کلیدی پیغاماتِ بخاری ۔ حصہ اول (1/3)

  کلیدی پیغامات بخاری  

۔ ۔ ۔ نوٹ ۔ ۔ ۔ 

 اِن پیج سے یونی کوڈ میں کنورژن کے دوران احادیث کے تمام نمبرز الٹ گئے ہیں۔ لہٰذا ۱۲۳ کو ۳۲۱ پڑھا جائے۔ جیسے پہلی  حدیث کا نمبر ۹۲۱ لکھا نظر آرہا ہے جو اصل میں  ۱۲۹ ہے۔ ان شاء اللہ نمبرز کی ترتیب کو درست کرنے کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔ 




 اللہ تبارک تعالیٰ 

جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ یقیناََ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری:۹۲۱)۔ اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اس کا عرش پانی پر تھا لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا (بخاری: ۱۹۱۳)۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور مجھے جھٹلایا۔اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کابیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ موت کے بعد اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا (بخاری: ۳۹۱۳)۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کے بعد عرش پر موجود اپنی کتاب لوح محفوظ میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے (بخاری: ۴۹۱۳)۔ حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی (بخاری: ۴۳۲۳)۔اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی مدح خود کی ہے (بخاری:۴۳۶۴؛ ۷۳۶۴)۔اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے (بخاری: ۰۲۲۵؛۳۰۴۷)۔اللہ سے زیادہ کوئی بھی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے(بخاری: ۰۲۲۵؛ ۲۲۲۵؛ ۳۰۴۷)۔ اللہ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب بندہ مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے (بخاری: ۳۲۲۵)۔اللہ نے اپنی ذات کے متعلق اپنی کتاب میں لکھا اور یہ اب بھی عرش پر لکھا ہوا ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے (بخاری: ۴۰۴۷)۔میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں یاد کر تا ہوں۔ جب وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں (بخاری: ۵۰۴۷)۔


اللہ ۔ اعلانِ عام 

 ہمارا پروردگار ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آکر یہ اعلان کرتا ہے: کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں۔ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں (بخاری:۵۴۱۱)۔


اللہ، بندہ ۔ حق 

اللہ کا اپنے بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب بندے یہ کرلیں تو بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے (بخاری: ۰۰۵ ۶)۔


اللہ ۔ ملاقات 

 مقررہ دن تم میں سے ہرکوئی اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہوگا(بخاری: ۵۹۵۳)۔اللہ قیامت کے دن جب اپنی پنڈلی کھولے گا تو اس وقت ہر مومن اور مومنہ سجدہ میں گر پڑیں گے۔ جبکہ دنیا میں دکھاوے کے لیے سجدہ کرنے والوں کی پیٹھ تختہ ہوجائے گی اور وہ سجدہ نہ کرسکیں گے (بخاری: ۹۱۹۴)۔جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے(بخاری: ۷۰۵ ۶؛ ۸۰۵۶)۔جنت میں قوم اور اللہ کے دیدار کے درمیان صرف چادر کبریائی رکاوٹ ہوگی جو اللہ رب العزت کے منہ پر پڑی ہوگی رکاوٹ ہوگی (بخاری: ۴۴۴۷)۔تین طرح کے لوگوں سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا۔ ایک وہ تاجر جو اپنے مال کے بارے میں جھوٹی قسم کھائے کہ اسے اتنے میں خریدا ہے۔ دوسرا وہ جو جو کسی مسلمان کا مال ناحق غصب کرنے کے لیے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے اور تیسرا وہ جو ضرورت سے زائد پانی مانگنے والے کو نہ دے (بخاری: ۶۴۴۷)۔ 


اللہ ۔ رحمت، سایہ 

 کسی شخص کو صرف اس کا عمل نجات نہیں دلاسکے گا الا یہ کہ اللہ اسے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔(بخاری: ۳۶۴۶؛ ۷۶۴۶)۔اللہ نے تمام مخلوق کے لیے رحمت کا صرف ایک فیصد حصہ بھیجا ہے۔ پس اگر کافر کو وہ تمام رحم معلوم ہوجائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے ناامید نہ ہو۔ اور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہوجائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بے خوف نہ ہو (بخاری: ۹۶۴۶)۔ سات قسم کے لوگوں کو اللہ اُس دن اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا(۱)عادل حکمران (۲)جوانی میں رب کی عبادت کرنے والا (۳)جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے (۴) اللہ کے لئے باہم محبت رکھنے والا(۵)حسین عورت کے دعوت گناہ کو خوف خدا سے ٹھکرانے والا(۶)پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے والا(۷)تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے آنسو بہانے والا (بخاری:۰۶۶؛ ۳۲۴۱؛ ۶۰۸۶)۔اللہ کو یادمیں تنہائی میں، جس کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے تواسے اللہ اپنے سایہ میں پناہ دے گا (بخاری: ۹۷۴۶)۔


اللہ ۔ صبر 

  اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انہیں تندرستی اور رزق بھی دیتا ہے (بخاری:  ۹۹۰۶)۔تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور پھر بھی اللہ انہیں معاف کرتا اور روزی دیتا ہے (بخاری: ۸۷۳۷)۔


 اللہ ۔ قسم 

خبر دار!اللہ تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ پس اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے (بخاری: ۹۷۶۲؛ ۶۳۸۳؛ ۸۰۱۶؛  ۶۴۶۶ تا ۸ ۴۶۶؛ ۱۰۴۷)۔ حضرت انس بن نضرؓ کی بہن نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑدئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص میں ان کے دانت توڑنے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلہ پر انس بن نضرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم میری بہن کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔ پھر مدعی نے قصاص چھوڑ کر تاوان لینے پر راضی ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کرتا ہے(بخاری:۳۰۷۲؛۶۰۸۲؛۱۱۶۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھانے والے کو سچا کرنے کا حکم فرمایا (بخاری: ۴۵۶۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بھی قسم کھاتے تھے: قسم ہے اس کی جو دلوں کا پھیرنے والا ہے (بخاری: ۱۹۳۷)۔ 


اللہ ۔ جھوٹی قسم 

جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداََ کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے (بخاری: ۳۶۳۱)۔جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والے پر روز قیامت دردناک عذاب ہوگا  (بخاری:۸۵۳۲؛ ۹۶۳۲)۔جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ناجائز طریقے پر حاصل کیا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا (بخاری:۹۵۶۶؛ ۶۷۶۶؛ ۷۷۶۶؛ ۶۵۳۲؛ ۷۵۳۲؛  ۹۶۳۲؛ ۶۱۴۲؛ ۷۱۴۲؛۳۸۱۷)۔ 


اللہ ۔ قسم، کفارہ 

 اللہ کی قسم! ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں کوئی قسم کھالوں اور بعد میں مجھ پرکوئی بہتر چیز واضح ہوجائے تو پھر میں وہی نہ کروں جو بہتر ہے۔ میں قسم توڑ کر بہتر کام کروں گا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کروں گا (بخاری: ۳۳۱۳؛۵۸۳۴؛۸۱۵۵؛ ۹۴۶۶)۔ جب قسم کے کفارہ کا حکم نازل ہوا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی قسم کے خلاف دوسری چیز بہتر معلوم ہوتی تو وہ اللہ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتے (بخاری: ۴۱۶۴)۔اپنے گھر والوں کے معاملہ میں اپنی کسی قسم پر اڑا رہنا، اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنے سے بڑا گناہ کرتا ہے (بخاری: ۵۲۶۶؛ ۶۲۶۶)۔ لات اور عزیٰ کی قسم کھانے والے کو تجدید ایمان کے لیے کہنا چاہئے: لا الہ الا اللہ (بخاری:۰۶۸۴)۔ اگر تم قسم کھالو اور پھر اس کے سوا کوئی اور بہتر بات نظر آئے توو ہی کرو جو بہتر ہو اور قسم کا کفارہ ادا کردو (بخاری: ۱۲۷۶؛ ۲۲۷۶)۔ 


اللہ ۔ صفاتی  نام 

اللہ کے نناوے (۹۹)نام ہیں۔ جو ان سب کو یاد رکھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا (بخاری:۶۳۷۲؛ ۰۱۴۶؛۲۹۳۷)۔


اُمت ۔ اُمتیں 

ہم دنیا میں تمام اُمتوں کے بعد آنے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے۔(بخاری: ۶۷۸؛ ۶۹۸)۔ہم بعد میں آنے والے لوگ ہیں لیکن مرتبہ میں سبقت لے جانے والے ہیں (بخاری:۶۵۹۲)۔ہم آخری اُمت ہیں لیکن قیامت کے دن جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے (بخاری: ۴۲۶۶)۔ ہم آخری امت ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے رہنے والے ہیں (بخاری: ۷۸۸۶)۔ یہ اُمت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی۔ حتیٰ کہ جب اللہ کا حکم یعنی قیامت آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے (بخاری: ۶۱۱۳)۔میرے سامنے تمام اُمتیں لائی گئیں تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پر چھائی ہوئی ہے۔ مجھے بتلایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ موسیٰ  ؑ ہیں (بخاری: ۰۱۴۳)۔تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کردئے جاتے تھے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے، اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔(بخاری: ۲۱۶۳؛ ۲۵۸۳)۔ 


اُمت محمدیؐ ۔ خصوصیت 

میری اُمت کے لیے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں (بخاری: ۲۲۱۳)۔ میری امت میں سے ستّر ہزار کی ایک جماعت جنت میں ایک ہی وقت میں داخل ہوگی جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے (بخاری: ۷۴۲۳)۔مجھے اُمید ہے کہ تمام اہل جنت کے آدھے لوگ میری اُمت میں سے ہوں گے(بخاری: ۸۴۳۳)۔جنتیوں کی نصف آبادی میری اُمت پر مشتمل ہوگی۔ یہ سُن کر صحابہ ؓ نے تعرہ تکبیر بلند کیا (بخاری:۱۴۷۴)۔میری اُمت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب ہی رہیں گے یہاں تک کہ جب قیامت یا موت آئے گی تب بھی وہ غالب ہی ہوں گے(بخاری: ۰۴۶۳؛ ۱۱۳۷)۔ میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ کی شریعت پر قائم رہے گا۔ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی(بخاری: ۱۴۶۳؛ ۰۶۴۷)۔میری اُمت کو خیالات فاسدہ معاف ہے جب تک وہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے نہ ادا کرے (بخاری: ۸۲۵۲؛ ۹۶۲۵)۔ اللہ نے میری امت کی ان غلطیوں کو معاف کیا ہے جن کا صرف دل میں وسوسہ گزرے یا دل میں اسے کرنے کی خواہش پیدا ہو مگر اس کے مطابق نہ عمل کرے اور نہ کوئی بات کرے (بخاری: ۴۶۶۶)۔گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے سوامیری تمام اُمت کو معاف کردیا جائے گا (بخاری: ۹۶۰۶)۔ہر نبی کو ایک مقبول دعا حاصل ہوتی ہے۔میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے(بخاری: ۴۰۳۶؛ ۵۰۳۶؛ ۴۷۴۷)۔میری امت کے ستّر (۰۷) ہزار ایسے لوگ بے حساب کتاب جنت میں جائیں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں (بخاری: ۲۷۴۶)۔میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے افق کی طرف ایک زبر دست جماعت دکھائی اور فرمایا: یہ آپ کی امت ہے۔ اس کے آگے آگے جو ستّر (۰۷) ہزار کی تعداد ہے، ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے (بخاری: ۱۴۵ ۶؛ ۲۴۵۶)۔


 اُمت محمدیؐ ۔ غیر جنتی

 میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا گویا اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا (بخاری: ۰۸۲۷)۔


امت ۔ اسباب تباہی 

اختلاف نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہوگئے(بخاری:۰۱۴۲)۔تم لوگ پہلی امتوں یعنی یہود و نصاریٰ کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کروگے یہاں تک کہ اگر وہ کسی ساہنہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے(بخاری: ۶۵۴۳)۔ میری اُمت میں ایسے بُرے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا، ریشمی لباس، شراب اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور امراء فقیروں کی ضرورت پورا کرنے کی بجائے انہیں ٹال دیا کریں گے۔ اللہ ان کی سرکشی کی وجہ سے انہیں ہلاک کردے گا اور بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سؤر کی صورتوں میں مسخ کردے گا (بخاری: ۰۹۵۵)۔ تم سے پہلے کی امتیں غیر ضروری سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔(بخاری: ۸۸۲۷)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت اگلی امتوں یعنی پارسی اور رومیوں کے مطابق نہیں ہوجائے گی۔(بخاری: ۹۱۳۷)۔تم اپنے سے پہلی امتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی ایک ایک بات میں اتباع کروگے(بخاری: ۰۲۳۷)۔مسیلمہ اپنے حامیوں کے ساتھ مدینہ میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اگر تونے اسلام سے پیٹھ پھیرا تو اللہ تجھے ہلاک کردے گا (بخاری: ۱۶۴۷)۔ 


انسان ۔ پیدائش 

 تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس چالیس دنوں کے تین مرحلوں (یعنی ایک سو بیس دنوں یا چار ماہ) میں ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ اس بچہ کا عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور نیک ہے یا بد لکھ لیتاہے، تب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے۔ (بخاری: ۸۰۲۳؛۲۳۳۳؛۴۹۵ ۶؛ ۵۹۵۶؛ ۴۵۴۷)۔  جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ تم بھی اس سے محبت رکھو۔ پھر جبرئیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو یہ بات بتلاکر کہتے ہیں کہ تم سب لوگ اس سے محبت رکھو۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں (بخاری: ۹۰۲۳)۔مرد و زن کے ملاپ کے وقت اگرمرد کی منی پہل کرجاتی ہے تو بچہ مرد کی شکل و صورت پر اور اگر عورت کی منی پہل کرجائے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے (بخاری: ۹۲۳۳)۔اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم کے لیے ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے۔ پھر جب اللہ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے رب! یہ مرد ہے یا عورت؟ یہ بد ہے یا نیک؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی مدت زندگی کتنی ہے؟ چنانچہ یہ تمام تفاصیل اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں (بخاری: ۳۳۳۳)۔عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر کوئی اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار اسے توڑ کے رہے گا اور اگر اسے یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو (بخاری: ۱۳۳۳)۔اللہ جب مخلوق کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہوکر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ نے رحم سے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے، میں بھی اسے توڑوں۔ رحم نے عرض کیا: ہاں میرے رب! اللہ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا (بخاری:۰۳۸۴)۔  جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے تو اس نے خرچ کرنے میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے۔پھر اس نے لوح محفوظ میں ہرچیز لکھ دی۔ اللہ کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ اٹھاتا جھکاتا رہتا ہے  (بخاری: ۱۱۴۷؛ ۸۱۴۷؛ ۹۱۴۷)۔اللہ نے جب مخلوق پیدا کی تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے بڑھ کر ہے  (بخاری: ۲۲۴۷؛ ۳۵۴۷)۔


اوامر و نواہی ۔ نیکی و ثواب 

سب سے افضل عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، اس کے بعد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اوراس کے بعد حج مبرور ہے۔ (بخاری:۶۲)چار باتوں کا حکم:۱۔ شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۲۔ نماز قائم کرنا ۳۔ زکوٰۃ دینا ۴۔ مالِ غنیمت میں پانچواں حصہ ادا کرنا (بخاری:۳۲۵)۔ انسان کے اہل خانہ، مال، اولاد اور پڑوسی سب فتنہ یعنی آزمائش کی چیزیں ہیں اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی باتوں کا حکم اور بُری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں (بخاری:۵۲۵)۔اللہ کے نزدیک محبوب اعمال:۱۔ وقت پر نماز پڑھنا ۲۔والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا ۳۔اللہ کی راہ میں جہاد کرنا(بخاری:۷۲۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وہ نیک کام پسند تھا، جو ہمیشہ کیا جائے (بخاری:۲۳۱۱)۔سات کام کرنے کا حکم: جنازہ کے ساتھ چلنا، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، قسم پوری کرنے، سلام کا جواب دینے اور چھینک پر یر حمک اللہ کہنے کا حکم ہے(بخاری:۹۳۲۱؛ ۰۴۲۱؛ ۵۴۴۲؛۵۷۱۵؛ ۵۳۶۵؛ ۰۵۶۵)۔   جنت میں لے جانے والے اعمال: اللہ کی عبادت کرو۔ اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔رمضان کے روزے رکھو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو (بخاری:۶۹۳۱؛ ۷۹۳۱)۔چار باتوں کا حکم:اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ (بخاری: ۸۹۳۱)۔  دین کے کاموں میں افضل کام وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے(بخاری:۲۸۷۲)۔ اپنے وطن واپس جانے والے دو صحابیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت: ہر نماز کے وقت اذان پکارنا اور اقامت کہنا۔ اور تم دونوں میں جو بڑا ہو وہ نماز پڑھائے (بخاری:۸۴۸۲)۔ قبیلہ عبد القیس کے مسلمانوں کے وفد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس بات پر ایمان لاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو اور مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) اللہ کے لیے نکالو۔ آپؐ نے انہیں دبا، نقیر، حنتم اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا (بخاری:۵۹۰۳؛ ۲۹۴۳؛  ۰۱۵۳)۔ جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی اور ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ اس کا بدلہ پائے گا (بخاری: ۶۴۶۳)۔ تم سات سمندر پار بھی عمل کرو تو اللہ تمہارے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا (بخاری:۳۲۹۳)۔  جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ اس کے لیے ایک نیکی لکھ ی جاتی ہے۔ اور جس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس بھی زیادہ تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد عمل بھی کرلیا  تو اس کے لیے صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے (بخاری: ۱۹۴۶)۔ جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو۔ اور جب کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ، جس حد تک تم میں طاقت ہو (بخاری: ۸۸۲۷)۔ 


 اوامر و نواہی ۔ برائی، گناہ 

سات چیزوں یعنی چاندی کے برتن، سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیباج کپڑے، قسی اور استبرق سے منع کیا گیا ہے (بخاری:۹۳۲۱ ؛  ۰۴۲۱)۔ پانچ باتوں کی ممانعت: کدو کے تونبی، سبز رنگ کے مرتبان حنتم، کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا برتن فقیر اور بصرہ کے زفت تیل لگا ہوا برتن استعمال کرنا(بخاری:۸۹۳۱)۔ اللہ نے تم پروالدین کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، واجب حقوق کی ادائیگی نہ کرنا اور دوسروں کا مال ناجائز طریقہ سے دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ فضول بکواس کرنے، کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے (بخاری:۸۰۴۲)۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں (بخاری:۳۵۶۲؛ ۴۵۶۲)۔سات گناہوں سے بچو: (۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (۲)جادو کرنا (۳) ناحق کسی کی جان لینا (۴) سود کھانا(۵) یتیم کا مال کھانا(۶) لڑائی سے بھاگ جانا(۷) پاک دامن ایمان والیوں پر تہمت لگانا (بخاری:۶۶۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبیلہ عبد القیس کو کدو کے تونبے، کریدی ہوئی لکڑی کے برتن، سبز لاکی برتن اور روغنی برتن میں کھجور بھگو کر نبیذ مشروب بنانے سے منع فرمایا (بخاری:۸۶۳۴؛ ۹۶۳۴)۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد بھوک کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اور پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا بڑے گناہ ہیں (بخاری: ۷۷۴۴؛ ۱۶۷۴؛ ۱۱۸۶؛ ۱۶۸۶؛۱۰۰۶؛ ۰۲۵۷؛ ۲۳۵۷)۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے (بخاری:۷۹۴۴)۔


 بُرائی، گناہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے ایک گناہ کااقرار کیا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ بے شک نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں نصیحت ماننے  والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے (ھود:۴۱۱) صحابی کے پوچھنے پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہر انسان کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے (بخاری: ۷۸۶۴)۔  جو شخص اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ دینا چاہئے (بخاری:۰۶۸۴)۔ ریشم و دیبا نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتن میں کچھ کھاؤ پیو۔ یہ چیزیں کفار کے لیے دنیا میں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں (بخاری: ۶۲۴۵؛ ۲۳۶۵؛ ۳۳۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں سے منع فرمایا:سونے کی انگوٹھیوں سے، چاندی کے برتن میں پینا، ریشمی گدا میثر، مصری ریشمی لباس قسی، ریشم و دیبا اور استبرق پہننا (بخاری: ۵۷۱۵؛۵۳۶۵؛ ۰۵۶۵)۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا سب سے بڑے گناہ ہیں (بخاری: ۳۷۲۶)۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق کسی کی جان لینا اور قصداََ  جھوٹی قسم کھاناکبیرہ گناہ ہیں (بخاری: ۵۷۶۶)۔  اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، کسی کی ناحق جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا گناہِ کبیرہ ہیں (بخاری: ۱۷۸۶؛ ۹۱۹۶؛ ۰۲۹۶)۔ برائی کے ارادے پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔ برائی کا ارادہ کرکے اللہ کے خوف سے برائی نہ کرنے پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور برائی پر عمل کرنے پر برائی کے برابر گناہ لکھا جاتا ہے۔ نیکی کے ارادے پر بھی ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور اس پر عمل کرنے پر دس گنا سے سات سو گنا تک نیکی لکھی جاتی ہے (بخاری: ۱۰۵۷) ہر گناہ کا ایک کفارہ ہے جس سے وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے (بخاری: ۸۳۵۷)۔ سات مہلک گناہوں سے بچو: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی کی جان لینا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامنوں عورتوں پر تہمت لگانا (بخاری: ۷۵۸۶)۔


اہل کتاب ۔ یہودی، عیسائی 

اُس اہلِ کتاب کے لیے دُگنااجر ہے جو اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے(بخاری:۷۹)۔اہل کتاب کو اسلام لانے پر دُہرا اجر ملے گا کہ پہلے اپنے نبی پر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا (بخاری:۱۱۰۳)۔ جو پہلے عیسیٰ  ؑ پر ایمان رکھتا تھا، پھر مجھ پر ایمان لایا تو اسے دوگنا ثواب ملے گا (بخاری: ۶۴۴۳)۔  جن معاملات کے متعلق اللہ کا کوئی حکم نہ ملا ہوتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے (بخاری: ۸۵۵۳؛ ۴۴۹۳)۔تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو: ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے (بخاری:۵۸۴۴)۔اہل کتاب کی نہ تعلیمات کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا (بخاری: ۲۶۳۷؛ ۲۴۵۷)۔اگر کوئی اور برتن دستیا ب نہ ہو تب اہل کتاب کے برتن کو خوب دھو کر اس میں کھا سکتے ہو (بخاری: ۸۷ ۴۵؛ ۸۸۴۵؛ ۶۹۴۵)۔


ایمان 

 ایمان کی ساٹھ سے زائد شاخوں میں شرم و حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (بخاری:۹)تم میں سے کوئی اُس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی نہ چاہے جو وہ اپنی ذات کے لئے چاہتا ہے۔ (بخاری:۳۱)۔ تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد سے بھی زیادہ میں (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کو محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری:۴۱)جس میں تین خصلتیں پیدا ہوجائیں:اُس نے ایمان کی مٹھاس کوپالیا۔اول اللہ اور اُس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائے۔ دوم وہ کسی انسان سے محض اللہ کے لئے محبت رکھے۔ سوم وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا بُرا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو بُرا جانتا ہے۔ (بخاری:۶۱) انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ (بخاری:۷۱)۔ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ۔ اللہ کے فرشتوں کے وجود پر، اللہ سے ملاقات کے برحق ہونے پر، اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنے پر ایمان لاؤ۔(بخاری:۰۵)جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کردیتا ہے۔ (بخاری:۸۲۱) اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا افضل عمل ہے (بخاری:۸۱۵۲)۔  ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ (بخاری: ۷۷۷۴)۔تین خصوصیات کا حامل ایمان کی شیرینی کو پالے گا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے سب سے زیادہ عزیز ہوں۔ دوسرے وہ کسی سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسرے اسے کفر کی طرف لوٹ کر جانا اتنا ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینک دیا جانا (بخاری: ۱۴۹۶)۔


ایمان ۔ اسلام 
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے(۱)گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا(۳) زکوٰۃ  ادا کرنا(۴)حج کرنا(۵) رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری:۸)۔بہتر اسلام لوگوں کو کھانا کھلانا، جاننے اور نہ جاننے والوں کو سلام کرنا ہے۔ (بخاری:۲۱)۔ بے شک دین آسان ہے اور جو دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔ اپنے عمل میں پختگی اور میانہ روی اختیار کرو۔ (بخاری:۹۳)۔ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نماز قائم کرو۔ فرض زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ (بخاری:۰۵)۔ حدیبیہ میں رات بارش ہوئی اورصبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور کہا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے، جس نے کہا کہ اللہ کے فضل سے بارش ہوئی۔ وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا۔ دوسرا کافر ہے، جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے بارش ہوئی۔ اس نے میرا کفر کیا اور تاروں پر ایمان لایا۔ (بخاری:۸۳۰۱)۔ضمام بن ثعلبہ کے اسلام کے متعلق پوچھنے پر نبی ﷺ کا جواب: دن بھر میں پانچ نمازیں، ماہ رمضان کے روزے اور مقررہ زکوٰۃ ادا کرنا ہی فرض ہے الا یہ کہ تم کچھ نفلی نماز، نفلی روزے اور نفلی صدقات ادا کرو (بخاری:۸۷۶۲)۔ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا (بخاری: ۴۱۵۴)۔ اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو (بخاری:۷۷۷۴)۔  احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماََ رکھو کہ وہ توتمہیں دیکھ ہی رہا ہے (بخاری:۰۵؛ ۷۷۷۴)۔نبی کریم ﷺکے ساتھ بیس دنوں تک رہنے والے اور مدینہ سے باہر سے آئے ہوئے ہم عمر نوجوانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو واپس جاؤ، اپنے ملک والوں کو دین سکھاؤ، اسی طرح نماز پڑھو جیسا تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں بڑا ہو، وہ امامت کرائے (بخاری: ۸۰۰۶)۔


ایمان۔ اسلام، بچے 
ہر بچہ فطرت (دین اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔(بخاری:۸۵۳۱؛ ۹۵۳۱؛۵۸۳۱؛ ۵۷۷۴؛ ۹۹۵ ۶)۔ ابن شہاب اُس بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھتے تھے جو حرام کا ہو بشرطیکہ اس کے والدین یا کم از کم باپ مسلمان ہونے کا دعویدار ہو۔(بخاری:۸۵۳۱)۔اگر پیدائش کے وقت بچہ کے رونے کی آواز سنائی دے اور پھروہ مرجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آئے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی (بخاری: ۸۵۳۱)۔ مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اللہ نے جب انہیں پیدا کیا تھا، اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے (بخاری:۳۸۳۱؛ ۴۸۳۱)۔ مشرکین کی اولاد کے بارے میں اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ بڑے ہوکر کیا عمل کرتے (بخاری: ۷۹۵ ۶؛ ۸۹۵۶؛۰۰۶۶)۔ اگر کسی مسلمان کے تین نابالغ بچے وفات پاجائیں اللہ ان بچوں کے ماں باپ کو بھی جنت میں داخل کرے گا (بخاری:۸۴۲۱)۔جس عورت کے تین یا دو نابالغ بچے مرجائیں تو وہ بچے اپنی ماں کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں (بخاری:۱۰۱؛ ۲۰۱؛  ۹۴۲۱ تا ۱۵۲۱)۔


آخرت۔ جنت 
 جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ کے حکم سے ایسے لوگوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا جس کے دل میں رائی کے برابربھی ایمان ہوگا۔ (بخاری:۲۲)  جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ دوزخ سے ضرور نکلے گا۔ (بخاری:۴۴)۔ نماز کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف والی دیوار پر جنت اور جہنم کی تصویریں دکھلائی گئیں (بخاری: ۹۴۷)۔میری اُمت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو خواہ وہ زنا اور چوری میں ہی کیوں نہ ملوث رہا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تو وہ جہنم میں جائے گا(بخاری:۷۳۲۱؛ ۸۳۲۱)۔ایک مرتبہ خواب میں عالم بالا کی سیر کے دوران پھر آپ ؐ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا جو لوگوں کے نابالغ بچوں کے ساتھ ایک باغ میں ایک بہت بڑے درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر جنت میں آپ ؐ کوعام مومنوں کے گھر، شہداء کے گھر اور خود نبی ﷺ کے گھر دکھلائے گئے۔ (بخاری:۶۸۳۱)۔ایک اعرابی کے سوالات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں اور ماہ رمضان کے روزے فرض کئے ہیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے کچھ نفل نمازیں پڑھ لو اور کچھ نفل روزے رکھ لو۔اسی طرح زکوٰۃ اور دیگر فرائض سن کر اس اعرابی نے کہا:اللہ کی قسم! جتنا اللہ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے، اس میں نہ کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا۔ اس کے جانے کے بعد نبی کریمﷺ نے فرمایا:اگر اس نے سچ کہا ہے توجنت میں جائے گا(بخاری:۱۹۸۱)۔جبرئیل  علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: تمہاری اُمت کا جو شخص بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر فوت ہوا، وہ جنت میں جائے گا (بخاری:۸۸۳۲)۔ اللہ کی قسم!اس دنیا کے خوبصورت نازک ریشمی جبوں سے جنت میں سعد بن معاذکے رومال بھی بہتر ہوں گے (بخاری:۵۱۶۲؛ ۸۴۲۳؛ ۹۴۲۳)۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا خواہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرے یا اسی جگہ میں پڑا رہے، جہاں وہ پیدا ہوا تھا (بخاری:۰۹۷۲)۔اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجے تیار کئے ہیں اور ان کے دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ہے (بخاری:۰۹۷۲)۔ جب اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کے وسط میں جنت کا سب سے بلند درجہ ہے (بخاری:۰۹۷۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہیدوں کے لیے تیار کردہ خوبصورت اور پاکیزہ گھر دکھلائے گئے (بخاری:۱۹۷۲)۔


جنت، جنتی:جنت میں ایک کمان کے برابر کی جگہ دنیا کی ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے (بخاری:۳۹۷۲؛ ۶۹۷۲)۔ اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور اور خوشبو سے معطر ہوجائیں (بخاری:۶۹۷۲)۔ جنت میں کسی کے لیے ایک کوڑے دان جتنی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے (بخاری:۱۹۸۲؛ ۵۱۴۶)۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر تعجب کریں گے جو بیڑیوں سمیت جنت میں داخل ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں بطور کافر پکڑ کر بیڑیوں میں قید کیا گیا پھر وہ مسلمان ہوگئے (بخاری:۰۱۰۳)۔ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاسق و فاجر سے بھی کرا لیتا ہے (بخاری:۲۶۰۳)۔اللہ کے راستہ میں جو شخص کسی چیز کا بھی جوڑا دے تو جنت کے چوکیدار فرشتے اسے بلائیں گے کہ اے فلاں! اس دروازے سے اندر آجا (بخاری: ۶۱۲۳)۔ میں نے خواب میں جنت دیکھی۔ ایک محل کے کنارے ایک عورت وضو کررہی تھی۔ فرشتوں نے بتلایا کہ یہ عمر بن خطاب ؓ کا محل ہے۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی تو میں وہاں سے فوراََ لوٹ آیا  (بخاری: ۲۴۲۳)۔جنتیوں کا خیمہ ایک خولدار موتی ہے جس کی بلندی اوپر کو تیس میل (ایک دوسری روایت ساٹھ میل) تک ہے۔ اس کے ہر کنارے پر ایک بیوی ہوگی، جسے دوسرے نہ دیکھ سکیں گے (بخاری: ۳۴۲۳)۔جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے گروہ کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح اور اس کے بعد داخل ہونے والے گروہ کے چہرے سب سے زیادہ چمکدار ستارے کی طرح روشن ہوں گے۔وہ نہ تھوکیں گے، نہ بول و براز کریں گے اور نہ ہی ان کی ناک سے کوئی آلائش نکلے گی۔ ان کے برتن سونے کے اور انگیٹھی کا ایندھن عود ہوگا۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا۔ ہر فرد کی دو بیویاں ہوں گی۔ جنتیوں کا آپس میں کوئی اختلاف اور بغض نہ ہوگا۔ وہ صبح شام اللہ کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہیں گے۔(بخاری: ۵۴۲۳؛ ۶۴۲۳؛ ۴۵۲۳؛ ۷۲۳۳)۔جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے (بخاری: ۰۵۲۳)۔جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک بھی چلے تو اسے طے نہ کرسکے گا (بخاری: ۱۵۲۳؛ ۲۵۳۲)۔ جنت میں ایک کمان کے برابر کی جگہ اس پوری دنیا سے بہتر ہے (بخاری: ۳۵۲۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمسن بیٹے ابراہیم ؓکی وفات پر فرمایا:اسے جنت میں ایک دودھ پلانے والی انا کے حوالہ کردیا گیا ہے (بخاری: ۵۵۲۳)۔


جنت، جنتی: جنت کے آٹھ دروازوں میں ایک دروازے کا نام ریان ہے، جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔(بخاری: ۷۵۲۳)۔ اہل جنت کی دعوت کا سب سے پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی ہوگی (بخاری: ۹۲۳۳)۔ جس نے بھی ان باتوں کی گواہی دی اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے، محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، عیسیٰ  ؑ اللہ کے بندے، رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے پہنچا دیا تھا اللہ نے مریم تک اور ایک روح ہیں، اللہ کی طرف سے اور جنت دوزخ حق ہے (بخاری: ۵۳۴۳)۔سابقہ زمانے کے ایک شخص کولین دین میں خوشحال لوگوں کو مہلت دینے اور تنگ ہاتھ والوں کو معاف کرنے کے سبب اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔(بخاری: ۱۵۴۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جنت میں ابو طلحہ ؓ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا، حضرت بلال ؓ کے قدموں کی چاپ سنی،حضرت عمرؓ  کا محل دیکھ کر دل میں خیال آیا اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں۔ لیکن پھر مجھے عمرؓ کی یاد آگئی تو رک گیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا (بخاری: ۹۷۶۳؛ ۰۸۶۳)۔ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کلمہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ہے یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا اسی وقت ممکن ہے، جب اللہ کی مدد شامل ہو (بخاری: ۵۰۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں جنت عدن کی سیر کرائی گئی جہاں آپ کا مکان ہے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے لوگ دکھلائے گئے جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا جسم بدصورت تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے اور بُرے سب کام کئے تھے اور اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ ان لوگوں نے فرشتوں کے کہنے پر جنت کے ایک نہر میں غوطہ لگایا تو ان کی بدصورتی جاتی رہی (بخاری:۴۷۶۴)۔ جنت کے دوباغ میں برتن اور دوسری تمام چیزیں چاندی کی ہوں گی جبکہ دو دوسرے باغ میں برتن اور دوسری تمام چیزیں سونے کی ہوں گی(بخاری: ۸۷۸۴)۔ جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہوگا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہوگی۔ اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہوگی۔ ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہ دیکھ سکے گی  اور مومن ان کے پاس باری باری جائیں گے(بخاری:۹۷۸۴؛ ۰۸۸۴)۔ جنت والوں کو اللہ پاک کے دیدار میں صرف ایک جلال کی چادر حائل ہوگی جو اس کے چہرہ مبارک پر پڑی ہوگی (بخاری:۰۸۸۴)۔ جنت میں ایک درخت اتنا طویل ہوگا کہ سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا، پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگا (بخاری:۱۸۸۴)۔


جنت، جنتی: جنتی آدمی دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے۔ اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھالے تو اللہ اسے ضرور پوری کردیتا ہے۔ (بخاری:۸۱۹۴)۔ جس نے بھی کلمہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کو مان لیا اور پھر وہ اسی پر مرا تو وہ جنت میں جائے گا (بخاری: ۷۲۸۵)۔ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو تو یہ اعمال تمہیں جنت میں لے جائیں گے (بخاری: ۳۸۹۵)۔ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا (بخاری: ۴۸۹۵)۔میں تمہیں جنت والوں کی خبر دیتا ہوں، ہر کمزور و تواضع کرنے والا اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالے تو اللہ اس کی قسم پوری کرے۔  (بخاری: ۱۷۰۶)۔ قبیلہ عبد القیس کے وفد نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! آپ کچھ ایسی باتیں بتادیں جس پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کو ادا کرو (بخاری: ۶۷۱۶)۔جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔(بخاری: ۸۶۲۶)۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے (بخاری: ۴۸۳۶؛۹۰۴۶)۔جو مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے، میں اس کے لئے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں (بخاری: ۴۷۴۶)۔مجھے امید ہے کہ اہل جنت کی نصف آبادی میری اُمت پر مشتمل ہوگی (بخاری: ۸۲۵ ۶)۔ جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا (بخاری: ۵۳۵ ۶)۔ اللہ جنتیوں سے فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضامندی کو دائمی کردوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا (بخاری:۹۴۵ ۶)۔ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلنے کے بعد بھی اسے طے نہیں کرسکے گا (بخاری: ۲۵۵ ۶؛ ۳۵۵۶)۔ جنت والے اپنے اوپر کے درجوں کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم لوگ آسمان میں ستاروں کو دیکھتے ہو (بخاری: ۵۵۵۶)۔ اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کردے اور ان تمام کو خوشبو سے بھر دے (بخاری: ۸۶۵ ۶)۔ جنت میں جو بھی داخل ہوگا اسے جہنم بھی دکھایا جائے گا کہ اگر نافرمانی کی ہوتی وہاں اسے جگہ ملتی تاکہ وہ اور شکر کرے۔ اور جو بھی جہنم میں داخل ہوگا اسے جنت بھی دکھایا جائے گا کہ اگر اچھے عمل کئے ہوتے تو وہاں جگہ ملتی تاکہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو (بخاری: ۹۶۵ ۶)۔


جنت، جنتی: جنت کے سب سے کم درجے والا شخص  وہ ہوگا جو جہنم سے گھنٹوں کے بل گھسٹتا ہوا نکلے گا اور اللہ اسے کہے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ تمہیں دنیا کا دس گنا دیا جاتا ہے(بخاری: ۱۷۵ ۶)۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ (طاقت و قوت اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں)جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(بخاری: ۰۱۶۶؛ ۶۸۳۷)۔ دنیوی ریشمی کپڑے کا بہترین ٹکڑے سے بھی بہتر سعد ؓ کا جنتی رومال ہے (بخاری: ۰۴۶۶)۔ مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھے لوگ میری امت ہی میں سے ہوں گے (بخاری: ۲۴۶۶)۔ بہشتی ہر وہ ناتواں ہے جسے لوگ کمزور اور حقیر خیال کرتے ہوں،جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھالیں تو اللہ اسے سچا کردے اور اہل جہنم ہر وہ موٹی گردن والا بد خلق اور تکبر والا ہے (بخاری: ۷۵۶۶)۔ جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں جائے گا اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا (بخاری: ۳۸۶۶)۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ اور سبحان اللہ العظیم ایسے دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے اور آخرت کے میزان پر بھاری ہیں (بخاری: ۲۸۶۶)۔ جس نے مجھے دونوں ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ) اور دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دی تو میں اسے جنت میں جانے کی ضمانت دلاتا ہوں (بخاری: ۷۰۸۶)۔ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے (بخاری: ۴۱۹۶)۔  نبی کریم ﷺ ایک باغ میں تھے جبکہ دروازے پر ابو موسیٰ ؓ بطور نگراں تعینات تھے۔ وہاں باری باری  حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم تشریف لائے تو نبی کریم ﷺ نے تینوں کو باغ میں آنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں جنت کی بشارت سنانے کا بھی حکم دیا (بخاری: ۲۶۲۷)۔  جنت میں جگہ باقی رہ جائے گی یہاں تک کہ اللہ اس کے لیے ایک اور مخلوق پیدا کردے گا اور وہ لوگ جنت کے باقی حصے میں رہیں گے (بخاری: ۴۸۳۷)۔ جنت کے سو درجے ہیں۔ پس تم اللہ سے جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ وہ بلند ترین ہے اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں (بخاری: ۳۲۴۷)۔ چودھویں کے چاند کی طرف دیکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے رب کو صاف صاف اسی طرح دیکھوگے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو (بخاری: ۴۳۴۷ تا ۷۳۴۷)۔ تم میں سے ہر شخص سے اس کا رب بغیر کسی ترجمان اور حجاب کے کلام کرے گا (بخاری: ۳۴۴۷)۔ دو جنتوں کا سارا سامان چاندی کا جبکہ دو جنتوں کا سارا سامان سونے کا ہوگا۔ (بخاری: ۴۴۴۷)۔جبرئیل علیہ السلام نے مجھے بشارت دی ہے کہ جو شخص اس حال میں مرے گا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں جائے گا (بخاری: ۷۸۴۷)۔ حدیث قدسی: جنت میں، مَیں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا (بخاری: ۸۹۴۷)۔ جنت میں سب سے بعد میں داخل ہونے والا اور دوزخ سے سب سے بعد میں نکلنے والا وہ شخص ہوگا جو گھسٹ کر نکلے گا اور اس کے لیے بھی دنیا سے دس گنا بڑی جنت ہوگی (بخاری: ۱۱۵۷)۔ اہل جنت میں سے ایک شخص کھیتی باڑی کرنا چاہے گا اور اللہ کی اجازت سے بیج ڈالے گا تو پلک جھپکتے فصل اگ کر کٹ جائے گی اور غلہ کا ڈھیر لگ جائے گا (بخاری: ۹۱۵۷)۔


جنتی۔ پیشن گوئی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے اندر کنویں کی منڈیر پر تشریف فرما تھے اور حضرت ابو موسیٰ ؓ دروازے پر دربانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ سب سے پہلے ابوبکر  ؓ ملنے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:انہیں آنے دو اور جنت کی خوش خبری بھی سنادو۔دوسری مرتبہ حضرت عمرؓ اور تیسری مرتبہ حضرت عثمانؓ آئے تب بھی آپؐ نے یہی کہلوایا۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم تو نبی کریمﷺ کے ساتھ ہی دائیں بائیں بیٹھ گئے تھے لیکن جب حضرت عثمانؓ آئے تو چبوترہ پر بیٹھنے کی جگہ نہ پاکر وہ آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے (بخاری:۴۷۶۳؛ ۳۹۶۳؛۵۹۶۳؛ ۶۱۲۶)۔


جنت۔ دوزخ: میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں غریبوں کی کثرت اور جہنم میں جھانک کر دیکھا تو وہاں عورتوں کی کثرت نظر آئی  (بخاری: ۱۴۲۳؛  ۹۴ ۴۶؛ ۶۴۵ ۶؛ ۷۴۵۶)۔ جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے حضوربحث کی۔ دوزخ نے کہا کہ میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اس پر اللہ نے جنت سے کہا: تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا: تو عذاب ہے۔ تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں (بخاری:۰۵۸۴؛ ۹۴۴۷)۔ جنت اور دوزخ تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے (بخاری: ۸۸۴۶)۔ دوزخ خواہشات نفسانی سے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے (بخاری: ۵۸۴۶)۔ جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں پکار کر بتلایا جائے گا کہ اب تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی بلکہ اب ہمیشہ یہیں رہنا ہوگا (بخاری: ۴۴۵ ۶؛ ۵۴۵۶؛ ۸۴۵۶)۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والوں کو جہنمیین کے نام سے پکارا جائے گا (بخاری: ۶۶۵ ۶)۔ جنت کے لوگ جہنمیوں سے پہچانے جاچکے ہیں۔ ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جس کے لیے اسے سہولت دی گئی ہے (بخاری: ۶۹۵ ۶)۔ ایک بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور دوسرا بندہ جنتیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے۔ بلاشبہ اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے (بخاری:۷۰۶۶)۔ 


آخرت۔ جہنم 
مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو خاوند کے احسان کی ناشکری کا کفر کرتی تھیں (بخاری:۹۲) جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں کیونکہ مقتول بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ (بخاری:۰۳)۔ ایک مرتبہ خواب میں عالم بالا کی سیر کے دوران دو فرشتوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (جنت جہنم کے) مختلف مناظر دکھلائے۔ ایک منظر میں جھوٹی باتیں بیان کرنے والے آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے بار بارپھاڑا جارہا تھا۔ ایک ایسے عالم قرآن کا سر بار بار سر کچلا جارہا تھا جو اس علم پر عمل نہیں کرتا تھا۔ زنا کار مرد و زن کو تنور کے آگ میں ننگا جلایا جارہا تھا۔ سود خور کو بار بار پتھر مار کرخون کے نہر میں دھکیل دیا جاتا تھا(بخاری:۶۸۳۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ میں ایک مجاہد کی سب سے زیادہ بہادرانہ لڑائی کا تذکرہ سُن کر فرمایاکہ وہ تو دوزخی ہے۔ اگلے دن ایک مسلمان نے اس بات کی تحقیق کے لئے اُس بہادر مجاہد کے تعاقب میں لگ گیا۔ اُس نے دیکھا کہ جنگ کے دوران وہ شدید زخمی ہوگیا تو جلدی موت کی خاطر اپنے ہی تلوار سے خودکشی کرلی (بخاری:۸۹۸۲)۔ ایک آدمی زندگی بھر اہلِ جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ دوزخ میں سے ہوتا ہے(اپنی زندگی کا خاتمہ کفر یہ کام پر کرکے)۔ اسی طرح ایک آدمی بظاہر اہلِ دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے(اپنی زندگی کا خاتمہ ایمان پر کرکے)۔ (بخاری:۸۹۸۲)۔نماز ٹھنڈے اوقات میں پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے (بخاری: ۸۵۲۳؛ ۹۵۲۳)۔جہنم نے اللہ سے شکایت کی کہ میرے بعض حصے نے بعض کو کھالیا ہے تو اللہ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی۔ موسموں میں انتہائی گرمی اور انتہائی سردی کا یہی سبب ہے (بخاری: ۰۶۲۳)۔بخار جہنم کے جوش مارنے کے اثر سے ہوت ہے۔ اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کرلیا کرو (بخاری: ۱۶۲۳ تا ۴۶۲۳)۔دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں ستّرواں حصہ ہے (بخاری: ۵۶۲۳)۔دنیا میں جو شخص اچھے کاموں کا حکم دے لیکن خود عمل نہ کرے اور بُرے کاموں سے منع کرے لیکن خود  بُرے کام کرتا رہے، اسے جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ چکی پر گردش کرنے والے گدھے کی طرح چکر لگانے لگے گا (بخاری: ۷۶۲۳)۔دوزخ میں جسے سب سے ہلکا عذاب کیا گیا ہوگا، اللہ کے پوچھنے پر کہے گا کہ اس عذاب سے نجات پانے کے لیے وہ اپنی دنیا کی کوئی بھی چیز دے سکتا تھا۔ پھر اللہ کہے گا کہ میں نے تو تجھ سے روز ازل میں معمولی سی چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا مگر تو نے اسی شرک کو اختیار کیا (بخاری: ۴۳۳۳)۔  


جہنم، جہنمی: میرے اصحاب میں سے بعض کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور مجھے بتایا جائے گا کہ میری وفات کے بعد ان لوگوں نے پھر کفر اختیار کرلیا تھا(بخاری: ۹۴۳۳)۔ بنی اسرائیل کی ایک عورت نے ایک بلی کو قید کردیا، جس سے وہ مرگئی۔ اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دیا نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے مکوڑے ہی کھالیتی۔ اس کی سزا میں اسے دوزخ میں ڈال دیا گیا (بخاری: ۲۸۴۳)۔ جہنم سے ڈرو، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو۔ اگر کسی کو یہ بھی میسر نہ ہو تو ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے (بخاری: ۵۹۵۳)۔جہنم میں دوزخیوں کو ڈالا جائے گا اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟ حتیٰ کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر رکھے گا اور وہ کہے گی کہ بس بس (بخاری:۸۴۸۴؛ ۹۴۸۴؛ ۱۶۶۶؛ ۴۸۳۷)۔ ہر بد خو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا دوزخی ہوتا ہے (بخاری:۸۱۹۴)۔ جو شخص بھی لڑکیوں کی پرورش کرتے ہوئے ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی (بخاری: ۵۹۹۵)۔  میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر دیتا ہوں کہ ہر تند خو، اکڑ کر چلنے والا اور متکبر (بخاری: ۱۷۰۶)۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے والا بندہ جب قیامت کے دن پیش ہوگا تو اللہ دوزخ کی آگ کو اس پر حرام کردے گا (بخاری: ۳۲۴۶)۔جہنم سے بچنے کی کوشش کروخواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی ذریعہ یا اچھی بات کہنے ہی کے ذریعہ (بخاری: ۰۴۵ ۶)۔ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل ہوچکیں گے تو اللہ فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے دوزخ سے نکال لو۔ چنانچہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوجانے والوں کو نہر حیات میں ڈالا جائے گا اور وہ تر و تازہ و شگفتہ ہوجائیں گے (بخاری: ۰۶۵ ۶)۔ دوزخ سے بچو صدقہ دے کر خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہوسکے۔ جسے یہ بھی نہ ملے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے (بخاری: ۳۶۵ ۶)۔ کچھ لوگ اپنے گناہوں کی سزا میں آگ سے جھلس جائیں گے پھر اللہ انہیں اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا۔ ان لوگوں کو جہنمیون کہا جائے گا (بخاری: ۰۵۴۷)۔ جس نے بیٹیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ میں آڑ بن جائیں گی (بخاری:۸۱۴۱)۔


آخرت۔ قبر 
 تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤگے۔صاحبِ ایمان کہے گا: محمداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کرلیا اور ان کی پیروی کی۔ اس سے کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سوجا۔ (بخاری:۶۸) لوگوں کو قبروں میں آزمایا جائے گا۔ ہر ایک کے پاس اللہ کے فرشتے بھیجے جائیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ ایماندار کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کی روشنی لے کر آئے تو ہم نے اسے قبول کیا، ایمان لائے اور آپ کا اتباع کیا۔ پھر اسے کہہ دیا جائے گا کہ تو سو جا۔ ہم جانتے تھے کہ تو مومن ہے۔ جب منافق میت سے یہی بات پوچھی جائے گی تو وہ کہے گا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نے تو لوگوں کو جو کہتے سنا، میں نے بھی وہی کہہ دیا (بخاری:۴۸۱)۔ایک مرتبہ سورج گرہن کے موقع پر نبی کریم نے طویل نماز پڑھائی حتیٰ کہ سورج صاف ہوگیا۔ پھر خطبہ دیا اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا:مجھے بذریعہ وحی بتایا گیا کہ قبر میں تمہاری ایسی آزمائش ہوگی جیسے کانے دجال کے سامنے۔ ہر ایک کے پاس فرشتہ آکر پوچھے گا تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن کہے گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمارے پاس ہدایت لے کر آئے تو ہم ان پر ایمان لائے۔ ان کی تصدیق کی اور ان کی اتباع کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو صالح ہے، آرام سے سوجا۔جب منافق سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تو اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ (بخاری: ۲۲۹)۔ سورج گرہن کی نماز کے دوران مَیں نے جنت اور دوزخ تک دیکھ لی۔مجھے وحی کے ذریعہ بتلایا گیا کہ تم قبرمیں دجال کے فتنہ جیسی آزمائش میں مبتلا ہوگے۔ (بخاری:۳۵۰۱)۔ رات میں وفات پانے اور رات ہی میں دفن کردئے جانے والے صحابیؓ کی نماز جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا ن کی قبر پر جاکر پڑھی (بخاری:۷۴۲۱)۔ ایک قبر پر بیٹھی روتی ہوئی عورت کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت: اللہ سے ڈر اور صبر کر (بخاری:۲۵۲۱)۔ صبر تو صدمہ کے شروع میں ہی ہوتا ہے (بخاری: ۴۵۱۷)۔


عذاب قبر: میں عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں (بخاری:۹۴۰۱؛ ۵۵۰۱)۔  قبر والوں کو عذاب ہوگا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے (بخاری: ۶۶۳۶)۔ مکہ کے ایک باغ میں دو قبروں کی طرف اشارہ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ ان پر عذاب ہورہا ہے۔ ایک پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔پھر آپ نے کھجورکی شاخ کے دو سبز ٹکڑے ان قبروں پر رکھ دئے اور فرمایا:جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں، شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہوجائے (بخاری:۶۱۲؛ ۸۱۲)۔


آخرت۔ مرحومین 
 کسی نیک انسان کی وفات پر اس کے جنتی ہونے کی گواہی دینے کی ممانعت ہے البتہ اللہ سے مرحوم کے بارے میں خیر کی امید رکھنی چاہئے (بخاری:۳۴۲۱)۔ مہاجرحضرت عثمان بن مظعون کی وفات پر مدینہ میں ان کی میزبان اُم علاء ؓ نے فرمایا: میری گواہی ہے کہ اللہ نے ضرور عزت افزائی کی ہوگی۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کا رسول ہونے کے باوجود مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ میں تو ان کے بارے میں اللہ سے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں (بخاری:۷۸۶۲)۔


آخرت۔ قیامت،  نشانیاں 
قیامت اُس وقت آئے گی جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور سیاہ اونٹوں کو چرانے والے دیہاتی مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ (بخاری:۰۵)۔ جب امانت دنیا سے اُٹھ جائے یعنی کاروبارِ مملکت نالائق لوگوں کو سونپ دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ (بخاری:۹۵)۔ قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ علم کم ہوجائے گا، جہل ظاہر ہوجائے گا، زنا بکثرت ہوگا، عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہوجائیں گے، حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔ (بخاری:۱۸؛ ۸۰۸۶)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہوجائے۔بیت اللہ کا حج اور عمرہ یاجوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا (بخاری:۳۹۵۱)۔ قیامت کی چھ نشانیاں:میری (نبی ﷺ کی)موت، بیت المقدس کی فتح، بکریوں کے طاعون کی طرح شدت سے پھیلنے والی ایک وبا، مال کی اتنی کثرت کہ سو دینار کو بھی کم سمجھا جائے گا،عرب کے ہر گھر میں آنے والا تباہ کن فتنہ، تمہارے اور روم کے عیسائیوں کے درمیان صلح جس میں وہ دغا کریں گے اور نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے (بخاری:۶۲۷۱۳)۔ قیامت کی سب پہلی نشانی ایک آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانکے گی(بخاری: ۹۲۳۳)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ قبیلہ قحطان میں ایک ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جو لوگوں پر اپنی لاٹھی کے زور سے حکومت کرے گا(بخاری: ۷۱۵۳)۔قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں بڑی جنگ نہ کرلیں (بخاری: ۸۰۶۳؛ ۹۰۶۳)۔قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو ایسے گروہ آپس میں جنگ نہ کریں جن کا دعویٰ ایک ہی ہو(بخاری: ۵۳۹۶)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تقریباََ تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے(بخاری: ۹۰۶۳)۔ آخری زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو روزہ رکھیں گے اور قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کم عقل اور بیوقوف ہوں گے مگر باتیں ایسی کریں گے جو دنیا کی بہترین بات ہوگی۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زوردار تیر جانور سے پار ہوجاتا ہے اور تیر کے کسی حصے میں بھی خون کا کوئی نشان نہیں ہوتا(بخاری: ۰۱۶۳؛ ۱۱۶۳)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہولے۔ اس وقت ایمان لانے والوں کو کوئی فائدہ نہ ہوگا، اگر وہ پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو (بخاری:۵۳۶۴؛ ۶۳۶۴؛ ۶۰۵ ۶)۔


قیامت۔ نشانیاں: قیامت اس وقت آئے گی جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں، جب ننگے پاؤں، ننگے جسم والے لوگ عوام پر حاکم بن جائیں (بخاری:۷۷۷۴)۔ قرآن و حدیث کا علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔ شراب کثرت سے پی جائے گی اور زناکاری بڑھ جائے گی۔ عورتیں اتنی بڑھ جائیں گی کہ پچاس پچاس مردوں کی نگرانی کرنے والا ایک ہی مرد رہ جائے گا (بخاری: ۱۳۲۵؛۷۷۵۵)۔ جب امانت ضائع کی جائے یعنی کام نا اہل لوگوں کے سپرد کردئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو(بخاری: ۶۹۴۶)۔ قیامت کے دن سے پہلے علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت غالب ہوجائے گی اور قتل بڑھ جائے گا (بخاری: ۲۶۰۷ تا ۶۶۰۷)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ قحطان کا ایک شخص بادشاہ بن کر نکلے گا اور لوگوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکے گا(بخاری: ۷۱۱۷)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی اور بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردے گی (بخاری: ۸۱۱۷)۔ عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک خزانہ نکلے گا۔ پس جو کوئی وہاں موجود ہو وہ اس میں سے کچھ نہ لے (بخاری: ۹۱۱۷)۔ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو عظیم جماعتوں کے درمیان بڑی خونریز جنگ نہ ہو جبکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا۔ تیس جھوٹے دجال آئیں گے اور ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں  اور مال کی کثرت ہوگی۔قتل بڑھ جائے گا (بخاری: ۱۲۱۷)۔ 

    
قیامت۔ اللہ: روزِ قیامت ہم اپنے رب کو اسی طرح دیکھ سکیں گے جیسے بادلوں کی غیر موجود گی میں آسمان پر چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہیں یا دن میں سورج دیکھتے ہیں (بخاری: ۶۰۸؛۱۸۵۴)۔ تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھوگے جس طرح چودھویں کے چاند کو بغیر کسی دھکم پیل کے دیکھتے ہو (بخاری:۱۵۸۴)۔  روزِ قیامت اللہ تعالیٰ فرمائے گا:جو جسے پوجتا تھا، وہ اس کے ساتھ ہوجائے۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہولیں گے، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہولیں گے۔ پھر یہ اُمت باقی رہ جائے گی، جس میں منافقین بھی ہوں گے(بخاری: ۶۰۸)۔ قیامت کے دن اللہ مومن پر پردہ ڈال کر اس کے دنیوی گناہ یاد دلائے گا اور فرمائے گا کہ دنیا میں بھی مَیں نے تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تیری مغفرت کرتا ہوں (بخاری: ۱۴۴۲؛ ۵۸۶۴؛ ۰۷۰۶؛۴۱۵۷)۔ روز قیامت کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائیکہ، انبیاء اور تمام جن و انس) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا۔ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہوگی (بخاری:۱۴۴۲)۔ قیامت کے دن اللہ ساری زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور پھر فرمائے گا: آج حکومت صرف میری ہے۔ اب میں بادشاہ ہوں۔ آج زمین کے بادشاہ کہاں گئے؟  (بخاری:۲۱۸۴؛۲۱۴۷؛ ۳۱۴۷؛۹۱۵ ۶؛۲۸۳۷)۔  قیامت کے دن اللہ تم میں سے ہر ہر فرد سے اس طرح کلام کرے گا کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا (بخاری: ۹۳۵ ۶)۔ اللہ قیامت کے دن تین طرح کے لوگوں سے بات نہیں کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے سخت دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ ایک وہ جس کے پاس راستے میں زیادہ پانی ہو مگر اس میں سے دوسروں کو نہ پلائے۔ دوسرا وہ جو امام سے صرف دنیا کمانے کی غرض سے بیعت کرے۔ امام سے کچھ ملے تو پوری کرے ورنہ بیعت توڑ دے۔ تیسرا وہ جو بازار میں جھوٹ بولے کہ مجھے اس مال کی اتنی قیمت مل رہی تھی اور خریدار اسے سچا سمجھ کر اس کا مال خرید لے (بخاری: ۲۱۲۷)۔ 

  
قیامت۔ انبیاء: روزِ قیامت پُلِ صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ساتھ گزرنے والے پہلے رسول ہوں گے (بخاری: ۶۰۸)۔  مومنین قیامت کے دن پریشان ہوکر رب کے حضور سفارش کے لیے باری باری حضرت آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام،ابراہیم علیہ السلام،موسیٰ علیہ السلام، اور عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے۔ ہر نبی دوسرے نبی کے پاس اور حضرت عیسی علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کو کہیں گے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑیں گے۔ اللہ فرمائے گا: اپنا سر اٹھاؤ، جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس کے بعد آپ ﷺ شفاعت کریں گے اور آپ کے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، جنہیں آپ ﷺ جنت میں داخل کرائیں گے حتیٰ کہ آپ فرمائیں گے: اب جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے (بخاری:۶۷۴۴؛ ۰۱۴۷؛ ۲۱۷۴)۔   


قیامت۔ بُرے لوگ: ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا (بخاری: ۶۶۹۶)۔ وہ بدترین لوگوں میں سے ہوں گے جن کی زندگی میں قیامت آئے گی (بخاری: ۷۶۰۷)۔


قیامت۔ حساب کتاب:  روز قیامت جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی، سمجھو وہ غارت ہوگیا  (بخاری:۳۰۱)۔ قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہوگا (بخاری: ۶۳۵ ۶؛ ۷۳۵۶)۔


قیامت۔ شفاعت: قیامت میں میری شفاعت سے سب سے زیادہ وہ شخص فیض یاب ہوگا جو سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہے گا (بخاری:۹۹؛ ۰۷۵ ۶)۔ قیامت کے دن اللہ تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں اس طرح جمع کرے گا کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جاسکے گی۔ سورج بالکل قریب ہوجائے گا۔ لوگ قیامت کی پریشانیوں سے نجات کے لیے حضرت آدم  ؑسے شفاعت کی درخواست کریں گے۔ حضرت آدم  ؑ کے انکار پر وہ نوح  ؑسے شفاعت کی درخواست کریں گے اور نوح  ؑ کے انکار پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے تو وہ عرش کے نیچے سر بسجود ہوجائیں گے تب آواز آئے گی: اے محمد ﷺ! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو، تمہیں دیا جائے گا (بخاری: ۰۴۳۳؛ ۱۶۳۳)۔   جب تمام انبیاء شفاعت کرنے سے انکار کردیں گے تب لوگ شفاعت کے لیے نبی کریم صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو مقام محمود عطا فرمائے گا (بخاری:۸۱۷۴)۔ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ضرور ہوگی۔اے اللہ!  اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا فرمائیو جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے (بخاری:۹۱۷۴)۔ قیامت کے دن لوگ شفاعت کے لیے حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس سے ہوتے ہوئے میرے پاس آئیں گے اور میں اللہ کے حکم سے شفاعت کرتے ہوئے جہنم سے تین چار مرتبہ لوگوں کو نکال کر جنت میں لے جاؤں گا اور جہنم میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہوگیا ہے (بخاری: ۵۶۵ ۶؛ ۰۱۵۷)۔ قیامت کے دن میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا:اے رب! جس کے دل میں رائی کے برابر یا معمولی سا بھی ایمان ہو اس کو بھی جنت میں داخل فرمادے چنانچہ ایسے لوگ بھی جنت میں داخل کردئے جائیں گے (بخاری: ۹۰۵۷)۔ 


قیامت۔ صور: ہر چیز فنا ہوجائے گی سوائے ریڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی (بخاری:۴۱۸۴)۔ قیامت کے دن دو صور پھونکے جانے کے بعد اللہ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے تمام مردے جی اٹھیں گے۔ اس وقت ریڑھ کی ہڈی کے علاوہ انسان کا ہر حصہ گل چکا ہوگا۔ اسی ریڑھ کی ہڈی سے تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی (بخاری:۵۳۹۴)۔


قیامت۔ ظلم، بدلہ: جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو، اسے چاہئے کہ اسی دنیا میں اس سے معاف کرالے۔ ورنہ قیامت کے دن اس کے مظلوم بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی (بخاری: ۴۳۵ ۶)۔ مومنین جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک کر ایک کے دوسرے پر ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گاجو ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے۔ جب صفائی ہوجائے گی تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی (بخاری: ۵۳۵ ۶)۔


قیامت۔ مسلم، بدعتی: قیامت میں میری اُمت کے کچھ لوگوں کو جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے میرے بعد شریعت میں نئی نئی باتیں نکالی ہوں گی(بخاری:۵۲۶۴؛ ۰۴۷۴)۔ قیامت کے دن میرے حوض کوثر پر آنے والے میرے کچھ امتیوں کو مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا کہ میرے بعد یہ لوگ الٹے پھر گئے تھے اور دین میں نئی نئی باتیں نکال لی تھیں (بخاری: ۸۴۰۷؛۹۴۰۷)۔


قیامت۔ مشرک، کافر: روز قیامت جب یہودی کہیں گے کہ وہ عزیز ابن اللہ کی اور نصاریٰ کہیں گے کہ وہ مسیح ابن اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا پھر یہود و نصاریٰ دونوں کو آگ میں ڈال دیا جائے گا(بخاری:۱۸۵۴)۔ اللہ کافر کو قیامت کے دن چہرے کے بل چلائے گا (بخاری:۰۶۷۴)۔اللہ قیامت میں کافروں کو ان کے منہ کے بل چلا دے گا (بخاری: ۳۲۵ ۶)۔


قیامت۔ مشکلات، عذاب:  قیامت کے دن بہت سے لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ پھر ان کی یوں نجات ہوگی کہ اللہ کے حکم سے فرشتے خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو جہنم سے نکالیں گے۔ جہنم کی آگ پیشانی پر اثر سجدہ کے سوا تمام جسم کو جلا چکی ہوگی۔ پھر انہیں آب حیات میں ڈالا جائے گا تب ان کا جسم ابھر آئے گا  (بخاری: ۶۰۸)۔ قیامت کے دن مجھ سمیت سب لوگ بیہوش ہوجائیں گے۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا اور موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔اب یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے تھے یا اللہ نے انہیں بیہوش ہی نہیں ہونے دیا تھا۔ انبیاء کو ایک دوسرے پر بزرگی نہ دیا کرو کہ فلاں، فلاں سے برتر ہے (بخاری: ۱۱۴۲؛  ۲۱۴۲؛ ۸۹۳۳؛ ۸۰۴۳؛ ۴۱۴۳)۔ جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان واقع ایک پل پر روک کر انہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا جو وہ دنیا میں باہم کیا کرتے تھے تاکہ پاک صاف ہوکر جنت میں داخل ہوں (بخاری:۰۴۴۲)۔ قیامت کے دن سب سے کم عذاب اس شخص کا ہوگا کس کے دونوں قدموں کے نیچے آگ کا انگارہ رکھا جائے گا جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھول رہا ہوگا (بخاری: ۱۶۵ ۶؛ ۲۶۵۶)۔اگر تم آخرت کی وہ مشکلات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم روتے زیادہ اور ہنستے کم (بخاری: ۱۳۶۶؛۷۳۶۶)۔ 


قیامت۔ واقعات: قیامت کے دن ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے اور اسی کے ذریعہ اسے پہچانا جائے گا (بخاری: ۶۸۱۳ تا ۸۸۱۳)۔ زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آجائے گا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی (بخاری: ۷۹۱۳)۔ سورج عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے پھر دوبارہ آنے کی اجازت چاہتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن ایک دن اسے یہ اجازت نہ ملے گی اور کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا، وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ وہ اس دن مغرب ہی سے نکلے گا (بخاری: ۹۹۱۳)۔ قیامت کے دن سورج اور چاند دونوں بے نور اور تاریک ہوجائیں گے (بخاری: ۰۰۲۳)۔ قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤگے۔ پھر سب سے پہلے ابراہیم  ؑ کو کپڑا پہنایا جائے گا (بخاری:۹۴۳۳؛ ۷۴۴۳؛ ۵۲۶۴؛ ۰۴۷۴)۔ روزحشر دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہوگی۔ سورج بالکل قریب ہوجائے گا۔ لوگوں کی پریشانی اور بے قراری کی کوئی حد نہیں رہے گی(بخاری: ۲۱۷۴)۔ اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والا روز قیامت اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا جس سے مشک جیسی خوشبو آرہی ہوگی (بخاری: ۳۳۵۵)۔ جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا یاکسی نیک کام کے نتیجہ میں شہرت کا طالب ہوگا، اللہ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب پر ظاہر کردے گا(بخاری: ۹۹۴۶)۔   مجھ کوحضرت موسیٰ   ؑ پرفضیلت نہ دو۔ روز قیامت سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں انہیں عرش الٰہی کا کونہ تھامے ہوئے پاؤں گا  (بخاری: ۷۱۵ ۶؛ ۸۱۵۶)۔


قیامت۔ واقعات: قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جسے اللہ جنتیوں کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا۔اس ضیافت کا سالن مچھلی کلیجی ہوگی  (بخاری: ۰۲۵ ۶)۔ قیامت کے دن لوگوں کا حشر سفید و سرخی آمیز زمین پر ہوگا جیسے میدہ کی صاف و سفید روٹی ہوتی ہے  (بخاری: ۱۲۵ ۶)۔ قیامت کے دن لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہوگا ایک فرقہ والے لوگ رغبت والے اور ڈرنے والے ہوں گے۔ دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہوگا جو اونٹوں پر دو، دو، تین تین، چار چار اور دس دس کی تعداد میں سوار ہوں گے۔ اہل شرک کے تیسرے فرقہ کو آگ جمع کرے گی۔ یہ آگ صبح و شام ان کے ساتھ موجود ہوگی (بخاری: ۲۲۵ ۶)۔ قیامت کے دن تم اللہ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور پیدل چل کر بن ختنہ کے ملوگے۔ اس وقت معاملہ اتنا سخت ہوگا کہ مرد عورتوں کو ایک دوسرے کی برہنگی کی طرف خیال بھی نہیں جائے گا (بخاری: ۴۲۵ ۶ تا ۷۲۵۶)۔ قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے اور ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستّر (۰۷) ہاتھ تک پھیل جائے گا اور اس کے منہ اور کانوں کو چھونے لگے گا(بخاری: ۲۳۵ ۶)۔ روز حشر لوگوں کے درمیان سب سے  پہلے خون ناحق کے بدلہ کا فیصلہ ہوگا (بخاری: ۳۳۵ ۶)۔ قیامت کے دن انسان کو دائیں اور بائیں طرف اس  کے اپنے اعمال اور سامنے جہنم کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا پس جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ سے (بخاری: ۲۱۵۷)۔ جو بندہ بھی قیامت کے دن کلمہ لا الٰہ الا اللہ کو لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کردے گا (بخاری: ۸۳۹۶)۔


آدابِ زندگی 
جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے سمیت اپنے ہر کام کی ابتدا دائیں طرف سے کرو  (بخاری:۸۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تک ممکن ہوتااپنے تمام کاموں بشمو ل بوقت طہارت، کنگھاکرنے اور جوتاپہننے کا آغاز دائیں طرف سے کرتے (بخاری:۶۲۴)۔ تین مرتبہ اجازت مانگنے پر اگر اندر سے اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ  (بخاری:۲۶۰۲)۔ کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہا جائے(بخاری:۵۳۴۲)۔ جب کوئی کسی کے گھر آنے کی تین مرتبہ اجازت چاہے (یاآج کل تین مرتبہ اطلاعی گھنٹی بجائے) اور گھر کے اندر سے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے (بخاری: ۵۴۲۶)۔ ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جارہا تھا۔ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک یونہی زمین ۔میں دھنستا چلاجائے گا (بخاری: ۲۸۴۳)


آدابِ زندگی 
 کسی کا ریاح خارج ہونے پر ہنسنا منع ہے کہ ایسا ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے (بخاری:۲۴۹۴)۔ بدگمانی سے بچتے رہو۔ لوگوں کے رازوں کی کرید نہ کیا کرو اور نہ دوسروں کی نجی گفتگو کان لگا کر سنو (بخاری: ۳۴۱۵)۔ بعض تقریر جادو کی طرح اثر کرتی ہے (بخاری: ۶۴۱۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعددس سالہ حضرت انس بن مالک ؓ آپ ﷺ خدمت پر مامور ہوئے اور نبی کی وفات یعنی دس سال تک خدمت کرتے رہے۔(بخاری: ۶۶۱۵)۔ جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ پر بلایا جائے تو اسے یہ دعوت قبول کرنی چاہئے۔ جس نے ولیمہ کی دعوت رَد کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کیا کرو۔(بخاری: ۳۷۱۵؛ ۴۷۱۵؛ ۵۷۱۵؛ ۷۷۱۵؛ ۹۷۱۵)۔ بیمار کی عیادت کرو (بخاری: ۴۷۱۵؛ ۵۷۱۵)۔ ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو بلایا جائے، غریبوں کو نہ بلایا جائے  (بخاری: ۷۷۱۵)۔ مجھے اگر بکری کے کھر کی دعوت دی جائے تو بھی اسے قبول کروں گا۔ اگر مجھے وہ کھر بھی ہدیہ میں دئے جائیں تو میں اسے قبول کروں گا(بخاری: ۸۷۱۵)۔ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے (بخاری: ۵۸۱۵)۔ بھوکے کو کھلاؤ، بیمار کی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ(بخاری: ۳۷۳۵)۔ چہرے پر مارنا منع ہے (بخاری: ۱۴۵۵)۔ سونے سے پہلے دروازے بند کردو اور کھانے پینے کے برتنوں کو بسم اللہ کہہ کر ڈھانپ دو(بخاری: ۴۲۶۵)۔ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی لگانے سے نہ روکے (بخاری: ۷۲۶۵)۔ بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو چھڑاؤ (بخاری: ۹۴۶۵)۔ پانچ اعمال یعنی ختنہ کرانا، زیر ناف بال مونڈنا، بغل کے بال نوچنا، ناخن ترشوانا اور مونچھ کتروانا پیدائشی سنت ہے(بخاری: ۸۸۸۵ تا ۱۹۸۵)۔ فرمانِ رسول ﷺ:مونچھیں کترواؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ۔عبد اللہ بن عمرؓ جب حج و عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو ہاتھ سے پکڑ لیتے اور مٹھی سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتر والیتے  (بخاری: ۲۹۸۵؛ ۳۹۸۵)۔ یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے۔ تم ان کے خلاف کرو یعنی(سیاہ رنگ کے علاوہ) خضاب لگاؤ  (بخاری: ۹۹۸۵)۔ فرمانِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ:جیسے احرام میں سر کے بالوں کو جمالیتے ہیں، غیر احرام میں نہ جماؤ۔ اور جو احرام میں بالوں کو جمالے، وہ حج یا عمرے سے فارغ ہوکر سر منڈوالے۔ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بالوں کو جما لیتے تھے(بخاری: ۴۱۹۵؛ ۵۱۹۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کا قزع کرنے یعنی سر منڈواتے وقت ادھر ادھر بال چھوڑنے سے منع فرمایا(بخاری: ۰۲۹۵؛ ۱۲۹۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنگھا کرنے، وضو کرنے سمیت ممکنہ حد تک ہر کام کو دائیں طرف سے شروع کرتے (بخاری: ۶۲۹۵)۔ 


آدابِ زندگی: جنت میں چغل خور نہیں جائے گا (بخاری: ۶۵۰۶)۔ کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا اسے ہلاک کرنے یا اس کی کمر یا گردن توڑنے کے مترادف ہے۔اگر تمہارے لیے کسی کی تعریف کرنی ضروری ہو تو یوں کہو: میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں، باقی علم اللہ کو ہے  (بخاری: ۰۶۰۶؛ ۱۶۰۶)۔ بدگمانی سے بچو، لوگوں کے عیوب تلاش نہ کرو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو (بخاری: ۴۶۰۶ تا ۶۶۰۶؛ ۶۷۰۶)۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔ دونوں مکیں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (بخاری: ۵۶۰۶؛ ۶۷۰۶؛ ۷۷۰۶)۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا (بخاری: ۳۳۱۶)۔ اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنی ہی پڑجائے تو یوں کہو کہ فلاں کے متعلق میرا یہ خیال ہے۔(بخاری: ۲۶۱۶)۔ جب کوئی چھینک کے بعد الحمد للہ کہے تب جواب میں یر حمک اللہ کہو(بخاری: ۱۲۲۶؛ ۴۲۲۶؛ ۵۲۲۶)۔ اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی (انگڑائی) کو ناپسند کرتا ہے۔ جب کوئی چھینکے اور الحمد للہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہو۔ جمائی شیطان کی طرف سے ہے اس لیے جہاں تک ہوسکے اسے روکو (بخاری: ۳۲۲۶؛ ۶۲۲۶)۔ عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے (بخاری: ۷۷۱۶؛ ۸۷۱۶)۔ تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہے کہ میرا نفس پلید ہوگیا ہے بلکہ یہ کہے کہ میرا دل خراب یا پریشان ہوگیا(بخاری: ۹۷۱۶؛ ۰۸۱۶)۔ چھوٹا بڑے کو، سوار پیدل چلنے والے کو، گزرنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو پہلے سلام کرے  (بخاری: ۱۳۲۶تا ۴۳۲۶)۔ اسلام کی افضل صورت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو کھانا کھلاؤ اور سلام کرو اسے بھی جسے پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے (بخاری: ۶۳۲۶)۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھ جائے۔ البتہ آنے والے کو مجلس میں جگہ دے دیا کرو (بخاری: ۹۶۲۶؛ ۰۷۲۶)۔ جب تین آدمی ساتھ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کت دو آپس میں سرگوشی نہ کریں (بخاری: ۸۸۲۶؛ ۰۹۲۶)۔  جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو بلکہ اسے بجھا دیا کرو(بخاری:۳۹۲۶؛ ۴۹۲۶)۔ سونے سے قبل کھانے پینے کے برتن ڈھک لیا کرو، دروازے بند کرلیا کرو اور چراغ بجھا لیا کرو (بخاری: ۵۹۲۶؛ ۶۹۲۶)۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے اپنا بستر جھاڑ لیا کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہاری بے خبری میں کیا چیز اس پر آگئی ہے (بخاری: ۰۲۳۶)۔ قیدیوں کو چھڑاؤ (بخاری: ۳۷۱۷)۔ دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو (بخاری: ۳۷۱۷)۔ بدترین آدمی وہ دو رُخا ہے جس کا کسی کے سامنے ایک رُخ ہوتا ہے تو دوسرے کے سامنے دوسرا رُخ (بخاری: ۹۷۱۷)۔ فرمان عمرؓ: ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے (بخاری: ۳۹۲۷)۔ آسانی کرو، سختی نہ کرو۔ خوش کرو، نفرت نہ دلاؤ۔ (بخاری:۹۶)۔ قیدی کو چھڑایا کرو، بھوکے کو کھلایا کرو اور بیمار کی عیادت کیا کرو (بخاری:۶۴۰۳)۔


آدابِ زندگی۔ جھوٹ، چغلی 
 وہ جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا کوئی اور اچھی بات کہہ دے (بخاری:۲۹۶۲)۔  جس نے جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا۔ جس نے اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی نسبی تعلق نہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے (بخاری: ۸۰۵۳)۔ سب سے بڑا بہتان اور جھوٹ یہ ہے کہ اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے، جو خواب دیکھا نہیں اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے اور رسول اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو(بخاری: ۹۰۵۳)۔ فرمانِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: جو یہ کہے کہ معراج کی شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا تو وہ جھوٹا ہے (بخاری:۵۵۸۴)۔ فرمانِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:جو یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے ہیں، وہ جھوٹا ہے (بخاری:۵۵۸۴)۔  فرمانِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: جو یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی، وہ جھوٹا ہے (بخاری:۵۵۸۴)۔ بلا شبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور بلا شبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے (بخاری: ۴۹۰۶)۔ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جھوٹے کا جبڑا چیرا جارہا تھا۔ وہ بڑا ہی جھوٹا تھا جو ایک بات کو لے کر ساری دنیا میں پھیلا دیتا تھا، قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی (بخاری: ۶۹۰۶)۔ بدگمانی، بغض اور غیبت (پیٹھ پیچھے برائی) سے بچو(بخاری:۴۲۷۶)۔


آداب زندگی۔ غصہ 
اصلی پہلوان وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے اور بے قابو نہ ہوجائے (بخاری: ۴۱۱۶)۔اگر کوئی غصہ کی حالت میں اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے (بخاری: ۵۱۱۶)۔کوئی ثالث غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ دے(بخاری: ۸۵۱۷)۔


آداب زندگی۔ مہمانی 
مہمانی تین دن اور راتوں کی ہے۔ اس کے بعد جو ہو، وہ صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے (بخاری: ۵۳۱۶)۔

آداب زندگی۔ نسب بدلنا 
جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے(بخاری: ۶۶۷۶)۔ کوئی اپنے باپ کا انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑ کر خود کو کسی دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو یہ کفر ہے (بخاری: ۸۶۷۶)۔ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے  (بخاری:۶۲۳۴؛ ۷۲۳۴)۔


آداب زندگی۔ آسانی 
جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں زیادہ آسانی ہو بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو(بخاری: ۰۶۵۳؛  ۶۲۱۶)۔ ۔حضرت ابو برزہ اسلمیؓ اپنے گھوڑے پر سوار ایرانی شہر اہواز میں ایک خشک نہر کے کنارے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے اور نماز پڑھنے  لگے تو ان کا گھوڑا بھاگنے لگا۔ آپ نے نماز توڑ کرگھوڑے کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ لائے اور قضا نماز ادا کی۔ نماز توڑنے پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو آپؓ نے فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہاہوں اور میں نے آپ ﷺ کو ہمیشہ آسان صورتوں کو اختیار کرتے دیکھا ہے (بخاری: ۷۲۱۶)۔ زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے(بخاری: ۳۱۴۶؛ ۴۱۴۶)۔


آزمائش 
انسان کی آزمائش اس کے خاندان، اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے۔ نماز، صدقہ، اچھی باتوں کا حکم اور بُری باتوں سے منع کرنا اس آزمائش کا کفارہ ہے (بخاری: ۵۳۴۱)۔ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال، اور اس کے پڑوسی آزمائش ہیں، جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے(بخاری:۵۹۸۱)۔ 


باغی، مرتد۔ سزا 
 ایک عیسائی اسلام لاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا۔ پھر وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا۔ اس کی موت کے بعد اس کے ساتھیوں نے اسے قبر میں دفن کیا تو لاش اگلے روز قبر سے باہر نکلی پڑی نظر آئی۔ انہوں نے تین مرتبہ گہری سے گہری قبر کھود کر اسے دفن کیا مگر ہر ہر مرتبہ اس کی لاش قبر سے باہر ملتی  تو وہ سمجھ گئے کہ یہ کسی عذاب میں گرفتار ہے۔ پھر انہوں نے اسے ایسا ہی چھوڑ دیا (بخاری: ۷۱۶۳)۔ جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو عذاب اس قوم کے سب لوگوں پر آتا ہے پھر انہیں ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جاتا ہے (بخاری: ۸۰۱۷)۔ جو اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہ ہوگا اور جو شخص مسلمان ہوکر بھی برے کام کرتا رہا، اس سے دونوں زمانوں کے گناہوں کا مواخذہ ہوگا (بخاری: ۱۲۹۶)۔ جو شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو اس کو قتل کر ڈالو۔ (بخاری: ۲۲۹۶)۔ حضرت علی ؓ نے کچھ بے دین لوگوں کو آگ میں جلوادیا تو ابن عباسؓ نے فرمایا: میں اگر حاکم ہوتا تو ان کو کبھی نہ جلواتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:آگ اللہ کا عذاب ہے۔ تم اللہ کے عذاب سے کسی کو مت عذاب دو۔(بخاری: ۲۲۹۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ابو موسیٰ   ؓاور پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبلؓ کو یمن کی حکومت پر بھیجا۔ابو موسیٰ  ؓنے وہاں ایک بندھے ہوئے فر د کے بارے میں بتایا کہ یہ پہلے یہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اب دوبارہ یہودی ہوگیا ہے۔ حضرت معاذ  ؓ نے فرمایا کہ اسے رسول اللہ کے حکم کے مطابق قتل کردو۔ چنانچہ اسے قتل کردیا گیا (بخاری: ۳۲۹۶)۔ فرمانِ حضرت ابوبکر ؓ: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کرے (بخاری: ۵۲۹۶)۔


بت، تصاویر، کتے 
بتوں کے لیے وقف اونٹنی (بحیرۃ) کے دودھ کی ممانعت تھی اوراپنے معبودوں کے لیے چھوڑے گئے اونٹوں (سائبتہ) پر بوجھ لادنے اور سواری کرنے کی ممانعت تھی۔اس رسم کا بانی عمرو بن عامر بن لحی خزاعی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتے ہوئے دیکھا (بخاری: ۱۲۵۳)۔  حبشہ کے گرجے کے اندر لگی تصاویر کا ذکر سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جب ان میں کسی نیک مرد کی وفات ہوجاتی تو اس کی قبر کو وہ لوگ مسجد بناتے پھر اس میں اس کی تصویریں رکھتے۔ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے (بخاری:۳۷۸۳)۔ بدری صحابی ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا فرمان: فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں جاندار کی تصویر یا کتا ہو (بخاری:۲۰۰۴)۔ عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے، بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ان بتوں میں بنی کلب، سواع بنی ہذیل، یعوق بنی ہمدان، نسر حمیر وغیرہ کے بت دراصل نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگ تھے۔ ان کی وفات کے بعد شیطان کے کہنے پر ان کے نام پر بت بنالیے گئے اور ان کی پوجا ہونے لگی (بخاری: ۰۲۹۴)۔ تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور اپنی بنائی ہوئی تصویروں کو زندہ کرنے کو کہا جائے گا۔ جن گھروں میں تصویریں ہوتی ہیں وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے (بخاری: ۱۸۱۵)۔ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مورتیاں موجود ہوں (بخاری: ۹۴۹۵)۔ اللہ کے پاس قیامت کے دن جاندار کی تصویر بنانے والوں کو سخت تر عذاب ہوگا اور ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا ہے ان اس میں جان بھی ڈالو(بخاری: ۰۵۹۵؛ ۱۵۹۵؛ ۳۶۹۵)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ عائشہ ؓ میں لٹکے ہوئے تصویروں والے پردے اتارنے کا حکم دیا(بخاری: ۴۵۹۵؛ ۵۵۹۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حجرہ عائشہ ؓ میں اپنے بیٹھنے کے لیے رکھے ہوئے تصویروں والے گدے کودیکھ کر اندر تشریف نہیں گئے اور فرمایا:فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مورت ہو(بخاری: ۷۵۹۵؛ ۰۶۹۵؛ ۱۶۹۵)۔


بت، تصاویر، کتے: حبشہ کے ایک کلیسا میں اُم حبیبہ اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے تصویریں دیکھیں تو اس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ لوگ اپنے نیک لوگوں کی قبر پر مسجد بناکراس میں ان کی تصویریں بنا دیتے۔ قیامت میں اللہ کی بارگاہ میں یہ لوگ تمام مخلوق میں بُرے ہوں گے (بخاری: ۷۲۴؛ ۴۳۴ تا ۷۳۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر بنانے والے پرلعنت بھیجی ہے (بخاری:۶۸۰۲)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خریدے ہوئے مورت بنے گدے کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا:اس طرح کی مورتیں بنانے والوں پر عذاب ہوگا اور مصوروں سے ان کی بنائی ہوئی تصویروں کو زندہ کرنے کو کہا جائے گا۔ جن گھروں میں جاندار کی تصویریں ہوتی ہیں، ان میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے (بخاری:۵۰۱۲؛ ۷۵۵۷؛ ۸۵۵۷)۔ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا (بخاری:۵۲۲۲)۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مورت بنانے والے کو نصیحت: درختوں اور بے جان چیزوں کی مورتیں تم بنا سکتے ہو (بخاری:۵۲۲۲)۔ گودنے، گودوانے والوں، سود لینے اور دینے والوں اور تصویر بنانے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی تھی (بخاری:۸۳۲۲)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ کے سائبان پر تصویروں والے پردے کو پھاڑ دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے اس پردے سے دو گدے بنالیے جن پر نبی ﷺ بیٹھا کرتے تھے (بخاری:۹۷۴۲) ۔ حدیث قدسی: اس شخص سے بڑھ کر حد سے تجاوز کرنے والا کون ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے۔ ذرا وہ چنے، گندم یا جَو کا ایک دانہ بناکر تو دکھائیں (بخاری: ۹۵۵۷)۔


بدعت 
 جس نے دین اسلام میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رَد ہے (بخاری:۷۹۶۲)۔ قیامت میں میری اُمت کے اُن لوگوں کو جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا،جنہوں نے میرے بعد شریعت میں نئی نئی باتیں نکالی ہوں گی(بخاری:۵۲۶۴؛ ۰۴۷۴)۔ قیامت کے دن میرے حوض کوثر پر آنے والے میرے کچھ امتیوں کو مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا کہ میرے بعد یہ لوگ الٹے پھر گئے تھے اور دین میں نئی نئی باتیں نکال لی تھیں (بخاری: ۸۴۰۷؛۹۴۰۷)۔

 ۔ ۔ ۔ نوٹ ۔ ۔ ۔ 

 ان پیج سے یونی کوڈ میں کنورژن کے دوران احادیث کے تمام نمبرز دائیں سے بائیں  الٹ گئے ہیں۔  ان شاء اللہ نمبرز کی ترتیب کو درست کرنے کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔ 


بھیک مانگنا 

لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ لکڑیوں کا گٹھا لاکر بیچے اور اللہ اس کی آبرو محفوظ رکھے (بخاری:۳۷۳۲؛ ۴۷۳۲)۔ جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ جو بے نیازی برتتا ہے تو اللہ اسے بے نیاز بنا دیتا ہے اور جو اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے (بخاری:۹۶۴۱) ۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور انہیں بازار میں بیچ کر رزق حاصل کرنا، کسی کے پاس آکر سوال کرنے سے بہتر ہے (بخاری:۰۷۴۱؛ ۱۷۴۱؛ ۰۸۴۱)۔ اگر تمہیں کوئی ایسا مال ملے جس پر تمہارا خیال نہ لگا ہوا ہو اور نہ تم نے اس مانگا ہو تو اسے قبول کرلیا کرو۔ اور جو نہ ملے تو اس کی پرواہ نہ کیا کرو (بخاری:۳۷۴۱)۔ جو ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے، وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا (بخاری:۴۷۴۱)۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بے پرواہ ہوجائے۔ لیکن وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا کہ اسے لوگوں سے سوال کرنے سے شرم آتی ہے (بخاری:۶۷۴۱؛ ۹۷۴۱)۔ اللہ تعالیٰ تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلا وجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا (بخاری: ۷۷۴۱)۔ جو سوال کرنے سے بچتا رہے گا، اللہ اسے غیب سے دے گا۔ جو دل پر زور ڈال کر صبر کرے گا، اللہ بھی اسے صبر دے گا اور جو بے پرواہ رہنا اختیار کرے گا، اللہ بھی اسے بے پرواہ کردے گا(بخاری: ۰۷۴۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے فائدہ بات چیت کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال ضائع کرنے، اپنی چیز بچا کر دوسروں کی چیز مانگتے رہنے، ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے۔(بخاری: ۳۷۴۶)۔


بیع۔ تجارتی معاملات 

کتاب اللہ سے ہٹ کر (خلاف شرع) کسی تجارتی شرط کی کوئی حیثیت نہیں، چاہے کوئی سو مرتبہ کرلے(بخاری:۶۵۴)۔مکہ میں عکاظ،  مجنہ اور ذوالمجاز عہد جاہلیت کے بازار تھے۔ چنانچہ مسلمان ان بازاروں میں خرید و فروخت کے لیے جانے کو گناہ سمجھنے لگے تواللہ نے یہ آیت (البقرہ: آیت۔۸۹۱)۔ نازل فرمائی: تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں اگر تم حج کے موسم میں اپنے رب کا فضل (یعنی رزق حلال) تلاش کرو (بخاری: ۰۵۰۲؛ ۸۹۰۲)۔ سونے چاندی کی تجارت ہاتھوں ہاتھ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں (بخاری:۰۶۰۲؛ ۱۶۰۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک زرہ گروی رکھ کر ایک یہودی سے کچھ غلہ ادھار خریدا تھا (بخاری:۸۶۰۲؛ ۶۹۰۲)۔ محنت مشقت کرنے والے صحابہ کرام ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: پسینے وغیرہ کی بو دور کرنے کے لیے تم غسل کرلیا کرو تو بہتر ہوگا (بخاری:۱۷۰۲)۔ بہترین روزی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھانا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کھایا کرتے تھے (بخاری:۲۷۰۲؛ ۳۷۰۲)۔ بوجھ اٹھانا یا کوئی اور مزدوری کرنا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے (بخاری: ۴۷۰۲؛ ۵۷۰۲)۔ خرید و فروخت کرتے اور تقاضہ کرتے وقت فیاضی سے کام لینے والے پر اللہ رحم کرے (بخاری:۶۷۰۲)۔ خرید و فروخت کرنے والوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے تک اپنی بیع یعنی سودا ختم کرنے یا باقی رکھنے کا اختیارہوتا ہے۔ (بخاری:۹۷۰۲؛ ۲۸۰۲؛ ۸۰۱۲ تا ۴۱۱۲)۔ خرید و فروخت کرنے والے اگر سچائی سے کام لیں اور ہر بات کھول کر بیان کریں تو ان کے کاروبار میں برکت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے یا کوئی بات چھپانے سے ان کی برکت ختم ہوجاتی ہے (بخاری:۹۷۰۲؛ ۲۸۰۲؛ ۰۱۱۲؛ ۴۱۱۲)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ نے پچھنا لگانے پر ابو طیبہ ؓ  کو اجرت میں ایک صاع کھجور دلوایا (بخاری: ۲۰۱۲؛ ۳۰۱۲)۔ نیک ساتھی عطار جیسا اور بُرا ساتھی لوہار جیسا ہے۔ عطار سے مشک نہ بھی خریدو، خوشبو تو پاہی لوگے، جبکہ لوہار کی بھٹی تمہارے بدن یا لباس کو  جھلسا دے گی ورنہ تم اس سے بدبو تو ضرور پالوگے (بخاری: ۱۰۱۲)۔ کچھ ویرانے اور کچھ کھجوروں کے درخت پر مبنی باغ  میں مسجد بنانے کے لیے باغ کے مالک بنو نجار سے کہا کہ باغ کی قیمت مقرر کردو (بخاری: ۶۰۱۲)۔


تجارتی معاملات: عبداللہ بن عمر ؓ جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو انہیں پسند ہوتی تو خریدنے کے بعد بیچنے والے سے جدا ہوجاتے کیونکہ فرمان رسول ﷺ کے مطابق خرید و فروخت کرنے والوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں، سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے (بخاری:۷۰۱۲)۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنی وادی قریٰ والی زمین حضرت عثمان ؓ کی خیبر کی زمین کے بدلہ میں بیچی اور سودا کرتے ہی اُلٹے پاؤں ان کے گھر سے باہرنکل گیا کی کہیں وہ یہ سودا منسوخ نہ کردیں (بخاری:۶۱۱۲)۔ خرید و فروخت میں اکثر دھوکہ کھاجانے کی شکایت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت:تم جب کسی چیز کی خرید و فروخت کیا کرو تو یوں کہہ دیا کرو۔ بھائی دھوکہ اور فریب کا کام نہیں (بخاری:۷۱۱۲؛ ۷۰۴۲؛ ۴۱۴۲)۔ اپنے غلہ کو ناپ لیا کرو تو برکت ہوگی (بخاری:۸۲۱۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت ملنے کی اطلاع حضرت ابوبکر ؓ کے گھر آکر انہیں دی اور اس مقصد کے لئے حضرت ابوبکر ؓ سے ایک اونٹنی خریدی (بخاری: ۸۳۱۲)۔ باندی کی ولاء (ترکہ) تو اسی کی ہوتی ہے، جو اسے آزاد کرے (بخاری:۵۵۱۲؛ ۶۵۱۲؛ ۸۶۱۲؛ ۹۶۱۲)۔ ابوطیبہ حجام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپچھنا لگایا تو آپؐ نے انہیں ایک یا دو صاع کھجور مزدوری دینے کا حکم دیا (بخاری:۰۱۲۲؛۷۷۲۲ تا ۱۸۲۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک بکریوں والے سے ایک بکری خرید ی تھی (بخاری: ۶۱۲۲)۔ جابر بن عبداللہؓ دوران سفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اونٹ فروخت کیا اور سفر سے واپسی پر اونٹ کی قیمت سے زیادہ ادائیگی کروائی (بخاری:۳۰۶۲؛ ۴۰۶۲)۔ پیوند کاری کے بعد کھجور کا باغ بیچا جائے تو اس سال کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا پھل سمیت خریدنے کی شرط لگا دے (بخاری: ۶۱۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر حضرت جابر ؓ کا اونٹ خرید لیا اور پھر اسی اونٹ پر انہیں مدینہ کے واپسی سفر کی اجازت دی (بخاری:۸۱۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات کے بعد مدینہ کے انصاری صحابہ کرام ؓ کی یہ پیشکش مسترد کردی کہ ان کے باغات انصاریوں او رمہاجرین  میں تقسیم کردئے جائیں تو انصار نے کہا کہ مہاجرین ہمارے باغوں کے کام کرکے باغ کے پھل میں شریک ہوجائیں۔ مہاجرین نے یہ پیشکش قبول کرلی (بخاری:۹۱۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے اپنی زرہ گروہ رکھ کر غلہ خریدا (بخاری:۰۰۲۲؛ ۱۵۲۲؛ ۲۵۲۲)۔ جو بھی کھجور میں بیع سلم (پیشگی پیسے دے کر مال بعد میں اٹھانا) کرے، اسے مقررہ پیمانے یا مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرنی چاہئے۔ مدینہ کے لوگ دو اور تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے(بخاری:۹۳۲۲ تا ۱۴۲۲؛ ۳۵۲۲)۔ عہد رسالت اور حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں لوگ گندم، جو، منقیٰ اور کھجور، زیتون کی بیع سلم مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے کیا کرتے تھے (بخاری:۲۴۲۲ تا ۵۴۲۲؛۴۵۲۲؛ ۵۵۲۲)۔


بیع۔ اُجرت 

 مالک کے حکم کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ صدقہ کرنے والے امانت دار خزانچی کا شمار بھی صدقہ کرنے والوں ہی میں ہے(بخاری:۰۶۲۲؛ ۹۱۳۲)۔تمام انبیاء علیہ السلام نے بکریاں چرائی ہیں۔ کبھی میں بھی چند قیراط کی اُجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا (بخاری:۲۶۲۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مکہ کرتے وقت ایک قابل اعتماد مگر کفار قریش ہی کے دین پر قائم ایک ماہر راہبر کو راستہ دکھانے کے لیے مزدوری پر رکھا اور اپنی سواریاں اسے دیکر تین رات کے بعد غار ثور پر ملنے کی تاکید کی (بخاری:۳۶۲۲؛ ۴۶۲۲)۔   یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی بالترتیب مثال اُن تین مزدوروں جیسی ہے جس میں پہلے مزدور نے دوپہر تک کام کیا اور شام تک کام مکمل کئے اور مزدوری لئے بغیر چلا گیا۔ دوسرے مزدور نے اسی کام کو عصر تک کیا اور پہلے مزدور کی طرح کام مکمل کئے اور مزدوری لئے بغیر چلا گیا۔تیسرے مزدور نے سورج غروب ہونے تک کام کو پوراکیا اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی اسے ملی۔ یہ مسلمانوں کی مثال ہے اور اس نور کی جسے انہوں نے قبول کیا۔ اللہ نے اُمت محمدیہ کو اپنے فضل سے یہ درجہ دیا (بخاری:۸۶۲۲؛ ۹۶۲۲؛۱۷۲۲)۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ایک لوہار تھے۔ انہوں نے ایک مشرک عاص بن وائل کا بہت سارا کام کیا اور جب مزدوری طلب کی تو وہ کہنے لگا کہ میں اس وقت تک مزدوری نہیں دوں گا جب تک تم محمد ﷺ کے دین سے نہ پھر جاؤ۔ جواباََ حضرت خباب بن ارت ؓ نے فرمایا: یہ تو اس وقت بھی نہ ہوگا، جب تو مرکے دوبارہ زندہ ہوگا (بخاری: ۵۷۲۲؛ ۵۲۴۲؛ ۳۳۷۴ تا ۵۳۷۴)۔ ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے ایک قبیلہ میں پڑاؤ ڈالا تو انہوں نے مہمانی سے صاف انکار کردیا۔ اتفاق سے قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا اور کوششوں کے باوجود سردار اچھا نہ ہوا تو وہ نبیﷺ کے قافلہ کے پاس مدد کے لیے آئے۔ ایک صحابی نے بکریوں کے ایک گلے کی اجرت طے کرکے سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو سانپ کا ڈسا ہوا سردار ایک دم اچھا ہوگیا اور تکلیف و درد کے بغیر چلنے لگا۔نبی کریم ﷺ نے یہ ماجرا سن کر کہا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے(بخاری:۶۷۲۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو دی تھی کہ اس میں محنت سے کاشت کریں اور پیداوار کا آدھا حصہ خود لے لیا کریں۔ بعد میں حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو وہاں سے جلا وطن کردیا تھا (بخاری:۵۸۲۲؛ ۶۸۲۲)۔ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے  (بخاری: ۷ ۳۷۵)۔


بیع۔ شفعہ 

شفعہ کا حق (غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا پہلا حق پڑوسی کا ہے) ہر اس مال میں ہے جو تقسیم نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر اس کی حد بندی ہوجائے اور راستے بھی پھیر دیئے جائیں تو اب شفع کا حق نہیں رہتا (بخاری:۳۱۲۲؛ ۴۱۲۲)۔ بکنے والی جائیداد کی خریداری کا پہلا حقدار پڑوسی  ہے۔اسے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق ہے، جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن حدود مقرر ہوگئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا(بخاری:۷۵۲۲)۔ پڑوسی اپنے پڑوس کی جائیداد خریدنے کا زیادہ حقدار ہے(بخاری:۸۵۲۲)۔ اگر دو پڑوسیوں میں سے کسی ایک کو ہدیہ بھیجنا ہو تو اسے بھیجو، جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو (بخاری:۹۵۲۲)۔ شفعہ کا حق ایسی زمین جائیداد وغیرہ میں ہے، جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بھی بدل دئے جائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا  (بخاری:۵۹۴۲؛ ۶۹۴۲)۔


بیع۔ ممنوعہ 

  خرید و فروخت میں ایام جاہلیت والا منابذہ (کپڑے کا تھان یا کوئی اورچیز دوسرے کی طرف پھینک کر سودا طے کرنے کا طریقہ جس میں خریدار کو اسے اچھی طرح پرکھنے کاختیار نہ ہو) اور ملامسہ (کپڑے یا کسی چیز کو خریدار ہاتھ لگا دے تو سودا طے پاجائے) کرنا منع ہے (بخاری:۴۸۵؛۳۹۹۱؛ ۴۴۱۲؛ ۵۴۱۲ تا ۷۴۱۲)۔ درختوں پر لگے کھجور کو اس وقت تک بیچنا منع ہے جب تک کھجور پک کر سرخ نہ ہوجائیں اور یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا (بخاری: ۶۸۴۱ تا ۸۸۴۱)۔ اندازے ہی سے درخت کے پھلوں کی بیع کی صرف ایک صورت عرایا کی اجازت ہے (بخاری:۳۷۱۲)۔ خریدا ہوا مال پوری طرح اپنے قبضہ میں کرنے سے پہلے اسے نہ بیچو (بخاری:۴۲۱۲؛ ۶۲۱۲؛ ۲۳۱۲؛ ۳۳۱۲؛۶۳۱۲)۔ جہاں سے غلہ خریدو، وہیں پر اسے نہ بیچو بلکہ اسے اپنی مارکیٹ میں لاکر بیچو (بخاری:۳۲۱۲؛ ۷۳۱۲)۔ کوئی شخص اپنے بھائی کی خرید و فروخت میں دخل اندازی نہ کرے (بخاری:۹۳۱۲؛ ۰۴۱۲؛ ۰۵۱۲)۔ایام جاہلیت کی طرح حمل کے حمل کی بیع ممنوع ہے۔ یعنی اونٹنی خرید کر اس کی قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرے کہ یہ اونٹنی بچہ جنے اور پھر پیٹ کی اونٹنی بڑی ہوکر جنے  (بخاری:۳۴۱۲)۔ اونٹنی اور بکری کو اس کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ بیچو۔ ایسا جانور خریدنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو تین دن کے اندر اندر جانور رکھ لے، چاہے تو واپس کردے۔ البتہ اسے استعمال شدہ دودھ کے بدلہ میں ایک صاع کھجور ساتھ دینا ہوگا (بخاری:۸۴۱۲ تا ۱۵۱۲؛ ۴۶۱۲)۔ خرید و فروخت میں ایسی شرط باطل ہوگی، جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو  (بخاری:۵۵۱۲)۔ کوئی شہری دلال بن کر دیہاتی کا مال تجارت نہ بیچے (بخاری:۳۲۷۲؛  ۷۲۷۲؛ ۴۷۲۲)۔ کوئی شخص اپنے بھائی کی لگائی ہوئی قیمت پر بھاؤ نہ بڑھائے (بخاری:۳۲۷۲؛ ۷۲۷۲)۔ تجارتی قافلوں سے منڈی سے آگے جاکر کاروبار کی نیت سے ملاقات کرنا منع ہے (بخاری:۴۷۲۲)۔ تجارتی قافلوں کو منڈی میں آنے سے قبل نہ ملو۔کوئی شہری دلال بن کر کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے (بخاری:۸۵۱۲  تا ۶۶۱۲)باندی کے زنا کی کمائی سے منع کیا گیا ہے۔(بخاری:۳۸۲۲)۔ جفتی (مادہ جانور کو نر سے حاملہ) کرانے کی اجرت لینا منع ہے (بخاری:۴۸۲۲)۔کتے کی قیمت، زنا کی اجرت اور کاہن کی کہانت کی اجرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (بخاری: ۱۶۷۵)۔ کتے اور خون کی قیمت لینا منع ہے (بخاری:۶۸۰۲)۔ بیع مزابنہ،درخت پر لگی کھجور یا انگور کو ٹوٹی ہوئی کھجور یا کشمش کے بدلہ میں ناپ کر بیچنے کو کہتے ہیں۔ محاقلہ اور مزابنہ تجارت کرنا منع ہے (بخاری:۱۷۱۲؛ ۲۷۱۲؛۵۸۱۲ تا ۷۸۱۲؛ ۵۰۲۲)۔


 ممنوعہ تجارت: درخت پر لگا پھل اُس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کا پکا ہونا ظاہر نہ ہوجائے۔ درخت پر لگے کھجور کو خشک کھجور کے بدلہ میں نہ بیچو۔ البتہ صرف بیع تریہ کی تر یا خشک کھجور کے بدلہ میں اجازت ہے(بخاری:۳۸۱۲؛ ۴۸۱۲؛۹۸۱۲؛ ۱۹۱۲؛ ۸۰۲۲)۔  صاحب عریہ کو اجازت ہے کہ اپنا عریہ اس کے اندازے برابر میوے کے بدل بیچ ڈالے (بخاری:۸۸۱۲؛ ۳۷۱۲)۔ بیع عریہ میں پانچ وسق یا اس سے کم کی اجازت ہے۔ اس بیع میں انسان اپنے ایک دو درخت کے پھل کسی کو عاریتاََ دے دیتا ہے۔ اسی متوقع پھل کے بدلہ ٹوٹی ہوئی کھجور کا تبادلہ جائز ہے (بخاری:۰۹۱۲؛ ۲۹۱۲؛۲۸۳۲) درختوں پر لگے پھلوں کو پختہ ہونے سے پہلے بیچنا اور خریدنا دونوں منع ہے (بخاری:۴۹۱۲ تا  ۸۹۱۲)۔ اگردرخت پر لگے پھل پختہ ہونے سے پہلے ہی خرید لئے پھر ان پر کوئی آفت آگئی تو جتنا نقصان ہوا، وہ سب اصل مالک کو بھرنا پڑے گا (بخاری:۹۹۱۲)۔ زائد مقدار کے گھٹیا کھجور کے بدلہ اعلیٰ معیار کے کم مقدار کھجور خریدنا منع ہے۔ گھٹیا کھجور کو پیسوں کے بدلہ بیچ کر اسی پیسے سے اعلیٰ معیار کی کھجور خریدنا چاہئے۔ (بخاری:۱۰۲۲؛ ۲۰۲۲)۔  پیوندی لگائے ہوئے کھجور کے درخت کو اگر کسی نے بیچ دیا تو اس موسم کا پھل درخت بیچنے والے ہی کا ہوگا، الا یہ کہ خریدار نے پھلوں سمیت خریدنے کی شرط لگائی ہو (بخاری:۳۰۲۲؛ ۴۰۲۲؛ ۶۰۲۲)۔ محاقلہ، مخاضرہ، ملامسہ، منابذہ اور مزابنہ بیع سے منع کیا گیا ہے (بخاری: ۷۰۲۲) ۔  درخت کے پھل کوبیچنا اس وقت تک منع ہے، جب تک وہ کھانے اور وزن کا اندازہ لگانے کے قابل نہ ہوجائے (بخاری: ۶۴۲۲  تا ۰۵۲۲؛ ۱۸۳۲)۔ چاندی کو ادھار، نقد کے بدلہ بیچنا منع ہے (بخاری:۷۴۲۲ تا ۸۴۲۲)۔ چاندی کو سونے کے بدلہ بیچنا منع ہے، اگر ایک نقد اور دوسرا ادھار ہو(بخاری:۹۴۲۲ تا ۰۵۲۲)۔  اونٹ وغیرہ کے حمل کے حمل ہونے کی مدت کے لیے بیچنا منع ہے (بخاری:۶۵۲۲)۔ پیوند کاری کے بعد اگر کسی نے کھجور کا درخت بیچا تو اس سال کی فصل کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدار نے پھل سمیت خریدنے کا معاہدہ کیا ہو (بخاری:۹۷۳۲)۔  بیع عریہ میں درخت پر لگے کھجور کو اندازہ کرکے خشک کھجور سے بیچنے کی اجازت ہے (بخاری: ۰۸۳۲)۔  بیع مخابرہ، محاقلہ، مزانبہ منع ہے (بخاری:۱۸۳۲)۔  درخت پر لگے غلہ یا میوہ کو دینار و درہم ہی کے بدلہ بیچا جائے۔ البتہ عرایہ کی اجازت ہے (بخاری:۱۸۳۲)۔  عرایہ کے علاوہ درخت پر لگے کھجور کو خشک کی ہوئی کھجور کے بدلہ بیچنا یعنی بیع مزابنہ منع ہے (بخاری:۳۸۳۲؛ ۴۸۳۲)۔بیع صرف یعنی سونے چاندی کو رقم سے خریدنے میں نقد جائز ہے، ادھار منع ہے (بخاری:۷۹۴۲؛ ۸۹۴۲)۔


بیع۔ حرام 

شراب فروخت کرنے والے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بد دعا: اسے اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کرے (بخاری:۳۲۲۲)۔ اللہ یہودیوں کو برباد کرے۔ انہوں نے حرام کی گئی چربیوں کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی تھی (بخاری:۳۲۲۲؛ ۴۲۲۲)۔ فتح مکہ کے سال ہی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کا بیچنا حرام قرار دے دیا تھا۔ تاہم مردار کی چربی کو کشتیوں پر ملنا، اسے بطور تیل استعمال کرنا اور چراغ جلانا حرام نہیں ہے (بخاری:۶۳۲۲)۔ کتے کی قیمت، زانیہ کے زنا اور کاہن کی اُجرت لینا ممنوع ہے (بخاری:۷۳۲۲؛۲۸۲۲)۔ خون کی قیمت، کتے کی قیمت،  باندی کی حرام کمائی کھانا منع ہے (بخاری: ۸۳۲۲)۔ کتے کی قیمت کھانا اور سود لینا دینا دونوں منع ہے (بخاری: ۵۴۹۵)۔ 


بیع۔ قسم 

 سامان بیچتے وقت قسم کھانے سے دکاندار کا مال تو جلدی بک جاتا ہے لیکن یہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے (بخاری:۷۸۰۲)۔ مال بیچتے وقت جھوٹی قسم کھانے والے کو سخت دردناک عذاب ملے گا (بخاری:۲۷۶۲؛ ۳۷۶۲؛ ۵۷۶۲)۔


بیع۔ قرض 

سابقہ اُمتوں میں مقروضوں کو مہلت دینے، ان پر سختی نہ کرنے اور محتاجوں کو معاف کرنے والے سے بوقت موت فرشتوں نے بھی درگزر سے کام لیا اور سختی نہ کی (بخاری:۷۷۰۲)۔ قرض دینے والا ایک تاجر تنگ دستوں سے اس وجہ سے در گزر کرتاتھا کہ شاید آخرت میں اللہ بھی اُس سے در گزر فرمائے۔ چنانچہ مرنے کے بعد اللہ نے اسے بخش دیا (بخاری:۸۷۰۲)۔مالدار کی طرف سے قرض واپس کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اگر کسی مقروض کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جائے تو وہ اسے قبول کرے (بخاری:۷۸۲۲؛ ۸۸۲۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مقروض کی نماز جنازہ خود نہیں پڑھایا کرتے تھے جس نے قرض کی ادائیگی کے لئے کوئی مال نہ چھوڑا ہو،  الا یہ کہ کوئی مرحوم کا قرض ادا کرنے کے لیے تیار ہو (بخاری:۹۸۲۲؛ ۵۹۲۲؛ ۸۹۲۲؛  ۱۷۳۵)۔ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کو پوری طرح ادا کرتے ہیں۔(بخاری:۵۰۳۲؛ ۶۰۳۲)۔ جوشخص لوگوں سے قرض ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ اسے ادا کرنے کی توفیق دے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے تو اللہ بھی اس کو تباہ کردے گا(بخاری:۷۸۳۲)۔ تم میں سے اچھا وہی ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض میں لئے گئے کم عمر کے اونٹ کے بدلہ میں زیادہ عمر والا اونٹ واپس کروایا  (بخاری:۰۹۳۲؛ ۲۹۳۲؛ ۳۹۳۲؛ ۶۰۶۲؛ ۹۰۶۲)۔ ایک تاجر کی اس بنیاد پر بخشش ہوگئی کہ وہ مالدار مقروضوں کو مہلت اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کردیا کرتا تھا (بخاری:۱۹۳۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبداللہ ؓ کواس کے قرض سے بھی زیادہ واپس کیا (بخاری:۴۹۳۲)۔ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں (بخاری:۷۹۳۲)۔  فوت ہونے والا جو مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے  (بخاری:۸۹۳۲؛ ۹۹۳۲)۔ مالدار کی طرف سے قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے  (بخاری:۰۰۴۲)۔ جس نے اپنا مال بعینہٖ اس شخص کے پاس پایا جو دیوالیہ ہوگیا ہو تو وہ دوسروں کی نسبت اس کا زیادہ حقدار ہے (بخاری:۲۰۴۲)۔ ایک شخص اپنے قرضدار وں میں سے کسی کو مفلس پاتا تو اسے اس لیے معاف کردیتا کہ ممکن ہے اللہ بھی مجھے معاف کردے۔ جب وہ اللہ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا(بخاری: ۰۸۴۳)۔


بیع۔ گروی 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ یہودی کے پاس رکھ کر اس سے ایک خاص مدت کے لیے غلہ خریدا (بخاری:۶۸۳۲؛  ۸۰۵۲؛ ۹۰۵۲؛ ۳۱۵۲)۔ گروی جانور پر اس کا خرچ نکالنے کے لیے سواری کی جائے اور دودھ والا جانور گروی ہو تو اس کا دودھ پیا جائے (بخاری:۱۱۵۲؛ ۲۱۵۲)۔


بیع۔ رباء(سود) 

دو صاع (ادنیٰ کھجور یا غلہ وغیرہ) ایک صاع (عمدہ کھجور یا غلہ) کے بدلہ میں نہ بیچی جائے۔ اور نہ دو درہم ایک درہم کے بدلہ میں بیچے جائیں (بخاری:۰۸۰۲)۔  گودنا لگانا اور لگوانا، سود لینا اور دینا دونوں منع ہے (بخاری:۶۸۰۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں دکھلایا گیا کہ ایک شخص خون کی نہر کے درمیان کھڑا ہے۔ جب وہ نہر سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو نہر کے باہر کھڑا ایک شخص اس کے منہ پر پتھر مارکر اسے واپس اس کی جگہ لوٹا دیتا ہے۔ فرشتوں نے آپ ؐ  کو بتلایا کہ نہر والا آدمی سود خور ہے (بخاری:۵۸۰۲)۔ سونا سونے کے بدلے میں، گندم گندم کے بدلہ میں، جو جو کے بدلہ میں اورکھجور کھجور کے بدلہ میں خریدنا سود ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو (بخاری:۴۳۱۲؛ ۰۷۱۲؛ ۴۷۱۲)۔ بیع صرف (روپیہ اشرفیاں بدلنے یا تڑوانے) میں سونا سونے کے بدلے میں اور چاندی چاندی کے بدلہ میں اس وقت نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ البتہ دونوں کو ایک دوسرے کے بدل میں جس طرح چاہو بیچو۔ ادھار کو نقد کے بدلہ میں نہ بیچو (بخاری:۵۷۱۲ تا ۷۷۱۲؛ ۲۸۱۲)۔ دینار، دینار کے بدلہ میں اور درہم، درہم کے بدلہ میں بیچا جاسکتا ہے۔ سود صرف ادھار میں ہوتا ہے (بخاری:۸۷۱۲؛ ۹۷۱۲)۔ بیع صرف: سونے کو چاندی کے بدلہ میں ادھار کی صورت میں بیچنا منع ہے (بخاری:۰۸۱۲؛ ۱۸۱۲)۔ خیبر کے تحصیلدار نے دو صاع گھٹیا قسم کے کھجور کے بدلہ ایک صاع عمدہ قسم کے کھجور خریدنے کا ذکر کیا تو نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیع کو سود قرار دیتے ہوئے منع فرمایا اور کہا کہ پہلے گھٹیا کھجوریں پیسوں کے بدلہ بیچ کر انہی پیسوں سے اچھی قسم کی کھجور خریدا کرو۔اور ایساہی عمل تولے جانے والے غلہ وغیرہ میں بھی کیاکرو (بخاری:۲۰۳۲؛ ۳۰۳۲؛ ۲۱۳۲؛ ۴۴۲۴؛ ۵۴۲۴؛ ۰۵۳۷؛ ۱۵۳۷)۔ تمہارا کسی شخص پرکوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے (بخاری:۴۱۸۳)۔ 


بیع نجش 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش سے منع کیا ہے یعنی کسی چیز کا خریدنا منظور نہ ہو مگر دوسرے خریداروں کو بہکانے کے لیے اس کی قیمت بڑھانے کی بولی دینا منع ہے (بخاری: ۳۶۹۶)۔


بیعت۔ نبوت 

 مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے، چوری نہ کروگے، زنا نہ کروگے، جان بوجھ کر کسی پر بہتان نہ باندھوگے، کسی بھی اچھی بات میں اللہ کی نافرمانی نہ کروگے۔(بخاری:۸۱)۔ رسول اللہ سے بیعت: حضرت جریر رضی اللہ نے اس بات کی شہادت پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، امیر کی بات سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی بیعت کی تھی (بخاری:۷۵۱۲)۔   زہرہ بن معبدکو ان کی والدہ زینب بنت حمیدؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کے لیے لے کر آئیں تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ تو ابھی بچہ ہے۔ پھر آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی۔ان کے دادا عبداللہ بن ہشام ؓ غلہ خریدنے بازار جاتے تو زہرہ بن معبد کو بھی ساتھ لے جاتے اور کبھی ایک اونٹ مع غلہ نفع میں پیدا کرلیتے (بخاری:۱۰۵۲؛ ۲۰۵۲)۔ صرف مال دنیا کی خاطر خلیفہ سے بیعت کرنے والے کو سخت دردناک عذاب ملے گا (بخاری:۲۷۶۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جریر ؓ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی۔  (بخاری:۴۱۷۲؛ ۵۱۷۲)۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے صبر و استقامت پر بیعت لی تھی  (بخاری:۸۵۹۲)۔ حرہ کی لڑائی میں عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے موت پر بیعت لے رہے تھے تو عبد اللہ بن زید ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا (بخاری:۹۵۹۲)۔ سلمہ بن الاکوع نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی تھی  (بخاری:۰۶۹۲)۔غزوہ خندق کے موقع پر انصار خندق کھودتے ہوئے کہتے تھے: ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاس پر بیعت کی ہے، جب تک ہمارے جسم میں جان ہے (بخاری:۱۶۹۲)۔ فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت ختم ہوگئی تھی۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور جہاد پر بیعت لی (بخاری:۲۶۹۲؛ ۳۶۹۲)۔ بیعت عقبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے کہا تھا: مجھ سے اس بات کا عہد کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤگے، چوری نہ کروگے، زنا نہ کروگے، اپنی اولاد کو قتل نہ کروگے، کسی پر تہمت نہ لگاؤگے، اچھی باتوں میں میری نافرمانی نہ کروگے۔ پس جو شخص اپنے اس عہد پر قائم رہے گا، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (بخاری:۲۹۸۳؛ ۳۹۸۳)۔


بیعت۔ نبوت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے، زنا اور چوری نہ کرنے پر بیعت لیا کرتے اور فرماتے:جو اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کربیٹھا اور اس پر اسے سزا بھی مل گئی تو سزا اس کے لیے کفارہ بن جائے گی (بخاری:۴۹۸۴)۔ منیٰ میں عقبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیبوں سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، ناحق قتل نہیں کریں گے، لوٹ مار نہیں کریں گے اور نبی کریم ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اگر انہوں نے اس پر عمل کیا تو انہیں جنت ملے گی اور اگر کسی طرح کا گناہ کیا تو اس کافیصلہ اللہ کی بارگاہ میں ہوگا (بخاری: ۳۷۸۶)۔ ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ پر بیعت کی۔ پھر اسے بخار ہوگیا تو آپ ؐسے کہنے لگا کہ میری بیعت فسخ کردیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے انکار کیا تو وہ خود ہی مدینہ سے چلاگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مدینہ بھٹی کی طرح ہے۔ اپنی میل کچیل دور کردیتا ہے اور صاف مال رکھ لیتا ہے (بخاری: ۹۰۲۷؛ ۱۱۲۷؛ ۶۱۲۷)۔ مجھ سے بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، زنا نہیں کروگے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے، کسی پر بہتان نہیں لگاؤگے اور نیک کام میں نافرمانی نہیں کروگے۔جس نے ان میں سے کسی برے کام کو کیا اور اسے اس کی سزا دنیا ہی میں مل جائے تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ اور اگر اللہ نے کسی کی برائی کو چھپالیا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ چاہے تو سزا دے، چاہے تو معاف کردے (بخاری: ۳۱۲۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے زبانی بیعت لیتے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔ آپ نے اپنی لونڈی کے سوا کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا(بخاری: ۴۱۲۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے بیعت کرنے والی عورتوں کو نوحہ کرنے سے منع کیا(بخاری: ۵۱۲۷)۔


 تبلیغ دین 
 میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ، اگرچہ ایک ہی آیت ہو (بخاری: ۰۶۴۳)۔ جس نے مجھ پر قصداََ جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے (بخاری: ۱۶۴۳)۔ اللہ کے حکم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر بنی فہر، بنی عدی اور قریش کو پکارتے ہوئے جمع کیا اور پہلے ان سے اپنے سچے ہونے کی گواہی لی پھر فرمایا:اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ۔ اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا (بخاری:۱۷۷۴)۔ یہاں موجود لوگ غیر موجود لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دیں۔ ایسا ممکن ہے کہ جنہیں میرا پیغام پہنچایا جائے ان میں سے بعض ایسے بھی ہوں جو سننے والوں سے زیادہ بہتر طور پر میرا پیغام محفوظ کرنے والے ہوں (بخاری: ۰۵۵۵)۔ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے والا اگر خود اپنی تبلیغ کردہ باتوں پر عمل نہ کرے تو روز قیامت اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا پھر وہ اس میں گدھے کی طرح چکی پیسے گا(بخاری: ۸۹۰۷)۔


تحفہ، ہبہ 
اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے معمولی ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو(بخاری:۶۶۵۲)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دو دو ماہ تک کھانا پکانے کے لیے آگ نہ جلتی تھی اور ہم صرف کالی کھجوروں اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔ البتہ ہمارے چند انصاری پڑوسی دودھ کا تحفہ بھیجتے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے (بخاری:۷۶۵۲)۔ مجھے بازو اور پائے پر بھی دعوت دی جائے یا بازو اور پائے کا تحفہ بھیجا جائے تواسے بھی قبول کرلوں گا (بخاری:۸۶۵۲)ایک مہاجرہ عورت نے اپنے غلام بڑھئی سے منبر بنواکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا(بخاری:۹ ۶۵۲)۔صحابہ ؓ نے ایک خرگوش کا شکار کرکے اس کی رانوں کاگوشت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو آپ ؐنے اس ہدیہ کو قبول کرکے اسے تناول فرمایا (بخاری:۲۷۵۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے لوگ تحائف بھیجنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے (بخاری:۴۷۵۲)۔ اُم حفید رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پنیر، گھی اور گوہ (سانڈا) کے تحائف بھیجے۔ آپ ﷺ نے پنیر اور گھی تناول فرمایا لیکن گوہ پسند نہ ہونے کی وجہ سے نہ کھایا لیکن دوسرے لوگوں نے گوہ کھایا کیونکہ یہ حرام نہیں ہے (بخاری: ۵۷۵۲) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی کھانے کی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے کہ یہ زکوٰۃ ہے یا ہدیہ۔ اگرکہا جاتا کہ زکوٰۃہے تو آپ ؐ خود نہ کھاتے اور اصحاب سے فرماتے کہ کھاؤ۔ اگر کہا جاتا کہ ہدیہ ہے تو آپؐ خود بھی اصحاب کے ساتھ کھاتے (بخاری: ۶۷۵۲)۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ بریرہ رضی اللہ کو کسی نے بطور زکوٰۃ دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اُن کے لیے یہ زکوٰۃ ہے اور ہمارے لیے ان کی طرف سے ہدیہ ہے (بخاری:۷۷۵۲؛ ۸۷۵۲)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم عطیہ ؓ کے ہاں زکوٰۃ کی بکری بھیجی تو انہوں نے اس کا گوشت حضرت عائشہؓ کے گھر بھیجا۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: زکوٰۃ اپنی جگہ پہنچ چکی۔(بخاری:۹۷۵۲)۔ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحائف بھیجنے کے لئے آپ کے حضرت عائشہؓ کے ہاں کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ کہتی ہیں کہ میری سوکنیں (اُمہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) جمع تھیں تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور شکایت یہ ذکر کیا تو آپؐ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اُم سلمہ کی طرف سے بار بار کے شکایت پر نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے عائشہؓ کے بارے میں تکلیف نہ دو۔ عائشہ ؓ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے (بخاری:۰۸۵۲؛ ۱۸۵۲)۔


تحفہ، ہبہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو کا ہدیہ واپس نہیں فرمایا کرتے تھے (بخاری:۲۸۵۲)۔ ایک صحابی نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو غلام کا تحفہ دیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکو ں کو بھی دیا ہے؟ نفی جواب سُن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پھر ان سے بھی غلام واپس لے لو  (بخاری:۶۸۵۲)۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف قائم رکھو۔ اگر کسی ایک کو ہدیہ دو تو ویسا ہی ہدیہ سب کو دو (بخاری:۷۸۵۲)۔ اپنا ہبہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے پھر چاٹ لیتا ہے (بخاری:۹۸۵۲؛ ۱۲۶۲ تا ۳۲۶۲)۔ اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ انہوں نے اپنی لونڈی آزاد کردی ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا:اس کے بجائے اگر تم اسے اپنے ننھیال والوں کو  ہدیتاََدی ہوتی تو زیادہ ثواب ملتا (بخاری:۲۹۵۲؛ ۴۹۵۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ساتھ لے جانے کے لیے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ آپ نے اپنی تمام ازواج کے لیے ایک ایک دن اور رات کی باری مقرر کر دی تھی۔ آخر میں حضرت سودہؓ نے اپنی باری  نبی کی رضا کے لیے حضرت عائشہ ؓ  کو ہدیتاََ دے دی تھی (بخاری:۳۹۵۲)۔ ہدیہ اُس پڑوسی کے گھر بھیجو جس کا دروازہ تم سے قریب ہو (بخاری:۵۹۵۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صعب ؓ کا گورخر کا ہدیہ واپس کرتے ہوئے کہا: ہدیہ واپس کرنا مناسب تو نہیں لیکن بات یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں (بخاری:۶۹۵۲)۔ ریشمی حلہ (جبہ) کے بارے میں فرمان رسولﷺ: اسے وہی لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے ریشمی جبے آئے تو آپؐ نے ایک جبہ حضرت عمر ؓ کو بھی دیا اور فرمایا: یہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے اسے مکہ میں رہنے والے اپنے مشرک بھائی کو دے دیا (بخاری:۲۱۶۲؛ ۹۱۶۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ الزہرا ؓ کے دروازہ پر دھاری دار پردہ لٹکا دیکھ کر گھر کے اندر نہیں گئے اور واپس ہولیے اور فرمایا: میرا مجھے دنیا کی آرائش و زیبائش سے کیا سروکار۔ حضرت فاطمہ ؓ  کے پوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا: اس پردہ کو فلاں کے گھر بھجوادو۔ انہیں اس کی ضرورت ہے (بخاری:۳۱۶۲)۔ حضرت علی ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملا ہوا ریشمی جبہ پہن لیا تو آپ ؐ کے چہرہ پر غصہ کے آثار دیکھ کر اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کردیا (بخاری:۴۱۶۲)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دبیز قسم کے ریشم کا جبہ بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ آپ ؐ اس کے استعمال سے مردوں کو منع فرماتے تھے۔ تبوک کے ایک مقام دومہ کے اکیدر نصرانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا (بخاری:۶۱۶۲)۔


تحفہ، ہبہ:ابن جدعان کے غلام بنو صہیب نے دعویٰ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو مکان اور ایک حجرہ عنایت فرمایا تھا۔ عبداللہ بن عمر ؓ کی گواہی ملنے پر خلیفہ مروان بن حکم نے اسے مکان اور حجرہ عطا کردیا (بخاری:۴۲۶۲)۔ (مشروط ہبہ کی اقسام۔۱۔رقبیٰ: یہ چیز تجھے دیتا ہوں لیکن اگر تو پہلے مرجائے تو یہ میری ہوگی اور اگر پہلے میں مرجاؤں تو مستقل تیری ہوگی۔۲۔ عمریٰ:  تیری زندگی تک میں نے یہ مکان تمہیں دیا۔یہ  دونوں شرط باطل اور نافذالعمل نہیں۔ ہبہ مستقل ہوجائے گا) عمریٰ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ: وہ اس کا ہوجاتا ہے، جسے ہبہ کیا گیا ہو۔ عمریٰ جائز ہے (بخاری: ۵۲۶۲؛ ۶۲۶۲)۔ یمنی دبیز کھردرے کپڑے کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ کا فرمان:میری لونڈی گھر میں یہ کپڑا پہننے سے انکاری ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میرے پاس اسی کپڑے کی ایک قمیص تھی۔ جب کوئی لڑکی دلہن بنتی تو میرے یہاں آدمی بھیج کر وہ قمیص عاریتاََ منگا لیتی تھی (بخاری:۸۲۶۲)۔ کیا ہی عمدہ ہدیہ ہے اس دودھ والی اونٹنی کا جس نے ابھی حال ہی میں بچہ جنا ہو اور دودھ دینے والی بکری کا جو صبح و شام دودھ سے برتن بھر دیتی ہے  (بخاری: ۹۲۶۲)۔ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو صاحب زمین و جائیداد انصار نے مہاجرین سے اپنے باغات میں کام کرنے اور پھلوں میں شریک ہونے کا معاملہ کرلیا۔جنگ خیبر سے واپسی کے بعد مہاجرین نے انصار کے دئے ہوئے تحائف واپس کردئے  (بخاری:۰۳۶۲)۔ دودھ دینے والی بکری کا ہدیہ ایک اعلیٰ و ارفع خصلت ہے، جسے کوئی ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے کرے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا (بخاری: ۱۳۶۲)۔ بہت سے اصحاب نے اپنی فالتو زمین تہائی، چوتھائی یا نصف کی بٹائی پر دینے کی خواہش ظاہر کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:زمین میں خود بوائی کرو یا پھر اپنے بھائی کو ہدیہ کردو۔ جو ایسا نہیں کرتا تو پھر زمین اپنے پاس رکھے رہے (بخاری:۲۳۶۲)۔ ایک لہلہاتی کھیتی کے بارے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ اسے فلاں نے کرایہ پر لیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: مقررہ اجرت وصول کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسے ہدیتاََ دے دیتا (بخاری:۴۳۶۲)۔ ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی توبادشاہ نے  ان کی خدمت کے لیے ہاجرہ کو عطیہ میں دے دیا(بخاری:۵۳۶۲)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے دیا تھا۔ پھر عمر ؓ نے سنا کہ وہ گھوڑا بیچ رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اسے واپس میں ہی خرید لوں؟ تو جواب ملا۔ نہ خریدو۔ اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس نہ لو (بخاری:۶۳۶۲)۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ کی ماں کے کہنے پر ان کے والد نے انہیں کوئی چیز ہبہ کردی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے دیگر بیٹوں کو بھی یہ ہبہ کیا ہے۔ نفی جواب پر آپ ﷺنے اس ہبہ کو واپس کرادیا (بخاری:۰۵۶۲)۔ اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہو (بخاری: ۵۷۹۶)۔


تقدیر۔ نصیب 
رحم مادر پر مقرر فرشتہ نطفہ کے علقہ اور مضغتہ بننے (یعنی ایک سو چالیس دن)کے بعد بچہ کے مذکر یا مؤنث، بد بخت یا نیک بخت، رزق اور عمر کے بارے میں لکھ دیتا ہے کہ کتنی ہوگی (بخاری:۸۱۳)۔ اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کرکے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اگر بی بی حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی (بخاری:۰۳۳۳؛ ۹۹۳۳)۔  حضرت موسیٰ  ؑ اور حضرت آدم  ؑ میں بحث ہوئی تو حضرت موسیٰ  ؑ نے کہا:آپ آدم ہیں، جو اپنی لغزش کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے۔ آدم  ؑ نے جواب دیا: آپ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملہ پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ چنانچہ اس بحث میں حضرت آدم  ؑ غالب آگئے (بخاری:۹۰۴۳؛ ۵۱۵۷؛ ۴۱۶۶)۔ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کا ٹھکانہ جہنم میں یا جنت میں نہ لکھا جاچکا ہو۔ہر شخص کے لیے اس عمل میں آسانی پیدا کردی گئی ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے (بخاری: ۱۵۵۷؛ ۲۵۵۷)۔ اللہ جب مخلوق کو پیدا کرچکا تواس نے عرش کے اوپر اپنے پاس ایک کتاب لکھ کر رکھی جس میں یوں لکھا ہے کہ میری رحمت، میرے غصے پر غالب ہے (بخاری: ۳۵۵۷؛ ۴۵۵۷) ۔


تنازعہ، مقدمہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ اگر مدعی گواہ نہ پیش کرسکے تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے (بخاری:۴۱۵۲؛ ۸۶۶۲ تا ۰۷۶۲)۔ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے اللہ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہوگا (بخاری:۵۱۵۲؛ ۶۱۵۲؛ ۶۶۶۲؛ ۷۶۶۲؛ ۹۶۶۲؛ ۰۷۶۲؛ ۶۷۶۲؛ ۷۷۶۲؛ ۹۴۵۴؛ ۰۵۵۴)۔ایک سے زائد مدعا علیہ کے قسم کھانے کے لئے ان میں باہم قرعہ ڈالا جائے کہ پہلے کون قسم کھائے گا (بخاری:۴۷۶۲)۔ اگرکسی مقدمہ میں کوئی باتوں کے زور پراپنے بھائی کا مال ناحق حاصل کرلے تو وہ اصل میں دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کررہا ہوتا ہے (بخاری:۰۸۶۲؛ ۱۸۱۷؛ ۵۸۱۷)۔ گواہ مدعی پر اور قسم مدعا علیہ پر ہے۔اگر مدعا علیہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرلے تو اسے اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو سورۃ آل عمران آیت: ۷۷ میں ہے کہ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں (بخاری:۲۵۵۴)۔
 

تعریف، تنقید۔ مبالغہ 
کسی کی تعریف یوں کرو: میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں۔ آگے اللہ خوب جانتا ہے  (بخاری:۲۶۶۲)۔ کسی کی مبالغہ کے ساتھ تعریف کرنا گویا اسے ہلاک کرنا اور اس کی کمرتوڑنا ہے (بخاری:۳۶۶۲)۔


 توبہ۔ دعائیں 
 سید الاستغفار یہ ہے:اے اللہ!تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تونے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں، تیری پناہ مانگتا ہوں۔ مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کردے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن اس کا انتقال ہوگیا تو وہ جنتی ہے (بخاری: ۶۰۳۶)۔ اللہ کی قسم! میں دن میں ستّر (۰۷) مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں (بخاری: ۷۰۳۶)۔ اللہ اپنے  بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ چٹیل میدان میں گم ہونے کے بعد اچانک مل جائے (بخاری: ۹۰۳۶)۔ جب تو سونے لگے تو نماز کی طرح وضو کرکے دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کردیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کردئے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری رحمت کی امید میں کوئی پناہ گاہ تیرے سوا نہیں۔ میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تونے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے (بخاری: ۱۱۳۶؛ ۳۱۳۶؛ ۵۱۳۶)۔ نبی کریم بستر پر سوتے وقت یہ دعا پڑھتے: با  سمک اموت و احیا (تیرے ہی نام کے ساتھ میں مردہ اور زندہ رہتا ہوں)۔ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے: الحمدللہ الذی احیانا بعد اماتنا والیہ النشور(تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعدزندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے) (بخاری: ۲۱۳۶؛ ۴۱۳۶؛ ۴۲۳۶؛ ۵۲۳۶)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لیے لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر معوذات (سورۃ اخلاص، الفلق، الناس) پڑھ کر پھونکتے اور دونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے (بخاری: ۹۱۳۶)۔ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں اللہ تبارک تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماکر کہتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں۔ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں۔ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کی بخشش کروں (بخاری: ۱۲۳۶)۔ بیت الخلاء جانے کی مسنون دعا: اللہم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث۔ اے اللہ! میں خبیث جنوں اور جنیوں کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں (بخاری: ۲۲۳۶)۔صدقہ لانے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا دیتے: اے اللہ! فلاں کی آل اولاد پر اپنی رحمتیں نازل فرما (بخاری: ۲۳۳۶)۔ جب تم اللہ سے کوئی دعا کرو تو یوں نہ کہو کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر، تو اگر چاہے تو مجھے معاف کردے، میری مغفرت کردے، بلکہ یقین کے ساتھ دعا کیا کرو (بخاری: ۸۳۳۶؛ ۹۳۳۶)۔


توبہ۔ دعائیں: پریشانی کے وقت کی مسنون دعاء:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت عظمت والا ہے اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے (بخاری: ۵۴۳۶؛ ۶۴۳۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کی سختی، تباہی تک پہنچ جانے، قضاء و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے (بخاری: ۷۴۳۶)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ بد ترین بڑھاپا مجھ پر آجائے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ، دجال کے فتنہ سے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے (بخاری: ۵۶۳۶)۔اے اللہ! میں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بہت زیادہ بڑھاپے سے، زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں  (بخاری: ۷۶۳۶)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، بہت زیادہ بڑھاپے سے، گناہ سے، قرض سے، قبر کی آزمائش سے، قبر کے عذاب سے، دوزخ کی آزمائش سے، دوزخ کے عذاب سے، مالداری کی آزمائش سے،  محتاجی کی آزمائش سے اور مسیح دجال کی آزمائش سے۔ اے اللہ!میرے گناہوں کو دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک صاف کردے (بخاری: ۸۶۳۶؛ ۵۷۳۶؛ ۷۷۳۶)۔اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل سے، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے (بخاری: ۹۶۳۶)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، بخل سے، ناکارہ عمر کو پہنچنے سے، دنیا کی آزمائش اور قبر کے عذاب سے (بخاری: ۴۷۳۶)۔ خادم رسول حضرت انس ؓ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو اسے دے، اس میں برکت عطا فرما  (بخاری: ۸۷۳۶ تا ۱۸۳۶)۔
  دعائے استخارہ: جب تم کسی مباح کام کا ارادہ کرو تو دو رکعت نفل پڑھ کر یوں دعا مانگو:اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار تو اسے میرے لیے مقدر کردے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بُرا ہے، میرے دین کے لیے، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام ِکار کے لیے تو اسے مجھ سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کردے۔ (بخاری: ۲۸۳۶)۔عمومی مسنون دعا: اللھم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (ترجمہ) اے اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا آمین  (بخاری: ۹۸۳۶)۔


توبہ۔ دعائیں: میرے رب! میری خطا، میری نادانی، اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے  اللہ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں، میرے ارادے اور بغیر ارادے کے کاموں میں، میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں۔ اے اللہ! میری مغفرت فرما ان کاموں میں جو میں کرچکا ہوں اور جو میں ابھی کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور ظاہر کیا ہے، تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے  (بخاری: ۸۹۳۶؛ ۹۹۳۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعدیہ دعا کیا کرتے تھے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آسکتی (بخاری: ۵۱۶۶)۔ اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت سے، بد بختی کی پستی سے، بُرے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے سے (بخاری: ۶۱۶۶)۔ ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا! اے میرے رب! میں تیرا ہی گناہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ (بخاری: ۷۰۵۷)۔


توبہ۔ اذکارِ مسنونہ 
اعوذ باللہ من الشیطان  پڑھنے سے غصہ جاتا رہتا ہے (بخاری: ۲۸۲۳)۔ جو دن بھر میں یہ دعا سو مرتبہ پڑھے تو اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا،  نامہ اعمال میں سو نیکیاں ملیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی  لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر (ترجمہ) نہیں ہے کوئی معبود، اللہ کے سوا، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (بخاری: ۳۹۲۳)۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم دو ایسے کلمے ہیں جو اللہ کو بہت پسند ہیں، زبان پر ہلکے اور قیامت کے دن میزان پر بھاری ہیں (بخاری: ۳۶۵۷)۔


  توبہ۔ دعائے مسنونہ 
میں پناہ مانگتا ہوں  اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے (بخاری: ۱۷۳۳)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، سستی سے، نکمی اور خراب بڑی عمر سے، عذاب قبر سے، دجال کے فتنہ سے اور زندگی و موت کے فتنے سے (بخاری: ۷۰۷۴)۔  اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا (بخاری:۲۲۵۴)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا  ہوں غم سے، رنج سے، عجز سے، سستی سے، بخل سے، بزدلی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے (بخاری: ۵۲۴۵)۔سوتے وقت کی مسنون دعا: اللھم با  سمک احیا و اموت (اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ زندہ ہوں اور اسی کے ساتھ مروں گا)۔ نیند سے اٹھنے کی مسنون دعا: الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اما تنا اولیہ النشور (تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اس کے بعد زندہ کیا کہ ہم مرچکے تھے اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے) (بخاری: ۴۹۳۷؛ ۵۹۳۷)۔ بیوی کے پاس جانے کی مسنون دعا: باسم اللہ، اللھم جنبنا الشیطان، و جنب الشیطان ما رزقنا (شروع اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھنا اور تو جو ہمیں عطا کرے، اسے بھی شیطان سے دور رکھنا) (بخاری: ۶۹۳۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت جاننے والا بڑا بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں جو آسمانوں کا رب ہے، زمین کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے (بخاری: ۶۲۴۷؛ ۱۳۴۷)۔ اللہ سے عزم کے ساتھ دعا کرو۔ یوں نہ کہو کہ اگر تو چاہے تو فلاں چیز مجھے عطا کر (بخاری: ۴۶۴۷؛ ۷۷۴۷)۔ 


توبہ۔ وظائف 
جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ اس وقت ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں۔ پس جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہوتی ہے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں  (بخاری: ۲۰۴۶)۔ جس نے دن میں یہ کلمہ سو دفعہ پڑھا، اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے (بخاری: ۳۰۴۶)۔ جس نے دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ و بحمدہٖ کہا، اس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں (بخاری: ۵۰۴۶)۔ دو کلمے زبان پر ہلکے اور میزان میں بہت بھاری  اور رحمن کو عزیز ہیں: سبحان اللہ العظیم، سبحان اللہ و بحمدہٖ (بخاری: ۶۰۴۶)۔ جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا ان کی مثالیں زندہ اور مردہ جیسی ہیں (بخاری: ۷۰۴۶)۔ اللہ کے کچھ فرشتے راستوں میں اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرکے پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں اورذکر کے اختتام پر اپنے رب کے پاس جاکر انہیں بتلاتے ہیں کہ تیرے بندے تیری تسبیح، تیری حمد اور تیری کبریائی بیان کررہے تھے حالانکہ انہوں نے تجھے نہیں دیکھا ہے۔ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی زیادہ کرتے۔  وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں حالانکہ انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا ہے۔ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ جنت کے خواہشمند ہوتے۔ وہ جہنم سے پناہ مانگتے ہیں حالانکہ انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اگر انہوں نے جہنم کو دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے۔یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناکر ان کی مغفرت کرتا ہوں اور اس فرد کی بھی مغفرت کرتا ہوں جو ذاکرین میں سے تو نہیں تھا لیکن اپنی وہ اپنی کسی ضرورت سے وہاں آگیا تھا۔ کیونکہ ذاکرین وہ لوگ ہیں، جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں ہوتا (بخاری: ۸۰۴۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف مقررہ دنوں میں صحابہ کرام کو وعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں (بخاری: ۱۱۴۶)۔


جادو، زہر 
 جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اسے اس دن زہر اور جادو نقصان نہ پہنچا سکے گا (بخاری: ۵۴۴۵)۔ جادو کرنے کرانے سے بچو (بخاری: ۴۶۷۵)۔ سن نو ہجری میں عراق سے آئے ہوئے دو آدمیوں کے خطاب سے اہلِ مدینہ بہت متاثر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں (بخاری: ۷۶۷۵)۔


جانور۔ احکام 
 مُرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے فضل کا سوال کیا کرو کہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے(بخاری: ۳۰۳۳)۔ گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے (بخاری: ۳۰۳۳)۔ چھپکلی ایک موذی جانور ہے۔ اسے مارڈالو (بخاری: ۶۰۳۳؛ ۷۰۳۳)۔ گھروں کے پتلے یا سفید سانپوں کو نہ مارا کرو (بخاری: ۱۱۳۳؛  ۳۱۳۳)۔ پانچ موذی جانور وں چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتوں کو حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے (بخاری: ۴۱۳۳؛ ۵۱۳۳)۔  ایک نبی کو درخت کے نیچے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوادیا۔ اللہ نے وحی بھیجی کہ تمہیں تو اسی چیونٹی کو جلانا تھا، جس نے تمہیں کاٹا تھا (بخاری: ۹۱۳۳)۔ جب مکھی کسی کھانے پینے کی چیز میں پڑجائے تو اسے ڈبو کر نکال پھینکو۔ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے (بخاری: ۰۲۳۳)۔  رحمت کے فرشتے ان گھروں میں داخل نہیں ہوتے جن میں کتا یا جاندار کی تصویر ہو (بخاری: ۲۲۳۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا ہے (بخاری: ۳۲۳۳)۔ کھیت یا مویشی کی حفاظت کے علاوہ جو شخص کتا پالے، اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط ثواب کم کردیا جاتا ہے (بخاری: ۴۲۳۳؛ ۵۲۳۳)۔


جانور۔ رحمدلی 
ایک پیاسے مسافر نے ایک کنویں میں اتر کر اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک پیاسا کتا  تری کو چاٹ رہا ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر لایا اور کتے کو پلایا تو اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی(بخاری:۳۷۱؛ ۹۰۰۶؛۳۶۳۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم میں دکھایا گیا ایک بلی ایک عورت کو نوچ رہی تھی۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ بھوک کی وجہ سے وہ مرگئی۔ نہ تو اسے کھانا دیا اور نہ چھوڑا کہ خود کہیں سے کچھ کھا لیتی (بخاری: ۵۴۷؛ ۸۱۳۳؛۴۶۳۲؛ ۵۶۳۲)۔ ہر جاندار پر رحم کرنے کا اجر ملتا ہے۔ کنویں کے اندر اتر کر وہاں سے پانی باہر نکال کرپیاسے کتے کو پلانے والے کی اللہ نے مغفرت فرمادی  (بخاری:۶۶۴۲)۔بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ زانیہ عورت نے ایک کنویں کے گرد چکر کاٹتے پیاسے کتے کو پانی نکال کر پلایا تو اللہ نے اس کی اسی عمل کے سبب بخشش کردی(بخاری: ۷۶۴۳؛ ۱۲۳۳)۔


 جزیہ، ذمی 
 کفار سے جنگ کے لیے حضرت عمر ؓ نے فوجوں کو فارس کے بڑے شہروں کی طرف بھیجا اور قادسیہ لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا تو شوستر کا حاکم ہرمزن اسلام لے آیا (بخاری: ۹۵۱۳)۔ غزوہ تبوک کے دوران ایلہ کے حاکم یو حنا بن روبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر بھیجا۔ آپ ؐ نے انہیں ایک چادر بھیجا اور ایک تحریر کے ذریعہ اسے ہی اس کے ملک پر حاکم باقی رکھا (بخاری: ۱۶۱۳)۔ حضرت عمر ؓ کا زخمی ہونے کے بعد وصیت: ذمیوں سے کئے گئے عہد کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ اور ان سے وصول کردہ جزیہ تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (بخاری: ۲۶۱۳)۔ بحرین سے بطور خراج آنے والا مال ان تمام اموال میں سب سے زیادہ تھاجو اب تک دربار رسالت میں آچکے تھے۔ آپ ؐ کے حکم سے تمام اموال کو مسجد میں پھیلا دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری درہم کے تقسیم ہونے تک وہیں بیٹھے رہے (بخاری: ۵۶۱۳)۔ جس نے کسی  ذمی کو ناحق قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے (بخاری: ۶۶۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ یہودیوں کے مدرسہ بیت المدراس پہنچے اور اُن سے کہا: اسلام لاؤ تو سلامتی کے ساتھ رہوگے۔ یہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اس ملک سے نکال دوں (بخاری: ۷۶۱۳)۔ جب اسلامی حکومت کی طرف سے غیر مسلموں سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا عہد توڑا جانے لگے گا تو اللہ بھی ذمیوں کے دلوں کو سخت کردے گا اور وہ جزیہ دینا بند کرکے لڑنے کو مستعد ہوں گے  (بخاری: ۰۸۱۳)۔


جمعہ۔ فضائل 
جمعہ کے دن کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ یہودیوں نے تو اسے دوسرے دن (ہفتہ کو) کرلیا اور نصاریٰ نے تیسرے دن (اتوار کو) (بخاری: ۶۸۴۳)۔ ہر مسلمان کو ہفتہ میں ایک دن (جمعہ) غسل کرلینا لازم ہے (بخاری: ۷۸۴۳)۔ جمعہ کے دن ایک ایسی مختصر گھڑی آتی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھ کر اللہ سے خیر مانگے تو اللہ اسے ضروردیتا ہے(بخاری: ۴۹۲۵؛ ۰۰۴۶)۔   جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے (بخاری: ۸۵۸؛۵۶۶۲)۔


جن۔ اسلام 
جس رات میں جنوں نے قرآن مجیدسنا تھا، اس بات کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت نے دی تھی (بخاری:۹۵۸۳)۔ ہڈی اور گوبر جنوں کی خوراک ہیں انہیں استنجے کے لیے استعمال نہ کیا کرو (بخاری:۰۶۸۳)۔ عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن وہ جن بعد میں مسلمان ہوگئے لیکن یہ مشرک جاہلی شریعت پر قائم رہے اور انہی جنوں کی پرستش کرتے رہے (بخاری:۴۱۷۴؛ ۵۱۷۴)۔ 


جہاد فی سبیل اللہ 
جو شخص اللہ کے کلام کی تصدیق کے لیے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا تو اللہ اس کا ضامن ہوجاتا ہے کہ یا تو اسے ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس کرے یا شہادت کے بعد جنت میں داخل کردے۔(بخاری:۶۳؛۷۵۴۷؛ ۳۶۴۷)۔  اللہ کی راہ میں لگا ہر زخم روز قیامت اسی حالت میں ہوگا، جس طرح وہ لگا تھا۔ اس کا رنگ تو خون کا سا ہوگا لیکن خوشبو مشک کی سی ہوگی (بخاری: ۷۳۲)۔ کعب بن اشرف اسلام کا پکا دشمن یہودی تھا جس نے اللہ کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دیا ہوا تھا۔رسول اللہ کے کہنے پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کعب کو قتل کردیا (بخاری:۰۱۵۲)۔ عبد اللہ بن عمر کو چودہ سال کی عمر میں غزوہ احد میں شرکت کی اجازت نہیں ملی جبکہ پندرہ سال کی عمر میں غزوہ خندق میں شرکت کی اجازت مل گئی (بخاری:۴۶۶۲)۔یقین رکھو کہ جنت تلواروں کے سایے کے نیچے ہے (بخاری:۸۱۸۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر زین کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر صحابہ کرام ؓ سے آگے نکل گئے تھے اور آپ کی گردن مبار سے تلوار لٹک رہی تھی(بخاری:۶۶۸۲)۔ قیامت سے پہلے وہ وقت بھی آئے گا جب تم یہودیوں سے جنگ کروگے اور وہ بھاگتے پھریں گے۔ حتیٰ کہ کوئی یہودی اگر کسی پتھر کے پیچھے بھی چھپے گا تو پتھر بول اٹھے گا کہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے، اسے قتل کر ڈال (بخاری:۵۲۹۲؛ ۶۲۹۲؛ ۳۹۵۳)۔ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم بالوں والے جوتے پہننے والوں اور ڈھال جیسی چوڑی منہ والی قوم سے جنگ نہ کرلوگے (بخاری: ۷۲۹۲؛ ۹۲۹۲)۔  مشرکین کے جس قبیلے پر شب خون مارا جائے گا، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا درست ہوگا کیونکہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں (بخاری: ۲۱۰۳؛ ۳۱۰۳)۔ لڑائی ایک چال اور مکر و فریب کا نام ہے (بخاری:۸۲۰۳ تا ۰۳۰۳)۔ جب بنو قریظہ کے یہودی سعد بن معاذ ؓ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو سعد بن معاذ  ؓنے لڑنے والے یہودیوں کو قتل اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنانیکا فیصلہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے (بخاری:۳۴۰۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم پر فتح حاصل ہوتی تو میدان جنگ میں تین رات قیام فرماتے (بخاری:۵۶۰۳)۔ فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ ہجرت باقی نہیں رہی البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے (بخاری:۷۷۰۳ تا ۰۸۰۳)۔  رہزنی اور مثلہ کرنا منع ہے (بخاری: ۶۱۵۵)۔


جہاد۔ مشقیں 
نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے تیار اور زیر تربیت گھوڑوں کی دوڑ کرائی (بخاری:۰۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑ پانچ میل کی مسافت اور غیر تربیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑ ایک میل کی مسافت تک کروائی (بخاری:۸۶۸۲ تا  ۰۷۸۲)۔ قبیلہ بنو اسلم میں تیر اندازی کی مشق کرنے والوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو! تیر اندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل علیہ السلام بھی تیر انداز تھے (بخاری:۹۹۸۲)۔ حبشہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چھوٹے نیزے کا کھیل حراب دکھلا رہے تھے کہ حضرت عمر ؓ وہاں آگئے اور کنکریوں سے انہیں مارنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عمرؓ! انہیں کھیل دکھانے دو (بخاری:۱۰۹ ۲)۔ بہترین تیر اندازابو طلحہ ؓ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک ہی مشترکہ ڈھال کی آڑ میں تیر اندازی کی مشق کررہے تھے (بخاری:۲۰۹۲)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تلواروں کی آرائش سونے چاندی سے نہیں بلکہ اونٹ کی پشت کا چمڑہ، سیسہ اور لوہا ان کی تلواروں کے زیور تھے (بخاری:۹۰۹۲)۔ اے بنو اسماعیل! تیر اندازی کی مشق کئے جاؤ۔ کیونکہ تمہارے بزرگ دادا بھی تیر انداز تھے (بخاری: ۳۷۳۳)۔


جہاد۔ ممنوعات: لوٹ مار کرنا اور مثلہ کرنا منع ہے (بخاری:۴۷۴۲)۔ ایک عورت کسی غزوے میں مقتول پائی گئی تو نبی کریم
 صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا (بخاری:۵۱۰۳)۔
 

جہاد۔ فضائل: جہاد کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ایسا کون ہے جو مجاہد کے جہاد کے لیے نکلنے کے دوران مسجد میں داخل ہوکر مسلسل اللہ کی عبادت کرتا رہے اور مسلسل روزے ر کھتا رہے  (بخاری:۵۸۷۲)۔ لوگوں میں افضل شخص وہ مومن ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرے۔ اس کے بعد افضل وہ ہے جو خوف خدا میں لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے پہاڑ کی کسی گھاٹی میں رہنے لگے (بخاری:۶۸۷۲)۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو رات بھر مسلسل نماز پڑھتا رہے اور دن میں برابر روزے رکھتا رہے۔اللہ نے مجاہد کی ذمہ داری لی ہوئی ہے کہ اگر اسے شہادت دے گا تو اسے بے حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا یازندہ سلامت گھر ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس کرے گا (بخاری:۷۸۷۲)۔ خواب میں میری اُمت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں سمندر میں غزوہ کرنے کے لیے اس طرح جارہے ہیں جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں (بخاری:۸۸۷۲؛ ۹۸۷۲؛ ۹۹۷۲؛ ۰۰۸۲؛ ۷۷۸۲؛ ۸۷۸۲؛ ۴۹۸۲؛  ۵۹۸۲)۔  اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح یا شام دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے(بخاری:۲۹۷۲ تا ۴۹۷۲؛ ۶۹۷۲)۔ جس بندے کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی (بخاری:۱۱۸۲)۔ دشمن کی سرحد پر ایک دن کے پہرہ کا اجر دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے (بخاری:۲۹۸۲)۔ میری اُمت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کرکے جہاد کے لیے جائے گا، اللہ نے اس کے لیے مغفرت واجب کردی ہے (بخاری:۴۲۹۲)۔ میری اُمت کا سب سے پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کرے گا، اُن کی مغفرت ہوگی (بخاری:۴۲۹۲)۔ جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے گا وہ جنت میں جائے گا (بخاری: ۰۳۵۷)۔


جہاد۔ فرشتے: جنگ خندق سے فارغ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیار رکھ کر غسل کرنا چاہ رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام غبار آلود حالت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: میں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ اب بنو قریظہ کی طرف کا ارادہ ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھربنو قریظہ کے خلاف لشکر کشی کی(بخاری:۳۱۸۲)۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے موقع پر انہوں نے دو اجنبی افراد (انسانی صورت میں جبرئیل اور میکائیل علیہ السلام) کو سفید لباس میں دیکھا جو آپ ؐ  کو اپنی حفاظت میں لے کر کفار سے سختی سے لڑ رہے تھے۔  سعد بن وقاصؓ نے انہیں نہ اس پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھا(بخاری:۴۵۰۴؛ ۶۲۸۵)۔


جہاد۔ دعا: غلاموں کی مدد کے بغیر سخت سردی میں غزوہ خندق کے لیے مہاجرین و انصار رضوان اللہ اجمعین کو صبح صبح خندق کھودتے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:اے اللہ! زندگی تو پسِ آخرت ہی کی زندگی ہے۔ پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما (بخاری:۴۳۸۲؛ ۵۳۸۲)۔ غزوہ خندق میں مٹی ڈھوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیہ اشعار پڑھتے:اے اللہ! اگر تو ہدایت نہ دیتا تو ہم نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ پس تو ہم پر سکینت نازل فرما اور دشمن سے مقابلہ کے وقت ہمیں ثابت قدم رکھ (بخاری:۷۳۸۲؛۴۳۰۳)۔ مسلمانوں کی فوج میں ایسے ادوار بھی آئیں گے جب فوج میں کسی صحابی، تابعین اور تبع تابعین کی موجودگی کے باعث ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی (بخاری:۷۹۸۲)۔ غزوہ حنین میں دشمن ہوازن اور بنو نصر کے بہترین تیر اندازوں کے مقابلہ میں جب زرہ، خود اور ہتھیاروں سے محروم بے سرو سامان نوجوانوں نے میدان جنگ میں اپنی جگہ چھوڑ دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر اللہ سے مدد کی دعا مانگی اور مجاہدین کی نئے سرے سے صف بندی کی (بخاری:۰۳۹۲)۔ جہاد سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین بار اللہ اکبر کہتے اور یہ دعا پڑھتے: ان شاء اللہ ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اپنے رب کی تعریف کرنے، عبادت کرنے اور اس کے لیے سجدہ کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور کافروں کے لشکر کو اسی اکیلے نے شکست دی (بخاری:۴۸۰۳ تا ۶۸۰۳)۔ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب جہاد کے لیے جمع فوج سے پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی صحابی ہے؟ پھر ان کے ذریعہ سے فتح کی دعا مانگی جائے گی۔ اس کے بعد پھر جہاد ہوگا تو پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی تابعی ہے؟ پھر ان کے ذریعہ سے فتح کی دعا مانگی جائے گی (بخاری: ۴۹۵۳؛ ۹۴۶۳)۔


جہاد۔ ہدایات: جب تمہاری کفار سے مڈبھیڑ ہو تو صبر سے کام لو (بخاری:۳۳۸۲)۔ دشمن کے ساتھ جنگ کی تمنا نہ کرو۔ اللہ سے امن و عافیت کی دعا کیاکرو لیکن جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو (بخاری:۶۶۹۲؛۷۳۲۷)۔ دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے سلامتی مانگو۔ لیکن جب جنگ چھڑ جائے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے (بخاری:۵۲۰۳؛ ۶۲۰۳)۔ اگر کوئی کافر لڑائی میں کسی مسلمان کوقتل کرنے کی کوشش میں اس کاہاتھ کاٹ دے اور مسلمان کے جوابی وار سے قبل کلمہ پڑھ لے تو اُس مسلمان کے لیے اُسے قتل کرنا جائز نہیں (بخاری:۹۱۰۴)۔ 


جہاد۔ متبادل: جو کسی شرعی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوسکیں، وہ بھی ثواب میں مجاہدین کے ساتھ ہوتے ہیں (بخاری:۹۳۸۲)۔ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا، اسے جنت کے ہر دروازے کا داروغہ اپنے دروازے سے جنت میں داخل ہونے کو بلائے گا (بخاری:۱۴۸۲)۔ جہاد کرنے والے کو ساز و سامان دینا اور اس کے گھر بار کی نگرانی کرنا جہاد میں شریک ہونے جیسا ہے (بخاری:۳۴۸۲)۔


جہاد۔ مقصد: جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔ (بخاری:۳۲۱)۔ اللہ کے راستے میں صرف وہی لڑتا ہے جو اس ارادہ سے جنگ میں شریک ہو کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رہے (بخاری:۰۱۸۲)۔


جہاد۔ گھوڑے: قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت بندھی رہے گی(بخاری:۹۴۸۲ تا ۲۵۸۲)۔ جس نے اللہ پر ایمان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا، بول و براز سب کچھ روز حشر میزان میں بطور ثواب تولا جائے گا (بخاری:۳۵۸۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام لحیف تھا (بخاری:۵۵۸۲)۔اللہ کے راستے میں جہاد کی نیت سے گھوڑا پالنے والے کو اجر وثواب ملتا ہے۔ اور جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں پالتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال ِجان ہے  (بخاری:۰۶۸۲)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت سے گھوڑے کے دو حصے لگائے تھے اور اس کے مالک کا ایک حصہ  (بخاری:۳۶۸۲)۔


 جہاد۔ ذمہ داری: مبارک کا مستحق وہ بندہ ہے جو اللہ کی راہ میں گرد و غبار سے اٹے پاؤں اور پراگندہ بال کے ساتھ گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے۔ اسے لشکر میں یا لشکر کے پیچھے دی گئی کوئی بھی ذمہ داری کو پوری فرض شناسی سے کرنے میں لگا رہے  (بخاری:۷۸۸۲)۔


جہادی۔ مشن: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جریر بن عبداللہؓ نے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ قبیلہ خشعم کے ذوالخلصہ بت خانے کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگادی تھی۔ اور اس میں موجود لوگوں کو قتل کردیا تو قاصد کی زبانی یہ خبر سن کر نبی کریمﷺ نے تمام سواروں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی(بخاری:۰۲۰۳؛ ۶۷۰۳؛۳۲۸۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود بنو نضیر کے باغ جلوادئے تھے (بخاری:۱۲۰۳) ۔ اللہ اور اس کے رسول کو اذیتیں پہنچانے والے یہودی کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محمد بن مسلمہ ؓ نے قتل کیا (بخاری:۱۳۰۳؛ ۲۳۰۳؛۷۳۰۴)۔  ابو رافع یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا  اور آپ ﷺ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیکؓ کی سربراہی میں چند انصاری صحابہ کو ابو رافع کے قتل کے لیے بھیجا، جو حجاز کے ایک قلعہ میں رہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک منصوبہ کے تحت قلعہ میں داخل ہوکر اسے قتل کردیا (بخاری:۲۲۰۳؛ ۳۲۰۳؛۹۳۰۴؛ ۰۴۰۴)۔ 


جہاد۔ پیشنگوئی: ایران کا بادشاہ کسریٰ اور روم کا بادشاہ قیصر ہلاک و برباد ہوگیا۔ اب کوئی قیصر و کسریٰ نہیں آئے گا اور ان کے خزانے اللہ کے راستے میں تقسیم ہوں گے (بخاری: ۷۲۰۳)۔ قیصر اورکسریٰ کے مرنے کے بعد کوئی دوسرا قیصر اور کسریٰ پیدا نہ ہوگا۔ تم لوگ ان کے خزنے اللہ کے راستے میں خرچ کروگے (بخاری: ۰۲۱۳؛ ۱۲۱۳)۔ جو اللہ کے راستے میں نکل کر جہاد ہی کی نیت سے جہاد کرے، اللہ کے وعدے کو سچا جان کر، تو اللہ اس بات کا ضامن ہے کہ اس کو شہید کرکے جنت میں لے جائے گا یا اسے ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ گھر لوٹائے گا (بخاری: ۳۲۱۳)۔


جہاد۔ قیدی، قتل، نماز: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی جاسوسی کے لئے دس صحابہ کی ایک جماعت بھیجی تو عسفہ اور مکہ کے درمیان مقام ھداۃ پر قبیلہ ہزیل کے بنولحیان کے دو سو تیر اندازوں نے صحابہ کو جالیا اور آٹھ صحابہ کو شہید کرکے دو صحابی حضرت خبیب اور ابن دثنہ ؓ  کو مکہ لے جاکرحارث بن عامر کے بیٹوں کو بیچ دیا۔ بدر کی لڑائی میں حضرت خبیب ؓ ہی نے حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ بعد ازاں مشرکین انہیں حرم کے حدود سے باہر لائے تاکہ انہیں قتل کرسکیں توحضرت خبیب ؓ نے کہا: مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے اجازت دیدی تو اپنے قتل سے پہلے آپ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ حضرت خبیب ؓ ہی سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کرکے قتل کیا جائے، قتل سے پہلے دو رکعت نماز مشروع ہوئی ہیں (بخاری:۵۴۰۳)۔


جہاد۔ غزوات 
 قبیلہ دوس کی سرکشی پربعض صحابہ کرام نے ان کے لیے بد دعا کی درخواست کی تو آپ ؐ نے فرمایا: اے اللہ! دوس کے لوگوں ک و ہدایت دے اور انہیں دائرہ اسلام میں کھینچ لا (بخاری:۷۳۹۲)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ کرتے جب تک صبح نہ ہوجاتی (بخاری: ۳۴۹۲؛  ۵۴۹۲)۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں مجاہدانہ اتر تے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے (بخاری:۵۴۹۲)۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس کا اقرار کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (بخاری:۶۴۹۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصول تھا کہ جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو مصلحتاََ کوئی دوسرا مقام بیان کرتے تاکہ دشمنوں کو خبر نہ ہوجائے (بخاری:۷۴۹۲)۔ سخت گرمی، لمبے سفر اور دشمن کی بڑی فوج کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کا اعلان صاف صاف فرمادیا تھا تاکہ مسلمان اس مقابلہ کی پوری تیاری کرلیں۔ ورنہ بالعموم آپ ﷺ جہاد کے مقام کو آخر وقت تک چھپا کر ہی رکھتے تھے (بخاری:۸۴۹۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن سفر کا آغاز کرنا پسند کرتے تھے (بخاری:۹۴۹۲؛ ۰۵۹۴)۔ ایک صحابی نے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے والدین کی خدمت میں جہاد کرو (بخاری:۴۰۰۳)۔ جو شخص جنگ میں شرکت صرف اس لیے کرتا ہے کہ اللہ کا دین بلند رہے، فقط وہی اللہ کے راستے میں ہے (بخاری: ۶۲۱۳)۔غزوہ بدر میں ابوجہل کو دو نوعمر انصاری لڑکوں نے مل کر قتل کیا تھا (بخاری: ۱۴۱۳)۔ اُحد کی لڑائی میں ابو طلحہؓ ایک ڈھال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے بہترین تیر اندازی کررہے تھے۔ (بخاری: ۱۱۸۳) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس (۹۱) غزوات کئے۔ آپؐ کا پہلا غزوہ عشیرہ ہے(بخاری:۹۴۹۳)۔ وسائل کی کمی نہ ہوتی تو میں کبھی کسی غزوہ سے پیچھے نہ رہتا۔ میری تو خواہش ہے کہ اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں اور ایسا بار بار ہوتا رہے (بخاری: ۶۲۲۷؛ ۷۲۲۷)۔


جہاد۔ غزوہ بدر 
جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:اے اللہ! میں تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ پھر جب نبی کریم ﷺ اپنے خیمہ سے باہر نکلے تو سورۃ قمر کی آیت:۵۴ آپ کی زبان پر تھی: جلد ہی کفار کی جماعت کو ہار ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے  (بخاری:۳۵۹۳؛ ۵۷۸۴؛ ۷۷۸۴)۔ بدر کی لڑائی میں شریک تین سو دس مسلمانوں میں انصار کی تعداد تقریباََ دو سو چالیس (۰۴۲) اور مہاجرین کی تعداد تقریباََ ساٹھ (۰۶) تھی(بخاری:۶۵۹۳ تا۹۵۹۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف منہ کرکے کفار قریش کے شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ،  ولید بن عتبہ، اور ابوجہل کے لیے بد دعا کی تھی اور یہ سب جنگ بدر میں مارے گئے تھے (بخاری:۰۶۹۳)۔ جنگ بدر میں ابو جہل کو عفراء کے بیٹوں معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہم نے قتل کیا (بخاری:۲۶۹۳؛ ۳۶۹۳)۔ بدر کی لڑائی میں قریش کے چوبیس مقتول سرداروں کی لاشوں کو ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کے کنارے کھڑے ہوکر ان مقتول سرداروں کے نام لے لے کرفرمایا تھا کہ اے فلاں بن فلاں! فلاں بن فلاں!کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا، وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا ہے۔ تمہارے رب کا تمہارے ساتھ عذاب کا جو وعدہ تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ اس واقعہ کی وضاحت میں فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے در حقیقت یہ فرمایا تھا کہ اب انہوں نے جان لیا ہوگا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا، وہ حق تھا۔ کیونکہ سورۃ نمل آیت:۰۸ میں ہے کہ آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور سورۃ فاطر آیت:۲۲ میں ہے کہ اور جو لوگ قبروں میں دفن ہوچکے ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے  (بخاری:۶۷۹۳؛ ۹۷۹۳ تا ۱۸۹۳)۔

 جہاد۔ غزوہ بدر: جنگ بدر میں شہید ہونے والے نو عمر لڑکے حارثہ بن سراقہ انصاری کی والدہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے(بخاری: ۲۸۹۳)۔ بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کا مشرکین مکہ کے نام بھیجا جانے والا خط پکڑا گیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطبؓ کی وضاحت کو قبول کرتے ہوئے فرمایا:اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرماچکا ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی، میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔ (بخاری:۳۸۹۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں میں بدر کی جنگ میں شریک ہونے والوں کا سب سے افضل درجہ ہے تو جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا کہ جو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے، ان کا بھی یہی درجہ ہے (بخاری:۲۹۹۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں فرمایا تھا کہ یہ ہیں جبرئیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے (بخاری:۵۹۹۳؛ ۱۴۰۴)۔ بدر کی لڑائی میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے برچھے سے ابو ذات الکرش کو اس کی آنکھوں کا نشانہ بناکر ہلاک کیا تھا کیونکہ وہ سر تا پا لوہے میں غرق تھا۔ حضرت زبیرؓ سے وہ برچھا پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب کیا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد باری باری چاروں خلفائے راشدین نے طلب کرکے اپنے پاس رکھا۔ پھریہ برچھا عبداللہ بن زبیر کے پاس رہا، حتیٰ کہ وہ شہید کردئے گئے (بخاری:۸۹۹۳)۔ بدری صحابیوں کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا۔ حضرت عمر ؓ کہتے تھے کہ میں بدری صحابہ کو ان پر فضیلت دوں گا جو ان کے بعد ایمان لائے (بخاری:۲۲۰۴)۔ 

جہاد۔ غزوہ اُحد 
اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کے ستّر آدمی شہید ہوئے تھے جبکہ بدر کی لڑائی میں مشرکوں کو ایک سو چالیس (۰۴۱)  افراد کا نقصان پہنچا تھا۔ ان میں سے ستّر قتل کردئے گئے تھے اور ستّر قیدی بنا کر لائے گئے تھے (بخاری:۶۸۹۳)۔ خیر و بھلائی وہ ہے جو اللہ نے ہمیں اُحد کی لڑائی کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا (بخاری:۷۸۹۳)۔ رسول اللہ نے آٹھ سال بعد غزوہ اُحد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی (بخاری:۲۴۰۴)۔ حضرت جابر نے اُحد کی لڑائی میں اپنے والد کی شہادت اور ان کے قرض کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ کی دعا سے یہ معجزہ ہوا کہ تھوڑے سے کھجور سے ان کا سارا قرض ادا ہوگیا کھجور جوں کا توں برقرار رہا (بخاری:۳۵۰۴)۔ غزوہ اُحد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاصؓ سے اُن کی ہمت افزائی کے لیے فرمایا تھا: میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں  (بخاری:۵۵۰۴ تا ۹۵۰۴)۔ غزوہ اُحد میں جب مسلمان منتشر ہوکر پسپا ہوگئے تو حضرت ابو طلحہؓ  اپنے چمڑے کی ڈھال سے نبی کریم ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ بنت ابو بکر اور اُم سلیم رضی اللہ عنہما مشکیزے اٹھائے ہوئے زخمی مسلمانوں کو پانی پلا رہی تھیں (بخاری: ۴۶۰۴)۔ بدر کی جنگ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تو جبیر بن مطعم نے اپنے غلام وحشی سے کہا کہ اگر تم میرے چچا طعیمہ کے بدلہ میں حضرت حمزہؓ کو قتل کردیا تو تم آزاد ہوجاؤگے۔ جنگ عینین میں حضرت حمزہ ؓ بن عبد المطلب نے سباع بن عبد العزیٰ کو قتل کیا تو اس کے بعد وحشی نے ایک موقع پر اپنے چھوٹا نیزہ پھینک کر حضرت حمزہ ؓ کو قتل کردیا۔فتح مکہ کے بعدوحشی قبول اسلام کے لیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ حضرت حمزہؓ کے قتل کے اعتراف پر نبی کریم ﷺ نے اس سے کہا کہ بس تم میرے سامنے کبھی نہ آنا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو وحشی نے مسلمانوں کی فوج کے ساتھ شامل ہوکر مسیلمہ کو قتل کردیا (بخاری:۲۷۰۴)۔

جہاد۔ غزوہ اُحد: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دو دو شہداء کو ایک ہی کپڑے کا کفن دیا تھا۔ آپ نے تمام شہداء کو بغیر غسل اور بغیر نماز جنازہ کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا (بخاری:۹۷۰۴)۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ ؓ شہید کردئے گئے تووہ رونے لگے۔صحابہ انہیں روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا گیا (بخاری: ۰۸۰۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں اپنی تلوار کو ہلایا تو اس کی دھار ٹوٹ گئی۔ دوبارہ ہلایا تو پہلے سے بھی عمدہ ہوگئی۔اس کی تعبیر جنگ اُحد میں مسلمانوں کے نقصان اور پھر فتح کی صورت میں ظاہر ہوئی (بخاری:۱۸۰۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھی تھی (بخاری: ۶۲۴۶)۔اُحد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں (بخاری:۱۸۴۱؛ ۲۸۴۱؛ ۹۸۸۲؛ ۳۹۸۲؛ ۷۶۳۳؛ ۳۸۰۴؛ ۴۸۰۴؛۲۲۴۴)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو اُحد کانپ اٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اُحد!ٹھہرا رہ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں (بخاری: ۵۷۶۳؛ ۶۸۶۳؛ ۷۹۶۳؛ ۹۹۶۳)۔ جنگ اُحد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خون آلود اور آگے کے دانت شہید ہوگئے تھے۔ زخموں کو پانی سے دھونے پر اور زیادہ خون بہنے لگا تو بی بی فاطمہ ؓ نے ایک چٹائی جلاکر اس کی راکھ کو زخموں پر لگادیا جس سے خون آنا بند ہوگیا (بخاری:۳۰۹۲؛ ۱۱۹۲؛۷۳۰۳)۔ جنگ اُحد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو ایک ٹیلے پر تعینات کرتے ہوئے وہاں سے کسی بھی صورت نہ ہلنے کی ہدایت کی۔ پھر جب اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دیدی تو اکثر تیر اندازوں نے یہ سمجھ کراپنی جگہ چھوڑدی کہ جنگ ختم ہوگئی ہے۔ یہ دیکھ کر کافروں نے ان کے منہ پھیر دئے اور ستّر صحابہ شہید ہوگئے(بخاری:۹۳۰۳)۔

جہاد۔ غزوہ خندق (احزاب) 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمرؓ کو چودہ سال کی عمر میں غزوہ خندق میں شرکت کی اجازت نہیں دی لیکن پندرہ سال کی عمر میں انہیں غزوہ خندق مکیں شرکت کی اجازت دے دی (بخاری:۷۹۰۴)۔  غزوہ خندق کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی بس آرام کی زندگی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما  (بخاری:۸۹۰۴ تا۰۰۱۴)۔ معجزہ: غزوہ خندق میں کھدائی کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کی حالت دیکھ کر حضرت جابر ؓ اپنے گھر گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے اس کا گوشت اورجَو کا آٹا روٹی پکانے کے لیے تیار کرواکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں بتلایا کہ چند اصحاب  کے لیے مختصرکھانا تیار کروایا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولہے سے ہانڈی نہ اتارے اور نہ ہی تنور سے روٹی نکالے۔ پھر آپ ؐ  تمام انصار و مہاجرین کو لے کر حضرت جابرؓ کے گھر پہنچ گئے۔ نبی کریم ﷺ روٹی کا چورا کرتے اور اس پر گوشت ڈالتے جاتے یہاں تک کہ ہزار کے قریب صحابہ کرام ؓ نے شکم سیر ہوکر کھایااور کھانا بچ بھی گیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اب یہ کھانا تم خود بھی کھاؤاور لوگوں کے یہاں ہدیہ بھی بھیجو(بخاری:۱۰۱۴؛ ۲۰۱۴)۔ غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ چڑھ آنے والے عرب کے قبائل جب ناکام واپس ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ہم ہی ان پر فوج کشی کیا کریں گے، وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے(بخاری:۹۰۱۴؛ ۰۱۱۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا:اللہ تعالیٰ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھردے کہ ان کفار نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی اور سورج غروب ہوگیا۔ پھر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے غروب آفتاب کے بعد پہلے عصر پھر مغرب کی نماز ادا کی (بخاری:۱۱۱۴؛ ۲۱۱۴)۔ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افواج کفار کے لیے بددعا کی:اے اللہ! کفار کے لشکر کو شکست دے اور ان کی طاقت کو متزلزل کردے۔(بخاری:۵۱۱۴)۔غزوہ خندق کے دن دشمن کی خبر لانے کے لیے حضرت زبیر ؓ تیار ہوئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے حواری (مدد گار)ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیرؓ ہیں (بخاری: ۱۶۲۷)۔

جہاد۔ غزوہ بنو قریظہ 
غزوہ خندق سے مدینہ واپس آکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار کر غسل کیا تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا:آپ نے ہتھیار اتار دیئے؟ اللہ کی قسم ہم نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے۔ چلئے بنو قریظہ پر حملہ کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی (بخاری:۷۱۱۴؛ ۲۲۱۴)۔ غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمان بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھیں گے۔ لیکن جب راستے ہی میں عصر کی نماز کا وقت ہوگیا تو کچھ لوگوں نے وہیں عصر کی نماز ادا کرلی اور کچھ نے کہا کہ ہم تو فرمان رسول ﷺ کے مطابق بنو قریظہ پہنچنے سے قبل نماز ادا نہیں کریں گے۔ بعد ازاں جب نبی کریم ﷺ کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی پر بھی خفگی نہیں فرمائی (بخاری:۹۱۱۴)۔ بنو قریظہ نے سعد بن معاذ  ؓ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈالے تو سعد بن معاذ نے فیصلہ کیا کہ جنگ کے قابل لوگوں کو قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا (بخاری:۱۲۱۴؛ ۲۲۱۴)۔ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت سے فرمایا: مشرکین کی ہجو کرو، جبرئیل ؑ تمہاری مدد پر ہیں (بخاری:۳۲۱۴؛ ۴۲۱۴)۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ توڑ کر لڑائی کی تو آپ ؐنے بنو نضیر کو تو جلا وطن کردیا لیکن قبیلہ بنو قریظہ پر احسان کرتے ہوئے انہیں جلا وطن نہیں کیا۔ پھر جب بنو قریظہ نے بھی جنگ مول لی تو آپ ﷺ نے ان کے مردوں کو قتل کروایا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا (بخاری:۸۲۰۴) 

جہاد۔ غزوہ ذات الرقاع 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع کے لیے مقام نخل سے روانہ ہوئے تو آپ کا قبیلہ غطفان کی ایک جماعت سے سامنا ہوا لیکن کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ چونکہ مسلمانوں پر کفار کے اچانک حملہ کا خطرہ تھا اس لیے نبی کریم ﷺ نے دو رکعت نماز خوف پڑھائی۔ آپ ؐ نے غزوہ محارب اور بنی ثعلبہ میں بھی اپنے ساتھیوں کو نماز خوف پڑھائی (بخاری:۵۲۱۴؛ تا ۷۲۱۴)۔ غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف یوں پڑھی گئی کہ ایک جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی اور دوسری جماعت نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے ایک رکعت پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور جماعت دوسری رکعت مکمل کر کے دشمنوں کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ پھر دوسری جماعت نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آکر کھڑی ہوئی تو آپ ؐ نے اپنی دوسری رکعت مکمل کرکے قعدہ میں بیٹھے رہے، اس دوران دوسرے لوگوں نے اپنی دوسری رکعت مکمل کی تو آپ ؐ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا (بخاری:۹۲۱۴؛ ۱۳۱۴؛ ۳۳۱۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو انمار میں نماز خوف پڑھی تھی (بخاری:۰۳۱۴)۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر لشکر ایک وادی ببول کے درختوں کے سائے کے لیے پھیل گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تلوارایک درخت سے لٹکا کر اس کے نیچے لیٹ گئے۔ ایک بدوی آیا اور تلوار اتار کر نبی کریم سے کہنے لگا کہ اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے کہا: میرااللہ۔ خوف سے بدوی کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی۔ آپ ؐ نے تلوار اٹھا لی اور اسے کوئی سزا نہیں دی (بخاری:۵۳۱۴؛ ۶۳۱۴؛ ۹۳۱۴)۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر ایک وادی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی اور جب وہ جماعت پیچھے سے ہٹ گئی تو آپ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت نماز ہوئی جبکہ مقتدیوں کی دو دو رکعت نماز ہوئی(بخاری:۶۳۱۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ نجد میں نماز خوف پڑھائی تھی (بخاری:۷۳۱۴)۔

جہاد۔ غزوہ بنی المصطلق 
غزوہ بنی المصطلق میں مجاہدین کو باندیاں ملیں۔ انہوں نے اولاد سے بچنے کے لیے ان باندیوں سے عزل (حمل سے بچنے کے لئے مجامعت کے دوران مردانہ منی عورت کے جسم سے باہر خارج کرنا) کرنا چاہی اور اس کی اجازت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: اگر تم عزل نہ کروپھر بھی کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے، وہ پیدا ہوکر رہے گی  (بخاری:۸۳۱۴)۔

جہاد۔ غزوہ خیبر 
صحابہ کرام  ؓ خیبر کے لیے نکلے تو شاعر عامر بن اکوع حدی خوانی کرنے لگے۔ اشعار سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا:اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا۔جب جنگ کے لیے صف بندی ہوئی تو ایک یہودی پر وار کرتے ہوئے ابن اکوع  ؓ اپنے ہی تلوار سے زخمی ہوکر شہید ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انہیں دُہرا اجر ملے گا کہ انہوں نے تکلیف بھی اٹھائی اور جہاد بھی کیا (بخاری:۶۹۱۴)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر صبح سویرے خیبر پہنچ گئے تو کام کے لیے کھیتوں کی طرف جانے والے یہودی قلع کی طرف بھاگے۔آپ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا: خیبر برباد ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترجاتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے (بخاری:۷۴۶۳؛۷۹۱۴؛ ۸۹۱۴؛ ۰۰۲۴)۔  غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع کردیا تھا (بخاری:۸۹۱۴؛ ۹۹۱۴؛ ۶۱۲۴تا ۷۲۲۴)۔ غزوہ خیبر کی فتح کے بعد جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا گیا۔ قیدیوں میں حضرت صفیہ ؓ بھی تھیں جو پہلے وحیہ کلبی کے حصہ میں اور پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آگئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا اور مہر میں انہیں آزاد کردیا(بخاری:۰۰۲۴؛ ۱۰۲۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر میں شریک خود کو مسلمان کہلوانے والے ایک صاحب کے متعلق فرمایا کہ یہ شخص اہل دوزخ میں سے ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ صاحب بڑی پامردی سے لڑے اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور زخموں سے تنگ آکر اپنے ہی ہتھیار سے خود کشی کرلی۔ نبی کریم ﷺ نے یہ ماجرا سن کر فرمایا: اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔اللہ تعالیٰ تو اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے(بخاری: ۳۰۲۴؛  ۷۰۲۴)۔

جہاد۔غزوہ خیبر: خیبر کی طرف روانہ ہوتے ہوئے مسلمان بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی جانوں پر رحم کرو۔ اللہ سب سے زیادہ سننے والا، تمہارے بہت نزدیک بلکہ تمہارے ساتھ ہے (بخاری: ۵۰۲۴)۔  خیبر کی لڑائی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: میں اسلامی جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ فتح عنایت فرمائے گا۔ پھر آپ ؐ نے حضرت علی ؓ کو بلواکر انہیں جھنڈا دیا اور کہاکہ میدان میں اتر کر پہلے تم انہیں اسلام کی دعوت دینا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا (بخاری:۲۴۹۲؛ ۵۷۹۲؛  ۹۰۰۳؛ ۹۰۲۴؛ ۰۱۲۴)۔ غزوہ خیبر کی فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ سے شادی کی، راستے میں تین دن قیام کیا اور ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر وغیرہ سے ملا کر ملیدہ بنایا گیا اور قریب کے چند لوگوں کو اس ولیمہ میں شریک کیا گیا(بخاری:۱۱۲۴ تا ۳۱۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے نکاح متعہ کی ممانعت کردی تھی (بخاری:۶۱۲۴)۔  فتح خیبر کے مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں بلکہ گائے، اونٹ، سامان اور باغات ملے تھے (بخاری:۴۳۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی زمین یہودیوں کے پاس ہی رہنے دئے تھے کہ وہ ان میں کام کریں انہیں زمین کی پیداوار کا نصف حصہ ملے گا (بخاری:۸۴۲۴)۔ فتح خیبر کے بعد ایک یہودیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زہر ملا گوشت کا ہدیہ پیش کیا تھا (بخاری: ۸۴۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس (۹۱) غزوات کئے تھے (بخاری:۱۷۴۴)۔

جہاد۔ غزوہ موتہ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ موتہ کے لشکر کا امیر زید بن حارثہ ؓ  کوبنایا تھا۔امیر کی شہادت کے بعد علی الترتیب حضرت جعفرؓ اور عبداللہ بن رواحہ کی امارت کابھی اعلان کردیا تھا (بخاری:۱۶۲۴)۔ جنگ موتہ میں حضرت جعفر ؓ کی شہادت کی اطلاع سن کر آپ کے گھر کی عورتیں چلا کر رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کا حکم دیا (بخاری:۳۶۲۴)۔ جنگ موتہ میں خالد بن ولید ؓ کے ہاتھوں سے نو (۹) تلواریں ٹوٹی تھیں، صرف ایک یمنی تیغہ باقی رہ گیا تھا (بخاری:۵۶۲۴؛ ۶۶۲۴)۔ قبیلہ حرقہ پر چڑھائی کے دوران اس قبیلہ کے ایک فرد مرداس بن عمر کا مقابلہ ایک انصاری سے ہوا۔ جب انصاری نے اس پر غلبہ پالیا تو وہ کہنے لگا   لا الٰہ الا للہ انصاری  تو رک گیا لیکن ساتھ ہی موجود اسامہ بن زید ؓ نے اسے قتل کردیا اور رسول اللہ ﷺکو بتلایا کہ اس نے صرف قتل سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ اس پر نبی کریم ﷺ بار بار یہی کہتے رہے کہ تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کردیا(بخاری: ۹۶۲۴)۔

جہاد۔ غزوہ حنین 
 جنگ حنین میں مسلمانوں نے ابتدا میں ہوازن کو لوگوں کو شکست دے دی۔ پھر وہ مالِ غنیمت کی طرٖ متوجہ ہوئے تو دشمن نے مسلمانوں پر تیروں کی بارش کری لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ثابت قدم رہے (بخاری:۴۶۸۲؛ ۴۷۸۲)۔ جنگ حنین کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے رمضان المبارک میں پیش قدمی کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھنے کے بعد روزہ توڑ دیا تو غیر روزہ دار مسلمانوں نے روزہ دار مسلمانوں سے کہا کہ اب آپ بھی روزہ توڑ دو (بخاری:۷۷۲۴)۔ قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر حاضر خدمت رسول ہوا اور درخواست کی کہ ان کا مال اور قیدی واپس کردئے جائیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صرف اپنے قیدی واپس لینے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا (بخاری:۸۱۳۴؛ ۹۱۳۴)۔ غزوہ حنین میں جنگ ختم ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے لیے گواہ بھی رکھتا ہو تو اس مقتول کا تمام سامان و ہتھیار اسے ہی ملے گا (بخاری:۱۲۳۴؛ ۲۲۳۴)۔ جنگ حنین میں جب مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ ؐ سواری سے اتر کر میدان میں تنہا آکر فرمانے لگے: میں اللہ کا نبی اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں ہے۔ براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بہادر اس د ن کوئی بھی نہ تھا(بخاری:۲۴۰۳)۔

جہاد۔ غزوہ فتح مکہ 
غزوہ فتح مکہ ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ دس بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان روزے سے تھے۔لیکن قدید اور عسفان کے درمیان واقع کدید چشمہ کے پاس پہنچ کر نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں نے روزہ توڑ دیا تھا اور پھر روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوگیا (بخاری: ۵۷۲۴؛ ۶۷۲۴؛ ۹۷۲۴)۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار خوش الحانی کے ساتھ سورۃ الفتح کی تلاوت فرمارہے تھے  (بخاری: ۱۸۲۴)۔ فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کے پردہ سے چمٹے ہوئے ابن خطل کو اللہ کے نبی ﷺ کے حکم سے قتل کردیا گیا (بخاری: ۶۸۲۴)۔ فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے اور آپ فرمارہے تھے کہ حق آگیا اور باطل مغلوب ہوگیا (بخاری:۷۸۲۴)۔ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوئے جب تک اس میں موجود بتوں کو باہر نہیں نکال دیا گیا(بخاری: ۸۸۲۴)۔ امیر مدینہ عمرو بن سعیدؓ کی طرف سے عبداللہ بن زبیرؓ کے خلاف مکہ کی طرف لشکر بھیجا جارہا تھا تو اس اعتراض پر کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا تو امیر مدینہ عمرو بن سعید ؓ نے کہا: حرم کسی گنہگار کو، کسی کا خون کرکے بھاگنے والے کو اور کسی مفسد کو پناہ نہیں دیتا  (بخاری:۵۹۲۴)۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں فرمایا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خرید و فروخت مطلق حرام قرار دے دی ہے (بخاری:۶۹۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس دن ٹھہرے اور اس مدت میں نماز قصر پڑھتے رہے (بخاری:۷۹۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں انیس(۹۱) دن ٹھہرے اور اس مدت میں نماز قصر پڑھتے رہے (بخاری:۸۹۲۴)۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں انیس (۹۱) دن تک قصر نماز پڑھتے تھے اور جب اس سے زیادہ مدت گزر جاتی تو پھر پوری نماز پڑھتے تھے(بخاری:۹۹۲۴)۔فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت پر نہیں بلکہ ایمان، اسلام اور جہاد پر بیعت لیتے تھے(بخاری: ۵۰۳۴ تا ۸۰۳۴)۔ فتح مکہ کے دن ابو برزہ اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ اسلام کا بدترین دشمن ابن خطل کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا: اسے وہیں قتل کردو (بخاری:۴۴۰۳)۔

جہاد۔ غزوہ ذوالخلصہ 
رسول اللہ کے حکم پر حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے ڈیڑھ سو سواروں کے ساتھ ذوالخلصہ بت کدہ کو مسمار کرکے تباہ کردیا تھا۔ (بخاری:۵۵۳۴ تا ۷۵۳۴)۔ 

جہاد۔ غزوہ خبط 
غزوہ خبط کے سفر میں ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک بہت بڑی عنبر مچھلی باہر پھینکی جسے سب نے پندرہ دن تک کھائی (بخاری: ۳۹۴۵؛ ۴۹۴۵)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل سمندر کی طرف تین سو آدمیوں کا لشکر بھیجا۔پھر جب سارا راشن ختم ہوگیا تو انہوں نے سمندر کے کنارے ایک بڑی مچھلی کو پایا جسے پورا لشکر اٹھارہ (۸۱) دنوں تک کھاتا رہا (بخاری:۰۶۳۴ تا ۲۶۳۴)۔

جہاد۔ غزوہ تبوک 
 سخت گرمی، طویل مسافت اور دشمن کی فوج کی کثرت کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے بارے میں تفصیل سے بتلا دیا تھا تاکہ مسلمان پوری طرح تیاری کرلیں۔پھل پکنے کا بھی زمانہ تھا اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ اپنی سستی کی وجہ سے غزوہ کی تیاری نہ کرسکے اور لشکر روانہ ہوگیا۔غزوہ سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  غزوہ میں نہ شریک ہونے والے اسّی (۰۸) کے قریب افراد نے اپنے اپنے عذر پیش کئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے ظاہر کو قبول کیا اور باطن کو اللہ کے سپرد کیا۔حضرت کعب ؓنے اپنی پیشی پر فرمایا کہ مجھے کوئی عذر پیش نہ تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اچھا اب جاؤیہاں تک کہ اللہ خود کوئی فیصلہ کردے۔ غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے افراد میں سے مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت کعب کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا عدم عذر پیش کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان تین افراد سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی۔ پچاس(۰۵)  دنوں تک اسی صورتحال  کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان کیا تو لوگوں نے انہیں مبارک دی  (بخاری:۸۱۴۴؛ ۵۵۲۶؛ ۵۲۲۷)۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر مدینہ کے قریب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے کسی عذر کی وجہ سے اس غزوہ میں شریک نہ ہوسکے۔ مگر تم جہاں بھی چلے وہ دل سے تمہارے ساتھ ساتھ تھے (بخاری:۳۲۴۴)۔

 جہاد۔ قیدی، فدیہ،  مال غنیمت 
خیبرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو فتح  ہوئی۔ لڑنے والے جوان قتل کردئے گئے، عورتیں اور بچے قید ہوئے۔ صفیہ پہلے وحیہ کلبی کے حصہ میں پھر رسول اللہ کو ملیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا اور آزادی ان کا مہر قرار پایا۔(بخاری: ۷۴۹)۔ فتح خیبر کے بعد آپ ؐنے مسلمانوں کے ہاتھ آئی باندیوں میں سے صفیہ بنت حی بن اخطب کو اپنے لئے پسند فرماکر اُن سے نکاح کرلیا۔ اور سفر میں ہی کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کردہ حیس سے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا (بخاری:۳۹۸۲)۔ غزوہ حنین کے بعد قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہوکردربار رسالت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور قیدی واپس کردئے جائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دو مطالبوں میں سے ایک ہی مطالبہ مانا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے قیدیوں کی واپسی چاہی تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے کہہ کر ان کے قیدی واپس کروادئے (بخاری: ۷۰۳۲؛ ۸۰۳۲؛ ۷۰۶۲؛ ۸۰۶۲؛  ۹۳۵۲؛ ۰۴۵۲؛ ۳۸۵۲؛ ۴۸۵۲؛۱۳۱۳؛ ۲۳۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین میں کچھ زمینیں انصار کو دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا: ہم اسی وقت لیں گے جب آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی ایسی زمینیں دیں گے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: جب میرے بعد تم پر لوگوں کو ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ آخرت میں ہم سے آن ملو (بخاری:۶۷۳۲؛ ۷۷۳۲)۔ مال غنیمت کی تقسیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ چھریاں پاس نہ ہونے اور تلواروں کو جہاد کے لیے محفوظ رکھنے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بانس کی کھچی سے ذبح کرنے کی اجازت دی اور فرمایا: جو چیز بھی خون بہا دے، اور ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(بخاری:۸۸۴۲؛ ۷۰۵۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین باتوں کی وجہ سے بنو تمیم سے محبت کرتے تھے۔ یہ لوگ دجال کے مقابلہ میں میری اُمت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ بنو تمیم سے وصول شدہ زکوٰۃ کو آپ ؐ نے اپنی قوم کی زکوٰۃ قرار دیا اوربنو تمیم کی ایک قیدی عورت سیدہ عائشہ ؓ کے پاس تھی تو آپ ؐ نے فرمایا: اسے آزاد کردو،یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے (بخاری:۳۴۵۲)۔ اللہ نے بنو نضیر کے باغات وغیرہ بغیر لڑے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوادئے تھے۔ ان کی آمدنی سے نبی کریم ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو سالانہ نان نفقہ بھی دیتے اور جہاد کے لیے ہتھیاروں اور گھوڑوں پر بھی خرچ کرتے تھے (بخاری:۴۰۹۲)۔ 

 جہاد۔ قیدی، فدیہ، مال غنیمت: بعض انصاریوں نے عباس بن عبدالمطلب کا فدیہ معاف کرنے کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیہ میں سے ایک درہم بھی چھوڑنے سے منع کردیا (بخاری:۸۴۰۳)۔ غزوہ ہوازن کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ مشرکوں کا ایک جاسوس صحابہ کی جماعت میں بیٹھا، باتیں کی اور چلاگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سلمہ بن اکوع  ؓ نے انہیں تلاش کرکے قتل کردیا۔ مقتول کے ہتھیار اور اوزار آپ ؐ نے سلمہ بن اکوع  ؓ کو دلوادئے (بخاری:۱۵۰۳)۔ بنی اسرائیل کے ایک نبی یوشع علیہ السلام نے ایک غزوہ میں فتح کے بعد اموالِ غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے آئی لیکن اسے جلا نہ سکی۔ پھر جب مالِ غنیمت میں سے چوری شدہ سونے کا ایک سر واپس اموال غنیمت میں رکھا گیا تب آگ آئی اور اسے جلا گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے ہماری اُمت کے لیے مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا گیا (بخاری: ۴۲۱۳)۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو لشکر کو مالِ غنیمت میں اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد  ملی کہ ہر مجاہد کو بارہ بارہ اونٹ ملے (بخاری: ۴۳۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہمات کے شرکاء کو مالِ غنیمت کے عام حصوں کے علاوہ اپنے خمس کے حصوں میں سے سے بھی دیا کرتے تھے (بخاری: ۵۳۱۳)۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ اپنی قوم کے چند افراد کے ساتھ حبشہ ہوتے ہوئے جب مدینہ پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت میں ہمیں بھی شریک کیا تھا حالانکہ ہم لوگ اس غزوہ میں شریک نہ تھے (بخاری: ۶۳۱۳)۔ حضرت جابرؓ سے نبی کریم ﷺ کا وعدہ: جب بحرین سے مال آئے گا تو میں تمہیں اس میں سے تین لپ دوں گا۔ یہ مال حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں آیا تو خلیفہ اول نے یہ وعدہ پورا کیا (بخاری: ۷۳۱۳؛ ۴۶۱۳)۔ غزوہ حنین میں ابو قتادہ ؓ نے ایک مسلمان کے قتل کے درپے ایک کافر کو قتل کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کافر کا سارا ساز و سامان ابو قتادہؓ کو دلوادیا۔ ابو قتادہؓ نے اس سامان میں سے زرہ کو بیچ کر بنی سلمہ مکیں ایک باغ خرید لیا تھا (بخاری: ۲۴۱۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے فدیہ لیے بغیر انہیں مفت آزاد کردیا تھا (بخاری: ۴۴۱۳)۔ غزوات میں مجاہدین کو کھانے کے لیے شہد اور انگور ملتا تھا تو وہ اسی وقت کھالیتے تھے (بخاری: ۴۵۱۳) ۔

جہاد۔ خواتین 
  اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے اور اُم عطیہؓ  ان میں سے چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہم عورتیں میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھیں (بخاری:۴۲۳؛۲۵۶۱)۔ جہاد میں شمولیت کی درخواست پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب: عورتوں کے لیے سب سے افضل جہاد حج مقبول ہے (بخاری:۴۸۷۲؛ ۵۷۸۲؛ ۶۷۸۲)۔ اُحد کی لڑائی کے موقع پر حضرت عائشہ اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہما پانی سے بھرے مشکیزے اپنی پشت پر لادے جلدی جلدی مجاہدین کو پانی پلاتی جاتی تھیں (بخاری: ۰۸۸۲؛ ۱۱۸۳)۔ ربیع بنت معوذ  ؓ کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوتیں، مسلمان فوجیوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ہم میدان جنگ میں شہید ہونے والوں کو مدینہ اٹھا کر بھی لاتی تھیں (بخاری:۲۸۸۲؛ ۳۸۸۲؛  ۹۷۶۵)۔ 

جہاد۔ توشہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ سات ہجری میں امیر ابو عبیدہ بن جراح  ؓ کی قیادت میں تین سو فوجیوں کا ایک لشکر ساحل بحر کی طرف روانہ کیا۔ توشہ ختم ہونے پر دو دو اور پھر ایک ایک کھجور کھاتے ہم سمندر تک پہنچ گئے تو ہمیں سمندر میں ایک پہاڑ جیسی بڑی مچھلی مل گئی، جسے پورا لشکر اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔ مچھلی کی پسلیوں کو کھڑا کیا گیا تواس کے نیچے سے اونٹ اسے چھوئے بغیر گزر گئے (بخاری:۳۸۴۲؛ ۳۸۹۲)۔ غزوہ ہوازن میں توشے ختم ہوگئے تو لوگوں نے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عمر ؓ نے اس تجویز پر اعتراض کیا کہ اونٹوں کے بغیر ہم زندہ کیسے رہیں گے؟ پھر نبی ﷺ کے حکم پر سب نے اپنے اپنے بچے کھچے توشے ایک دسترخوان پر جمع کیا اور نبی کریم ﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی اور سب کو اپنے اپنے برتن لے کر بلایا۔ سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں (بخاری: ۴۸۴۲)۔صحابہ کرام ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصرکی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے، اسے دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے وہ اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھالیتے (بخاری:۵۸۴۲)۔ جہاد یا قیام مدینہ کے موقع پر جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا توشہ کم ہوجاتا  تو جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا، وہ ایک کپڑے میں جمع کرلیتے اور پھر ایک برتن سے آپس میں برابر تقسیم کرلیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتلا کر کہا: پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں (بخاری:۶۸۴۲)۔

جہاد۔ شہید 
شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں:(۱) طاعون میں مرنے والے(۲)پیٹ کے عارضے ہیضہ وغیرہ میں مرنے والے (۳) پانی میں ڈوب کر مرنے والے(۴) گرتی دیوار یا کسی بھی چیز سے دب کر مرنے والے اور (۵) اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران مرنے والے (بخاری: ۳۵۶؛ ۰۲۷؛۹۲۸۲)۔ شہید کی میت اٹھانے تک ملائکہ برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے رہتے ہیں (بخاری:۴۴۲۱؛ ۳۹۲۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دو دو شہداء کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن بھی دیا اوردیگر شہداء کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم بھی دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی(بخاری: ۳۴۳۱؛  ۵۴۳۱ تا ۸۴۳۱؛ ۳۵۳۱)۔ حضرت جابر ؓ کو ان کے والد حضرت عبداللہ ؓ نے جنگ اُحدسے قبل فرمایا کہ میری شہادت کے بعدمیرا قرض ادا کردینا اور اپنی نو بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔شہادت کے بعد حضرت جابرؓ نے اپنے والد کے ساتھ ایک اور شہید کو بھی دفن کیا تھا۔ چھ ماہ بعد الگ دفن کرنے کے لیے ان کی میت کو قبر سے نکالا تو دیکھا کہ سارا جسم اسی طرح سلامت تھا جیسے چھ ماہ قبل دفن کیا گیا تھا (بخاری:۱۵۳۱؛ ۲۵۳۱)۔ شہید کے علاوہ اللہ کا کوئی بھی نیک بندہ مرنے کے بعد اس دنیا میں واپس آنا پسند نہیں کرتا۔ شہید جب اللہ کے ہاں شہادت کی فضیلت کو دیکھے گا تو چاہے گا کہ دنیا میں دوبارہ واپس آکر اللہ کی راہ میں قتل ہو  (بخاری:۵۹۷۲؛ ۷۱۸۲)۔ اللہ کی قسم! میری تو آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے بعد زندہ کیا جاتا رہوں اور قتل ہوتا رہوں (بخاری:۷۹۷۲)۔ فوج کا جھنڈا یکے بعد دیگرے زید، جعفر اور عبداللہ بن رواحہ اٹھاتے رہے اور شہید ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسلامی لشکر کو فتح ہوئی (بخاری:۸۹۷۲)۔ نبی کریمﷺکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرمارہے تھے: ہمیں اس کی کوئی خوشی نہ ہوتی کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں وہ ہمارے پاس زندہ رہتے کیونکہ وہ بہت عیش و آرام میں چلے گئے ہیں  (بخاری: ۸۹۷۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ستّر(۰۷) قاریوں کو بنو عامر کی طرف پیغام حق کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے دھوکے سے ان سب کو قتل کردیا۔ جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ آپ کے ساتھ اللہ سے جا ملے ہیں۔ اللہ ان سے خوش ہے اور انہیں بھی خوش کردیا ہے  (بخاری:۱۰۸۲)۔

 جہاد۔ شہید: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں زخمی ہونے والی اپنی ایک انگلی سے مخاطب ہوکر فرمایا: تیری حقیقت ایک زخمی انگلی کے سوا کیا ہے اور جو کچھ ملا ہے، اللہ کے راستے میں ملا ہے(بخاری:۲۰۸۲)۔ اللہ کے راستے میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہوگا اور خون کی خوشبو مشک جیسی ہوگی (بخاری:۳۰۸۲)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے حاضر ہوئے اور عرض کیا: پہلے جنگ میں شریک ہوجاؤں یا پہلے اسلام لاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اسلام لاؤ۔ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ نے فرمایا: اس نے عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا (بخاری:۸۰۸۲)۔ جنگ بدر میں شہید ہونے والے حارثہ بن سراقہ  ؓ کی والدہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اُن کے بیٹے کو جنت کے فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے (بخاری:۹۰۸۲)۔ رعل، ذکوان اور عصیہ قبائل کے لوگوں نے اصحاب بئر معونہ رضی اللہ عنہم کے ستّر قاریوں کو شہید کیا تھا۔ ان پر رسول اللہ نے تیس دن تک صبح کی نماز میں بد دعا کی تھی (بخاری:۴۱۸۲)۔ جنگ اُحد میں حضرت جابر ؓ کے والد کی شہادت پر ان کی عزیزہ کے رونے کی آواز سُن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روئیں نہیں۔ ملائکہ برابر ان پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں (بخاری:۶۱۸۲)۔ ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرکے شہید ہوگیا۔ اس شہید کے قاتل کو اللہ نے توبہ کی توفیق دی اور بعد ازاں وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا۔ یوں قاتل اور مقتول دونوں جنت میں پہنچ گئے۔روزِ حشر اللہ ان دونوں جنتی قاتل و مقتول کو دیکھ کر ہنس دے گا (بخاری:۶۲۸۲)۔  طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت کا درجہ رکھتی ہے (بخاری: ۰۳۸۲)۔میرے لیے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ مَیں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں (بخاری:۲۷۹۲)۔

جھانکنا۔ گھر 
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حجرہ میں سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا۔ خادم رسول انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حجرہ میں جھانکنے لگے تو آپﷺ ان کی طرف تیر کا پھل لے کر بڑھے (بخاری: ۱۴۲۶؛ ۲۴۲۶)۔ اگر کوئی تمہاری اجازت کے بغیر تمہارے گھر میں باہر سے جھانک رہا ہو ہو اور تم اسے کنکر مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ اور سزا لاگو نہ ہوگا  (بخاری: ۸۸۸۶؛ ۲۰۹۶)۔ ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیوار کے ایک سوراخ سے گھر کے اندر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا۔(بخاری: ۴۲۹۵)۔

حج۔ عمرہ 
ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں (بخاری:۳۷۷۱) حج کرنے سے پہلے عمرہ کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں ایسا ہی کیا تھا  (بخاری:۴۷۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا تھا  (بخاری:۶۷۷۱؛ ۷۷۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کل چار عمرے اور ایک حج کیا تھا (بخاری: ۵۷۷۱؛۸۷۷۱؛ ۹۷۷۱؛ ۳۵۲۴؛ ۴۵۲۴)۔ حج کے ساتھ کئے جانے والے عمرے کے علاوہ باقی سارے عمرے آپؐ نے ذیقعد کے مہینے میں کئے  (بخاری:۸۴۱۴)۔ رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کہ میرے (نبیؐ) ساتھ حج کرنے کے برابر ہوتا ہے (بخاری:۲۸۷۱؛ ۳۶۸۱)۔  عمرہ اگر چھوڑ دیا جائے تو اس کی قضا کرنی چاہئے۔صلح حدیبیہ  کے موقع پر چھوڑے گئے عمرہ کی قضاء کا عمرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال کیا تھا جبکہ حجتہ الوداع کے موقع پر حج سے پہلے حیض کے سبب توڑے گئے عمرہ کا قضاء اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حج کے بعد عمرہ کرکے کیا تھا  (بخاری:۰۸۷۱؛ ۳۸۷۱)۔ صفا اور مروہ کی سعی کے بغیر حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتا (بخاری:۰۹۷۱)۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر صفا و مروہ کی سعی کی اور آپ ؐ  کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوئے (بخاری:ا۹۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے۔ بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد صفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کی(بخاری:۳۹۷۱)۔ صفا مروہ کی سعی کئے بغیر عمرہ کرنے والااپنی بیوی کے لیے حلال نہیں ہوسکتا (بخاری:۴۹۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حج کے بعد عبدالرحمنؓ نے اپنی بہن حضرت عائشہ ؓ  کو عمرہ کروایا تھا (بخاری: ۴۸۹۲؛ ۵۸۹۲)۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا گناہ خیال کرتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ چار ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے مکہ تشریف لائے تو صحابہ کو حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنالیں۔ طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں۔پھر حج کا احرام باندھنے تک ان کے لیے وہ سب چیزیں حلال ہوجائیں گی جو احرام کے نہ ہونے کی حالت میں حلال تھیں (بخاری: ۲۳۸۳)۔ جو حج کے لیے جاتے ہوئے اپنے ساتھ قربانی کا جانوی ہدی لے کر نہ جائے وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروا کی سعی کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجائے (بخاری: ۶۴۳۴)۔ حجتہ الوداع سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور منیٰ میں یہ اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج کرنے نہ آئے (بخاری:۳۶۳۴)۔

حج، عمرہ۔ احرام 
 دوران حج اگر ارکان حج آگے پیچھے ہوجائے جیسے جانور ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لے، رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلے تو کچھ حرج نہیں (بخاری:۳۸)۔ احرام والے نہ قمیص پہنیں، نہ صافہ باندھیں، نہ پاجامہ پہنیں اور نہ کوئی سرپوش اوڑھیں اور نہ ہی کوئی زعفرام سے رنگا ہوا کپڑا پہنیں۔ اگر جوتے نہ ملیں تو موزوں کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لیں (بخاری:۴۳۱؛ ۲۴۵۱)۔ احرام میں بندہ نہ پاجامہ، کوٹ پہنے، اورنہ ایسا کپڑا جس میں زعفران (خوشبو) لگا ہوا ہو یا رنگا ہوا ہو۔جوتے اور موزے بھی ٹخنوں سے نیچے والے ہوں (بخاری:۶۶۳)۔ حجتہ الوداع کے سفر میں بعض نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض نے حج کا۔ جب صحابہ کرام ؓ مکہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی (قربانی کا جانور) ساتھ نہ لایا ہو تو وہ حلال ہوجائے۔ اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور وہ ہدی بھی ساتھ لایا ہو تو وہ ہدی کی قربانی سے پہلے حلال نہ ہوگا۔ اور جس نے حج کا احرام باندھا ہو تو اسے حج پورا کرنا چاہئے (بخاری:۹۱۳؛۲۵۹۲)۔ منیٰ میں یوم نحر والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ اعلان کیا گیاکہ آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور نہ ہی کوئی برہنہ طواف کرسکے گا (بخاری: ۹۶۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذی الحجہ کو تلبیہ کہتے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ مکہ تشریف لائے اور فرمایا: جن کے پاس قربانی کا جانور ہدی نہیں ہے، وہ حج کی بجائے عمرہ کی نیت کرلیں اور عمرہ سے فارغ ہوکر حلال ہوجائیں۔ پھر حج کا احرام باندھیں (بخاری:۵۸۰۱)۔ اگر احرام کی چادریں خوشبو میں بسی ہوئی ہوں تو اسے تین مرتبہ دھو لے (بخاری:۶۳۵۱)۔ احرام میں زعفران یا کوئی خوشبو نہ لگا ہو۔ محرم سر دھو سکتا ہے، لیکن کنگھا نہ کرے۔ جوں سر یا بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جاسکتی ہے (بخاری: ۲۴۵۱)۔ حجتہ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالوں میں تیل لگانے اور کنگھا کرنے، ازار اور رداء پہننے کے بعد صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ آپ نے زعفران میں رنگے ایسے کپڑے کے سوا جس کا رنگ بدن پر لگتا ہو، کسی قسم کی چادر یا تہبند پہننے سے منع نہیں کیا(بخاری:۵۴۵۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے جانور کو ہار پہناکر عمرہ کا احرام باندھا (بخاری:۴۹۶۱ تا ۶۹۶۱)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ فرماتی ہیں کہ جب تک کوئی احرام نہ باندھ لے، حج تمتع کے لیے صرف اپنا ہدی کا جانور مکہ کی طرف روانہ کرنے یا ساتھ لے کر چلنے سے عازمین حج پر احرام کی پابندیاں لاگو نہیں ہوجاتی ہیں (بخاری:۸۹۶۱ تا ۳۰۷۱؛۷۱۳۲)۔  

 حج، عمرہ۔ احرام: پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں احرام باندھے ہوئے محرم افراد بھی مارسکتے ہیں۔ کوا، چیل، چوہا، بچھو اور کاٹنے والا کتا (بخاری:۶۲۸۱تا ۹۲۸۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں اپنے سر کی بیچ میں پچھنا لگوایا تھا (بخاری: ۵۳۸۱؛ ۶۳۸۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا (بخاری: ۷۳۸۱)۔ حالتِ احرام میں نہ قمیض پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس یعنی کنٹوپ یا برساتی کوٹ۔ اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر موزے پہن لے۔ ایسا کوئی لباس نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس (خوشبو) لگا ہو(بخاری: ۸۳۸۱؛ ۲۴۸۱)۔ احرام کی حالت میں سر پر پانی ڈال کر سر کو دونوں ہاتھوں سے ہلانا اور آگے پیچھے حرکت دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے (بخاری: ۰۴۸۱)۔ جس کے پاس احرام میں تہبند نہ ہو، وہ پاجامہ پہن لے اور جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے (بخاری: ۱۴۸۱؛ ۳۴۸۱)۔ غیر محرم کا شکار کیا ہوا گوشت احرام باندھے ہوئے افراد بھی کھاسکتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع  پر حضرت قتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا۔ انہوں نے ایک گورخر کا شکار کیا تو بعض صحابہ نے احرام میں ہونے کی وجہ اسے سے کھانے سے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی (بخاری:۱۲۸۱تا ۴۲۸۱؛۰۷۵۲؛ ۴۱۹۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعت اور مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت قصر نماز ادا کی۔ پھرصحابہ ؓ نے حج اور عمرہ دونوں کا لبیک ایک ساتھ پکارا (بخاری:۱۵۹۲)۔  احرام کی خلاف ورزی کا کفارہ تین دن کے روزے، چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ایک قربانی کرنا ہے (بخاری:۳۰۷۵)۔  احرام میں کوئی قمیص، پاجامہ، ٹوپی پگڑی اور موزے نہ پہنو۔ البتہ اگر اسے چپل نہ ملے تو موزوں کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے۔ اور نہ ایسا کپڑا پہنو جس پر زعفران یا ورس (خوشبو) لگی ہوئی ہو (بخاری: ۴۹۷۵؛ ۳۰۸۵؛ ۵۰۸۵؛ ۶۰۸۵؛ ۷۴۸۵؛ ۲۵۸۵)۔ محرم کو اگر تہمد نہ ملے تو وہ پاجامہ ہی پہن لے اور جسے چپل نہ ملے وہ (ٹخنوں سے نیچے کٹے ہوئے) موزے پہنے (بخاری: ۴۰۸۵؛ ۳۵۸۵)۔ بیمار شخص حج کا احرام اس شرط کے ساتھ باندھ سکتا ہے کہ یا اللہ! میں اس وقت حلال ہوجاؤں گا جب تو مجھے مرض کی وجہ سے روک لے گا (بخاری:  ۹۸۰۵)۔

حج۔ ترتیبِ ارکان 
دوران حج اگر کوئی  غلطی سے قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی سر منڈوالے یا رمی سے پہلے طواف زیارت کرلے،  تو کوئی قباحت نہیں (بخاری:۱۲۷۱ تا ۳۲۷۱)۔ قربانی کرنے، سر منڈوانے، رمی کرنے کی ترتیب آگے پیچھے ہوجانے کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں (بخاری: ۴۳۷۱ تا ۷۳۷۱)۔ رمی کرنے سے پہلے طواف زیارت اور رمی کرنے سے پہلے ذبح کرنے والے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں (بخاری: ۶۶۶۶)

حج۔ اقسام 
ذو الحلیفہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ نے حج اور عمرہ کے لیے ایک ساتھ احرام باندھا یعنی قران کیا۔(بخاری:۱۵۵۱)۔ جن لوگوں نے حج تمتع کا احرام باندھا تھا، انہوں نے مکہ میں عمرہ ادا کرکے احرام کھول دیا اور پھر آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھا (بخاری:۱۵۵۱)۔ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو تو اسے عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہئے۔ ایسا شخص درمیان میں حلال نہیں ہوسکتا بلکہ حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ حلال ہوگا (بخاری:۶۵۵۱)۔ حجتہ الوداع میں جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کی سعی (اور بال منڈواکر) حلال  ہوگئے۔ پھر منیٰ سے واپسی پر دوسرا طواف زیارت کیا۔ لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا، انہوں نے صرف ایک ہی طواف یعنی طواف زیارت کیا (بخاری:۶۵۵۱)۔ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا اور کچھ نے صرف حج کا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے صرف حج کا احرام باندھا تھا، پھر آپؐ نے عمرہ بھی شریک کرلیا۔ چنانچہ جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا، ان کا احرام دس ذی الحجہ تک نہ کھل سکا(بخاری: ۲۶۵۱)۔ ایام جاہلیت میں عرب حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ حج کے ایام گزرجائیں تب عمرہ کرنا حلال ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذی الحجہ کوصحابہ کرام ؓکے ہمراہ حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ ؐ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنا کر حلال ہوجائیں (بخاری:۴۶۵۱)۔ اگرتم قربانی کے لیے ہدی کا جانور ساتھ نہ لائے ہو تو مفرد حج کے لیے باندھے ہوئے احرام کو حج تمتع میں تبدیل کرلو اور عمرہ مکمل کرکے یعنی طواف، سعی اوربال ترشواکر حلال ہوجاؤ۔پھر یوم ترویہ(آٹھ ذی الحجہ) میں مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لینا(بخاری:۸۶۵۱)۔ حج کی لبیک پکارنے کے باوجود حج کے لیے باندھے ہوئے احرام کو عمرہ کے احرام میں تبدیل کیا جاسکتا ہے(بخاری:۰۷۵۱)۔

حج۔ اقسام:مکہ سے باہر رہنے والوں کے لیے حج تمتع(یعنی پہلے عمرہ مکمل کرکے احرام کھول دینا اور پھر آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھنا)قرآن اور رسول اللہ کی سنت سے ثابت ہے (بخاری:۱۷۵۱؛ ۲۷۵۱)۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حج تمتع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس میں عمرہ مقبول اور حج مبرور ہے۔حج تمتع میں ایک اونٹ، ایک گائے یا ایک بکری کی قربانی واجب ہے یا کسی اونٹ، گائے بھینس کی قربانی میں شریک ہوجائے(بخاری:۸۸۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں تمتع کیا تھا یعنی عمرہ کرکے پھر حج کیا تھا۔ (بخاری:۱۹۶۱)۔ حجتہ الوداع کے موقع پر جو لوگ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے کر نہیں آئے تھے، وہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے عمرہ کی تکمیل یعنی بیت اللہ کا طواف، صفا مروا کی سعی اور بال ترشواکر حلال ہوگئے تھے۔ لیکن جو اپنے ساتھ قربانی کے جانورلے کر آئے تھے اُن پر حج کی تکمیل تک احرام کی تمام پابندیاں برقرار رہیں (بخاری:۱۹۶۱؛۸۳۶۱)۔ حج تمتع یعنی ایک ہی حج سیزن میں پہلے عمرہ اور بعد میں حج کرنے والے پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ اگر کوئی قربانی نہ کرسکے تو تین دن کے روزے حج ہی کے دنوں میں مکہ میں اور سات دن کے روزے گھر واپس آکر رکھے (بخاری:۱۹۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کے ساتھ چوتھی ذی الحجہ کو حج کی تلبیہ کہتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے اور ساتھیوں سے کہا کہ جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہیں ہے وہ اپنے حج کو عمرہ میں بدل کر حلال ہوجائیں (بخاری:۵۰۵۲؛  ۶۰۵۲)۔ حج میں تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا۔پھر نہ قرآن نے حج تمتع سے روکا نہ رسول اللہ ﷺنے۔ (بخاری:۸۱۵۴)۔  حجۃ الوداع  میں اگر مجھ کو اپنا حال پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور عمرہ کرکے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی احرام کھول ڈالتا (بخاری: ۹۲۲۷؛ ۰۳۲۷)۔

حج۔ انتقال 
حجتہ الوداع کے موقع پر ایک محرم کے اونٹ نے اس کی گردن توڑ کر اسے ماردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں سے غسل دو اور احرام ہی کے دو کپڑوں کا کفن دو اس کا سر نہ ڈھکو اور نہ خوشبو لگاؤ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا(بخاری: ۹۳۸۱؛ ۹۴۸۱ تا ۱۵۸۱)۔

حج۔ بدل 
بوڑھے والدین کی طرف سے حج بدل کیا جاسکتا ہے(بخاری:۳۱۵۱)۔ مرحوم کی طرف سے حج بدل کیا جاسکتا ہے۔ ورثاء پر مرحوم کے ذمہ قرض ادا کرنا بھی ضروری ہے (بخاری: ۲۵۸۱)۔ مریض و ضعیف فرد کی طرف سے کوئی دوسرا فرد حج ادا کرسکتا ہے(بخاری: ۴۵۸۱؛ ۵۵۸۱)۔ اگر کسی پر حج فرض ہو اور وہ خود حج کرنے سے قاصر ہو تو وہ کسی اور سے حج بدل کرواسکتا ہے (بخاری:۹۹۳۴)۔ ایک خاتون:میرے والد پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر سیدھے بیٹھ نہیں سکتے۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو ان کا حج ادا ہوجائے گا؟ نبی کریم ﷺ: ہاں ہو جائے گا (بخاری: ۸۲۲۶)۔

 حج۔ تکمیل عمرہ 
میدان عرفات سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کا طواف، صفا و مروا کی سعی کریں اور اپنے سروں کے بال ترشواکر وہ لوگ حلال ہوجائیں، جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں ہیں (بخاری:۵۴۵۱)۔

حج۔ تلبیہ 
دوران حج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ تک جمرہ عقبہ کی رمی کرنے تک برابر تلبیہ کہتے رہے (بخاری:۳۴۵۱؛ ۴۴۵۱)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا:  لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، اِن الحمد، والنعمۃ لک والملک، لاشریک لک(حاضر ہوں اے اللہ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں (بخاری: ۹۴۵۱؛ ۰۵۵۱)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے کچھ لوگ لبیک پکارتے توکچھ لوگ تکبیر کہتے۔ کوئی کسی پر اعتراض نہ کرتا (بخاری: ۹۵۶۱)۔ 

حج۔ حجۃ الوداع 
منیٰ میں دسویں ذی الحجہ کو خطبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم: تمہارا خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر حرمت والا ہے۔ دیکھ! میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مارکر کافر نہ بن جانا(بخاری:۹۳۷۱؛ ۱۴۷۱؛ ۲۴۷۱)۔  منیٰ میں دسویں ذی الحجہ کو خطبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ صحابہ کرام ؓ کے ہاں کہنے پر آپ ؐنے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔(بخاری:  ۹۳۷۱؛ ۱۴۷۱)۔ منٰی میں خطبہ رسول ﷺ: یہاں موجود لوگ، غیر موجود لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا، سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے (بخاری:۹۳۷۱؛ ۱۴۷۱)۔ حجتہ الوداع سے پہلے والے حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق  ؓ نے منیٰ میں دسویں ذی الحجہ کو یہ اعلان کروادیا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی ننگا طواف کرے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں جب حج کیا تو کوئی مشرک شریک نہ ہوا (بخاری:۷۲۷۱۳؛ ۷۵۶۴؛ ۲۲۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس (۹۱) غزوے اور ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا تھا۔ ابو اسحاق راوی ہیں کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپ ﷺ نے ایک حج کیا تھا (بخاری:۴۰۴۴)۔  سورۃ المائدہ کی آیت:۳ (آج میں نے تم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں نازل ہوئی تھی (بخاری:۷۰۴۴)۔ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مونڈ وایا (حلق) تھا جبکہ بعض دوسرے صحابہ ؓ نے صرف بال ترشوائے (قصر) تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھی تھی (بخاری:۴۱۴۴)۔

حج۔ حلق، قصر 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ کرامؓ نے سر منڈوایا تھا لیکن بعض نے کتروایا بھی تھا۔ سر منڈوانے والوں کے بارے میں آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ! ان پر رحم فرما۔ صحابہؓ کے استفسار پر تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: اور بال کتروانے والوں پر بھی رحم فرما (بخاری:۷۲۷۱؛ ۹۲۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو حکم دیا: بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھولنے کے لیے سر منڈوالیں یا بال کتروالیں (بخاری:۱۳۷۱)۔

حج۔ تجارت 
حج کے زمانہ میں خرید و فروخت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔کیونکہ حج کے زمانہ کے لیے اللہ کا فرمان ہے (البقرہ۔۸۹۱) کہ تمہارے لیے کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو (بخاری:۰۷۷۱)۔  عکاظ، مجنہ، اور ذوالمجاز زمانہ جالیت کے بازار تھے۔اسلام کے بعد موسم حج میں صحابہ کرام ؓ نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو سورۃ البقرہ آیت ۹۸۱ میں اللہ نے فرمایا:تم پر کوئی گناہ نہیں کہ حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل یعنی معاش بھی تلاش کرو (بخاری:۹۱۵۴)۔ 

حج۔ خواتین 
 سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سات سال کی عمر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرایا گیا تھا (بخاری: ۸۵۸۱)۔ عورتوں کے لیے سب سے عمدہ اور سب سے مناسب جہاد حج ہے، وہ حج جو مقبول ہو(بخاری: ۱۶۸۱)۔ خواتین حیض کے دوران طوافِ بیت اللہ کے سوا حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہیں۔ بیت اللہ کا طواف حیض سے پاک ہونے کے بعد کریں گی۔ حجتہ الوداع میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایسا ہی کیا تھا (بخاری:۰۶۵۱)۔ عورتیں احرام کی حالت میں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں (بخاری: ۸۳۸۱؛ ۲۴۸۱)۔ عورتوں کے لیے سب سے عمدہ اور سب سے مناسب جہاد حج ہے، وہ حج جو مقبول ہو(بخاری: ۱۶۸۱)۔ حج سے واپسی پر اُم المومنین حضرت صفیہ ؓحائضہ ہونے کے سبب اپنے خیمہ کے دروازے پر رنجیدہ کھڑی تھیں کہ وہ طواف وداع کیسے کریں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے دس ذی الحجہ کو طواف افاضہ (زیارت) کرلیا تھا تو طواف وداع کے بغیر بھی واپس چل سکتی ہو (بخاری: ۱۰۴۴:۷۵۱۶)۔  حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ ؓ کے حائضہ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا:حیض تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دیا ہے (بخاری: ۸۴۵۵؛ ۹۵۵۵)۔  حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ ؓ کے حائضہ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا: تم حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج کرلو۔ بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو (بخاری: ۸۴۵۵؛ ۹۵۵۵)۔

حج۔ طواف، رمل، استلام، سعی 
اگرکعبہ کاطواف کوئی پیدل نہیں کرسکتا تو سواری پر بیٹھ کر بھی طواف کرسکتا ہے (بخاری:۴۶۴)۔ فتح مکہ سے ایک سال قبل سنہ سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول رضی اللہ تعالیٰ عمرہ کرنے مکہ آئے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ﷺ آئے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں یعنی تیز چلتے ہوئے قوت کا اظہار کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں (بخاری:۲۰۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے تو طواف شروع کرتے وقت پہلے حجر اسود کو بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے یعنی تیز چلتے تھے (بخاری:۳۰۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں میں طواف کعبہ کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا تھااور بقیہ چار چکروں میں حسب معمول چلے تھے (بخاری:۴۰۶۱)۔ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف اپنی اونٹنی پر کیا تھا اور حجرہ اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کرکے اس چھڑی کو چومتے تھے (بخاری:۷۰۶۱؛ ۲۱۶۱؛ ۳۱۶۱؛ ۲۳۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف دونوں یمانی ارکان کا استلام کرتے تھے (بخاری:۹۰۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف کرتے تو اس کے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے ہوئے دوڑ کر چلتے۔ پھر جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو بطن مسیل کی وادی (جس کے دونوں سرے کی چھت پر سبز رنگ کی لائٹس لگی ہوئی ہیں) میں دوڑ کر چلتے (بخاری: ۷۱۶۱؛ ۴۴۶۱)۔ اُم المومنین اُم سلمہ ؓ نے اپنی بیماری کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیدل طواف نہیں کرسکتیں تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سواری پر چڑھ کر لوگوں سے علیحدہ طواف کرنے کو کہا(بخاری:۹۱۶۱؛ ۳۳۶۱)۔ اپنے ہاتھ کو اپنے ساتھی کے ہاتھ سے رسی سے باندھ کر طواف کرنے والے کی رسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ دی اور فرمایا: اگر ساتھ ہی چلنا ہے تو ہاتھ پکڑ کر چلو (بخاری:۰۲۶۱؛ ۱۲۶۱)۔ کچھ لوگوں نے نماز فجر کے بعد طواف کیا پھر ایک وعظ کرنے والے کے پاس بیٹھ گئے اور جب سورج نکلنے لگا تو طواف کی دو رکعت نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ نے ناگواری سے کہا کہ جب سے یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور جب نماز کے لیے مکروہ وقت آیا تو نماز کے لیے کھڑے ہوگئے (بخاری:۸۲۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج طلوع ہوتے اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے (بخاری:۹۲۶۱)۔ فجر کی نماز کے بعد طواف کیا جائے تو اس کے بعد طواف کی دو رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے (بخاری: ۰۳۶۱)۔ زمزم کے کنویں سے پانی نکال کر حاجیوں کو پلاناایک نیک کام ہے (بخاری:۵۳۶۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر زمزم کا پانی پیا (بخاری:۷۳۶۱)۔

 حج۔طواف، رمل، استلام، سعی: انصار مدینہ اسلام سے قبل منات بت کی پوجا کیا کرتے تھے اور جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا خیال نہیں کیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ نے سورۃ بقرہ کی آیت۔۸۵۱ اتاری: صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لیے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس کے لیے ان کا طواف (سعی) کرنے میں کوئی گناہ نہیں (بخاری:۳۴۶۱؛ ۸۴۶۱)۔ عمرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کرتے، مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھتے، پھر صفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کرتے۔ سعی سے قبل عمرہ کرنے والا حلال نہیں ہوتا (بخاری: ۵۴۶۱  تا ۷۴۶۱)۔ زمانہ جاہلیت میں حمس یعنی قریش اور آلِ قریش کے سِوا دیگر لوگ ننگے ہوکر طواف کرتے تھے تو قریش کے مرد، دوسرے مردوں کو اور قریش کی عورتیں دوسری عورتوں کو فی سبیل اللہ کپڑے دیا کرتے تھے تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں۔ اور جنہیں قریش کپڑا نہیں دیتے، وہ ننگے ہی بیت اللہ کا طواف کرتے تھے (بخاری:۵۶۶۱)۔ فرمان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو دسویں تاریخ کو طواف زیارت کیا تھا (بخاری:۳۳۷۱)۔ عبد اللہ بن عباس ؓ کا فرمان: جو شخص بھی بیت اللہ کا طواف کرے تو وہ حطیم کے پیچھے سے طواف کرے (بخاری: ۸۴۸۳)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے تشریف لائے تو مشرکین مکہ نے کہا کہ یہاں وہ لوگ آرہے ہیں، جنہیں یثرب (مدینہ) کی آب و ہوا نے کمزور کر دیا ہے۔چنانچہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر(رمل کرتے ہوئے) چلاجائے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان حسب معمول چلیں (بخاری:۶۵۲۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل اور صفا و مروا کے درمیان دوڑ مشرکین کے سامنے اپنی طاقت دکھانے کے لیے کی تھی (بخاری:۷۵۲۴)۔ اسلام سے قبل انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے اور صفا مروا کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے سعی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ نے سورۃ البقرہ کی آیت: ۸۵۱ نازل فرمائی۔صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ پس جو جو کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے (بخاری: ۵۹۴۴؛ ۶۹۴۴)۔  جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت ۹۸۱ نازل فرمائی: نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور دروازوں سے گھروں میں داخل ہو (بخاری:۲۱۵۴)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کوبیماری کے سبب سواری پر بیٹھ کر طواف کعبہ کرنے کو کہا (بخاری:۳۵۸۴)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صرف دو ارکان یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے تھے (بخاری: ۱۵۸۵)۔

۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں