۔ ۔ ۔ نوٹ ۔ ۔ ۔
ان پیج سے یونی کوڈ میں کنورژن کے دوران احادیث کے تمام نمبرز دائیں بائیں الٹ گئے ہیں۔ لہٰذا ۱۲۳ کو ۳۲۱ پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ نمبرز کی ترتیب کو درست کرنے کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔
فتنے۔ بچاؤ:
ایک زمانہ آئے گا جب مسلمانوں کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی، جنہیں وہ لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارانی وادیوں میں لے جائے گا تاکہ اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا سکے (بخاری: ۰۰۳۳؛۰۰۶۳؛۸۸۰۷)۔جب فتنوں کا دور آئے گا تو بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے بس وہیں پناہ پکڑ لے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے (بخاری: ۱۰۶۳؛ ۱۸۰۷؛ ۲۸۰۷)۔ انسان کی آزمائش اس کے مال، اس کے بیوی بچوں اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتا ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر دیتا ہے(بخاری: ۶۹۰۷)۔ اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو تو پھر ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو الگ رکھنا اگرچہ تجھے اس کے لیے درخت کی جڑ ہی کیوں نہ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آجائے (بخاری: ۶۰۶۳)۔
قتل۔ ظلم:
حضرت علی ؓ کی ہمشیرہ اُم ہانی نے اپنے خاوندہبیرہ کے ایک بیٹے کو پناہ دی ہوئی تھی جبکہ حضرت علیؓ اس کے قتل کے درپے تھے۔اُم ہانی کی شکایت پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے اُم ہانی نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی (بخاری:۷۵۳)۔ جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم ؑکے بیٹے قابیل کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے کیونکہ قتل ناحق کی ابتدا اسی نے کی تھی (بخاری: ۵۳۳۳؛۷۶۸۶؛ ۱۲۳۷)۔
قتل۔ ناحق:
ناحق خون کر نے کو اللہ نے حرام کیا ہے۔یہ ہلاکت کا وہ بھنور ہے جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں ہے کیونکہ جب مومن کوئی ناحق خون کرتا ہے تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہوجاتا ہے (بخاری: ۲۶۸۶؛ ۳۶۸۶)۔ قیامت میں سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون خرابے کا فیصلہ کیا جائے گا (بخاری: ۴۶۸۶)۔ایک بدری صحابی مقداد بن عمروؓ: اگر دوران جنگ دشمن میرا ایک ہاتھ کاٹ دے اور جب میں جوابی وار کرنے لگوں تو وہ کسی درخت کی آڑ لے کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اقرار کرلے تو کیا میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ نبی کریم ﷺ: نہیں تم اسے قتل نہیں کرسکتے۔اگر تم نے اسے قتل کردیا تو وہ معصوم اور تم ظالم ہوگے (بخاری: ۵۶۸۶)۔ ایک جہادی لشکر نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ کو شکست دی۔ دوران جنگ ان کا ایک فرد مجاہدین کی تلواروں کے قابو میں آگیا تو اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔لیکن اسامہ بن زیدؓ نے اسے اپنے نیزے سے قتل کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسامہؓ سے ناگواری کے ساتھ بار بار دہراتے رہے کہ تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد بھی قتل کر ڈالا (بخاری: ۲۷۸۶)۔جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے (بخاری: ۴۷۸۶)۔
قتل۔ مسلمان:
میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو (بخاری:۱۲۱؛ ۶۶۱۶؛ ۸۶۸۶؛ ۹۶۸۶)۔جب دو مسلمان تلوار کھینچ کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں کیونکہ مقتول بھی اپنے قاتل کے قتل پر آمادہ تھا (بخاری: ۵۷۸۶)۔کسی کلمہ گو کا قتل تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے۔ اول قاتل، دوم شادی شدہ زانی اور تیسرا اسلام چھوڑ کر کافر ہوجانے والا مرتد(بخاری: ۸۷۸۶)۔
قتل۔ قصاص، خون بہا:
جس کا کوئی عزیز قتل ہوجائے تو اسے دو باتوں کا اختیار ہے۔ اسے خوں بہا دیا جائے یا قصاص دیا جائے(بخاری: ۰۸۸۶)۔بنی اسرائیل میں صرف قصاص کا رواج تھا۔ دیت کا حکم اس اُمت کے لیے نازل ہوا (بخاری: ۱۸۸۶)۔ حاملہ عورت کے پیٹ پر اس طرح ضرب لگانا کہ اس کا حمل گرجائے، اسے عورت کااملاص کہتے ہیں۔ عورت کے املاص کی دیت نبی کریم ﷺ نے ایک غلام یا باندی بطور تاوان دینا قرار دیا ہے(بخاری: ۷۱۳۷)۔
قرآن۔ آیات سجدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی آیت سجدہ کی تلاوت پر سجدہ کیا تو مسلمان اور کافر سب نے سجدہ کیا مگر ایک شخص امیہ بن خلف نے ہاتھ میں مٹی کنکر لے کر اپنے چہرے تک لایا اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ بعد میں وہ حالت کفر ہی میں قتل ہوا (بخاری:۷۶۰۱؛۰۷۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ص کی آیت سجدہ کی تلاوت پر سجدہ کیا تھا، حالانکہ یہ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے(بخاری:۹۶۰۱؛۲۲۴۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں، جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا (بخاری:۱۷۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ اذ السماء انشقت پڑھتے ہوئے سجدہ کیا (بخاری:۴۷۰۱؛ ۸۷۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ پڑھتے اور سجدہ کرتے توسب صحابہ بھی سجدہ کرتے حالانکہ ہجوم کی وجہ سے انہیں سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی (بخاری:۵۷۰۱؛ ۶۷۰۱؛ ۹۷۰۱)۔
قرآن۔ آیاتِ متشابہ:
جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں تو ان سے بچتے رہو کیونکہ سورۃ آلِ عمران آیت:۷ میں ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے اور یہ اس کی غلط تاویل اور فتنے کی تلاش میں ہوتے ہیں (بخاری:۷۴۵۴)۔
قرآن۔ تلاوت:
تلاوت۔سکینت:ایک صحابی اسید بن حضیر ؓ نے نماز میں سورۃ الکہف کی تلاوت کی تو گھر میں بندھے گھوڑے نے اچھلنا کودنا شروع کردیا۔ سلام پھیرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے ان کے سارے گھر پہ سایہ کر رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ماجرا سن کر فرمایا: یہ سکینت ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی ہے (بخاری: ۴۱۶۳؛۹۳۸۴؛ ۱۱۰۵)۔ اسید بن نضیررضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رات میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کررہے تھے تو ان کا گھوڑا بدکنے لگا۔انہیں آسمان کی طرف ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے کے لیے قریب ہورہے تھے (بخاری: ۸۱۰۵)۔ جو شخص قرآن بار بار پڑھتا ہے پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا (بخاری:۷۳۹۴)۔ ایک صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو نماز میں قرآت کا اختتام قل ھو اللہ احد (سورۃ اخلاص) پر کرتے اور کہتے کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور میں اسے پڑھنا عزیز رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انہیں بتادو کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے (بخاری: ۵۷۳۷)۔فرمان عائشہؓ: نبی کریم ﷺ اس وقت بھی قرآن پڑھتے تھے جب آپ کا سر مبارک میری گود میں ہوتا تھا اور میں حالت حیض میں ہوتی تھی (بخاری: ۹۴۵۷)۔۔ کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق کے نیچے سے نہیں اترے گا۔ (بخاری: ۲۶۵۷)
تلاوت۔ قاری: تلاوت قرآن کرنے والے مومن کی مثال سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ اور خوشبو بھی بہترین۔ تلاوت قرآن نہ کرنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا مزا تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ تلاوت کرنے والے منافق کی مثال گل ریحان جیسی ہوتی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے۔ تلاوت نہ کرنے والے منافق کی مثال اندرائن کی سی ہوتی ہے کہ اس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اور خوشبو بھی نہیں ہوتی (بخاری: ۰۲۰۵؛ ۹۵۰۵؛ ۷۲۴۵؛۰۶۵۷)۔ اللہ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے بہترین آواز کے ساتھ مجھے قرآن پڑھتے ہوئے سنا ہے (بخاری: ۳۲۰۵؛ ۴۲۰۵)۔ قرآن مجید کا پڑھتے رہنا لازم پکڑ لو (بخاری: ۳۳۰۵)۔
تلاوت۔ آداب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن دس سال تک پہلے مکہ میں پھر دس سال تک مدینہ میں نازل ہوتا رہا (بخاری:۸۷۹۴؛ ۹۷۹۴)۔ اللہ نے مجھ پر قرآن نازل کیا ہے جو قیامت تک رہے گا۔ لہٰذا قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے (بخاری: ۱۸۹۴)۔ عبد اللہ بن عمروؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:مہینہ میں ایک قرآن مجید ختم کیا کرو یا زیادہ سے زیادہ تین دن میں ختم کرلیا کرو (بخاری: ۸۷۹۱)۔ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک اس میں دل لگے۔ جب جی اچاٹ ہونے لگے تو پڑھنا بند کردو (بخاری: ۰۶۰۵؛ ۱۶۰۵)۔ جب تک تمہارے دلوں میں اتحاد و اتفاق ہو، قرآن کریم پڑھو اور جب تم میں اختلاف ہوجائے تو اس سے اٹھ کھڑے ہو (بخاری: ۴۶۳۷؛ ۵۶۳۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کو کھینچ کر پڑھتے تھے جن میں مد ہوتا تھا (بخاری: ۵۴۰۵)۔نبی کریم ﷺنے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمائش کرکے قرآن کی تلاوت سنی اور تلاوت سنتے ہوئے آپ ﷺ کی آنکھ سے آنسو بہنے لگے۔ یعنی قرآن کی تلاوت سننا بھی مسنون ہے(بخاری:۲۸۵۴)۔کسی کو یوں نہیں کہنا چاہئے کہ میں فلاں فلاں آیتیں بھول گیا بلکہ اسے یوں کہنا چاہئے کہ مجھے فلاں فلاں آیتوں کو بھلا دیا گیا (بخاری:۹۳۰۵)۔قرآن سات عرب بولیوں (قراتوں)میں نازل ہوا ہے۔ پس تمہیں جس قرآت میں سہولت ہو، پڑھو (بخاری: ۰۵۵۷؛۹۱۴۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقہ میں قرآن لے کر جانے سے منع فرمایا تھا (بخاری:۰۹۹۲)۔
تلاوت۔ آواز: ابو موسیٰ اشعریؓ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو موسیٰ! تجھے داؤد علیہ السلام جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے (بخاری: ۸۴۰۵)۔ میں قرآن مجید دوسروں سے سننا محبوب رکھتا ہوں (بخاری: ۹۴۰۵؛ ۶۵۰۵)۔ جو خوش آوازی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم مسلمانوں کے طریق پر نہیں ہے (بخاری: ۷۲۵۷)۔ اللہ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا، جتنی توجہ سے اچھی آواز سے پڑھنے پر نبی کے قرآن مجید کو سنتا ہے (بخاری: ۴۴۵۷)۔
قرآن۔ مصحف،تیاری:
جنگ یمامہ میں حفاظ صحابہ کرام ؓ کی کثیر تعداد کے شہید ہوجانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ نے قرآن کو کتابی شکل میں جمع کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ دور رسالت میں مختلف اشیاء پر الگ الگ لکھ کر محفوظ کئے گئے قرآنی آیات کو زیدؓ بن ثابت نے ایک جگہ جمع کرکے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس رکھوایا۔حضرت ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ اور پھر اُم المومنین حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس یہ صحیفے محفوظ رہے۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس صحیفے کی نقول بنوا کر اس کا ایک ایک نسخہ سلطنت کے ہر علاقہ میں بھجوادیا تھا(بخاری: ۶۸۹۴؛ ۷۸۹۴؛ ۹۸۹۴؛ ۱۹۱۷)۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت، عبد اللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو قریش کے محاورہ کے مطابق قرآن مجید کو کتابی شکل میں لکھنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ انہوں نے قرآن مجیدکو کئی مصحفوں میں نقل کیا۔(بخاری: ۶۰۵۳؛۴۸۹۴)۔ قرآن کو کتابی شکل میں جمع کرتے وقت الاحزاب کی آیت۔۳۲ (مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کہی، جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا) صرف خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس سے ملی، جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا (بخاری:۷۰۸۲)۔
قرآنِ واحد۔ فرمانِ علیؓ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں جسے ہم پڑھیں۔ آپ ؓ نے قرآن کے علاوہ ایک صحیفہ بھی نکالا جس میں زخموں کے قصاص اور اونٹوں کے زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ اس میں یہ بھی تھا کہ عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے۔ جس نے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی اور جس غلام نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے موالات قائم کرلی اور جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ اور قیامت کے دن اس کا کوئی عمل مقبول نہ ہوگا(بخاری: ۵۵۷۶)۔ ابو جحیفہؓ: آپ کے پاس اور بھی کچھ سورتیں یا آیتیں ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں۔ حضرت علیؓ: اللہ کی قسم ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔البتہ ایک ورق یا صحیفہ ہے جس میں خون بہا سے متعلق احکام، قیدی کے چھڑانے کا حکم اور کافر کے بدلہ میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا،لکھا ہوا ہے (بخاری: ۳۰۹۶؛ ۵۱۹۶)۔
قرآن۔ صحابہؓ:
قرآن چار اشخاص سے سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود، ابو حذیفہ کے مولیٰ سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم (بخاری: ۸۵۷۳؛ ۰۶۷۳؛ ۹۹۹۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چارانصاری صحابیوں ابی بن کعب (دوسری روایت ابودرداء)، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، اور ابو زید رضی اللہ عنہم نے قرآن کو جمع کیا تھا (بخاری: ۳۰۰۵؛ ۴۰۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس ؓ کو سینے سے لگایا اور فرمایا: اے اللہ! اسے قرآن کا علم سکھا(بخاری: ۰۷۲۷)۔
قرآن۔ فضائل:
سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھنے والے کی رات بھر حفاظت کے لیے اللہ ایک نگراں فرشتہ مقرر کرتا ہے جس کے باعث شیطان صبح تک اس کے پاس نہیں آسکتا۔یہ بات مسلسل تین رات تک انسانی شکل میں غلہ چوری کرنے کے لئے آنے والے شیطان نے تیسری رات کو ایک صحابی کو خود کو چھوڑنے کی شرط پر بتلائی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ وہ شیطان ہے تو جھوٹا، مگر یہ بات سچ کہہ گیا ہے (بخاری:۱۱۳۲)۔رمضان کی ہر رات حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم سے ملنے آتے اورقرآن مجید کا دور کرتے۔ جبرئیل ؑ سے ملاقات کے بعدآپ ﷺ کی سخاوت اور بڑھ جایا کرتی تھی (بخاری: ۴۵۵۳)۔سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات (۵۸۲؛ ۶۸۲) اٰمن الرسول سے آخر تک ایسی ہیں جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے، وہ اس کے لیے کافی ہوجاتی ہیں (بخاری:۸۰۰۴؛۰۴۰۵؛ ۱۵۰۵)۔ سورۃ فاتحہ ہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے(بخاری: ۴۷۴۴)۔ جب امام سورۃ فاتحہ کے اختتام پر ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔ جس کا یہ آمین کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہوجائے، اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہوجاتی ہیں (بخاری:۵۷۴۴)۔ قرآن کی عظیم ترین سورت، سورۃ فاتحہ ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہے (بخاری:۷۴۶۴)۔ سورۃ فاتحہ اُم القرآن ہے (بخاری:۴۰۷۴)۔ سورۃ فاتحہ قرآنِ عظیم ہے۔ یہی وہ سات آیات ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (بخاری: ۶۰۰۵)۔ اللہ کی قسم! سورۃ اخلاص قرآن مجید کے ایک تہائی حصہ کے برابر ہے (بخاری: ۳۱۰۵ تا ۵۱۰۵؛ ۳۴۶۶؛ ۴۷۳۷)۔
قرآن۔ دم: ایک فوجی سفر میں ایک پڑاؤ کے موقع پر قریبی قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا۔ ا بو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو سردار اس دم سے بالکل اچھا ہوگیا۔ اس نے شکرانے میں تیس (۰۳) بکریاں دیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان بکریوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ مالِ حلال ہے۔ اسے تقسیم کرلو اور میرا حصہ بھی لگانا (بخاری: ۷۰۰۵)۔جس نے سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات میں پڑھ لیں، وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لیے کافی ہوجائیں گی (بخاری: ۹۰۰۵)۔ صدقہ فطر چرانے آنے والا جب نگراں ابو ہریرہ ؓ کے ہاتھوں پکڑا گیا تو اس نے یہ وظیفہ بتلا کر اپنی جان چھڑائی کہ رات میں سونے سے قبل آیت الکرسی پڑھنے والے کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرماتے ہیں اور شیطان بھی اس کے پاس نہیں آتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اگرچہ جھوٹا شیطان تھا، لیکن اس کی یہ بات ٹھیک ہے (بخاری: ۰۱۰۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات(اخلاص، الفلق، الناس) کی سورتیں پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیتے تھے (بخاری: ۶۱۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سونے سے پہلے معوذات(اخلاص، الفلق، الناس) کی سورتیں پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھونکتے اور دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر پھیر لیتے تھے (بخاری: ۷۱۰۵)۔
قرآن۔احکام: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی تھی (بخاری: ۲۲۰۵)۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے (بخاری: ۷۲۰۵؛ ۸۲۰۵)۔ہر نبی کو کچھ معجزات دئے گئے جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا۔ مجھے سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید دیا گیا ہے۔مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن تمام انبیاء میں میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گے (بخاری: ۴۷۲۷)۔امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری۔ انہوں نے قرآن و سنت کا علم حاصل کیا تو ان کی اس فطری ایمانداری کو پوری قوت مل گئی (بخاری: ۶۷۲۷؛۶۸۰۷)۔فرمان عبداللہ بن مسعودؓ:سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ رسول اللہ کا طریقہ ہے۔ دین میں نئی بات(بدعت) پیدا کرنا سب سے بری بات ہے (بخاری: ۷۷۲۷)۔
قصاص۔ بدلہ:
قصاص کتاب اللہ کا حکم ہے (بخاری: ۹۹۴۴؛ ۰۰۵۴)۔کان میں مرنے والے، کنویں میں گر کر مرنے والے اور کسی کے جانور کے مارنے سے مرنے والے کا کوئی تاوان نہیں (بخاری:۹۹۴۱؛۵۵۳۲)۔چرواہے کو مارکر زکوٰۃ کے اونٹ لے کر بھاگنے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پکڑ کر لایا گیا۔ ان کے ہاتھ پاؤں کٹوادئے، ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروادیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوادیا (بخاری:۱۰۵۱)۔ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ یہودی پکڑا گیا اور اس نے جرم کا اقرار کرلیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا (بخاری: ۳۱۴۲؛ ۶۴۷۲؛ ۵۹۲۵: ۶۷۸۶؛ ۷۷۸۶؛ ۹۷۸۶؛ ۴۸۸۶؛ ۵۸۸۶)۔ جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو، اسے دو باتوں کا اختیار ہے۔ قاتل سے فدیہ میں مال لے لے یا جان کے بدلہ جان لے (بخاری:۴۳۴۲)۔قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی مدینہ آکر مسلمان ہوئے۔ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بیمار ہوئے تو آپ ؐ نے انہیں چراہ گاہ میں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب بطور علاج پینے کا حکم دیا۔ جب وہ تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کرکے اونٹوں کے ساتھ بھاگ نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ پکڑ کر لائے گئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور وہ سب مارے گئے (بخاری:۸۱۰۳؛ ۲۹۱۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا لیکن اگرکوئی اللہ کی حرمت کو توڑتا تو آپ اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے(بخاری: ۰۶۵۳)۔ ایک عورت کی مار کی وجہ سے بنی لحیان کی ایک عورت ملیا بنت عویمر کو مردہ بچہ پیدا ہواتو رسول اللہ ﷺ نے مارنے والی عورت کو خون بہا کے طور پر ایک غلام یا لونڈی ادا کرنے کا حکم دیا تھا (بخاری: ۰۴۷۶)۔عورت کے پیٹ کے بچہ کی دیت ایک غلام یا باندی آزاد کرنا ہے (بخاری: ۸۵۷۵ تا ۰۶۷۵)۔ ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دانت کاٹنے والے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمہ کو باطل قرار دیا اور آپ ؐ نے دانت ٹوٹنے کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ایسے ہی ایک دوسرے مقدمہ میں حضرت ابوبکر ؓ نے بھی دانت ٹوٹنے کا کوئی قصاص نہیں دلوایا (بخاری:۵۶۲۲؛ ۶۶۲۲؛ ۳۷۹۲؛ ۷۱۴۴؛ ۲۹۸۶؛ ۳۹۸۶)۔ نضر کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا اور اس کے دانت ٹوٹ گئے تو اس مقدمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا (بخاری: ۴۹۸۶)۔ انگوٹھا اور سب سے چھوٹی انگلی دیت میں برابر ہیں (بخاری: ۵۹۸۶)۔
قصاص۔ خوں بہا:
قبیلہ ہذیل کی ایک عورت نے دوسری کو پتھر مار ا جس سے اس کا حمل گرگیا اور پھر وہ خود بھی مرگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کی دیت میں ایک غلام یا کنیز دینے کا فیصلہ سنایا اور عورت کے خون بہا کو قاتل عورت کے عاقلہ (عورت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار عصبہ) کے ذمہ واجب قرار دیا (بخاری: ۴۰۹۶ تا ۸۰۹۶؛ ۰۱۹۶)۔بنی لحیان کی ایک عورت کے حمل گرنے پر اس کی دیت ایک غلام یا کنیز قرار دیا گیا اور جب یہ عورت بھی انتقال کرگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ سنایا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور اس کے شوہر کو ملے گی (بخاری: ۹۰۹۶)۔جانور کا کسی کو زخمی کرنے، کنویں میں گر کر مرجانے اور کان میں دب کر مرنے پر کوئی خون بہا یا تاوان نہیں ہے۔ مدفون خزانہ ملنے پر پانچواں حصہ بیت المال کو دینا ہوگا (بخاری: ۲۱۹۶؛ ۳۱۹۶)۔ امان دئے جانے والے ذمی کافر کو قتل کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا (بخاری: ۴۱۹۶)۔خیبرکے ایک سفر میں میں حضرت عبد اللہ بن سہلؓ کو قتل کردیا گیا تو ان کے بھائی عبد الرحمن بن سہل اور دیگر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودیوں کی شکایت کی کہ ان سے مسلمانوں کی جاری صلح کے باوجود انہوں نے حضرت عباللہ کو قتل کردیا۔ لیکن قاتل اور قتل کے گواہ کی عدم موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے دیت ادا کیا (بخاری: ۳۷۱۳)۔
قصص الانبیاء۔ فضائل:
ایک چیونٹی نے ایک نبی کو کاٹ لیا اور نبی کے حکم سے چیونٹیوں کے سارے بل جلا دئے گئے تو اللہ نے انہیں وحی بھیجی کہ تم نے ایک چیونٹی کے کاٹنے پر ایک خلقت کو جلا کر خاک کردیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی (بخاری:۹۱۰۳)۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں (بخاری:۶۰۴۳)۔ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر کہے۔ جس نے ایسا کہا، اس نے جھوٹ کہا (بخاری:۳۰۶۴؛ ۴۰۶۴؛ ۰۳۶۴؛ ۱۳۶۴)۔ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔(بخاری:۸۳۶۴)۔ انبیاء کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل جاگتے ہیں (بخاری: ۷۱۵۷)۔
قصص الانبیاء۔ آدم ؑ:
اللہ نے آدم علیہ السلام کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا۔ جو کوئی بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم ؑکی شکل اور قامت پر ہوگا(بخاری: ۶۲۳۳)۔جنتیوں کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی اور سب جنتی حضرت آدم علیہ السلام کے قد و قامت پر ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے ہوں گے (بخاری: ۷۲۳۳)۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر بنایا۔ ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھی۔ اس کے بعد سے اولاد آدم کا قد و قامت کم ہوتا گیا۔ لیکن جنت میں جو بھی جائے گا، آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا(بخاری: ۷۲۲۶)۔اللہ جب آدم علیہ السلام کو پیدا کرچکا تو فرمایا کہ جاؤ بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو، سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں،کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے کہا:السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب دیا: السلام علیک و رحمۃ اللہ (بخاری: ۷۲۲۶)۔
قصص الانبیاء۔ ابراہیم ؑ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ کے ہمراہ ہجرت کرتے ہوئے ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے توبادشاہ نے اطلاع ملنے پر سارہ کو اپنے پاس بلوایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ سے کہہ دیا کہ سارہ میرہ بہن ہے اور سارہ سے کہا مجھے جھٹلانا نہیں۔حضرت سارہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر نماز کے لیے کھڑی ہوگئیں اور اللہ سے دعا کی: میں تیرے رسول پر ایمان لانے والی اور اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہوں، مجھ پر تو ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ اس دعا سے بادشاہ کا پاؤں زمین میں دھنس گیا تو حضرت سارہ نے پھر دعا کی: اگر یہ مرگیا تو لوگ مجھے ہی قصور وار سمجھیں گے۔ چنانچہ بادشاہ چھوٹ گیا۔ ایسا جب تیسری بار ہوا تو بادشاہ نے خوفزدہ ہوکر حضرت سارہ کو واپس بھیج دیا اور حکم دیا کہ شہزادی ہاجرہ بھی ابراہیم علیہ السلام کو بخش دو۔ حضرت سارہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچ کر کہا: دیکھا! اللہ نے کیسے کافر کو ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوادی (بخاری:۷۱۲۲؛۸۵۳۳)۔ابراہیم علیہ اسلام نے بڑھیوں کے زیر استعمال اوزار بسولہ کی مدد سے اسّی (۰۸) برس کی عمر میں اپنا ختنہ کیا تھا(بخاری: ۶۵۳۳)۔ابراہیم علیہ السلام نے بطور توریہ صرف تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا۔ایک یہ کہ میں بیمار ہوں۔ کعبہ میں نصب تمام چھوٹے بتوں کو توڑ کر کہا کہ انہیں تو اس بڑے بت نے توڑا ہے۔ اور اپنی زوجہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں ظالم بادشاہ کو کہا کہ یہ میری بہن ہے (بخاری: ۸۵۳۳)۔گرگٹ کو مارو کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونکا تھا (بخاری: ۹۵۳۳)۔ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ ؑ نے کہا تھا: حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ یہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ قریش نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کررکھا ہے (بخاری:۳۶۵۴؛ ۴۶۵۴)۔
قصص الانبیاء۔ ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ:
اللہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام پر رحم کرے اگر انہوں نے زمزم کے گرد منڈیر بنانے میں جلدی نہ کی ہوتی تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا(بخاری: ۸۶۳۲؛۲۶۳۳)۔حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی حضرت سارہ ؑ کے درمیان جھگڑا ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے شیر خوار بیٹے اسماعیل ؑ اور اُن کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام کو مکہ لے آئے اورآب زمزم کی موجودہ جگہ پر ایک تھیلا کھجور اور ایک مشک پانی کے ساتھ انہیں چھوڑ کر جانے لگے تو بی بی ہاجرہ نے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں اللہ کے حکم سے اس ویرانے میں چھوڑ چلے ہیں؟ ابرہیم ؑ کے ہاں کہنے پر بی بی نے فرمایا: پھر اللہ ہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔پانی ختم ہونے اور بیٹے کا پیاس کی شدت سے زمین پر لوٹ لگانے کی وجہ سے آپ صفا سے مروہ کی طرف پانی کی تلاش میں دوڑ لگانے لگیں۔اس طرح انہوں نے دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے۔ یہی سات چکر سعی کہلاتے ہیں۔پھر بی بی ہاجرہ ؑنے زمزم کے موجودہ مقام پر ایک فرشتے کو دیکھا جس نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کردیا اور وہاں سے پانی اُبل آیا۔آپ نے پانی کو بہنے روکنے کے لئے ایک حوض سا بنا دیا۔ پانی خود بھی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔فرشتے نے آپ سے کہا: اپنے برباد ہونے کا خوف نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہوگا جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے۔ بیت اللہ کے موجودہ مقام پر ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی اور سیلاب کا دھارا اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا تھا۔ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے اور پانی دیکھ کر بی بی ہاجرہ سے یہاں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت چاہی جو بی بی ہاجرہ نے دے دی۔اس طرح یہاں کئی گھرانے آباد ہوگئے اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو تو قبیلہ والوں نے اپنی ایک لڑکی سے آپ کی شادی کردی۔بی ہاجرہ کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔اسماعیل ؑ گھر پر نہ ملے تو ان کی بیوی سے احوال پوچھا: وہ کہنے لگی بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے پیغام دیا کہ اسماعیل ؑ سے کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل لے۔ اسماعیل ؑ نے یہ احوال سن کرفرمایا: وہ میرے والد تھے اور تمہیں جدا کرنے کا حکم دے گئے ہیں۔ پھر اسماعیل ؑ نے انہیں طلاق دیدی اور اسی قبیلہ کی دوسری عورت سے شادی کرلی۔ حضرت ابراہیم ؑ دوسری بار آئے تو دوسری بیوی نے شوہر کی غیر موجودگی میں انہیں بتلایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ہم گوشت کھاتے اور پانی پیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے گوشت اور پانی میں برکت کی دعا کی۔ صرف مکہ کی سرزمین میں ہی ہمیشہ گوشت اور پانی کی خوراک میں گزارہ کرنا موافق ہے۔جاتے ہوئے کہہ گئے کہ اسماعیل سے کہنا: اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ تیسری مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ آئے تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل ؑ زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ دونوں باپ بیٹے شفقت سے ملے تو ابراہیم ؑنے کہا:اللہ نے مجھے اسی مقام پر بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے۔پھر دونوں نے مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہ دعا کی: اے ہمارے رب! تو ہماری یہ خدمت قبول کر۔ بے شک تو بڑا سننے اور جاننے والا ہے (بخاری: ۴۶۳۳؛ ۵۶۳۳)۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بت پرست والد آذر کو قیامت کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے تو اللہ سے عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ کیا تھا کہ آج کے دن مجھے رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ جواب دیں گے کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے (بخاری:۸۶۷۴؛ ۹۶۷۴)۔
قصص الانبیاء۔ ایوب ؑ:
ایک بار حضرت ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ آپ انہیں اپنے کپڑوں میں سمیٹنے لگے تواللہ نے پکار کر کہا: اے ایوبؑ! کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بے نیاز نہیں کردیا ہے، جو تم دیکھ رہے ہو۔حضرت ایوبؑ نے جواب دیا: تیری بزرگی کی قسم ہاں۔ لیکن تیری برکت سے میرے لیے بے نیازی ممکن نہیں۔ حضرت ایوبؑ آخر تک ننگے ہوکر غسل کررہے تھے۔(تنہائی میں ننگے ہوکر غسل کرنا جائز ہے) (بخاری:۹۷۲؛ ۱۹۳۳؛ ۳۹۴۷)۔
قصص الانبیاء۔ داؤد ؑ:
داؤد علیہ السلام کے لیے زبور کی قرآت بہت آسان کردی گئی تھی۔ آپ اپنی سواری پر زین کسے جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے تھے۔ آپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے (بخاری:۷۱۴۳)۔ نفلی روزہ بھی رکھا کرو اور بغیر روزے کے بھی رہا کرو۔ ہر مہینہ تین روزے رکھنا زندگی بھر روزے رکھنا جیسا ہے کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے۔ روزہ کا سب سے افضل طریقہ صومِ داؤدی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن بغیر روزہ کے رہنا ہے (بخاری:۸۱۴۳ تا ۰۲۴۳)۔ اللہ کے نزدیک رات کی نماز کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کی نماز کا طریقہ تھا۔ آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیا کرتے،پھر بقیہ چھٹے حصے میں بھی سوتے تھے(بخاری: ۰۲۴۳)۔
قصص الانبیاء۔ سلیمان ؑ:
حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا تھا: آج رات میں اپنی سو بیویوں (دیگر روایات میں یہ تعداد ستّر اور نوے بھی ہے)کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ انہوں نے اپنے اس عزم کے ساتھ ان شاء اللہ نہیں کہا۔ چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور ان کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ یہاں تک واقعہ سنانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: اللہ کی قسم! اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ان کی تمام بیویوں کے ہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے (بخاری:۹۱۸۲؛ ۴۲۴۳؛ ۲۴۲۵؛ ۹۳۶۶؛ ۰۲۷۶)۔
قصص الانبیاء۔ عیسیٰ ؑ:
عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور اقلیتوں پر عائد ٹیکس جزیہ کو ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہوگا(بخاری:۲۲۲۲؛ ۶۷۴۲؛ ۸۴۴۳)۔ حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سو برس کا فترۃ کا زمانہ گزرا ہے، یعنی ایسا دور جس میں کوئی پیغمبر نہیں آیا (بخاری:۸۴۹۳)۔
قصص الانبیاء۔ موسیٰ ؑ:
موسیٰ علیہ السلام بڑے شرم و حیا والے اور بدن کو ڈھانپنے والے تھے۔بنی اسرائیل ننگے ہوکر جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا پردے میں غسل فرماتے۔ چنانچہ دشمنوں نے یہ مشہور کردیا کہ وہ اپنا جسم اس لئے چھپاتے ہیں کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے، ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں۔ اِدھر اللہ کو یہ منظور ہوا کہ وہ اپنے نبی کو ان عیوب سے پاک دکھلائے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر تنہا غسل کررہے تھے کہ پتھر کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ اسی دوران کچھ بنی اسرائیلی بھی وہاں آگئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو ننگا دیکھ لیا اور یہ جان لیا کہ آپ جسمانی عیوب سے پاک ہیں۔ پھر پتھر رک گیا اور آپ نے کپڑے پہن لیے (بخاری:۸۷۲؛۴۰۴۳)۔کسی نے حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں۔ ا س بات پر اللہ نے موسیٰ ؑ پر وحی کی کہ ہمارا بندہ خضر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ موسیٰ ؑ نے حضرت خضر تک پہنچنے کا رستہ پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ دریائی سفر میں جس مقام پر آپ کی مچھلی گم ہوجائے، وہیں ان سے ملاقات ہوگی (بخاری:۰۰۴۳؛ ۱۰۴۳؛ ۵۲۷۴ تا ۷۲۷۴؛ ۸۷۴۷)۔حضرت خضر ؑنے ایک لڑکے کو قتل اور ایک گرنے والی دیوار کو ٹھیک کردیا تھا، موسیٰ ؑ کے سوالات پر حضرت خضر نے فرمایا: میں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے (بخاری:۸۲۷۲)۔ حضرت خضر علیہ السلام ایک سوکھی زمین پر بیٹھے اورجب وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خضر پڑ گیا (بخاری:۲۰۴۳)۔ جب ملک الموت انسانی شکل میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو آپ نے انہیں چانٹا مار دیا۔ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں جاکر شکایت کی کہ وہ تو موت کے لیے تیار ہی نہیں۔اللہ کے حکم سے ملک الموت دوبارہ آئے اور کہا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں۔ ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں گے، ہر بال کے بدلہ ایک سال کی عمر دی جائے گی۔ موسیٰ ؑ نے پوچھا: پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ جواب ملا کہ پھر موت ہے تو موسیٰ ؑ نے کہا پھر ابھی کیوں نہ آجائے (بخاری:۷۰۴۳)۔
قصص صحیح بخاری:
نیکی۔ دعا: برسات میں غار کے منہ پر چٹان گرجانے سے غار کے اندر محصور ہوجانے والے تین افراد کی نیکیاں: ایک چرواہا اپنے والدین کو دودھ پلانے کے لیے ان کے سرہانے ساری رات دودھ لئے کھڑا رہا مگر بھوک سے روتے ہوئے بچوں کو پہلے دودھ نہیں پلایا۔ایک شخص اپنی محبوبہ کی شرط پر اسے سو اشرفیاں دے کر اس سے زنا کرنے ہی والا تھا کہ عورت نے کہا: اللہ سے ڈر اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ چنانچہ اس شخص نے اسے پر زنا کئے بغیراسے چھوڑ دیا۔ایک کاشتکار نے ایک فرق جوار پر مزدوری کرائی تو مزدور نے مزدوری لینے سے انکار کرکے چلا گیا۔ کاشتکار نے اس جوار کو بو دیا جس سے حاصل شدہ فصل کو بیچ کر ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد وہی مزدور واپس آکر اپنی مزدوری طلب کی تو کاشتکار نے بیل اور چرواہا اسے دیدیا۔تینوں نے اپنی اپنی نیکیوں کے حوالہ سے اللہ سے دعا کی توغار کے منہ پر گرا چٹانی پتھر آہستہ آہستہ ہٹ گیا اور غار کا منہ کھل گیا(بخاری:۵۱۲۲؛ ۲۷۲۲؛ ۳۳۳۲؛ ۵۶۴۳؛ ۴۷۹۵)۔
قرض۔ بروقت واپسی: بنی اسرائیل میں ایک شخص نے مقررہ مدت کے لیے کسی سے ایک ہزار دینار قرض لیتے ہوئے کہا کہ میرا گواہ اور ضامن اللہ ہے۔قرض لینے والا دریائی سفر پر روانہ ہوگیا اور جب قرض کی مقررہ مدت کی واپسی کے وقت اسے دریا میں سفر کرنے کے لیے کوئی سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی میں سوراخ کرکے اس میں ہزار دینار اور ایک خط ڈال کراسے دریا میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی کہ اسے قرض دینے والے تک پہنچا دے۔ سواری ملنے پر جب وہ اپنے شہر پہنچا اور قرض دینے والے کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسے دریاپر وہی لکڑی مل گئی تھی، جس میں اس نے ہزار دینار اور خط بھیجا تھا (بخاری:۱۹۲۲؛ ۰۳۴۲)۔
ماں۔ بد دعا: جریج نام کے ایک بنی اسرائیلی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ نے پکارا۔ وہ سوچتے رہے کہ نماز جاری رکھوں یا والدہ کو جواب دوں کہ وہ غصہ میں آکر بد دعا کرگئیں کہ تجھے کسی بد کار عورت کا منہ دیکھے بغیر موت نہ آئے۔جریج کے عبادت خانے کے قریب مویشی چرانے والی ایک فاحشہ عورت نے جریج پر ڈورے ڈالے اور ناکامی پر کسی چرواہے سے زنا کرکے ایک لڑکا پیدا کیا اور یہ الزام لگادیا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے جریج کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ جریج نے وضو کیا، نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آکر سب کے سامنے پوچھا کہ تمہارا باپ کون ہے؟ بچہ بول پڑا کہ چرواہا۔ قوم خوش ہوگئی اور جریج کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنانے کے لیے تیار ہوگئی۔ لیکن جریج نے کہا کہ میرا گھر تو مٹی ہی سے بنے گا (بخاری:۲۸۴۲)۔
اسرائیلی روایات: بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (بخاری: ۰۶۴۳)۔ بنی اسرائیل کوحکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور یا اللہ! ہمیں بخش دے کہتے ہوئے داخل ہوں۔ لیکن وہ اس کے برعکس اپنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور بالیوں میں خوب دانے ہوں کہتے ہوئے داخل ہوئے (بخاری:۳۰۴۳)
امتحان۔ کوڑھی، اندھا، گنجا: بنی اسرائیل کے تین افراد میں ایک کوڑھی دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ نے تینوں کا امتحان لینے کے لیے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جس نے ان تینوں کی فرمائش پر ان کے عیوب بھی دور کئے اورکوڑھی کو حاملہ اونٹنی، گنجے کو حاملہ گائے اوراندھے کوحاملہ بکری دی جن سے تینوں کی وادیاں اپنے اپنے مویشیوں سے بھر گئیں۔ پھر فرشتہ اپنی پہلی والی شکل میں کوڑھی کے پاس مسکین بن کر آیا اور ایک اونٹ کا سوال کیا۔ اس نے نہ دینے کے بہانے کئے تو فرشتے نے کوڑھی کو اس کا ماضی یاد دلایا۔ یہ سن کر وہ بولا کہ یہ ساری دولت تومیرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔فرشتہ گنجے کے پاس مسکین بن کر گیا۔ اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا تو فرشتے نے اسے بھی وہی کہا۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس مسکین بن کر گیا اور اسے اس کا سابقہ دور یاد دلا کر اللہ کے نام پر ایک بکری مانگی تو اندھے نے اپنی سابقہ حالت کا اقرار کیا اور کہا کہ تم جتنی چاہے، بکریاں لے جاؤ۔ فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ یہ تو صرف امتحان تھا۔ اللہ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے (بخاری: ۴۶۴۳)۔
شیر خوار بچہ۔ گفتگو: ایک عورت اپنے بچے کو د ودھ پلارہی تھی کہ وہاں سے ایک شان والا سوار گزرا۔ عورت نے اللہ سے دعا کی کہ میرے بچے کو بھی اس سوار جیسا بنا دے۔ بچہ فوراََ بول اٹھا اے اللہ مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ پھر وہاں کچھ لوگ ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے لے جانے لگے تو بچے کی ماں نے کہا: اے اللہ! میرے بچے کو اس عورت جیسا نہ کرنا۔ بچہ بول اٹھا: اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دینا۔ماں کے پوچھنے پر بچے نے ماں کو بتلایا کہ سوار تو کافر وظالم تھا جبکہ عورت پر یہ لوگ زنا اور چوری کا الزام لگاتے ہیں اور یہ عورت کہتی ہے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے جو میری پاک دامنی جانتا ہے (بخاری: ۶۶۴۳)۔
ننانوے قتل۔ توبہ: بنی اسرائیل میں ننانوے(۹۹) قتل کرنے والے ایک شخص نے کسی درویش سے پوچھا کہ کیا میرے اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش سے نہیں میں جواب سن کر اس نے درویش کو بھی قتل کردیا۔کسی اور سے یہی بات پوچھنے پر اسے ایک بستی میں جانے کو کہا گیا۔ ابھی وہ آدھے راستے ہی میں پہنچا تھا کہ اس کی موت کا وقت آگیا۔ اس نے مرتے مرتے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ آخر رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوگیا کہ اسے کون لے جائے۔ اللہ کے حکم سے نصرہ نامی بستی جہاں وہ توبہ کے لیے جارہا تھا، اس کی لاش کے قریب آگئی۔ پھر اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ دونوں بستیوں سے اس لاش کا فاصلہ ناپو۔ جب فاصلہ ناپا گیا تو اس کی لاش نصرہ بستی سے ایک بالشت نزدیک پائی گئی اور وہ بخش دیا گیا (بخاری: ۰۷۴۳)۔
مکان۔ مدفون خزانہ: ایک شخص نے کسی سے مکان خریدا تو اسے مکان میں مدفون سونے سے بھرا ایک گھڑا ملا۔ اس نے سابقہ مالک مکان کو گھڑا دینا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ میں نے تو تمام چیزوں سمیت مکان بیچا ہے۔ خریدار نے کہا کہ میں نے تو صرف مکان خریدا ہے۔ وہ دونوں ایک تیسرے کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے تو اس نے فیصلہ دیا کہ دونوں اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی کرکے سونا انہی پر خرچ کریں اور کچھ خیرات بھی کردیں (بخاری: ۲۷۴۳)۔
کھیتی باڑی، شجر کاری:
کسی مسلمان کے لگائے پودے یا کھیتی باڑی سے پرند، جانور یا انسان جو بھی کھائے وہ اس مسلمان کی طرف سے صدقہ ہے(بخاری:۰۲۳۲)۔ جس نے گھر میں کتا پالا اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتا ہے۔ البتہ کھیتی، مویشی اور شکاری کتے اس سے مستثنیٰ ہیں (بخاری:۲۲۳۲؛ ۳۲۳۲)۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے انصار کی یہ بات ماننے سے انکار کردیا کہ ان کے باغات مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردئے جائیں تو انصار نے مہاجرین سے کہا کہ آپ لوگ درختوں میں محنت کرو۔ ہم دونوں اس کے پھل میں شریک رہیں گے۔ مہاجرین نے یہ پیشکش قبول کرلیا تھا (بخاری:۵۲۳۲)۔
کھیت بٹائی۔ جائز، ناجائز امور: مدینہ میں اس شرط پر کھیت بٹائی کے لیے دینے کی ممانعت کردی گئی تھی کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے کی پیداوار مالک زمین لے گا۔ کیونکہ کبھی صرف اسی مقررہ حصہ کے کھیت کی پیداوار خراب ہوجاتی اور کبھی صرف اسی حصہ کے کھیت کی پیداوار سلامت رہتی (بخاری:۷۲۳۲؛ ۲۳۳۲؛۲۲۷۲)۔بٹائی پر اپنی زمین دوسروں کو کاشت کے لیے دینا منع نہیں ہے (بخاری:۰۳۳۲)۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کی زمینوں کی پیداوار میں یہودیوں سے آدھے حصہ پر معاملہ کیا تھا۔ اس پیداوار میں اُمہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ کو اسّی وسق کھجور اور بیس وسق جو دیا کرتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بھی خیبر کی زمین پر اُمہات المومنین کا یہ حق باقی رکھا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے بعد ازاں یہودیوں کو خیبر سے تیماء اور اریحاء کی طرف جلاوطن کردیا تھا(بخاری:۸۲۳۲؛ ۹۲۳۲؛ ۱۳۳۲؛ ۸۳۳۲)۔صحابہ کرام ؓ تہائی، چوتھائی یا نصف پر بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بوئے ورنہ دوسروں کا بخش دے یا پھر یونہی خالی چھوڑ دے (بخاری:۰۴۳۲؛ ۱۴۳۲)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا (بخاری:۲۱۰۴؛ ۳۱۰۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بٹائی سے منع نہیں کیا تھا البتہ یہ فرمایا تھا اگر زمیندار کے پاس فالتو زمین ہے تو اس پر محصول لینے سے بہتر ہے کہ اپنے کسی بھائی کو یہ زمین بخشش کے طور پر دیدے (بخاری:۲۴۳۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات ابوبکروعمر، عثمان و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عہد میں ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے کھیتوں کو کرایہ پر دیتے تھے (بخاری:۳۴۳۲ تا ۵۴۳۲)۔زمین کی بٹائی پیسوں کے عوض بھی دی جاسکتی ہے۔قولِ رافع بن خدیج ؓ ؓ(بخاری:۶۴۳۲؛ ۷۴۳۲)۔جس نے کوئی ایسی زمین آبادکی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حقدار ہے (بخاری:۵۳۳۲)۔
مفتوحہ خیبر۔ زمین: مفتوحہ شہر کی غازیوں میں تقسیم سنت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے بعد خیبر کی زمین غازیوں میں تقسیم کردی تھی (بخاری: ۴۳۳۲)۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دی تھی کہ وہ اس میں محنت کریں، بوئیں جوتیں تو پیداوار کا نصف حصہ انہیں ملے گا (بخاری:۹۹۴۲؛ ۰۲۷۲)۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ کو خیبر میں ایک قطعہ اراضی ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ سے حضرت عمر ؓ اس شرط کے ساتھ اسے صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا، نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔ اس کی آمدنی محتاجوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، غلام آزاد کرانے کے لیے، اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت اور مہمانوں پر خرچ ہوگی اور متولی اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں (بخاری:۷۳۷۲؛ ۴۶۷۲؛ ۲۷۷۲؛ ۳۷۷۲)
جنت۔ کھیتی باڑی: جنت میں ایک شخص کا جی کھیتی باڑی کرنے کو چاہے گا تو وہ اللہ کی اجازت سے ایک بیج بوئے گا۔جو پلک جھپکتے میں اُگ کر پک بھی جائے گا اور کاٹ بھی لیا جائے گا اور اس کے دانوں کا ڈھیر پہاڑوں کے برابر ہوجائے گا(بخاری:۸۴۳۲)۔
خیبر۔ یہودی جلاوطنی: عبداللہ بن عمرؓ جب خیبر کی زمینوں کے اموال کا حساب کتاب کرنے گئے تو رات میں ان کے ساتھ مارپیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔چنانچہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو خیبر کے علاقہ سے مستقل جلا وطن کردیا اور ان کے اعتراض پر یہودیوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا کہ تمہارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤگے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے (بخاری:۰۳۷۲)۔
گدھے کی حرمت:
بیعت رضوان میں شریک زاہر بن اسود رضی اللہ عنہ کا فرمان: میں ہانڈی میں گدھے کا گوشت ابال رہا تھا کہ اعلان ہوا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت کھانے سے منع کردیا ہے (بخاری: ۳۷۱۴)۔
گری پڑی چیز۔ لقطہ:
اگر کسی کو پڑی ہوئی چیز ملے تو ایک سال تک اس کی شناخت کا اعلان کرے۔ اس کا مالک نہ ملے تو اس سے فائدہ اُٹھائے۔ مالک آجائے تو اسے واپس کردے۔ (بخاری:۱۹)۔ راستے میں کسی کی گمشدہ چیز ملے تو اس کا ایک سال تک اعلان کرتے رہو۔ پھر بھی مالک نہ آئے تب وہ چیز تمہاری ہے۔ لیکن اگر بعد میں بھی آجائے تو وپس کرنی ہوگی (بخاری:۲۷۳۲؛ ۷۲۴۲ تا ۹۲۴۲)۔اگر کسی کی گمشدہ بکری ملے تو اسے پکڑ لو۔وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑئیے کی ہے۔ گمشدہ اونٹ ملے تو اسے اسی حال میں چھوڑ دو۔وہ خود ہی کھا پی سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پالے (بخاری:۲۷۳۲؛ ۷۲۴۲ تا ۹۲۴۲)۔ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو دینار کی ایک تھیلی کہیں پڑی ہوئی ملی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر اس تھیلی کا دو سال تک اعلان کرتے رہے مگر مالک نہ ملا تو نبی ﷺ نے فرمایا:تھیلی کی شناخت کو محفوظ کرلے۔ اگر مالک آجائے تو واپس کردینا ورنہ اپنے خرچ میں استعمال کرلے(بخاری:۶۲۴۲؛ ۷۳۴۲)۔ راستے میں پڑی ایک کھجور دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اس کے زکوٰۃ کا نہ ہونے کا یقین ہوتا تو میں خود اسے کھا لیتا (بخاری:۱۳۴۲؛ ۲۳۴۲)۔راستے میں پڑی چیزاٹھاؤ تو اس کا ایک سال تک اعلان کرو۔ گمشدہ بکری کو پکڑ لو اور اونٹ کو اکیلا چھوڑ دو (بخاری:۶۳۴۲ تا ۸۳۴۲)۔
گھوڑے پالنا:
گھوڑے کسی کے لیے باعث ثواب، کسی کے لیے مباح تو کسی کے لیے وبال ہیں۔جو اسے جہاد کے لیے پالے تو اس کے لیے ثواب، جو اسے اپنی حاجت، پردہ پوشی اور سوال سے بچے رہنے کے لیے پالے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے۔ اور جو فخر، دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں پالے تو وہ اس کے لیے وبال جان ہے(بخاری:۱۷۳۲؛ ۶۴۶۳)۔گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک خیر و برکت اور غنیمت بندھی ہوئی ہے (بخاری: ۹۱۱۳)۔خیر اور بھلائی گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ قیامت تک کے لیے بندھی ہوئی ہے حضرت عروہ ؓ کے گھر میں ستّر (۰۷) گھوڑے تھے (بخاری: ۳۴۶۳ تا ۵۴۶۳)۔
لباس۔ آداب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفہ میں ملی ایک ریشمی قبا پہن کر نماز ادا کی لیکن نماز کے فوراََ بعد ناگواری سے یہ کہتے ہوئے اسے اُتار دیا کہ یہ پرہیز گاروں کے لائق نہیں ہے (بخاری:۵۷۳)۔اشتمالِ صماء یعنی ایک کپڑا اپنے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ شرم گاہ کھل جائے اور احتباء یعنی ایک کپڑے میں گوٹ مارکر بیٹھنا منع ہے (بخاری:۷۶۳؛۸۶۳؛۴۸۵؛۱۹۹۱؛۵۴۱۲)۔ ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر گھٹنے اوپر اٹھائے اس طرح بیٹھنا منع ہے کہ بندہ کی شرم گاہ اور آسمان و زمین کے درمیان کوئی چیز نہ ہو (بخاری: ۹۱ ۸۵)۔ ایک ہی کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلی کو ملا کر باندھنا منع ہے اگر شرمگاہ کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو (بخاری: ۰۲۸۵ تا ۲۲۸۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ اعلیٰ قسم کے کپڑوں کے ایسے جوڑے آئے جسے آپ ؐ خود پہننا پسند نہ کرتے تھے تو آپ ؐ نے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور کہا کہ میں نے تمھیں اسے خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے اسے مکہ میں رہنے والے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا (بخاری: ۶۸۸)۔
لباس۔ ریشمی:
جوؤں اور خارش کے مرض میں مبتلا عبد الرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہما کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کرتا پہننے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ ریشمی کپڑا اس مرض میں مفید ہے (بخاری:۹۱۹۲ تا ۲۲۹۲)۔ریشمی جوڑا انہی لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔البتہ اگر کسی کو یہ ہدیہ میں ملے تو وہ اسے فروخت کرکے رقم استعمال کرسکتا ہے (بخاری:۴۵۰۳)۔ مَردوں کو ریشمی کپڑا استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ دنیا میں جو بھی ریشم پہنے گا، اسے آخرت میں نہیں پہنایا جائے گا(بخاری:۸۲۸۵ تا ۰۳۸۵؛ ۲۳۸۵ تا۵۳۸۵)۔ سونا چاندی کے برتن اور ریشم و دینا کے لباس کفار کے لیے دنیا میں ہے اور مسلمانوں کے لیے آخرت میں (بخاری: ۱۳۸۵)۔ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال دنیا کے بہترین نرم و ملائم ریشمی کپڑے سے بھی اچھے ہیں (بخاری: ۶۳۸۵)۔ ریشم و دیباج پہننا اور اس پر بیٹھنا منع ہے (بخاری: ۷۳۸۵)۔حضرات زبیر اور عبد الرحمن رضی اللہ عنہم کوخارش کے مرض کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے کی اجازت دی تھی (بخاری: ۹۳۸۵)۔خادم رسول حضرت انس بن مالک ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو زرد دھاری دار ریشمی جوڑا پہنے دیکھا (خواتین کے لیے ریشم پہننا جائز ہے) (بخاری: ۲۴۸۵)۔
لباس۔ تکبر:
اللہ قیامت کے د ن اُس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا غرور و تکبر سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے (بخاری: ۳۸۷۵؛ ۴۸۷۵؛ ۸۸۷۵؛ ۱۹۷۵)۔ تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں ہوگا (بخاری: ۷۸۷۵)۔ بنی اسرائیل میں ایک شخص کبر و غرور میں اپنا تہبند گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک اسی طرح زمین میں دھنستا ہی رہے گا (بخاری: ۹۸۷۵؛ ۰۹۷۵)۔
لباس۔ تبرک:
نبی کریم صلی علیہ وسلم ایک خاتون کی طرف سے ہدیہ میں ملی ہوئی ایک اونی چادر پہنے ہوئے تھے۔عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس چادر کو چھو کر کہا کہ یہ مجھے دے دیجئے۔ پھر انہوں نے نبی کریم کی اس چادر کو اپنے کفن کے لیے محفوظ کرلیا جو ان کے کفن میں استعمال ہوئی (بخاری: ۰ ۱۸۵)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کپڑوں میں حبرۃ کی سبز یمنی چادر پسند تھی۔ آپ ﷺ کی وفات پر آپ کی نعش مبارک پر بھی ایک سبز یمنی چادر ڈال دی گئی تھی (بخاری: ۲۱۸۵ تا ۴۱۸۵)۔
لباس۔ رنگ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو زعفران کا رنگ استعمال کرنے سے منع فرمایا (بخاری: ۶۴۸۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سُرخ جوڑا پہنے ہوئے دیکھا گیا (بخاری: ۸۴۸۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زرد خضاب لگایا کرتے تھے (بخاری: ۱۵۸۵)۔
لباس۔ جوتے،نماز:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہنے ہوئے بھی نماز پڑھ لیتے تھے (بخاری: ۰۵۸۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی چمڑے کا جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہیں ہوتے تھے (بخاری: ۱۵۸۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں داہنی طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے (بخاری: ۴۵۸۵)۔ جوتا پہلے دائیں طرف سے پہنو اور اتارتے وقت پہلے بائیں طرف سے اتارو (بخاری: ۵۵۸۵)۔صرف ایک پاؤں میں جوتا پہن کر نہ چلو۔ یا دونوں پاؤں ننگا رکو یا دونوں میں جوتے پہنو (بخاری: ۶۵۸۵)۔
مال وجائیداد:
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ کا فرمان: دنیا ہمیں بہت دی گئی۔ ہمیں تو اس بات کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں نہ مل گیا ہوپھر آپ ؓ رونے لگے اور کھانا بھی چھوڑ دیا (بخاری:۵۷۲۱)۔مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کروگے (بخاری:۴۴۳۱)۔دنیا میں جو زیادہ مال والے ہیں وہی محتاج ہیں سوائے اُن تھوڑے سے لوگوں کے جو اپنے مال و دولت کو خرچ کرت رہتے ہیں (بخاری: ۸۸۳۲)۔ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ اس کا کوئی حصہ تین دن سے زیادہ میرے پاس رہ جائے الا یہ کہ کسی قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں (بخاری:۸۸۳۲؛ ۹۸۳۲)۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا قتل ہوجائے، وہ شہید ہے (بخاری:۰۸۴۲)۔ دنیا کا مال دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے۔ جو کوئی اسے سیر چشمی اور قناعت سے لے، اسے برکت ہوتی ہے۔ اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے، اسے برکت نہیں ہوتی۔ وہ کماتا ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا (بخاری:۰۵۷۲)۔
مال۔ ناجائز:
ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والا کبھی آسودہ نہیں ہوتا۔ وہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا (بخاری:۲۴۸۲)۔ درہم و دینار اور چادر و کمبل کا غلام (لباس کا پرستار) ہلاک ہوجائے۔ اگر اسے دیا جائے تو خوش ہے، نہ دیا جائے تو ناراض ہے (بخاری:۶۸۸۲؛ ۷۸۸۲)۔کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں۔ انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی (بخاری: ۸۱۱۳)۔مال دیکھنے میں بہت سر سبز، میٹھا اور مزیدار ہوتا ہے۔ لیکن جو اسے دل کی بے طمعی کے ساتھ لے، اس کے مال میں برکت ہوتی ہے اور جو اسے لالچ اور حرص کے ساتھ لے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی (بخاری: ۳۴۱۳)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا اور فرمایا: میں کچھ ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کے اسلام سے پھر جانے اور بے صبری کا ڈر ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو نہیں دیتا جن پر مجھے بھروسہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ نے بھلائی اور بے نیازی رکھی ہوتی ہے (بخاری: ۵۴۱۳)۔ زمین کے بارے میں اگر کسی نے ایک بالشت کے برابر بھی ظلم کیاتو قیامت کے دن اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا(بخاری: ۵۹۱۳؛ ۸۹۱۳)۔جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا (بخاری: ۶۹۱۳)۔جب تم مال و شکل میں اپنے سے بڑھے ہوئے کسی شخص کو دیکھو تو پھر ایسے فرد کا دھیان کرو جو تم سے کم تر درجہ کا ہے (بخاری: ۰۹۴۶)۔سب سے اچھا وہ ہے جس نے اپنی جان و مال کے ذریعہ سے جہاد کیا (بخاری: ۴۹۴۶)۔ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم نہ اس کے خواہشمند ہو اور نہ اسے مانگا ہو تو اسے لے لیا کرو۔ اور اگر اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ پڑو (بخاری: ۳۶۱۷؛ ۴۶۱۷)
مال۔ غنیمت:
جنگ حنین کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کے لیے قریش کے بعض لوگوں کو زیادہ مال دیا جیسے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصین کو سو سو اونٹ دئے تو بعض انصاریوں کے اعتراض پر آپ ﷺ نے فرمایا: قریش کو میں ان کا دل ملانے کے لیے دیتا ہوں کیونکہ ان کے کفر کا زمانہ ابھی تازہ ہے (بخاری: ۶۴۱۳؛ ۷۴۱۳؛ ۰۵۱۳)۔
مال۔ بخیل، غنی:
زمانہ جلدی جلدی گزرے گا۔ دین کا علم دنیا میں گم ہوجائے گا۔ دلوں میں بخیلی سماجائے گی اور لڑائی بڑھ جائے گی (بخاری: ۷۳۰۶)۔غنی وہ نہیں جس کے پاس مال زیادہ ہے بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو (بخاری: ۶۴ ۴۶)۔
مال۔ کثرت:
دنیا میں زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے لوگ قیامت کے دن خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ایسے لوگوں کے جنہوں نے اللہ کے عطا کردہ مال کو بھلے کاموں میں دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو (بخاری:۸۶۲۶؛ ۳۴ ۴۶؛ ۴۴۴۶)۔ربِّ کعبہ کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ خسارے والے ہیں جن کے پاس مال زیادہ ہے، سوائے ان لوگوں جو اس مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (بخاری: ۸۳۶۶)۔مالِ دنیا بہت شیریں ہے۔ جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (بخاری: ۷۲۴۶)۔قیامت سے پہلے مال و دولت کی اس قدر کثرت ہوجائے گی کہ صاحب ِ مال کی زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ہوگا (بخاری:۱۱۴۱ تا ۳۱۴۱؛ ۴۲۴۱)۔
مال۔ ہوس، طمع:
دینار و درہم کے بندے تباہ ہوگئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں (بخاری: ۵۳۴۶)۔اگر انسان کو ایک وادی سونابھر کے دے دیا جائے تو وہ دوسری کا خواہشمند رہے گا۔ اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کا خواہشمند رہے گا کہ انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی (بخاری: ۶۳۴۶تا ۹۳۴۶)۔
مال۔ اصلی:
تمہارا مال وہی ہے جو تم نے موت سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کردیا۔جو تم چھوڑ کر مرتے ہو، وہ تو تمہارے وارث کا مال ہے (بخاری: ۲۴ ۴۶)
مال۔ سنت:
اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے اس میں خوشی ہوگی کہ تین دنوں میں اس میں سے کچھ باقی نہ رہے الا یہ کہ کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں (بخاری: ۵۴ ۴۶)۔
مال۔ عمدہ:
مسلمانوں کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے اس نے حلال طریقوں سے جمع کیا اور پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں، مسکینوں کے لیے وقف کردیا (بخاری:۲۴۸۲)۔
مال۔ حسد:
اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔مجھے تو اس بات کا خوف ہے کہ دنیا کے دروازے تم پر کھُل جائیں تو تم کہیں ایک دوسرے سے جلنے نہ لگو اور یہ جلنا تمہیں پہلے لوگوں کی طرح تباہ نہ کردے(بخاری:۸۵۱۳)۔
محبت۔ اللہ، رسولؐ، مخلوق:
تم پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے سارے گھر بار اور مال دولت سے بڑھ کر مجھ کو دیکھ لینا زیادہ پسند کرے گا (بخاری: ۹۸۵۳)۔ تمہارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا جن سے تمہیں محبت ہے (بخاری: ۸۸۶۳)۔جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو وہ جبرئیل علیہ السلام سے اور پھر جبرئیل علیہ السلام آسمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم سب اس بندے سے محبت کرو۔ یوں وہ بندہ زمین والوں میں مقبول و محبوب بندہ بن جاتا ہے (بخاری: ۰۴۰۶؛ ۵۸۴۷)۔ایک بدوی نے کہا کہ میں نے قیامت کے لیے تو کوئی خاص تیاری نہیں کی ہے لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ رہوگے جن سے تم محبت رکھتے ہو (بخاری: ۷۶۱۶)۔انسان اس کے ساتھ ہے، جس سے وہ محبت رکھتا ہے (بخاری: ۸۶۱۶ تا ۱۷۱۶)۔اللہ کی قسم!تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔(بخاری: ۲۳۶۶)۔
محرم۔ عاشورہ:
عاشورہ کے دن آل فرعون کو غرق کرکے اللہ نے موسیٰ کو نجات دی تو حضرت موسیٰ ؑنے اس کے شکر میں روزہ رکھا تھا۔مدینہ کے یہودی عاشورا کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے بھی اس دن روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا (بخاری: ۷۹۳۳؛ ۲۴۹۳؛ ۳۴۹۳)۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقی رکھا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے سنہ دو ہجری میں فرض ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اب جس کا جی چاہے عاشورا کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے، نہ رکھے (بخاری:۱۳۸۳؛ ۱۰۵۴ تا ۴۰۵۴)۔
مُردار جانور:
مردار کا صرف گوشت کھانا حرام ہے۔ اس کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے (بخاری:۲۹۴۱؛۱۲۲۲)۔ اُم المومنین حضرت سودہؓ فرماتی ہیں کہ ان کی ایک بکری مرگئی تو ہم نے اس کے چمڑے کو دباغت کے بعد مشک بنا دیا جس میں ہم نبیذ یعنی کھجور کا مشروب بناتے رہے (بخاری: ۶۸۶۶)۔
مساجد۔ فضیلت:
جس نے اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لئے بنائے گا (بخاری:۰۵۴)۔ گھر میں تنہا نماز پڑھنے سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ۵۲ پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے(بخاری:۷۷۴)۔جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا (بخاری:۲۶۶)۔گھر میں یا بازار میں نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی بیس درجہ زائد فضیلت ہے (بخاری:۹۱۱۲)۔ صرف نماز کی نیت سے مسجد جانے والے کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے یا اس کا ایک گناہ معاف ہوتا ہے (بخاری:۹۱۱۲)۔نماز پڑھنے کے بعد جب تک ایک شخص اپنے مصلے پر باوضو بیٹھا رہتا ہے، فرشتے مسلسل اس کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ: اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما (بخاری:۹۱۱۲)۔
مساجد۔ آداب:
کچا لہسن یا پیاز کھا کراس کی ناگواربو کے ساتھ کوئی مسجد میں نہ آئے (بخاری: ۳۵۸ تا ۶۵۸)۔مسجد میں کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے (بخاری: ۱۱۹)۔
مساجد۔ سفر:
تین مساجد یعنی مسجد الحرام (کعبہ)، مسجد نبوی اور مسجد الاقصیٰ کے علاوہ کسی اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر نہ کیا جائے (بخاری: ۹۸۱۱؛ ۷۹۱۱؛ ۴۶۸۱؛۵۹۹۱)۔
مسجد۔ قباء:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سنیچر کے دن مسجد قباء آیا کرتے، پیدل بھی اور سواری پر بھی۔ پھر آپ یہاں دو رکعت نماز ادا کرتے (بخاری:۳۹۱۱؛ ۴۹۱۱)۔
مسلمان۔ فضائل:
تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین)، پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے (تبع تابعین) (بخاری:۱۵۶۲؛ ۲۵۶۲)۔ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس سے میں اس کے نفس سے بھی زیادہ اور آخرت میں تعلق نہ رکھتا ہوں (بخاری:۱۸۷۴)۔ جس مسلمان میت کی اچھائی پر چار، تین یا دو مسلمان گواہی دے دیں تو اللہ اسے جنت میں داخل کردے گا (بخاری: ۸۶۳۱)۔ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان کو جنت میں لے جائے گا (بخاری:۱۸۳۱)۔ جس مسلمان کے تین بچے وفات پاجائیں تو اسے دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم اتارنے کے لیے (بخاری: ۶۵۶۶)۔آخری زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے نوعمر بیوقوف لوگ نکلیں گے جن کے حلق کے نیچے سے ایمان کا نور نہیں اترے گا اور دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے (بخاری: ۰۳۹۶ تا ۴۳۹۶)۔
مسلمان۔ باہمی تعلقات:
مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری:۰۱؛۴۸۴۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو (بخاری:۱۹۳)۔جب کافر لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہوگئے۔ (بخاری:۲۹۳؛ ۳۹۳)۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے (بخاری:۱۸۴)۔ نیک و بد دوست کی مثال مشک فروش اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے۔ مشک والے کے ساتھ رہنے سے تمہیں مشک ملے نہ ملے، اس کی خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکوگے۔ جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ناگوار بدبو دار دھواں پہنچے گا (بخاری: ۴۳۵۵)۔ مومن اپنے گناہوں کو پہاڑ جیسا بھاری اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے(بخاری: ۸۰۳۶)۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ پس نہ اُس پر ظلم کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے گا اللہ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت دور کرے گا۔ جو مسلمانوں کے عیب چھپائے گا، اللہ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا (بخاری: ۲۴۴۲)۔ اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کوظلم سے روکنا ہی اس کی مدد ہے (بخاری:۳۴۴۲؛ ۴۴۴۲؛۲۵۹۶)۔ایک مومن دوسرے مومن کو ایک عمارت کی طر ح قوت پہنچاتا ہے (بخاری: ۶۴۴۲)۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے کسی ظالم کے سپرد کرے(بخاری: ۱۵۹۶) جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوگا، اللہ اس کی ضرورت اور حاجت پوری کرے گا (بخاری: ۱۵۹۶)۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے (بخاری:۱۸۴)۔
مسلمان۔ گالی،کافر، فاسق، لعنت:
مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہوجاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔ (بخاری:۸۴) مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے (بخاری: ۴۴۰۶؛۶۷۰۷)۔ اگر کوئی شخص کسی کو کافر و فاسق کہے اور وہ کافر و فاسق نہ ہو تو کہنے والا خود فاسق و کافر ہوجائے گا (بخاری: ۵۴۰۶)۔جب کوئی اپنے کسی بھائی کو کافر کہے تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا (بخاری: ۳۰۱۶؛ ۴۰۱۶)۔ اگر کسی مسلمان کی دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے بد عہدی کی تو اس پر اللہ، تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے (بخاری:۰۷۸۱)۔ مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے (بخاری: ۵۰۱۶)۔مومن پر لعنت بھیجنا اس کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا پس وہ بھی اسے قتل کرنے کے برابر ہے (بخاری: ۲۵۶۶)۔
مسلمان۔ گناہ:
کوئی شخص مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا، شراب نہیں پی سکتا، چوری نہیں کرسکتا اور لوٹ مار و غارت گری نہیں کرسکتا (بخاری:۵۷۴۲)۔ عین زنا کرتے وقت، عین شراب پیتے وقت اور عین چوری کرتے وقت کوئی مومن نہیں رہتا(بخاری: ۸۷۵۵؛۲۷۷۶؛ ۲۸۷۶)۔ بندہ جب زنا، چوری، قتل اورشراب کے گناہ میں ملوث ہوتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے (بخاری: ۹۰۸۶؛ ۰۱۸۶)۔ایسے جھوٹے مسلمان بھی پیدا ہوں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بُت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہی تو میں ان سب کو قتل کردوں گا(بخاری: ۴۴۳۳)۔ ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آجائے گی، جس کے دن قریب آنے کو ہیں (بخاری: ۶۴۳۳)۔
گناہ۔ لعنت: اللہ نے گودوانے اور گودنے (ٹیٹو بنانے) والیوں پر، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور خوبصورتی کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں (بخاری:۶۸۸۴)۔رسول اللہ نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے (بخاری:۷۸۸۴)۔ سود کھانے والے اور کھلانے والے پر نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے (بخاری: ۷۴۳۵)۔ گودنے (ٹیٹو بنانے) والی اور گدوانے والی پر نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے (بخاری: ۷۴۳۵)۔ رسول اللہ نے عورتوں جیسا چال چلن اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں جیسا چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے(بخاری: ۵۸۸۵؛ ۶۸۸۵)۔ اللہ نے حسن کے لیے گودنے (ٹیٹو بنانے) والیوں اور گودوانے والیوں پر، دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر، سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اورچہرے کے بال اکھاڑنے والیوں پرلعنت بھیجی ہے (بخاری: ۱۳۹۵ تا ۳۴۹۵؛ ۶۴۹۵ تا ۸۴۹۵)۔
مسلمان۔ قتل:
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ النساء: ۳۹ والی آیت (جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے) اس باب کی سب سے آخری آیت ہے، اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے (بخاری:۰۹۵۴)۔میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کفر کی طرف نہ لوٹ جانا (بخاری: ۷۷۰۷؛ ۹۷۰۷؛ ۰۸۰۷)
مسلمان و اہل کتاب۔ مثالیں:
یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی مثال ایک مزدور کی سی یوں ہے کہ توراۃ والوں نے صبح سے آدھے دن تک اس پر عمل کرکے عاجز آگئے، کام پورا نہ کرسکے تو انہیں ایک قیراط کا ثواب دیا گیا۔ انجیل والوں نے آدھے دن سے عصر تک اس پر عمل کیا اور وہ بھی عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک قیراط کا ثواب دیا گیا۔ پھر ہمیں بوقتِ عصر قرآن ملا تو ہم نے سورج غروب ہونے تک عمل کرکے کام پورا کیا تو ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔(بخاری:۷۵۵؛ ۸۵۵)۔ درختوں میں کھجور کے درخت کی مثال مرد مومن کی طرح ہے (بخاری:۹۰۲۲)۔کھجور کا درخت مسلمانوں کی مانند ہے، جس کے پتے نہیں گرتے اور وہ ہر وقت پھل دے جاتا ہے (بخاری:۸۹۶۴؛۸۴۴۵)۔ مومن کی مثال نرم پودے جبکہ کافر کی مثال سخت درخت جیسی ہے (بخاری: ۶۶۴۷)۔
مسلمان۔ قبر، جنت:
مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں (بخاری:۹۹۶۴)۔ حدیث قدسی: اللہ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکو کارو بندوں کے لئے(جنت میں) وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا گمان و خیال پیدا ہوا (بخاری:۰۸۷۴)۔
مسلمان۔ نو مسلم:
ایک نو مسلم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لاتا ہے، جو وہ پہلے کرچکا ہو (بخاری: ۶۳۴۱)۔ اسلام لانے پر زمانہ جاہلیت میں کی گئی نیکیوں جیسے صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کا ثواب برقرار رہتا ہے (بخاری:۰۲۲۲)۔
مسلمان۔ ہتھیار:
جس نے مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں (بخاری: ۰۷۰۷؛ ۱۷۰۷)۔ کوئی شخص اپنے دینی بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ شیطان اس کے ہاتھ سے ہتھیار چلوادے اور وہ ایک مسلمان کو مارنے کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں گر پڑے (بخاری: ۲۷ ۰۷)۔
مشروبات۔ شراب، خمر:
پینے کی ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو، حرام ہے (بخاری:۲۴۲؛ ۵۸۵۵؛ ۶۸۵۵)۔ شراب کی تجارت حرام ہے (بخاری:۹۵۴)۔ شراب کی حرمت سے قبل حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ایک انصاری کے گھر شراب پی رہے تھے۔ مغنیہ کے کہنے پر گھر سے باہر نکلے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور کوہان چیر دئے۔(بخاری:۵۷۳۲)۔ جب شراب کی حرمت کی آیت اتری تو شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی (بخاری:۴۶۴۲)۔ہر نشہ آور چیز پینا حرام ہے (بخاری:۳۴۳۴ تا ۵۳۴)۔جب سود کے سلسلہ میں سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ نے انہیں مسجد میں پڑھ کر لوگوں کو سنایا۔ اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی (بخاری:۰۴۵۴ تا ۳۴۵۴)۔ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں یعنی انگور، کھجور، شہد، گندم اور جَو سے تیار کی جاتی تھی۔ شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو زائل کردے (بخاری:۹۱۶۴؛۱۸۵۵؛ ۸۸۵۵؛ ۹۸۵۵)۔جب شراب کی حرمت نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا اعلان فرمایا تو مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی (بخاری:۰۲۶۴)۔معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کے شہر ایلیاء میں شرب اور دودھ کے دو پیالے پیش کئے گئے تو آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ لے لیا(بخاری: ۶۷۵۵؛ ۳۰۶۵)۔جس نے دنیا میں شراب پی اور توبہ نہیں کی تو آخرت میں وہ اس سے محروم رہے گا(بخاری: ۵۷۵۵)۔جب شرام حرام کی گئی تو انگور کی شراب مدینہ منورہ میں نہیں ملتی تھی (بخاری: ۹۷۵۵؛ ۰۸۵۵)۔
مشروبات۔ احکامات:
ابو اسید ؓ نے اپنے ولیمہ کی دعوت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا بنایا ہوامشروب نبیذ پلایا تھا (بخاری: ۱۹۵۵؛ ۷۹۵۵)۔کدو کی تونبی اور لاکھی برتن میں کھجور کی نبیذ بنانا منع ہے (بخاری: ۵۹۵۵)۔ کشمش اور کھجور کے شیرہ کو اور تازہ کھجور اور نیم پختہ کھجور کو ملا کر بھگونا منع ہے کہ اس سے نشہ جلدی پیدا ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کو جدا جدا بھگونے کا حکم ہے(بخاری: ۱۰۶۵؛ ۲۰۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا کھلا ہواپیالہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے ڈھک کر کیوں نہیں لائے(بخاری: ۵۰۶۵؛ ۶۰۶۵)۔ صبح و شام برتن بھر بھر کر دودھ دینے والی اونٹنی اور بکری کو کچھ دنوں کے لیے کسی کو عطیہ کرنا کیا ہی عمدہ صدقہ ہے (بخاری: ۸۰۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی کر کلی کی اور فرمایا: اس میں چکناہٹ ہوتی ہے (بخاری: ۹۰۶۵)۔انس بن مالک ؓ کے گھر دودھ کے پیالہ میں سے کچھ دودھ پینے اور باقی اپنے دائیں طرف موجود اعرابی کو دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دائیں طرف والے کا پہلا حق ہے (بخاری: ۲۱۶۵؛ ۹۱۶۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں سے کچھ شربت پی کر اپنے دائیں طرف بیٹھے لڑکے سے کہا کہ کیا تم بائیں طرف بیٹھے شیوخ کو یہ شربت پہلے پلانے کی اجازت دوگے؟ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم میں آپ کے جھوٹے سے ملنے والے اپنے حصہ کے معاملہ میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے پیالہ لڑکے کو دے دیا(بخاری: ۰۲۶۵)۔پانی پیتے ہوئے پانی کے برتن میں سانس نہ لو (بخاری: ۳۵۱؛۰۳۶۵)۔جو چاندی کے برتن میں کوئی چیز پیتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکا رہا ہے (بخاری: ۴۳۶۵)۔
مشروبات۔ کھڑے کھڑے پینا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ لوگ کھڑے ہوکر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے خودرسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہوکر پانی پیتے دیکھا ہے (بخاری: ۵۱۶۵؛ ۶۱۶۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پیا (بخاری: ۷۱۶۵)۔
مشروبات،پانی۔ تقسیم:
مشروبات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک نو عمر لڑکا اور بائیں طرف کچھ بڑے بوڑھے لوگ بیٹھے تھے۔ نبی ﷺ کو دودھ کے پیالہ میں سے کچھ دودھ پیا اور دائیں طرف موجود لڑکے سے کہا: اگر تم اجازدت دو تو بقیہ پیالہ پہلے بڑوں کو دے دوں۔ لڑکے نے کہا: میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنا حصہ کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپؐ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا (بخاری:۱۵۳۲؛ ۶۶۳۲؛ ۱۵۴۲؛ ۲۰۶۲؛ ۵۰۶۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا پیش کردہ دودھ کا پیالہ پی کر بقیہ دودھ اپنے دائیں طرف موجود ایک دیہاتی کو دیدیا حالانکہ بائیں طرف حضرت ابوبکر ؓ تشریف فرما تھے۔ اور فرمایا: داہنی طرف والا زیادہ حقدار ہے (بخاری:۲۵۳۲؛ ۱۷۵۲)۔
پانی۔ اضافی: فالتو پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ جو گھاس ضرورت سے زیادہ ہو وہ بھی روک لو (بخاری:۳۵۳۲؛ ۴۵۳۲)۔ ضرورت سے زائد بچا ہوا پانی نہ روکا جائے (بخاری: ۲۶۹۶)۔سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی سے کسی مسافر کو روکنے پر روز قیامت دردناک عذاب ہوگا (بخاری: ۸۵۳۲؛ ۹۶۳۲؛۲۷۶۲)۔ ایک انصاری اور حضرت زبیر ؓ کے مابین باغ میں پانی کی سیرابی کے ایک تنازعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرسے کہا کہ پہلے اپنا باغ سینچ لے پھر پانی اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جانے دے۔ اس بات پر انصاری ناراض ہوئے تو حضرت زبیرؓ نے فرمایا: سورت النساء۔۵۶ کی آیت اسی باب میں نازل ہوئی ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں رسول کو حاکم نہ تسلیم کرلیں (بخاری:۹۵۳۲ تا ۲۶۳۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع میں اور حضرت عمر ؓ نے سرف اور ربذہ میں چراہگاہ بنوائی تھی (بخاری:۰۷۳۲)۔ اونٹ کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ پانی کے پاس دوہا جائے (بخاری:۸۷۳۲)۔
منافق۔ نشانیاں:
چار خصلتیں جس میں بھی ہوں گی، وہ پکا منافق ہوگا۔کسی میں ایک خصلت بھی ہے تواس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے (۳) جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے (۴)اور جب لڑے تو گالیوں پر اتر آئے(بخاری:۴۳؛۹۵۴۲؛۲۸۶۲؛۹۴۷۲؛۸۷۱۳؛۵۹۰۶)۔سب سے بُرا وہ ہے جو دو رُخی پالیسی اختیار کرنے والادوغلا اور منافق ہو(بخاری: ۴۹۴۳)۔ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں (بخاری:۷۵۶)۔مجھے اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں (بخاری: ۱۵۳۴؛ ۴۵۳۴)۔جنگ اُحد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر چلے آنے والے منافقین کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک جماعت کا کہنا تھا کہ ان سے منافقین سے قتال کیا جائے جبکہ دوسری جماعت کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیا جائے تو اس موقع پر اللہ نے النساء کی آیت:۸۸ نازل کرتے ہوئے فرمایا:تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: یہ مدینہ طیبہ ہے، یہ خباثت کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کردیتی ہے (بخاری:۹۸۵۴)۔
منافق۔عبد اللہ بن ابی:
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوجائیں۔ دربار رسالت میں طلبی پر عبداللہ بن ابی نے قسم کھالی کہ اس نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔ (بخاری:۰۰۹۴ تا ۴۰۹۴)۔ دو منافقین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات نہیں جانتے (بخاری: ۷۶۰۶؛ ۷۶۰۶)۔حضرت عبداللہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اپنے منافق والدعبد اللہ بن ابی کی موت پر کفن کے لیے مانگی۔نبی کریم ﷺ نے اُن کی درخواست اور حضرت عمر ؓ کے منع کرنے کے باوجود اس منافق کی نماز جنازہ یہ کہہ کر پڑھادی تھی کہ اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے: تو ان منافقین کے لیے استغفار کر یا نہ کر۔اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔(سورتہ توبہ:۰۸)۔ اس کے بعد یہ آیت اتری: کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا۔ (سورتہ توبہ:۴۸)۔ تدفین کے وقت آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں بھی ڈالاتھا (بخاری:۹۶۲۱؛ ۰۷۲۱؛ ۰۵۳۱؛ ۶۶۳۱؛ ۰۷۶۴ تا ۲۷۶۴)۔
منت۔ نذر:
مرحومین کی منت کو ان کے ورثاء پوری کرسکتے ہیں۔ (بخاری:۱۶۷۲)۔زمانہ کفر کی منت (اگر غیر شرعی نہ ہو) کو بھی پورا کرنا لازم ہے (بخاری: ۴۴۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نذر کسی چیز کو نہیں لوٹاتی۔ نذر صرف بخیل کے دل سے پیسہ نکالتی ہے۔نذر (منت) انسان کو کوئی چیز نہیں دیتی جو اللہ نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو۔(بخاری: ۸۰۶۶؛ ۹۰۶۶؛ ۲۹۶۶تا ۴۹۶۶)۔جس نے اللہ کی اطاعت میں نذر مانی ہو، اسے اطاعت کرنی چاہئے لیکن جس نے اللہ کی معصیت یعنی گناہ میں نذر مانی ہو، اسے نذر پوری نہ کرنی چاہئے (بخاری: ۶۹۶۶؛ ۰۰۷۶)۔سعد بن عبادہ ؓ کی والدہ اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے ہی وفات پاگئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی والدہ کی طرف سے نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں یہی طریقہ مسنون قرار پایا (بخاری: ۸۹۶۶) ۔ایک صاحب کی بہن نے حج کرنے کی نذر مانی لیکن حج کئے بغیر وفات پاگئیں تو رسول اللہ ﷺنے انہیں بہن کی طرف سے حج بدل ادا کرنے کا حکم دیا (بخاری: ۹۹۶۶)۔ابو اسرائیل نامی ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اس طرح روزہ رکھیں گے کہ کھڑے ہی رہیں، کسی سائے میں نہ بیٹھیں نہ کسی سے بات کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ بات کریں، سائے کے نیچے بیٹھیں اور اپنا روزہ پورا کریں (بخاری: ۴۰۷۶)۔ ایک خاتون: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کئے بغیر وفات پاگئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟نبی کریم ﷺ: ہاں کرلو (بخاری: ۵۱۳۷)۔
موت۔ سفر آخرت:
اللہ کی ذات ایسی ہے جسے موت نہیں اور جن و انس فنا ہو جائیں گے (بخاری: ۳۸۳۷)۔جس مسلمان کے لیے چار آدمی، تین آدمی اور دو آدمی بھی اچھائی کی گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے(بخاری:۳۴۶۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے، جہاں سے کوئی ہجرت کرچکا ہو (بخاری:۲۴۷۲)۔ مرنے کے بعد مرنے والے کو صبح و شام اس کا اُخروی ٹھکانہ دکھلایا جاتا ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا جہنمی (بخاری: ۰۴۲۳)۔ انسان اپنی امیدوں تک پہنچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ موت اس تک پہنچ جاتی ہے (بخاری: ۸۱۴۶)۔جس کی موت ساٹھ سال تک مؤخر کردی گئی، گویا اللہ نے اس آدمی کے عذر میں حجت تمام کردی (بخاری: ۹۱۴۶)۔ بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ دنیا کی محبت اور زندگی کی لمبی امید (بخاری: ۰۲۴۶)۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر مال کی محبت اور عمر درازی کی خواہش بھی بڑھتی جاتی ہے (بخاری: ۱۲۴۶)۔حدیث قدسی:جب میں اپنے مومن بندے کی کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرلے تو اس کا بدلہ میرے پاس جنت کے سوا کچھ نہیں (بخاری: ۴۲۴۶)۔مرنے والا مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے جبکہ گناہگار بندے کے مرنے سے اللہ کے دوسرے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں (بخاری: ۲۱۵ ۶)۔مرنے والا یا تو آرام پانے والا ہوتا ہے یا دوسروں کو آرام دینے والا ہوتا ہے (بخاری: ۳۱۵ ۶)۔ میت کے ساتھ چلنے والی تین چیزوں میں سے دو یعنی اس کے گھر والے اور مال تو واپس آجاتا ہے جبکہ اس کا عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے (بخاری: ۴۱۵ ۶)۔مرنے والے کو عالم برزخ میں قیامت تک صبح و شام جنت یا جہنم میں اس کے مستقل رہنے کی جگہ دکھائی جاتی ہے (بخاری: ۵۱۵ ۶)۔مرنے والوں کو بُرا نہ کہو کہ انہوں نے برے بھلے جو بھی عمل کئے تھے، ویسا بدلہ پالیا (بخاری: ۶۱۵ ۶)۔موت کی تمنا نہ کرو (بخاری: ۳۳۲۷)۔ کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے کہ نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے تو ممکن ہے برائی سے توبہ کرلے (بخاری: ۵۳۲۷)۔ عبداللہ بن عباسؓ کا فرمان:نسب کے معاملہ میں طعنہ مارنا اور میت پر نوحہ کرنا زمانہ جاہلیت کی عادتیں ہیں (بخاری:۰۵۸۳)۔
موت کی موت:
قیامت کے دن موت ایک مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی اور اسے ذبح کردیا جائے گا۔ پھر ایک فرشتہ جنت اور دوزخ والوں کو پکار کر کہے گا اب تم پر موت کبھی نہیں آئے گی (بخاری:۰۳۷۴)۔
موت۔ سوگ:
قاریوں کی ایک جماعت کے شہید ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک غمگین رہے اور قنوت پڑھتے رہے(بخاری:۰۰۳۱)۔ پنے صاحبزادے ابراہیمؓ کی وفات کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور کہا: یہ بے صبری نہیں یہ تو رحمت ہے۔ میرا دل غم سے نڈھال ہے۔ لیکن ہم زبان سے وہی کہیں گے جو ہمارے پرور دگار کو پسند ہے (بخاری:۳۰۳۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی شدت سے صحابہ کرام ؓ رونے لگے تو آپؐ نے فرمایا: سنو! اللہ آنکھوں سے آنسو نکلنے اور دل کے غم پرعذاب نہیں کرے گا۔ پھر زبان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے (بخاری:۴۰۳۱)۔
موت۔ صحابہؓ:
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ آپؓ کی غیر موجودگی میں انتقال کرگیا۔ ان کی بیوی اُم سلیم ؓ نے بچہ کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا اور حضرت ابو طلحہؓ کی آمد پر انہیں کھانا دیا اور شوہر کے ساتھ شب بسری کی اور صبح انہیں بتلایا کہ بچہ انتقال کرگیا ہے۔اُم سلیم کا یہ احوال سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔پھر ابو طلحہؓ کی اسی بیوی سے نو بیٹے ہوئے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے (بخاری:۱۰۳۱)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے، پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے (بخاری:۴۰۳۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں یہ عہد بھی لیا تھا کہ وہ میت پر نوحہ نہیں کریں گی (بخاری:۶۰۳۱)۔
موت۔ سوگ:
عورتوں کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا منع ہے۔ البتہ شوہر کی موت پر چالیس دن کی عدت اور سوگ کا حکم ہے۔ اس سوگ کے دوران سرمہ، خوشبو لگانا یعنی میک اَپ کرنا، رنگین کپڑے پہننا اور جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔ البتہ حیض کے غسل کے بعد شرم گاہ میں کست اظفار، مشک وغیرہ کی خوشبو لگانے کی اجازت ہے (بخاری:۳۱۳)۔ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بیٹے کے انتقال کے تیسرے دن اپنے بدن پر یہ کہتے ہوئے خوشبو لگائی کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے عورتوں کو منع کیا گیا ہے۔ ہم عورتوں کو جنازہ کے ساتھ چلنے سے بھی منع کیا گیا ہے، مگر تاکیداََ منع نہیں (بخاری:۸۷۲۱؛ ۹۷۲۱)اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ (عدت) چار مہینے دس دن کرے (بخاری:۰۸۲۱ تا ۲۸۲۱)۔ (موت و مشکلات پر) صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے (بخاری:۳۸۲۱؛ ۲۰۳۱)۔
موت۔ غسل میت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ایک بیٹی کی وفات پر ہدایت: تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملالو۔دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے غسل شروع کرنا۔ آخر میں کچھ کافور کا استعمال کرلینا (بخاری:۳۵۲۱ تا ۹۵۲۱؛ ۳۶۲۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کی وفات پر انہیں غسل دیتے ہوئے پہلے ان کے بال کھولے اور دھوئے گئے پھر ان کی تین چٹیاں کردی گئیں (بخاری:۰۶۲۱؛ ۲۶۲۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کے تین سفید سوتی دھلے کپڑے میں کفن دیا گیا۔ ان میں نہ قمیص تھی، نہ عمامہ (بخاری:۴۶۲۱؛ ۱۷۲۱ تا ۳۷۲۱)۔میدان عرفات میں اپنے اونٹ سے گر اور کچل کر وفات پاجانے والے حاجی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت:پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں کفن دو۔ نہ خوشبو لگاؤ اور نہ سر چھپاؤ۔ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اُٹھے گا (بخاری:۵۶۲۱ تا ۸۶۲۱)۔
موت۔ جنازہ:
جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور کھڑے رہو یہاں تک کہ جنازہ تم سے آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے خواہ جنازہ غیر مسلم کا ہی کیوں نہ ہو(بخاری:۷۰۳۱ تا ۳۱۳۱)۔جب میت کو کاندھوں پر اٹھا کر لے جایا جاتا ہے تو نیک میت کہتی ہے: مجھے آگے لے چلو۔اگر میت نیک نہ ہو تو کہتا ہے: ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟ میت کی اس آواز کو انسان کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے۔ اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے(بخاری:۴۱۳۱؛ ۶۱۳۱؛ ۰۸۳۱)۔جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو۔ بصورت دیگر یہ ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو(بخاری:۵۱۳۱)۔ مُردوں کو بُرا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔(بخاری:۳۹۳۱)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے میت کی برائی کی۔ دونوں مرتبہ لوگوں کے تبصرہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباََ فرمایا: واجب ہوگئی کیونکہ ایمان والی قوم کی گواہی اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں (بخاری:۲۴۶۲)۔
موت۔ تعزیت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب رضی اللہ تعالیٰ کو اُن کے بیٹے کی موت کے وقت نصیحت: سارا مال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ جو لے لیا، وہ اسی کا تھا۔ اور جو اس نے دیا، وہ بھی اسی کا تھا۔ اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے(بخاری:۴۸۲۱)۔
موت۔ نوحہ:
جو شخص (مرد یا عورت) کسی کی موت پر اپنے چہروں کو پیٹے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے (بخاری: ۴۹۲۱؛ ۷۹۲۱؛ ۸۹۲۱)۔ غم کے وقت چلا کر رونے والی، سر منڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا تھا (بخاری: ۶۹۲۱)۔وہ ہم میں سے نہیں ہے جو نوحہ کرتے ہوئے اپنے رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے (بخاری: ۹۱۵۳)۔میت کو قبر میں اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ نبی ﷺ سے منسوب اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے تو فرمایا تھا: میت پر تو اس کی بد عملیوں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اب بھی اس کی جدائی پر روتے رہتے ہیں (بخاری:۸۷۹۳)۔
موت۔ عدت:
بیوہ کی عدت چار مہینہ دس دن ہے لیکن حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہے۔ سبیعہ بنت حارث ؓ کے شوہر سعد بن خولہ کے انتقال کے کچھ ہی دنوں بعد ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور لوگوں نے انہیں نئے نکاح سے قبل چار ماہ دس دن عدت گزارنے کو کہا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے کہا کہ تم عدت سے نکل چکی ہو، چاہو تو نکاح کرسکتی ہو (بخاری:۷۸۹۳)۔بیوہ عورت کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل کر کہیں اور عدت گزارے (بخاری:۱۳۵۴؛۴۴۳۵)۔ اُم المومنین اُم حبیبہ ؓ اپنے والد ابو سفیان بن حرب کے انتقال کے بعد خوشبو لگاتے ہوئے فرمایا:رسول اللہ کا فرمان ہے کہ اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے ماسوا اپنے شوہر کے، جس کا سوگ چار مہینے دس دن ہے۔ پھر اُم المومنین زینب بنت حجشؓ کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے بھی ایسا ہی عمل کیا اور یہی حدیث سنائی(بخاری: ۴۳۳۵؛ ۵۳۳۵؛ ۹۳۳۵؛ ۵۴۳۵)۔ اُم عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں شوہر کے علاوہ کسی کی موت کا سوگ تین دن سے زیادہ منانے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کی عدت مقرر ہے۔ اس دوران ہم نہ سرمہ لگاتیں، نہ خوشبو استعمال کرتیں اور نہ رنگا ہوا کپڑا پہنتیں سوائے اس رنگین کپڑے کہ جس کا دھاگہ کپڑا بننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی(بخاری: ۰۴۳۵ تا ۳۴۳۵؛۵۰۷۵)۔
موت۔ کفار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کنویں کے پاس آئے جس میں جنگ بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا اور فرمایا:تمہارے رب نے جو سچا وعدہ کیا تھا، اسے تم لوگوں نے پالیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ مُردوں کو سناتے ہیں؟ آپ ؐ نے جواب دیا: تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ حضرت عائشہؓ نے اس حدیث کی وضاحت میں فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے کافروں کو یہ فرمایا تھا کہ میں جو ان سے کہا کرتا تھا، اب ان کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ سچ ہے۔کیونکہ اللہ نے سورۃ نمل آیت۔۰۸ میں فرمایا ہے کہ اے پیغمبر! تو مُردوں کو نہیں سنا سکتا (بخاری:۰۷۳۱)۔
موت۔ عذاب قبر:
یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا(بخاری:۰۳۳۱)۔ تدفین کے بعد دو فرشتے قبر میں مردے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اگر وہ جواب دے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں تو اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھلا کر کہتے ہیں کہ اللہ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان بنادیا ہے۔اگر میت کافر اور منافق ہے اوریہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تو اسے لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا ارد گرد کی تمام مخلوق سنتی ہے (بخاری: ۸۳۳۱؛ ۴۷۳۱)۔ حبشہ کے ایک گرجے میں آویزاں تصاویرکے ذکر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے نزدیک وہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں جو اپنے کسی صالح فرد کی قبر پر مسجد تعمیر کرکے اس میں اس کی مورت رکھ دیتے ہیں (بخاری:۱۴۳۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان پر اس لیے عذاب ہورہا ہے کہ ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔(بخاری:۱۶۳۱؛ ۸۷۳۱)۔عذاب قبر حق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے (بخاری:۲۷۳۱؛ ۳۷۳۱؛ ۶۷۳۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو غروب آفتاب کے بعد آپ ﷺ کو ایک آواز سنائی دی اور آپ نے فرمایا کہ یہودی کو اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے (بخاری:۵۷۳۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگتے: اللھم انی اعوذ بک من عزاب القبر ومن عذاب انار و من فتنۃ المحیا ولممات و من فتنۃ المسیح الدجال (بخاری:۷۷۳۱)۔ جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کا جنتی یا جہنمی ٹھکانہ اسے صبح و شام دکھاکر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا (بخاری:۹۷۳۱)۔کوئی اپنی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر موت کی تمنا ضروری ہی ہوجائے تو یوں کہے: اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے، مجھے زندہ رکھیو اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو مجھے اٹھا لیجیو(بخاری:۱۵۳۶)۔
نام رکھنا:
حزن بن ابی وہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نام (حزن بمعنی سختی) بتلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم سہل (بمعنی نرمی) ہو۔ مگر انہوں نے اپنا نام تبدیل نہیں کیا۔ چنانچہ ان کے خاندان میں بعد تک ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا (بخاری: ۰۹۱۶؛ ۳۹۱۶)۔اُم المومنین حضرت زینب ؓ کا نام برہ تھا۔ کہا جانے لگا کہ وہ اپنی پاکی ظاہر کرتی ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھ دیا (بخاری: ۲۹۱۶)۔ ابو موسیٰ ؓ کے گھر بچہ پیدا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور ایک کھجور اپنے دہان مبارک سے نرم کرکے اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی (بخاری: ۸۹۱۶)۔حضرت علی ؓ کو ان کی کنیت ابو تراب سب سے زیادہ پیاری تھی کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی (بخاری: ۴۰۲۶)۔قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہوگا جو اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھے (بخاری: ۶۰۲۶)۔حضرت علیؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ محبوب نہیں تھا (بخاری: ۰۸۲۶)۔
نبی آخرالزماں ﷺ:
نبیؐ۔منفرد خصوصیات: جس شخص نے خواب میں مجھے دیکھا تو بلا شبہ اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا۔ (بخاری:۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ منفرد خصوصیات: (۱)ایک ماہ کی مسافت سے رعب کی مدد(۲)تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت۔ جہاں نماز کا وقت آئے، اُمت کو وہیں نماز پڑھ لینی چاہئے (۳)مالِ غنیمت حلال کیا گیا (۴)سابقہ انبیاء علیہ السلام خاص قوموں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے جبکہ نبی ﷺ کو تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا (۵) شفاعت عطا کی گئی (بخاری:۵۳۳؛۸۳۴)۔نہ میں تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں اور نہ تم سے کوئی چیز روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں (بخاری: ۷۱۱۳)۔ کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں (بخاری:۲۱۴۳؛ ۳۱۴۳؛ ۶۱۴۳)۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی حضرت یونس بن متی سے افضل ہے (بخاری:۵۱۴۳)۔ انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں۔ میں ابن مریم سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور عیسیٰ ؑ کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے (بخاری: ۲۴۴۳؛ ۳۴۴۳)۔ مجھے میرے مرتبہ سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (بخاری: ۵۴۴۳)۔
میرے پانچ نام ہیں۔میں محمد، احمد اور ماحی (مٹانے والا)ہوں کہ اللہ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ روز قیامت تمام انسانوں کا میرے بعد حشر ہوگا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا (بخاری: ۲۳۵۳؛۶۹۸۴)۔ میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے،جیسے ایک شاندار بنے اور زینت سے آراستہ گھر کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی تو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (بخاری: ۵۳۵۳)۔غزوہ خندق کے موقع پر باد صبا سے میری مدد کی گئی جبکہ قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کی گئی (بخاری: ۳۴۳۳)۔ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں، جو میں کرتا ہوں حالانکہ میں اللہ کو سب سے زیادہ جانتا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں (بخاری: ۱۰۱۶)۔
نبیؐ۔ شخصیت:
مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔(بخاری: ۶۰۱ تا ۰۱۱؛ ۱۹۲۱؛۷۹۱۶)۔ میرے نام پر اپنی اولاد کے نام رکھو مگر میری کنیت ابوالقاسم پر نام نہ رکھو (بخاری:۰۱۱؛۰۲۱۲؛ ۱۲۱۲؛ ۴۱۱۳؛ ۵۱۱۳؛۷۳۵۳ تا ۹۳۵۳)۔ تم لوگ میرے نام پر اپنے نام رکھا کرو لیکن میری کنیت ابوالقاسم پر مجھے جامع کلام دے کر بھیجا گیا ہے۔ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے۔میں سویا ہوا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ پر لاکر رکھ دی گئیں (بخاری:۷۷۹۲)۔ میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت (ابوالقاسم) اختیار نہ کرو کیونکہ میں قاسم (تقسیم کرنے والا)ہوں اور تمہارے درمیان علوم دین کو تقسیم کرتا ہوں (بخاری: ۶۸۱۶ تا ۹۸۱۶؛ ۶۹۱۶؛ ۷۹۱۶)۔
نبیؐ ۔ شمائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال درمیانہ تھے، نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ گھنگریالے۔ بال کانوں اور شانوں کے بیچ تک پہنچتے تھے (بخاری: ۳۰۹۵ تا ۶۰۹۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں بھرے ہوئے تھے۔ چہرہ حسین و جمیل تھا اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں (بخاری: ۷۰۹۵ تا۲۱۹۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن و جمال میں بھی سب سے بڑھ کر تھے۔آپ ؐسفید رنگ کے تھے، کچھ بال سفید ہوگئے تھے۔ آپ کی دونوں کنپٹیوں اور ٹھوڑی کے کچھ بال سفید ہوگئے تھے۔ آپﷺ درمیانہ قد کے تھے۔ نہ بہت لمبے اور نہ چھوٹے قد والے،رنگ کھلتا ہوا تھا، نہ خالی سفید تھے اور نہ بالکل گندمی۔ آپ کے بال نہ بالکل مڑے ہوئے سخت قسم کے تھے اور نہ سیدھے لٹکے ہوئے تھے۔آپ کا سینہ بہت کشادہ اور کھلا ہوا تھا۔ چہرہ مبارک چاند کی طرح گول اور خوبصورت تھا (بخاری: ۴۴۵۳ تا ۲۵۵۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا۔ اس کے بعد آپ تیرہ سال مکہ میں رہے اور ہجرت مدینہ کے دس سال بعد فوت ہوئے۔ یوں آپ کی کل عمر شریف تریسٹھ (۳۶) برس ہوتی ہے (بخاری:۶۳۵۳؛۱۵۸۳؛ ۲۰۹۳؛ ۳۰۹۳)۔
نبیؐ۔ انگوٹھی،مہر:
مردوں کا انگوٹھی پہننا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔(بخاری:۱۶۶)۔حضرت ابوبکرؓ بھی سرکاری مراسلت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی مہر استعمال کرتے تھے (بخاری: ۶۰۱۳)۔میں آدم ؑ سے لے کر برابرآدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں مَیں پیدا ہوا (بخاری: ۷۵۵۳)۔میری بعثت قیامت سے اتنی قریب ہے جتنی شہادت کی انگلی بیچ کی انگلی سے (بخاری: ۱۰۳۵)۔ مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا منع ہے (بخاری: ۴۶۸۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی پرتین سطور میں (محمد۔ رسول۔اللہ) کے الفاظ کھدوائے تھے جو بطور مہر نبوت استعمال ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو پہلے حضرت ابوبکرؓ نے، پھر حضرت عمرؓ نے اور پھر حضرت عثمان ؓ نے پہنا۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی تھی۔ تین دن تک اس انگوٹھی کو ڈھونڈا گیا، کنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا گیا لیکن وہ انگوٹھی نہ ملی (بخاری: ۶۶۸۵؛ ۲۷۸۵ تا ۵۷۸۵؛ ۷۷۸۵؛ ۸۷۸۵؛ ۹۷۸۵)
نبیؐ۔ ابو طالب:
حضرت علی ؓ کے والد اور نبی کریم ﷺ کے مشفق چچا ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے اور کہا: چچا! آپ کلمہ لاالہ الا اللہ کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس موقع پر موجود ابوجہل، عبد اللہ بن ابی امیہ مغیرہ وغیرہ نے کہا: ابو طالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤگے؟ نبی کریم ﷺ برابر ان پر کلمہ پیش کرتے رہے اور ابوجہل وغیرہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا۔پھر بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا، جب تک مجھے منع نہ کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی آیت۔۳۱۱ نازل کی: پیغمبر اور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کی بخشش کے لیے دعا کریں، اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں۔ جبکہ ان پر ظاہر ہوگیا ہے کہ وہ دوزخی ہیں (بخاری:۰۶۳۱؛ ۳۸۸۳؛ ۴۸۸۳؛ ۵۷۶۴؛ ۲۷۷۴)۔ حضرت عباسؓ بن مطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ اپنے چچا ابو طالب کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کرتے تھے اور آپ ؐ کے لیے غصہ ہوتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری وجہ سے ہی وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں۔ اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہہ میں بالکل نیچے ہوتے (بخاری:۳۸۸۳؛ ۵۸۸۳)۔
نبیؐ۔ ازدواجیات، اہل بیت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں نو منکوحہ اور دو لونڈیوں کے بستر پر گئے۔ صحابہ کرام آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے (بخاری:۸۶۲؛ ۴۸۲)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی، پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے۔ اس کے بعد احرام باندھا۔ احرام باندھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ نے خود دیکھا۔ (احرام باندھنے کے بعد خوشبو لگانا منع ہے) اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ حالت حیض میں گھر میں اُس جگہ لیٹی ہوتی تھیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چٹائی پر نمازپڑھا کرتے تھے۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو آپ ﷺ کے کپڑے کا کوئی حصہ حضرت میمونہ ؓ کے جسم سے لگ جاتا تھا (بخاری:۱۷۲؛۳۳۳؛ ۹۷۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ گندم یا کوئی اور غلہ موجود رہا ہو۔ حالانکہ آپؐ کے گھر والیوں کی تعداد نو تھی (بخاری:۹۶۰۲؛ ۸۰۵۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن ؓ کو سینے سے لگا کر بوسہ لیا اور فرمایا: اے اللہ! اسے محبوب رکھ اور اُس شخص کو بھی محبوب رکھ جو اس سے محبت رکھے (بخاری:۲۲۱۲؛۴۸۸۵)۔ سفر میں ساتھ لے جانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی فرماتے۔ آپ ﷺ نے ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کردی تھی۔ البتہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی عمر کے آخری دور میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی تھی (بخاری:۱۶۶۲؛۸۸۶۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل قریش، عبد مناف، عباس عبدالمطلب، پھوپھی صفیہ اور بیٹی فاطمہ سے خطاب: تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو نیک اعمال کے بدلہ مول لے لو۔ میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا (بخاری:۳۵۷۲؛ ۷۲۵۳)۔جب اللہ نے حکم دیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو اپنے ساتھ رہنے یا علیحدگی کا اختیار دیں تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس معاملہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے دو ٹوک جواب دیا کہ مجھے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ میں اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ پھر دوسری ازواج نے بھی وہی کہا جو میں کہہ چکی تھی (بخاری:۵۸۷۴؛ ۶۸۷۴)۔ ہجرت مدینہ کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آل محمد ﷺ نے کبھی مسلسل تین دنوں تک گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی (بخاری: ۴۷۳۵؛ ۶۱۴۵؛ ۳۲۴۵؛ ۸۳۴۵؛ ۵۵۴۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی (بخاری: ۶۵۴۶)۔فرمانِ حضرت عائشہؓ: ہمارے گھر ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلتا تھا۔ کبھی کبھی ہم دو مہینوں میں تین تین چاند دیکھ لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا تھا اور ہم صرف کھجور اور پانی سے گزارا کرتے تھے الا یہ کہ کہیں سے کچھ تھوڑا سا دودھ یا گوشت آجاتا توہم اسے بھی کھا لیتے (بخاری: ۸۵۴۶؛ ۹۵۴۶)۔اے اللہ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں (بخاری: ۰۶۴۶)۔
نبیؐ۔ بہادری:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ فیض اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک شب مدینہ کے سب لوگ خوفزدہ ہوکر ایک آواز کی سمت بڑھ رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی ایک گھوڑے پر سوار سب سے آگے تھے۔اور تلوار آپ کی گردن سے لٹک رہی تھی (بخاری:۰۲۸۲؛۸۰۹۲: ۸۶۹۲؛ ۹۶۹۲؛ ۰۴۰۳)۔اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو تم میں تقسیم کردیتا۔ مجھے تم بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے (بخاری:۱۲۸۲)۔ ایک غزوہ سے واپسی پر لشکر نے ببول کے کثیر درختوں والی ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا اورصحابہ کرام درختوں کے سائے کے لیے دور دور تک پھیل گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے بغرض قیلولہ قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی۔ ایک بدوی نے آپ ؐ کی غفلت میں آپ ہی کی تلوار آپ پر تانے کھڑا ہوگیا اور بلند آواز سے کہنے لگا: اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہا: میرااللہ!یہ سننا تھا کہ تلوار بدوی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدوی کو کوئی سزا نہیں دی۔ پھر وہ آپ ؐ کے اس رویہ سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا (بخاری:۰۱۹۲؛ ۳۱۹۲)۔
نبیؐ۔ دعا، بد دعا:
اے اللہ! میں عاجزی اور سستی سے، بزدلی اور بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے، زندگی اور موت کے فتنوں سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں (بخاری:۲۲۸۲؛ ۳۲۸۲)اے اللہ! میں غم، عاجزی، سستی، بخل، بزدلی، قرض کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں (بخاری:۳۹۸۲) ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل وغیرہ کے کہنے پر کفار نے آپ پر اوجھڑی ڈال دی۔حضرت فاطمہ ؓ نے آکر اس گندگی کو ہٹایا تو اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں بد دعادی کہ اے اللہ! قریش کو پکڑ، ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف، اور عقبہ بن ابی معیط سب کو پکڑ لے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں، مَیں نے ان سب کی لاشوں کو بدر کے کنویں میں ڈلا ہوا دیکھا تھا (بخاری:۴۳۹۲)۔ غزوہ خندق میں عصر کی نماز قضاء ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو بد دعا دی کہ اے اللہ! ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ (نماز عصر) نہیں پڑھنے دی (بخاری:۱۳۹۲)۔غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ کی دعا: اے اللہ! مشرکوں اور کفار کی جماعتوں کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے (بخاری:۳۳۹۲)۔ ہجرت مدینہ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ کا تعاقب کرتا ہوا سراقہ بن مالک بالکل قریب پہنچ گیا تو آپ ﷺ نے اس کے لیے بد دعا کی۔ اس کا گھوڑا سخت زمین میں پیٹ تک دھنس گیا تو سراقہ بولا: میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں کی بد دعا سے ایسا ہوا ہے۔ اگرآپ لوگ میری اس مصیبت سے نجات کی دعا کریں تو میں آپ لوگوں کی تلاش میں آنے والے تمام لوگوں کو لوٹا دوں گا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی دعا سے وہ نجات پاگیا تو وہ واپس ہوگیا اور راستے میں جو بھی ملتا اسے یہ کہہ کر واپس لوٹا دیتا کہ میں بہت تلاش کرچکا ہوں، وہ ادھر نہیں ہیں (بخاری: ۵۱۶۳؛ ۲۵۶۳)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن حشام کے لیے بد دعا کی کہ اے اللہ! انہیں اپنی رحمت سے دور کردے تو اللہ نے سورۃ آل عمران کی آیت:۸۲۱ نازل فرمائی:تیرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے یا انہیں عذاب کرے کیونکہ وہ ظالم ہیں (بخاری:۹۶۰۴؛ ۰۷۰۴)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر (۰۷) صحابہ کی ایک جماعت تبلیغ کے لیے بھیجی تھی۔ راستے میں بنو سلیم کے دو قبائل رعل اور ذکوان نے ان کے ساتھ مزاحمت کی اور تمام صحابہ کو شہید کردیا۔اس واقعہ کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں ایک مہینہ تک ان کے لیے بد دعا کرتے رہے۔ اسی دن سے دعائے قنوت کی ابتدا ہوئی جو قرآت کے بعد اور رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی (بخاری:۸۸۰۴ تا ۱۹۰۴؛ ۴۹۰۴تا ۶۹۰۴)۔
نبیؐ۔ پیشنگوئی:
فقر و فاقہ اور راستوں کی بد امنی کی شکایات پر ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ایک وقت آئے گا جب ایک عورت کوفہ کی بستی سے اکیلی مکہ پہنچ کر کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ جب ایرانی بادشاہ کے خزانے تم پر کھولے جائیں گے۔ جب ایک شخص سونا چاندی بھر نکلے گا کہ کوئی اس کی زکوٰۃ قبول کرلے، مگر کوئی نہ ملے گا(بخاری: ۵۹۵۳) ۔اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی موجودگی میں حضرت فاطمہؓ آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ایک پہلو کی طرف طرف بٹھایا اور ان کے کان میں چپکے سے کچھ کہا تو وہ رو پڑیں۔ پھر آپ ؐ نے ان کے کان میں کچھ اور کہا تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے پوچھنے پر بی بی فاطمہؓ نے فرمایا کہ جب تک نبی کریم ﷺ زندہ ہیں، میں آپ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی۔نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بی بی فاطمہ نے بتلایا کہ آپ ؐ نے پہلی مرتبہ میرے کان میں کہا کہ اس سال جبرئیل ؑ نے خلاف معمول دو مرتبہ دورہ قرآن کیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملنے والی تم ہوگی۔ یہ سن کر میں رونے لگی تو آپ ؐ نے فرمایا: تم اس پر راضی نہیں کہ جنت کی عورتوں کی سردار بنوگی تو اس پر میں ہنس پڑی۔ دوسری روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ اپنی وفات کی بات کی تھی اور دوسری مرتبہ یہ فرمایا تھا اہل بیت میں سب سے پہلے تم مجھے آن ملوگی (بخاری: ۳۲۶۳ تا ۶۲۶۳؛ ۵۱۷۳؛ ۶۱۷۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ ؓ کی شہادت کی خبر پہلے ہی صحابہ کو سنادی تھی۔ اس وقت آپ ؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے (بخاری: ۰۳۶۳)۔ غریب حضرت جابر بن عبد اللہ کی شادی کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ تمہارے پاس عمدہ عمدہ قالین ہوں گے۔ اور اب جب میں اپنی بیوی سے قالین ہٹانے کو کہتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ کیا نبی کریم ﷺ نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تمہارے پاس قالین ہوں گے۔ چنانچہ میں انہیں وہیں رہنے دیتا ہوں (بخاری: ۱۳۶۳)۔
نبیؐ۔ پیشنگوئی:
سعد بن معاذ ؓ عمرہ کی نیت سے مکہ آئے تو ابو صفوان امیہ بن خلف کے ہاں اترے۔ امیہ بھی تجارت کے لیے شام جاتے ہوئے جب مدینہ سے گزرتا تو سعد بن معاذ ؓ کے یہاں قیام کرتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ طواف کررہے تھے کہ ابوجہل آگیا اور کہنے لگا: تم کعبہ کا طواف امن سے کررہے ہو حالانکہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس پر سعد ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے بیت اللہ کے طواف سے روکا تو میں بھی تمہاری شام کی تجارت خاک میں ملا دوں گا۔ دونوں میں بات بڑھنے لگی تو امیہ حضرت سعد ؓ کو برابر روکتا رہا کہ اپنی آواز بلند نہ کرو۔ اس پر سعد ؓ نے کہا کہ چل پرے ہٹ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تجھے ابوجہل ہی قتل کرائے گا۔امیہ نے یہ بات اپنی بیوی کو بتلائی اور دونوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ محمد ﷺ کبھی کوئی غلط بات زبان سے نہیں نکالتے۔ پھر بدر کی لڑائی کے لیے اہل مکہ روانہ ہونے لگے تو امیہ کو بھی بلانے والا آیا۔ امیہ نے چاہا کہ اس لڑائی سے دور رہے مگر ابوجہل نے کہا: تم وادی مکہ کے رئیس ہو۔ کم از کم ایک دو دن کے لیے تو تمہیں چلنا ہی پڑے گا۔ یوں وہ بدر کی لڑائی کے لیے نکلا تو اللہ نے اسے قتل کرادیا (بخاری: ۲۳۶۳)۔ جب شاہ ایران کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو پھر کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ اللہ کی قسم تم ان کے خزانے اللہ کے راستے میں ضرور خرچ کروگے (بخاری: ۸۱۶۳؛ ۹۱۶۳)۔ تمہارے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو بغیر کہے گواہی دینے کے لیے تیار ہوجایا کرے گی۔ ان میں خیانت اور چوری اتنی عام ہوجائے گی کہ ان پر کسی قسم کا بھروسہ باقی نہیں رہے گا۔ نذریں مانیں گے لیکن انہیں پورا نہیں کریں گے، موٹاپا عام ہوجائے گا(بخاری:۰۵ ۶۳؛ ۱۵۶۳)۔
نبیؐ۔ تمثیل:
اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے کشتی کی نچلی منزل والے پانی لینے کے لیے اوپری منزل پر جانے کی بجائے کشتی کی نچلی منزل ہی میں سوراخ کرلیں اور اوپری منزل والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں پوری کشتی والے ہلاک ہوجائیں گے۔ لیکن اگر اوپر والے نیچے والوں کو ایسا کرنے سے روک لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی (بخاری:۳۹۴۲؛۶۸۶۲)۔یہودیوں نے دوپہر تک ایک قیراط پر اور نصاریٰ نے دوپہر تا عصر ایک قیراط پر مزدوری کی جبکہ مسلمانوں کو عصر تا مغرب کام کرنے کی مزدوری دو قیراط ملی(بخاری: ۹۵۴۳)۔
نبیؐ۔ تورات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات تورات میں بالکل وہی ہیں، جو قرآن میں ہیں جیسے:اے نبی! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا اوراَن پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم نہ بد خو ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور و غل مچانے والے۔ (بخاری:۵۲۱۲)۔
نبیؐ۔ خطوط:
قیصر روم کے نام خط میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا: اگر تم نے اسلام کی دعوت سے منہ موڑا تو اپنے گناہوں کے ساتھ ان کا بھی تم پر گناہ پڑے گا، جن پر تم حکمرانی کررہے ہو (بخاری:۶۳۹۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطوط کو سر بمہر کرنے کے لیے چاندی کی انگوٹھی میں محمد رسول اللہ کھدوایا تھا (بخاری: ۸۳۹۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے گورنر کے ذریعہ اپنا مکتوبشاہِ ایران کسریٰ پرویز تک پہنچایا اور اُس نے مکتوب مبارک پھاڑ ڈالا تو آپ ؐنے بد دعا کی کہ وہ بھی پارہ پارہ ہوجائے اور ایسا ہی ہوا (بخاری:۹۳۹۲؛ ۴۶۲۷)۔
نبیؐ۔ خواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک حافظ قرآن کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا کیونکہ وہ قرآن سے غافل ہوگیا تھا اور فرض نماز پڑھے بغیر سوجایا کرتا تھا (بخاری:۳۴۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں مسیح ابن مریم کو دو آدمیوں کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے طواف کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ شکل میں حسین و جمیل، سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے اور سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔(بخاری: ۰۴۴۳؛ ۱۴۴۳)۔میں نے خواب میں اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو فکر مند ہوا۔ خواب ہی میں مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ جب میں نے کنگنوں پر پھونک ماری تو وہ دونوں اُڑ گئے۔میں نے اس خواب سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب (بخاری: ۱۲۶۳)۔ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجور کے باغات ہیں۔ اس پر میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ یثرب مدینہ منورہ ہے۔ پھر میں نے اسی خواب میں تلوار ہلائی تو وہ بیچ سے ٹوٹ گئی۔ یہ اُحد میں مسلمانوں کو پیش آنے والی مصیبت کی طرف اشارہ تھا۔ پھر میں نے تلوار دوسری مرتبہ ہلائی تو وہ پہلے سے بھی اچھی صورت میں ہوگئی۔ یہ فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا (بخاری: ۲۲۶۳)۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک میدان میں جمع ہیں۔ ان میں سے حضرت ابوبکر ؓ اٹھے اور ایک کنویں سے دو ڈول پانی بھر کر نکالا۔ پھر وہ ڈول حضرت عمر ؓ نے سنبھالا۔ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی وہ ڈول بڑا ہوگیا۔ انہوں نے اتنے ڈول کھینچے کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو بھی پلا پلا کر ان کے ٹھکانوں میں لے گئے (بخاری: ۴۳۶۳؛ ۴۶۶۳؛ ۶۷۶۳؛ ۲۸۶۳)۔ حضرت عائشہ ؓ کا فرمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے۔چنانچہ اس دور میں آپ جو بھی خواب دیکھ لیتے وہ حالت بیداری میں نمودار ہوجاتا (بخاری:۳۵۹۴)۔خواب: رات کعبہ کے پاس مجھے عیسیٰ ابن مریم کو دکھایا گیا جو گندمی رنگ کے خوبصورت چہرہ والے تھے، ان کے شانوں تک لمبے لمبے بال تھے، بالوں میں کنگھا کررکھا تھااور بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ دو آدمیوں کے شانوں کا سہارا لیے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔ پھر میں نے مسیح دجال کو دیکھا جس کے الجھے ہوئے گھنگریالے بال تھے اور وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا (بخاری: ۲۰۹۵)۔جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا (بخاری: ۷۹۱۶)۔ایک رات خواب میں کعبہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ ؑابن مریم اورکانے دجال کو دیکھا (بخاری: ۹۹۹۶؛ ۶۲۰۷)۔ خواب میں میرے سامنے کچھ لوگ قمیص پہنے ہوئے پیش کئے گئے۔ کسی کی قمیص محض سینے تک تھی تو کسی کی بڑی۔ عمر ؓبن خطاب میرے سامنے سے گزرے تو ان کی قمیص زمین سے گھسٹ رہی تھی اور قمیص کی تعبیر دین ہے (بخاری: ۸۰۰۷؛ ۹۰۰۷)۔
نبیؐ۔ خواب:
عائشہ ؓ! تم مجھے خواب میں دو مرتبہ اس طرح دکھائی گئیں کہ ایک شخص تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے لیے جارہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں (بخاری: ۱۱۰۷؛ ۲۱۰۷)۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے خواب میں باغ کے وسط میں واقع ایک ستون پر خود کو چڑھتے ہوئے اور ستون کے اوپری سرے پرموجود ایک حلقہ کو پکڑتے ہوئے دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب سُن کر فرمایا: وہ اسلام کا باغ اور ستون تھا جبکہ ستون کا بالائی حلقہ عروۃ الوثقی تھا۔ تم اپنی وفات تک اسلام پر مظبوطی سے جمے رہوگے (بخاری: ۴۱۰۷)۔عبداللہ بن عمر ؓ خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور میں جنت میں جس جگہ جانا چاہتا ہوں، وہ اڑا کر مجھے وہاں پہنچا دیتا ہے۔ اس خواب کی تعبیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓنیک آدمی ہے (بخاری: ۵۱۰۷؛ ۶۱۰۷)۔اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ہوں اور اس کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا (بخاری: ۸۱۰۷)۔میں ایک کنویں سے پانی کھینچ رہا تھا کہ ابوبکر ؓو عمرؓ بھی آگئے ابوبکرؓ نے ایک یا دو ڈول کمزوری میں کھینچے اس کے بعد عمرؓ نے وہ ڈول اپنے ہاتھ میں لیا تو ڈول بڑا ہوگیا اور انہوں نے اتنی مہارت سے پانی کھینچا کہ لوگوں کے لیے اونٹوں کے حوض بھر دئے (بخاری: ۹۱۰۷ تا ۲۲۰۷؛ ۵۷۴۷)۔ مجھے جنت میں ایک محل دکھایا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ عمر بن خطابؓ کا محل ہے تو میں اندر جانے سے رک گیا کہ مجھے عمرؓ کی غیرت یاد آگئی۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ رو پڑے اور کہا: کیا آپ پر غیرت کروں گا(بخاری: ۳۲۰۷ تا ۵۲۰۷)۔خواب میں مرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس میں سے پیا اورپھر اپنا بچا ہوا عمر بن خطاب کو دے دیا۔ میں نے اس کی تعبیر علم سے لی (بخاری:۷۲۰۷؛ ۲۳۰۷)۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجوریں ہیں۔ میرا خیال یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مدینہ یعنی یثرب ہے (بخاری: ۵۳۰۷)۔میں نے ایک پراگندہ بال، سیاہ عورت دیکھی کہ وہ مدینہ سے نکل کر مہیعہ چلی گئی۔ میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ منتقل ہوگئی ہے(بخاری: ۸۳۰۷ تا ۰۴۰۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مختلف مناظر دکھلائے گئے اور پھربتلایا گیا کہ جس کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا، یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا تھا پھر اسے چھوڑ دیتا تھا اور فرض نماز کو چھوڑ کر سوجاتا تھا۔ جس کا جبڑا گدی، ناک اور آنکھ تک چیرا جارہا تھا وہ صبح گھر سے نکل کر جھوٹی خبریں تراشنے والا تھا۔ تنور میں جلتے ہوئے ننگے مرد اور عورتیں زنا کار تھے۔ نہر میں تیرنے والا، جس کے منہ میں پتھر دیا جارہا تھا، وہ سود خور تھا۔ جہنم کی آگ بھڑکانے والا بدصورت جہنم کا داروغہ تھا۔ باغ میں نظر آنے والے بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے ارد گرد وہ بچے ہیں جو بچپن ہی میں دین فطرت پر مرگئے تھے (ان بچوں میں مشرکین کے بچے بھی شامل ہیں فرمان رسول ﷺ)۔ آدھے خوبصورت اور آدھے بدصورت وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے عمل کے ساتھ برے عمل بھی کئے اور اللہ نے ان کے گناہوں کو بخش دیا (بخاری: ۷۴۰۷)۔
نبیؐ۔ درود:
مجھ پر درود یوں بھیجا کرو: اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد پر، ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تونے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر۔ اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر، ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بے شک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے (بخاری: ۹۶۳۳؛ ۰۷۳۳)۔ مجھ پر یوں صلاۃ بھیجا کرو:اللھم صل علی محمد و علی آل محمد۔ کما صلیت علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید (بخاری:۷۹۷۴؛ ۷۵۳۶؛ ۸۵۳۶؛ ۰۶۳۶)۔
نبیؐ۔ رحم دلی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی صاحبزادی زینب ؓ نے بلا بھیجا کہ آپ کا نواسہ نزع کی حالت میں ہے۔ آپ ؐنے کہلا بھیجا کہ اللہ ہی کا ہے، جو وہ لیتا ہے۔ اس لئے وہ صبر کریں اور اللہ سے اجر کی امید رکھیں۔ بی بی زینب ؓ نے قسم دے کر پھر کہلا بھیجا تو آپ ﷺ بی بی زینب ؓ کے گھر گئے۔ بچہ کو اٹھایا تو وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ ؐ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے اور صحابہ کرام کے استفسار پر فرمایا: یہ رونا رحم کی وجہ سے ہے(بخاری: ۲۰۶۶؛ ۵۵۶۶؛ ۷۷۳۷؛ ۷۷۳۷؛ ۸۴۴۷)۔
نبیؐ۔ روضہ:
ولید بن عبد الملک بن مروان کے عہد حکومت میں حجرہ عائشہؓ کی دیوار گری اور لوگ اس دیوار کو زیادہ اونچی اٹھانے لگے تووہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبراگئے کہ کہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک تو نہیں۔ پھر عروہ بن زبیرؓ نے بتلایا کہ اللہ گواہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قدم نہیں بلکہ یہ تو حضرت عمر ؓ کا قدم ہے (بخاری:۰۹۳۱)۔
نبی۔ زہر، جادو:
ایک یہودی عورت نے زہر ملا ہوا بکری کا گوشت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ آپ نے اس میں سے تھوڑا کھایا تو معلوم ہوگیا کہ اس میں زہر ہے۔ یہودیہ نے زہر ملانے کا اقرار بھی کیا۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: کیوں نہ اسے قتل کردیا جائے، مگر نبی ﷺ نے اجازت نہ دی (بخاری:۷۱۶۲)۔ فتح خیبر کے بعد یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زہر ملا گوشت کا ہدیہ پیش کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: تم لوگوں نے اس میں زہر کیوں ملایا ہے؟ یہودیوں نے جواب دیا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ نبوت میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آرام مل جائے گا اور اگر آپ واقعی سچے نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا (بخاری: ۹۶۱۳)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جادو کے زیر اثرتھے تو آپ کے ذہن میں یہ بات ہوتی تھی کہ فلاں کام کررہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کررہے ہوتے۔پھر آپؐ نے جادو کا اثر دفع کرنے کی دعا کی تو اللہ نے شفا دی۔ اسی دوران دو فرشتوں جبرئیل اور میکائیل علیہ السلام نے باہم مکالمہ کرکے آپ ؐکو بتلایا کہ یہ جادو ٹونا لبید بن اعصم یہودی نے کنگھے، کتان اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں ڈال کر ایک کنویں میں رکھا ہے۔ پھر وہ کنواں بند کروادیا گیا(بخاری: ۵۷۱۳؛۸۶۲۳؛ ۳۶۷۵ تا ۶۶۷۵؛ ۳۶۰۶؛ ۱۹۳۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرماتے تھے کہ خیبر میں زہر آلود لقمہ جو میں نے اپنے منہ میں رکھ لیا تھا، اس کی تکلیف آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ میری شہ رگ اس زہر کی تکلیف سے کٹ جائے گی (بخاری:۸۲۴۴)۔
نبیؐ۔ سیرتِ طیبہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درزی کی دعو ت میں پیش کردہ گوشت اور کدو کے سالن میں کدو کے قتلے تلاش کرکرکے کھاتے رہے (بخاری:۲۹۰۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے کہ اگر کوئی آپ کے الفاظ گننا چاہتا تو گن سکتا (بخاری: ۷۶۵۳؛ ۸۶۵۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پورا منہ کھول کر نہیں ہنستے تھے بلکہ آپ تبسم فرمایا کرتے تھے (بخاری: ۸۲۸۴)۔نبی کریم گھر میں گھر کے کام کیا کرتے تھے اور اذان سنتے ہی باہر چلے جاتے تھے (بخاری: ۳۶۳۵)۔ ایک مرتبہ فاقوں کی وجہ سے حضرت ابوہریرہ ؓ سخت مشقت میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے گھر لے گئے اور خوب سیر ہوکر دودھ پلایا (بخاری: ۵۷۳۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں کدو بہت مرغوب تھا (بخاری: ۹۷۳۵؛۰۲۴۵؛ ۳۳۴۵؛ ۵۳۴۵ تا ۷۳۴۵؛ ۹۳۴۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممکنہ حد تک پاکی حاصل کرنے، جوتا پہننے اور کنگھا کرنے میں داہنی طرف سے ابتداء کرتے (بخاری: ۰۸۳۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک وقت میں مختلف اقسام کے کھانے، میدہ کی چپاتی روٹی نہیں کھائی۔ آپ عام دسترخوان پر کھانا کھایا کرتے تھے (بخاری: ۵۸۳۵؛ ۶۸۳۵؛ ۵۱۴۵)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا (بخاری: ۸۹۳۵؛ ۹۹۳۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکتی ہوئی ہنڈیا میں سے ادھ کچی بوٹی نکال کر کھائی اور پھر نیا وضو کئے بغیر نماز پڑھائی (بخاری: ۵۰۴۵)۔غیر محرم اگر شکار کرے تو احرام والے شکاری کی مدد نہیں کرسکتے لیکن غیر محرم کا شکار کیا ہوا گوشت کھاسکتے ہیں۔ ایسا کرنا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے (بخاری: ۷۰۴۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھالیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا (بخاری: ۹۰۴۵)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔(بخاری: ۱۳۴۵؛ ۲۸۶۵؛۹۹۵۵؛ ۴۱۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تازہ کھجور کے ساتھ ککڑی ملا کر بھی کھاتے دیکھا گیا ہے (بخاری: ۰۴۴۵؛ ۷۴۴۵؛ ۹۴۴۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے (بخاری:۲۰۹۱)۔اگر تمہیں وہ معلوم ہوجائے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ (بخاری: ۵۸۴۶؛ ۶۸۴۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں حصہ لیا کرتے اور گھر والوں کی خدمت کیا کرتے تھے (بخاری:۶۷۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے اسے چاندی کی زنجیروں سے جڑوالیا تھا (بخاری: ۹۰۱۳)۔
نبیؐ۔ حیا:
زمانہ جاہلیت میں کعبہ کی تعمیر نو کے موقع پر چچا حضرت عباس ؓ نے اپنے چھوٹے بھتیجے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے تہہ بند اتار کر کاندھے پر ڈالنے کو کہا تاکہ پتھر اٹھاتے ہوئے تکلیف نہ ہو۔ آپ ؐ ننگے ہوتے ہی بیہوش ہوکر زمین پر گرپڑے۔ پھر آپ ؐ نے تہبند لے کر اسے مضبوطی سے باندھ لیا (بخاری:۲۸۵۱)۔
نبیؐ۔ فرشتے:
حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک بار میں نے آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھا (بخاری:۴)رمضان کی ہر رات میں جبرئیل علیہ السلام مجھ سے ملاقات کرتے اور قرآن کا دورہ کرتے (بخاری:۶)۔اے عائشہ ؓ! میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔حضرت عائشہ ؓ نے سلام کے جواب میں فرمایا:: وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔اور فرمایا: آپ ﷺ وہ چیزیں بھی دیکھتے تھے جو ہم نہیں دیکھتے تھے(بخاری: ۷۱۲۳؛ ۱۰۲۶)۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات میں نبی کریم سے ملاقات کے لیے آتے اور آپ ؐ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے(بخاری: ۰۲۲۳)۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نماز کا طریقہ سکھانے کے لئے مجھے پانچوں وقت کی نماز پڑھائی (بخاری: ۱۲۲۳)۔جبرئیل علیہ السلام کہہ گئے ہیں کہ میری امت کا جو آدمی اس حالت میں مرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہاہوگا تو وہ جنت میں جائے گا۔وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا (بخاری: ۲۲۲۳)۔ زمین پر آنے والے کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے۔یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب یہ فرشتے اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو اللہ کو بتلاتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کے بندوں کو چھوڑا تو وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے ہاں گئے تو وہ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے (بخاری: ۳۲۲۳)۔حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں تصویروں والے نقشی تکیہ کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے۔ قیامت کے دن تصویر بنانے والے پر عذاب دیا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اپنی بنائی ہوئی تصویر کو زندہ کرکے دکھا (بخاری: ۴۲۲۳)۔ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے اور جاندار کی تصویر ہو (بخاری: ۵۲۲۳؛ تا ۷۲۲۳)۔ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہا کرو۔ جس کا ذکر ملائکہ کے ساتھ موافق ہوگیا، اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (بخاری: ۸۲۲۳)۔کوئی شخص نماز کی وجہ سے کہیں ٹھہرا رہے گا تو اس کا یہ سارا وقت نماز میں شمار ہوگا اور ملائکہ اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما اور اس پر اپنی رحمت نازل فرما (بخاری: ۹۲۲۳)۔مجھ پر سب سے سخت دن وہ تھا جب طائف کے سردار نے میری دعوت کو رَد کیا۔ میں انتہائی رنجیدہ ہوکر واپس ہوا تو بدلی کے ایک ٹکڑے میں حضرت جبرئیل کے ساتھ موجود پہاڑوں کے فرشتے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لاکر ملا دوں۔ مگر میں نے کہا کہ مجھے تو اس بات کی امید ہے اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو کسی کو شریک کئے بغیر اللہ کی عبادت کرے گی (بخاری: ۱۳۲۳)۔
نبیؐ۔ فرشتے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا تو ان کے چھہ سو بازو (پَر)تھے (بخاری:۲۳۲۳؛ ۶۵۸۴؛ ۷۵۸۴)۔ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات حضرت جبرئیل ؑکو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا کہ انہوں نے تمام آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا (بخاری: ۴۳۲۳؛ ۵۳۲۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت میکائیل اور جہنم کے داروغہ مالک نام کے فرشتہ سے ملوایا جو آگ جلا رہا تھا (بخاری: ۶۳۲۳)۔غار حرا میں حضرت جبرئیل کی طرف سے سورۃ اقراء پڑھائے جانے کے بعد تین سال تک مجھ پر وحی کا نزول بند رہا۔ پھر ایک دن میں نے جبرئیل علیہ السلام کو آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا دیکھا تو ڈر گیا اور گھر آکر کہنے لگا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو (بخاری: ۸۳۲۳)۔ فرمانِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا (بخاری: ۵۵۸۴)۔ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحیہ کلبی کی شکل میں آئے تو اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی وہاں موجود تھیں۔ وہ جبرئیل ؑ کے جانے تک انہیں وحیہ کلبی سمجھتی رہیں (بخاری:۰۸۹۴)۔حضرت جبرئیل و میکائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ سو ئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔(بخاری: ۱۸۲۷)۔جبرائیل علیہ السلام نے مجھے پکار کر کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی اور وہ بھی سن لیا جو انہوں نے آپ کو جواب دیا (بخاری: ۹۸۳۷)۔
نبیؐ۔ معجزات:
معجزہ: سفر کے دوران نماز عصر کے وضو کے لیے قافلہ کو پانی نہ ملا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن میں پانی لایا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں اپنا ہاتھ ڈال دیا آپ کی انگلیوں کی نیچے سے چشمے کی طرح پانی ابلنے لگا اور قافلے کے آخری آدمی نے بھی اسی برتن سے وضو کرلیا (بخاری:۹۶۱)۔ ایک مرتبہ وضو کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کے لیے پانی کا اتنا چھوٹا سا برتن لایا گیاکہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلاسکتے تھے۔ مگر اسی (۰۸) سے کچھ زیادہ افراد نے اسی برتن سے وضو کرلیا (بخاری۔۵۹۱)۔ایک سفر میں صحابی پانی کی تلاش میں تھے کہ انہوں نے ایک خاتون کو اونٹوں پر دو مشکیزے میں ایک دن کی مسافت سے پانی لاتے دیکھا۔ صحابہ کرام ؓ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے۔ آپ نے ایک برتن میں دونوں مشکیزوں کے منہ کھول دئے اور تمام لشکریوں میں اعلان کرا دیا کہ برتن سے خود بھی سیر ہوکر پانی پئیں اور اپنے جانوروں کو بھی پلائیں۔ایک صحابی نے اس پانی سے غسل بھی کیا۔ اس کے باوجود خاتون کے مشکیزوں میں پہلے سے زیادہ پانی موجود تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ اکٹھا کرکے خاتون کو دیا۔ خاتون نے گھر جاکر سب کو یہ ماجرہ سنایا۔ بعد ازاں یہ خاتون اور اس کے قبیلہ والے مسلمان ہوگئے۔(بخاری:۴۴۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ قحط سالی سے پریشان ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکر آپ ﷺسے بارش کی دعا کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور ابھی ہاتھ نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ گھٹا اُمڈ آئی اور بارش شروع ہوگئی جو متواتر اگلے جمعہ تک جاری رہی۔دوسرے جمعہ کو آپ ﷺ سے پھر بارش رکنے کی دعا کی گئی تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا (بخاری: ۲۳۹ تا ۳۳۹؛ ۳۱۰۱ تا ۱۲۰۱؛ ۹۲۰۱؛ ۳۳۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب آپ ؐ اپنے لیے بنائے گئے منبر پر بیٹھ گئے اور اس تنے سے ٹیک نہیں لگایا تو اس تنے سے دس ماہ کی گابھن اونٹنی جیسی رونے کی آواز سنائی دی۔ آپ ؐ منبر سے اتر کر اس پر اپناہاتھ رکھا تب وہ آواز بند ہوئی (بخاری: ۸۱۹)۔ حضرت جابر ؓ کے والد شہید ہوئے تو ان پر لوگوں کا تیس وسق قرض باقی تھا۔انہوں نے کچھ قرض معاف کرانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پراپنی عجوہ، عذق زید سمیت تمام قسم کی کھجوروں کا الگ الگ ڈھیر لگا دیا۔ نبی کریم ﷺ ان کھجوروں کے درمیان بیٹھ گئے۔ حضرت جابر ؓ ناپ ناپ کر قرض خواہوں کو ان کا پورا قرض ادا کردیا پھر بھی تیرہ یاسترہ وسق کھجوریں بچ گئیں (بخاری:۷۲۱۲؛ ۵۹۳۲؛ ۵۰۴۲؛ ۱۰۶۲؛ ۹۰۷۲؛ ۱۸۷۲)۔
نبیؐ۔ معجزات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے ایک سفر میں جابر ؓبن عبداللہ ایک سست اونٹ پر سوار تھے، جو پیچھے رہ جاتا تھا۔نبی کریم ﷺ نے ایک چھڑی سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا تو پھر وہ سب سے آگے رہنے لگا۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار دینار میں خرید لیا (بخاری:۹۰۳۲)۔ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سو تیس صحابی تھے۔ ایک صحابی کے پاس ایک صاع آٹا نکلا، جسے گوندھ لیا گیا۔ ایک مشرک بکریاں ہانکتا ہوا آیا تو اس سے ایک بکری خریدکر ذبح کرکے اسے پکایا اور سب نے سیر ہوکر کھایا۔ بکری کی کلیجی بھی ہر صحابی کو ملی اورقابوں میں بچا گوشت واپس بھی لایا گیا (بخاری:۸۱۶۲)۔ ایک سفر میں زاد راہ ختم ہونے لگا اور کچھ صحابہ نے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت طلب کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیدی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر اونٹ بھی ذبح کردئے تو پھر طویل مسافت کیسے طے کریں گے؟ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر سب نے اپنا بچا کھچا توشہ ایک جگہ لاکر جمع کیا۔ آپ ؐ نے اس میں برکت کی دعا کی پھر سب اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ آئے اور اس توشہ سے سب نے اپنے برتن بھر لئے۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں (بخاری:۲۸۹۲)۔ایک سفر میں پانی ختم ہوجانے پر پانی کی تلاش کے دوران ایک عورت پانی کے مشکوں سمیت سواری پر ملی تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان مشکیزوں کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ پھر قافلہ کے چالیس پیاسوں نے اپنی پیاس بجھائی اور اپنے تمام مشکیزے پانی سے بھر لیے اور اس عورت کے مشکیزوں میں پانی ذرا بھی کم نہ ہوا۔ پھر اس عورت کے لیے روٹی اور کھجوریں جمع کرکے دی گئیں۔ بعدازاں وہ عورت خود بھی اسلام لے آئی اور اس کے تمام قبیلے والے بھی مسلمان ہوگئے (بخاری: ۱۷۵۳)۔معجزہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب مقام زوراء میں تشریف رکھتے تھے۔عصر کی نماز کے وقت وضو کے لییپانی کی تلاش تھی۔ ایک برتن میں کچھ پانی نبی کریم ﷺ کے وضو کے لیے لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی فوارے کی طرح پھوٹنے لگا۔ اسی پانی سے تقریباََ تین سو(دوسری روایت اسّی) لوگوں کی پوری جماعت نے وضو کرلیا (بخاری: ۲۷۵۳ تا ۵۷۵۳؛ ۹۷۵۳)۔
نبیؐ۔ معجزات: صلح حدیبیہ کے دن حدیبیہ کنویں سے اتنا پانی نکالا گیا کہ کنویں میں ایک قطرہ بھی پانی نہ بچا۔ اطلاع ملنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی کی دعا کی اور اپنی کلی کا پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنواں پھر پانی سے بھر گیا اورہم چودہ سو افراد اس پانی سے خوب سیراب ہوئے اور ہمارے اونٹ بھی سیرآب ہوگئے(بخاری: ۷۷۵۳)۔معجزہ:ابو طلحہ ؓ نے اُم سلیم ؓ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آواز کے ضعف سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ اُم سلیم نے نبی کریم کو بلوا بھیجا تو آپ ﷺ اپنے تمام ساتھیوں سمیت پہنچ گئے تو ابو طلحہ ؓ پریشان ہوگئے۔ اُم سلیم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موجود چند روٹیوں کو چورا کردیا جس پر ام سلیم نے گھی ڈال کر سالن بنادیا۔آپﷺ نے دعا کی اور دس دس آدمیوں کا گروپ گھر کے اندر آتا گیا اور پیٹ بھر کر کھاتا گیا۔اس طرح کل ستّر یا اسّی لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔(بخاری: ۸۷۵۳)۔معجزہ: تھ ایک سفر میں جب پانی ختم ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ایک برتن میں بچا کھچا پانی آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا اور فرمایا: برکت والا پانی لے لو۔ صحابہ کرام ؓنے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا (بخاری: ۹۷۵۳)۔ معجزہ: حضرت جابرؓ کے والد قرض چھوڑ گئے اور ان کے پاس کھجوروں کی تھوڑی سی پیداوار کے سوا کچھ نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہی کھجوروں کے چاروں طرف چلے، دعا کی اور ان سے قرض واپس کرنے کو کہا۔ اللہ کے فضل سے سارا قرض بھی ادا ہوگیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں (بخاری: ۰۸۵۳)۔اہل صفہ محتاج اور غریب تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرا اہل صفہ میں سے لے جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچواں اور چھٹا ان میں سے لے جائے (بخاری: ۱۸۵۳)۔نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت ابوبکر ؓ کے گھر اصحاب صفہ کی مہمانی تھی۔ سب کھانا کھانے بیٹھے تو فرزند ابوبکر ؓ حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ بھی اٹھاتے تو جیسے نیچے سے اور کھانا زیادہ ہوجاتا۔ سب نے سیر ہوکر کھایا اور کھانا جوں کا توں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ پھر اسی کھانے میں سے اگلے روز لڑائی کے لیے تیار کردہ لشکر نے بھی کھایا (بخاری: ۱۸۵۳)۔ایک سال قحط کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا: یا رسول اللہ! بھوک سے ہمارے گھوڑے اور بکریاں ہلاک ہوگئیں ہیں۔ آپ اللہ سے بارش کے لیے دعا کیجئے۔آپ ﷺ کی دعا سے صاف شفاف آسمان بادلوں سے بھر گیا اور اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب کھڑے ہوئے اور بارش روکنے کی دعا کی درخواست کی تو نبی کریم ﷺ مسکرائے اور فرمایا: اے اللہ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔ چنانچہ برستا ہوا بادل مدینہ کے ارد گرد ہوگیا (بخاری: ۲۸۵۳)۔
نبیؐ۔ معجزات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے تنے کے پاس کھڑے ہوکرجمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب آپ اپنے لیے تیار کردہ نئے منبر پر خطبہ دینے تشریف لے گئے تو درخت کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ نبی کریم ﷺ منبر سے اتر کر تنے کو گلے لگایا تو وہ چپ ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تنا اس لیے رو رہا تھا وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب تر ہوتا تھا (بخاری: ۳۸۵۳ تا ۵۸۵۳)۔ معجزہ:کفار مکہ نے منیٰ کے میدان میں موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ ؐ نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے اس طرح دکھا دئے کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔ پھر آپؐ نے فر مایا: لوگو! اس پر گواہ رہنا (بخاری: ۶۳۶۳ تا ۸۳۶۳؛ ۸۶۸۳ تا ۱۷۸۳؛ ۴۶۸۴ تا ۸۶۸۴)۔ معجزہ: ابو طلحہ ؓ کی نبی کریمﷺ اور چند اصحاب کی دعوت۔ مگر نبی کریم ﷺ کے ساتھ اسّی ( ۸۰) اصحاب کی آمد اور سب کا سیر شکم ہوکر کھانا (بخاری: ۱۸۳۵)۔ معجزہ: رسول اللہ کے ساتھ ایک سو تیس صحابہ تھے مگر کھانے کو صرف ایک صاع آٹا۔ ایک چرواہے سے ایک بکری خرید کراس کی کلیجی بھونی گئی اورسب کے سب لوگوں نے کلیجی اور گوشت پیٹ بھر کر کھایا (بخاری:۲۸۳۵)۔ معجزہ: حضرت جابر ؓ کے قلیل کھجور سے یہودی کے بڑے قرض کی ادائیگی، رسول اللہ کی دعا کی برکت سے(بخاری: ۳۴۴۵)۔ معجزہ: اُم سلیم نے جو اور دودھ ملا کر خطیفتہ پکایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تو آپ نے اپنے ساتھ صحابہ کرامؓ کو بھی لے لیا۔ دس دس صحابہ کے گروپ نے گھر کے اندر آکر کھانا کھایا۔ چالیس صحابہ اور نبی کریم ﷺ کے کھانے کے باوجود کھانے میں سے کچھ کم نہیں ہوا (بخاری: ۰۵۴۵)۔ معجزہ: ایک مرتبہ سفر میں پانی ختم ہوگیا تو تھوڑا سا پانی ایک برتن میں رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ نبی کریم ﷺنے پانی میں اپنا ہاتھ ڈال کر اپنی انگلیاں پھیلا دیں تو انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:آؤ وضو کرلو! یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے۔ چنانچہ چودہ تا پندرہ سو (ڈیڑھ ہزار) اصحاب نے اس پانی سے وضو بھی کیا اور پیا بھی (بخاری: ۹۳۶۵)۔ معجزہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک سے پریشان حال حضرت ابو ہریرہ ؓ کو کچھ کھلانے پلانے کی خاطر اپنے گھر لے گئے توگھر میں صرف دودھ کا ایک پیالہ ملا۔ آپ ﷺ نے ابو ہریرہؓ کو تمام اصحاب صفہ کوبلا لانے کو کہا تو وہ پریشان ہوگئے کہ اس دودھ میں سب حصہ دار ہوگئے تو مجھے کیا ملے گا۔ لیکن رسول اللہﷺ کے حکم پر آپ تمام اصحاب صفہ کو بلالائے اور نبی کریم ﷺ کے حکم پر اسی پیالے میں سے تمام اصحاب صفہ نے سیر ہوکر دودھ پیا۔ آخر میں حضرت ابو ہریرہ نے بھی سیر ہوکر پی لیا تب رسول اللہﷺ نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا دودھ خود پی گئے (بخاری: ۲۵۴۶)۔ مجھے جوامع الکلم یعنی مختصر الفاظ میں کثیر معنی سمونے کے ساتھ بھیجا گیا ہے، میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی(بخاری: ۳۷۲۷)۔
نبیؐ۔ معراج:
مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی چھت کھول کر حضرت جبریل علیہ السلام گھر میں اُترے۔ نبی ﷺ کا سینہ چاک کرکے اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا تشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو نبی کے سینے میں رکھ کر سینے کو جوڑ دیا اور پھر نبی ﷺ کا ہاتھ پکڑ کرآسمان کی طرف لے چلے (بخاری:۹۴۳)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کو حکمت و ایمان سے بھر کر حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺکوآسمان کی طرف لے گئے تو پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپ کے دائیں طرف آپ کے بیٹوں کی جنتی اور بائیں طرف دوزخی روحوں کے جھنڈ تھے جنہیں وہ باری باری دیکھ کر خوشی سے مُسکراتے اور رنج سے روتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر حضرت ادریس، حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔(بخاری:۹۴۳)۔ پھر جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر اس بلند مقام تک چڑھے جہاں میں نے فرشتوں کے لکھنے والے قلموں کی آوازیں سنیں۔ پھر اللہ نے میری اُمت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصرار پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار بارگاہ الٰہی میں پہنچ کر ان نمازوں میں تخفیف کراتے رہے حتیٰ کہ جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں عمل میں تو پانچ ہیں مگر ثواب میں پچاس کے برابر ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے۔ پھر آپ کو جنت میں لے جایا گیا۔ (بخاری:۹۴۳)۔مکہ میں میرے گھر کی چھت کھلی اور جبرئیل علیہ ولسلام نازل ہوئے۔انہوں نے میرا سینہ چاک کرکے اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔پھر وہ ایک سونے کا تشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال کر سینہ بند کردیا۔ پھر مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چلے اور آسمان ِ دنیا کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو میں جبرئیل ہوں۔ (بخاری: ۶۳۶۱)۔
نبیؐ۔ معراج: میں بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک تشت لایا گیا۔ میرے سینے کو چاک کرکے اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا پھر اسے حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام براق سواری پر مجھے آسمان دنیا پر لے گئے جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے جہاں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ تیسرے آسمان پر یوسف علیہ السلام سے، چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان پر ہارون علیہ السلام سے، چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھلایا گیا جس میں روزانہ ستّر ہزار فرشتے روزانی نماز پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے پھل مقام ہجر کے مٹکے جیسے اور پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ اس کی جڑ سے نکلنے والی دو باطنی نہریں جنت میں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔یہاں مجھ پر یومیہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے اصرار پر میں نے نماز کی تخفیف کی بارگاہ الہٰی میں درخواستیں پیش کیں تو پہلے چالیس، پھر تیس، پھر دس اور آخر میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں، جن کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہے (بخاری: ۷۰۲۳؛ ۲۴۳۳؛ ۷۸۸۳)۔شبِ معراج میں گندمی رنگ، لمبا قد، گھونگھریالے بال والے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تھا۔عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ: درمیانہ قد، میانہ جسم، رنگ سرخی اور سفیدی لیے ہوئے، سر کے بال سیدھے تھے۔ میں نے دجال کو بھی دیکھا اور جہنم کے داروغہ کو بھی (بخاری: ۸۳۲۳)۔
نبیؐ۔ معراج: معراج میں پانچویں آسمان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی(بخاری: ۳۹۳۳)۔ میرے سامنے دودھ اور شراب کے دو پیالے لائے گئے کہ جو جی چاہے پیجئے۔ میں دودھ کا پیالہ پی گیا تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (بخاری: ۴۹۳۳؛ ۷۳۴۳)۔ دوسرے آسمان پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی۔ یہ دونوں نبی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں (بخاری: ۰۳۴۳)۔ جب قریش نے واقعہ معراج کے سلسلہ میں مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوگیا اور اللہ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کردیا اورمیں اسے دیکھ کر اس کے پتے اور نشانات قریش کو بیان کرنا شروع کرئے (بخاری:۶۸۸۳؛ ۰۱۷۴)۔معراج کی رات بیت المقدس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب اور دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھالیتے تو آپ کی اُمت گمراہ ہوجاتی (بخاری:۹۰۷۴)۔ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر کی نہردکھلائی گئی جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے (بخاری:۴۶۹۴ تا ۶۶۹۴)۔ معراج کی شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ سے چار نہریں نکلتی دیکھیں۔ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں جبکہ دو باطنی نہریں جنت کی ہیں (بخاری: ۰۱۶۵؛ ۷۱۵۷)۔ فرمانِ حضرت عائشہؓ: جو یہ کہے کہ محمد ﷺ نے (معراج میں) اپنے رب کو دیکھا یا نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو وہ غلط کہتا ہے (بخاری: ۰۸۳۷)۔
نبیؐ۔ نکاح:
غزوہ خیبر کی فتح کے بعد قریضہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کے اپنے نکاح میں لیا تواُن کی آزادی ہی اُن کا مہر ٹھہرا۔پھر نبی ﷺ نے دسترخوان بچھا کر فرمایا: جس کے پاس بھی کھانے کی چیز ہو تو لے آئے۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی اور ستو وغیرہ۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ (بخاری:۱۷۳؛ ۷۸۳۵؛۹۶۱۵؛ ۵۸۰۵؛ ۹۵۱۵؛ ۶۸۰۵)۔فتح خیبر کے بعد قیدیوں میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے رحیہ کلبی ؓ کے حصہ میں آئیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ آپؐ نے اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ سے خلوت کے بعد سفر میں ہی مختصر ولیمہ بھی کیا تھا (بخاری:۸۲۲۲؛ ۵۳۲۲)۔جب حضرت حفصہ بنت عمر ؓ کے شوہر اور بدری صحابی خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات ہوگئی تو حضرت عمر ؓ نے پہلے حضرت عثمان اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہم سے حفصہؓ کے نکاح کی بات کی تو دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ ؓ کا پیغام بھیجا تو حضرت عمر ؓنے ان کا نکاح آپ ﷺ سے کردیا (بخاری:۵۰۰۴؛ ۲۲۱۵؛ ۹۲۱۵؛ ۵۴۱۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء عمرہ کے دوران احرام کی حالت میں اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ سے نکاح کیا تھا۔ جب ان سے خلوت کی تو آپ احرام کھول چکے تھے (بخاری: ۸۵۲۴؛۴۱۱۵؛۹۵۲۴)۔ اے عائشہؓ! مجھے خواب میں تم دو مرتبہ دکھائی گئیں اور حضرت جبرئیل ؑ نے بتلایا کہ یہ آپ کی بیوی ہے (بخاری: ۸۷۰۵؛۵۲۱۵)۔
نبیؐ۔ نکاح: فرمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: نبی کریم صلی اللہ نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر چھ سال تھی۔ رخصتی کے وقت میری عمر نو برس کی تھی اور میں نو برس تک نبی کریم ﷺ کے پاس رہی (بخاری: ۳۳۱۵؛ ۴۳۱۵؛ ۸۵۱۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ سے نکاح کیا تو اس خوشی کے موقع پر اُم سلیم نے کھجور، پنیر اور گھی سے ملا کر حلوہ تیار کیا اور اپنے بیٹے حضرت انس ؓ کے ہاتھ رسول اللہ کے گھر بھجوایا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت انسؓ سے کہلواکر بہت سے لوگوں کو مدعو کرلیا حتی کہ سارا گھر لوگوں سے بھر گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھا، برکت کی دعا فرمائی اور دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کردیا حتیٰ کہ سب لوگ کھا کر چلے گئے (بخاری: ۳۶۱۵)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا جیسا ولیمہ اپنی بیویوں میں سے کسی کا نہیں کیا۔ ان کا ولیمہ آپ نے ایک بکری کا کیا تھا (بخاری: ۸۶۱۵؛ ۱۷۱۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ دو مد (تقریباََ پونے دو کلوگرام) جَو سے کیا تھا (بخاری: ۲۷۱۵)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا۔ جب وہ نبی کریم ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس نے نبی کریم ﷺ کو ناپسند کرتے ہوئے کہا: میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے گھر بھجوادیا (بخاری: ۴۵۲۵ تا ۷۵۲۵)۔
نبیؐ۔ نماز:
مکہ میں ابتدائی دور اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی آپ کی پیٹھ پر ڈال دی۔ بی بی فاطمہ ؓ نے آکر اسے ہٹایا (بخاری: ۵۸۱۳؛ ۴۵۸۳)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر نماز میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ نے تو آپ کی ساری خطائیں معاف کردی ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (بخاری: ۶۳۸۴؛ ۷۳۸۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دن چڑھے سفر سے واپس ہوتے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرتے (بخاری:۷۸۰۳ تا ۰۹۰۳)۔
نبیؐ۔ وراثت باغ فدک:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ ؓ نے اپنے والد کے خیبر، فدک اور مدینے کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ کیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ نے اپنی حیات میں فرمایا تھا کہ انبیاء کا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد چھ ماہ تک حیات رہیں (بخاری:۲۹۰۳؛ ۳۹۰۳؛۱ا۷۳؛ ۲۱۷۳؛۵۳۰۴؛ ۶۳۰۴؛۰۴۲۴؛ ۱۴۲۴)۔ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت عباس ؓخلیفہ اول حضرت ابوبکر ؓ کے پاس نبی کی طرف سے اپنی میراث میں فدک کی زمین اور خیبر میں اپنا اپنا حصہ طلب کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہہ کر ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا (انبیاء کا)کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے۔ لیکن آلِ محمد ﷺکا خرچ اسی مال میں سے پورا کیا جائے گا۔ اس بات پر فاطمہؓ خلیفہ ابوبکرؓ سے خفا ہوگئیں تھیں۔ (بخاری: ۵۲۷۶؛ ۶۲۷۶)۔ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم انبیاء چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔۔۔ بطور خلیفہ حضرت عمر ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی تصدیق حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ سے کروائی اور مزید وضاحت کے لیے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کردیا تھا جسے نبی کریم ﷺمسلمانوں کے کاموں میں اور جہاد کے سامان فراہم کرنے میں خرچ کرتے اوراسی میں سے اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ بھی لیا کرتے۔رسول اللہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اور اُن کے بعد میں نے بطور خلیفہ اس جائیداد کواپنی تحویل میں رکھا اور اس کی آمدنی جن مصارف پر رسول اللہ پر خرچ کیا کرتے تھے، ہم دونوں ویسا ہی کرتے رہے۔پھر آپ دونوں (حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ) میرے پاس تشریف لائے اور والد کی میراث میں اپنی بیوی (حضرت فاطمہؓ) اور اپنے بھتیجے کی میراث میں اپنا حصہ طلب کیا۔لیکن چونکہ نبی کی میراث تقسیم نہیں ہوتی اس لئے میں نے اسے تقسیم نہیں کیا بلکہ آپ دونوں کو اس جائیداد کا نگراں اس شرط کے قبول کرنے پر بنایا کہ آپ دونوں اس کی آمدنی انہی مصارف پر خرچ کریں گے، جن پر نبی کریم ﷺ، خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور میں (حضرت عمر ؓ) دو سال تک عمل کرتا رہا(بخاری:۴۹۰۳)۔ میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں۔ میں جو چھوڑ جاؤں، اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہیں اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے (بخاری:۶۹۰۳)۔
نبیؐ۔ وراثت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ابوبکرؓ کے پاس بھیجا کہ اللہ نے جو فئے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، اس میں سے ان کے حصے دئے جائیں تو حضرت عائشہ ؓ نے انہیں روکا اور کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتیں کہ آپ ؐ نے خود فرمایا تھا کہ انبیاء کا صدقہ تقسیم نہیں ہوتا؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے (بخاری: ۴۳۰۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے بعد اپنے سفید خچر، ہتھیار اورپہلے سے خیرات کردہ زمین کے علاوہ کوئی مال نہیں چھوڑا (بخاری:۳۷۸۲: ۲۱۹۲؛۸۹۰۳)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ درہم چھوڑے تھے، نہ دینا، نہ کوئی غلام نہ باندی ماسوائے اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور وہ زمین جو مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کررکھی تھی (بخاری:۱۶۴۴)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس (۰۳) صاع جَو کے بدلہ میں گروی رکھی ہوئی تھی (بخاری:۷۶۴۴)۔ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے (بخاری: ۶۲۷۶؛ ۷۲۷۶)۔میرا ورثہ دینار کی شکل میں تقسیم نہیں ہوگا۔ میں نے اپنی بیویوں کے خرچہ اور اپنے عاملوں کی اجرت کے بعد جو کچھ چھوڑا ہے، وہ سب صدقہ ہے (بخاری: ۹۲۷۶)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے نبی ﷺکی میراث میں اپنا حصہ طلب کرنا چاہا تو حضرت عائشہ ؓ نے انہیں یاد دلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، وہ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے (بخاری: ۰۳۷۶)
نبیؐ۔ وصیت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین باتوں کی وصیت: ہر مہینہ تین دن روزہ رکھنا، چاشت کی نماز پڑھنا اور وتر پڑھ کر سونا (بخاری:۸۷۱۱)۔ تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ جب تک دل لگے نماز پڑھے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے (بخاری:۰۵۱۱؛ ۱۵۱۱)۔ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے نفلی روزہ کبھی رکھو، کبھی نہ رکھو۔ رات نفلی عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ (بخاری:۳۵۱۱)۔ بوقت وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر نکالنے اور بیرونی وفود کی خاطر داری کرنے کی وصیت کی تھی۔مغیرہ بن عبد الرحمن کے بقول مکہ، مدینہ، یمامہ اور یمن کا نام جزیرہ عرب ہے (بخاری:۳۵۰۳)۔جمعرات کے دن اپنے مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور بیرونی وفود کے ساتھ میرے طریقے کے مطابق خاطر تواضع کرنا (بخاری:۸۶۱۳؛۱۳۴۴)۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں۔ لیکن میں اگر نفلی روزے بھی رکھتا ہوں تو روزے کا ناغہ بھی کرتا ہوں۔ رات میں نفلی نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی، وہ مجھ میں سے نہیں ہے(بخاری: ۳۶۰۵)۔
نبیؐ۔ وفات:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں بیمار ہوئے تو اپنی دیگر بیویوں سے اجازت لے کر آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں بسر کیا (بخاری:۵۶۶؛ ۸۸۵۲؛۹۹۰۳)۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یمنی چادر سے ڈھکی میت کا چہرہ کھولا، جھک کر بوسہ لیا اور رونے لگے (بخاری: ۱۴۲۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ:اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے۔ اورجو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ باقی رہنے والا ہے(بخاری:۱۴۲۱؛۲۴۲۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ میں اس طرح ہوئی کہ آپ ؐ اُم المومنین کے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے (بخاری:۹۸۳۱)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لوہے کی زرہ تیس صاع جو کے بدلہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی (بخاری:۶۱۹۲)۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کی وفات کے بعدمیرے گھر میں آدھے وسق جو کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اسی میں سے بہت دن تک کھاتی رہی۔ پھر میں نے اس میں سے ناپ کر نکالنا شروع کیا تو وہ جلدختم ہوگئے (بخاری:۷۹۰۳؛ ۱۵۴۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے کچھ دیر قبل بھی مسواک کیا تھا، جسے حضرت عائشہ ؓ نے چبا کر دیا تھا (بخاری: ۰۰۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت ایک پیوند لگی چادر پہنے ہوئے تھے (بخاری: ۸۰۱۳)۔
شدت مرض کے دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: یہود و نصاریٰ اللہ کی رحمت سے دور ہوئے۔اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا(بخاری: ۳۵۴۳؛ ۴۵۴۳؛۱۴۴۴؛ ۳۴۴۴؛ ۴۴۴۴؛۵۱ ۸۵؛ ۶۱۸۵)۔ مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ اسی مرض میں میری وفات ہوجائے گی تو وہ رونے لگیں۔ دوسری مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر والوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے آن ملوگی تو وہ ہنسنے لگیں (بخاری:۳۳۴۴)۔جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی۔ پھر اسے دنیا یا آخرت کی زندگی کا اختیار دیا گیا (بخاری:۷۳۴۴؛ ۶۸۵۴؛۸۴۳۶؛۹۰۵۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذ تین (آخری دو سورتیں الفلق اور الناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے (بخاری:۹۳۴۴)۔ وفات سے کچھ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا (بخاری:۰۴۴۴)۔ کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا(بخاری:)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کو بوسہ دیا(بخاری:۵۵۴۴ تا ۷۵۴۴؛ ۹۰۷۵ تا ۱۱۷۵)۔مرض الموت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: حضرت ابوبکرؓ رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو شاید نہ سنا سکیں،اس لئے آپ حضرت عمرؓ کو حکم دیجئے۔ مگر نبی کریم ﷺ نے بار بار یہی کہا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (بخاری: ۳۰۳۷)۔
نبیؐ۔ وحی:
نبوت ملنے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہوگئے تھے۔ آپ توشہ ساتھ لے جاتے اور غار حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزارتے۔ اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام سورۃ العلق کی ابتدائی آیات لے کر آئے کہ پڑھئے اپنے رب کے نام سے، جس نے سب کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ پڑھئے کہ آپ کا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے (بخاری:۳۵۹۴؛ ۵۵۹۴؛ ۶۵۹۴)۔ مجھ پر وحی کا ابتدائی دور اچھے وسچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔مجھ پر وحی کبھی فرشتہ کے ذریعہ آتی ہے تو وہ گھنٹی بجنے کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے۔ جب وحی ختم ہوجاتی ہے تو جو کچھ فرشتے نے نازل کیا ہوتا ہے، میں اسے پوری طرح یاد کرچکا ہوتا ہوں۔ کبھی فرشتہ ایک مرد کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے، میں اسے یاد کرلیتا ہوں (بخاری:۲؛۳؛۵۱۲۳)۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ اسے یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو جلدی جلدی ہلایا کرتے تھے۔ اس پر اللہ نے سورۃ القیامہ کی آیات: (۷۱۔۶۱) نازل کیں کہ آپ قرآن کو جلدی یاد کرلینے کی نیت سے زبان نہ ہلایا کریں۔ اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوادینا ہر دو کام ہمارے ذمہ ہے (بخاری:۷۲۹۴ تا ۹۲۹۴)۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ فرماتی ہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا تھا،تو وہ جھوٹا ہے (بخاری:۲۱۶۴؛۱۳۵۷)۔ فرمانِ خلیفہ رسول حضرت عمرؓ : رسول اللہ کے زمانہ میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہوجاتا تھا۔ اب وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔اب ہم لوگوں کا صرف ظاہری اعمال سے مواخذہ ہوگا۔ باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا۔ باطن کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا (بخاری:۱۴۶۲)۔
نجومی، کاہن:
فرشتے بادلوں میں اترتے ہیں اور ان کاموں کا ذکر کرتے ہیں جن کا فیصلہ آسمان میں ہوچکا ہوتا ہے۔ یہیں سے شیاطین کچھ باتیں چوری چھپے اڑالیتے ہیں اور کاہنوں کو اس کی خبر کردیتے ہیں۔ پھر یہ کاہن سو جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر اسے بیان کرتے ہیں (بخاری: ۰۱۲۳)۔ جب اللہ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے آپس میں پوچھتے ہیں کہ رب نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا ہے۔شیطان ان کی گفتگو کا کوئی کلمہ چوری چھپے سن کر زمین پر ساحر یا کاہن تک پہنچا دیتے ہیں۔ (بخاری:۰۰۸۴)۔ کاہنوں کی پیشنگوئیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ البتہ جن فرشتوں سے کچھ باتیں سن کر اڑالیتا ہے پھر اسے اپنے والی کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے۔ یہ اس میں سو جھوٹ ملاتے ہیں (بخاری: ۳۱۲۶؛۱۶۵۷)۔
نحوست:
چھوت لگنا، بد شگونی، الو اور ماہِ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے (بخاری: ۷۵۷۵؛ ۰۷۷۵)۔ اگر نحوست ہوتی توصرف تین چیزوں عورت، گھر اور گھوڑے میں ہوتی (بخاری:۹۵۸۲؛ ۳۹۰۵ تا ۵۹۰۵؛۳۵۷۵ تا ۶۵۷۵؛ ۲۷۷۵)۔
نکاح۔ ازدواجیات:
مکہ کے قریش اپنی بیویوں پر غالب رہا کرتے تھے جبکہ مدینہ کی عورتیں اپنے شوہروں پر غالب تھیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مہاجرین مکہ کی عورتوں نے بھی اپنے شوہروں کو جواب دینا شروع کردیا۔ ایک دن حضرت عمر ؓ نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ حضرت عمرؓ کے ناراض ہونے پر کہنے لگیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں (بخاری:۸۶۴۲)۔ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی شادی کے اگلے روز ان کے گھر چند بچیاں دف بجاتے ہوئے غزوہ بدر سے متعلقہ اشعار پڑھ رہی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آئے ہوئے تھے۔ جب بچیوں نے یہ پڑھا کہ ہم میں نبی موجود ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے ایسا پڑھنے سے منع فرمادیا (بخاری:۱۰۰۴)۔عرب عورتوں میں بہترین عورت قریش کی صالح عورت ہوتی ہے جو اپنے بچے سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور شوہر کے مال و اسباب میں اس کی عمدہ نگہبان ثابت ہوتی ہیں (بخاری: ۲۸۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا کہ نکاح کرلو خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی پر ہی ہو (بخاری: ۰۵۱۵)۔تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔ یعنی نکاح کی شرطیں پوری کرنی ضروری ہیں (بخاری: ۱۵۱۵)۔ جب کوئی ہم بستری کے لیے اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے: باسم اللہ اللھم جنبنی الشیطان، و جنب الشیطان ما رزقنا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور شیطان کو اس چیز سے بھی دور رکھ جو (اولاد) ہمیں تو عطا کرے (بخاری: ۵۶۱۵)۔
نکاح۔ ممنوعہ معاملات:ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ عورت کی عدت کے دوران براہ راست نکاح کا پیغام نہیں دینا چاہئے البتہ اشارہ کنایہ میں اپنی دلچسپی ظاہر کی جاسکتی ہے۔البتہ اگر عورت نے عدت کے دوران کسی مرد سے نکاح کا وعدہ کرلیا اور بعد میں اسی سے نکاح کرلیا تو دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی (بخاری: ۴۲۱۵)۔ کسی بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجو یہاں تک کہ پیغام بھیجنے والا اپنا ارادہ بدل دے یا اسے بھی پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت دے دے (بخاری: ۰۴۱۲؛ ۳۲۷۲؛ ۲۴۱۵؛ ۴۴۱۵)۔کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنی کسی سوکن بہن کی طلاق کی شرط اس لیے لگائے تاکہ اس کے حصہ کا پیالہ بھی خود انڈیل لے۔ اسے وہی ملے گا جو اس کے مقدر میں ہوگا (بخاری: ۰۴۱۲؛۲۵۱۵)۔رفاعہ قرظی کی مطلقہ نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ ان کا تو عضو خاص کپڑے کی طرح ہے (وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں)۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم رفاعہ سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہو تو یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تو عبد الرحمٰنؓ کا اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے(بخاری:۹۳۶۲)۔
نکاح۔ لعان: ایک شخص نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی سے لعان والی قسم کھلوائی اور دونوں میں جدائی کرادی (بخاری: ۶۰۳۵؛ ۳۱۳۵؛ ۴۱۳۵)۔ لعان کرنے والے میاں بیوی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم دونوں میں سے ایک تو یقیناََ جھوٹا ہے۔لہٰذا اب تم دونوں کا حساب اللہ کے پاس ہوگا۔ پھر دونوں میں جدائی کرادی (بخاری: ۲۱۳۵؛ ۹۴۳۵؛ ۰۵۳۵)۔
نکاح۔ رضاعی رشتے: اگر نکاح کے بعد یہ تصدیق ہوجائے کہ دُلہا دُلہن، رضاعی بھائی بہن ہیں یعنی دونوں نے کسی ایک ہی عورت کا(شیر خوارگی کی عمر کے اندر کم از کم پانچ بار) دودھ پیا ہوا ہے تو دونوں کو ایک دوسرے سے جدا ہوجانا چاہئے۔ (بخاری:۵۸)۔ رضاعت وہی معتبر ہے، جو کمسنی میں ہو (بخاری:۷۴۶۲)۔عقبہ بن حارثؓ نے اُم یحیٰ بنت ابواہاب بن عزیز سے شادی کی تو ایک باندی خاتون آکر کہنے لگیں کہ میں نے عقبہ اور اس کی بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے کہا کہ مجھے تو نہیں معلوم کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے۔ پھرابو اہاب کے خاندان نے بھی اس بات سے لاعلمی ظاہر کی تو عقبہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پوچھنے آئے تو آپ ؐنے میاں بیوی میں جدائی کرادی(بخاری:۲۵۰۲؛ ۰۴۶۲؛ ۹۵۶۲؛ ۰۶۶۲)۔پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعدحضرت افلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عائشہؓ کے گھر آنے کی اجازت نہ ملی تو حضرت افلح ؓ نے کہا کہ آپ کا مجھ سے پردہ نہیں ہے۔میں آپ کا رضاعی چچا ہوں کیونکہ میرے بھائی کی بیوی نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: افلح نے سچ کہا ہے۔ انہیں گھر کے اندر آنے دیا کرو (بخاری:۴۴۶۲؛۹۳۲۵)۔جو رشتے نکاح کے لیے نسب کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں، وہی دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں (بخاری:۵۴۶۲؛ ۶۴۶۲)۔ اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے رضاعی چچاکی طرف سے حجرہ حفصہ ؓ میں آنے کی اجازت مانگنے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اعتراض نہیں کیا (بخاری: ۵۰۱۳)۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رضاعت سے بھی نکاح اسی طرح حرام ہوجاتا ہے، جس طرح نسب کی وجہ سے ہوتا ہے (بخاری:۶۹۷۴)۔جیسے خون ملنے سے حرمت ہوتی ہے ویسے ہی دودھ پینے سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے (بخاری: ۹۹۰۵؛ ۱۱۱۵)۔
نکاح۔ حرمت رشتے: ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی اور اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو بھی اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی۔ تاہم ساس سے زنا والا معاملہ اختلافی مسئلہ ہے۔امام ابوحنیفہ اور دیگر کا قول ہے کہ ساس سے زنا کی صورت میں بیوی حرام ہوجائے گی(بخاری: ۵۰۱۵)۔کسی ایسی عورت سے نکاح نہ کرو جس کی پھوپھی یا خالہ تمہارے نکاح میں ہو (بخاری: ۸۰۱۵ تا ۰۱۱۵)۔خالہ ماں کے درجہ میں ہوتی ہے (بخاری:۱۵۲۴)۔
نکاح۔ متعہ، شغار: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے زمانہ میں نکاح متعہ اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع کردیا تھا (بخاری: ۵۱۱۵؛۳۲۵۵)۔ نکاح شغار منع ہے یعنی اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ دوسرا اپنی بیٹی یا بہن اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہرے (بخاری: ۲۱۱۵؛ ۰۶۹۶)۔
نکاح۔ بچہ تنازعہ:
ایک صاحب نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ عورت کا حمل میرا نہیں ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فرمان کے مطابق لعان کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دونوں میاں بیوی میں جدائی کرواکرفیصلہ دیا کہ بچہ عورت ہی کا ہوگا (بخاری:۸۴۷۴؛ ۸۴۷۶؛۵۱۳۵)۔سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ ؓ نے آپس میں ایک بچے کی ولدیت (ملکیت) کے بارے میں اختلاف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ اسی کو ملے گا جس کی بیوی یا لونڈی کے پیٹ سے وہ پیدا ہوا ہو (بخاری: ۷۱۸۶؛ ۸۱۸۶؛ ۳۰۳۴)۔ایک باندی کے لڑکے کی ملکیت کے تنازعہ کے مقدمے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ: قانوناََ بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو اور جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو (بخاری:۳۵۰۲؛ ۸۱۲۲)۔
نکاح۔ عورت،مرضی:
بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے اور کنواری کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی رضامندی نہ لے لی جائے۔ اور کنواری کی خاموشی بھی اس کی رضامندی سمجھی جائے گی (بخاری: ۶۳۱۵؛ ۷۳۱۵)۔خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا ہے جو انہیں منظور نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ کردیا (بخاری: ۸۳۱۵؛ ۹۳۱۵)۔بیوہ ہوجانے والی خنسا بنت خذامؓ کی شادی ان کے والد نے ایک ایسے شخص سے کرادی جسے آپ نے نا پسند کیا اور اپنی ناپسندیدگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی تو آپ ؐ نے اس نکاح کو فسخ کرادیا (بخاری:۵۴۹۶)۔حضرت عائشہ ؓ: کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی؟ کنواری لڑکی سے اجازت کیسے لی جائے گی۔ وہ تو شرم کی وجہ سے چپ سادھ لے گی۔ نبی کریم ﷺ: عورتوں سے بھی اجازت لی جائے گی اورکنواری لڑکی کی خاموشی ہی اجازت ہے (بخاری: ۶۴۹۶)۔
نکاح۔ حقوق معاف: اگر کوئی اپنی بیوی کو جدا کرنا چاہتا ہے تو بیوی اپنا حق معاف کرکے بھی شوہرکے ساتھ رہ سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ النساء کی آیت۔۸۲۱ اسی بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری:۰۵۴۲؛ ۴۹۶۲)۔
نکاح۔ زوجین:
جو اپنی بیوی سے بوقتِ صحبت یہ دعا پڑھے: بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقنا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ (اولاد)ہمیں تو دے، اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔پھر اس صحبت سے اگر کوئی بچہ پیدا ہوا تو شیطان اسے نہ کوئی نقصان پہنچا سکے گا اور نہ اس پر تسلط قائم کرسکے گا (بخاری: ۱۴۱؛۱۷۲۳؛ ۳۸۲۳؛۸۸۳۶)۔ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور اس نے آنے سے انکار کردیا اور مرد غصہ ہوکر سو گیا تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں (بخاری: ۷۳۲۳)۔نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا (بخاری: ۵۶۰۵)۔جو نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا (بخاری: ۶۶۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی نو (۹) بیویاں تھیں (بخاری: ۷۶۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ہی رات میں نو (۹) بیویوں کے پاس گئے (بخاری: ۸۶۰۵؛ ۵۱۲۵)۔ ابن عباس ؓ نے سعید بن جبیر ؓ سے فرمایا: شادی کرلو کیونکہ اس اُمت کے جو بہترین شخص تھے ان کی بہت سی بیویاں تھیں (بخاری: ۹۶۰۵)۔عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے۔ مال، خاندان، خوبصورتی اور دین۔تم دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو (بخاری: ۰۹۰۵)۔ میں نے اپنے بعد مَردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ (آزمائش) نہیں چھوڑا (بخاری: ۶۹۰۵)۔ نکاح کی وہ شرطیں پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔ (بخاری:۱۲۷۲)۔
نکاح۔تجرد، خصی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے الگ رہنے کی زندگی سے منع فرمایا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہی ہوجاتے (بخاری: ۳۷۰۵؛ ۴۷۰۵)۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کرلیں؟ آپ ﷺ نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ (بخاری: ۱۷۰۵؛ ۵۷۰۵
)۔
نکاح۔ ایلاء:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی باتوں سے خفا ہوئے توایک ماہ تک ایلاء کرنے یعنی اُن سے نہ ملنے کی قسم کھا لی۔ (ایلاء کا قرآنی حکم آیت البقرہ۔۶۲۲ میں موجود ہے) اُمہات المومنین کے انہی رویوں کا تذکرہ اللہ نے سورت تحریم کی ابتدائی پانچ آیات اور سورت الاحزاب کی آیات نمبر ۸۲ تا ۳۳ میں کیا ہے۔ (بخاری:۸۶۴۲؛ ۹۶۴۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایک مہینہ جدا رہنے کی قسم کھائی یعنی ایلا کیا۔ لیکن انتیس دن پورے ہونے پر ہی ان کے پاس چلے گئے۔ کسی زوجہ نے کہا کہ آپ ؐ نے تو ایک مہینہ کی بات کی تھی تو آپ ؐ نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا بھی تو ہوتا ہے (بخاری:۰۱۹۱؛ ۱۱۹۱)۔ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایلاء کے بعد چار مہینے گزر جائیں تو قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ طلاق دیدے یا پھر وہ قاعدہ کے مطابق بیوی کو اپنے پاس روک لے۔طلاق اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک طلاق نہ دی جائے (بخاری: ۰۹۲۵؛ ۱۹۲۵)۔
نکاح۔ صحابہؓ:
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استفسار: تم نے ایک بیوہ سے شادی کیوں کی؟ کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ انہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے اور میری نو (۹) بہنیں ہیں۔ چنانچہ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے ایک بیوہ اور تجربہ کار خاتون سے شادی کی تو آپ ؐ نے فرمایا: پھر ٹھیک ہے (بخاری: ۷۹۰۲؛ ۹۰۳۲؛ ۶۰۴۲؛ ۲۵۰۴)۔
نکاح۔ طلاق، عدت:
کوئی شخص کسی عورت کو دوسرے کے پیغام نکاح ہوتے ہوئے اپنا پیغام نہ بھیجے (بخاری:۰۴۱۲)۔ کوئی عورت اپنی کسی دینی بہن (سوکن) کو طلاق نہ دلوائے کہ اس کا حصہ بھی خود حاصل کرلے (بخاری:۰۴۱۲)۔ اپنی بیویوں کو حیض کی حالت میں طلاق نہ دو۔ جب وہ حیض سے پاک ہوجائے تو حالت طہر میں ان کے ساتھ ہمبستری کرنے سے پہلے طلاق دے سکتے ہو (بخاری:۸۰۹۴)۔حاملہ بیوہ کی عدت کی مدت وضع حمل ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد وہ نیا نکاح کرسکتی ہے (بخاری:۹۰۹۴؛ ۰۱۹۴)۔عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی آمنہ بنت غفار کو حالت حیض میں طلاق دیدی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی بیوی سے رجوع کرکے اپنے نکاح میں باقی رکھو پھر جب حیض بند ہوجائے پھر حیض آئے اور پھر بند ہوجائے تب اگر چاہو تو اپنی بیوی کو طلاق دیدو۔ لیکن طلاق اس طہر میں ہم بستری سے پہلے ہو، جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس حیض میں دی گئی طلاق شمار ہوگی (بخاری: ۱۵۲۵ تا ۳۵۲۵؛ ۸۵۲۵)۔ رفاعہ قرضیؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو انہوں نے پھر عبدالرحمن بن زبیر قرضی ؓسے نکاح کرلیا۔ یہ دوسرا شوہر نامرد نکلا تو خاتون نے نبی کریم ﷺ سے یہ معاملہ بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنے پہلے شوہر رفاعہ قرضیؓ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو تو ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا (یعنی مجامعت مع دخول)نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزاہ نہ چکھ لے (بخاری: ۰۶۲۵؛۱۶ ۲۵؛ ۵۶۲۵؛ ۷۱۳۵)۔شوہر بیوی کو طلاق کا اختیار دے لیکن بیوی شوہر کو پسند کرلے تو ایسے اختیار سے طلاق نہیں ہوتی (بخاری: ۳۶۲۵)۔ ایک یا دوبار طلاق کے بعد شوہر (عدت کے اندر) رجوع کرسکتا ہے۔ لیکن تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع نہیں کرسکتا(بخاری: ۴۶۲۵)۔ثابت بن قیسؓ کی بیوی نے بارگاہ رسالت میں آکر کہا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین و اخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی یعنی ان کے حقوق ادا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ اس خاتون نے مہر میں ملا ہوا باغ واپس کردیا اور ثابت بن قیسؓ نے انہیں طلاق دے دیا (بخاری: ۳۷۲۵ تا ۶۷۲۵)۔ حاملہ بیوہ کی عدت کی مدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی پیدائش کے بعد وہ نکاح کرسکتی ہے (بخاری: ۸۱۳۵ تا ۰۲۳۵)۔معقل بن یسار ؓ کی بہن کو طلاق ہوئی اور عدت کے بعد پہلے شوہر نے دوبارہ نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل نے اس بناء پر انکار کیا کہ اُس نے دوران عدت رجوع کیوں نہیں کرلیا۔اس پر البقرہ کی آیت۔۲۳۲ نازل ہوئی کہ مطلقہ عورت کی عدت کے بعد انہیں اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔رسول اللہ سے یہ حکم سن کر معقلؓ نے اپنی ضد چھوڑ دی (بخاری: ۱۳۳۵)۔عدت میں بیٹھی عورت آنکھوں میں سرمہ نہیں لگا سکتی (بخاری: ۶۳۳۵؛ ۸۳۳۵)۔
نکاح۔ مہر:
ایک عورت نے دربار رسالت میں آکر کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے خود کو آپ کو بخش دیا۔ وہاں موجود ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! آپ میرا ان سے نکاح کردیجئے۔ آپ ؐنے فرمایا: میں نے تمہارا نکاح ان سے اس مہر کے ساتھ کیا جو تمہیں قرآن یاد ہے (بخاری:۰۱۳۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کا نکاح اُن سورتوں پر کردیا جو انہیں یاد تھیں۔ کیونکہ ان کے پاس مہر میں دینے کے لیے نہ کوئی کپڑا تھا نہ ہی لوہے کی کوئی انگوٹھی (بخاری: ۹۲۰۵؛ ۰۳۰۵؛ ۷۸۰۵؛ ۱۲۱۵؛ ۶۲۱۵؛ ۲۳۱۵؛ ۵۳۱۵)۔
نکاح۔ یتیم لڑکی:
فرمانِ حضرت عائشہ ؓ: ولی اپنی زیر پرورش یتیم لڑکی سے بھی شادی کرسکتے ہیں بشرطیکہ انصاف کے ساتھ پورا مہر ادا کریں۔ (بخاری:۳۶۷۲)۔
نماز۔اذان، اقامت:
نماز کے اذان کے لئے مختلف تجاویز آئیں پھر حضرت بلال ؓ کو حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں قد قامت الصلوٰۃ کے علاوہ تکبیر کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہیں (بخاری: ۳۰۶ تا ۷۰۶؛ ۷۵۴۳)۔ اگر کوئی شخص جنگل ویرانے میں نماز ادا کرے تب بھی بلند آواز سے اذان دے کیونکہ جن و انس کے علاوہ بھی وہ تمام چیزیں مؤذن کی آواز سنتی ہیں، روز قیامت اس پر گواہی دیں گی۔ (بخاری:۹۰۶)۔ جب تم اذن کی آواز سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے، تم بھی اسی طرح کہو اور حی علی الصلوٰۃ کے جواب میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہو۔(بخاری:۱۱۶ تا ۳۱۶)۔ جو شخص اذان سن کر یہ کہے، اُسے قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملے گی۔ اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلاۃ القائمۃ آت محمدا الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمودا نی الذی وعدتہ یوم القیامۃ (بخاری:۴۱۶)۔ شدید بارش اور کیچڑ وغیرہ کے سبب اذان میں الصلاۃ فی الرحال کے الفاظ کہنا مسنون ہے تاکہ لوگ نماز اپنے گھروں میں پڑھ لیں (بخاری:۶۱۶؛ ۲۳۶)۔ فجر کی اذان اور اور اقامت کے درمیان دو ہلکی رکعتیں پڑھنا مسنون ہے (بخاری:۸۱۶ تا ۹۱۶)۔مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان بھی دو رکعت پڑھنا مسنون ہے حالانکہ مغرب کی اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا (بخاری:۵۲۶؛۶۲۶)۔ ہر دو اذانوں (اذان اور اقامت)کے درمیان نماز ہے، اگر کوئی پڑھنا چاہے (بخاری:۷۲۶)۔جب تم سفر میں نکلو تو نماز کے وقت راستے میں اذان دینا، پھر اقامت کہنا، پھر جو تم میں بڑا ہو وہ نماز پڑھائے (بخاری:۸۲۶؛ ۰۳۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید سردی اور بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اذان میں اعلان کردے کہ لوگ اپنی قیام گاہوں میں نماز ادا کرلیں (بخاری: ۶۶۶؛ ۸۶۶)۔اذان کے کلمات کے جواب میں وہی کلمہ کہنا مسنون ہے (بخاری: ۴۱۹)۔ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔اذان کے بعد مردود پھر آجاتا ہے اور جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ اقامت کے بعد دوبارہ آکر آدمی کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کر۔ اس طرح آدمی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں۔(بخاری:۸۰۶؛۲۲۲۱؛۱۳۲۱)۔جب کوئی کسی بیابان ویرانے میں ہو تو نماز کے وقت خوب بلند آواز میں اذان دے۔مؤذن کی آواز اذان جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز سنے گی تو روز قیامت اس کے لیے گواہی دے گی (بخاری: ۶۹۲۳)۔
نماز۔ استخارہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات اُٹھ کر تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں (بخاری:۹۵۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے اور فرماتے:جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو دو رکعت نفل پڑھ کر دعائے استخارہ پڑھو (بخاری:۲۶۱۱)۔استخارہ: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نماز نفل پڑھے، پھر سلام کے بعد دعائے استخارہ پڑھے۔(بخاری: ۰۹۳۷)۔
نماز۔ استسقاء:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ِ قریش کی سرکشی پر بد دعا کی: اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے وقت جیسا سات برس کا قحط ان پر بھیج۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہوگئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھالیے یہاں تک کہ ابو سفیان کوحاضر ہوکر نبی کریم ﷺ سے دعا کی درخواست کرنی پڑی(بخاری:۷۰۰۱؛۰۲۰۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر دعائے استسقاء سے فارغ ہوکر اترے بھی نہ تھے کہ بارش کے پانی سے تمام نالے لبریز ہوگئے(بخاری:۹۰۰۱؛۳۲۰۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ گئے۔ بارش کے لیے قبلہ رُخ ہوکر دو رکعت نماز استسقاء پڑھی، دعا کی اور اپنی چادر کو بھی الٹا۔چادر کا داہنا کونا، بائیں کندھے پر ڈالا (بخاری: ۲۱۰۱؛ ۵۲۰۱ تا ۷۲۰۱)۔نمازاستسقاء کے لیے نہ اذان دی گئی اور نہ اقامت کہی گئی (بخاری:۲۲۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے سوا کسی اور دعا کے لیے اتنا زیادہ ہاتھ نہیں اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی (بخاری:۰۳۰۱؛ ۱۳۰۱؛۵۶۵۳)۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانہ میں عباس بن عبدالمطلب ؓ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے: اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ اس کے بعد خوب بارش ہوئی (بخاری: ۰۱۰۱؛ ۰ا۷۳)۔
نماز۔ امام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچوں وقت کی نمازوں کا طریقہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کی امامت کرکے سکھلایا تھا۔ (بخاری:۷۰۰۴) امام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو مختصر نماز پڑھائے کیونکہ مقتدیوں میں بیمار، کمزور اور حاجت والے سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ (بخاری:۰۹؛ ۹۵۱۷؛۲۰۷ تا ۵۰۷؛۰۱۱۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔جماعت میں کسی بچے کی آواز سُن کر نماز کو ہلکی کردیتے کہ کہیں اس کی ماں پریشان نہ ہوجائے (بخاری: ۶۰۷ تا ۰۱۷؛۸۶۸)۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر قبلہ رُخ کھڑے ہوکر نماز پڑھائی۔گویا امام کا مقتدیوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہونا درست ہے۔(بخاری:۷۷۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تو اپنے بالا خانے پر بیٹھ گئے۔ صحابہ کرام ؓ مزاج پُرسی کو آئے تو آپ ﷺ نے وہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ صحابہ کرام ؓ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ آپ نے سلام پھیر کر فرمایا: امام اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا و لک الحمد کہو۔جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ اور اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھو (بخاری:۸۷۳؛۲۳۷ تا ۴۳۷)۔ جب امام رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا ولک الحمد کہو۔ کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہوگا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے (بخاری: ۶۹۷)صحابہ کرام ؓ نبی کریم ﷺ کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک آپ ﷺ سجدے میں نہ چلے جاتے۔ پھر صحابہ بھی سجدے میں جاتے (بخاری: ۷۴۷)۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر ضیافت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس طرح نماز پڑھائی کہ آپ ﷺ کے پیچھے حضرت انس ؓ اور نبی ﷺ کے مرحوم غلام کا لڑکا ضمیرہ اور ان کے پیچھے حضرت انس ؓ کی نانی نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی(بخاری:۰۸۳)۔آخری بیماری کے ایام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی جبکہ آپ ﷺ کے پیچھے لوگ کھڑے ہوکر نماز ادا کررہے تھے (بخاری:۹۸۶)امام سے پہلے اپنا سر رکوع یا سجدہ پہلے اٹھالینے والے کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ پاک اس کا سریا صورت گدھے کی سی نہ بنا دے (بخاری:۱۹۶)۔اگر امام نے ٹھیک نماز پڑھائی تو اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔ اور اگر غلطی کی تو بھی تمہاری نماز کا ثواب تم کو ملے گا اور غلطی کا وبال امام پر رہے گا (بخاری:۴۹۶)۔ ایک ہی نماز دو بار ہ بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آکر اپنی قوم کی نماز کی امامت کیا کرتے تھے (بخاری:۰۰۷؛ ۱۰۷؛ ۱۱۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اُم المومنین میمونہ ؓ کے گھرمیں تھے۔ آپ ﷺ رات گئے نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اپنی خالہ کے گھر موجود ابن عباسؓ بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے آپ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے تو آپ ﷺ نے انہیں پکڑ کر اپنی دائیں جانب کردیا۔ یعنی اگر دو فراد کی جماعت ہو تو امام کو بائیں جانب کھڑا ہونا چاہئے (بخاری: ۷۹۶ تا ۹۹۶؛۶۲۷؛ ۹۵۸؛۹۱۹۵)۔
نماز۔ اوقات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی، اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے (بخاری:۲۲۵؛ ۴۴۵ تا ۶۴۵)۔جب گرمی تیز ہوجائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو (بخاری:۳۳۵ تا ۶۳۵؛ ۸۳۵؛ ۹۳۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اُ س وقت فارغ ہوجاتے تھے جب آدمی پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان سکتا تھا۔ ظہر اُس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ نماز عصر پڑھ کرمدینہ منورہ کی آخری حد تک جاتے، تب بھی سورج تیزرہتا تھا۔ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے (بخاری:۱۴۵؛ ۷۴۵؛ ۰۵۵)۔اگر کوئی سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پاسکے تو عصر کی پوری نمازادا کرلے۔ اسی طرح اگر کوئی سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پاسکے تو فجر کی پوری نماز ادا کرلے (بخاری:۶۵۵؛ ۹۷۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھ کر لوگ تیر اندازی کرتے تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ لیتا تھا (بخاری:۹۵۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں اور عصر کی نمازپڑھاتے تو ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا۔ نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھا دیتے اور عشاء کی نماز تب جلدی پڑھا دیتے، اگر لوگ جلدی جمع ہوگئے ہوں ورنہ تاخیر کرکے لوگوں کا انتظار کرتے۔ آپ ﷺ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے (بخاری:۰۶۵؛ ۵۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز اُس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا تھا (بخاری: ۱۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ السلام نے سحری کھائی اوراتنی دیر کے بعد نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے جتنی دیر میں پچاس یا ساٹھ آیات کی تلاوت ہوتی ہے (بخاری: ۵۷۵ تا ۷۷۵)۔ مسلمان عورتیں مسجد نبوی میں فجر کی نماز ادا کرکے واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی انہیں پہچان نہیں سکتا تھا (بخاری:۸۷۵)۔ فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک نفلی نماز پڑھنا منع ہے (بخاری:۱۸۵؛ ۴۸۵؛ ۸۸۵)۔تم قصداََ سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھو (بخاری:۲۹۱۱)۔
نماز۔ اوقات:
جب سورج کا اوپر کاکنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے۔اسی طرح جب سورج ڈوبنے لگے تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج مکمل غروب ہوجائے (بخاری:۳۸۵؛ ۶۸۵)۔ اس انتظار میں نہ رہو کہ سورج طلوع ہوتے ہی یا سورج ڈوبتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہوجاؤ (بخاری:۵۸۵)۔ اگر فجر کے وقت آنکھ نہ کھلے تو جب سورج بلند ہوکر روشن ہوجائے تب بھی نماز فجر ادا کی جاسکتی ہے (بخاری:۵۹۵)۔ اگر کسی وجہ سے عصر کی نماز رہ جائے سورج غروب ہونے کے بعد پہلے عصر کی نماز، اس کے بعد مغرب کی نمازپڑھی جائے (بخاری:۶۹۵؛ ۸۹۵)۔ صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج چھپنے تک کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے (بخاری:۷۹۱۱)۔ لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کا اقرار کرنے والوں پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں (بخاری: ۳۹۳۱)۔عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے (بخاری: ۴۶۸۱)۔نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں (بخاری:۵۹۹۱)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو دھوپ ابھی حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں باقی رہتی تھی (بخاری: ۳۰۱۳)۔ نمازوں میں عصر کی نماز ایسی ہے جس سے وہ چھوٹ جائے تو گویا اس کا گھر بار سب برباد ہوگیا(بخاری: ۲۰۶۳)۔ نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اورنماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنا منع ہے (بخاری: ۹۱ ۸۵)۔ ایک رات نبی کریم ﷺ نے عشاء کی نماز میں اتنی تاخیر کی کہ حضرت عمر ؓ نے کہا: یا راسول اللہ! نماز پڑھئے عورتیں اور بچے سونے لگے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں اسی وقت رات گئے عشاء کی نماز پڑھنے کا حکم دیتا(بخاری: ۹۳۲۷)۔
نماز۔ اونگھ:
نماز پڑھتے وقت تم میں سے کسی کو اونگھ آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ سو رہے۔ اونگھتے ہوئے نماز پڑھنے کے دوران اسے یہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ مغفرت طلب کررہا ہے یا اپنے نفس کو بد دعا دے رہا ہے (بخاری:۲۱۲؛۳۱۲)۔
نماز۔ تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو:
جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے (بخاری: ۴۴۴)۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ دن رات میں جب بھی وضو کرتے تو اس وضو سے نفل کی نماز پڑھتے رہتے تھے۔ (بخاری:۹۴۱۱)۔جب تم مسجد میں آؤ تو دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھے بغیر نہ بیٹھو (بخاری:۳۶۱۱)۔امام اگر جمعہ کا خطبہ بھی دے رہا ہو تو مسجد آنے والا دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھ لے (بخاری:۶۶۱۱)۔
نماز۔ تسبیح وا ذکار:
ہر نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۴۳ مرتبہ اللہ اکبر کا ذکر کرو (بخاری: ۳۴۸)۔
نماز۔ تشہد:
نماز میں اگر تم نے التحیات للہ والصلوات والطیبات۔۔پڑھ لیا تو گویا اللہ کے ان تمام صالح بندوں پر سلام پہنچادیا جو آسمان اور زمین میں ہیں (بخاری:۲۰۲۱)۔ جب تم نماز میں بیٹھو تو یوں پڑھو: التحیات للہ، والصلوات والطیبات السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ، السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ کیونکہ جب تم یہ دعا پڑھوگے تو آسمان و زمین کے ہر صالح بندے کو تمہاری یہ دعا پہنچے گی(بخاری: ۰۳۲۶)۔
نماز۔ تکبیر تحریمہ، رفع یدین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت (تکبیر تحریمہ میں) اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے تھے (بخاری: ۸۲۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے وقت دونوں ہاتھ بھی اُٹھاتے یعنی رفع یدین کرتے تھے۔ قعدہ اولیٰ سے اٹھتے یعنی تیسری رکعت کے لئے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ البتہ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے (بخاری: ۵۳۷ تا ۹۳۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان یہ دعا بھی پڑھتے تھے: اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق و مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال (بخاری: ۴۴۷)۔
نماز۔ قیام الیل (تہجد، وتر، تراویح)
تہجد کی نفلی نماز دو دو رکعت کرکے پڑھو اور آخر میں الگ سے ایک رکعت وتر پڑھو جو ساری نماز کو طاق بنادے (بخاری:۲۷۴؛ ۳۷۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں اُٹھ کر مسجد میں تہجد کی نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو چند صحابہ کرام ؓ بھی آپ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے۔ اسی طرح تین متواتر راتوں میں ہوتا رہا اور بڑے تعداد میں لوگ تہجد کی نماز میں شریک ہونے لگے تو چوتھی رات نبی کریم ﷺ نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد فرمایا:میں اس بات سے ڈر ا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہوسکے (بخاری: ۴۲۹)۔ رات کی نماز (قیام الیل یا نماز تہجد) دو دو رکعت ہے۔ پھر جب کوئی صبح ہوجانے سے ڈرے تو ایک رکعت (وتر)اور پڑھ لے، جو اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی (بخاری: ۰۹۹؛ ۳۹۹؛ ۵۹۹)۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وتر جب تین رکعت پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ سلام کے بعد ضرورت سے بات بھی کرتے(بخاری: ۱۹۹)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے بعد بیدار ہوئے اور تہجد کی دو دو رکعت کرکے کُل بارہ رکعتیں پڑھیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی۔ پھر آپ ﷺ نے فجر کی دو سنت پڑھی اور پھر فجر کی فرض نماز پڑھائی (بخاری: ۲۹۹)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد اور وتر کی کل گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ نمازِ فجر سے پہلے یہی آپ کی رات کی نماز تھی (بخاری: ۴۹۹)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی نماز رات کے ہر حصہ میں پڑھی ہے (بخاری: ۶۹۹)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے رہتے اور اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بستر پر عرض میں لیٹی رہتی تھیں۔ آپ ﷺ جب وتر پڑھنے لگتے تو حضرت عائشہ ؓ کو بھی وتر پڑھنے کے لیے جگا دیتے(بخاری: ۷۹۹)۔ وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو (بخاری: ۸۹۹)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر سواری کے دوران بھی تہجد اور وتر کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، خواہ سواری کا رُخ کسی طرف بھی ہو۔ مگر فرض نماز اس طرح نہیں پڑھتے تھے (بخاری: ۹۹۹؛ ۰۰۰۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دعائے قنوت مغرب اور فجر کی نماز میں پڑھی جاتی تھی۔ دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھنے کا معمول تھا (بخاری: ۴۰۰۱)۔
نماز۔ قیام الیل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجدکے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ!ہر طرح کی تعریف تیرے لیے ہی زیبا ہے۔ تو آسمان، زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا بھی ہے اوران پر حکومت صرف تیرے لیے ہی ہے۔ تو آسمان اور زمین کا نور ہے۔ تو سچا، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی اور تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جوخطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی، ان سب کی مغفرت فرما۔ خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں (بخاری: ۰۲۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات تہجد میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ ہر رکعت میں سجدے اتنے طویل ہوتے کہ اس دوران کوئی بھی پچاس آیتیں پڑھ سکتا تھا (بخاری:۳۲۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات تہجد کے لیے نہ اُٹھ سکے۔ (بخاری:۴۲۱۱)۔رمضان میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام الیل کی نماز (تہجدیا تراویح) پڑھی تو صحابہ کرام ؓ نے بھی یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی۔ تیسری اور چوتھی شب صحابہ کرام ؓ کی تعداد بہت بڑھ گئی مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے اور نماز فجر کے بعد فرمایا: میں اس لئے نہیں آیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے (بخاری:۹۲۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب خوب صاف کرتے تھے (بخاری:۶۳۱۱)۔ رات کی نماز دو، دو رکعت کرکے پڑھو اور جب طلوع صبح کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کے ساری نماز کو طاق کرلو (بخاری:۷۳۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی (بخاری: ۸۳۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تہجد کی نماز میں سات، نَو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے (بخاری:۹۳۱۱)۔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (تہجد) ایسی پڑھتے کہ تم انہیں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ سکتے تھے اور سوتے ہوئے بھی دیکھ سکتے تھے۔ (بخاری:۱۴۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں تیرہ رکعت پڑھتے تھے (بخاری:۰۷۱۱)۔اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کا فرمان:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے قیام الیل (تہجد، تراویح) میں وتر کے ساتھ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، خواہ رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور۔(بخاری:۷۴۱۱)۔
نماز۔ قیام الیل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں کبھی بیٹھ کر قرآن نہیں پڑھتے تھے۔ البتہ جب بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے۔ جب تیس چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے اور پھر اسے پڑھ کر رکوع کرتے (بخاری:۸۴۱۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات اُٹھ کر تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں (بخاری:۹۵۱۱)۔ جو رات کو بیدار ہوکر یہ دعا پڑھے:لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، والہ الحمد، وہو علی کل شیء قدیر، الحمدللہ، و سبحان اللہ، ولا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ (ترجمہ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کسی کو کوئی کام کرنے کی طاقت نہیں۔ پھر یہ پڑھے:اللھم اغفرلی (ترجمہ) اے اللہ! میری مغفرت فرما۔ یا کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔(بخاری: ۴۵۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے قریب اٹھے۔(بغیر وضو کئے) سورت آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت کیں۔ پھر اچھی طرح وضو کیا اور دو دو رکعت کرکے دس رکعت نفل یعنی تہجد اور ایک رات وتر پڑھا اور پھر لیٹ گئے۔ جب مؤذن نے نماز فجر کی اطلاع دی تب فجر کی دو مختصر سنتیں پڑھیں اور فجر کی فرض پڑھانے کے لیے مسجد تشریف لے گئے (بخاری:۸۹۱۱)۔رات میں عبادت بھی کیا کرو اورسویا بھی کرو (بخاری: ۸۱۴۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔پہلے آٹھ رکعت طویل قرآت کے ساتھ اور پھر اس کے بعد تین رکعت وتر (بخاری: ۹۶۵۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے تیسرے پہر اُٹھے، مسواک اور وضو کیا۔ پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی تو دو رکعت سنت پڑھ کر مسجد تشریف لے گئے (بخاری: ۹۶۵۴ تا ۲۷۵۴)۔نماز۔وتر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھانے والے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نمازصرف ایک رکعت پڑھی اور حضرت ابن عباسؓ نے ان کے اس عمل کی تائید کی کہ وہ خود فقیہ ہیں۔(بخاری: ۴۶۷۳؛ ۵۶۷۳)۔بیعت رضوان میں شریک عائذ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ اگرکسی نے شروع رات میں وتر پڑھ لیا ہوتو آخر رات میں نہ پڑھو (بخاری:۶۷۱۴)۔اللہ ہر رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان دنیا پر آکر کہتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں۔ کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کروں؟ (بخاری: ۴۹۴۷)۔
نماز۔ جماعت، صف بندی:
جس نے ایک رکعت بھی باجماعت پالی، اس نے باجماعت نماز کا ثواب پالیا (بخاری:۰۸۵)۔تم نماز کے لئے جلدی جلدی نہیں بلکہ وقار اور سکون کے ساتھ آؤ۔ باجماعت نماز کی جتنی رکعتیں مل جائیں، اسے پڑھو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کرلو (بخاری:۵۳۶؛ ۶۳۶)۔ باجماعت نماز کے لئے اقامت کہی جانے کے باوجود ضرورت ہو تو گفتگو کی جاسکتی ہے (بخاری:۲۴۶؛ ۳۴۶)۔جماعت کے ساتھ نماز، تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس (دوسری روایت میں پچیس) درجہ زیادہ افضل رکھتی ہے (بخاری:۵۴۶تا ۹۴۶؛ ۷۱۷۴)۔ نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو اور مل کر کھڑے ہوجاؤ ورنہ اللہ تمہارا منہ اُلٹ دے گا۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔ صحابہ کرام ؓ اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتے تھے۔(بخاری: ۷۱۷ تا ۹۱۷؛ ۳۲۷؛ ۵۲۷؛ ۱۴۷؛ ۲۴۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پڑھائی کے آپ ؐ کے پیچھے مردوں اور لڑکوں کی صف اور آخر میں عورتوں کی صف تھی (بخاری:۷۲۷؛ ۰۶۸؛ ۱۷۸؛ ۴۷۸)۔اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صف اول میں کتنا ثواب ہے تو اس کے حصول کے لئے اگرقرعہ اندازی بھی کرنی پڑتی تو وہ ضرور کرتے (بخاری:۹۸۶۲)۔میرا ارادہ ہوا کہ لکڑیاں جمع کرنے، نماز کے لیے اذان دینے اور کسی سے نماز پڑھانے کا کہہ کر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں (بخاری: ۴۲۲۷)۔
نماز۔ جمعہ:
جب کوئی نماز جمعہ کے لیے آنا چاہے تو اسے غسل کرلینا چاہئے (بخاری: ۷۷۸؛ ۴۹۸؛ ۹۱۹)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بوجوہ غسل کے بغیر نماز جمعہ کے لیے آنے والے صحابی سے کہا کہ وضو بھی اچھا یعنی کافی ہے (بخاری: ۸۷۸)۔ ہر مسلمان پر اگر میسر ہو تو جمعہ کے دن غسل، مسواک اور خوشبو لگانا ضروری ہے (بخاری: ۰۸۸؛ ۵۹۸؛۲۰۹؛ ۳۰۹)۔جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز جمعہ کے لیے اول وقت میں مسجد پہنچا تو گویا اُس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی۔ اگر تیسرے نمبر گیا تو گویا ایک مینڈھے کی قربانی دی۔جو چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا تو اُس نے اللہ کی راہ میں انڈا صدقہ کیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے آجاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں (بخاری: ا۸۸؛ ۹۲۹)۔جو شخص جمعہ کے دن غسل کرکے خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرے، میسر تیل اور خوشبو استعمال کرے، مسجد پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان گھسے بغیرنوافل ادا کرے پھر خاموشی سے خطبہ سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (بخاری: ۳۸۸؛ ۰۱۹)۔ جمعہ کے دن کے بارے میں اہل کتاب نے اختلاف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتلادیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا دن یعنی ہفتہ یہودیوں کا دن ہے اور تیسرا یعنی اتوار نصاریٰ کا دن ہے (بخاری: ۴۹۸)۔اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک جمعہ کے دن غسل کرے (بخاری: ۸۹۸)۔جمعہ کی نماز فرض ہونے کے باوجود عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کی وجہ سے اذان میں حی علی الصلاۃ یعنی نماز کی طرف آؤ کی بجائے صلوا فی بیوتکم یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو کہنے کا حکم دیا (بخاری: ۱۰۹)۔
نماز۔ جمعہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا (بخاری: ۴۰۹)۔ اگر سردی زیادہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سویرے پڑھ لیتے لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت میں پڑھتے (بخاری: ۶۰۹)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھ جاتے تھے۔ لیکن حضرت عثمان ؓ کے عہد میں مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تو وہ مدینہ کے بازار میں ایک اور اذان دلوانے لگے (بخاری: ۲۱۹؛ ۳۱۹؛ ۵۱۹؛ ۶۱۹)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے۔ پھر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے (بخاری: ۰۲۹)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ میں دو خطبہ دیتے تھے اور دونوں خطبوں کے بیچ میں بیٹھتے تھے(بخاری: ۸۲۹)۔نمازجمعہ کے لیے امام خطبہ شروع کردے تب بھی مسجد میں داخل ہونے والوں کو سب سے پہلے دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھنی چاہئے (بخاری: ۰۳۹؛ ۱۳۹)۔جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے کسی آدمی سے ، چُپ رہ کہنا بھی ایک لغوحرکت ہے (بخاری: ۴۳۹)۔جمعہ کے دن ایک ایسی مختصر سی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ سے مانگے تو اللہ پاک اسے ضروردیتا ہے (بخاری: ۵۳۹)۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ کر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے (بخاری: ۱۴۹)۔جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے کھڑے ہوکر آنے والوں کے نام کو نمبر وار لکھتے جاتے ہیں۔ جب امام خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھ جاتا ہے تب یہ فرشتے رجسٹر بند کرکے ذکر سننے لگ جاتے ہیں (بخاری: ۱۱۲۳)۔صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوئے تو دیواروں کا سایہ اتنا بھی نہیں ہوا تھا کہ لوگ اس میں آرام کرسکیں (بخاری:۸۶۱۴)۔
نماز۔ جنازہ:
جو کوئی ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ اور تدفین تک ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ اور جو جنازہ پڑھ کر تدفین سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ ہر قیراط اتنا بڑا ہوگا جیسے اُحد کا پہاڑ۔(بخاری:۷۴)اُم کعب ؓ زچگی میں فوت ہوگئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ اس طرح پڑھائی کہ آپ ان کے جسم کے وسط میں کھڑے ہوئے (بخاری:۲۳۳) مسجد نبوی میں جھاڑو دینے والے حبشی کی قبر پر آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی (بخاری:۸۵۴؛۰۶۴) حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی وفات کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات والے دن ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیتے ہوئے فرمایا تھا: آج ایک مرد صالح اس دنیا سے چلا گیا۔ اٹھو اور اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ پھر آپ ؐ نے نماز میں چار مرتبہ تکبیریں کہی (بخاری:۷۱۳۱؛ ۸۱۳۱؛ ۰۲۳۱؛ ۳۳۳۱؛ ۴۳۳۱؛ ۷۷۸۳تا ۰۸۸۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ تھلگ قبر کے پاس آئے،صحابہ کرام ؓ نے صف بندی کی اور آپ ؐ نے چار تکبیریں کہتے ہوئے نماز جنازہ پڑھی (بخاری:۹۱۳۱؛۶۳۳۱)۔ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر ایک ایسی قبر پر نماز جنازہ پڑھی، جسے گزشتہ رات ہی نبی کریم ﷺ کی غیر موجودگی میں دفنادیا گیا تھا (بخاری:۲۲۳۱؛ ۶۲۳۱؛ ۷۳۳۱؛ ۰۴۳۱)۔جس نے نماز جنازہ میں شرکت کی اسے ایک قیراط اور جو تدفین تک ساتھ رہا تو اسے دو پہاڑوں کے برابر دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ (بخاری:۵۲۳۱)۔ نبی کریمﷺ نے اُم کعب ؓ کی نمازجنازہ میت کی کمر کے مقابل کھڑے ہوکر ادا کی (بخاری: ۱۳۳۱؛ ۲۳۳۱)۔ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنانبوی طریقہ ہے (بخاری:۵۳۳۱)
نماز۔ چاشت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھار چاشت کی نماز پڑھنا بھی ثابت ہے (بخاری:۰۷۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام پسند ہوتا مگر اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی دیکھ کر اس پر عمل شروع کردیں اور وہ کام ان پر فرض ہوجائے، جیسے چاشت کی نماز رسول اللہ ﷺ نے کبھی نہیں پڑھی لیکن اُم المومنین حضرت عائشہ پڑھتی تھیں (بخاری:۸۲۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم چاشت کی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے البتہ صرف اُم ہانی کی روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر میں چاشت کی آٹھ رکعت نماز پڑھی تھی (بخاری:۵۷۱۱ تا ۷۷۱۱)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی دو رکعت نماز کی وصیت کی تھی۔ (بخاری:۷۶۱۱)۔
نماز۔ خلل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ عائشہ ؓ میں پردہ کے لیے لٹکے ہوئے باریک رنگین کپڑہ کو یہ کہہ کر اتروادیا تھا کہ اس پر نقش شدہ تصاویر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں (بخاری:۴۷۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھانے سے سختی سے روکا اور فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی (بخاری: ۰۵۷)۔نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز میں ڈالتا ہے (بخاری: ۱۵۷)۔کل رات میری نماز خراب کرنے ایک سرکش جن میرے سامنے آیا تو میں نے اسے ذلیل کرکے بھگا دیا (بخاری: ۳۲۴۳؛۸۰۸۴)۔
نماز۔ خواتین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے ہوئے کئی مسلمان خواتین اپنی چادر اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں، پھر اس طرح واپس چلی جاتی تھیں کہ انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا (بخاری:۲۷۳؛ ۷۶۸؛ ۲۷۸)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں سلام پھیرتے تو عورتیں مسجد سے باہر نکلنے کے لیے فوراََ کھڑی ہوجاتیں۔ آپ ؐ کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے۔صحابہ کرام ؓ اس کا یہ مطلب سمجھتے تھے کہ عورتیں جلدی چلی جائیں تاکہ مردنماز سے فارغ ہوکر ان کو نہ پائیں (بخاری: ۷۳۸؛ ۹۴۸؛ ۰۵۸؛ ۶۶۸؛ ۰۷۸؛ ۵۷۸)۔ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات کی نماز کے لیے بھی مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ اس کی اجازت دے دیا کرو (بخاری: ۵۶۸؛۳۷۸؛ ۹۹۸؛ ۰۰۹)۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تہمدیں غربت کے سبب چھوٹی ہوتی تھیں۔ چنانچہ نماز میں شریک خواتین کو حکم تھا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کر نہ بیٹھ جائیں، وہ سجدے سے اپنے سر نہ اٹھائیں (بخاری: ۵۱۲۱)۔پردہ والی دوشیزائیں اور حائضہ عورتیں بھی عید گاہ جانے کے لیے باہر نکلیں۔ مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں (بخاری:۲۵۶۱)۔ جب تم میں سے کسی کی بیوی نماز پڑھنے کے لیے مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو (بخاری: ۸۳۲۵)۔
نماز۔ خوف (جنگ):
غزوہ ذات الرقاع میں مسلمان دشمن سے مقابلہ کے لیے صف آرا تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ خوف اس طرح پڑھائی کہ ایک جماعت آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہوگئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا۔نبی کریم ﷺ نے اس جماعت کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر یہ لوگ اس جماعت کی طرف چلے گئے، جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ اب نبی کریم ﷺ نے دوسری جماعت کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کرکے سلام پھیر دیا۔بعد میں ہر شخص نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے کرکے نماز مکمل کی (بخاری: ۲۴۹)۔جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں (بخاری: ۳۴۹)۔ﷺ غزوہ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر اور مغرب کی نماز ادا کی(بخاری: ۵۴۹)۔ غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ تک پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے۔پھر جب راستے ہی میں عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو چند صحابہ ؓ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لیاور کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر ہی نماز پڑھیں گے۔ جب آپ ﷺ سے اس اختلاف ِعمل کا ذکرکیا گیا تو آپ ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔ (بخاری: ۶۴۹)۔ اگر خوف زیادہ ہو تو نماز خوف ہر شخص تنہا ہی پڑھ لے۔ پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رُخ ہو یا نہ ہو (بخاری:۵۳۵۴)۔
نماز۔ رکعتیں:
پہلی اور تیسری رکعت میں سجدوں سے سر اٹھا نے بعد ذرا بیٹھ کر پھر کھڑا ہونا چاہئے (بخاری:۷۷۶)۔جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ اطمینان کے ساتھ آؤ۔باجماعت جتنی رکعت مل جائے، اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تو اسے بعد میں پورا کرلو (بخاری: ۸۰۹)۔
نماز۔ جمع بین الصلاتین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب اور عشاء کی ملا کر سات رکعتیں پڑھیں۔پہلی نماز آخر وقت میں اور دوسری نماز اول وقت میں پڑھیں (بخاری:۴۷۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملاکر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی نماز بھی ایک ساتھ ملاکر پڑھتے (بخاری:۷۰۱۱؛ ۸۰۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز عصر تک نہ پڑھتے پھر ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھتے۔ اگر سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے (بخاری:۱۱۱۱؛ ۲۱۱۱)۔
نماز۔ سترا:
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک برچھی کو زمین میں بطور سُترا (نماز کے لیے سامنے کی آڑ) گاڑ دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمہ میں سے سرخ پوشاک پہنے ہوے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کرکے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور دیگر لوگ اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے (بخاری:۶۷۳)۔ کھلے میدان میں نماز کے لئے نبی کریم کے سامنے ایک نیزہ بطور سُترا زمین میں گاڑ دیا جاتا اور آپ ﷺ کے پیچھے لوگ نماز ادا کرتے جبکہ آپ کے سامنے سے لوگ اور جانور گزر رہے ہوتے (بخاری:۴۹۴؛ ۵۹۴؛ ۸۹۴؛۹۹۴؛۱۰۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سواری کو اپنے سامنے عرض میں کھڑا کرکے نماز پڑھ لیتے تھے (بخاری:۷۰۵)۔ جب کوئی شخص کسی چیز(سُترا) کو آڑ بنا کر نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی پھر بھی اس کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئے۔ اگر وہ پھر بھی اصرار کرے تو اسے لڑنا چاہئے کیونکہ وہ شیطان ہے (بخاری: ۹۰۵)۔اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو خبر ہو کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو وہ لمبے عرصہ تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دے (بخاری:۰۱۵)۔ طلوع کے وقت جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو اُس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہوجائے۔اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لیے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہوجائے(بخاری: ۲۷۲۳)۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نماز نہ پڑھو (بخاری: ۳۷۲۳)۔اگر نماز پڑھتے ہوئے تمہارے سامنے سے کوئی گزرے تو اسے بار بار روکو (بخاری: ۴۷۲۳)۔ایک سفر کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحا نامی مقام پرظہر اور عصر کی دو دو رکعت قصر نماز ادا کی۔ آپ کے سامنے ایک چھوٹا سا نیزہ بطور سترہ گڑا ہوا تھا اورنیزے کے باہر کی طرف سے انسان اور جانور گزر رہے تھے(بخاری: ۳۵۵۳؛ ۶۶۵۳؛ ۶۸۷۵)۔
نماز۔ سجدہ:
ظہر کی نماز میں گرمی سے بچنے کے لئے کپڑوں پر سجدہ کرنا جائز ہے (بخاری:۲۴۵)۔ سجدہ کرنے میں اعتدال رکھو اور اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلاؤ (بخاری: ۲۳۵؛۲۲۸)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر پھیلا دیتے کہ بغل کی سفیدی ظاہر ہوجاتی تھی (بخاری: ۷۰۸)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ پیٹ سے الگ رکھتے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی (بخاری: ۴۶۵۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بالوں اور کپڑے کو سمیٹے بغیر ان سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا: پیشانی مع ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں (بخاری: ۹۰۸؛ ۰۱۸؛ ۲۱۸؛ ۵۱۸؛ ۶۱۸)۔سخت گرمیوں میں صحابہ کرام ؓ نمازپڑھا کرتے تو گرمی کی وجہ سے کوئی صحابی اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتے (بخاری: ۵۸۳؛ ۸۰۲۱)۔ بارش کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کرتے تو مٹی کا اثر آپ ﷺ کی پیشانی پر صاف نظر آتا تھا (بخاری: ۶۳۸)۔ سجدہ کرتے ہوئے سامنے موجود کنکریاں ہر مرتبہ برابر کرنے والے صحابی ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ایسا کرنا ہو تو صرف ایک بار کر (بخاری:۷۰۲۱)۔
نماز۔ سنتیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت اوراس کے بعد دو رکعت؛ مغرب کے بعد دو رکعت اور عشاء کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے؛ جمعہ کے بعد گھر واپس ہوتے تب دو رکعت پڑھتے (بخاری: ۷۳۹)۔ تم میں سے جس کا جی چاہے مغرب کے فرض سے پہلے دو رکعت سنت پڑھ لے (بخاری:۳۸۱۱)۔کچھ نمازیں اپنے گھروں میں بھی پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بنا لو۔(بخاری:۷۸۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعت سنت سے زیادہ پابندی نہیں کرتے تھے (بخاری:۹۶۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے دو رکعت، ظہر کے بعد دو رکعت، جمعہ کے بعد دو رکعت، مغرب کے بعد دو رکعت، اور عشاء کے بعد دو رکعت نماز سنت پڑھی (بخاری:۵۶۱۱؛ ۲۷۱۱؛۰۸۱۱)۔
نماز۔ سجدہ سہو:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رکعتوں کی تعداد بھول گئے تو صحابہ ؓ کے بتلانے پر سجدہ سہَو کیا اور فرمایا:جس طرح تم بھولتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔کسی کو نماز میں رکعتوں کی تعداد پر شک ہوجائے توجتنی رکعتوں پر اسے یقین ہو، اُسی کے مطابق نماز پوری کرے اور ایک سلام پھیر کر سہَو کے دوسجدے کرکے نماز پوری کرلے (بخاری:۱۰۴)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھولے سے ظہر کی نماز میں پانچ رکعت پڑھی۔ یاد دلانے پراپنے پاؤں قبلہ کی طرف موڑ لئے اور سہَو کے دو سجدے کئے۔ (بخاری:۴۰۴)۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ظہر کی دو رکعت پڑھی۔ صحابہ کرام ؓ کے بتلانے پر بقیہ دو رکعت پڑھ کر دو سجدہ سہو ادا کیا (بخاری:۴۱۷؛ ۵۱۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں دو رکعت کے بعد بیٹھنے کی بجائے بھول کر کھڑے ہوگئے تو نماز کے اختتام پر سلام پھیرنے سے پہلے اللہ اکبر کہا اور سہو کے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا (بخاری: ۹۲۸؛ ۰۳۸)۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت نماز پڑھاتے ہوئے دو رکعت کے بعد بھولے سے قعدہ نہیں کیا تو چار رکعت مکمل کرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے اللہ اکبر کہا اور سہو کے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا (بخاری:۴۲۲۱؛ ۵۲۲۱؛ ۰۳۲۱)۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں بھولے سے پانچ رکعت پڑھ لیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کے بتلانے پر آپ ؐ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے (بخاری:۶۲۲۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ظہر یا عصر کی نماز میں اور ایک مرتبہ مغرب کی نماز میں بھولے سے دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ کی نشاندہی پر آپ نے بقیہ رکعت پڑھ کر نماز مکمل کی اور سہو کے دو سجدے کیے (بخاری:۷۲۲۱ تا ۹۲۲۱)۔ تم میں سے جب کسی کو شیطان یہ بھلادے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے۔ (بخاری:۲۳۲۱)۔نبی کریم ﷺ نے غلطی سے ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی اور صحابہ کرامؓ کے بتلانے پر سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کئے (بخاری: ۹۴۲۷)۔ رسول اللہ ﷺ نے مغرب یا عشا کی نماز میں دو ہی رکعت میں نماز ختم کردی تو مقتدیوں کے بتلانے پر بقیہ آخری رکعتیں پڑھیں اور سلام کے بعد دو سجدے کئے(بخاری: ۰۵۲۷)۔
نماز۔ طریقہ:
جب تم نماز کے لیے تیار ہو تو پہلے پوری طرح وضو کیا کرو، پھر قبلہ رو ہوکر تکبیر تحریمہ کہو، اس کے بعد قرآن میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو اور جب رکوع کی حالت میں برابر ہوجاؤ تب سر اٹھاؤ۔ جب سیدھے کھڑے ہوجاؤ تب سجدہ میں جاؤ، جب سجدہ پوری طرح کرلو تب سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ پھر دوسرے سجدہ میں جاؤ۔ دوسرا سجدہ بھی پوری طرح کرلو تب سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ۔ یہی عمل ہر رکعت میں کرو(بخاری: ۱۵۲۶)۔عبد اللہ بن مسعودؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز میں پڑھنے کے لیے تشہد اسی طرح سکھایا جیسے آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم ﷺ کی ہتھیلیوں کے درمیان تھا۔ التحیات للہ والصلوات والطیبات، السلام علیک ایہانبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین، اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم خطاب کا صیغہ کی بجائے اس طرح پڑھنے لگے: السلام علی النبی یعنی بنی کریم ﷺ پر سلام ہو (بخاری: ۵۶۲۶)۔
نماز۔ عیدین:
عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشیں عورتوں کو بھی عید گاہ لانے کا حکم تھا تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے اجتماع اور دعاؤں میں شریک ہوسکیں۔ البتہ حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہتی تھیں۔(بخاری:۱۵۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خواتین نے بھی عید کی نماز ادا کی۔ خطبہ کے بعد آپ ؐ خواتین کی طرف آئے اور انہیں بھی وعظ و نصیحت کی۔ صدقہ خیرات کی نصیحت پر عورتوں نے اپنے زیورات بھی صدقہ کی جھولی میں ڈال دئے (بخاری: ۳۶۸)۔
نماز۔ فضائل:
جس نے عصر کی نماز چھوڑی، اس کا عمل اکارت ہوگیا (بخاری:۴۹۵)۔جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں یعنی فجر اور عصر وقت پر پڑھیں تووہ جنت میں داخل ہوگا (بخاری:۴۷۵)۔ جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لُٹ گیا (بخاری:۲۵۵)۔جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہوگیا (بخاری:۳۵۵؛ ۳۷۵)۔ آخرت میں اپنے رب کو تم اسی طرح دیکھوگے جیسے اس دنیا میں چاند کو دیکھتے ہو لہٰذا تم سے فجر اور عصر کی نمازیں چھوٹنے نہ پائیں (بخاری:۴۵۵)۔ رات اور دن میں ڈیوٹی دینے والے فرشتوں کا فجر اور عصر کی نمازوں میں اجتماع ہوتا ہے۔ جب یہ فرشتے اوپر چڑھتے ہیں تواللہ کے پوچھنے پر جواب دیتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے (بخاری:۵۵۵؛ ۹۲۴۷؛ ۶۸۴۷)۔اللہ پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کے گناہوں کو ان نمازوں کے ذریعہ مٹا دیتا ہے (بخاری:۸۲۵)۔ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھو۔ کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے (بخاری:۵۱۱۱؛ ۶۱۱۱) نماز کھڑے ہوکر پڑھا کرو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر، بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھ لیا کرو (بخاری:۷۱۱۱)۔ اگر لوگوں کو عشاء اور فجر نماز کی فضیلتیں معلوم ہوجائے تو انہیں گھنٹوں کے بل بھی آنا پڑے تو ضرور آئیں (بخاری:۹۸۶۲)۔
نماز۔ نفلی نماز:
کچھ نمازیں اپنے گھروں میں بھی پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بنا لو۔(قبرستان میں نماز پڑھنا ممنوع ہے البتہ نماز جنازہ پڑھنا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے)۔ (بخاری:۷۸۱۱)۔ نفل نمازیں تم اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے (بخاری: ۳۱۱۶)۔ مغرب کی نماز سے پہلے بھی نماز پڑھو، جس کا جی چاہے (بخاری: ۸۶۳۷)۔
نماز۔ قبلہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں۔ پھر آپ کی خواہش پر اللہ نے بیت اللہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا (بخاری:۹۹۳؛ ۶۸۴۴؛ ۸۸۴۴؛ ۰۹۴۴ تا ۴۹۴۴؛۲۵۲۷)۔ مسجد قباء میں نماز فجر کے دوران ایک آنے والے نے اطلاع دی کہ رات اللہ کا حکم نازل ہوا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کرلیں۔ اس وقت لوگ بیت المقدس کی طرف رُخ کئے ہوئے تھے، پھر وہ لوگ کعبہ کی طرف مڑ گئے (بخاری: ۱۵۲۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رُخ کسی طرف بھی ہو، نفل نماز پڑھ لیتے تھے۔ لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اُتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے (بخاری:۰۰۴)۔ نماز میں کوئی شخص قبلہ کی طرف یا اپنی داہنی جانب نہ تھوکے۔ ضرورت ہو تو اپنی بائیں طرف یا قدموں کے نیچے یا اپنے کپڑے کے پلو پرتھوک سکتا ہے کیونکہ نماز میں اس کے اور قبلہ کے درمیان اس کا رب ہوتا ہے، جس سے وہ سرگوشی کرتا ہے (بخاری:۵۰۴ تا ۷۱۴؛ ۱۳۵؛ ۲۳۵؛ ۳۵۷؛۳۱۲۱؛ ۴۱۲۱)۔بیت اللہ (کعبہ) کے اندر جس کونے میں چاہیں، نماز ادا کرسکتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر ؓ (بخاری:۶۰۵)۔ کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے (قبلہ کی طرف) نہ تھوکے کیونکہ جب کوئی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے (بخاری: ۱۱۱۶)۔
نماز۔ سفر:
پہلے اللہ تعالیٰ نے سفر اورحضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی تھی۔پھر ہجرت مدینہ کے بعد سفر کی نماز تو دو رکعت باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں اضافہ کردیا گیا (بخاری:۰۵۳؛۰۹۰۱؛۵۳۹۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اُنیس دن مکہ میں ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے(بخاری:۰۸۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ مکہ جانے کے لیے مدینہ سے نکلے اور مکہ میں دس دن قیام کرکے واپس ہوئے تو اس دوران مسلسل دو، دو رکعت کرکے قصر نماز پڑھتے رہے (بخاری:۱۸۰۱)۔ دورانِ حج منیٰ میں قیام کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما چار رکعت والی نمازوں میں دو رکعت قصر پڑھا کرتے تھے(بخاری:۲۸۰۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں امن کی حالت میں دو رکعت قصر نماز پڑھائی(بخاری:۳۸۰۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی (بخاری:۹۸۰۱)۔ سفر میں جب جلدی ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے حتیٰ کہ مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملاکر پڑھ لیتے (بخاری:۱۹۰۱؛ ۲۹۰۱؛ ۶۰۱۱؛ ۹۰۱۱؛ ۰۱۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اونٹنی پروتر اور نفل نمازیں پڑھتے رہتے، خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو۔ البتہ فرض نماز سواری سے اُتر کر قبلہ رُخ ہوکر پڑھتے تھے(بخاری:۳۹۰۱ تا ۰۰۱۱؛ ۴۰۱۱؛ ۵۰۱۱)۔ سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا گیا (بخاری:۱۰۱۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سفر میں دو رکعت فرض سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے (بخاری:۲۰۱۱)۔
نماز۔ قضاء:
تم جب کوئی نماز بھول جاؤ تو جب بھی یاد آجائے، اس نماز کی قضاء پڑھ لو۔ اس بھول کاکوئی اور کفارہ نہیں (بخاری:۷۹۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھکے ہوئے اصحاب اتنی گہری نیند سوگئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دن کی روشنی میں نماز فجر پڑھائی (بخاری: ۱۷۵۳)۔
نماز۔ قیام:
نماز میں حکم تھا کہ دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں (بخاری: ۰۴۷)۔ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی (بخاری: ۶۵۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ہر رکعت میں ایک ایک سورت پڑھتے جبکہ آخری دو رکعتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے۔ آپ ؐ فجر کی نماز میں پہلی رکعت لمبی اور دوسری ہلکی پڑھا کرتے تھے (بخاری: ۹۵۷؛ ۲۶۷؛ ۶۷۷؛ ۸۷۷)۔جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہوگئی، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جائیں گے(بخاری: ۰۸۷ تا ۲۸۷)۔ پہلو پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا منع ہے (بخاری:۹۱۲۱؛ ۰۲۲۱)۔
نماز۔ کلام:
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم دورانِ نماز پہلے سلام و کلام کرلیا کرتے تھے۔ پھر آیت حافظو علی الصلوات (سورۃ البقرۃ:۸۳۲) نازل ہونے کے بعد انہیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم ہوا یعنی سلام و کلام سے منع کردیا گیا (بخاری:۰۰۲۱؛ ۶۱۲۱؛ ۷۱۲۱)۔
نماز۔ گرہن:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو معمول سے طویل قیام، طویل رکوع اور طویل سجدے کئے۔(بخاری: ۵۴۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورج گرہن کی نماز کے دوران جنت اور جہنم کے نظارے دکھلائے گئے (بخاری: ۵۴۷؛ ۸۴۷)۔سورج کو گرہن لگنا شروع ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی مسجد پہنچے اور صحابہ ؓکے ساتھ دو رکعت نماز پڑھائی اور فرمایا: جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو، جب تک گرہن کھُل نہ جائے (بخاری: ۰۴۰۱)۔سورج اور چاند گرہن کسی کی موت و زندگی سے نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم یہ دیکھو تو اللہ سے دعا کرو،نماز پڑھو اور صدقہ دو حتیٰ کہ سورج صاف ہوجائے(بخاری:۰۴۰۱ تا ۴۴۰۱؛ ۷۵۰۱؛ ۰۶۰۱؛ ۳۶۰۱؛ ۲۱۲۱)۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا کہ نماز ہونے والی ہے (بخاری:۵۴۰۱؛ ۶۶۰۱)۔سورج گرہن کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکوع اور چار سجدے کے ساتھ دو رکعت نماز یوں پڑھائی: تکبیر کے بعد طویل قرآت کیا، پھر طویل رکوع کیا اور کھڑے ہوکر سجدہ میں جانے کی بجائے دوبارہ پہلے سے کم طویل قرآت کیا اور پھر رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم طویل تھا۔ اس کے بعد دو سجدے کیے اور دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہوچکا تھا (بخاری: ۶۴۰۱؛ ۷۴۰۱؛ ۰۵۰۱ تا ۲۵۰۱؛ ۸۵۰۱)۔ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے (بخاری:۸۴۰۱)۔ایک مرتبہ چاشت کے وقت سورج گرہن لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں طویل قرآت، چار طویل رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھائی اور لوگوں کو سمجھایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں (بخاری:۶۵۰۱؛ ۵۶۰۱)۔ سورج اور چاند گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھا کرو (بخاری: ۱۰۲۳ تا ۴۰۳۲؛ ۷۹۱۵)۔
نماز۔ لباس:
اگر دو کپڑے موجود نہ ہوں تو مرد صرف ایک تہبند (ازار، پاجامہ وغیرہ) میں بھی نمازادا کرسکتے ہیں۔ کپڑے میں گنجائش ہو تو اسے کندھے پر بھی ڈال لینا چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے (بخاری:۲۵۳ تا ۶۵۳؛ ۸۵۳ تا ۰۶۳؛ ۰۷۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی آدمی بچوں کی طرح اپنی گردنوں پر ازار باندھے ہوئے نماز پڑھا کرتے تھے اور عورتوں کو حکم تھا کہ سجدے سے اس وقت تک سر نہ اُٹھائیں جب تک مرد سیدھے ہوکر بیٹھ نہ جائیں (بخاری: ۲۶۳)۔اللہ فراغت دے تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔تہبند اور چادر، تہبند اور قمیص، تہبند اور قباء، پاجامہ اور چادر، پاجامہ اور قمیص، پاجامہ اور قباء، جانگیا اور قباء، جانگیا اورقمیص، جانگیا اور چادر میں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے (بخاری:۵۶۳)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نقش و نگار والی چادر میں نماز ادا کی پھر اس چادر یہ کہتے ہوئے عامر بن حذیفہ کی سادی چادر سے تبدیل کرلی کہ اس نقش و نگار نے نماز سے مجھ کو غافل کردیا تھا (بخاری:۳۷۳؛ ۲۵۷)۔
نماز۔ لقمہ:
نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو مَردوں کو سبحان اللہ کہہ کر اور عورتوں کو سیدھے ہاتھ سے اُلٹے ہاتھ پر تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہئے (بخاری:۳۰۲۱؛ ۴۰۲۱؛ ۸۱۲۱؛ ۰۹۶۲؛ ۰۹۱۷)۔
نماز۔ مسواک:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اُٹھتے تو اپنے منہ کو مسوا ک سے صاف کرتے (بخاری:۴۴۲ تا ۶۴۲)۔ اگر مجھے لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے انھیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ آپ ﷺ جب رات کو اُٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کرتے اور بیماری کی حالت میں بھی مسواک کرنا پسند کرتے (بخاری: ۷۸۸ تا ۰۹۸)۔ا گر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کرنا واجب قراردیتا (بخاری: ۰۴۲۷)۔
نماز۔ مصلیّٰ:
مسجد کی تعمیر سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے (بخاری:۴۳۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے مصلے (جائے نماز) پر نماز پڑھا کرتے تھے (بخاری: ۱۸۳)۔ مدینہ میں مسجد کی تعمیر سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے (بخاری: ۹۲۴)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کی طرف نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔(بخاری:۰۳۴)۔اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بنا لو (قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے) (بخاری:۲۳۴)۔تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت۔ جہاں نماز کا وقت آئے، اُمت کو وہیں نماز پڑھ لینی چاہئے (بخاری: ۸۳۴)۔ نماز پڑھنے کے بعد جب تک تم اپنے مصلے پر باوضو بیٹھے رہتے ہو، ملائکہ برابر تمہارے لئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ! اس کی مغفرت کیجئے۔ اے اللہ! اس پر رحم کیجئے (بخاری: ۵۴۴؛ ۹۵۶)۔
نماز۔ نبویؐ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے مصلے (جائے نماز) پر نماز پڑھا کرتے تھے (بخاری: ۱۸۳)۔ ﷺرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتیں جیسے نماز کے لیے جنازہ رکھا جاتا ہے (بخاری:۳۸۳؛۴۸۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہن کر بھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے (بخاری:۶۸۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح کرکے موزوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ (بخاری:۷۸۳؛ ۸۸۳)۔رکوع اور سجدہ پوری طرح نہ کیا جائے تو گویا نماز ہی نہیں پڑھی (بخاری:۹۸۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر دو رکعت نماز ان دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھی، جو کعبہ میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف واقع ہیں۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز ادا فرمائی (بخاری:۷۹۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھی (بخاری:۸۹۳)۔ دوران نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیٹھ کے پیچھے مقتدیوں کے خشوع اور رکوع کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے (بخاری:۸۱۴؛۹۱۴)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر نماز پڑھتے اور اُم المومنین حالتِ حیض میں برابر میں سورہی ہوتی تھیں۔ جب نبی ﷺ سجدہ میں جاتے تو آپ کا کپڑا اُم المومنین کو چھو بھی جاتا (بخاری:۸۱۵؛ ۹۱۵)۔اگر سامنے کھانا رکھ دیا جائے اور دوسری طرف نماز کا وقت بھی ہوجائے تو نماز کے لئے جلدی نہ کرو بلکہ پہلے کھانا کھالو (بخاری:۱۷۶ تا ۴۷۶)۔جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو پہلے تکبیر تحریمہ کہو۔ پھر آسانی سے جتنا قرآن یاد ہو اس کی تلاوت کرو۔ اس کے بعد رکوع کرو۔ اچھی طرح سے رکوع ہولے تو پھر سر اٹھا کر پوری طرح کھڑے ہوجاؤ۔ اس کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جاؤ۔ اسی طرح اپنی نماز اطمینان اور سکون سے پوری کرو (بخاری: ۷۵۷)۔نبی ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔ جب رکوع کرتے تب بھی تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ جب سجدہ کے لیے جھکتے تب تکبیر کہتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تب بھی تکبیر کہتے۔ قعدہ اولیٰ سے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے پر بھی تکبیر کہتے تھے۔ اسی طرح آپ تمام نماز پوری کرلیتے تھے (بخاری: ۹۸۷؛ ۵۹۷؛ ۳۰۸)۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاکر کھڑے ہونے کا وقفہ تقریباََ سب برابر تھے، سوائے قیام اور تشہد کے قعود کے (بخاری: ۲۹۷؛ ۱۰۸؛ ۰۲۸)۔
نماز۔ نبویؐ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اُٹھتے جب تک تھوڑی دیر بیٹھ نہ لیتے (بخاری: ۳۲۸)۔تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اور بایاں پاؤں پھیلا کر اُس پر بیٹھنا چاہئے الا یہ کہ بڑھاپے یا کمزوری کی وجہ سے کھڑا پاؤں بوجھ نہ اٹھا سکے (بخاری: ۷۲۸)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تواپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے۔جب رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔جب رکوع سے سر اُٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوجاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہوجاتے۔ جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں کو زمین پر اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔جب دو رکعت کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کوآگے کرکے سُرین پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے (بخاری: ۸۲۸)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنوں سے، دجال کے فتنہ سے، گناہوں سے اور قرض سے (بخاری: ۲۳۸؛ ۳۳۸)۔ تم نماز میں یہ دعا پڑھا کرو:اے اللہ! میں نے گناہ کرکے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں لہٰذا مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطافرمااور مجھ پر رحم کر کہ توہی مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے (بخاری: ۴۳۸)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی اتنی دیر تک کھڑے رہ کر نماز ادا کرتے کہ آپ کی پنڈلیوں پر ورم آجاتا۔اس بارے میں آپ سے کچھ کہاجاتا تو فرماتے: کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (بخاری:۳۲۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر دو ستونوں کے درمیان اور پھر باہر آکر کعبہ کے دروازہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھی۔(بخاری:۷۶۱۱)داؤد علیہ السلام کی نماز اور ان کا روزہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ترین ہے۔ آپ آدھی رات تک سوتے اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزار دیتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سوجاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے (بخاری:ا۳۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائی رات میں سو رہتے اور آخر شب میں بیدار ہوتے۔ تہجد کی نماز پڑھ کر بستر پر آجاتے اور پھرمؤذن کی اذان سن کرفجر کے لیے اٹھتے (بخاری:۶۴۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز اس طرح بھی پڑھتے رہتے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ؐ کے سامنے پاؤں پھیلا ئے لیٹی رہتیں۔ جب آپ ؐ سجدہ کرنے لگتے تو انہیں ہاتھ لگاتے اورحضرت عائشہ ؓ پاؤں سمیٹ لیتیں اور جب نبی کریم ﷺ کھڑے ہوجاتے تو حضرت عائشہ پاؤں پھیلا لیتیں (بخاری:۹۰۲۱)۔ایک مرتبہ نماز کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شیطان آگیا اور کوشش کرنے لگا کہ آپ ؐ کی نماز توڑ دے مگر آپ ؐ نے اس کو دھکیل دیا (بخاری:۰۱۲۱)۔
نماز۔ وضو:
وضو میں ایڑیوں کو اچھی طرح دھوکر اسے دوزخ سے بچانا چاہئے۔ (بخاری:۰۶) حدث یعنی ریح خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے بعددوبارہ وضو کئے بغیر نماز نہیں ہوتی (بخاری:۵۳۱)۔ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن اس اُمت کے لوگ سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے، اچھی طرح وضو کیا کرے (بخاری:۶۳۱)۔ پانی کے چند چلو سے وضو کرنے کا مسنون طریقہ:ایک چلو سے کلی اور ناک کی صفائی، دوسرے چلو سے دونوں ہاتھوں سے چہرہ دھونا،تیسرے چلو سے داہنا ہاتھ دھونا، چوتھے چلو سے بایاں ہاتھ دھونا اور مسح کرنا، پانچویں چلو سے داہنا پاؤں اور چھٹے چلو سے بایاں پاؤں دھونا (بخاری: ۰۴۱)۔وضو میں ہر عضو کو ایک ایک بار، دو دو بار یاتین تین بار دھونا بھی درست ہے۔ (بخاری:۷۵۱ تا ۹۵۱)۔ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرکے خلوص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تواس کے ایک نماز سے دوسری نماز پڑھنے تک کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں (بخاری:۰۶۱)۔ وضومیں پاؤں اچھی طرح نہ دھونے والوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بارتنبیہ کی کہ وضو میں خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے (بخاری:۳۶۱)۔ وضو کا مسنون طریقہ:۱۔دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالنا، ۲۔کلی اور ناک صاف کرنا،۳۔ تین مرتبہ چہرہ دھونا، ۴۔تین مرتبہ پہلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کہنی تک دھونا،۵۔ سر کا مسح کرنا،۶۔ تین مرتبہ پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں دھونا۔جس نے میری طرح وضو کیا اور دل میں کسی قسم کے وسوسہ کئے بغیر دو رکعت نماز تحیۃ الوضو پڑھی، اس کے اگلے گناہ معاف کردئے جائیں گے (بخاری:۴۶۱؛۴۳۹۱)۔بندہ اس وقت تک نماز ہی میں شمار ہوتا ہے، جب تک وہ باوضو رہتے ہوئے نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے (بخاری:۶۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دوسرے کے محرم مرد اور عورتیں ایک ساتھ ایک ہی برتن سے وضو کرلیا کرتے تھے (بخاری:۳۹۱)۔
نماز۔ وضو، مسح:
سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا، سر کا مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا (بخاری: ۲۸۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرکے پہنے گئے موزوں پر دوران وضومسح کرلیا کرتے تھے (بخاری:۲۰۲ تا ۶۰۲)۔ ایک سفر میں وضو کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور فرمایا: میں نے طہارت کے بعد انہیں پہنا تھا (بخاری: ۹۹۷۵)۔وضو کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے کو دھویا۔ ہاتھ دھونے کے لیے شامی جبہ کی تنگ آستین پہلے چڑھانے کی کوشش کی پھر اسے نیچے سے نکال کر دھویا۔ سر کا مسح کیا اور دونوں موزوں پر بھی مسح کیا (بخاری:۸۱۹۲)۔
نماز۔ وضو ٹوٹنا:
وضو اُس وقت کافی ہوتا ہے جب تک کوئی وضو توڑنے والی (ریح، بول و براز، نیند وغیرہ) پیش نہ آجائے (بخاری:۴۱۲)۔ہوا خارج ہونے یعنی ریح کے شک میں نماز سے نہ پھرو، جب تک واضح آواز یا بو نہ پالو۔شک کا کوئی اعتبار نہیں (بخاری:۷۳۱؛۷۷۱؛ ۶۵۰۲)۔ سیلان مذی کی شکایت میں صرف وضو فرض ہے، غسل نہیں (بخاری:۸۷۱)۔ کھانا کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا (بخاری:۵۷۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کے شانہ کا گوشت کھایا، دوسری مرتبہ ستو کھایااور دوبارہ وضو کئے بغیر نماز پڑھی (بخاری: ۷۰۲ تا ۹۰۲؛۳۲۹۲)۔
نماز۔ وضو۔ تلاوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے قریب اٹھے۔(بغیر وضو کئے) سورت آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت کیں۔ پھر اچھی طرح وضو کیا اور دو دو رکعت کرکے دس رکعت نفل یعنی تہجد اور ایک رات وتر پڑھا اور پھر لیٹ گئے (بخاری :۸۹۱۱) ۔ اللہ کسی ایسے فرد کی نماز قبول نہیں کرتا جسے وضو کی ضرورت ہو یہاں تک کہ وہ وضو کرلے (بخاری: ۴۵۹۶)۔
وضو۔ تیمم: ایک سفر میں حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوگیا۔ ہار کی تلاش میں نماز کا وقت ہوگیا مگر وضو کے لیے پانی موجود نہ تھا۔ اسی موقع پر تیمم کی آیت نازل ہوئی (بخاری: ۴۶۱۵)۔
نیت:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ انسان کو اس کے ہر عمل کا نتیجہ اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔(بخاری:۱؛ ۹۲۵۲؛۹۸۶۶) جس کی ہجرت دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو، اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہوگی۔(بخاری:۱؛ ۹۲۵۲)۔ عمل کا دارو مدار نیت پر ہے۔ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہو اسے اللہ اور اس کے رسول کی رضا حاصل ہوگی۔ لیکن جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی (بخاری: ۰۷۰۵)۔
وراثت:
مکہ کے مہاجر اورمدینہ کے انصار کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم ہونے کے سبب مہاجر انصار کا ترکہ پاتے اور انصاری کے رشتہ دار محروم رہ جانے لگے تو اللہ نے اس مواخات کے سبب اس طرح کی میراث کا حکم سورۃ نساء آیت۔۳۳ کے ذریعہ منسوخ کردیا (بخاری:۲۹۲۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کو بحرین کے آنے والے جزیہ میں سے دونوں لپ بھر بھر کر مال دینے کا وعدہ کیا مگر بحرین کا جزیہ آنے سے قبل ہی آپ وفات پاگئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کا یہ وعدہ نبھایا (بخاری:۶۹۲۲)۔جب فتح کے دروازے کھل گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب وفات پاجانے والے مقروض کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے۔ اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا ہے (بخاری:۸۹۲۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور اپنی وقف کردہ زمین کے سوا کوئی درہم، دینار، غلام، باندی یا کوئی اور چیز اپنے پیچھے نہیں چھوڑا(بخاری:۹۳۷۲)۔اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں (بخاری:۲۴۷۲؛ ۸۶۶۵)۔ میری چھوڑی ہوئی دولت وارثوں میں تقسیم نہ کی جائے۔میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد جو بچے وہ صدقہ ہے (بخاری:۶۷۷۲)۔
وراثت۔ مسلمان، کافر:
مسلمان باپ کافر بیٹے کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کافر بیٹا مسلمان باپ کا وارث ہوتا ہے (بخاری: ۴۶۷۶)۔عقیل اور طالب، ابو طالب کی جائیداد کے وارث ہوئے اور سب کچھ بیچ کر برابر کردیا۔ جعفر اور علیؓ کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا کیونکہ یہ مسلمان ہوگئے تھے۔ اسی بنیاد پر فرمان حضرت عمرؓ ہے: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا (بخاری:۸۸۵۱)۔
وراثت۔ حصص:
میراث میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر، ماں اور باپ کا چھٹا حصہ، اولاد کی موجودگی میں بیوی کا آٹھواں حصہ، اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ہے۔ اسی طرح اولاد والے شوہر کا چوتھائی حصہ اور بے اولاد شوہر کا آدھا حصہ ہے(بخاری:۷۴۷۲)مومن کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مومن کا وارث ہوسکتا ہے (بخاری:۳۸۲۴)ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میت کے ترکہ میں مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ صاحب اولاد میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے مال کا چھٹا حصہ ہے جبکہ بے اولاد میت کے ماں باپ کے لیے ایک تہائی حصہ ہوگا۔ اولاد والی میت کی بیوی کا آٹھواں حصہ اور بے اولاد میت کی بیوی کا چوتھائی حصہ ہوگا۔ بے اولاد میت عورت کے شوہر کا آدھا حصہ ہوگا، اولاد والی میت کے شوہر کا حصہ چوتھائی ہوگا (بخاری: ۸۷۵۴)۔فرمانِ عبد اللہ بن عباسؓ: اللہ نے لڑکوں کو لڑکیوں کے دگنے کا حق دیا ہے۔ والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ، بیوی کو آٹھویں اور چوتھے حصہ کا اور شوہر کو آدھے یا چوتھائی کا حقدار قرار دیا ہے(بخاری: ۹۳۷۶)۔
وصیت، وصی، وقف:
جس مسلمان کے پاس وصیت کے قابل کوئی مال ہو، اس کے لیے درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے(وراثت کے احکام نازل ہونے کے بعد وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ البتہ مقروض کے لیے قرض کی ادائیگی کی وصیت کرنا فرض ہے۔ ورثاء کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں
اور غیر ورثاء کے حق میں کُل ترکہ کے ایک تہائی مال کے برابر وصیت کی جاسکتی ہے۔مؤلف)(بخاری:۸۳۷۲)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ حضرت علی ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی (وصیت پر عملدرآمد کے لیے نامزد کردہ فرد) تھے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:نبی کریم ﷺ نے وفات تک کے آخری لمحات تومیرے پاس گزارے تھے۔ آپ ؐ نے حضرت علی ؓ کو وصی کب بنایا؟ (بخاری:۱۴۷۲)۔ غیر ورثاء کے حق میں صرف ایک تہائی مال کی وصیت کی جاسکتی ہے، اس سے زائد کی نہیں (بخاری:۲۴۷۲؛ ۴۴۷۲)۔ابنِ عمر ؓ کو کوئی وصی بناتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتے(بخاری:۷۶۷۲)۔حضرت عمرؓ نے اپنے وقف میں شرط لگائی تھی کہ اس کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے، دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن اپنے لیے مال جمع نہیں کرسکتا۔وقف کرنے والے کا خود بھی وقف سے فائدہ اٹھانا جائز ہے (بخاری:۷۷۷۲؛ ۸۷۷۲)۔ وصیت صرف ایک تہائی مال کی کرو۔ اپنی اولاد کو محتاج چھوڑجانے سے مالدار چھوڑجانا بہتر ہے (بخاری:۶۳۹۳)۔
یتیم، بیوہ، مسکین:
مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے۔ سورۃ البقرہ آیت: ۲۷۳ میں ہے کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے (بخاری:۹۳۵۴)۔ یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ہوتی ہے (بخاری: ۴۰۳۵)۔فرمانِ حضرت عائشہ ؓ: مالدار ولی اپنی زیر کفالت یتیم کا مال بالکل نہ کھائے البتہ نادار ولی بقدر ضرورت یتیم کا مال استعمال کرسکتا ہے (بخاری:۵۶۷۲)۔ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، جس کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر اس آدمی نے اس یتیم لڑکی سے نکاح کرلیا (بخاری:۳۷۵۴)۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورت النساء میں فرمایا ہے کہ جب تم کم مال و جمال والی یتیم لڑکیوں سے نکاح نہیں کرنا چاہتے ہو تو مال و جمال والی پسندیدہ یتیم لڑکیوں سے بھی نکاح نہ کرو الا یہ کہ انصاف کے ساتھ ان کا مہر پوری طرح ادا کرو (بخاری:۴۷۵۴)۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ النساء کی آیت:۶ یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے لیکن اگر وہ خوشحال ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے آپ کو بالکل روکے رکھے (بخاری:۵۷۵۴)۔میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اسی طرح قریب ہوں گے جیسے شہادت اور درمیانی انگلیاں قریب ہیں (بخاری: ۵۰۰۶)۔بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے (بخاری: ۶۰۰۶؛ ۷۰۰۶)۔
۔ ۔ ۔ تمت بالخیر ۔ ۔ ۔