ ہو جاتا ہے یعنی اس کے جسم پر ڈِھیلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کو چھپا لیتا ہے اور بڑھ جاتا ہے۔ اور بخیل جب کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس جبہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے وہ اس کو کشادہ کرنا چاہتا ہے مگر کشادہ نہیں ہوتا۔

۲۶۔صدقہ کی مختلف صورتوں پر بھی عمل کرنا:

سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ دینا ضروری ہے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے نبیﷺ اگر کسی کو مقدور نہ ہو؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے اور اپنی جان کو آرام دے اور صدقہ دے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ صاحب حاجت مظلوم کی فریاد رسی کرے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو؟ تو آپؐ نے فرمایا تو وہ اچھی بات پر عمل کرے اور برائی سے باز رہے یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔

۲۷۔زکوٰۃ میں مال و اسباب دینا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ نے ان کے لیے وہ بات لکھی جس کا اﷲ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ جس کسی پر صدقہ میں ایک برس کی اونٹنی واجب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے گی اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے گا۔ اگر اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو بلکہ دو برس کا اونٹ ہو تو وہ اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اسے کچھ نہیں دیا جائے گا۔

۲۸۔متفرق مال یکجا اور یکجا مال متفرق نہ کرنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ابوبکر صدیقؓ نے جو کچھ اﷲ کے رسولﷺ نے زکوٰۃ کے متعلق مقرر کیا ہے وہ لکھ دیا،اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ صدقہ کے خوف سے متفرق مال یکجا نہ کیا جائے اور یکجا مال متفرق نہ کیا جائے۔

۲۹۔شراکت داروں کے مال کی زکوٰۃ:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ نے ان کی ہدایت کے لیے وہ باتیں جو نبیﷺ نے زکوٰۃ کے بارے میں فرض کی تھیں لکھوا دیں۔ اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ جو مال دو شراکت داروں کا ہو وہ دونوں زکوٰۃ دینے کے بعد آپس میں برابر برابر سمجھ لیں۔

۳۰۔اونٹوں کی زکوٰۃ کا حساب:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے جب انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بحرین کی طرف بھیجا تو انہیں یہ تحریر لکھ دی تھی… چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری (پانچ سے کم پر زکوٰۃ نہیں ) پھر جب پچیس سے پینتیس تک اونٹ ہوں تو ان میں ایک برس کی اونٹنی پھر جب چھتیس سے پینتالیس تک اونٹ ہوں تو ان میں دو برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھیالیس سے ساٹھ تک ہوں تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی پھر جب اکسٹھ سے پچھتر تک ہوں تو ان میں چار برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھہتر سے نوے تک ہوں تو ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں، پھر جب اکیانوے سے ایک سو بیس تک ہوں تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے لائق دینا ہوں گی۔ پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی دینی ہو گی اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں اگر ان کا مالک چاہے تو دے دے پھر جب پانچ ہوں تو اُن میں ایک بکری زکوٰۃ کے طور پر دینی ہو گی۔

۳۱۔بکریوں کی زکوٰۃ کا حساب:

اور جنگل میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ میں جب وہ چالیس سے ایک سو بیس تک ہوں ایک بکری فرض ہے پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں پھر جب دو سو سے زیادہ تین سو تک ہو جائیں تو ان میں تین بکریاں پھر جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سو میں ایک بکری اور اگر کسی کے پاس میں چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں اگرچہ ایک بکری بھی کم ہو تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر ان کا مالک دینا چاہے تو دے دے۔

۳۲۔ جنگل میں چرنے والے مویشیوں پر زکوٰۃ:

زکوٰۃ صرف ان ہی اونٹوں، گائے اور بکریوں پر فرض ہے جو چھ ماہ سے زیادہ جنگل میں چرتی ہوں۔ اگر چھ ماہ سے زیادہ اپنے پاس سے چارہ وغیرہ کھلانا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ان تین جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ البتہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے۔

۳۳۔چاندی میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ ہے:

اور دوسو درہم چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور اگر ایک سونوے درہم ہیں تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر اس کا مالک دینا چاہے تو دے دے۔

۳۴۔زکوٰۃ میں عیب دار جانور نہ لئے جائیں:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ نے ان کو ایک تحریر لکھ دی تھی جن کا اﷲ نے اپنے رسولﷺ کو حکم دیا ہے۔ اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھا، عیب دار اور نر جانور نہ لیا جائے۔ ہاں اگر صدقہ دینے والا چاہے تو پھر نر لینے میں کچھ حرج نہیں۔

۳۵۔صدقہ اپنے قرابت داروں پر صرف کرنا:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ مدینہ سیدنا ابو طلحہؓ کے پاس ازقسم باغات سب سے زیادہ مال تھا۔ سب سے زیادہ پسند ان کو مسجدِ نبویﷺ کے سامنے اپنا بیر حاء نامی باغ تھا جہاں رسول اﷲﷺ تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس میں جو خوشگوار پانی تھا اس کو نوش فرماتے تھے۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت (ترجمہ) ’’ تم لوگ ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے یہاں تک کہ جس چیز کو تم دوست رکھتے ہو اس میں سے خرچ کرو‘‘ (آل عمران۔ ۹۲) نازل ہوئی تو ابو طلحہ نے رسول اﷲﷺ سے عرض کیابے شک مجھے اپنے سب مالوں میں زیادہ محبوب ’’بیرحاء‘‘ ہے اور وہ اب اﷲ کے لیے صدقہ ہے۔ آپﷺ اس کو جہاں مناسب سمجھئے صرف کیجیے۔ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا ’’شاباش یہ تو ایک مفید مال ہے۔ اور میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اس کو قرابت داروں میں صرف کر دو۔چنانچہ انہوں نے اس کو اپنے قرابت داروں میں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔

۳۶۔لعن طعن، شوہر کے حسن سلوک کا انکار کرنا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نمازِ عید کے موقع پر لوگوں کو نصیحت کی اور خواتین سے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری ہی دیکھی ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ایسا کیوں ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا اس لیے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کے حسن معاملت کا انکار کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل و دانش اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔

۳۷۔شوہر اور بچوں کو صدقہ دینا:

بعد ازاں آپﷺ واپس گھر تشریف لائے توسیدہ زینب زوجہ سیدنا ابن مسعودؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ! آپ نے آج ہم عورتوں کو صدقہ دینے کا حکم دیا ہے۔ میرے پاس کچھ زیورات ہیں اور میں نے چاہا کہ انہیں خیرات کر دوں مگر ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کی اولاد سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ میں انہی کو صدقہ دوں۔نبیﷺ نے فرمایا کہ ابن مسعودؓ نے سچ کہا۔تمہارے شوہر اور تمہارے بچے سب سے زیادہ اس امر کے مستحق ہیں کہ تم انہیں صدقہ دو۔

۳۸۔سواری کے گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا مسلمان پر اس کے خدمت گزار غلام اور اس کی سواری کے گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

۳۹۔مسلمانوں کی خوشحالی اور نبیﷺ کا خوف:

سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲﷺ نے ہم سے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ( مال تو اتنی اچھی چیز ہے ) کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی؟ یہ سن کر آپﷺ نے سکوت فرمایا اور کہا کہ یہ صحیح ہے کہ اچھی چیز برائی نہیں پیدا کرتی مگر دیکھو فصل کے ساتھ ایسی گھاس بھی پیدا ہوتی ہے جو (اپنے چرنے والے کو) مار ڈالتی ہے یا بیمار کر دیتی ہے۔ بے شک یہ مال ایک میٹھی سبزی ہے پس کیا اچھا مال ہے مسلمان کا کہ وہ اس میں سے مسکین کو اور یتیم کو اور مسافر کودے۔

۴۰۔اپنی اولاد پر مال خرچ کرنے کا ثواب:

اُمُِّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! کیا مجھے کچھ ثواب ہو گا اگر میں ابو سلمہؓ کے بچوں پر اپنا مال خرچ کروں،کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا تم ان پر خرچ کرو، جو کچھ تم ان پر خرچ کروگی اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔

۴۱۔سوال سے پرہیز فقر سے بچاتا ہے:

سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ کچھ انصاری لوگوں نے نبیﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے انہیں دے دیا پھر انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے پھر انہیں دے دیا۔یہاں تک کہ جس قدر مال آپﷺ کے پاس تھا وہ سب ختم ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جب مال ہو گا تو میں اسے تم لوگوں سے بچا کر نہ رکھوں گا۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص سوال کرنے سے پرہیز کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کو فقر سے بچائے گا اور جو شخص بے پرواہی ظاہر کرے گا تو اﷲ تعالی اس کو غنی کر دے گا اور جو شخص صبر کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کو صابر بنا دے گا۔

۴۲۔محنت مزدوری کرنا ہاتھ پھیلانے سے بہتر:

سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، لکڑیاں توڑ کر اور انہیں اپنی پیٹھ پر لاد کر فروخت کرنا کسی سے سوال کرنے سے بہتر ہے۔

۴۳۔ لالچ اور سوال کے بغیر ملے تو قبول کرنا:

امیر المومنین عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ مجھے مال دیتے تھے تو میں کہتا تھا کہ یہ اس شخص کو دیجئے جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہو تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اسے لے لو جب اس مال میں سے کچھ تمہارے پاس آئے اور تم کو لالچ نہ ہو اور نہ ہی تم نے سوال کیا ہو۔ اور جو نہ ملے تو اس کے حاصل کرنے کے لئے اپنا جی مت دوڑاؤ۔

۴۴۔ مال بڑھانے کے لئے سوال کرنے والا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا جو شخص لوگوں سے برابر سوال کیا کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی کوئی بوٹی نہ ہو گی اور آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن آفتاب قریب ہو جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا پس سب لوگ اس حالت میں ہوں گے کہ یکا یک وہ آدم ؑ سے فریاد کریں گے پھر موسیٰ ؑ سے پھر محمدﷺ سے۔

۴۵۔مسکین کسے کہتے ہیں ؟

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا مسکین وہ شخص نہیں ہے جس کو لوگ ایک لقمہ یا دو لقمہ دے دیں یعنی جو لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھرے بلکہ مسکین وہ شخص ہے جسے غنا حاصل نہ ہو اور وہ شرم کرتا ہو اور لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرتا ہو۔

۴۶۔غزوہ تبوک: نبیؐ نے آندھی کی پیشین گوئی:

سیدنا ابو حمید ساعدیؓ کہتے ہیں کہ ہم نے غزوہ تبوک میں رسول اﷲﷺ کے ہمراہ جہاد کیا ہے۔ پھر جب ہم مقامِ تبوک میں پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ آج رات کو سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے ہمراہ اونٹ ہو وہ اسے باندھ دے۔ چنانچہ ہم لوگوں نے اونٹوں کو باندھ دیا اور سخت آندھی چلی۔ ایک شخص اتفاق سے کھڑا ہو گیا اس کو آندھی نے طیء نامی ایک پہاڑ پر پھینک دیا۔

۴۷۔کنویں کے پانی کی پیداوار میں نصف عُشر:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ مروی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جس چیز کو بارش کا پانی سینچے اور چشمے سینچیں یا خودبخود پیدا ہو اس میں عُشر واجب ہوتا ہے اور جو چیز کنوئیں کے پانی سے سینچی جائے اس میں نصف عُشر ہے۔

۴۸۔آلِ محمدﷺ صدقہ نہیں کھاتے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کے پاس کھجوریں کٹتے ہی آنے لگتیں۔ یہاں تک کہ کھجوروں کے انبار آپﷺ کے سامنے لگ جاتے تھے۔ ایک دن حسنؓ اور حسینؓ ان کھجوروں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ ان دونوں میں سے کسی نے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں رکھ لی تو رسول اﷲﷺ کی نظر اس پر پڑی تو فوراً وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ آل محمدﷺ صدقہ نہیں کھاتے۔

۴۹۔ صدقہ دی ہوئی چیز خود نہ خریدی جائے:

امیر المومنین عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اﷲ کی راہ میں ایک گھوڑا سواری کے لیے دیا تو جس شخص کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے اس کی کچھ قدر نہ کی۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کو خرید لوں۔ میں نے سوچا کہ وہ اس کو ارزانی کے ساتھ فروخت کر دے گا۔ لہٰذا میں نے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نہ خریدو اگرچہ تمہیں وہ ایک درہم کا ہی کیوں نہ دے۔ بے شک اپنے صدقہ کا واپس کر لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی قے کا کھانے والا۔

۵۰۔مُردہ مویشی کی کھال استعمال کرنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ایک مری ہوئی بکری دیکھی جو حضرت میمونہؓ کی کسی لونڈی کو صدقہ میں ملی تھی۔ نبیؐ نے فرمایا کہ تم اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ عرض کیا کہ وہ تو مری ہوئی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔

۵۱۔جب صدقہ کی حالت بدل جائے:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے سامنے کچھ گوشت لایا گیا جو بریرہؓ کو صدقہ میں ملا تھا آپﷺ نے فرمایا یہ گوشت بریرہؓ کے لیے صدقہ تھا اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

۵۲۔مظلوم کی بد دعا سے بچنا چاہیے:

سیدنا معاذؓ مروی ہیں رسول اﷲﷺ نے انہیں یمن بھیجتے ہوئے نصیحت کی کہ مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کی بددعا اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کچھ حجاب نہیں ہوتا۔

۵۳۔ صدقہ دینے والے کے لیے دعا کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کوئی شخص آپﷺ کے پاس اپنا صدقہ لے کر آتا تو آپﷺ فرماتے تھے کہ ’’اے اﷲ! فلاں شخص کی اولاد پر مہربانی فرما‘‘ چنانچہ ایک مرتبہ میرے والد آپﷺ کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو آپﷺ نے فرمایا ’’اے اﷲ! ابی اوفی کی اولاد پر مہربانی فرما‘‘۔

۵۴۔معدنیات کی زکوٰۃ بیس فیصد ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جانور سے جو زخم پہنچے اس پر کچھ بدلہ نہیں۔ اسی طرح کنویں میں گر کر اور ’’کان‘‘ میں کام کرتے ہوئے مر جائے تو کچھ بدلہ نہیں اور معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔

۵۵۔ صدقہ کے اونٹوں کو داغنا جائز ہے:

سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دن صبح کے وقت سیدنا ابو طلحہؓ کے نو مولود بیٹے عبداﷲ کو لے کر رسول اﷲﷺ کے پاس گیا تاکہ آپﷺ اسے گھٹی لگائیں یعنی کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تو میں نے آپﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپﷺ کے ہاتھ میں داغ دینے کا آلہ تھا اور آپﷺ اس سے صدقہ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔

٭٭٭

۲۵۔ کتاب صدقۃ الفطر


۱۔صدقہ فطر کی مقدار دو کلو کھجور:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے صدقہ فطر کے لیے کھجوروں کا یا ’’جو‘‘ کا ایک ’’صاع‘‘ (تقریباً دو کلو گرام) دیا۔ اور مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد اور مرد اور عورت اور بچے اور بڑے سب پر فرض فرمایا اور لوگوں کو نمازِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے اسے ادا کر دینے کا حکم دیا ہے۔

۲۔عید الفطر کے دن صدقہ فطر دینا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے عہد میں عید الفطر کے دن ایک صاع کھانا محتاجوں کو دیا کرتے تھے اور ہمارا کھانا ’’ جو، انگور، پنیر اور کھجور تھا‘‘۔

۳۔صدقہ فطر مرد و ز ن سب پر واجب ہے:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ صدقہ فطر، ایک صاع کھجور یا ایک صاع گیہوں، نبیﷺ نے ہر مسلمان مرد، عورت،غلام سب پر فرض کر دیا ہے۔

٭٭٭

۲۶۔کتاب الحج


۱۔ ضعیف والدین کی طرف سے حج بدل کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ یا رسول اﷲ!ﷺ اﷲ میرے ضعیف با پ پر حج فرض ہے مگر وہ سواری پر نہیں جم سکتے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں کر لے۔

۲۔حجِ مقبول سب سے افضل جہاد ہے:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے رسول اﷲﷺ سے پوچھا کہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں ؟ تو آپﷺ نے فرمایاسب سے افضل جہاد ’’حجِ مقبول‘‘ ہے۔

۳۔حجِ مقبول سے گناہوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ کے لیے حج کرے پھر حج کے دوران کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کر کے اس طرح بے گناہ واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے بے گناہ جنم دیا تھا۔

۴۔حج و عمرہ : مختلف راستوں کے مختلف میقات:

سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات قرار دیا تھا اور شام والوں کے لئے جحفہ اور نجد والوں کے لئے قرن المنازل اور یمن والوں کے لئے یلملم۔ یہ مقامات یہاں کے رہنے والوں کے لئے بھی میقات ہیں۔ اور جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے غیر مقام کا رہنے والا ان مقامات کی طرف سے ہو کر آئے، اس کی بھی میقات ہیں۔ پھر جو شخص ان مقامات سے مکہ کی طرف کا رہنے والا ہو تو وہ جہاں سے نکلے احرام باندھ لے اسی طرح مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔

۵۔ عقیق ایک مبارک وادی ہے:

امیر المومنین عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو وادیِ عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج شب کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اس مبارک وادی یعنی عقیق میں نماز پڑھو اور کہو کہ ’’میں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا‘‘۔ایک اور روایت میں سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو اخیر شب میں جب آپﷺ ذوالحلیفہ میں تھے۔ وادیِ عقیق میں یہ خواب دکھایا گیا اور آپﷺ سے کہا گیا کہ اس وقت آپﷺ ایک مبارک وادی میں ہیں۔واضح رہے کہ نبیﷺ کے خواب بھی وحی میں شامل ہیں۔

۶۔ احرام: خوشبو لگے کپڑے کو تین مرتبہ دھونا:

سیدنا یعلی بن امیہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ یا رسول اﷲﷺ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے، جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبیﷺ نے کچھ دیر سکوت فرمایا پھر آپﷺ پر وحی نازل ہونے لگی۔ بعد ازاں آپﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو تجھے لگی ہو گی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔

۷۔مسجد ذوالحلیفہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا:

سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے احرام باندھتے ہی تلبیہ یعنی لبیک نہیں کہا۔البتہ جب آپؐ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب پہنچے تو تلبیہ پڑھی۔

۸۔ عرفہ سے مزدلفہ اور پھر منیٰ تک لبیک کہنا:

سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہؓ نبیﷺ کے ہم رکاب تھے۔ پھر آپﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضلؓ بن ابی طالبؓ کو ہمرکاب کر لیا تھا۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ دونوں صحابیوں کا بیان ہے کہ نبیﷺ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپؐ نے جمرۃ العقبہ کی رمی کی۔

۹۔محرم کس قسم کے کپڑے پہنے ؟

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور آپ کے صحابہؓ ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے۔ پھر آپﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپﷺ ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب مقامِ بیداء میں پہنچے تو آپﷺ کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالے۔ پھر آپﷺ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپﷺ نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپﷺ اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپﷺ ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپﷺ مکہ کی بلندی پر مقام حجوں کے پاس اترے اور آپﷺ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے طواف کرنے کے بعد آپؐ کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔ اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہو گیا۔

۱۰۔تلبیہ یعنی لبیک کہنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کا تلبیہ یہ تھا ’’ اے اﷲ میں تیرے دروازہ پر بار بار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔

۱۱۔حج و عمرہ دونوں کے لیے لبیک کہنا:

سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ہم لوگ آپﷺ کے ہمراہ تھے اور عصر کی ذوالحلیفہ میں پہنچ کر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر آپﷺ رات بھر ذوالحلیفہ میں رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر آپﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپﷺ کی سواری بیداء میں پہنچی تو آپﷺ نے اﷲ کی حمد بیان کی اور تسبیح پڑھی اور تکبیر کہی۔ اس کے بعد آپﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کی لبیک پکاری اور لوگوں نے بھی حج و عمرہ دونوں کی لبیک کہی۔ پھر جب ہم لوگ مکہ میں پہنچے تو آپﷺ نے لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم دیا چنانچہ وہ احرام سے باہر ہو گئے۔یہاں تک کہ ترویہ کا دن آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے کئی اونٹ، کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ سے قربان کئے اور مدینہ میں سینگوں والے دو مینڈھے رسول اﷲﷺ نے قربان کئے تھے۔

۱۲۔ احرام باندھنے سے قبل تیل لگانا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ جب حج کے لے مکہ جانے کا ارادہ کرتے تو تیل لگاتے جس میں خوشبو نہ ہوتی تھی پھر ذوالحلیفہ کی مسجد میں آتے اور نماز پڑھتے اس کے بعد سوار ہوتے پھر جس وقت وہ سوار ہوتے اور سواری کھڑی ہو جاتی تو احرام باندھتے اس کے بعد کہتے کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

۱۳۔حج کے احرام سے عمرہ کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم حج کے مہینے میں حج کے احرام کے ساتھ مدینے سے نکلے پھر ہم مقامِ سرف میں اترے پھر آپﷺ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ چاہے کہ اس احرام سے عمرہ کرے تو وہ ایسا کر لے اور جس شخص کے ہمراہ جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔

۱۴۔حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھنا:

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ ہم رسول اﷲﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع کے سال مکہ کی طرف چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اﷲﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا یہاں تک کہ قربانی کا دن آ گیا۔

۱۵۔عازمِ حج کا عمرہ کے بعد احرام سے باہر آنا:

اُمُّ المومنین حفصہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کر کے احرام سے باہر ہو گئے اور آپﷺ عمرہ کر کے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبیﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا۔ لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کر لوں احرام سے باہر نہیں آ سکتا۔

۱۶۔عازمِ حج کا قربانی کا جانور ساتھ لے جانا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپﷺ اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے احرام سے باہر آ جاؤ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہو کر ٹھہرے رہو۔ یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آ جائے تو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کر دو تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس کو تمتع کر دیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو۔ اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے۔

۱۷۔حطیم عمارتِ کعبہ کا حصہ ہے:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ کعبہ کا دروازہ اس قدر اونچا کیوں ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہاری قوم نے اس لیے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہو گا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا۔

۱۸۔حطیم سمیت کعبہ کی تعمیر نو کی خواہش:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کر دینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کر دیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کر دیتا اور اس کو زمین سے ملا دیتا اور اس میں دروازے بناتا ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیمؑ کی بنیاد کے موافق کر دیتا۔

۱۹۔نبیﷺ کا خیف بنی کنانہ میں اترنا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے گیارہ ذوالحجہ کو منیٰ میں فرمایا: ہم کل انشاء اﷲ خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں اتریں گے جہاں مشرکوں نے کفر پر باہم معاہدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ قریش نے اور کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے بارے میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ رشتہ ناطہ نہ کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے۔ یہاں تک کہ بنی ہاشم نبیﷺ کو ان کے حوالے کر دیں۔

۲۰۔ قرب قیامت کعبہ منہدم ہو جائے گا:

سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے راوی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کر دے گا۔ ایک اور حدیث میں سیدنا ابن عباسؓ راوی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا، گویا کہ میں اس سیاہ فام شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔

۲۱۔عاشورہ کا روزہ جو چاہے رکھ لے:

اُمُُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ وہ ایک ایسا دن تھا کہ اس میں کعبہ پر پردہ بھی ڈالا جاتا تھا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے رمضان میں روزہ فرض فرمایا تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اب جو شخص عاشورے کا روزہ رکھنا چاہے رکھ لے اور جو نہ رکھنا چاہے نہ رکھے۔

۲۲۔خروجِ یاجوج ماجوج کے بعد حج و عمرہ ہو گا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا یا جوج ما جوج کے خروج کے بعد بھی کعبہ کا حج و عمرہ کیا جائے گا۔

۲۳۔ حجراسود کو بوسہ دیناسنت ہے:

امیر المومنین حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ طواف میں حجراسود کے پاس آئے، اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبیﷺ کو تیرا بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔

۲۴۔دورانِ حج کعبہ کے اندر جانا ضروری نہیں:

سیدنا عبداﷲ بن ابی اوفیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے عمرہ کیا پھر کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔اس وقت آپﷺ کے ہمراہ ایک آدمی تھا جو آپﷺ کو لوگوں سے چھپائے ہوئے تھا پھر ایک شخص نے عبداﷲ بن ابی اونیؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اﷲﷺ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تھے ؟ تو انہوں نے کہا ’’نہیں ‘‘۔

۲۵۔ کعبہ کے گرد تکبیر کہنا:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب حج کرنے تشریف لائے تو آپؐ نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے۔پھر آپﷺ نے حکم دیا تو وہ بت وہاں سے نکال دیئے گئے پھر لوگوں نے ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے بت اس کے اندر سے نکالے۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں پانسے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ اﷲ ان لوگوں کو ہلاک کرے۔ اﷲ کی قسم انہیں معلوم ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام نے کبھی ان پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی پھر آپﷺ نے کعبہ کے گرد تکبیر کہی اور اس میں نماز نہیں پڑھی۔

۲۶۔ طواف میں رمل کی ابتداء کیسے ہوئی:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ اور صحابہ جب حج کرنے مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایساگروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ اس بات کی اطلاع پا کر نبیﷺ نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال چلیں۔ تمام چکروں میں رمل نہ کرنے کا حکم دینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو سہولت ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔

۲۷۔ طواف میں تین چکروں میں رمل کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو دیکھا جب آپﷺ مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجر اسود کا بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔

۲۸۔ حجر اسود کو لاٹھی سے بوسہ دینا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے حجۃالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا۔ اور لاٹھی سے آپﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ یعنی حجر اسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا۔

۲۹۔مکہ آمد پر کعبہ کا طواف کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے مکہ میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ آپﷺ نے وضو کیا پھر طواف کیا اور آپﷺ کا یہ عمل عمرہ کے لیے نہیں تھا۔ پھر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی طرح کیا۔

۳۰۔دورانِ طواف گفتگو کرنا درست ہے:

سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نبیﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ رسی سے باندھا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کو رسی کے ذریعہ کھینچ رہا تھا۔ نبیﷺ نے اس رسی کو اپنے ہاتھ سے توڑ دیا پھر فرمایا کہ اسے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر لے چل۔

۳۱۔مشرک یا برہنہ شخص کعبہ کا طواف نہیں کر سکتا:

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اس حج میں جس میں انہیں نبیﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا مجھ کو قربانی کے دن چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں اس امر کا اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ ’’ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے نیز کوئی برہنہ شخص بھی کعبہ کا طواف نہ کرے ‘‘۔

۳۲۔حاجیوں کو پانی پلانا:

سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عباس بن عبد المطلبؓ نے رسول اﷲﷺ سے منیٰ کی راتوں میں حاجیوں کے پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔

۳۳۔زم زم کا پانی کھڑے ہو کر پینا:

سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو زم زم کا پانی پلایا تو آپﷺ نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ اس دن اونٹ پر سوار تھے۔

۳۴۔صفاومروہ کے درمیان سعی کا واجب ہونا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ان کی بہن کے بیٹے عروہ بن زبیرؓ نے اﷲ تعالیٰ کے قول (ترجمہ) ’’بے شک صفا اور مروہ دونوں اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے ‘‘ (بقرہ۔ ۱۵۸) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واﷲ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ صفا و مروہ کی سعی نہ کرے ؟ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے جواب دیا کہ اے بھانجے ! تم نے بہت بُرا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی (ترجمہ) بے شک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمان ہونے سے پہلے ’’مناۃ‘‘ بت کی پوجا کرتے تھے۔یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول اﷲﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ یا رسول اﷲﷺ ہم صفا و مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲﷺ نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کو ترک کر دے۔

۳۵صفا و مروہ کی سعی : بطن المسیل میں تیز دوڑنا:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب پہلا طواف کرتے تھے تو اس کے تین چکروں میں رمل یعنی دوڑ کر چلا کرتے تھے اور اگلے چار چکروں میں مشی یعنی معمولی چال سے چلا کرتے تھے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن المسیل میں سعی(دوڑا) کرتے تھے۔

۳۶۔آٹھویں ذوالحجہ: ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھنا:

سیدنا انس بن مالکؓ سے عبدالعزیز بن رفیع نے پوچھا کہ نبیﷺ سے نے ظہر اور عصر کی نمازیں آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھیں ؟ تو انہوں نے کہا ’’منیٰ میں ‘‘ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نفر کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ’’ابطح میں ‘‘ پھر سیدنا انسؓ نے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔

۳۷۔عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا ضروری نہیں:

نبیﷺ کی چچی اُمُِّ فضلؓ کہتی ہیں کہ عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے دن لوگوں کو نبیﷺ کے روزہ میں شک تھا تو میں نے نبیﷺ کی خدمت میں کوئی چیز پینے کو بھیجی تو اس کو آپؐ نے پی لیا تو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ روزہ سے نہیں ہیں۔

۳۸۔عرفہ کے دن دوپہر کو روانگی:

سیدناعبداﷲبن عمرؓ نے عرفہ کے دن زوالِ آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آ کر بلند آواز دی تو حجاج نے باہر نکل کر پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو تجھے اسی وقت وقوف کے لیے چلنا چاہیئے۔ حجاج نے عرض کیا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں۔ پھر حجاج نکلا تو چل پڑے۔ اس موقع پر موجودسالم بن عبداﷲ نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداﷲ بن عمرؓ کی طرف دیکھنے لگا۔جب عبداﷲ بن عمر نے کہا کہ سالم صحیح کہتے ہیں۔

۳۹۔ عرفات سے روانہ ہو تے وقت تیز چلنا:

سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اﷲﷺ حجۃالوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے ؟ تو سیدنا اسامہؓ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلنے لگتے۔

۴۰۔ عورتوں اور بچوں کا رات کو ہی روانہ ہونا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو اُمُّ المومنین سودہؓ نے نبیﷺ سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک سست عورت تھیں تو آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر ہم رسول اﷲﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ کاش میں نے بھی رسول اﷲﷺ سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہؓ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔
۴۱۔مزدلفہ میں نمازوں کی ادائیگی:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے اور ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹا دی گئی ہیں مغرب اور عشاء۔ پس لوگوں کو چاہیئے کہ جب تک عشاء کا وقت نہ ہو جائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔ جب خوب سفیدی پھیل گئی تو عبداﷲ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر امیر المومنین عثمانؓ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے۔چنانچہ امیر المومنین نے کوچ کر دیا۔ پھر سیدنا ابنِ مسعودؓ برابر تلبیہ کرتے رہے اور قربانی کے دن جمرۃالعقبہ کو کنکریاں ماریں۔تب تلبیہ موقوف کر دیا۔

۴۲۔مزدلفہ سے سورج نکلنے سے قبل نکلنا:

امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے اس کے بعد فرمایا کہ مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کُوچ نہ کرتے تھے اور ثبیر نامی پہاڑ سے کہا کرتے تھے کہ اے ثبیر آفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔بے شک نبیﷺ نے ان کی مخالفت فرمائی تھی۔ اس کے بعد سیدنا عمرؓ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا۔

۴۳۔قربانی کے جانور پر سوار ہونا جائز ہے:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ! یہ تو قربانی کا جانور ہے اس پرکیسے سوار ہو سکتا ہوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔

۴۴۔حج میں قربانی نہ کر سکے تو دس روزہ رکھے:

سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے حجۃالوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے آپؐ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبیﷺ کے ہمراہ عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبیﷺ مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اُسے چاہیئے کہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے بال کتر والے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو کو صرف حج کا احرام باندھے۔پھر حج کرے اور قربانی کرے۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔

۴۵۔ قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنا:

سیدنا مسور بن مخرمۃ اور مروانؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہؓ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبیﷺ نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور عمرہ کا احرام باندھا۔

۴۶۔ قربانی کی بکریوں کو ہار پہنانا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے کہ نبیﷺ نے بکریاں، قربانی کے لئے روانہ کی تھیں۔ ایک اور روایت میں کہ آپﷺ بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کر دیتے تھے اور حج پر نہ جانے کے باعث اپنے گھر میں بغیر احرام کے رہتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے قربانی کے جانوروں کے لیے ہار بنائے تھے۔

۴۷۔قربانی کے جانور کے کھال کو صدقہ کرنا:

حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲﷺ نے یہ حکم فرمایا تھا کہ جو جانور قربانی کئے گئے ہیں ان کے جھولوں اور ان کی کھا لوں کو خیرات کر دوں۔

۴۸۔بیو ی کی طرف سے قربانی کرنا:

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ گوشت کیسا ہے ؟ تو لانے والے نے جواب دیا کہ رسول اﷲﷺ نے اپنی ازواج کی طرف سے قربانی کی تھی۔

۴۹۔منیٰ میں نبیؐ کے قربانی کے مقام پر قربانی کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ منحر میں یعنی رسول اﷲﷺ کی قربانی کرنے کی جگہ پر قربانی کیا کرتے تھے۔

۵۰۔اونٹ کا پیر باندھ کر نحر کرنا:

سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اونٹ کو نحر کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کر کے اس کا پیر باندھ دے پھر اس کو نحر کر کیونکہ یہی محمدﷺ کی سنت ہے۔

۵۱۔ اُجرت میں قربانی کا گوشت یا کھال نہ دینا:

امیر المومنین سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے نبیﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑا رہوں اور ان کی بنوائی کی اجرت میں قصاب کو گوشت یا کھال وغیرہ نہ دوں۔

۵۲۔قربانی کا گوشت کھانا اور ساتھ لے جانا:

سیدنا جابر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں۔ اس کے بعد نبیﷺ نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا کہ کھاؤ اور ساتھ لے جاؤ۔ پس ہم نے کھایا بھی اور ساتھ بھی لے کرآئے۔

۵۳۔احرام کھولنا: بالوں کا منڈوا لینا یا کتروا لینا:

سیدنا ابنِ عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے حج میں سر کے بالوں کو منڈوا ڈالا تھا۔سیدنا ابنِ عمرؓ مزید کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپﷺ نے تیسری بار فرمایا کہ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت فرما۔

۵۴۔ جمروں کو کنکریاں مارنا یعنی رمی کرنا:

سیدنا ابن عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔ اس نے دوبارہ ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور آفتاب ڈھل جا نے کے بعد کنکریاں مارتے۔

۵۵۔وادی کے نشیب سے کنکریاں مارنا:

سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبداﷲ ابن مسعودؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمدﷺ کے رمی کرنے کی جگہ یہی ہے۔

۵۶۔تمام جمروں کو سات سات کنکریاں مارنا:

سیدنا عبداﷲ مسعودؓ سے روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کر لیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح سے نبیﷺ نے رمی کی۔

۵۷۔ جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد وہاں نہ ٹھہرنا:

سیدنا ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارتے تھے۔ ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے۔ پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔

۵۸۔ مکہ سے واپسی کے وقت طوافِ و دا ع کرنا:

سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کا آخری وقت کعبہ کے ساتھ ہو یعنی مکہ سے واپسی کے وقت کعبہ کا طواف کر کے جائیں مگر حائضہ عورت کو یہ معاف کر دیا گیا تھا۔

۵۹۔ مقامِ محصب میں نبیؐ کے ٹھہرنے کا ذکر:

سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مقامِ محصب میں ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء کی نماز پڑھی اس کے بعد تھوڑی دیر تک نیند فرمائی۔ پھر کعبہ کی طرف سوار ہو کر گئے اور اس کا طواف کیا۔سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ محصب میں اترنا حج کے ارکان میں سے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عبادت ہے وہ تو صرف ایک منزل ہے جہاں رسول اﷲﷺ یونہی ٹھہرا کرتے تھے۔


۶۰۔حائضہ کا طوافِ وداع کیے بغیر لوٹنا:

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جو عورت طوافِ زیارت کے بعد حائضہ ہوئی ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ طوافِ وداع کیے بغیر مکہ سے چلی جائے۔ رسول اﷲﷺ کی طرف سے حائضہ عورتوں کوایسا کرنے کی اجازت تھی۔


۶۱۔مکہ میں داخلے سے پہلے ذی طویٰ میں قیام :

سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ جاتے تو ذی طویٰ میں اترتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی پھر مکہ میں داخل ہوتے اور جب مکہ سے واپس ہوتے تب بھی ذی طویٰ میں اترتے اور رات پھر وہاں ٹھہرتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور بیان کرتے تھے کہ رسول اﷲﷺ اسی طرح کرتے تھے۔

٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں