کلیدی پیغامات بخاری ۔ حصہ دوم (2/3)

 ۔ ۔ ۔ نوٹ ۔ ۔ ۔ 

 ان پیج سے یونی کوڈ میں کنورژن کے دوران احادیث کے تمام نمبرز دائیں بائیں الٹ گئے ہیں۔ لہٰذا ۱۲۳ کو ۳۲۱ پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ نمبرز کی ترتیب کو درست کرنے کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔ 



حج۔ طوافِ وداع 

طواف وداع کرکے بیت اللہ سے رخصت ہونے کا حکم ہے۔ البتہ حائضہ کو طواف وداع معاف ہے (بخاری:۵۵۷۱؛ ۷۵۷۱ تا ۰۶۷۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے کوچ کرکے محصب میں اس لیے اترے تھے کہ آسانی کے ساتھ مدینہ کو نکل سکیں۔ محصب میں اترنا حج کی کوئی عبادت نہیں ہے (بخاری:۵۶۷۱؛ ۶۶۷۱)۔ 


حج۔ عرفہ، مزدلفہ 

یوم عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کو حاجی روزہ نہیں رکھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن دودھ پینا ثابت ہے (بخاری:۸۵۶۱؛ ۱۶۶۱)۔عرفہ کے دن وقوف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلتے ہی ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے تھے (بخاری:۲۶۶۱)۔حجتہ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاؤ ں اٹھا کر ذراتیز چلتے اور جہاں ہجوم نہ ہوتا وہاں تیز چلتے تھے (بخاری:۶۶۶۱)۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مزدلفہ میں آکر نماز مغرب اور عشاء ملا کر ایک ساتھ پڑھتے تھے (بخاری:۸۶۶۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر یوم عرفہ کی شام میدان عرفات سے مزدلفہ پہنچنے کے بعدالگ الگ تکبیروں سے مغرب اور عشاء کی نماز یں ایک ساتھ پڑھیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنت یا نفل نماز نہیں پڑھی (بخاری:۹۶۶۱؛ ۲۷۶۱ تا ۴۷۶۱)۔میدان عرفات سے مزدلفہ کی طرف آتے وقت اپنے پیچھے سواریوں کا شور سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! آہستگی اور وقار کو اختیار کرو۔ سواری کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے (بخاری:۱۷۶۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمزور لوگوں کو رات کے وقت ہی مزدلفہ سے منیٰ بھیج دیا کرتے تھے۔ وہ مشعر حرام کے پاس آکر ٹھہرتے۔ پھر فجر کی نماز کے وقت یا اس کے بعد منیٰ پہنچتے۔(بخاری:۶۷۶۱ تا  ۸۷۶۱)۔حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہا نے مزدلفہ پہنچ کر نمازیں پڑھیں اور چاند ڈوبتے ہی منیٰ کی طرف چلیں اور رمی جمرہ کرنے کے بعد اپنے ڈیرے میں پہنچ کر اندھیرے ہی میں فجر کی نماز پڑھی اور اپنے غلام عبداللہ سے کہا کہ بیٹے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے(بخاری: ۹۷۶۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مزدلفہ کی رات عام لوگوں  کے اژدہام سے پہلے منیٰ روانہ ہونے کی اجازت دے دی کیونکہ آپ ایک فربہ خاتون تھیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ رات مزدلفہ میں ہی رکی رہیں اور صبح کونبی کریم ﷺکے ساتھ منیٰ روانہ ہوئیں (بخاری:۰۸۶۱؛ ۱۸۶۱)۔مزدلفہ میں نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں جبکہ فجر کی نماز بھی معمول کے وقت سے پہلے ادا کی(بخاری:۲۸۶۱)۔فرمان حضرت عمرؓ: ایام جاہلیت میں مشرکین سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے روانہ نہیں ہوتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی مخالفت کرتے ہوئے سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہوگئے (بخاری:۴۸۶۱)۔قریش حج میں مزدلفہ سے اس وقت تک نہیں نکلتے تھے جب تک دھوپ ثبیر پہاڑی پر نہ نکل آتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے کوچ کیا (بخاری: ۸۳۸۳)۔


حج۔ جمرات، رمی 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پہنچنے تک برابر لبیک کہتے رہے۔ پھر آپ ؐ نے کنکریاں ماریں (بخاری: ۰۷۶۱؛  ۵۸۶۱ تا ۷۸۶۱)۔جمرہ کبریٰ پر سات کنکریوں سے اس طرح رمی کرنا  مسنون ہے کہ کعبہ بائیں طرف اور منیٰ دائیں طرف ہو (بخاری:۸۴۷۱؛ ۹۴۷۱)۔ رمی کا مسنون طریقہ:پہلے جمرہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کرنا، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہنا اورپھر قبلہ رُخ ہوکر دعا کرنا اس کے بعد جمرہ وسطیٰ کی رمی کرکے قبلہ رُخ  ہوکر دعا کرنا۔اور آخر میں جمرہ عقبہ کی رمی کرکے بغیر رُکے اور بغیر دعا کئے واپس ہوجانا (بخاری:۱۵۷۱ تا ۳۵۷۱)۔


حج و عمرہ۔ فضائل 

اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور جہاد کرنے کے بعد حج مبرور سب سے بہتر کام ہے (بخاری:۹۱۵۱)۔سب سے افضل جہاد حج ہے جو مبرور ہو (بخاری: ۰۲۵۱)۔  جس نے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ تو کوئی فحش بات کی اور نہ کوئی گناہ کیا تو وہ اس طرح واپس ہوگا، جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا  (بخاری: ۱۲۵۱)۔جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور اس دوران نہ نہ منہ سے شہوت کی بات نکالی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) واپس  ہوگا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا (بخاری:۹۱۸۱؛ ۰۲۸۱) مہاجر کو حج میں طواف وداع کے بعد تین دن ٹھہرنے کی اجازت ہے (بخاری:۳۳۹۳) 


حج،عمرہ۔ فدیہ، قضا 

 احرام میں ایک صاحب کو سر کی جویں تکلیف دے رہی تھیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں سر منڈواکر فدیہ دینے کو کہا۔ فدیہ میں تین دن کے روزے یا قربانی کی ایک بکری یا چھ مسکینوں کو تین صاع غلہ تقسیم کردے (بخاری:۴۱۸۱ تا۸۱۸۱؛ ۸۰۷۶)۔حدیبیہ کے سال جب کفار قریش نے بیت اللہ تک نہیں جانے دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ ہی میں پہلے اپنی قربانی نحر کی پھر سر منڈوایا تھا اور اگلے سال عمرہ کیا(بخاری:۷۰۸۱؛ ۹۰۸۱؛ ۱۱۸۱؛ ۲۱۸۱)۔احرام کی حالت میں ممنوعات پر عمل کرنے کا فدیہ ایک فرق اناج چھ مسکینوں کو کھلانا، ایک بکری کی قربانی کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے (بخاری:۹۵۱۴؛ ۰۹۱۴؛ ۱۹۱۴)۔

  

حج۔ تمتع، قربانی 

جو حاجی حج اور عمرہ کے درمیان تمتع کرے تو قربانی نہ کرسکنے کے سبب اسے یوم عرفہ تک تین روزے رکھنے کی اجازت ہے۔یہی روزہ قیام منیٰ (ایام تشریق) میں بھی رکھ سکتے ہیں۔(بخاری:۷۹۹۱ تا ۹۹۹۱)۔


 حج و عمرہ۔ قصر نماز 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں چار رکعت ظہر ادا کی اور مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ پہنچ کر عصر کی دو رکعت قصر نماز ادا کی۔ رات وہیں گزاری اور صبح سواری پر سوار ہوکر لبیک پکاری (بخاری:۶۴۵۱تا ۸۴۵۱؛ ۱۵۵۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات ابوبکر و عمر ؓ  منیٰ میں قصر کی دو رکعت نماز ہی پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری: ۵۵۶۱ تا ۷۵۶۱)۔سفر حج پر روانہ ہوتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی پوری چار رکعت نماز ادا کی جبکہ ذوالحلیفہ میں عصر کے لیے دو رکعت قصر نماز ادا کی۔ اور جب مقام بیداء پر پہنچے تو عمرہ اور حج دونوں کا نام لے کر لبیک پکارا (بخاری:۵۱۷۱)۔

  حج۔ میقات 
 میقات: مدینہ والے ذوالحلیفہ سے، اہل شام جحفہ سے، نجد والے قرن المنازل سے اور یمن والے یلملم سے حج و عمرہ کا احرام باندھیں۔ (بخاری۔۳۳۱؛۴۴۳۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھا، سواری پر چڑھے اور لبیک کہا (بخاری:۴۱۵۱؛ ۵۱۵۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کو اُن کے بھائی نے تنعیم سے عمرہ کروایا(بخاری:۶۱۵۱؛ ۸۱۵۱)۔ نجد والوں کے لیے قرن منزل، مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، یمن والوں کے لیے یلملم اور شام والوں کے لیے حجفہ میقات (جہاں سے حج و عمرہ کے لیے احرام باندھا جاتا ہے) مقرر ہے۔ جن کا قیام میقات اور مکہ کے درمیان ہے تو وہ احرام اسی جگہ سے باندھیں جہاں سے انہیں سفر شروع کرنا ہے۔یہاں تک کہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں (بخاری:۲۲۵۱ تا ۰۳۵۱؛۵۴۸۱)۔بصرہ اور کوفہ کی فتح کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں کے لوگوں کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا(بخاری:۱۳۵۱)۔ معرس کے قریب مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ کی بطن وادی یعنی وادی عتیق (جو مدینہ سے چار میل بقیع کی جانب ہے)میں ایک فرشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور اعلان کر کہ عمرہ حج میں شریک ہوگیا (بخاری:۴۳۵۱؛ ۵۳۵۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے میقات مسجد ذوالحلیفہ کے قریب پہنچ کر ہی احرام باندھا تھا(بخاری: ۱۴۵۱)۔ ذوالحلیفہ میں وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب والی جگہ کے مبارک ہونے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک فرشتے نے دی اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئیے (بخاری:۲۳۵۱؛۷۳۳۲)۔

 حدود۔ اللہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بدلہ نہیں لیا البتہ جب اللہ کی قائم کی ہوئی حد کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے بدلہ لیتے تھے (بخاری: ۶۸۷۶؛۳۵۸۶)۔جسے اس کے گناہ کی سزا دنیا ہی میں مل گئی تو یہ اس گناہ کا کفارہ اور اسے پاک کرنے والی ہوگی اور جس غلطی کو اللہ چھپالے تو یہ اللہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو اس کی مغفرت کردے(بخاری: ۱۰۸۶)۔ حدود اللہ میں کسی مقررہ حد کے سوا کسی اور سزا میں دس کوڑے سے زیادہ بطور تعزیر و سزا نہ مارے جائیں (بخاری: ۸۴۸۶ تا ۰۵۸۶)۔ دور رسالت میں غلہ کے ڈھیر کو بن ناپے تولے خرید کر اسی جگہ دوسرے کے ہاتھ بیچنے پر سزا ملتی تھی۔ البتہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاکر بیچنا منع نہ تھا (بخاری: ۲۵۸۶)۔

حدود۔ زنا 
 شادی شدہ زانی۔ رجم: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی ایک زانی مرد و عورت کا مقدمہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت کے آیت رجم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے دونوں کو سنگسار کروادیا (بخاری:۹۲۳۱؛ ۵۳۶۳؛۶۵۵۴؛۹۱۸۶؛ ۱۴۸۶؛ ۲۳۳۷؛ ۳۴۵۷)۔حضرت ابن ضحاک اسلمی سے رسول اللہ کا فرمان:اے انیس! اس خاتون کیقبیلہ اسلم کے ماعزبن مالک نامی ایک شادی شدہ  صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے زنا کا چار بار اقرار کیاتو انہیں رجم کردیا گیا(بخاری: ۴۱۸۶؛ ۵۱۸۶؛ ۰۲۸۶؛ ۴۲۸۶؛ ۵۲۸۶)۔ فرمانِ حضرت عمر ؓ: کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں تو کتاب اللہ میں رجم کا حکم نہیں ملتا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ رجم کا حکم اس شادی شدہ شخص کے لیے فرض ہے جس نے زنا کیا ہو بشرطیکہ صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہوجائے یا حمل ہو یا کوئی خود اقرار کرلے(بخاری: ۹۲۸۶)۔ قبیلہ اسلم کے ایک ماعز نامی شادی شدہ شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آکر چار بار اعتراف کیا کہ اس سے زنا سرزد ہوگیا ہے۔ پھر آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ پر رجم کردیا گیا (بخاری: ۰۷۲۵ تا ۲۷۲۵)۔ایک ملازم لڑکے نے اپنی مالکن سے زنا کیا توگھر کے مالک نے کہا کہ اس لڑکے کو سنگسار کیا جائے گا۔ لڑکے کے باپ نے اپنے لڑکے کو سنگساری سے بچانے کے لیے انہیں سو بکریاں اور ایک لونڈی کا فدیہ دے دیا۔ یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے کتاب اللہ کی روشنی میں یہ فیصلہ سنایا۔ بکریاں اور لونڈی واپس کروائیں۔ لڑکے کو سو کوڑے لگواکر ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا۔ لڑکے کی مالکن نے بارگاہ رسالت  میں پیش ہوکرزنا کا اقرار کیا تو وہ سنگسار کردی گئی (بخاری: ۳۳۶۶؛ ۴۳۶۶؛۸۲۸۶؛ ۵۳۸۶؛ ۶۳۸۶؛۲۴۸۶؛ ۳۴۸۶؛۹۵۸۶؛ ۰۶۸۶؛ ۳۹۱۷؛ ۴۹۱۷؛۰۶۲۷)۔ 

غیر شادی شدہ زانی: جو غیر شادی شدہ زنا کریں انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے (بخاری:۹۴۶۲؛۱۳۸۶ تا ۳۳۸۶)۔ غیر شادی شدہ لونڈی اگر دو تین بار متواترزنا کرائے تو ہر بار اسے کوڑے مارو، لیکن لعنت ملامت نہ کرواور پھر اسے بیچ دو خواہ ایک رسی کے مساوی ہی قیمت کیوں نہ ملے (بخاری: ۷۳۸۶تا ۹۳۸۶)۔

حدود۔ شراب نوشی 
شراب پینے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم پر لوگوں نے جوتوں اور چھڑیوں سے مارا (بخاری:۶۱۳۲)۔غیر شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی جبکہ اقرار جرم کرنے والے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا ہے(بخاری:۵۹۶۲؛ ۶۹۶۲؛ ۴۲۷۲؛ ۵۲۷۲)۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں اپنے بھائی ولید کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا۔ شراب نوشی کی شکایات ملنے پرحضرت عثمان ؓنے حضرت علیؓ سے ولید کو حد کے اسّی کوڑے لگوائے (بخاری: ۶۹۶۳؛ ۲۷۸۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے پر چھڑی اور جوتے سے مارا جبکہ حضرت ابوبکر ؓ نے چالیس کوڑے مارے(بخاری: ۳۷۷۶؛ ۶۷۷۶)۔ایک شخص کو شراب کے نشہ میں لایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لوگوں نے انہیں لکڑی اور جوتوں سے بھی مارا (بخاری: ۴۷۷۶؛ ۵۷۷۶؛ ۷۷۷۶)۔حضرت عمرؓ نے شراب پینے والوں کو  چالیس کوڑے مارے۔ مزید سرکشی اور فسق و فجور کیا تو اسّی (۰۸) کوڑے مارے (بخاری: ۹۷۷۶)۔ایک شرابی کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مارا گیا تو ایک صاحب نے کہا کہ اللہ اس پر لعنت کرے تو آپ ﷺ نے ایسا کہنے سے منع فرمایا اور کہا: اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو (بخاری: ۰۸۷۶؛ ۱۸۷۶)۔

حدود۔ چوری 
فتح مکہ پر چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس نے سچی توبہ کی اور شادی کرلی۔اس کے بعد وہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آتی تو آپ ؓ ان کی ضرورت نبی کریم  ﷺکی خدمت میں پیش کردیا کرتی تھیں (بخاری: ۸۴۶۲)۔ ایک خاتون فاطمہ بنت اسودکی چوری پکڑی گئی تو قریش فکرمند ہوگئے۔انہوں نے اسامہ بن زید ؓ سے سفارش کروائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اسی لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت عبداللہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں (بخاری: ۵۷۴۳؛ ۳۳۷۳)۔تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے (بخاری: ۷۸۷۶؛ ۸۸۷۶)۔ چور کا ہاتھ ایک چوتھائی دینار (ایک دینار مساوی سوا چار گرام ۲۲ قیراط سونا) یا اس سے زائد کی چوری پر کاٹ لیا جائے گا (بخاری: ۹۸۷۶تا ۱۹۷۶)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چمڑے یا عام ڈھال کی قیمت(مساوی تین درہم یا آٹھ اعشاریہ نو گرام چاندی) سے کم کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا (بخاری: ۲۹۷۶ تا  ۸۹۷۶)۔ 

حدود۔ آگ سزا: جہاد کے لیے ایک فوج روانہ کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں ہبا بن اسود اور نافع بن عمر نامی دو قریشی مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ آگ کی سزا دیناتواللہ ہی کا کام ہے۔تم انہیں قتل کردینا، آگ میں نہ جلانا (بخاری:۴۵۹۲؛ ۶۱۰۳)۔
 
حدیثِ قدسی 
  میرے نام پر عہد کرکے توڑنے والے، آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھانے والے اورمزدوری کرواکر اُجرت نہ دینے والے تین طرح کے لوگوں کا قیامت کے دن میں خود اللہ تعالیٰ مدعی بنوں گا (بخاری:۷۲۲۲؛ ۰۷۲۲)۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کررکھی ہے جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے (بخاری: ۴۴۲۳)۔  حدیث قدسی: جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کی رحمت و فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے (بخاری:۷۴۱۴)۔ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اور مجھے گالی دی۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میرے لیے اولاد بتاتا ہے حالانکہ میری ذات اس سے پاک ہے (بخاری:۲۸۴۴؛ ۴۷۹۴؛ ۵۷۹۴)۔ حدیث قدسی: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندو! میری راہ میں خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔ اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کیے جارہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی (بخاری:۴۸۶۴)۔ حدیث قدسی: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لوگ زمانہ کو گالی دے کر مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں (دوسری روایت کے الفاظ ہیں: زمانہ کو پیدا کرنے والا میں ہی ہوں)  میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں ہی رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں (بخاری:۶۲۸۴؛ ۱۸۱۶؛ ۱۹۴۷)۔  حدیث قدسی: میرا بندہ فرض عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے۔میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعدنفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔(بخاری:  ۲۰۵ ۶)۔ حدیث قدسی: جب میرا بندہ مجھ سے ملاقات پسند کرتا ہے تو میں بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہوں اور جب وہ مجھ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے تو میں بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہوں (بخاری: ۴۰۵۷)۔ حدیث قدسی: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے (بخاری: ۵۰۵۷)۔جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ وہ میرے پاس پیدل چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں (بخاری: ۶۳۵۷؛ ۷۳۵۷)۔

حرمت۔ ایام، مہینے 
سال کے بارہ مہینوں میں ذیقعد، ذی الحجہ، محرم اور رجب حرمت والے چار مہینے ہیں (بخاری:۶۰۴۴؛۲۶۶۴)۔مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے اور تیس دنوں کا بھی (بخاری: ۲۰۳۵)۔مکہ میں عید الاضحی کے دن شہرمکہ، ماہ ذی الحجہ اور یوم نحر کی حرمت بیان کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح باحرمت ہیں جیسے مکہ، ذی الحجہ اور یوم نحر ہیں۔ (بخاری: ۰۵۵۵؛ ۳۴۰۶)۔  
 
حرمین۔ مکہ، حرمت 
اللہ نے شہر مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ یہاں کے درختوں کے کانٹے تک نہیں کاٹے جاسکتے نہ ہی یہاں شکار کو ہنکایا جاسکتا ہے۔ کوئی یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا الا یہ کہ اعلان کرکے مالک تک پہنچانے کے ارا دہ سے اسے اٹھائے (بخاری:۷۸۵۱)۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ یہاں قتل و خون نہ مجھ سے پہلے حلال تھا اور نہ میرے بعد حلال ہوگا۔ صرف فتح مکہ کے دن میرے لیے کچھ دیر کے لیے حلال ہوا تھا۔مکہ کے نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ یہاں کے جانور شکار کیے جائیں (بخاری:۹۴۳۱)۔اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں خوں ریزی کرے یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے۔(بخاری:۴۰۱) حدود حرم میں سانپ کو مارسکتے ہیں۔ منیٰ کے ایک غار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کے ساتھ موجود تھے کہ ان پر ایک سانپ گرا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپ کو مارنے کا حکم دیا لیکن وہ بھاگ گیا (بخاری:۰۳۸۱)۔ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے، لوگوں نے نہیں۔اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لئے یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے یا درخت بھی کاٹے (بخاری: ۲۳۸۱)۔فتح مکہ کے موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کی اجازت اللہ نے صرف تھوڑی دیر کے لیے دی تھی(بخاری: ۲۳۸۱)۔مکہ کی حرمت اور قتال کی ممانعت کی حدیث سنا کر حضر عمرو بن سعیدؓ نے حضرت ابو شریح  ؓ سے کہا تھا: میں یہ حدیث تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم خون کرکے یا جرم کرکے بھاگنے والے کسی مجرم کو پناہ دیتا ہے (بخاری: ۲۳۸۱)۔ مکہ کو حرمت والا اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اس لیے نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے، نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ شکار کیا جائے حتیٰ کہ کسی سایے میں بیٹھے ہوئے جانور کو وہاں سے بھگا کر خود وہاں قیام بھی نہ کیا جائے (بخاری: ۳۳۸۱؛ ۰۹۰۲)۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اسی دن حرمت عطا کی تھی جس دن اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے۔ یہ شہر قیامت تک کے لیے حرم والا ہے (بخاری: ۴۳۸۱؛۹۸۱۳؛۳۱۳۴)۔مکہ کی حرمت کی وجہ سے نہ یہاں کے درخت اور کانٹے کاٹے جائیں،نہ اس کے شکار ہانکے جائیں۔ کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز (لقطہٰ)بھی نہ اٹھائے سوائے اُس کے جو اعلان کرکے مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھے (بخاری: ۴۳۸۱؛ ۰۹۰۲؛ ۳۳۴۲؛۰۸۸۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن کعبہ کے پردوں سے لٹکنے والے ابن خطل کو قتل کرنے کا حکم دیا (بخاری: ۶۴۸۱)۔فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب: اللہ نے ہاتھیوں کے لشکر کو مکہ سے روک دیا تھا لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کو اسے فتح کرادیا۔ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور میرے لیے بھی دن کے تھوڑے حصے کے لیے حلال ہوا۔ (بخاری:۴۳۴۲)۔مکہ میں بیت اللہ روئے زمین پر بننے والی سب سے پہلی مسجدہے۔ اس بعد دوسری مسجد،مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) ہے۔ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے (بخاری: ۶۶۳۳؛۵۲۴۳)۔ حرم میں زیادتی کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کی رسموں پر چلنے کا خواہشمند اور کسی کا ناحق خون کرنے کے لیے کسی کے پیچھے لگنے والا اللہ کے نزدیک مسلمانوں میں سب سے زیادہ مبغوض ہے (بخاری: ۲۸۸۶)۔

حرمین۔ فتح مکہ 
فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ ایک چھڑی سے ان بتوں کو مارنے لگے اور فرمانے لگے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا (بخاری:۸۷۴۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح کے بعد مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ ایک لکڑی سے سب کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے: حق آیا اور باطل نابود ہوا۔ بے شک باطل نابود ہونے والا ہی تھا (بخاری:۰۲۷۴)۔قریش نے کعبہ میں ابراہیم علیہ السلام اور مریم علیہما السلام کی تصاویر لگا رکھی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی تصویر پانسہ پھینکتے ہوئے کی تھی حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں (بخاری: ۱۵۳۳؛ ۲۵۳۳)۔ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بت سمیت تمام بتوں کو کعبہ کے اندر سے باہر نکال دیا گیا تب آپ ؐ  کعبہ کے اندر گئے اور چاروں طرف تکبیر کہی مگر نماز نہیں پڑھی (بخاری:۱۰۶۱)۔

حرمین۔ کعبۃ اللہ 
فتح مکہ کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہؓ کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر گئے اور دونوں ستونوں کے درمیان نماز ادا کی۔(بخاری: ۸۶۴؛ ۴۰۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:حطیم بھی بیت اللہ میں شامل ہے۔تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیاتھا کیونکہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑگئی تھی۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا اور مجھے ان کے دلوں میں انکار پیدا ہونے کا خوف نہ ہوتا تومیں حطیم کو کعبہ میں شامل کرکے اسے ابراہیمی بنیادپردوبارہ تعمیر کروادیتا۔ کعبہ کا دروازہ بھی زمین کے برابر کردیتا اورپہلے کی طرح اس موجودہ دروازہ کے مقابل ایک اور دروازہ رکھتا۔ نبی کریم ﷺ حطیم سے متصل دیواروں کے دونوں کونے اسی لیے نہیں چومتے تھے کہ یہ کعبہ ابراہیمی کی بنیادوں پر نہیں ہے۔ (بخاری:۳۸۵۱ تا ۶۸۵۱؛۸۶۳۳؛ ۳۴۲۷)۔کعبہ میں نصب حجرہ اسود کو بوسہ دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:تو صرف ایک پتھر ہے۔ نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا (بخاری:۷۹۵۱؛ ۵۰۶۱؛ ۰۱۶۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر دونوں یمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے (بخاری:۸۹۵۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ میں طواف کعبہ کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نفل نماز پڑھی (بخاری:۰۰۶۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بیت اللہ کے گرد احاطہ کی دیوار نہ تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دیوار میں کعبہ کے گرد دیوار بنوائی، جو پست تھی۔ چنانچہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ان کو بلند کیا (بخاری:۰۳۸۳)۔
کعبہ۔انہدام:دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حقیر حبشی کعبہ کے ایک ایک پتھر اکھاڑ کر تباہ کردے گا (بخاری:۱۹۵۱؛ ۵۹۵۱؛ ۶۹۵۱)۔قیامت کے قریب ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب لشکر مقام بیداء میں پہنچے گا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو دھنسا دیا جائے گا جبکہ وہیں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکریوں میں سے نہیں ہوں گے۔ پھر ان کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے (بخاری:۸۱۱۲)۔

حرمین۔ مدینہ، حرمت 
مدینہ حرم ہے۔ جبل حیر سے ثور تک کی حدود میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے۔ جس نے یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ، تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ اس کی نہ کوئی فرض عبادت مقبول ہے اور نہ نفل عبادت(بخاری: ۷۶۸۱؛  ۰۷۸۱)۔ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں اور ویرانہ برابر کردیا گیا (بخاری:۸۶۸۱)۔  مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں پر جو زمین ہے، وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی ہے (بخاری: ۹۶۸۱)۔مجھے ایک ایسے شہر ہجرت کرنے کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھالے گا۔ منافقین اسے یثرب کہتے ہیں، لیکن اس کا نام مدینہ ہے (بخاری:۱۷۸۱)۔  مدینہ بُرے لوگوں کو اس طرح باہر کردیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے (بخاری:۱۷۸۱)۔  غزوہ تبوک سے مدینہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طابہ آگیا ہے (بخاری:۲۷۸۱)۔  تم لوگ مدینہ کو بہتر حالت میں چھوڑ جاؤگے پھر وہ ایسا اجاڑ ہوجائے گا کہ وہاں وحشی جانور، درند اور پرند بسنے لگیں گے (بخاری:۴۷۸۱)۔  جب یمن اور عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے گھر والوں اور انہیں جو ان کی بات مانیں گے، یمن اور عراق واپس لے جائیں گے۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا (بخاری:۵۷۸۱)۔قیامت کے قریب ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آجایا کرتا ہے  (بخاری:۶۷۸۱)۔ اہل مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی فریب کرے گا وہ اس طرح گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے (بخاری: ۷۷۸۱) ۔مدینہ پر دجال کا رعب بھی نہیں پڑے گا۔ اس دور میں مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے (بخاری:۹۷۸۱)۔ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں نہ طاعون آسکتا ہے اور نہ دجال (بخاری:۰۸۸۱؛ ۳۷۴۷)۔ کوئی ایسا شہر نہ ہوگا جسے دجال پامال نہ کرے سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ مدینہ کی حفاظت کے لیے کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے۔ مدینہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی جس سے ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ اس میں سے باہر کردے گا (بخاری:۱۸۸۱)۔دجال مدینہ کے باہر ایک کھاری شور زمین تک پہنچے گا۔ مدینہ سے ایک بزرگ ترین مرد نکل کر گواہی دے گا تو وہی دجال ہے جس کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی۔ دجال اس شخص کو قتل کرکے اور پھردوبارہ زندہ کرکے  اپنے حواریوں کو  دکھلائے گا۔ لیکن پھردوسری مرتبہ وہ اس نیک فرد پر قابو نہ پاسکے گا (بخاری:۲۸۸۱)۔

حرمین۔ مدینہ، حرمت: ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہوکر اسلام پر بیعت کی۔ دوسرے دن اسے بخار چڑھ گیا تو وہ کہنے لگا کہ میری بیعت توڑ دیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مدینہ کی مثال بھٹی کی سی ہے کہ میل کچیل کو دور کرکے خالص جوہر کو نکھار دیتی ہے (بخاری: ۳۸۸۱؛ ۴۸۸۱؛ ۲۲۳۷)۔اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ میں اس سے دگنی برکت عطا فرما (بخاری:۵۸۸۱)۔اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے، جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کردے،  یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے(بخاری:۹۸۸۱؛۶۲۹۳)۔  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور میری موت اپنے رسول کے شہر میں مقدر کردے (بخاری:۰۹۸۱)۔میں بھی مدینہ کو اسی طرح حرام قرار دیتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا تھا۔میں مدینہ کے مد اور صاع (غلہ ناپنے کے پیمانے) کی برکت کے لیے اسی طرح دعا کرتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لیے دعا کی تھی (بخاری:۹۲۱۲؛ ۰۳۱۲؛  ۹۸۸۲؛ ۳۹۸۲؛ ۴۸۰۴)۔ جب دجال نکلے گا تو فرشتے دجال سے مدینہ کی حفاظت کریں گے (بخاری: ۸۳۲۳)۔ اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں مدینہ کو حرمت والا شہر قرار دیتا ہوں (بخاری: ۷۶۳۳)۔ مدینہ طیبہ ہے،سرکشوں کو یہ اس طرح اپنے سے دور کردیتا ہے جیسے آگ کی بھٹی چاندی کے میل کو دور کردیتی ہے (بخاری:۰۵۰۴)۔اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! ابراہیم  ؑ نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں تیرے حکم سے مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں (بخاری: ۳۳۳۷)۔

حرمین۔ مسجد نبوی: برسات میں مسجد نبوی کی چھت ٹپکنے لگتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانی اور کیچڑ کے باوجود اسی فرش پر سجدہ کرتے توکیچڑ کا نشان آپ ﷺکی پیشانی پر لگ جاتا (بخاری:۹۶۶)۔مسجد نبوی میں نماز عام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار زیادہ افضل ہے (بخاری: ۰۹۱۱) ۔ 

حرمین۔ ریاض الجنتہ، منبر، کوثر: میرے گھر (حجرہ عائشہؓ) اور مسجد نبوی کے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ (ریاض الجنتہ) ہے۔ میرا منبر قیامت کے دن میرے حوضِ کوثر پر ہوگا(بخاری: ۵۹۱۱؛ ۶۹۱۱؛۸۸۸۱؛۸۸۵ ۶؛۵۳۳۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کے غلام بڑھئی سے وعظ دینے کے لیے غابہ کے جھاؤ کی لکڑی کا منبر تیار کروایا تھا (بخاری: ۴۹۰۲؛ ۵۹۰۲)۔میں تم سے آگے آگے ہوں۔ میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قیامت کے دن مجھ سے تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی۔(بخاری: ۲۴۰۴؛ ۵۸۰۴) قیامت کے دن جو حوض کوثر کا پانی پی لے گا پھر وہ اس دن کبھی پیاسا نہیں ہوگا(بخاری: ۰۵۰۷؛ ۱۵۰۷)۔  میں حوض کوثر پر تم سے پہلے سے موجود رہوں گا۔ میرے سامنے سے ان لوگوں کو ہٹادیا جائے گا جنہوں نے میرے بعد دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں (بخاری: ۶۷۵۶)۔میں روز محشر اپنے حوض کوثر سے کچھ لوگوں کو اس طرح ہانک دوں گا جیسے اجنبی اونٹ حوض سے ہانک دئے جاتے ہیں (بخاری:۷۶۳۲)۔ میرا کوثر ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوگا۔وہ  مدینہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلہ جتنا بڑا ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے ہیں۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اوراس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہوگی۔ جواس میں سے ایک بار پی لے گا وہ میدان حشر میں کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا۔ وہاں اتنی بڑی تعداد میں پیالے ہوں گے جتنی آسمان کے ستاروں کی تعداد ہے(بخاری: ۹۷۵ ۶ تا ۷۸۵۶؛ ۱۹۵۶تا ۳۹۵۶)۔ 

حرمین۔ ہجرت مدینہ 
مہاجر وہ ہے، جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔(بخاری:۰۱)۔  اونٹوں کا صدقہ، ہدیہ دینے والے اورانہیں گھاٹ پر پانی پلانے لے جانے والے دن دوہنے والے دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے لیے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ہجرت تو بڑا ہی دشوار معاملہ ہے۔ اللہ تم پر رحم کرے اگر تم سمندروں کے پار بھی عمل کروگے تو اللہ تمہارے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کرے گا (بخاری:۳۳۶۲)۔فتح مکہ کے بعداب ہجرت فرض نہیں البتہ جہاد کرنا اور اچھی نیت کرنا اب بھی باقی ہے (بخاری:۳۸۷۲؛ ۵۲۸۲)۔اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ پس جس کا مقصد ہجرت سے دنیا کا کمانا  ہو یا کسی عورت سے شادی کرنا ہو وہ اسی مقصد تک پہنچ سکے گا۔ لیکن ہجرت سے جن کا مقصد اللہ اور اللہ کے رسول کی رضامندی ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (بخاری:۸۹۸۳)۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے آنے والی مومن عورتوں کا رسول اللہ امتحان لیا کرتے پھر ان سے زبانی بیعت لیا کرتے(بخاری:۱۹۸۴)۔حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں تمام اولین مہاجرین کا خلیفہ چار قسطوں میں چار ہزار مقرر کیا لیکن عبداللہ بن عمرؓ کا وظیفہ چار قسطوں میں ساڑھے تین ہزار تھا کیونکہ انہیں ان کے والدین ہجرت کرکے لائے تھے۔ اس لیے وہ ان مہاجرین کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے خود ہجرت کی تھی (بخاری:۲۱۹۳)۔ تاریخ کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت مدینہ کے سال سے ہوا (بخاری:۴۳۹۳)۔ مدینہ والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر بہت خوش ہوئے تھے۔ بچے اور بچیاں بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں (بخاری:۱۴۹۴)۔

حرمین۔ واقعاتِ ہجرت مدینہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکہ سے مدینہ نکل جانے پرقریش نے لوگوں کو یہ پیش کش کی کہ اگر کوئی ان دونوں کو قتل کردے یا قید کرلائے تو ہر ایک کے بدلہ میں ایک سو اونٹ دئے جائیں گے۔سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے مخبر کی ایک اطلاع پر چپکے سے گھوڑا اور نیزہ لے کران دونوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تاکہ یہ انعام اکیلے حاصل کرسکیں۔سراقہ ؓ کہتے ہیں کہ ان کے قریب پہنچا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مجھے زمین پر گرادیا۔ میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی طرف بڑھا تو گھوڑے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے اور اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر آسمان کی طرف بڑھنے لگا۔ میں نے تیروں سے فال نکالا تو وہ موافق نہ نکلا۔ چنانچہ میں نے نبی کریم ﷺ کو امان کے لیے پکارا۔ میری آواز سن کر وہ رک گئے۔پھر میں نے نبی کریم ﷺ کو سارا ماجرا سنایا اور ان کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ پھرمیں نے اُن سے اپنے لیے امن کی ایک تحریر حاصل کی کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ رسول اللہ کی دعوت غالب آکر رہے گی(بخاری:۶۰۹۳؛ ۸۰۹۳)۔ہجرت مدینہ کے راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت زبیر ؓ سے ہو ئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آرہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کو سفید پوشاکیں پیش کیں، جسے پہنے ہوئے آپ دونوں مقام حرہ پر پہنچے جہاں مسلمان اپنے ہتھیار لے کر آپ کے منتظر تھے۔ آپ دونوں نے بنو عمرہ بن عوف میں تقریباََ دس راتوں تک قیام کیا اور اسی دوران مسجد قباء کی تعمیر کی گئی۔پھر جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ اونٹنی پر سوار صحابہ کی معیت میں مدینہ روانہ ہوئے۔ آپ کی اونٹنی موجودہ مسجد نبوی کی جگہ آکر بیٹھ گئی، جہاں ان دنوں چند مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔یہ جگہ دو یتیم بچوں کی تھی، جن سے  نبی کریم ﷺ نے یہ زمین خرید کر یہاں مسجد نبوی تعمیر کی۔(بخاری:۶۰۹۳)۔حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ  مدینہ روانہ ہوتے وقت حالت حمل میں پورے دنوں سے تھیں۔ قباء پہنچ کر انہوں نے پڑاؤ کیا اور یہیں عبداللہ بن زبیرؓ پیدا ہوئے۔ حضرت اسماء بچہ کو لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ؐ نے ایک کھجور کو چبا کر عبداللہ کے منہ میں رکھ دیا اور اللہ سے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی (بخاری:۹۰۹۳؛ ۰۱۹۳)۔

 حلال، حرام، مشتبہ 
حلال اور حرام واضح ہیں جبکہ ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں۔ پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا، اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ (بخاری:۱۵) سبز لاکھی مرتبان، کدو کے بنائے ہوئے برتن، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن اور روغنی برتن کا استعمال ممنوع ہے (بخاری:۳۵)۔ تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح قربانی کا دن (دس ذی الحجہ)، ماہِ ذی الحجہ اور اس شہر مکہ کو حرمت حاصل ہے۔ (بخاری:۷۶) حلال اور حرام دونوں ظاہر ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں، جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں ہے۔ چنانچہ جو ان مشتبہ چیزوں کو چھوڑے وہ واضح گناہ کو توچھوڑ ہی دے گا۔ لیکن جو مشتبہ چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو وہ عنقریب واضح گناہوں میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے (بخاری: ۱۵۰۲)۔اگرہدیہ میں (کسی مسلمان سے) ملنے والے گوشت کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں (کوئی ایک بات بھی واضح نہ ہو) تو تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھالیا کرو (بخاری:۷۵۰۲)۔ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال ہے یا حرام ہے (بخاری:۹۵۰۲؛ ۳۸۰۲)۔  جنگ خیبر کے موقع پر صحابہ کرام نے گدھے ذبح کرکے پکانا شروع کردیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے یہ پکارا: اللہ اور اس کے رسول تمہیں گدھے کے گوشت سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ ہانڈیوں میں جو کچھ تھا، سب الٹ دیا گیا (بخاری:۷۷۴۲؛۱۹۹۲؛ ۵۵۱۳)۔ یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو کہ ان کے لیے چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کردیا (بخاری: ۰۶۴۳)۔  دیکھو! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اللہ نے تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کئے ہیں جیسے اس دن (یوم نحر)، اس مہینے (ذی الحجہ) اور اس شہر مکہ کی حرمت ہے (بخاری:۳۰۴۴؛ ۵۰۴۴؛ ۶۰۴۴)۔  ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اگرکسی نے اپنے اوپر کوئی حلال چیز حرام کرلی تو اس کا کفارہ دینا ہوگا (بخاری: ۱۱۹۴)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، کاہن کی کمائی اور زانیہ کے زنا کی کمائی کھانے سے منع کیا ہے (بخاری: ۶۴۳۵؛ ۷۴۳۵)۔نبی کریم ﷺ نے لونڈیوں کے زنا کی کمائی سے منع فرمایا ہے (بخاری: ۸۴۳۵)۔

حقوق۔ اللہ، العباد 
حضرت سلمان ؓ  نے اپنے مواخاتی بھائی حضرت ابو الدرداء سے فرمایا:تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لئے ہر حق والے کے حق کو ادا کرو۔یہ تذکرہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمان ؓ نے سچ کہا (بخاری:۸۶۹۱)۔اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ اسے عذاب نہ دے  (بخاری:۶۵۸۲؛ ۳۷۳۷)۔جو حقوق تم پر دوسروں کے ہیں، انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ ہی سے مانگنا (بخاری: ۳۰۶۳)۔قبیلہ قریش کے بعض آدمی لوگوں کو ہلاک و برباد کردیں گے۔ کاش لوگ ان سے الگ ہی رہتے (بخاری: ۴۰۶۳؛ ۵۰۶۳)۔ میرے بعد تم بعض کام ایسے دیکھوگے جو تم کو برے لگیں گے۔ تب تم انہیں ان کا حق ادا کرنا اور اپنا حق  اللہ سے مانگنا (بخاری: ۲۵۰۷)۔

حیا،  فحاشی 
سابقہ انبیاء کے کلام میں یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو تو جو جی چاہے کر (بخاری: ۳۸۴۳؛ ۴۸۴۳)۔نبی کریم ﷺ پردہ نشیں کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔(بخاری: ۲۶۵۳)۔ کعبہ کی تعمیر نوکے وقت نبی کریم ﷺ کا لڑکپن کا دور تھا اور وہ اپنے چچا حضرت عباس ؓ کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ چچا عباس ؓ نے بھتیجے کو مشورہ دیا کہ اپنا تہبند اتارکر گردن پر رکھ لیں تاکہ پتھر کی خراش سے بچ جائیں۔ ایسا کرتے ہی آپ ؐگر گئے اورجب ہوش بحال ہوئے تو چچا سے کہا: میرا تہبند لائیں۔ پھر تہبند کو خوب مضبوطی سے باندھ لیا (بخاری:۹۲۸۳)۔ حیاء ایمان میں سے ہے (بخاری: ۸۱۱۶)۔ اللہ نے انسان کے لیے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے اسے لامحالہ گزرنا ہے۔ پس غیر محرم کو شہوت سے دیکھنا اور بات کرنا آنکھ اور زبان کا زنا ہے۔ دل کا زنا خواہش اور شہوت ہے۔ شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا اسے جھٹلادیتی ہے(بخاری: ۳۴۲۶؛۲۱۶۶)۔ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں۔اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ چاہے وہ ظاہر میں ہوں یا چھپ کر اور معذرت اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں۔ اسی لیے اس نے بشارت دینے اور ڈرانے والے بھیجے  (بخاری: ۴۳۶۴؛ ۷۳۶۴؛۶۱۴۷)

خلافت۔ حکمران، رعیت 
حکمران۔ جائزاطاعت:اپنے حاکم کی سنو اور اطاعت کرو خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ تمہارا حاکم بنا دیا جائے۔(بخاری:۳۹۶؛ ۶۹۶)۔تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔حاکم عوام کا نگراں ہے، امام مقتدیوں کا نگراں ہے، مرد اپنے گھر کا نگراں ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے، خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے (بخاری: ۳۹۸؛ ۰۹۴۲)۔ لوگوں کا امیر ایک حاکم ہے۔ ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی حاکم ہے۔ غلام اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے۔ ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی (بخاری:۴۵۵۲؛ ۸۵۵۲؛۸۸۱۵؛ ۰۰۲۵؛۸۳۱۷)۔ تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا (بخاری:۱۵۷۲)۔ میری اطاعت و نافرمانی، اللہ کی اطاعت و نافرمانی ہے۔ میرے مقرر کئے ہوئے امیر کی اطاعت و نافرمانی، میری اطاعت و نافرمانی ہے (بخاری:۷۵۹۲؛۷۳۱۷)۔  امیر کی اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے  (بخاری: ۰۴۳۴)۔ابن عباس ؓکہتے ہیں کہ اللہ، رسول اور اپنے حاکم کی اطاعت کرو (النساء:۹۵) والی آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن حذافہ بن قیس ؓ کو ایک مہم پر بطور افسر روانہ کیا تھا (بخاری:۴۸۵۴)۔ جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو صبر کرے۔ خلیفہ کی اطاعت سے اگر کوئی بالشت بھر بھی باہر نکلا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی (بخاری: ۳۵۰۷؛ ۴۵۰۷؛۳۴۱۷)۔ صحابہ ؓ نے رسول اللہ سے آپ کی سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، خوشی اور ناخوشی دونوں حالتوں میں (بخاری: ۹۹۱۷)۔سردی کی صبح میں انصار و مہاجرین کو جنگ کے لیے خندقیں کھودتے دیکھ کر فرمان رسولؐ: اے اللہ! خیر تو آخرت ہی کی خیر ہے۔ پس انصار و میاجرین کی مغفرت کردے۔ لوگوں نے جواب دیا:ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ سے جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے جب تک وہ زندہ ہیں  (بخاری: ۱۰۲۷) جب صحابہ کرام نبی ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تو آپ ؐ  فرماتے کہ جتنی تمہیں طاقت ہو (بخاری: ۲۰۲۷؛ ۴۰۲۷) صلح حدیبیہ کے موقع پرنبی ﷺ سے صحابہ کرام نے موت پر بیعت کی تھی (بخاری: ۶۰۲۷)۔

حکمران۔ ناجائز اطاعت: خلیفہ کے احکام سننا اور انہیں بجا لانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔لیکن اگر گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ اسے سنا جائے اور نہ اس اس پر عمل کیا جائے (بخاری:۵۵۹۲؛۴۴۱۷)۔حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں (بخاری: ۶۵۰۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بھیجے ہوئے ایک فوجی لشکر کے امیر عبداللہ بن حذافہ سہمی نے کسی بات پر خفا ہوکر آگ جلوائی اور لشکریوں کا حکم دیا کہ اس میں داخل ہوجاؤ۔ بعض لوگوں نے امیر کی اطاعت میں آگ میں داخل ہونا چاہا دوسرے لوگوں نے کہا: ہم اللہ کے نبیﷺ کے پاس آگ ہی سے بھاگ کر تو آئے ہیں۔ جب اس بات کی خبرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا:اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس میں قیامت تک رہتے۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت حلال نہیں ہے۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے (بخاری: ۷۵۲۷)۔عبد اللہ بن عمرؓ نے عبدالمالک بن مروان کو خط میں لکھا: جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا،میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ اللہ کی شریعت اور رسول کی سنت کے موافق ہو(بخاری: ۲۷۲۷)۔
 
حکمران۔ ذمہ داریاں: حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو یمن بھیجتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت: لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا۔ انہیں خوش رکھنا، نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا (بخاری:۸۳۰۳؛۴۲۱۶؛ ۵۲۱۶)۔معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجتے ہوئے رسول اللہ کی نصیحت: تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ انہیں سب سے پہلے اللہ کو واحد اور میری رسالت کو ماننے کی دعوت دینا۔ جب وہ یہ سمجھ لیں تو انہیں پانچ وقت کی نمازوں اور زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں بتلانا اور زکوٰۃ میں عمدہ مال لینے سے گریز کرنا (بخاری: ۲۷۳۷)۔وفات سے کچھ دیر قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان:آنے والا خلیفہ اللہ اور اس کے رسول کا ذمیوں سے جو عہد ہے، اس کو وہ پورا کرے۔ ان کی حمایت میں ان کے دشمنوں سے جنگ کرے اور ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالے (بخاری:۲۵۰۳)۔میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ میرے بہت سے نائب ہوں گے۔ تم سب سے پہلے جس کی بیعت کرو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہنا۔ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا(بخاری: ۵۵۴۳)۔جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا (بخاری: ۰۵۱۷؛ ۱۵۱۷)۔فرمانِ حضرت عمرؓ: میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ثواب ملے نہ کوئی عذاب (بخاری: ۸۱۲۷)۔نبی کریم ﷺ نے اہلِ نجران سے فرمایا: میں تمہارے پاس ایک امانت دار آدمی بھیجوں گا جو حقیقی امانت دار ہوگا پھر آپ نے ابو عبیدہ ؓ کو بھیجا (بخاری: ۴۵۲۷؛ ۵۵۲۷)۔ جب حاکم اپنے اجتہاد سے کوئی فیصلہ کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے۔ لیکن اگر غلطی کرجائے تو تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے (بخاری: ۲۵۳۷)۔  

حکمران۔ اہلیت: حکومت اور سرداری کے لائق وہ ہیں جو حکومت اور سرداری کوبہت ناپسند کرتے ہیں (بخاری: ۳۹۴۳؛ ۶۹۴۳)۔ تم حکومت کے لیے سب سے زیادہ بہتر اس شخص کو پاؤگے جو اس منصب کو خودکے لیے ناپسند کرے یہاں تک کہ وہ اس میں پھنس جائے (بخاری: ۸۸۵۳)۔خلافت کے معاملہ میں عام مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں (بخاری: ۵۹۴۳)۔خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ اسے اوندھا کردے گا (بخاری: ۰۰۵۳)۔ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں  (بخاری: ۱۰۵۳)۔تم حکومت کا لالچ کروگے تو یہ قیامت کے دن تمہارے لیے باعث ندامت ہوگی(بخاری: ۸۴۱۷)۔جو شخص حاکم بننے کا خواہشمند ہوں، ہم انہیں حاکم ہر گز نہیں بنائیں گے(بخاری:۱۶۲۲)۔

حکمران۔ مشیر: ہر حاکم کے دو طرح کے مشیر ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسے نیکی اور بھلائی کی طرف ابھارتے ہیں دوسرا وہ جو اسے برائی کی طرف راغب کرتے ہیں (بخاری: ۱۱۶۶)۔کبھی کسی حکومتی عہدہ کی درخواست نہ کرو۔ کیونکہ اگر یہ تمہیں مانگنے کے بعد ملے تو اللہ اپنی مدد تجھ سے ہٹا لے گا۔ لیکن اگر کوئی عہدہ تمہیں بن مانگے ملے تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی(بخاری: ۱۲۶۶؛ ۲۲۷۶)۔اللہ نے جب بھی کوئی نبی بھیجا یا کسی کو خلیفہ بنایا تو اس کے ساتھ دو رفیق تھے۔ ایک تو انہیں نیکی کے لیے کہتا اور ابھارتا اور دوسرا انہیں برائی کے لیے کہتا اور ابھارتا۔ پس معصوم وہ ہے جسے اللہ بچائے رکھے (بخاری: ۸۹۱۷)۔

حکمران۔ سرکاری تحائف: سرکاری عہدیداروں کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران ملنے والے تحائف بیت المال کی ملکیت ہوں گے، سرکاری عہدیدار کی ملکیت نہیں (بخاری: ۶۳۶۶؛۷۹۱۷)۔

حکمران۔ نامزدگی 
فرمانِ رسولﷺ:میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکرؓ کو بلا کر انہیں خلیفہ بنا دوں تاکہ خلافت پر کسی دعویٰ کرنے والے یا خواہش رکھنے والے کے لیے کوئی گنجائش ہی نہ رہے لیکن پھر سوچا کہ اللہ خود کسی اور کو خلیفہ نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے (بخاری: ۷۱۲۷) ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کسی معاملہ میں گفتگو کرنے آئیں تو آپؐ  نے ان سے کہا کہ وہ دوبارہ آنااور اگر مجھے نہ پاؤ تو ابوبکرؓ کے پاس جانا (بخاری: ۰۲۲۷)میری اُمت میں بارہ امیر ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے (بخاری: ۲۲۲۷؛ ۳۲۲۷)۔

خواب۔ اچھا، بُرا:
اچھا خواب اللہ کی طرف سے اور گھبراہٹ والا بُرا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب تم میں سے کوئی بُرا خواب دیکھے تو جاگتے ہی بائیں طرف تین مرتبہ تھو تھو کرے اور اس خواب کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے (بخاری: ۷۴۷۵)۔ 

 خواب۔ دیدارِنبیؐ : جس نے مجھے (میری صورت میں) خواب میں دیکھا تو اس نے واقعی مجھے دیکھا۔ وہ کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا (بخاری: ۳۹۹۶ تا ۷۹۹۶)۔

خوابِ مومن۔ حصہ نبوت: نبوت میں سے اب صرف مبشرات یعنی اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں۔ مومن کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے(بخاری:۳۸۹۶؛ ۷۸۹۶ تا ۰۹۹۶)۔ جب قیامت قریب ہوگی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے(بخاری: ۷۱۰۷)۔

خواب۔ تین اقسام: فرمانِ حضرت ابو ہریرہؓ: خواب تین طرح کے ہوتے ہیں دل کے خیالات، شیطان کا ڈرانا اور اللہ کی طرف سے خوشخبری(بخاری: ۷۱۰۷)۔

خواب۔ جھوٹا بیان: جھوٹا خواب بیان کرنے والوں کو جَو کے دو دانے جوڑنے کے لیے کہا جائے گا۔ دوسرے لوگوں کی بات زبردستی سننے والوں کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ مصوروں کو ان کی بنائی ہوئی تصاویر میں جان ڈالنے کو کہا جائے گا(بخاری: ۲۴۰۷)۔ بدترین جھوٹ یہ ہے کہ انسان خواب میں ایسی چیز دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہ دیکھی ہو(بخاری: ۳۴۰۷)۔

خواب۔ بیان کرنا: جب کوئی اچھے خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اسے عزیز ہو (بخاری: ۴۴۰۷)۔ اچھے خواب اللہ کی طرف سے اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اچھے خواب پر اللہ کی حمد کرے اور ایسے خواب  بیان کرے۔ ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اس کے شر سے پناہ مانگے، بائیں طرف کروٹ لے کر تین مرتبہ تھو تھوکرے اور کسی سے ایسے خواب کا ذکر نہ کرے۔ یہ خواب اسے کچھ نقصان نہیں پہنچاسکے گا (بخاری: ۴۸۹۶ تا۶۸۹۶؛ ۵۹۹۶؛ ۵۰۰۷؛ ۴۴۰۷؛ ۵۴۰۷)۔

خواب۔ تعبیر: ایک شخص نے خواب میں بادلوں سے گھی اور شہد ٹپکتے اور لوگوں کو اسے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے دیکھا۔ کسی کے ہاتھوں میں کم تو کسی کے ہاتھوں میں زیادہ آرہا ہے۔پھر انہوں نے آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی دیکھی جس پر پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر چڑھے پھر بالترتیب ایک اورشخص، پھر دوسرا شخص، پھرتیسرا اور  پھر چوتھا شخص رسی پکڑ کر اوپر چڑھ گیا۔ پھر وہ رسی ٹوٹ گئی اور دوبارہ جڑ گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اس خواب کی یہ تعبیر ہے کہ بادل سے مراد دین اسلام ہے۔ ٹپکنے والا شہد اور گھی قرآن مجید کی شیرینی ہے جو کسی کو کم کسی کو زیادہ مل رہا ہے۔رسی سے مراد وہ سچا طریقہ ہے، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں اور وہ چاروں افراد چار خلیفہ ہیں۔  چوتھے صاحب پکڑیں گے تو ان کا معاملہ خلافت کٹ جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعبیر سن کر فرمایا: بعض حصہ کی تعبیر درست ہے اور بعض کی غلط۔ حضرت ابوبکر ؓ کے پوچھنے کے باوجودنبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم نے غلط تعبیر کی نشاندہی نہ کی اور سکوت فرمایا(بخاری: ۶۴۰۷)۔

خواتین۔ افضل، کامل:
 مردوں میں تو بہت سے کامل لوگ اٹھے ہیں لیکن عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران علیہما السلام کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہیں ہوئی۔ البتہ عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے (بخاری:۱۱۴۳؛ ۳۳۴۳؛ ۹۶۷۳؛ ۰۷۷۳؛ ۸۱۴۵؛ ۹۱۴۵؛ ۸۲۴۵)۔ مریم علیہما السلام کی والدہ نے دعاء کی تھی کہ اے اللہ! میں مریم اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ اس دعاء کی وجہ سے شیطان نے حضرت مریم اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ  ؑکو ان کی پیدائش کے وقت نہیں چھوا تھا حالانکہ شیطان ہر نومولود کو اس کی پیدائش کے وقت چھوتا ہے اور اس چھونے سے ہی بچہ زور سے چیختا ہے (بخاری: ۱۳۴۳)۔مریم بنت عمران اپنے زمانے کی سب سے بہترین خاتون تھیں جبکہ اس اُمت کی سب سے بہترین خاتون حضرت خدیجہ ہیں (بخاری: ۲۳۴۳؛ ۵۱۸۳)۔اونٹ پر سوار ہونے والیوں یعنی عربی خواتین میں سب سے بہترین قریشی خواتین ہیں۔ اپنے بچے پر سب سے زیادہ شفقت کرنے والی اور اپنے شوہر  کے مال و اسباب کی سب سے بہترین نگراں و محافظ(بخاری: ۴۳۴۳)۔جس عورت کی زندگی میں اس کے تین یادوبچے وفات پاجائیں تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے (بخاری: ۰۱۳۷)۔

خواتین۔ پردہ:
حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں کہ جب سورۃ نور کی آیت:۱۳ نازل ہوئی کہ اور اپنے دو پٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں تو انصار کی عورتوں نے اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنالیں (بخاری:۹۵۷۴)۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ کے پاس اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم نازل کیا (بخاری:۰۹۷۴)۔عورتوں میں جانے سے بچتے رہو۔ دیور بھی بھابی کے ساتھ نہ جائے کہ دیور کا جانا ہی تو ہلاکت ہے (بخاری: ۲۳۲۵)۔محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے(بخاری: ۳۳۲۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اُم المومنین اُم سلمہؓ کے گھر مغیث نامی ہیجڑے نے اُم سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی  ؓ سے کہا کہ اگر کل اللہ نے طائف پر تمہیں فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی حسین و جمیل بیٹی دکھلاؤں گا۔ یہ سن کر  نبی کریم ﷺ نے اُم سلمہ ؓ سے کہا کہ اب یہ ہیجڑا اس گھر میں نہ آیا کرے (بخاری: ۵۳۲۵)۔کوئی عورت کسی دوسری عورت سے ملنے کے بعد اپنے شوہر سے اس کا حلیہ ایسے نہ بیان کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے (بخاری: ۰۴۲۵؛ ۱۴۲۵)۔

خواتین۔ حکمرانی:
جب اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی بوران کو بادشاہ بنا لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں ہو (بخاری: ۹۹۰۷)۔

خواتین۔ ناشکراپن، خامیاں
  دنیا میں باریک کپڑا پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ (بخاری:۵۱۱) عورتو!لعن طعن کرنے اور شوہر کی ناشکری کرنے کے سبب میں نے جہنم میں تم لوگوں کو زیادہ دیکھا ہے۔عورتیں ناقصات عقل و دین ہونے کے باوجودتجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنادیتی ہیں۔نصف گواہی ان کے عقل کا نقصان اور دورانِ حیض نماز روزہ ادا نہ کرسکنا ان کے دین کا نقصان ہے۔ (بخاری:۴۰۳)۔نماز سورج گرہن کے دوران مجھے جنت کی نعمت اور جہنم کے خوفناک مناظردکھائے گئے۔ جہنم میں عورتیں زیادہ دکھائی دیں کیونکہ وہ اپنے شوہر کے احسان کا کفر کرتی ہیں۔ تم زندگی بھر ان کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات ہوگئی تو فوراََ یہی کہے گی کی میں نے تو تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی (بخاری:۲۵۰۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے بعد عورتوں سے خطاب کرتے  ہوئے فرمایا: عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں تمہیں کثرت سے دیکھا ہے کیونکہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔میں نے تم سے زیادہ ناقصات عقل و دین ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لے(بخاری:۲۶۴۱)۔ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ مردوں کی کمی اور عورتوں کی اتنی زیادتی ہوجائے گی کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہوجائیں گی (بخاری:۴۱۴۱)۔  عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر ہے۔ یہی ان کی عقل کا نقصان ہے (بخاری:۸۵۶۲)۔ 

خواتین۔ سوکن:
کوئی عورت اپنی سوکن بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس طرح اس کا حصہ بھی خود لے لے (بخاری: ۳۲۷۲؛ ۷۲۷۲)۔ کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس کے مقدر میں ہوگا(بخاری: ۱۰۶ ۶)۔

خواتین۔ سفر:
اللہ اور اُس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والی کسی خاتون کے لئے جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی محرم کے کرے(بخاری:۸۸۰۱؛ ۵۹۹۱)۔ عورتیں تین دن کا سفر محرم رشتہ دارکے بغیر نہ کریں (بخاری:۶۸۰۱؛ ۷۸۰۱)۔عورت اپنے شوہر یا محرم رشتہ دار کے بغیر دو دن کا سفر بھی نہ کرے (بخاری: ۷۹۱۱)۔کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں اس کا محرم موجود نہ ہو (بخاری: ۲۶۸۱)۔کوئی عورت دو دن کی مسافت کا سفر اپنے شوہر یا محرم رشتہ دار کے بغیر نہ کرے(بخاری: ۴۶۸۱)۔کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر نہ کرے (بخاری:۶۰۰۳)۔

خواتین۔ صدقہ:
اگر عورت اپنے شوہر کے مال میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی برباد کرنے کی نہ ہو تواسے بھی خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کمی نہیں کرتا (بخاری: ۵۲۴۱؛ ۷۳۴۱؛ ۰۴۴۱؛ ۱۴۴۱)۔جب عورت گھر کے اجناس میں سے گھر بگاڑنے کی نیت کے بغیراللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے تو اسے خرچ کرنے کااور اس کے شوہر کو کمانے ثواب ملتا ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب کو کم نہیں کرتا (بخاری:۵۶۰۲)۔اگر عورت اپنے شوہر کی کمائی اس کی اجازت کے بغیر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے آدھا ثواب ملتا ہے (بخاری:۶۶۰۲)۔ایک مرتبہ نماز عید اور خطبہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف آئے اور انہیں خیرات دینے کا حکم دیا تو عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر حضرت بلال ؓ کی جھولی میں ڈال دیا (بخاری: ۹۴۲۵)۔

خواتین۔ نان نفقہ:
بخیل شخص کی بیوی شوہر کے مال میں سے بقدر ضرورت چھپا کر لے سکتی ہے (بخاری:۱۱۲۲؛ ۰۶۴۲)۔ہند بنت عتبہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میرے شوہر ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا میں ان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں سے بال بچوں کو کھلا پلا دیا کروں، نبی کریم ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں لیکن یہ دستور کے مطابق ہونا چاہئے (بخاری:۵۲۸۳؛۰۸۱۷)۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ النساء:۸۲۱ کی آیت۔۔۔ کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے رغبتی کا خوف ہو،  اس موقع کے لیے ہے کہ اگرکسی عورت کو یہ خدشہ ہو کہ اس کا شوہر اسے خود سے جدا کردے گا تو وہ ایسا کہہ سکتی ہے کہ مجھے طلاق نہ دو، میں اپنی باری اور اپنا نان نفقہ معاف کرتی ہوں (بخاری:۱۰۶۴)۔

خواتین۔ ہدایات برائے مرد:
عورتوں کے بارے میں بھلائی اور اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہوگے تو اسے توڑ دوگے۔ اگر اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہو تو اس کے ٹیڑھ کے ساتھ ہی فائدہ حاصل کرو (بخاری: ۴۸۱۵؛ ۶۸۱۵)۔ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیویوں سے بہت زیادہ بے تکلفی سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں ہماری کسی بے اعتدالی کی وجہ سے ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہوجائے۔ پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم ان سے خوب بے تکلفی کرنے لگے(بخاری: ۷۸۱۵)۔کچھ فوجی نیزہ بازی کھیل کا مظاہرہ کررہے تھے اور حضرت عائشہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی آڑ میں وہ کھیل دیکھتی رہیں (بخاری: ۰۹۱۵)۔ نفلی روزے بھی رکھو اور بغیر روزے کے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ تمہاری آنکھ کا بھی تم پرحق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے (بخاری: ۹۹۱۵)۔ایلاء:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایک مہینہ تک الگ رہنے کی قسم کھائی اور اپنے ایک بالا خانہ میں قیام کیا(بخاری: ۱۰۲۵ تا ۳۰۲۵)۔ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے کہ پھر دوسرے دن اس سے ہم بستر ہوگا(بخاری: ۴۰۲۵)۔ صحابہ کرام ؓنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عزل (حمل سے بچنے کے لئے منی عورت کے جسم سے باہر خارج کرنا)کیا کرتے تھے (بخاری: ۷۰۲۵ تا ۰۱۲۵)۔جب کوئی شخص پہلے سے شادی شدہ بیوی کی موجودگی میں کسی کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات یوم تک قیام کرے پھر باری مقرر کرے۔ لیکن اگر پہلی بیوی کی موجودگی میں کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین یوم تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے (بخاری: ۳۱۲۵؛ ۴۱۲۵)۔رسول اللہ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر اپنی ازواج کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے پاس بیٹھتے بھی تھے (بخاری: ۶۱۲۵)۔ ایک سفر میں انجشہ نامی غلام خواتین کی سواریوں کو حدی پڑھتا لے کر چل رہا تھا کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: آبگینوں کو آہستہ لے کر چلو (بخاری: ۹۰۲۶ تا  ۱۱۲۶)۔

خواتین۔ ہدایات برائے عورت: اگر شوہر گھر میں موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت نفلی روزہ نہ رکھے(بخاری:۲۹۱۵؛ ۵۹۱۵)۔شوہر اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ ناراضگی میں آنے سے انکار کرے توفرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں (بخاری: ۳۹۱۵؛ ۴۹۱۵)۔کوئی عورت اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی کو اپنے گھر آنے کی اجازت نہ دے (بخاری: ۵۹۱۵)۔جنت میں داخل ہونے والوں کی اکثریت غریبوں کی تھی جبکہ جہنم میں داخل ہونے والی زیادہ عورتیں تھیں (بخاری: ۶۹۱۵؛ ۸۹۱۵)۔میں نے دوزخ کابہت زیادہ ہیبت ناک منظر دیکھا۔ میں نے دیکھاکہ دوزخ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کے احسان کا انکار کرتی ہیں۔(بخاری: ۷۹۱۵)۔اپنے سر کے بالوں میں مصنوعی بال جوڑنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے (بخاری: ۵۰۲۵)۔ فرمان حضرت عائشہ ؓ: اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرے اور وہ عورت اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائے کہ تم پر میرے خرچ اور باری کی کوئی پابندی نہیں اور تم میرے علاوہ کسی اور سے بھی شادی کرسکتے ہو تو ایسا معاہدہ جائز ہے(بخاری: ۶۰۲۵)۔اُم المومنین سودہ بنت زمعہ  ؓنے اپنی باری عائشہ  ؓ کو دے دی تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ ؓ کے ہاں خود ان کی باری کے دن اور سودہ ؓ کی باری کے دن رہتے تھے (بخاری: ۲۱۲۵)۔

خواتین۔ امور خانہ داری:
اسماء بنت ابوبکر ؓ کہتی ہیں کہ جب زبیر ؓ سے میری شادی ہوئی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سوا کوئی مال نہ تھا۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ اپنے گھر سے دو میل دور سے کھجور کی گٹھلیاں لایا کرتی تھی۔بعد ازاں حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں ایک غلام دے دیا جو گھوڑے کا سب کام کرنے لگا (بخاری: ۴۲۲۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے گھرتھے کہ آپ کی ایک دوسری زوجہ زینب بنت حجش ؓ نے ایک پیالہ میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ حضرت عائشہؓ نے غصہ میں خادم کے ہاتھ پر مارا جس کی وجہ سے پیالہ گر کر ٹوٹ گیا اور پیالہ کا کھانا بکھر گیا۔ نبی کریم ﷺنے خادم سے فرمایا: تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔ پھر آپ نے ایک نیا پیالہ منگواکر حضرت زینبؓ کو بھجوایا(بخاری: ۵۲۲۵)۔

خواتین۔ خواجہ سرا:
 ان مردوں پر لعنت ہے جو مخنث بنتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت ہے جو مرد بنیں۔ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو (بخاری: ۴۳۸۶)۔

خود کشی:
جو شخص خود کو دھار دار چیز سے ذبح کرکے خود کشی کرلے تو اسے جہنم میں اسی ہتھیار سے عذاب ہوتا رہے گا (بخاری:۳۶۳۱)۔ ایک شخص نے زخم کی تکلیف سے تنگ آکر خود کو مار ڈالا تو اللہ نے فرمایا: میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ چنانچہ سزا کے طور پر اس پر جنت حرام کرتا ہوں (بخاری:۴۶۳۱)۔ جو شخص خود اپنا گلا گھونٹ کر خودکشی کرتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیر سے خود کو قتل کرے وہ دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا (بخاری:۵۶۳۱)۔ سابقہ زمانے میں اپنے ہاتھ کے زخم سے تنگ ایک شخص نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور خون بہنے سے وہ مرگیا تو اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کردیا (بخاری: ۳۶۴۳)۔ جس نے بلندی سے کود کر، زہر پی کر، یا کسی ہتھیار سے خودکشی کی تو وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور یہی عمل کرتا رہے گا (بخاری: ۸۷۷۵)۔

 دجال،  مسلیمہ کذاب،  ابن صیاد:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب کے ساتھ بنو مغالہ میں ابن صیاد کے پاس گئے اور کہا: کیا تم میری رسالت کی گواہی دیتے ہو؟ ابن صیاد نے کہا کہ ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ(نعوذ باللہ) اَن پڑھوں کے رسول ہیں۔ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن اڑانے کی اجازت طلب کی تو آپ ؐنے فرمایا: اگر یہ دجال ہے تو تم اس پر غالب نہ آسکوگے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تواس کا مارڈالنا تمہارے لیے بہتر نہ ہوگا (بخاری:۴۵۳۱)۔ خود کو اللہ کا رسول کہنے والے یہودی لڑکے ابن صیاد سے کھجور کے ایک باغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو آپ ؐ نے پوچھا: تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی۔حضرت عمرؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر یہ دجال ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہوسکتے۔ اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں ہے (بخاری:۵۵۰۳؛ ۶۵۰۳)۔مسیلمہ کذاب اپنے بہت سے مریدوں سمیت مدینہ آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خلافت اپنے بعد مجھے سونپ دیں تو میں ان کی اتباع کرنے کو تیار ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر تو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے تو نہ دوں۔ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا (بخاری: ۰۲۶۳)۔

دجال۔ حلیہ، خصوصیت:
میں تمہیں دجال کے فتنوں سے ڈراتا ہوں۔ نوح علیہ السلام سمیت تمام نبیوں نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے ڈراتے رہے ہیں۔ لیکن دجال کانا ہوگا، یہ خبر میرے علاوہ کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی (بخاری:۷۵۰۳؛ ۷۳۳۳؛ ۸۳۳۳؛ ۲۰۴۴)۔کانا دجال جنت جہنم جیسی چیز لائے گا۔ جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہوگی (بخاری: ۸۳۳۳)۔دجال داہنی آنکھ سے کانا ہوگا۔ اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہوگی (بخاری: ۹۳۴۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دجال کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا تھا جو سخت مڑے ہوئے بالوں والا اور داہنی آنکھ سے کانا تھا (بخاری: ۰۴۴۳؛ ۱۴۴۳)۔جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے۔ لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ درحقیقت ٹھنڈا پانی ہوگا اور جو لوگوں کو پانی دکھائی دے گا وہ درحقیقت جلانے والی آگ ہوگی۔لہٰذا تم میں سے جو شخص اسے پائے اسے چاہئے کہ نظر آنے والی آگ میں کود جائے کیونکہ وہ تو بہت ٹھنڈا اور شیریں پانی ہوگا (بخاری: ۰۵۴۳)۔دجال مدینہ کے ایک کنارے قیام کرے گا پھر مدینہ تین مرتبہ کانپے گا جس کے نتیجہ میں ہر کافر اور منافق نکل کر اُس کی طرف چلا جائے گا (بخاری: ۴۲۱۷)۔ اہل مدینہ پر دجال کا رعب نہیں پڑے گا۔ اس دن مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے پہرہ دیتے ہوں گے(بخاری: ۵۲۱۷؛ ۶۲۱۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خواب میں طواف کعبہ کرتے ہوئے عیسیٰ  ؑ کو دیکھا۔ پھر آپ ﷺ نے دجال کو بھی دیکھا جو ایک آنکھ کا کانا تھا(بخاری: ۸۲۱۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگا کرتے تھے (بخاری: ۹۲۱۷) دجال کے ساتھ آگ اور پانی ہوگا۔ اس کی آگ ٹھنڈا پانی اور پانی آگ ہوگا (بخاری: ۰۳۱۷) ہر رسول نے اپنی قوم کو کانے دجال سے ڈرایا ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے (بخاری: ۱۳۱۷)دجال کے لیے مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا ناممکن ہوگا چنانچہ وہ مدینہ کے قریب کسی شور والی زمین پر قیام کرے گا۔ پھر وہ ایک شخص کو قتل کرکے زندہ کرکے دکھائے گا (بخاری: ۲۳۱۷)۔ مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ یہاں طاعون اور دجال نہیں آسکتا۔ ان شاء اللہ (بخاری: ۳۳۱۷؛ ۴۳۱۷)۔  اللہ کے تمام انبیاء نے اپنی قوم کو کانے دجال سے ڈرایا، جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہوگا (بخاری: ۸۰۴۷)۔

دنیا،  زمانہ:
دنیا میں اس طرح رہو جیسے راستہ چلنے والا کوئی مسافرہوتا ہے (بخاری: ۶۱۴۶)۔سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں (صحابہ) کا جو میرے بعد ہوں گے۔ پھرجو ان کے بعد (یعنی تابعین) ہوں گے (بخاری: ۹۲۴۶)۔دنیا سے نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے۔ اس کے بعد جَو کے بھوسے کی طرح کے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے، جن کی اللہ کو ذرا بھی پرواہ نہ ہوگی (بخاری: ۴۳۴۶)۔سب سے اچھا میرا زمانہ ہے۔ پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے، پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے (بخاری: ۸۵۶۶؛ ۵۹۶۶)۔تم پر جو بھی دور آتا ہے، تو اس کے بعد آنے والا دور اس سے بھی برا ہوگا(بخاری: ۸۶۰۷)۔ 

دین۔ سمجھ:
اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، دیتا تو اللہ ہی ہے(بخاری: ۱۷؛ ۶۱۱۳؛ ۲۱۳۷)۔

رات۔ بلائیں، رحمتیں:
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے اور فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیسی کیسی بلائیں اس رات نازل ہورہی ہیں اور کیا کیا رحمتیں اس کے خزانوں سے اتر رہی ہیں (بخاری: ۴۴۸۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیدار ہوئے اور فرمایا:سبحان اللہ! اللہ کی رحمت کے کتنے خزانے آج رات نازل کیے گئے اور کس طرح کے فتنے بھی اتارے گئے (بخاری: ۸۱۲۶)۔

راستے۔ حقوق:
راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہو تو راستے کا حق ادا کرو یعنی نگاہ نیچی رکھو، کسی کو ایذاء دینے سے بچو، سلام کا جواب دو، اچھی باتوں کا حکم دو اور بری باتوں سے روکو (بخاری:۵۶۴۲)۔ راستے میں پڑی ایک کانٹے دار ڈالی ہٹانے پر اللہ نے ایک شخص کی مغفرت کردی (بخاری:۲۷۴۲)۔ راستے کی زمین کے بارے میں جھگڑا ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دینا چاہئے (بخاری:۳۷۴۲)۔ راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ اگر بیٹھنا ہی پڑے تو راستے کا حق ادا کرو۔ راستے کا حق یہ ہے کہ غیر محرم عورتوں کی طرف سے نظریں نیچی رکھو، راہ گیروں کو نہ ستاؤ، سلام کا جواب دو، بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو (بخاری: ۹۲۲۶)۔

 رحم دلی۔ صلہ رحمی، قطع تعلق:
 ایک اعرابی مسجد میں کھڑا ہوکر پیشاب کرنے لگا تو لوگ اسے روکنے کے لیے دوڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو۔ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔ (بخاری:۹۱۲ تا ۱۲۲)۔راستے میں پڑی کانٹوں سے بھری ٹہنی کو ہٹانے والے سے اللہ تعالیٰ اسی بات پر راضی ہوگیا اور اس کی بخشش کر دی (بخاری:۲۵۶)۔روزی میں کشادگی اور عمر کی درازی چاہتے ہوتو صلہ رحمی کرو (بخاری:۷۶۰۲)۔غیر مسلم والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی جاسکتی ہے (بخاری:۰۲۶۲)۔عبد الرحمن بن عوف ؓ کے ایک غلام نے جب یہ اطلاع دی کہ قبیلہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات القرد میں چرنے والی دودھیل اونٹنیاں چھین لیں ہیں تو سلمہ بن الاکوع  ؓ نے تعاقب کرکے ڈاکوؤں کو جالیا اور تیر اندازی کی مدد سے اپنی اونٹنیاں چھڑا لیں۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فوراََ اُن کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اے ابن الاکوع! جب تو کسی پر قابو پالے تو نرمی اختیار کر(بخاری:۱۴۰۳؛ ۴۹۱۴)۔اہل یمن کے دل کے پردے باریک، دل نرم ہوتے ہیں، ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے۔(بخاری:۸۸۳۴ تا ۰۹۳۴)۔  فخر و تکبر اونٹ والوں میں ہوتا ہے اور اطمینان اور سہولت بکری والوں میں (بخاری:۸۸۳۴)۔رزق میں فراخی اور عمر درازی کے لیے صلہ رحمی کرو (بخاری: ۵۸۹۵؛۶۸۹۵)۔رحم کا تعلق رحمن سے ہے۔ پس جو کوئی رحم سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ اس سے اپنے آپ کو جوڑ لیتا ہے اور جو کوئی اسے توڑتا ہے، اللہ اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہے (بخاری: ۸۸۹۵)۔ میرا ولی تو اللہ ہے اور میرے عزیز تو وہی ہیں جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیزگار ہیں (بخاری:۰۹۹۵)۔ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس کے ساتھ صلہ رحمی نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے (بخاری: ۱۹۹۵)۔جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۷۹۹۵)۔ اللہ نے رحمت کے سو حصوں میں سے صرف ایک فیصد حصہ زمین پر اتارا اور ننانوے (۹۹)  فیصد حصے اپنے پاس رکھے۔ اسی ایک فیصد حصے کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے (بخاری: ۰۰۰۶)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک ران پر اسامہ بن زید ؓ اور دوسری ران پر حضرت حسن ؓ کو بٹھلاکر فرماتے: اے اللہ! ان دونوں پر رحم کر کہ میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں (بخاری: ۳۰۰۶)۔تم مومنوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤگے کہ جب جسم کا ایک ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے (بخاری: ۱۱۰۶)۔جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۳۱۰۶)۔کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ و اپنے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق کاٹے اور جب وہ ملیں تو یہ ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف منہ پھیر لے۔ دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام میں پہل کرے(بخاری: ۷۳۲۶)۔ جو لوگوں پر رحم نہیں کھاتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کھاتا (بخاری: ۶۷۳۷)۔

رحم دلی۔ پڑوسی، مہمان:
جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے بارے میں بار بار اس طرح وصیت کرت رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ کہیں وہ پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں (بخاری: ۴۱۰۶؛ ۵۱۰۶)۔وہ مومن نہیں جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو (بخاری: ۶۱۰۶)۔کوئی مسلمان عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیہ دینے میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا پایا ہی کیوں نہ ہو (بخاری: ۷۱۰۶)۔جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اپنے مہمان کی عزت کرے اور زبان سے اچھی بات نکالے ورنہ خاموش رہے (بخاری: ۸۱۰۶؛ ۹۱۰۶؛ ۶۳۱۶)۔میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے (بخاری: ۹۱۰۶)۔جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو، اس پڑوسی کا پہلا حق ہے (بخاری: ۰۲۰۶)۔

رشک،  حسد:
رشک صرف دو طرح کے لوگوں پر کرنا چاہئے۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہے اور وہ حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہوکر نماز پڑھتا ہے۔ (بخاری:۳۷؛ ۱۴۱۷؛ ۵۲۰۵؛ ۶۲۰۵؛ ۲۳۲۷؛ ۶۱۳۷؛۸۲۵۷؛ ۹۲۵۷)۔اللہ کی قسم مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں ہے کہ تم شرک کرنے لگوگے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر تم ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو (بخاری: ۶۹۵۳)۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق محتاجی سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے تو اس کا خوف ہے کہ دنیا تم پر بھی پہلوں کی طرح کشادہ کردی جائے گی اور پہلوں ہی کی طرح تم آپس میں رشک کرکے ہلاک ہوجاؤگے (بخاری:۵۱۰۴)۔  مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں کہ تم شرک کروگے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو  (بخاری:۲۴۰۴؛ ۵۸۰۴)۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓسے زیادہ کسی عورت پر رشک نہیں آتا حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے اُن کا ذکر کرتے تھے۔ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو اس میں سے خدیجہ ؓ کی سہیلیوں کو حصہ بھیجتے تھے۔ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ خدیجہؓ کو جنت میں ایک خولدار موتیوں کے گھر کی خوشخبری سنادیں (بخاری: ۴۰۰۶)۔  

رمضان۔ آغاز، اختتام: 
رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور شوال کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا بند کردو (بخاری: ۰۰۹۱)۔جب تک چاند نہ دیکھو، روزہ شروع نہ کرو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو، روزہ موقوف نہ کرو۔ اگر بادل چھائے ہوں تو تیس روزے پورے کرلو (بخاری:۶۰۹۱ تا۹۰۹۱)۔

 رمضان۔ اعتکاف:
 پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ پھر آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔ آپ ؐوفات تک برابر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے رہے (بخاری:۸۱۰۲؛ ۰۲۰۲؛۵۲۰۲ تا۷۲۰۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کمر کس لیتے۔ خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے (بخاری:۴۲۰۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے تو سر مبارک حجرہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا دیتے اور آپؓ سر مبارک کو دھوتیں اور اس میں کنگھا کردیتیں حالانکہ آپ حائضہ ہوتیں تھیں (بخاری:۸۲۰۲؛ ۹۲۰۲؛ ۱۳۰۲؛ ۶۴۰۲)۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ایام جاہلیت میں مسجد الحرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نذر کو پوری کرنے کا حکم دیا (بخاری:۲۳۰۲؛ ۲۴۰۲؛ ۳۴۰۲)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی  اللہ عنہا نے بھی اس حال میں اعتکاف کیا تھا کہ آپؓ  مستحاضہ تھیں (بخاری:۷۳۰۲)۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے کہ رات کے وقت اُم المومنین حضر ت صفیہ رضی اللہ عنہا آپؐ سے ملنے آئیں۔جب وہ واپس جانے لگیں تو نبی کریم ﷺ تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے آئے تو دو انصاری ادھر سے گزرے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں آواز دے کر روکا اور فرمایا: سنو!یہ میری بیوی صفیہ ؓ ہیں۔ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے(بخاری:۵۳۰۲؛ ۸۳۰۲؛ ۹۳۰۲)۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ؐ کی اجازت سے اپنے اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگا لیا۔پھر یکے بعد دیگرے امہات المومنین حضرت حفصہؓ اور حضرت زینبؓ نے بھی اعتکاف کے لیے مسجد میں اپنے اپنے خیمے لگالیے۔نماز فجر کے بعد یہ خیمے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب کی نیت سے نہیں ہے۔ انہیں اکھاڑ دو۔ پھر آپ نے بھی اس سال اعتکاف نہیں کیا (بخاری: ۳۳۰۲؛۴۳۰۲؛۱۴۰۲؛ ۵۴۰۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئے اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا (بخاری: ۸۹۹۴)۔

 رمضان۔ روزے، فضائل:
جو کوئی رمضان کی راتوں میں ایمان رکھ کر ثواب کے لیے عبادت کرے، اس کے اگلے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (بخاری: ۷۳) جس نے رمضام کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (بخاری:۸۳؛۱۰۹۱؛۴۱۰۲)۔  روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے۔ روزہ دار فحش اور جہالت کی باتیں نہ کرے۔کوئی اس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے: میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری:۴۹۸۱؛ ۴۰۹۱)۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے (بخاری:۴۹۸۱؛ ۴۰۹۱؛۷۲۹۵)۔اللہ فرماتا ہے: روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا (بخاری:۴۹۸۱؛ ۴۰۹۱)۔حدیث قدسی: ابن آدم کا ہر عمل اس کا ہے سوائے روزہ کے۔ یہ میرا ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔(بخاری: ۷۲۹۵)۔ ریان نامی جنت کے دروازے سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے (بخاری:۶۹۸۱)۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں، نمازی، مجاہد، روزہ دار اور زکوٰۃ دینے والوں کے لیے جنت میں الگ الگ داخلوں کے دروازے ہوں گے،  جن سے انہیں پکارا جائے گا۔ان سب دروازوں سے بلائے جانے والوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ بھی ہوں گے (بخاری:۷۹۸۱)۔ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے(بخاری:۸۹۸۱؛ ۹۹۸۱)۔ حدیث قدسی: روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اللہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو، مشک عنبر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے (بخاری: ۲۹۴۷؛ ۸۳۵۷)۔ جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھالیا ہو تو اسے اپنا روزہ پورا کرلینا چاہئے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے (بخاری: ۹۶۶۶)۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی۔ ایک تو جب وہ افطار کرکے خوش ہوتا ہے۔ دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملاقات میں اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا (بخاری:۴۰۹۱)۔

رمضان۔روزے،ممنوعہ اعمال:
اگر کوئی روزے رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے (بخاری:۳۰۹۱)۔روزہ میں جھوٹ بولنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے (بخاری: ۷۵۰۶)۔

رمضان۔ روزے، سحری:
 دور رسالت میں روزے کے لیے سحری کھانے اور فجر کی اذان میں پچاس آیتیں پڑھنے تک کا فاصلہ ہوتا تھا (بخاری:۱۲۹۱)۔سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہوتی ہے(بخاری:۳۲۹۱)۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات میں (نماز تہجد کے لیے) اذان دیتے ہیں۔ اس لئے تم لوگ سحری کھاتے رہو جب تک صبح صادق ہونے پرعبداللہ ابن اُم مکتوم ؓ کی اذان نہ سن لو(بخاری:۶۵۶۲)۔  رمضان میں حضرت بلالؓ رات ہی میں اذان دیتے ہیں۔ وہ نماز فجر کی اذان نہیں ہوتی لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو جب تک عبداللہ ابن مکتوم فجر کی اذان نہ دیں (بخاری:۷۴۲۷؛ ۸۴۲۷)۔ 

رمضان۔ اوقاتِ افطار: 
جب رات مشرق کی طرف سے آئے اور دن مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ افطار کا وقت آگیا (بخاری:۴۵۹۱ تا ۶۵۹۱؛ ۸۵۹۱)۔ میری اُمت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ روزہ افطارمیں جلدی کرتے رہیں گے (بخاری:۷۵۹۱)۔ایک سفر کے دوران سورج ڈوب گیا تو اندھیرا نہ ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:جب تم دیکھو کہ رات مشرق کی طرف سے آرہی ہے تو روزہ افطار کرلو (بخاری: ۷۹۲۵)۔  

نفلی روزے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ماہ بہت زیادہ مسلسل نفلی روزے رکھتے تو کسی ماہ روزہ کا بہت زیادہ ناغہ کرتے۔(بخاری:۱۴۱۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا جی چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے، جس کا جی چاہے نہ رکھے (بخاری:۲۹۵۱؛۲۹۸۱؛ ۳۹۸۱؛۰۰۰۲ تا ۷۰۰۲)۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اگر کسی میں نکاح کی استطاعت نہ ہو تووہ نفلی روزے رکھا کرے۔ روزہ شہوت کو ختم کردیتا ہے (بخاری:۵۰۹۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو تین دن تک دن رات کچھ کھائے پئے بغیر(یعنی بلا سحر و افطار) صوم ِ وصال بھی رکھا کرتے تھے۔ تاہم آپ ؐ نے صحابہ کرام ؓ کو ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا پلایا جاتا ہوں۔میں رات گزارتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا رہتا ہے (بخاری:۲۲۹۱؛ ۱۶۹۱ تا ۷۶۹۱؛۱۴۲۷؛ ۲۴۲۷؛ ۹۹۲۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ شعبان کے مہینے میں نفلی روزہ رکھا کرتے تھے (بخاری:۹۶۹۱؛ ۰۷۹۱)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت: ہر مہینے تین روزہ رکھو، چاشت کی دو رکعت پڑھو اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو (بخاری:۱۸۹۱)۔
 
روزے۔ممنوعہ ایام:  عید الفطر کے دن اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا منع ہے (بخاری:۷۹۱۱؛۰۹۹۱؛ ۱۹۹۱؛ ۳۹۹۱؛ ۵۹۹۱)۔صرف جمعہ کے دن نفلی روزہ رکھنا منع ہے۔ جمعرات یا سنیچر کے ساتھ ملا کر جمعہ کا روزہ رکھنا چاہیے (بخاری:۴۸۹۱ تا ۶۸۹۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں دودھ پی کر بتایا تھا کہ یوم عرفہ کا روزہ حاجی کے لیے نہیں ہے۔(بخاری:۸۸۹۱؛ ۹۸۹۱)۔شعبان کی آخری تاریخوں میں ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھو۔ الا یہ کہ کسی کو ان دنوں میں روزے رکھنے کی عادت ہو (بخاری:۴۱۹۱)۔

روزے۔ جائز اعمال: جب کوئی بھول کر کچھ کھا پی لے تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا(بخاری:۳۳۹۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اورروزے کی حالت میں پچھنا (حجامہ)لگوایا (بخاری:۸۳۹۱؛۹۳۹۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کے بوسے لے لیا کرتے تھے (بخاری:۲۲۳)۔روزہ کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار اور مباشرت (ہم آغوش ہونا) جائز اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے (بخاری:۷۲۹۱؛ ۸۲۹۱؛ ۹۲۹۱)۔

روزے۔ طہارت:  اُمہات المومنین حضرت عائشہ اور اُم سلمہ ؓنے خبر دی ہے کہ بعض مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنبی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور فجر ہوجاتی تھی۔پھر آپ ؐ  غسل کرکے نماز فجرادا کرتے۔ (بخاری:۵۲۹۱؛ ۶۲۹۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احتلام سے نہیں بلکہ ازواج کے ساتھ صحبت کرنے کی وجہ سے فجر کے وقت بھی غسل کرلیا کرتے تھے، جبکہ آپ روزے سے ہوتے تھے۔ یعنی جنبی فرد غسل کئے بغیر بھی روزہ رکھ سکتا ہے اور غسل فجر کے بعد (انتہائے سحرکا وقت نکل جانے کے بعد) بھی کرسکتا ہے(بخاری: ۰۳۹۱ تا ۲۳۹۱)۔

رمضان۔ جبرئیل :
 حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے اور قرآن کا دور کرواتے تھے (بخاری: ۲۰۹۱)۔حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا (بخاری: ۸۹۹۴)۔ 

رمضان۔ سفر، روزہ:
 سفر میں جی چاہے تو روزہ رکھو اور جی چاہے تو نہ رکھو (بخاری:۳۴۹۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں رمضان کے روزے رکھنا اور چھوڑنا دونوں ثابت ہے (بخاری:۴۴۹۱)۔سفر میں روزہ سے بدحال شخص کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے (بخاری:۶۴۹۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں دوران سفر کچھ لوگ روزے سے اور کچھ لوگ بغیر روزے کے ہوتے تھے لیکن کوئی کسی پر اعتراض نہیں کیا کرتا تھا (بخاری:۷۴۹۱) غزوہ فتح مکہ میں مدینہ سے مکہ سفر کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے لیکن عسفان کے مقام پرلوگوں کو دکھا کر روزہ توڑدیا (بخاری:۷۴۹۱) 

رمضان۔ قضا روزے:
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایام حیض میں رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء اگلے شعبان تک بھی رکھا کرتی تھیں (بخاری:۰۵۹۱) حائضہ عورت کا نماز روزہ چھوڑ دینا، اس کے دین کا نقصان ہے (بخاری:۱۵۹۱)اگر کوئی شخص مرجائے اوراس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ لے (بخاری:۲۵۹۱؛ ۳۵۹۱)۔  

رمضان۔ روزہ کفارہ:
روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے کا اعتراف کرنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک غلام آزاد کرو، یا پے درپے دو مہینے کے روزے رکھو،یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ (بخاری:۶۳۹۱؛ ۷۳۹۱؛ ۸۶۳۵)۔ روزے میں بیوی سے ہم بستری (یا جان بوجھ کر بلا عذر روزہ توڑنے)کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یادو مہینے کے متواتر روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے (بخاری: ۹۰۷۶تا ۱۱۷۶؛ ۱۲۸۶؛ ۲۲۸۶)۔

 رمضان۔ قیام الیل (تراویح):
جو شخص بھی رمضان میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ رات میں نماز کے لیے کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جائیں گے (بخاری:۸۰۰۲؛ ۹۰۰۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، حضرت ابو بکر صدیق  ؓ کے دور خلافت اور حضرت عمر فاروق  ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کرنے کو زیادہ اچھا سمجھا اور ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنا دیا۔پھر ایک مرتبہ رات کے شروع حصہ میں لوگوں کو باجماعت تراویح پڑھتے ہوئے دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا:یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے(بخاری:۹۰۰۲؛ ۰۱۰۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ رمضان کی نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اورنفل نماز (تہجد)پڑھنے لگے تو کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ دوسری اور تیسری شب بتدریج صحابہ کی تعداد اس نماز میں بڑھتی گئی تو چوتھی شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف ہی نہ لائے۔ جبکہ مسجد صحابہ کرام ؓ سے بھری ہوئی تھی۔ بعد ازاں نماز فجر کے بعد آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن میں اس خوف سے نہ آیا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض نہ کردی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ (بخاری:۲۱۰۲)۔اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان ہو یا غیر رمضان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام الیل (تراویح یا تہجد کی نماز) میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔پہلی آٹھ رکعتیں طویل ہوتیں۔ آخر میں تین رکعت وتر پڑھتے (بخاری:۳۱۰۲)۔

 رمضان۔ لیلۃ القدر:
جو شخص لیلۃ القدر ایمان کے ساتھ محض ثواب آخرت کے لیے عبادت میں گزارے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں (بخاری:۵۳)۔جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں نماز میں کھڑا رہے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (بخاری: ۱۰۹۱؛۴۱۰۲)۔ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں  (اکیسویں۔ ۲۱؛  تیئیسویں۔ ۲۳؛  پچیسویں۔۲۵ ؛  ستائیسویں۔ ۲۷؛  انتیسویں۔ ۲۹) میں ہے (بخاری: ۳۱۸؛ ۸۵۱۱؛۵۱۰۲ تا ۸۱۰۲؛ ۱۲۰۲ تا ۳۲۰۲)۔  لیلۃ القدر کو رمضان کی پچیس (۲۵ )، ستائیس ( ۲۷) اور انتیس ( ۲۹) کی راتوں میں تلاش کرو (بخاری:۹۴۰۶)۔

رزق:
اپنے کمزور معذور لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں ہی تمہیں اللہ کی طرف سے مدد ملتی ہے اور ان ہی کی دعاؤں سے رزق ملتا ہے (بخاری:۶۹۸۲)۔

روح:
 یہودیوں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنے پر کہ روح کیا ہے؟ اللہ نے سورۃ اسراء کی آیت: ۵۸ نازل فرمائی کہ آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے (بخاری: ۱۲۷۴)۔

ریا کاری:
جو لوگوں کو ریاکاری کے طور پر دکھانے کے لیے کام کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی ریا کاری کا حال لوگوں کو سنادے گا (بخاری: ۲۵۱۷)۔

سانپ:
سانپوں کو مارڈالا کرو خصوصاََ ان کو جن کے سروں پر سو نقطے ہوتے ہیں اور دُم کٹے سانپ کو بھی۔ کیونکہ دونوں آنکھ کی روشنی تک ختم کردیتے ہیں اور حمل تک گرا دیتے ہیں (بخاری: ۷۹۲۳؛ ۸۰۳۳ تا ۲۱۳۳)۔گھروں میں پائے جانے والے عوامر سانپوں کو جو جِن ہوتے ہیں، مارنا منع ہے (بخاری: ۸۹۲۳)۔عبد اللہ بن عمرؓ ہر طرح کے سانپ کو مارڈالا کرتے تھے لیکن جب ان سے کہا گیا کہ نبی کریم ﷺ نے گھر میں نکلنے والے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے بھی اسے مارنا چھوڑ دیا (بخاری:۶۱۰۴؛ ۷۱۰۴)۔ایک مرتبہ چند صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ نبی ﷺ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی۔ اتنے میں غار کی طرف سے ایک سانپ نکلا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے مار ڈالو، مگر وہ بھاگ نکلا تو نبی ﷺ نے فرمایا:وہ تمہارے شر سے اور تم اس کے شر سے بچ گئے (بخاری:۰۳۹۴؛ ۴۳۹۴)۔

 سفارش۔ ثواب: 
کوئی مانگنے والا یا ضرورتمند آتا تو نبی کریم ﷺ فرماتے کہ اس کی سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی ثواب ملے (بخاری: ۶۷۴۷)۔

سفر۔ آداب:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو بنو عبد المطلب کے چند بچوں نے آپؐ  کا استقبال کیا تو آپ ؐ نے ایک بچے کو اپنی سواری کے آگے اور ایک بچے کو پیچھے بٹھا لیا (بخاری: ۸۹۷۱)۔ انصار مدینہ حج سے واپسی پر دروازوں سے نہیں بلکہ دیواروں سے کود کر گھروں میں داخل ہوتے تھے۔ ایک انصاری دروازے سے گھر میں داخل ہوگیا تواُس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی، جس پر یہ آیت (البقرہ۔۹۸۱) نازل ہوئی:یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر)آؤ۔ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں دروازے سے آیا کرے(بخاری:۳۰۸۱)۔جب بندہ بیمار یا سفر میں ہوتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں صحت یا اقامت کے وقت یہ کیا کرتا تھا (بخاری:۶۹۹۲)۔

 سفر۔ واپسی: 
 سفرگویا عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو آدمی کی نیند اور کھانے پینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ پس جب مسافر کی سفری ضرورت حسب منشا پوری ہوجائے تو اسے جلدی گھر واپس آجانا چاہئے (بخاری:۴۰۸۱؛۱۰۰۳؛ ۹۲۴۵)۔ ایک سفر میں لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہوئے صحابہ کرام ؓ کی آواز بلندہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی جانوں پر رحم کھاؤ۔ تم کسی غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھ تم سے بہت قریب ہے اور سننے والا ہے (بخاری:۲۹۹۲)۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے رات کو گھر واپس نہیں آتے۔ صبح کے وقت پہنچ جاتے یا زوال سے غروب آفتاب تک کسی وقت تشریف لاتے۔ آپ ؐ  سفر سے واپسی پر رات میں گھر آنے سے منع فرماتے تھے  (بخاری:۰۰۸۱؛ ۱۰۸۱)۔جتنا میں جانتا ہوں، اگر لوگوں کو بھی اتنا علم ہوتا تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا (بخاری:۸۹۹۲)۔ سفر سے اچانک رات کو اپنے گھر  واپسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایاکہ طویل سفر سے واپسی پر اس وقت تک اپنے گھروں میں نہ جانا جب تک تمہاری بیویاں اپنے پراگندہ بالوں میں کنگھی وغیرہ نہ کر لیں (بخاری: ۳۴۲۵ تا ۷۴۲۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوے، حج یا عمرے سے واپس آتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر یوں فرماتے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہت اسی کے لیے ہے، حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (بخاری:۶۱۱۴)۔ 

 سفر۔ نشیب و فراز:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ، حج یا عمرہ سے واپس ہوتے ہوئے جب بھی کسی بلند جگہ چڑھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے (بخاری:۷۹۷۱؛ ۵۹۹۲؛۵۸۳۶)۔صحابہ جب کسی بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب کسی نشیب میں اترتے تو سبحان اللہ کہتے (بخاری:۳۹۹۲؛ ۴۹۹۲)۔
 
سفر۔ نمازیں: 
جب کہیں جلدی پہنچنا ہوتا تو نبی کریمﷺ مغرب کی نمازمیں تاخیر کرکے عشاء اور مغرب کو ملا کر ایک ساتھ پڑھتے تھے (بخاری:۵۰۸۱؛ ۰۰۰۳)۔ 

 سفر۔ روزے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں کچھ لوگ روزے سے تھے اور کچھ بغیر روزے کے۔ جنہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا، انہوں نے روزہ داروں کی بھی خدمت کی اور اونٹوں کی بھی دیکھ بھال کی۔یہ دیکھ کر آپ ؐ نے فرمایا: آج اجر و ثواب میں روزہ نہ رکھنے والے آگے بڑھ گئے (بخاری:۰۹۸۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے مدینہ کے لیے رمضان میں نکلے تھے اور روزے سے تھے۔ آپ ؐ نے کدید کے مقام پر روزہ افطار کیا تھا (بخاری:۳۵۹۲)۔ 

سلام ۔ آداب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ لوگوں کے پاس تشریف لاتے توانہیں تین بار سلام کرتے۔ (بخاری:۵۹)۔نبی کریم کسی کو سلام کرتے اور جواب نہ ملتا تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے (بخاری: ۴۴۲۶)۔بچوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سلام کرنا مسنون عمل ہے (بخاری: ۷۴۲۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا:اے عائشہؓ! یہاں جبرئیل علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے خودکو نظر نہ آنے والے جبرئیل علیہ السلام کے سلام کا جواب یوں دیا: وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور فرمایا:بے شک جو آپ دیکھتے ہیں ہم نہیں دیکھ سکتے(بخاری: ۸۶۷۳؛  ۹۴۲۶؛ ۳۵۲۶)۔ ایک یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: السام علیک یعنی تم پر موت آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بُرا لفظ منہ سے نکالے بغیر کہا: وعلیکم یعنی تم پر بھی وہی آئے (بخاری:۵۳۹۲)۔  جب یہودی تمہیں سلام کرتے ہوئے السام علیک  (بمعنی تمہیں موت آئے) کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف وعلیک (اور تم پر بھی) کہہ دیا کرو (بخاری: ۶۵۲۶ تا ۸۵۲۶؛ ۶۲۹۶ تا ۸۲۹۶)۔ 

سونے، لیٹنے کے آداب:
بستر پر سونے کے لیے آؤ تو وضو کر کے آؤ اور داہنی طرف کروٹ کر کے یوں پڑھو: اللہم اسلمت وجہی اِلیک، وفوضت امری الیک، والجات ظہری الیک،  رغبتہ و رہبتہ الیک، لا ملجاء ولا منجا منک الا الیک، اللہمآمنت بکتابک الذی انزلت، وبنبیک الذی ارسلت۔اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کردیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے ثواب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ!جو کتاب تو نے نازل کی، میں اُس پر ایمان لایا، جو نبی تونے بھیجا، میں اُس پر ایمان لایا۔ اس دعا کو سب باتوں کے آخر میں پڑھ۔ اگر اس حالت میں اسی رات مرگیا تو فطرت پر مرے گا۔(بخاری:۷۴۲)۔چت لیٹے ہوئے ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھنا سنت سے ثابت ہے (بخاری:۵۷۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں اس طرح چت لیٹے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ آپ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر اٹھا کر رکھے ہوئے تھے (بخاری: ۹۶۹۵)۔

شاعری۔ حسانؓ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان ؓ سے کہا کہ تم میری طرف سے مشرکوں کو اشعار میں جواب دو۔آپ ﷺ نے یہ بھی کہا کہ اے اللہ! حسان ؓ کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر(بخاری:۳۵۴)۔ اے حسانؓ! کفار مکہ کو میری طرف سے منظوم جواب دے۔اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد کر اے حسانؓ! تم مشرکین کی ہجو کرو یا ان کی ہجو کا جواب دو۔ ہر صورت میں جبرئیل ؑ تمہارے ساتھ ہیں (بخاری: ۲۱۲۳؛ ۳۱۲۳)۔ سب سے سچی بات جو کوئی شاعر کہہ سکتا تھا وہ لبید شاعر نے کہی ہے کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے (بخاری:۱۴۸۳)۔بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے (بخاری: ۵۴۱۶)۔ شعراء کے کلام میں سچا کلمہ لبید کا یہ مصرعہ ہے: اللہ کے سوا جو کچھ ہے سب معدوم اور فنا ہونے والا ہے (بخاری: ۷۴۱۶)۔اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اسے اشعار سے بھرے (بخاری: ۴۵۱۶؛ ۵۵۱۶)۔سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمام چیزیں بے بنیاد ہیں (بخاری: ۹۸۴۶)۔

شرافت، اخلاق۔ فضائل:
شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔جو دور جاہلیت میں شریف تھے وہ اسلام میں بھی شریف ہیں جبکہ انہیں دین کی سمجھ آجائے (بخاری: ۳۵۳۳)۔سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔جو اپنے عہد جاہلیت میں شریف اور اچھے عادات و اخلاق والے تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے ہیں (بخاری: ۴۷۳۳؛ ۳۸۳۳)۔ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں (بخاری: ۹۵۵۳)۔تم میں سے سب سے زیادہ عزیز مجھے وہ شخص ہے، جس کے عادات و اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔(بخاری: ۹۵۷۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور سیرت و عادات سے سب سے زیادہ قریب حضرت ابن اُم عبد ؓ  تھے (بخاری: ۲۶۷۳)۔ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں (بخاری:۹۸۶۴)۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وقت پر نماز پڑھنا، پھر والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے (بخاری: ۰۷۹۵)۔

شرافت۔ حسن سلوک:
ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا اور لوگ ان کی طرف دوڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پیشاب کو نہ روکو۔ پھر آپ نے پانی کا ڈول منگواکر پیشاب کی جگہ بہا دیا (بخاری: ۵۲۰۶؛ ۸۲۱۶)۔ ضرورتمند کی سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی اس کا اجر ملے (بخاری: ۷۲۰۶؛ ۸۲۰۶)۔ تم میں سے سب سے بہتر وہ آدمی ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں (بخاری: ۹۲۰۶؛ ۵۳۰۶)۔خادم رسول حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی۔ لیکن آپ نے مجھے اُف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا (بخاری: ۸۳۰۶)

شرافت۔ حسن سلوک، ماں باپ:
انسان کے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار اس کی ماں ہے۔ تین مرتبہ یہی فرمانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی مرتبہ فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے (بخاری: ۱۷۹۵)۔ایک صحابی نے پوچھا کہ کیا میں بھی جہاد میں شریک ہوجاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کرنے کے بعد کہ ان کے ماں باپ موجود ہیں، فرمایا: پھر تم والدین ہی کی خدمت میں جہاد کرو (بخاری: ۲۷۹۵)۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو(بخاری: ۸۷۹۵؛ ۹۷۹۵)۔ ابو سفیان ؓ نے ہرقل کو بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز، صدقہ، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم فرماتے ہیں (بخاری: ۰۸۹۵)۔

شرافت کے مُنافی اعمال:
اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی اور ان سے ناحق مطالبات کرنااور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے (بخاری: ۵۷۹۵)۔اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا سب سے بڑے گناہ ہیں (بخاری: ۶۷۹۵؛ ۷۷۹۵)۔ جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی بھی بڑے گناہ ہیں (بخاری: ۶۷۹۵؛ ۷۷۹۵)۔کسی دوسرے کے والدین کو بُرا بھلا کہنے کا بالواسطہ مطلب اپنے والدین ہی کو بُرا بھلا کہنا ہے۔ کیونکہ اپنے ماں باپ کے خلاف بات سن کر دوسرا شخص بھی تمہارے ماں باپ کو بُرا بھلا کہے گا (بخاری: ۳۷۹۵)۔ 

شکار اور ذبیحہ:
حلال و حرام شکار:بسم اللہ پڑھ کر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ پکڑا ہوا شکار حلال ہے۔ لیکن اگر کتا شکار میں سے کچھ کھالے، تو ایسا شکار کھاناجائز نہیں (بخاری: ۵۷۱؛۷۹۳۷)۔ تیر کے دھار کی طرف سے لگ کر مارا جانے والا شکار حلال ہے جبکہ تیر کی چوڑائی کی طرف سے لگ کر مارا جانے والا شکار حلال نہیں (بخاری: ۴۵۰۲؛ ۷۹۳۷)۔ بسم اللہ پڑھ کر چھوڑے جانے والے شکاری کتے سے شکار کیا ہوا جانور حلال ہے (بخاری:۴۵۰۲)۔ شکار اگر بسم اللہ پڑھ کر پھینکے گئے تیر کی نوک سے ہلاک ہو تو کھالو اور اگر تیر کی عرض سے ہلاک ہو جائے تو نہ کھاؤ، ہلاک نہ ہو تو ذبح کرکے کھالو۔(بخاری: ۵۷ ۴۵ تا ۷۷۴۵؛ ۶۸۴۵تا ۸۸۴۵)۔ بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا گیا سدھایا ہوا شکاری کتا اگر شکار نہ کھائے تو اسے کھالو۔ لیکن اگرشکاری کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو اسے نہ کھاؤ(بخاری: ۵۷ ۴۵ تا  ۷۷۴۵؛ ۳۸۴۵؛ ۴۸۴۵؛ ۶۸۴۵)۔ غیر سدھائے ہوئے کتے سے کئے گئے شکار کو اگر خود ذبح کیا ہو تبھی اسے کھا سکتے ہو، ورنہ نہیں (بخاری: ۸۷ ۴۵؛ ۸۸۴۵)۔ بسم اللہ پڑھ کر چھوڑے گئے تیر سے مارا جانے والا شکار اگر دو تین دن بعد ملے تب بھی اسے کھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ شکار خراب نہ ہوا ہو (بخاری: ۵۸۴۵) ۔ اگرچوہا یا کوئی اور جانور جمے ہوئے گھی یا تیل میں گر کر مرجائے تو چوہے اور اس کے چاروں طرف سے گھی نکال کر پھینک دو اور باقی گھی کو کھالو (بخاری: ۸۳۵۵ تا ۰۴۵۵)۔ بکری اور جانوروں کو داغنا جائز ہے(بخاری: ۲۴۵۵)۔

حلال ذبیحہ: چھریوں کے علاوہ بھی اگر کوئی دھار دار چیز(ما سوائے دانت، ناخن اور ہڈی) خون بہا دے اور ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھا لو (بخاری: ۸۹۴۵)۔ میں صرف اسی حلال جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو (بخاری: ۹۹۴۵)۔ بکریاں چرانے والی ایک لونڈی نے جب یہ دیکھا کہ اس کی ایک بکری مرنے والی ہے تو اُس نے جلدی سے ایک نوکدار پتھر سے بکری کو ذبح کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے گوشت کو کھانے کی اجازت دے دی  (بخاری: ۰۰۵۵؛ ۱۰۵۵؛ ۴۰۵۵؛ ۵۰۵۵)۔ چھری پاس نہ ہو تو ناخن، دانت اور ہڈی کے علاوہ جو بھی دھار والی چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اسے ذبیحہ کوکھا سکتے ہو  (بخاری: ۳۰۵۵؛ ۶۰۵۵؛ ۹۰۵۵؛ ۳۴۵۵؛ ۴۴۵۵)۔ گوشت بیچنے والا اگر مسلمان ہو تو اس سے خریدا ہوا گوشت کھانا کھانا جائز ہے(بخاری: ۷۰۵۵)۔ ساہنہ مَیں خود نہیں کھاتا لیکن اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا (بخاری: ۶۳۵۵؛ ۷۳۵۵)۔

حرام ذبیحہ: ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے کا گوشت کھانا منع ہے(بخاری: ۷۲۵۵؛ ۰۳۷۲)۔ مرے ہوئے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن اس کی کھال سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے (بخاری: ۱۳۵۵؛ ۲۳۵۵)۔ دانت سے کھانے والے ہر درندہ جانور کا گوشت کھانا منع ہے (بخاری: ۰۸۷۵؛ ۱۸۷۵)۔

 گورخر،خرگوش، مرغی، ٹڈی۔گھوڑا، گدھا: انس بن مالک ؓنے ایک خرگوش کا شکار کیا اور اس کا گوشت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اسے قبول کرلیا (بخاری: ۹۸۴۵؛ ۵۳۵۵)۔ مکہ کے راستے میں ابوقتادہ ؓ نے جو احرام میں نہیں تھے ایک گورخر (جنگلی گدھا)کا شکار کیا، جسے احرام باندھے ہوئے صحابہؓ نے بھی کھایا اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا:یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا (بخاری: ۰۹۴۵ تا ۲۹۴۵)۔عبد اللہ بن ابی  ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ سات غزوات میں شریک ہوئے اور ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے (بخاری: ۵۹۴۵)۔ فتح خیبر کی شام صحابہ کرام ؓجب گدھے کا گوشت پکارہے تھے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کے گوشت کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا (بخاری: ۷۹۴۵)۔  اسماء بنت ابو بکرؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ میں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا  (بخاری: ۰۱۵۵ تا ۲۱۵۵؛ ۹۱۵۵)۔ ابو موسیٰ الاشعری ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کا گوشت کھاتے دیکھا ہے (بخاری: ۷۱۵۵؛ ۸۱۵۵)۔جنگ خیبر میں رسول اللہ نے پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی رخصت دی تھی (بخاری: ۰۲۵۵ تا ۳۲۵۵تا ۸۲۵۵)۔

ممنوعہ شکار: مرغی وغیرہ کو باندھ کر اسے تیر وغیرہ سے نشانہ لگا کر مارنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے (بخاری: ۳۱۵۵ تا ۵۱۵۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں پھینکنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ نہ شکار کو مارسکتی ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ البتہ آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے (بخاری: ۰۲۲۶)۔

کتا پالنا: کسی نے مویشی کی حفاظت اور شکار کرنے کے علاوہ کتا پالا تو روزانہ اس کی نیکیوں میں سے دو قیراط کی کمی ہوجاتی ہے (بخاری: ۰۸۴۵ تا ۲۸۴۵)۔

شیطان اور انسان:
 شیطان۔ نیند،  وسوسہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جو فجر کی نماز کے لیے نہیں اٹھا اور سوتا رہا تو آپﷺ نے فرمایا: شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کردیا ہے (بخاری:۴۴۱۱؛۰۷۲۳)۔ شیطان سوئے ہوئے فرد کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ اگر وہ جاگ کر اللہ کا ذکر شروع کرے تو ایک گرہ، وضو کرے تو دوسری گرہ اور نماز فجر پڑھے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور صبح کو خوش مزاج خوش دل رہتا ہے (بخاری:۲۴۱۱؛ ۹۶۲۳)۔ شیطان انسان کے اندراس طرح دوڑتا ہے جیسے جسم کے اندر خون دوڑتا ہے، جو دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے (بخاری: ۱۰۱۳)۔
 
شیطان۔ آیۃ الکرسی: صدقہ فطر کے غلہ کی حفاظت پر مامور حضرت ابو ہریرہؓ نے ایک چور کو غلہ میں سے چوری کرتے ہوئے پکڑا تو اس نے اپنی جان چھڑانے کے عوض بتلایا کہ سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو تو  تمہارے اوپر ایک نگہبان مقرر ہوجائے گا اور شیطان صبح تک تمہارے قریب نہ آسکے گا۔ یہ ماجرا سُن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات تو اس نے سچ کہی ہے لیکن وہ خود جھوٹا اور شیطان تھا (بخاری: ۵۷۲۳)۔ 

شیطان۔رمضان: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے  (بخاری: ۷۷۲۳)۔

شیطان۔ شام، رات: رات کا اندھیرا شروع ہونے پر اپنے بچوں کو گھر میں روک لو کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلنا شروع ہوتے ہیں۔ پھر عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو کہ چلیں پھریں۔ (بخاری: ۰۸۲۳؛ ۴۰۳۳؛ ۶۱۳۳؛۳۲۶۵)۔  رات میں اللہ کا نام لے کر اپنے دروازے بند کرو کیونکہ پھر شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا (بخاری: ۳۲۶۵)۔

شیطان۔اذان: جب نماز کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے۔ پھر جب تکبیر ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آکر آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگتا ہے  (بخاری:  ۵۸۲۳)۔

شیطان۔ نومولود: شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے۔ مگر اللہ نے حضرت عیسی  ؑ کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا تھا  (بخاری: ۶۸۲۳)۔ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے۔ مگر اللہ نے مریم علیہ السلام کی ماں کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہ السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا (بخاری:۸۴۵۴)۔

شیطان۔ فرشتے۔ کاہن: زمین پر ہونے والے کسی امر کے بارے میں فرشتے بادلوں میں باتیں کرتے ہیں تو شیطان ان میں سے کوئی ایک کلمہ سن لے تو کاہنوں کو جاکر بتلا دیتا ہے(بخاری: ۶۸۲۳)۔ 

شیطان۔ جمائی: جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہوسکے، اسے روکے۔ جب کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے (بخاری: ۹۸۲۳)۔ 

شیطان۔ نماز: نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا شیطان کی ایک اُچک ہے جو وہ تمہاری نماز میں سے کچھ اُچک لیتا ہے (بخاری: ۱۹۲۳)۔ 

شیطان۔ بُرا خواب: اچھا خواب اللہ کی طرف سے اور بُرا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر کوئی بُرا اور ڈراؤنا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھو تھو کرکے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے (بخاری: ۲۹۲۳)۔ 

شیطان۔ وضو: جب کوئی سو کر اٹھے اور وضو کرے تو تین مرتبہ ناک جھاڑے۔ کیونکہ شیطان رات بھر اس کی ناک کے نتھنے پر بیٹھا رہتا ہے (بخاری: ۵۹۲۳)۔

صحابہ کرام: 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکرؓ کے برابر کسی کو قرار نہیں دیتے تھے۔ پھرحضرت عمرؓ کو اور پھر حضرت عثمانؓ کو اور اس کے بعد کسی نام پر بحث نہیں کرتے تھے (بخاری:  ۸۹۶۳)۔ جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تمہیں معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔نبی کریم ﷺ کا یہ خطبہ سن کر صحابہ کرام ؓ نے اپنے چہرے چھپالیے اور باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی  (بخاری:۱۲۶۴)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر خبیب  ؓ سمیت دس اکابر صحابہ کو ان کے پاس بھیجا توانہوں نے ان صحابہ کو شہید کردیا (بخاری: ۲۰۴۷)۔ 

صحابہؓ۔ انصارؓ:
انصارؓ۔فضائل: میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالے تو ان کے ایک بلکہ آدھ مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا (بخاری: ۳۷۶۳)۔  انصار کا بہترین گھرانہ بنو نجار کا، پھر بنو عبدالاشھل کا، پھر بنو عبدالحارث کا، پھر بنو ساعدہ کا ہے جبکہ خیر انصار کے تمام گھرانوں میں ہے (بخاری:۹۸۷۳ تا ۱۹۷۳؛ ۷۰۸۳)۔ حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے انصار کو ہر دم رسول اللہ کی خدمت کرتے دیکھا ہے۔ اس لئے جب ان میں سے کوئی مجھے ملتا ہے تو میں اس کی تعظیم کرتا ہوں (بخاری:۸۸۸۲)۔

انصار ؓ۔ مومن،منافق: انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا (بخاری:۳۸۷۳؛ ۴۸۷۳)۔ انصار نے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کی تابعداری کی ہے۔ آپ دعا کریں: اللہ ہمارے تابعداروں کو بھی ہم میں شریک کردے تو آپ ؐ نے اس کی دعا فرمائی (بخاری:۷۸۷۳؛ ۸۸۷۳)۔ انصار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر آن ملو (بخاری:۲۹۷۳ تا ۴۹۷۳)۔

انصارؓ۔ میزبانی: حضرت ابو ہریرہ  ؓ بھوک کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات سے کھانے کا معلوم کیا تو پتہ چلا کہ کسی کے گھر بھی پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔آپ ؐ کے کہنے پر ایک صحابی نے میزبانی قبول کی اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اپنے گھر لے گئے تو بیوی نے کہاکہ بچوں کے کھانے کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں ہے۔ دونوں نے مشورے سے بچوں کو بھوکا سلا دیا اور چراغ بجھا کر کھانا مہمان کے سامنے پیش کردیا۔ مہمان نے اکیلے کھانا کھایاجبکہ دونوں میاں بیوی اندھیرے میں ساتھ کھانے کا تاثر دیتے رہے۔ اگلی صبح میزبان صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: رات اللہ نے آپ کی میزبانی کو پسند کیا اور سورۃ  الحشر کی آیت۔۹ نازل فرمائی: اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر دوسرے غریب صحابہ کو اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (بخاری:۸۹۷۳؛۹۸۸۴)۔

انصارؓ۔ نبیؐ: انصار جس وادی یا گھاٹی میں جائیں گے میں بھی اسی وادی میں جاؤں گا۔ اگر میں ہجرت نہ کرتا تو انصار کا ایک فرد ہونا پسند کرتا  (بخاری:۹۷۷۳)۔اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد بننا پسند کرتا۔ اگر دوسرے لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا (بخاری: ۴۴۲۷؛ ۵۴۲۷)۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی خواتین اور بچوں کو کسی تقریب سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور تین مرتبہ فرمایا: اللہ گواہ ہے تم لوگ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو (بخاری:۵۸۷۳؛ ۶۸۷۳)۔

انصارؓ۔ نبیؐ وصیت: اپنے منبر پر آخری بیٹھک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قبیلہ انصار کے لوگ آنے والے دور میں تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے۔ پس میری اُمت کا جو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے بُرے کی بُرائی سے در گزر کرے  (بخاری: ۷۲۹)۔ مرض الوفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر رسول سے آخری خطاب میں وصیت کی کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ انصار میرے جسم و جان ہیں۔ تم ان کے نیک لوگوں کی قدر کرنا اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرتے رہنا (بخاری:۹۹۷۳ تا ۱۰۸۳)۔  

صحابی۔ ہجرت، انصار و مہاجرین:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو مدینہ کے اوس و خزرج قبائل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور ان کے کچھ سردار قتل کئے جاچکے تھے۔  بعاث کی اس جنگ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے مفاد میں اس لیے مقدم کر رکھا تھا تاکہ وہ آپ کے تشریف لاتے ہی مسلمان ہوجائیں (بخاری:۷۷۷۳؛ ۶۴۸۳؛ ۰۳۹۳)۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے ان کے مواخاتی انصاری بھائی سعد بن ربیع  ؓ نے کہا کہ آپ میرا آدھا مال لے لیجئے۔ میری دو میں سے ایک ایک بیوی سے شادی کرلیجئے۔ مگر آپ نے یہ پیشکش قبول نہیں کیا اور بنی قینقاع بازار میں خرید و فروخت کرنے لگے اور کچھ دنوں کے بعد انہوں نے شادی کرلی اور مہر میں گٹھلی کے برابر سونا ادا کیا (بخاری:۰۸۷۳؛ ۱۸۷۳؛ ۷۳۹۳)۔ہجرت مدینہ کے بعد انصار نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے کھجور کے باغات کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرمادیں۔نبی کریم ﷺ کے انکار پر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ آپ ہمارے باغات میں کام کرلیں اور کھجوروں میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ مہاجرین نے اس پیشکش کو قبول کرلیا (بخاری:۲۸۷۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بحرین کی جاگیریں دینے کے لیے بلایا تو انصار نے کہا کہ جب تک آپؐ مہاجرین کو بھی اس جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں گے، ہم اسے قبول نہیں کریں گے (بخاری:۴۹۷۳)۔ غزوہ خندق کے موقع پر انصار نے یہ شعر پڑھتے تھے: ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ سے جہاد پر بیعت کی ہے، جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے۔ پس اے اللہ!  انصار اور مہاجرین پر اپنا کرم فرما (بخاری:۵۹۷۳ تا ۷۹۷۳)۔اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما (بخاری:۶۰۹۴)۔

صحابہ۔ اہل بیت ؓ:
حضرت حسن ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے مبارک پر تھے اور آپ فرمارہے تھے: اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت رکھ (بخاری: ۹۴۷۳)۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت حسنؓ کو اٹھائے ہوئے فرمارہے تھے۔ میرے ماں باپ ان پر فدا ہوں۔ یہ نبی کریم  ﷺ سے مشابہ ہیں، علیؓ سے نہیں۔ اور علیؓ یہ سن کر مسکرارہے تھے (بخاری: ۰۵۷۳)۔ فرمانِ حضرت ابوبکرؓ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ محبت و خدمت کے ذریعہ تلاش کرو(بخاری: ۱۵۷۳)۔فرمانِ حضرت انسؓ: حسن بن علیؓ سے زیادہ اور کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ نہیں تھا (بخاری: ۲۵۷۳)۔دونوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں (بخاری: ۳۵۷۳)۔

صحابی۔ ابن عباسؓ:
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباسؓ کو سینے سے لگا کر فرمایا: اے اللہ! اسے حکمت کا علم عطا فرما (بخاری: ۶۵۷۳)۔

صحابی۔ ابو ہریرہؓ:
 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مہاجرین و انصار میری طرح زیادہ احادیث اس لیے بیان نہیں کرپاتے کہ مہاجرین تو بازار کی خرید و فروخت میں جبکہ انصار اپنے کھیتوں اور باغوں کی اموال میں مشغول رہتے ہیں۔ جبکہ میں اہل صفہ میں سے ایک مسکین آدمی ہوں اوربرابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں حاضر رہتا ہوں،جن میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور یوں میں وہ باتیں بھی محفوظ رکھتا جو دوسرے نہیں رکھ سکتے تھے۔اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ کی خصوصی دعا کی برکت سے کوئی حدیث بھولتا بھی نہیں ہوں (بخاری:۸۱۱؛۷۴۰۲؛ ۰۵۳۲)۔حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تین سال رہا ہوں۔ اپنی پوری عمر میں مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہوا جتنا ان تین سالوں میں تھا (بخاری: ۱۹۵۳)۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی ہیں لیکن میں انہیں بھول جاتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ کے حکم پر حضرت ابو ہریرہؓ نے اپنی چادر پھیلائی تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اس کے بعد وہ کبھی کوئی حدیث نہیں بھولے (بخاری: ۸۴۶۳)۔ حضرت ابو ہریرہؓ  کا فرمان: لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ بہت زیادہ احادیث بیان کرتا ہے۔ حالانکہ  میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر وقت رہتا تھا۔ میں خمیری روٹی نہ کھاتا اور نہ عمدہ لباس پہنتا تھا۔ نہ میری خدمت کے لیے کوئی فلاں یا فلانی تھی بلکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا (بخاری: ۸۰۷۳)۔حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اللہ سے زیادہ حدیث بیان کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا میں ایک مسکین شخص تھا جو پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبیﷺ کے ساتھ رہتا تھا جبکہ مہاجرین بازار کے کاروبار اور انصار اپنے مالوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے۔ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کرلوں اور پھر وہ اپنی چاد ر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔ چنانچہ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ پھر کبھی میں نبی ﷺ کی کوئی بات نہیں بھولا (بخاری: ۴۵۳۷)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے تھے کہ اگرجہاد فی سبیل اللہ،حج اور والدہ کی خدمت کی مجبوری نہ ہوتی تو میں غلام رہ کر مرنا پسند کرتا (بخاری:۸۴۵۲) 

 صحابی۔ خلیفہ ابوبکرؓ:
اگر میں کسی کو انسانوں میں سے جانی دوست بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے(بخاری:۶۶۴؛۷۶۴)۔ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکرؓ کا سب سے زیادہ احسان ہے۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتا تو ابوبکر کو بناتا۔لیکن وہ میرے دینی بھائی اور میرے ساتھی ہیں (بخاری: ۴۵۶۳؛ ۶۵۶۳ تا  ۸۵۶۳)۔اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ سب سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکرؓ ہیں (بخاری:۴۰۹۳)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب لوگوں کو صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو پہلے حضرت ابوبکرؓ کو، پھر حضرت عمر بن خطابؓ کو اور پھر حضرت عثمان بن عفانؓ سب میں افضل اور بہتر قراردیا جاتا تھا (بخاری: ۵۵۶۳)۔

ابوبکرؓ۔ فضائل: اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بناکر بھیجا تو تم لوگوں نے کہا تھا کہ میں جھوٹ بولتا ہوں لیکن ابوبکر ؓ نے کہا تھا کہ میں سچا ہوں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ میری مدد کی تھی۔ تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ نبی کریم کے اس فرمان کے بعد کسی نے حضرت ابوبکر ؓ کو نہیں ستایا (بخاری: ۱۶۶۳)۔ عمرو بن العاص ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عائشہ ؓ سے۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا اور مردوں میں؟ تو جواب ملا: عائشہؓ کے باپ سے۔ انہوں نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عمر بن خطاب ؓسے (بخاری: ۲۶۶۳)۔جو شخص تکبر کی نیت سے اپنا کپڑا (تہبند، پاجامہ وغیرہ) زمین پر گھسیٹتا ہواچلے تواللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن نظررحمت سے نہیں دیکھے گا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: میرے کپڑے کا ایک حصہ لٹک جایا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آپ تو ایسا تکبر کے خیال سے نہیں کرتے (بخاری: ۵۶۶۳)۔حضرت علی ؓ  کے تیسرے بیٹے المعروف محمد بن حنفیّہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدسے پوچھا کہ سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ تو جواب ملا کہ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ۔ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ تو جواب ملا کہ حضرت عمرؓ ہیں۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر اب پوچھا کہ پھر کون تو وہ کہہ دیں گے کہ حضرت عثمان غنی  ؓ۔ اس لیے خود ہی کہا کہ اس کے بعد تو آپ ہیں؟ حضرت علیؓ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں (بخاری: ۱۷۶۳)۔ 

ابوبکرؓ۔ امامت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں نماز کے وقت حکم دیا کہ ابوبکر ؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے آگے بڑھے۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد تشریف لائے اور حضرت ابوبکر ؓ کواپنی جگہ کھڑے رہنے کے لئے کہا اور خود حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بائیں طرف بیٹھ گئے۔ یوں ابو بکر ؓ نے آپ ﷺ کی امامت میں اور لوگوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی امامت میں نماز ادا کی۔ بیماری کے ان ایام میں آخری تین دن تک نبی کریم ﷺ اپنے حجرہ سے باہر نہ نکلے اور آپ ؐ کے اصرار پر حضرت ابوبکرؓ  نماز کی امامت کراتے رہے  (بخاری:۴۶۶؛۸۷۶ تا ۳۸۶؛۲۱۷ تا ۳۱۷؛ ۶۱۷)۔انتقال والے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے وقت حجرہ عائشہ ؓ کا پردہ ہٹا کرمسجد میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام ؓ کو نماز پڑھتے دیکھا تو کھل کر مسکرا دئے۔ (بخاری:۵۰۲۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں بہ تکرار فرمایا کہ ابوبکر ؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (بخاری: ۴۸۳۳؛ ۵۸۳۳)۔ 

 ابوبکرؓ۔ خلافت: ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ؐ نے اسے کہا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا کہ اگر میں آؤں اور آپ کو  حیات نہ پاؤں تو؟ آپ ؐ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاسکو تو ابوبکر ؓکے پاس چلی جانا  (بخاری: ۹۵۶۳)۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ خلیفہ بنے تو فرمایا: میرا کاروبار میرے گھر والوں کی گزر اوقات کے لیے کافی رہا ہے۔ لیکن اب میں تجارت کی بجائے مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں۔ اس لئے اب میرے اہلِ خانہ اب بیت المال میں سے کھائیں گے اور میں مسلمانوں کا مالِ تجارت بڑھاتا رہوں گا (بخاری:۰۷۰۲)۔  فرمان ابوبکرؓ:  اللہ کی قسم! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کرے (بخاری: ۴۸۲۷؛ ۵۸۲۷)۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرض الموت میں فرمایا کہ مجھے میرے اس پہنے ہوئے کپڑے میں دو اور کپڑے ملاکر کفن بنا دینا کیونکہ نئے کپڑوں کا مُردے سے زیادہ زندہ آدمی مستحق ہوتا ہے (بخاری:۷۸۳۱)۔ 

 ابوبکرؓ۔ ہجرت: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو قارہ کے سردار مالک بن الدغنہ نے کفار قریش کے اشرافیہ سے کہا کہ آپ جیسے مہمان نواز، حق بات کی مدد اور مجبوروں کا بوجھ اٹھانے والے کو اپنے وطن سے نہیں نکا لا جاسکتا۔ میں انہیں اپنی امان دیتا ہوں۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی مان مان لی۔بعد ازاں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کی اجازت ملنے کی امید دلائی تو انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنے دو اونٹ مختص کردئے (بخاری: ۷۹۲۲؛۵۰۹۳)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توآپ کے اصحاب میں سب سے بڑی عمر کے حضرت ابوبکرؓ کے بال ہی سفید ہورہے تھے چنانچہ آپ نے مہندی اور وسمہ کا خضاب استعمال کیا تھا جس سے بالوں کا رنگ خوب سرخی مائل بہ سیاہی ہوگیا تھا (بخاری: ۹۱۹۳؛ ۰۲۹۳)۔

 ابوبکرؓ۔ اہل بیت: حضرت ابوبکر ؓ نے مسجد کے باہر کھیلتے ہوئے حضرت حسنؓ کواپنے کندھے پربٹھا لیااور فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔ تم میں نبی ﷺکی شباہت ہے، علیؓ کی نہیں (بخاری: ۲۴۵۳)۔حضرت حسن ؓ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری شباہت موجود تھی (بخاری: ۳۴۵۳؛ ۴۴۵۳)۔ 

ابوبکرؓ۔ وفات ِ نبیؐ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا تھا کہ اللہ کی قسم! نبی کی وفات نہیں ہوئی ہے۔اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ جان لے کہ محمدﷺ کی وفات ہوچکی ہے۔ اور جوشخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس موقع پر ایک انصاری صحابی سعد بن عبادہ ؓ نے کہا کہ اب ایک امیر انصار میں سے ہوگا اور ایک مہاجرین میں سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہیں اہل قریش امراء ہیں اور اہل انصار وزراء۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ نہیں۔ ہم آپ ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ کے نزدیک ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو پھر سب لوگوں نے بھی حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی  (بخاری: ۷۶۶۳؛ ۸۶۶۳)۔

صحابی۔ ابوذر غفاریؓ:
 حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو رسول اللہ کی نبوت کا علم ہوا تو پہلے اپنے بھائی انیس کو معلومات کے لیے مکہ بھیجا۔ بھائی کی باتوں سے مطمئن نہ ہوئے توپھر خود مکہ پہنچے اورمسجد الحرام میں ہی ٹھہر گئے۔ دو دن تک حضرت علی ؓ نے اجنبی مسافر کی میزبانی کی اور تیسرے دن یہاں آنے کا سبب پوچھنے کے بعد آپ کو  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملوا دیا۔ نبی کریم ﷺ کی دعوت سن کر آپ ایمان لے آئے اور مسجد الحرام میں آکر بلند آواز سے اپنے ایمان کا اعلان کیا تو سب مشرکین مکہ نے مل کر انہیں مارا۔ اتنے میں حضرت عباس ؓوہاں پہنچے اور انہیں مشرکین سے یہ کہہ کر چھڑایا کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے (بخاری: ۲۲۵۳؛۱۶۸۳)۔

صحابی۔ ابو عبیدہ بن جراح   ؓ:
  ہر امت میں امین ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں (بخاری: ۴۴۷۳)۔

صحابی ابی بن کعبؓ:
 نبی کریم صلی اللہ علیہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن کی سورۃ  لم یکن پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا: کیا اللہ نے آپ سے میرا نام بھی لیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ یہ سن کر ابی بن کعب رونے لگے (بخاری:۹۵۹۴ تا ۱۶۹۴)۔

صحابی۔ اسید و عبادؓ:
حضرت اسید بن حضیر اور عباد بن بشرؓ نبی کریم  ﷺ کے پاس سے رات کی تاریکی میں اٹھ کر گئے تودو چراغ کی طرح کی کوئی چیز ان کے آگے روشنی کرتی جاتی تھی۔ پھر جب وہ دونوں اپنے اپنے گھر کی طرف مڑے تو وہ چیزدونوں کے ساتھ الگ الگ ہوکر چلنے لگی۔ یوں وہ اپنے گھر پہنچ گئے(بخاری: ۹۳۶۳؛ ۵۰۸۳)۔ 

صحابی۔ ابو اسید ساعدی  
جب ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ کو دعوت دی۔اس موقع پر کھانا ان کی دلہن ہی نے بنایا اور پیش کیا تھا۔کھانے کے بعد کھجور کا شربت پیش کیا (بخاری: ۶۷۱۵؛ ۲۸۱۵؛ ۳۸۱۵)۔


صحابی۔ بلالؓ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں اپنے آگے حضرت بلال ؓ کے جوتوں کی چاپ سنی۔(بخاری:۹۴۱۱)۔حضرت بلال ؓ  نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا ہے تو پھر اپنے پاس ہی رکھئے۔ لیکن اگر اللہ کے لیے خریدا تو پھر مجھے آزاد کردیجئے اور اللہ کے راستے میں عمل کرنے دیجئے (بخاری: ۵۵۷۳)۔

صحابی۔ جعفر بن ابی طالبؓ:
فرمان ابو ہریرہؓ: مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص جعفر بن ابی طالب ؓ تھے۔ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا، کھلا دیتے (بخاری: ۲۳۴۵)۔

صحابی۔ حاطبؓ:
حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین مکہ کی طرف ایک خط میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رازوں کی خبر لکھ بھیجی۔ خط پکڑے جانے پر حاطب نے کہا کہ انہوں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ مکہ والوں پر احسان کرنے کے لیے کیا تاکہ وہ مکہ میں میرے عزیزوں کی حفاظت کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب نے سچ کہا۔ یہ بدر کی لڑائی میں شریک رہے ہیں اور بدری مجاہدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماچکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کرچکا ہوں (بخاری: ۷۰۰۳؛ ۱۸۰۳؛ ۴۷۲۴؛ ۰۹۸۴؛ ۹۵۲۶)۔

صحابی۔ خزیمہ انصاریؓ:
 قرآن مجید کو مصحف کی صورت میں جمع کرتے وقت صحابہ کرام ؓ کو سورۃالاحزاب کی آیت:۳۲ (اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے) لکھی ہوئی کہیں نہیں مل رہی تھی، حالانکہ یہ آیت انہیں یاد تھی۔ بالآخر وہ آیت انہیں حضرت خزیمہ انصاری ؓ کے پاس سے مل گئی، جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مومن مردوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا (بخاری:۴۸۷۴)۔

صحابی۔ زبیرؓ:
جنگ احزاب کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی نقل و حرکت کی خبر لاسکے۔ چنانچہ حضرت زبیر ؓ کئی مرتبہ اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ کی طرف گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتحال سے آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرط مسرت سے ارشادفرمایا: میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں  (بخاری: ۰۲۷۳)۔

صحابی۔ زید بن عمروبن نفیلؓ:
نزول وحی سے پہلے زید بن عمروبن نفیل ؓ  قریش پر ان کے ذبیحہ کے بارے میں عیب لگایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دستر خوان پرکھانے سے انکار کرتے ہوئے دسترخوان بچھانے والوں سے کہا تھا کہ اپنے بتوں کے نام پر جو تم ذبیحہ کرتے ہو، میں اسے نہیں کھاتا۔ میں تو بس وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔آپ آپ دین خالص کی تلاش میں شام گئے اور ایک یہودی سے اس کے دین کے بارے میں پوچھا۔ پھر ایک نصرانی پادری سے اس کے دین کے بارے میں پوچھا۔ ان دونوں نے انہیں ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کے بارے میں بتلایا کہ وہ نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔پھر زید بن عمروؓ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا کی: اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔آپ بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسا کرنے والوں سے کہتے کہ بیٹی کی جان نہ لے۔پھر اس کے تمام اخراجات کا ذمہ لے کر اس لڑکی کی پرورش کرتے (بخاری:۶۲۸۳ تا ۸۲۸۳)
 
صحابی۔ سائب بن یزیدؓ:
حضرت سائب بن یزید ؓ چورانوے (۴۹) برس کی عمر میں بھی خاصے قوی اور توانا تھے اور کہتے تھے یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ میری خالہ ایک مرتبہ دعائے صحت کرانے کے لیے مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لے کر گئی تھیں (بخاری: ۰۴۵۳؛ ۱۴۵۳)۔

صحابی۔ سعد بن معاذؓ:
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا تھا(بخاری:۳۰۸۳)۔یہود بن قریظہ نے سعد بن معاذ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ  ؓ کی آمد پر فرمایا تھا: اپنے سب سے بہتر شخص، اپنے سردار کو لینے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ پھرسعد ؓ نے فیصلہ سنایا کہ جنگ کرنے والوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ اس فیصلہ پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا(بخاری:۴۰۸۳)۔سعد بن معاذ  ؓ کا اپنے جاہلیت کے دوست امیہ بن خلف کے ہاں قیام، طواف کعبہ پر ابو جہل سے تکرار، سعد کا یہ کہنا کہ نبی ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ ابوجہل تجھے قتل کرائے گا اور جنگ کے لیے بلانے کے بعد امیہ کا مارا جانا   (بخاری:۰۵۹۳)

 صحابی۔ سعد بن وقاصؓ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف سعد بن وقاص ؓ پر صدقے واری ہوتے دیکھا گیا۔ آپ فرمارہے تھے: سعد! تیر برساؤ۔ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں (بخاری: ۵۰۹۲)۔ غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاصؓ سے کہا: میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں  (بخاری: ۵۲۷۳)۔سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ ہم ابتدائے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں اس طرح شرکت کرتے تھے کہ ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا تھا(بخاری: ۸۲۷۳)۔ایک رات نبی کریم ﷺ کو نیند نہیں آرہی تھی تو آپ نے فرمایا: کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مرد میرے لیے آج رات پہرہ دیتا۔اتنے میں ہتھیاروں کی آواز آئی اور سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میں آپ کے لیے پہرہ دینے آیا ہوں۔ پھر نبی کریم ﷺ سوگئے یہاں تک کہ آپؐ کے خراٹے کی آواز آنے لگی (بخاری: ۱۳۲۷)۔

صحابی۔ عبدالرحمن بن عوفؓ:
مدینہ کے امیر ترین انصاری سعد بن ربیع انصاریؓ نے اپنے مواخاتی بھائی عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اپنا آدھا مال اور اپنی دو بیویوں میں سے ایک بیوی سے بعد از طلاق شادی کی پیشکش کی تو ؑعبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے دونوں پیشکش کو قبول نہ کرتے ہوئے مدینہ کے بازار قینقاع میں پنیر اور گھی کا کاروبار شروع کردیا اورکچھ ہی دنوں میں شادی کرلی۔ایک دن آپ کے جسم یا کپڑوں پر زعفران کا نشان دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا شادی کرلی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ایک انصاری خاتون سے شادی کی ہے، جسے مہر میں ایک گھٹلی کے برابر سونا دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی کا ہو  (بخاری:۸۴۰۲؛ ۹۴۰۲؛ ۲۷۰۵؛ ۷۶۱۵)۔
 
صحابی۔ عبد اللہ بن زبیرؓ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کی کسی خیرات پر ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے کہا کہ عائشہ ؓ کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہئے۔ اس بات کو سن کر حضرت عائشہ ؓ نے قسم کھالی کہ وہ اب  ابن زبیر ؓ سے کبھی نہیں بولیں گی۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے مختلف اصحاب سے سفارش کروائی اور بالآخرخود ان سے رو رو کر معافی مانگی تو حضرت عائشہؓ نے قسم توڑ دی اور کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے  (بخاری: ۳۷۰۶ تا  ۵۷۰۶)۔

صحابی۔ عبداللہ بن سلام  ؓ:
اسلام لانے سے قبل یہود کے بڑے عالم حضرت عبداللہ بن سلام ؓ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تین سوال کا جواب پوچھتے ہوئے کہا کہ ان کے جوابات نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے ان کے جوابات ابھی جبرئیل علیہ السلام نے آکر بتلایا ہے۔قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی۔ جنت میں پہلی ضیافت مچھلی کی کلیجی ہوگی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچہ باپ کی صورت  میں ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آجائے تو بچہ ماں پر جاتا ہے۔ یہ جوابات سنتے ہی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کلمہ پڑھ کر اسلام لے آئے(بخاری:۸۳۹۳؛ ۰۸۴۴)  

عبداللہ بن مسعودؓ:
 عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم! صحابہ کرام ؓ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ میں نے ستّر ( ۷۰) سے زائد سورتیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر حاصل کی ہیں۔ قرآن کی ہر سورت کے بارے میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری: ۰۰۰۵؛ ۲۰۰۵)۔

صحابی۔ خلیفہ عثمانؓ:
حضرت عثمان ؓ اپنی زوجہ(بنت رسول اللہ) کی بیماری کے سبب غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بدری مجاہدین کے برابر ثواب بھی ملے گا اور مالِ غنیمت میں حصہ بھی (بخاری: ۰۳۱۳)۔  ایک مصری حاجی نے حج بیت اللہ کے بعدحضرت عبداللہ عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ کیا حضرت عثمان ؓ بدر اور اُحد کی لڑائی کے ساتھ ساتھ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا کہ غزوہ اُحد میں عدم شرکت پر اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تھا۔ بدر کی لڑائی میں اس لیے شریک نہ ہوئے تھے کہ اس وقت آپ کی اہلیہ (بنت رسولﷺ) بیمار تھیں اور نبی کریم ﷺ نے انہیں مریضہ کے پاس ٹھہرنے پر بدری مجاہدین کے برابر ثواب اور مال غنیمت کی یقین دہانی کروائی تھی۔ جب بیعت رضوان کے وقت رسول اللہ نے آپ کو قریش سے مذاکرات کے لیے مکہ بھیجا ہوا تھا اسی لئے بیعت رضوان کے وقت نبی کریم نے اپنے داہنے ہاتھ کو حضرت عثمان ؓکا ہاتھ قرار دیکر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے (بخاری: ۹۹۶۳؛ ۶۶۰۴)۔

صحابی۔ خلیفہ علیؓ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ ؓ کی رخصتی کرانے کے بعد اپنے ولیمہ کے اخراجات کے لیے خوشبودار اذخر گھاس جمع کرکے سناروں کو بیچنے کا ارادہ کیا۔ حضرت علی ؓ کومالِ غنیمت اور خمس میں سے ایک ایک اونٹ بھی ملا تھا (بخاری:۹۸۰۲)۔ 

علیؓ۔ رب(معاذ اللہ): حضرت علی ؓ کو اپنا رب ماننے والی عبداللہ بن سبا کی متبع قوم کو حضرت علیؓ نے جلا دیا تھا۔عبداللہ بن عباس ؓ نے یہ خبر سن کر کہا: اگرمیں ہوتا تو انہیں کبھی نہ جلاتا البتہ قتل ضرور کرتا کیونکہ مرتد کی سزا قتل ہے اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذاب (آگ)کی سزا کسی کو نہ دو (بخاری: ۷۱۰۳)۔ 

علیؓ۔وحی، اہل بیت: جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرات اہلِ بیت کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے تو آپ نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں جو قرآن میں نہ ہو۔(بخاری:۷۴۰۳)۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خطبہ:ہمارے پاس کتاب اللہ اور ایک ورق کے سوا احکام شریعت کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس ورق میں قصاص و دیت کے احکام اورمدینہ کے حرم کی حدود ہیں جو عیر پہاڑی سے احد پہاڑی تک ہیں۔(بخاری: ۲۷۱۳)۔ حضرت علی ؓنے منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم!  ہمارے پاس قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں جسے پڑھا جائے، سوائے اس صحیفہ کے، جس میں دیت میں دئے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ یہ لکھا تھا کہ مدینہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے، اس پر اللہ، فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا (بخاری: ۰۰۳۷)۔

علیؓ۔ فرمودات: جس نے شریعت کے اندر کوئی نئی بات داخل کی تو اس پر اللہ، ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہے۔ نہ اس کی فرض عبادات قبول ہوں گی اور نہ نفل۔ (بخاری: ۲۷۱۳؛ ۹۷۱۳)۔ جو لونڈی غلام اپنے مالک کے سوا کسی دوسرے کو مالک بنائے اس پر لعنت ہے۔ (بخاری: ۲۷۱۳؛ ۹۷۱۳)۔ کسی مسلمان کی طرف سے کسی کافر کو دی گئی پناہ میں کسی نے دخل اندازی کی تو اس پر لعنت ہے کیونکہ مسلمان سب برابر ہیں اور ہر ایک کا ذمہ یکساں ہے (بخاری: ۲۷۱۳؛ ۹۷۱۳)۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی میت کے پاس آکر فرمایا تھا: مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ) کے ساتھ ہی دفن کرائے گا۔ کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتا تھا کہ: میں ؐ، ابوبکرؓ اور عمر ظتھے؛ میں ؐ نے، ابوبکرؐ نے اور عمرؐ نے یہ کام کیا؛  میں ؐ، ابوبکرؓ اور عمر ؓگئے۔ اس لیے مجھے امید تھی کہ اللہ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا (بخاری: ۷۷۶۳؛ ۵۸۶۳)۔

علیؓ۔ خیبر:غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں اسے اسلامی جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو طلب کیا تو ان ہوں نے آنکھوں میں درد کی شکایت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تھوک مبارک حضرت علی ؓ کی آنکھوں میں ڈالا اور دعا کی تو وہ مکمل شفا یاب ہوگئے۔پھر نبی کریم ﷺ نے علم حضرت علی ؓ کو دیا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں خیبر فتح کروایا (بخاری: ۱۰۷۳؛ ۲۰۷۳)۔

علیؓ۔ ابوتراب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹی فاطمہؓ کے گھر آئے اور حضرت علیؓ کو نہ پاکر پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ بی بی فاطمہؓ نے بتلایا کہ وہ مسجد میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے  تو دیکھا کہ سوتے میں چادر پیٹھ کے نیچے سے الگ ہوگئی ہے اور کمر پر اچھی خاصی مٹی لگ چکی ہے۔ آپ ؐنے مٹی ہی مناسبت سے کہا: اے ابوتراب! اٹھو۔حضرت علیؓ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے کوئی اور نام پسند نہ تھا (بخاری: ۳۰۷۳)۔

علیؓ۔ نائب رسولؐ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے جانے سے پہلے حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنا نائب بناتے ہوئے فرمایا: کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ  ؑ کے لیے ہارون  ؑ تھے (بخاری: ۶۰۷۳؛ ۶۱۴۴)۔

صحابی۔ خلیفہ عمرؓ:
عمرؓ۔ فضائل: سابقہ امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ میری امت میں ایسا کوئی شخص ہے تو وہ عمر ؓہیں۔ سابقہ امتوں کچھ ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے کہ نبی نہ ہونے کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے۔ میرے امت میں اگر کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ عمر ؓہیں (بخاری: ۹۶۴۳؛۹۸۶۳)۔ اے عمرابن خطابؓ! اللہ کی قسم اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے (بخاری:۴۹۲۳؛ ۳۸۶۳؛ ۵۸۰۶)۔میں نے خواب میں کچھ لوگوں کودیکھا جو قمیص پہنے ہوئے تھے۔ بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی۔ بعض کی اس سے بھی چھوٹی۔ حضرت عمرؓ کی قمیص اتنی بڑی تھی کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی اوریہاں قمیص سے مراددین ہے (بخاری: ۱۹۶۳)۔ میں نے جنت میں ایک محل دیکھا۔ فرشتوں نے بتلایا کہ یہ عمر بن خطاب ؓ کا ہے۔ میں محل کے اندر جانا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ عمرؓ غیرت مند ہیں۔ مجلس میں موجود عمرؓ یہ سن کر رو دئے اور کہا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ سے غیرت کروں گا (بخاری: ۶۲۲۵؛ ۷۲۲۵)۔

عمرؓ۔ قبول اسلام: عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کے بعد ہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے (بخاری:۳۶۸۳)۔ حضرت عمرؓ اسلام لانے کے بعد قریش کے ڈر سے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عاص بن وائل سہمی آپ سے ملنے آیا۔ حضرت عمرؓ نے عاص سے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ عاص نے کہا کہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو کہہ رہا ہے کہ ہم عمر بن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بے دین ہوگیا ہے۔ عاص نے کہا کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا،  میں اسے پناہ دے چکا ہوں۔یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے (بخاری:۴۶۸۳؛ ۵۶۸۳)۔


عمرؓ۔ صدقہ، خیرات: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کرائیں تو ایک چادر بچ گئی۔ ایک صحابی نے عرض کی: یا امیر المؤمنین! یہ چادر اُم کلثوم بنت علی ؓ کو دے دیجئے جو آپ کے نکاح میں ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس چادر کی زیادہ مستحق اُم سلیط ؓ ہیں جو غزوہ اُحد میں ہمارے لیے پانی کی مشک بھر بھر کر لاتی تھیں (بخاری:۱۷۰۴)۔ حضرت خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے امیر المومنین حضرت عمر ؓ سے ملاقات کرکے اپنی بیوگی، چھوٹی چھوٹی بچیوں اور فقر و فاقہ کا احوال سنایا تو حضرت عمر نے انہیں ایک اونٹ پر دو بورے غلے اور ان کے درمیان دیگر اشیائے ضرورت رکھ کر دئے اور فرمایا:اس لے جاؤ۔ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تجھے اس سے بہتر دے گا (بخاری:۰۶۱۴؛ ۱۶۱۴)۔ فرمان حضرت عمر ؓ: اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی بھی میرے دور میں فتح ہوتی، میں اسے اسی طرح تقسیم کردیتا، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی تقسیم کردی تھی (بخاری: ۶۳۲۴)۔

عمرؓ۔ خطبہ، وصیت: خلیفہ حضرت عمر ؓ نے مدینہ میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: اللہ نے محمد ﷺ کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا۔ اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی (بخاری: ۳۲۳۷)۔حضرت عمر ؓ کی وصیت:میرے بعد آنے والا خلیفہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ انصار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھر میں جگہ دی لہٰذا ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو بُرے ہوں،ان سے در گزر کیا جائے۔غیر مسلموں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے (بخاری: ۲۹۳۱)۔

عمرؓ۔ قتل، تدفین: فجر کی نماز کے لیے صف کے اندر موجود عمرو بن میمون ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر  ؓ صفوں کے درمیان سے حسب معمول یہ کہتے ہوئے امام کے مصلے کی طرف بڑھے کہ اپنی اپنی صفیں سیدھی کرلو۔ اس دن آپ نے ابھی تکبیر ہی کہی تھی کہ فرمانے لگے: مجھے قتل کردیا کیونکہ بد بخت ابو لولو نے آپ کو خنجر سے زخمی کردیا تھا۔ وہ لوگوں کو زخمی کرتا بھاگنے لگا۔ اس دوران اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کیا، جن میں سے سات نے شہادت پائی۔ حطان نامی ایک شخص نے ابو لولو پر اپنی چادر ڈال کر اسے بے بس کردیا تو اس نے پکڑے جانے کے خوف سے خود اپنا گلا بھی کاٹ لیا۔عبد الرحمن بن عوف ؓ نے ہلکی نماز فجر پڑھائی۔ حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر انہیں بتایا گیا کہ حضرت مغیرہ کے غلام کاریگر ابو لولو نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں مقدر نہیں کی جو اسلام کا مدعی ہو۔پھر آپ نے اپنے ذمہ چھیاسی ہزار قرض کی ادائیگی کے لیے وصیت کی اور فرمایاکہ حضرت عائشہؓ  سے نبی ﷺ کے پہلو میں مجھے دفن کرنے کی اجازت طلب کرنا، وہ اجازت دے دیں تو ٹھیک ورنہ عام قبرستان میں مجھے دفن کردینا۔ حضرت عمر ؓ کی تدفین کے بعد لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضرت علی ؓ نے بھی بیعت کی۔ پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی (بخاری: ۰۰۷۳)۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت طلب کی تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:یہ جگہ میں نے اپنے لیے پسند کررکھا تھا۔ مگر اب میں اپنے آپ پر حضرت عمر  ؓ کو ترجیح دیتی ہوں (بخاری:۲۹۳۱)۔ 

صحابی۔ کعب بن مالکؓ:
حضرت کعب بن مالک ؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ غزوہ تبوک میں اپنی عدم شرکت کی توبہ قبول ہونے کی خوشی میں مَیں اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں خیرات کرتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنا تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (بخاری:۶۷۶۴)۔ حضرت کعب بن مالک ؓ کی غزوہ تبوک میں عدم شرکت پر نبی کریم ﷺ کے کہنے پر پچاس دن تک صحابہ کرامؓ کا ان سے گفتگو نہ کرنا اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی توبہ قبول کرنا (بخاری:۷۷۶۴)۔

صحابیہ۔ اُم ہانی  ؓ:
 فتح مکہ کے بعد حضرت علی ؓ کی بہن اُم ہانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورشکایت کی کہ میں جعدہ بن ہبیرہ کو پناہ دے چکی ہوں مگر حضرت علیؓ کے قتل کے درپے ہیں۔ یہ سن کرآپ ؐ نے فرمایا:  جسے تم نے پناہ دی، اسے میری طرف سے بھی پناہ ہے (بخاری: ۱۷۱۳)۔

صحابیہ۔ اُم المومنین خدیجہ ؓ:
خدیجہؓ۔فضائل:حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ! حضرت خدیجہ آپ کے پاس کھانا لے کر آرہی ہیں۔ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے اور میری طرف سے انہیں سلام پہنچا دیجئے گا اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجئے گا (بخاری:۰۲۸۳؛ ۷۹۴۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی:  حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت میں ایک موتی کے گھر کی بشارت ہو، جس میں نہ کسی قسم کا شور و غل ہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ (بخاری:۲۹۷۱)۔

خدیجہؓ۔غارِ حرا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے حضرت خدیجہؓ کے پاس لوٹے تو آپ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ حضرت خدیجہ آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو نصرانی ہوگئے تھے تو انہوں نے بتلایا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ اگر میں آپ کے زمانے تک زندہ رہا تو آپ کی پوری مدد کروں گا (بخاری: ۲۹۳۳)۔ 

خدیجہؓ۔ عائشہؓ: حضرت عائشہ ؓ کا فرمان:میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں اتنی غیرت محسوس نہیں کی جتنی غیرت حضرت خدیجہ ؓ کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی حالانکہ وہ میرے نکاح سے تین سال پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔لیکن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کا ذکر سنتی رہتی تھی اور اللہ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا تھا کہ انہیں جنت میں موتی کے محل کی خوش خبری سنا دیں۔ نبی کریم ﷺ اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ ؓ کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے (بخاری:۶۱۸۳ تا ۹۱۸۳؛ ۹۲۲۵؛۴۸۴۷)۔


صحابیہ۔ اُم المومنین عائشہ ؓ:
عائشہ ؓ۔فضیلت: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم مجھے دو مرتبہ خواب میں دکھلائی گئی۔تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا جارہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں ان کا چہرہ کھولئے۔ میں نے چہرہ کھول کر دیکھا تو تم تھیں (بخاری:۵۹۸۳)۔اے اُم سلمہؓ!  عائشہؓ کے بارے میں مجھ کو نہ ستاؤ۔ عائشہؓ کے علاوہ تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی (بخاری: ۵۷۷۳)۔فرمانِ حضرت عائشہ ؓ: اللہ نے ہمارے خاندان یعنی آلِ ابو بکر کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں کی البتہ مجھ پر لگی تہمت سے برات ضرور نازل کی تھی (بخاری:۷۲۸۴)۔عائشہؓ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: محمد ﷺ کے رب کی قسم اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: جی ہاں! اللہ کی قسم! غصے میں صرف آپ کا نام نہیں لیتی (بخاری: ۸۲۲۵)۔حضرت عائشہ ؓ  کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ خیال کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ ایسا کرنا یہودیوں کا فعل ہے (بخاری: ۸۵۴۳)۔

عائشہ ؓ۔ تیمم: ایک سفر کے دوران  حضرت عائشہ ؓ  کا ہار گم ہوگیا تو اس کی تلاش کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کو وہیں ٹھہرا لیا۔ وہاں کہیں پانی نہ تھا اور نہ ہی اہل قافلہ کے پاس پانی تھا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق  ؓ سے اس بارے میں شکایت کی تو حضرت ابوبکر صدیق  ؓ، حضرت عائشہؓ پر سخت خفا ہوئے۔ جب صبح ہوئی اور وضو کے لیے پانی بالکل نہ تھا تو اللہ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا۔ پھرجس اونٹ پر حضرت عائشہؓ سوار تھیں، اسے اٹھایا گیا تو اسی کے نیچے سے ہار مل گیا (بخاری: ۲۷۶۳؛  ۳۷۷۳؛ ۷۰۶۴؛ ۸۰۶۴)۔

 عائشہ ؓ۔ نکاح: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا تھا اور رخصتی کے وقت میری عمر نو سال تھی (بخاری:۴۹۸۳) ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے تین سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوچکی تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے دو سال بعد آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے نکاح کیا، جب ان کی عمر چھہ سال تھی۔ جب رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں (بخاری:۶۹۸۳)۔

عائشہ ؓ۔ تہمت: ایک غزوہ سے واپسی میں مدینہ کے قریب ایک پڑاؤ کوجب اٹھانے کا اعلان ہوا تو شریک سفر حضرت عائشہؓ رفع حاجت کے لیے قافلہ سے دور چلی گئیں۔ قافلہ کی طرف واپسی میں اپنے گلے کا ہار گم پاکر بی بی عائشہؓ نے اسی راستہ میں ہار تلاش کرنا شروع کردیا۔ اس دوران قافلہ روانہ ہوگیا تو وہ اپنے اونٹ کی جگہ کے پاس آکر بیٹھ گئیں اور ان کی آنکھ لگ گئی۔ اسی دوران قافلہ کے پیچھے لشکریوں کی گری پڑی چیزیں اٹھانے کی خدمت پر مامور حضرت صفوان رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے۔حضرت عائشہ ؓ اُن کے اونٹ پر بیٹھ کر قافلہ تک پہنچیں تواس بات کا بتنگڑ بن گیا اور بی بی عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوں میں منافق عبداللہ بن ابیابن سلول پیش پیش تھا۔اس طرح کی باتوں کا سلسلہ ایک ماہ تک چلتا رہا حتیٰ کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ حضرت عائشہؓ کی برات کا اعلان کردیا (بخاری:۱۶۶۲؛ ۱۴۱۴؛  ۳۴۱۴)۔ واقعہ تہمت کا سن کر حضرت عائشہ کو اس صدمہ سے بخار آگیا تھا۔ (بخاری: ۸۸۳۳)۔جب اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو اس بارے میں وحی آنے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ ؓ سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا: ہم آپ کی زوجہ مطہرہ کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتے۔ اُم المومنین کی باندی حضرت بریرہ ؓ نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جاسکے سوائے نوعمری کی اس لاپرواہی کے کہ وہ آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں اور بکری آٹا کھالیتی ہے۔یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا(بخاری:۷۳۶۲)۔تہمتِ عائشہؓ  کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کی غرض سے علیؓ بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا۔ اسامہ ؓ نے توزوجہ رسول کی برات کی بات کی لیکن حضرت علی ؓنے فرمایا: اللہ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں (بخاری: ۹۶۳۷)۔ تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی معلوم نہیں ہوئی (بخاری: ۰۷۳۷)۔فرمانِ عائشہؓ: اللہ کی قسم! مجھے یہ خیال نہ تھا کہ اللہ میری پاکی بیان کرنے کے لیے وحی نازل کرے گا، جس کی تلاوت کی جائے گی۔ البتہ مجھے امید تھی کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ خواب میں میری برات کے بارے میں آگاہ کردے گا (بخاری: ۰۰۵۷)۔  فرمان عائشہؓ: مجھے یہ تو یقین تھا جب میں اس تہمت سے بری ہوں اللہ بھی برات کرے گا۔ لیکن مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن میں آیات نازل ہوں گی، جنہیں قیامت تک تلاوت کیا جائے گا (بخاری: ۵۴۵۷)۔
 
عائشہ ؓ۔ وفات، وصیت: حضرت عائشہ ؓ کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت ابن عباس ؓ آپ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی ہے (بخاری:۳۵۷۴)۔ اُ م المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وصیت:مجھے نبی کریم ﷺ اور آپ ؐکے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ بقیع غرقد میں میری دوسری سوکنوں کے ساتھ دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری تعریف بھی ہوا کرے (بخاری:۱۹۳۱)۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیرؓ سے کہا کہ مجھے انتقال کے بعد میری سوکنوں  کے ساتھ دفن کرنا اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حجرہ میں دفن نہ کرنا۔ میں نہیں چاہتی کہ میری آپ کی دیگر بیویوں سے زیادہ پاکی بیان کی جائے (بخاری: ۷۲۳۷)۔

عائشہ ؓ۔ عمرؓ: حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عمرؓ  کی درخواست پر انہیں نبی کریم ﷺ کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت دی تھی۔ حالانکہ ان سے پہلے جب کوئی صحابی آپؓ سے وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگتے تو وہ منع کردیتیں تھیں (بخاری: ۸۲۳۷)۔ 

صحابیہ۔ اسماء بنت ابو بکرؓ:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ کو ذات النطا قین یعنی دو کمر بندوں والی اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ اور نہ ملنے پر اپنے والد کے کہنے پر اپنی کمر بند کے ہی دو ٹکڑے کرکے ایک سے ناشتہ اور دوسرے سے پانی کا باندھ کر رسول اللہ کے ہجرت مدینہ کے لئے ناشتہ تیار کیا تھا(بخاری:۹۷۹۲)۔

صحابیہ۔ اُم المومنین زینبؓ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المومنین سے فرمایا: آخرت میں تم میں سے سب سے پہلے مجھے وہ ملے گی جس کا ہاتھ لمبا  ہوگا یعنی وہ سب سے زیادہ سخی ہوگی۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ؐ سے جا ملیں تھیں (بخاری:۰۲۴۱)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے گھر میں شہد پینا اور وہاں ٹھہرنا حضرت عائشہ  ؓ  اور حضرت حفصہ ؓ  کو ناپسند تھا چنانچہ انہوں نے مل کر یہ طے کیا کہ نبی کریم ﷺ وہاں سے شہد پی کر جس کے گھر بھی آئیں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے جب ایسا ہی کہا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینبؓ کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم کھالی ہے۔ اللہ نے سورۃ تحریم آیات ایک تا چار نازل فرمائی کہ اے نبیﷺ! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہیں (بخاری:۲۱۹۴؛ ۷۶۲۵)۔اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا تمام ازواج مطہرات سے فخریہ کہتی تھیں کہ تم لوگوں کی شادی تمہارے اہل خانہ نے کی جبکہ میری شادی اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کی (بخاری: ۰۲۴۷؛ ۱۲۴۷)۔

صحابیہ۔ فاطمہؓ:
 حضرت فاطمہؓ کو چکی پیسنے میں دقت ہوتی تھی تو انہوں نے حضرت عائشہؓ کی معرفت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوآئے ہوئے قیدیوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کی درخواست کی۔نبی کریمﷺ اسی شب حجرہ فاطمہؓ میں آئے اور فرمایا:رات سونے سے قبل ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۴۳ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل بہتر ہے اس سے جو تم دونوں نے مانگا ہے (بخاری: ۳۱۱۳؛ ۵۰۷۳؛  ۱۶۳۵؛ ۲۶۳۵)۔ایک رات نبی کریم ﷺ فاطمہ بنت رسول اللہ کے گھر آئے تو  علی ؓاور فاطمہؓ سے فرمایا: کیا تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا:یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ نبی کریم ﷺ واپس پلٹ کر جاتے ہوئے کہنے لگے: انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے (بخاری: ۷۴۳۷؛ ۵۶۴۷)۔حضرت علیؓنے حضرت فاطمہؓ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی جمیلہ کو نکاح کا پیغام دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی حلال (یعنی نکاح ثانی) کو حرام اور حرام کو حلال نہیں بناتا ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔چنانچہ حضرت علی ؓ نے اس شادی کا ارادہ ترک کردیا (بخاری: ۰۱۱۳؛۹۲۷۳)۔فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناحق ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا  (بخاری: ۴ا۷۳؛ ۷۶۷۳)۔ حارث بن ہشام اور سلم بن ہشام نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابو طالب سے کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ البتہ اگر علی میری بیٹی فاطمہؓ  کو طلاق دے کر یہ نکاح کرنا چاہیں تو میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔ فاطمہ ؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو اسے برا لگے وہ مجھ کو بھی برا لگتا ہے (بخاری: ۰۳۲۵)۔ مغیرہ نے اپنی بیٹی کا نکاح علیؓ سے کرنے کی اجازت مانگی ہے لیکن میں اس کی اجازت نہیں دوں گا (بخاری: ۸۷۲۵)۔ 
 
صدقہ و خیرات:
 صدقہ۔اہل خانہ:مرنے سے قبل ایک تہائی سے زائد دولت خیرات کرجانا منع ہے۔ اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑجانا انہیں ایسا محتاج چھوڑ جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں (بخاری:۵۹۲۱؛۴۵۳۵)۔اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر جب بھی اور جو کچھ بھی خرچ کیا جائے گا تو وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا اور اُس کا ثواب ملے گایہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔ (بخاری:۵۵؛۶۵؛۵۹۲۱؛ ۸۶۶۵؛۲۴۷۲؛ ۴۵۳۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نضیر کے باغ کی کھجوریں بیچ کر اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کی روزی جمع کردیا کرتے تھے (بخاری: ۷۵۳۵)۔ہند بنت عتبہ ؓ: میرے شوہر ابو سفیان بہت کنجوس ہیں تو کیا میں ان کے مال سے ان سے پوچھے بغیر اپنے بچوں کو کھلا سکتی ہوں۔ نبی کریم ﷺ: ہاں! لیکن ایسا دستور کے مطابق ہونا چاہئے (بخاری: ۹۵۳۵؛ ۴۶۳۵؛ ۰۷۳۵)۔اگر عورت اپنے شوہر کی کمائی میں سے اس کے حکم کے بغیر دستور کے مطابق اللہ کے راستہ میں خرچ کردے تو شوہر کو بھی آدھا ثواب ملتا ہے (بخاری: ۰۶۳۵)۔اُم سلمہ ؓ: کیا مجھے اپنے پہلے شوہر ابو سلمہ ؓ کے لڑکوں پر خرچ کرنے کا ثواب ملے گا کہ وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں نبی کریم ﷺ: تمہیں ہر اس چیز کا ثواب ملے گا جو تم اُن پر خرچ کروگی (بخاری: ۹۶۳۵)۔ حضرت ابن مسعودؓ کی زوجہ زینبؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے پاس کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی ہوں لیکن میرے خاوند کا خیال ہے کہ وہ اور ان کے لڑکے(جومیری بھی اولاد ہیں) اس صدقہ کے زیادہ مستحق ہیں۔نبی کریم ﷺ نے  فرمایا کہ ابن مسعودؓ صحیح کہتے ہیں۔تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ تمہیں دُگنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اورد وسرا خیرات کرنے کا (بخاری:۲۶۴۱؛ ۶۶۴۱؛ ۷۶۴۱)۔

صدقہ۔ سنت: نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے سب سے زیادہ رقم آئی تو آپ نے اسے مسجد میں رکھوادیا اور نماز کے بعد نماز تمام رقم صحابہ ؓ میں تقسیم کردیا  (بخاری:ا۲۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آئے کچھ مال کی تقسیم کے بعد فرمایا: میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں، جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں، جن کے دلوں میں بے صبری پاتا ہوں۔ لیکن جن کے دل اللہ نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں، مَیں اُن پر بھروسہ کرتا ہوں (بخاری: ۳۲۹)۔ ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے اپنے حجرہ میں چلے گئے اور پھر فرمایا: ہمارے پاس سونے کا ایک ڈلا تقسیم ہونے سے رہ گیا تھا، جسے میں نے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا (بخاری:۱۲۲۱)۔اگر میرے پاس اُحد پہاڑکے برابر بھی سونا ہو تو میں تین دینار کے سوا تمام کا تمام اللہ کے راستے میں دے ڈالوں (بخاری:۸۰۴۱)۔اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو میں انہیں تین دن کے اندر اندر لوگوں میں تقسیم کردیتا سوائے اس کے جو میں اپنے اوپر قرض کی ادائیگی کے لیے روک لوں (بخاری: ۸۲۲۷)۔  نبی کریم ﷺ کو صدقہ کرنا بہت محبوب تھا (بخاری:۰۲۴۱)۔بحرین کے جزیہ میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر ؓ کو تین لپ مال دینے کا وعدہ فرمایا۔بحرین کا جزیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آیا توخلیفہ ابوبکر ؓ نے نبی ﷺ کا وعدہ نبھایا (بخاری:۸۹۵۲؛ ۳۸۶۲)۔

صدقہ۔ رشک: رشک کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور حق کے ساتھ خرچ کرنے کی توفیق بھی دی۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے (قرآن و حدیث اور معاملہ فہمی کی)حکمت دی اور وہ اسی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے (بخاری:۹۰۴۱)۔

صدقہ۔ صحابہؓ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو متعدد صحابہ کرام ؓ نے مال نہ ہونے کے سبب بازار جاکر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور مزدوری میں ایک مد(مساوی ساڑھے پانچ تا ساڑھے چھ سو گرام) غلہ یا کھجور حاصل کرکے اسے صدقہ میں  دے دیتے۔ (بخاری:۶۱۴۱)۔مدینہ کے انصاریوں میں سب سے مالدار ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا مسجد نبوی کے سامنے ایک باغ تھا، جو انہیں بہت مرغوب تھا۔ جب سورت آل عمران آیت۔۲۹ اتری کہ تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ ترین شئے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردو تو ابو طلحہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ باغ اللہ کی راہ میں ہے، آپ جہاں چاہیں خرچ کردیں۔پھرنبی کریم ﷺ کی نصیحت پر ابو طلحہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا (بخاری:۸۱۳۲؛۲۵۷۲؛۸۵۷۲؛ ۹۶۷۲؛  ۱۱۶۵؛۱۶۴۱)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ کے بعض صحابہ ؓ مزدوری کرکے لاتے اور بڑی مشکل سے ایک مَد کا صدقہ کرتے (بخاری:۹۶۶۴)۔ 

صدقہ۔ حلال: اللہ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے۔ چنانچہ جو حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے، اللہ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرکے اس صدقہ کو پہاڑ کے برابر کردیتا ہے(بخاری:۰۱۴۱)۔ جس نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی خیرات کی، اللہ اس خیرات کو بڑھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے(بخاری: ۰۳۴۷)۔

صدقہ۔ جہنم: جہنم سے ڈرو۔ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ دے کر ہی اپنا بچاؤ کرو۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات ہی منہ سے نکالو (بخاری: ۳۱۴۱؛ ۷۱۴۱)۔ جہنم سے بچو خواہ آدھی کھجور صدقہ کرکے یا اچھی بات کرکے(بخاری: ۳۲۰۶)۔تم میں سے جو بھی آگ سے بچنا چاہے تو اللہ کی راہ میں خیرات کرتا رہے (بخاری: ۹۳۵ ۶)۔ 

صدقہ۔ واپس لینا: اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ خریدو (بخاری:۹۸۴۱؛ ۰۹۴۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو  فی سبیل اللہ صدقہ کیا ہواگھوڑا واپس خریدنے سے منع فرمادیا تھا (بخاری:۵۷۷۲؛۰۷۹۲؛ ۱۷۹۲؛ ۲۰۰۳؛ ۳۰۰۳)۔ 

صدقہ۔ افضل: ایسے صدقہ میں زیادہ ثواب ہے جسے تم صحت کے ساتھ اس طرح کرو کہ ایک طرف تمہیں فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا۔ ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک آجائے تب تو کہے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا(بخاری:۹۱۴۱؛۸۴۷۲)۔ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے دینے کے بعد بھی آدمی مالدار رہے(بخاری:۶۲۴۱؛ ۷۲۴۱)۔  اپنا سارا مال فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ مال کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا جائے (بخاری:۷۵۷۲)۔حضرت کعب ؓ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں اپنا مال صدقہ کرنا چاہا تو آپ ؐ نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے (بخاری: ۰۹۶۶)۔    صدقہ دینے والے ہاتھ، صدقہ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہیں۔ جو دوسروں کے مال سے بے نیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہی بنا دیتا ہے (بخاری:۷۲۴۱؛ ۹۲۴۱؛ ۰۵۷۲)۔صدقہ کی سفارش کا بھی ثواب ملتا ہے (بخاری:۲۳۴۱)۔

صدقہ۔ اولین حقدار: صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں (بخاری:۶۲۴۱)۔ بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر دینے والا مالدار ہی رہے۔ خرچ کی ابتداء ان سے کرو جو تمہاری نگہبانی میں ہیں (بخاری: ۵۵۳۵؛ ۶۵۳۵)۔

صدقہ۔ تلقین: ہر مسلمان کو صدقہ کرنا چاہئے۔ اگر اس کے پاس مال نہ ہو توکچھ کماکر خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کسی فریادی کی مدد کرے یا اچھی بات پر اور بری بات سے باز رہے، یہی اس کا صدقہ ہے (بخاری:۵۴۴۱)۔ مال کے مالک کی طرف سے حکم ملنے پر خوش دلی سے صدقہ کرنے والے کو بھی صدقہ کا ثواب ملتا ہے (بخاری:۸۳۴۱)۔  جب عورت گھر کے اجناس میں سے گھر بگاڑنے کی نیت کے بغیراللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے تو اسے خرچ کرنے کااور اس کے شوہر کو کمانے ثواب ملتا ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب کو کم نہیں کرتا (بخاری:۵۶۰۲)۔اگر عورت اپنے شوہر کی کمائی اس کی اجازت کے بغیر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے آدھا ثواب ملتا ہے (بخاری:۶۶۰۲)۔صدقہ کرو۔اسے مت روکو ورنہ اللہ بھی تجھ سے روک لے گا (بخاری:۰۹۵۲)۔ مال خرچ کرو اور اسے گن گن کر مت رکھوپھر اللہ بھی تمہیں گن گن کر دے گا۔ اسے اپنے پاس نہ روکو کہیں اللہ بھی تم سے نہ روک لے (بخاری:۱۹۵۲)۔ صدقہ کرو کیونکہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب ایک شخص اپنا صدقہ لے کر پھرے گا اور کوئی اسے لینے والا نہ ہوگا (بخاری: ۰۲۱۷)۔

 صدقہ۔ اقسام: مسلمان کاریگر یا کسی بے ہنر کی مددکرنا بھی افضل عمل ہے(بخاری:۸۱۵۲)۔ لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کرنا بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کروگے (بخاری:۸۱۵۲)۔انسانی بدن کے ہر جوڑ پر اس دن کا صدقہ واجب ہے، جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے(بخاری:۷۰۷۲)۔انسان کے ہر جوڑ پر روزانہ صدقہ لازم ہے۔ مسافر کی مدد کرنا، اسے رستہ بتانا، اچھا اور پاک لفظ منہ سے نکالنا اور نماز کے لیے اٹھنے والا ہر قدم بھی صدقہ ہے (بخاری:۱۹۸۲)۔ جب مسلمان اپنی بیوی بچوں پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اس میں بھی اس کو صدقے کا ثواب ملتا ہے (بخاری: ۶۰۰۴؛۱۵۳۵)۔کسی مسلمان کے لگائے ہوئے کسی درخت میں سے کوئی انسان یا جانور کچھ کھاتا ہے تو درخت لگانے والے کے لیے وہ صدقہ ہوتا ہے (بخاری: ۲۱۰۶)۔ہر نیک کام صدقہ ہے (بخاری: ۱۲۰۶)۔صدقہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اگر مال نہ ہو تو ہاتھ سے کام کرے، خود کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ یہ بھی نہ کرسکے تو کسی حاجت مند پریشان حال کی مدد کرے یا لوگوں کو بھلائی کی طرف رغبت دلائے۔ خود بُرائی سے رکا رہنا بھی صدقہ ہے (بخاری: ۲۲۰۶)۔انسان کے ہر ایک جوڑ پر ہر دن صدقہ لازم ہوتا ہے۔انسانوں کے مابین انصاف کرنا، مسافر کی مدد کرنا، منہ سے اچھی بات نکالنا، نماز کے لیے قدم اٹھانا اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے (بخاری:۹۸۹۲)۔

صدقہ۔ مسجد: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا کہ اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو اللہ ہی سے اس کی قیمت لیں گے (بخاری:۱۷۷۲؛ ۴۷۷۲؛ ۹۷۷۲)۔

صدقہ۔ دعا: نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب بھی کوئی صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپؐ دعا کرتے: اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما (بخاری:۶۶۱۴)۔جب کوئی اپنی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما (بخاری: ۹۵۳۶)۔

صدقہ۔ اللہ: اللہ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو خرچ کر تو میں تجھ کو دئے جاؤں گا  (دوسری روایت): تو میں تم پر خرچ کروں گا (بخاری: ۲۵۳۵؛ ۶۹۴۷)

 صدقہ ۔ بیوہ،مسکین:  مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین، یتیم کو دیا جائے(بخاری:۵۶۴۱)۔بیواؤں اور مسکینوں کے کام آنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کے برابر ہے (بخاری: ۳۵۳۵)۔  

صدقہ ۔ ایصال:
صدقہ خیرات کرکے اس کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جاسکتا ہے  (بخاری:۸۸۳۱)۔مرحومین کے لیے مال صدقہ کرکے اس کا ثواب انہیں ایصال کیا جاسکتا ہے (بخاری:۶۵۷۲؛ ۰۶۷۲؛ ۲۶۷۲)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے اپنی مرحومہ ماں کے ایصال ثواب کے لیے اپنا باغ صدقہ کردیا تھا (بخاری:۲۶۷۲؛ ۰۷۷۲)۔

صدقہ۔ بخل، سخی:
خیرات کو مت روکو ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا (بخاری:۳۳۴۱؛۴۳۴۱)۔ہر صبح آسمان سے اترنے والے دو فرشتوں میں سے ایک کہتا ہے:اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ دوسرا کہتا ہے کہ بخیل کے مال کو تلف کردے (بخاری:۲۴۴۱)۔ اگربخیل اور خرچ کرنے والے کے بدن پر تمثیلاََ چھاتیوں سے ہنسلی تک  لوہے کے دو کرتے (زرہیں) ہوں توخرچ کرنے والے کا تمام جسم اس زرہ میں چھپ کر محفوظ ہوجاتا ہے جبکہ بخیل کا زرہ اپنی جگہ پر چمٹ جاتا ہے اور کشادہ نہیں ہوتا (بخاری:۳۴۴۱؛ ۴۴۴۱)۔  زکوٰۃ ادا کرنے والا سخی جب صدقہ کرنا چاہتا ہے تو اسے آسانی عطا ہوتی ہے جبکہ بخیل کے لیے صدقہ دینا مشکل ہوجاتا ہے (بخاری:۷۱۹۲)۔ گر کسی مستحق کو مالِ زکوٰۃ ملے اور وہ اس میں سے کچھ مال کسی اور کو دے تو دوسرے کے لیے یہ ہدیہ ہوگا، زکوٰۃ نہیں (بخاری:  ۷۹۰۵)۔

صدقہ۔ زکوٰۃ:
 قرآن و حدیث میں زکوٰۃ کو صدقہ بھی کہتے ہیں،ایسا صدقہ جو صاحب نصاب پر سالانہ فرض ہوتا ہے(مؤلف)۔لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کا اقرار کرنے والوں کے مال پر اللہ نے کچھ صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا(بخاری:۳۹۳۱؛ ۲۷۳۷)۔صحابی جریر بن عبد اللہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔ (بخاری: ۱۰۴۱)۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ کو یمن بھیجتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت: یمنی اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ہیں۔ تم انہیں اسلام کی دعوت دینا۔ جب وہ اسلام قبول کرلیں توانہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن بھر میں پانچ نمازیں  اور زکوٰۃ فرض کیا ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لے کر انہیں کے فقیروں میں تقسیم کردی جائیں گی (بخاری:۸۵۴۱؛ ۶۹۴۱)۔اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کا دگنا ثواب ہے۔ ایک ناطہ جوڑنے کا اور دوسرا صدقے کا (بخاری:۰۶۴۱)۔ ابن جمیلؓ، خالد بن ولیدؓ اور عباس بن عبدالمطلبؓ کے زکوٰۃ دینے سے انکار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابن جمیلؓ یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا اور اللہ کے رسول کی دعا کی برکت سے وہ مالدار بن گیا۔خالد بن ولید پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کررکھی ہیں۔ عباس بن عبد المطلبؓ تو رسول کے چچا ہیں۔ ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ انہیں اتنا ہی میری طرف سے بھی دے دینا۔(بخاری:۸۶۴۱)۔

صدقہ۔ فطرانہ:
صدقۃ الفطرکی مقدارایک صاع (مساوی تین کلو، ڈیڑھ سو گرام) گندم، جَو، کھجور، پنیر، کشمش یا انجیر ہے جو ہر غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے بڑے پر فرض ہے۔ یہ صدقہ نماز عید سے قبل ادا کرنا چاہئے (بخاری:۳۰۵۱ تا ۲۱۵۱)۔

زکوٰۃ۔ مویشی، داغ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگانے کے آلہ سے داغ لگوایا کرتے تھے(بخاری: ۲۰۵۱)۔ جب کوئی قبیلہ اپنی زکوٰۃ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ یوں دعا دیتے: اے اللہ آل فلاں کو خیر و برکت عطا فرما (بخاری:۷۹۴۱)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا فرمان تھا کہ زکوٰۃ کا متولی اس میں سے خود بھی کھا سکتا ہے اور دوست کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن وہ روپیہ جمع نہیں کرسکتا۔(بخاری:۳۱۳۲)۔جب کسی مال میں دو آدمی شراکت دار ہوں تو زکوٰۃ کی رقم آپس میں برابر تقسیم کرلیں (بخاری:۷۸۴۲)۔

زکوٰۃ۔ اہل بیت: حضرت حسن بن علیؓ نے بیت المال میں آئی صدقہ(زکوٰۃ) کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھالی اور اپنے کے قریب لے گئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم صدقہ(زکوٰۃ)  نہیں کھایا کرتے (بخاری:۲۷۰۳)۔  

زکوٰۃ۔ نادہندگان: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کی ہولناکی واضح کرتے ہوئے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری، گھوڑا، اونٹ یا سونا چاندی لدا ہوا ہو اور وہ مجھے مدد کے لیے پکارے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا (بخاری:۳۷۰۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان و اسباب کی نگرانی پر مقرر کرکرہ نامی شخص صرف ایک عباء کی خیانت پر جہنم میں چلا گیا (بخاری:۴۷۰۳)۔ جس نے اپنے مال کی فرض زکوٰۃ ادا نہیں کی تو آخرت میں اس کے مال کو زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں پہنا دیا جائے گا (بخاری:۵۶۵۴)۔ اپنے اونٹوں کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو روز قیامت یہی اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے ہوکر انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ اسی طرح اپنی بکریوں کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو روز قیامت یہی بکریاں پہلے سے زیادہ موٹی ہوکر انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی(بخاری:۲۰۴۱؛ ۰۶۴۱)۔ جس نے اللہ کے عطا کردہ مال میں سے زکوٰۃ ادا نہیں کیا تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل میں اسے اس کے دونوں جبڑوں سے پکڑ لے گا (بخاری:۳۰۴۱)۔ عبد اللہ بن عمرؓ کا فرمان ہے کہ زکوٰۃ مال و دولت کو پاک کردینے والی ہے (بخاری:۴۰۴۱)۔ متفرق مالِ زکوٰۃ کو ایک جگہ جمع نہ کیا جائے اور نہ ہی زکوٰۃ کے خوف سے مالِ زکوٰۃ کو متفرق یعنی الگ الگ کیا جائے (بخاری: ۵۵۹۶)۔  قیامت کے دن تم میں سے کسی کاخزانہ اژدہا بن کر اس کے مالک کو تلاش کرتا ہوا آئے گا اوراسے لقمہ بنائے گا (بخاری: ۷۵۹۶)۔ جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہوگا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کردئے جائیں گیاور وہ اپنے کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے(بخاری: ۸۵۹۶)۔

زکوٰۃ۔ پیشگی ادائیگی: اگر زکوٰۃ سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے یا ایک سال پہلے بھی دیدے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی (بخاری: ۸۵۹۶)۔ 

 زکوٰۃ۔ غیر مستحق: اگر کوئی حقدار ہونے کے بغیر زکوٰۃ لے تو قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا(بخاری: ۵۶۴۱)۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد زکوٰۃ کا مال نہیں کھا سکتی۔ ایک مرتبہ بچپن میں حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما زکوٰۃ کے کھجوروں سے کھیلتے کھیلتے ایک کھجور منہ میں ڈال لیا تو آپ ؐنے ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی۔ (بخاری:۵۸۴۱؛ ۱۹۴۱)۔اگر کوئی شخص صدقہ(زکوٰۃ) میں ملی ہوئی شئے کسی غیر مستحق (صاحب حیثیت یا آل محمدﷺ) کو ہدیہ کرے تو وہی صدقہ(زکوٰۃ) اب بطور ہدیہ حلال ہوگا(بخاری:۳۹۴۱ تا ۵۹۴۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گری ہوئی کھجور کو دیکھ  فرمایا: اگر اس کے زکوٰۃ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھالیتا(بخاری:۵۵۰۲)۔

زکوٰۃ۔ زراعت:
وہ زرعی زمین جسے بارش، چشمہ وغیرہ سیراب کرے تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ (دس فیصد، عشر) زکوٰۃ لیا جائے گا۔ اور جس زمین کو کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جائے، اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ (پانچ فیصد، خمس) زکوٰۃ لیا جائے گا (بخاری:۳۸۴۱)۔

زکوٰۃ۔ مختلف نصاب:
پانچ وسق سے کم کھجوروں، پانچ اوقیہ سے کم چاندی اور پانچ سے کم اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے (بخاری:۹۵۴۱؛ ۴۸۴۱)۔ ملے ہوئے مدفون خزانہ میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے (بخاری:۹۹۴۱؛ ۵۵۳۲)۔

زکوٰۃ۔ سونے کا نصاب:
پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے یا چھ سو چودہ گرام) سے کم چاندی، پانچ وسق(چھ سو باون اعشاریہ پانچ کلو گرام) سے کم غلہ اور پانچ سے کم اونٹوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے (بخاری:۵۰۴۱؛ ۷۴۴۱)۔ مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے(بخاری:۳۶۴۱؛ ۴۶۴۱)۔

زکوٰۃ۔ چاندی کا نصاب:
چاندی کا زکوٰۃ: ایک سو نوے درہم (ساڑھے باون تولہ) سے زائد چاندی پرڈھائی فیصد زکوٰۃ واجب ہے(بخاری:۴۵۴۱)۔

زکوٰۃ۔ غلہ کا نصاب:
پانچ وسق(چھ سو باون اعشاریہ پانچ کلو گرام) سے کم غلہ میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے (بخاری:۵۰۴۱؛ ۷۴۴۱)۔ 

 زکوٰۃ۔ مویشی:
مویشیوں کی زکوٰۃ میں بوڑھے، عیبی اور نر جانور نہیں لیے جائیں گے۔ البتہ اگر زکوٰۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے (بخاری:۵۵۴۱)۔

  زکوٰۃ۔ اونٹوں کا نصاب:
جس کا صدقہ بنت مخاض (ایک سال سے دو سال تک کی عمروالی بچہ اونٹنی) تک پہنچ گیا ہو لیکن اس کے پاس صرف بنت لبون (دو سال سے تین سال تک کی عمر والی بچہ اونٹنی) ہے تو وہی لیا جائے گا اور اس زائد کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا۔اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ ابن لبون (۳۔۲ سال تک کا نر بچہ اونٹ) ہے تو یہی لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں کچھ واپس نہیں کیا جائے گا (بخاری:۸۴۴۱؛ ۳۵۴۱)۔زکوٰۃ کی زیادتی کے خوف سے جدا جدا مال کو یکجا اور یکجا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے (بخاری:۰۵۴۱)۔جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ    جزعہ (۵۔۴ سالہ اونٹ) تک پہنچ جائے اور اس کے پاس صرف حقہ (۴۔۳ سالہ اونٹ) ہو تو اس سے حقہ ہی لیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم بھی لیا جائے گا۔ اس کے اُلٹ کی صورت میں اسے دو بکریاں یا بیس درہم واپس کیا جائے گا (بخاری:۳۵۴۱) ۔ اونٹوں کی زکوٰۃ: پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ پانچ تا چوبیس اونٹوں پر ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری زکوٰۃ دینی فرض ہے (۵۳۔۵۲)۔ اونٹوں پر ایک برس کی مادہ اونٹنی زکوٰۃ فرض ہے(۵۴۔۶۳)۔ اونٹوں پر دو برس کی مادہ اونٹنی بطور زکوٰۃ فرض ہے(۰۶۔۶۴)۔ اونٹوں پر تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی، جو جفتی کے قابل ہو(۵۷۔۱۶)۔ اونٹوں پر چار برس کی اونٹنی واجب ہوگی (۰۹۔۶۷)۔ اونٹوں پر دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی(۰۲۱۔۱۹)۔ اونٹوں پر تین تین برس کی قابل جفت دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ ایک سو بیس سے اوپر ہر چالیس پر دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس پر تین برس کی ایک اونٹنی زکوٰۃ دینی ہوگی(بخاری:۴۵۴۱)۔

 زکوٰۃ۔ بکریوں کا نصاب:
سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ: چالیس بکریوں سے کم پر کوئی زکوٰۃ نہیں (۰۲۱۔۰۴) بکریوں پر ایک بکری،  (۰۰۲۔۰۲۱) بکریوں پر دو بکریاں،  (۰۰۳۔۰۰۲) بکریوں پر تین بکریاں،  تین سو سے زائد ہر سو بکری پر ایک بکری واجب ہوگی (بخاری:۴۵۴۱)۔ 

 زکوٰۃ۔ منکرین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اللہ کی قسم! میں ہر اُس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا(بخاری:۰۰۴۱)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم اگر یہ زکوٰۃ میں واجب بکری کا ایک بچہ بھی دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا (بخاری:۶۵۴۱)۔ جس خزانہ کی زکوٰۃ نہ دی جائے وہ  قیامت کے دن گنجے ناگ کی شکل اختیار کرے گا (بخاری:۹۵۶۴)۔

صدقہ۔ ہدیہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے ان کا اونٹ ایک اوقیہ چاندی کے عوض خرید لیا اور پھر اونٹ بھی انہیں ہدیہ کردیا  (بخاری:۷۹۰۲)۔ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زرہ تحفہ دیا تو آپ ؓ نے اسے بیچ کر قبیلہ بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا(بخاری:۰۰۱۲)۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تحفہ میں ملا ہوا ایک ریشمی جبہ پہنا تو آپ ؐ نے فرمایا: اسے تو وہی لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ میں نے تو اس لیے تمہیں دیا تھا کہ تم اسے بیچ کر فائدہ اٹھاؤ (بخاری:۴۰۱۲)۔ 

صلح۔ حدیبیہ:
صلح حدیبیہ کی تحریری دستاویز میں محمد کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ پرمشرکین نے اعتراض کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے مٹادیا کیونکہ حضرت علیؓ نے مٹانے سے انکار کردیا تھا (بخاری:۸۹۶۲؛ ۹۹۶۲) صلح حدیبیہ کی تین شرائط: ۱۔آپ ؐ اور آپ کے صحابہ ؓ  اگلے سال عمرہ کے لیے آئیں گے اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ ۲۔اپنے ہتھیار تلوار و تیر نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے ۳۔ مشرکین میں سے کوئی آدمی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے تو اسے واپس کردیا جائے گا۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا (بخاری: ۰۰۷۲؛ ۱۰۷۲؛ ۱۳۷۲؛ ۲۳۷۲)۔صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق مسلمان ہوکر اسی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے ابو جندل ؓ کو بادل ناخواستہ ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالہ کردیا گیا۔ جبکہ ہجرت کرکے آنے والی اُم کلثوم بنت عقبہ ؓ سمیت چند دیگرایمان والیوں کو واپس نہیں کیا گیا کیونکہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفار و مشرکین ایمان والیوں کے لیے حلال نہیں ہیں (بخاری:۱۱۷۲؛ ۲۱۷۲)۔ صلح حدیبیہ کی شرائط سے خفا حضرت عمر ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کہ ہم حق پر ہیں اور مشرک باطل پر تو ہم اُن سے کیوں دبیں اور عمرہ کئے بغیر مدینہ کیوں واپس چلے جائیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی توآپ ؐ نے عمر ؓ کو اسے آخر تک سناتے ہوئے کہا: بلا شک یہی فتح ہے (بخاری: ۲۸۱۳)۔ معجزہ رسول: صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ چودہ پندرہ سو آدمی تھے۔ کنویں کا ساراپانی استعمال کے بعد ختم ہوگیاتو نبی کریم ﷺ نے وضو اور کلی کی، دعا فرمائی اور سارا پانی اس کنویں میں ڈال دیا۔ کنویں میں پھر پانی بھر آیا  (بخاری:۰۵۱۴ تا ۲۵۱۴)۔ حرہ کی لڑائی میں لوگ عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے موت پر بیعت کررہے تھے تو غزوہ حدیبیہ میں شریک ابن زیدؓ نے کہا کہ اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی تھی(بخاری:۷۶۱۴؛ ۹۶۱۴)۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھتے وقت ابو جندل بن سہیلؓ مکہ سے فرار ہوکر بیڑی سمیت مسلمانوں کے پاس پہنچے تو انہیں معاہدہ کے مطابق ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کردیا گیا  (بخاری: ۰۸۱۴؛  ۱۸۱۴)۔

طعام۔ آدابِ ضیافت:
جتنے آدمیوں کو کھانے کی دعوت دی جائے، اگر اس سے زیادہ آدمی آجائیں تو میزبان سے اجازت لے لی جائے (بخاری:۱۸۰۲) ۔ دوسروں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت بلا اجازت ایک ساتھ دو کھجوریں ملا کر کھانا منع ہے (بخاری:۵۵۴۲؛ ۹۸۴۲؛ ۰۹۴۲)۔ کسی دعوت میں بلا اجازت زائد آدمی لانا منع ہے (بخاری:۶۵۴۲)۔ سرکاری وفود کی میزبان ملکوں کی طرف سے دی گئی ضیافت قبول کرو۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو (بخاری:۱۶۴۲)۔ نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ کھانا پسند ہوتا تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے (بخاری: ۳۶۵۳)۔ بسم اللہ پڑھ کر، دائیں ہاتھ سے اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو تمہارے نزدیک ہو (بخاری: ۶۷۳۵ تا ۸۷۳۵)۔ جب کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو اور نماز بھی کھڑی ہوگئی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ (بخاری: ۳۶۴۵؛ ۵۶۴۵)۔

طعام۔ مومن: دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے (بخاری: ۲۹۳۵)۔ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر ساتوں آنتیں بھر لیتا ہے (بخاری: ۳۹۳۵ تا ۷۹۳۵)۔

طعام۔ مریض، سوگواران: دور رسالت میں میت والے گھر میں اہل خانہ کے لیے تلبینہ اور ثرید تیار کیا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا تھا کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے (بخاری: ۷۱۴۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ  قربانی کا گوشت مدینہ منورہ بھی لایا کرتے تھے  (بخاری: ۴۲۴۵)۔ جس نے لہسن یا پیاز کھائی ہو وہ(اس کی بو ختم ہونے تک) مسجد سے دور رہے(بخاری: ۱۵۴۵؛ ۲۵۴۵)۔

طعام۔ دعا: کھانے کے بعد کی مسنون دعا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے، بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی، ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کرسکے اور یہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہا تاکہ اس سے ہم کو بے نیازی کا خیال نہ ہو (بخاری: ۸۵۴۵؛ ۹۵۴۵)۔   

طعام۔ ہدیہ: اُم حفید بنت حارث ؓ نے رسول اللہ کو گھی، پنیر اور بھنا ہوا سانڈ ہدیہ میں بھیجا۔ آپ نے ہدیہ قبول کیا اور چیزیں آپ کے دسترخوان پر کھائی گئیں مگر خود نبی کریم ﷺ نے سانڈے کو نہ کھایا کہ یہ آپ کو پسند نہ تھا۔(بخاری: ۸۵۳۷؛۷۶۲۷)۔ حضرت خالد بن ولیدؓ  نبی کریم صلی اللہ علیہ کے ہمراہ اپنی خالہ اور اُم المومنین میمونہ ؓ کے گھر گئے جہاں کھانے میں بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا، جسے نبی کریم ﷺ نے کھانا پسند نہیں کیا لیکن باقی اصحاب نے کھایا کہ یہ حلال ہے (بخاری: ۱۹۳۵؛ ۰۰۴۵؛ ۲۰۴۵؛ ۷۶۲۷)۔

طعام۔ مسجد: جو کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے اور ہماری مسجد سے دوررہے یہاں تک کہ اس کے منہ کی بو دور ہوجائے (بخاری: ۹۵۳۷)۔ نبی کریم ﷺ کے پاس سبزیوں کا ایک طباق لایا گیا، جس میں نبی کریم ﷺ کو بو محسوس ہوئی تو آپ نے خود نہیں کھائی مگر صحابہ کرام ؓ سے کہا کہ تم کھالو۔ کیونکہ میں جن (فرشتوں) سے سرگوشی کرتا ہوں، تم نہیں کرتے (بخاری: ۹۵۳۷)۔

طہارت۔ بیت الخلاء:
 بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعا:  اللہم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث  (اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں (بخاری: ۲۴۱)۔   بیت الخلاء میں داہنے ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو چھونا یا داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا منع ہے۔ (بخاری:۳۵۱)۔ مٹی کے تین ڈھیلوں سے استنجا کرنا درست لیکن خشک گوبر کے ٹکڑے سے استنجا نہ کرنا چاہئے کہ گوبر خود ناپاک ہے (بخاری: ۶۵۱)۔ جو شخص مٹی کے ڈھیلے سے استنجا کرے، اسے چاہئے کے طاق یعنی ایک، تین یا پانچ ڈھیلے استعمال کرے (بخاری:۱۶۱)۔

طہارت۔ قبلہ رُخ: جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ کرو نہ اس کی طرف پشت  (بخاری:۴۴۱)  حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر کے اوپربنے بیت الخلا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف چہرہ کئے ہوئے قضائے حاجت کرتے پایا تھا (صرف کھلے ویرانے میں قبلہ کی طرف رُخ یا پشت کرکے بول و براز کرنا منع ہے، چہار دیواری کے اندر نہیں)(بخاری:۸۴۱؛ ۲۰۱۳)۔

طہارت۔ پیشاب:
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ایک شیر خوار بچے نے پیشاب کردیا تو آپ نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں (بخاری:۲۲۲؛ ۳۲۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کے پیچھے کسی قوم کے کوڑے والی جگہ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہوکر پیشاب کیا (بخاری:۴۲۲ تا ۶۲۲؛۱۷۴۲)۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں (جو نہر،  دریا اور سمندر کی طرح جاری نہ ہو) کوئی پیشاب نہ کرے (بخاری:۹۳۲)۔ تحنیک کی غرض سے لائے گئے ایک نومولد بچہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر پیشاب کردیا تو آپ نے اس پر پانی بہا دیا  (بخاری: ۸۶۴۵)۔ استنجا اپنے دائیں ہاتھ سے نہ کرو (بخاری: ۰۳۶۵)۔ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے اور چغلی کھانے والے کی قبروں میں انہیں عذاب ہورہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبروں ہری شاخ لگادی اور فرمایا: جب تک یہ شاخیں سوکھ نہ جائیں، شاید اس وقت تک ان کا عذاب ہلکا رہے (بخاری: ۲۵۰۶؛ ۵۵۰۶)۔

طہارت۔ تیمم:
 ایک سفر میں حضرت عائشہ ؓ کا ہار کھوگیاتو اس کی تلاش کے لیے قافلہ وہیں ٹھہر گیا۔آس پاس کہیں پانی نہ تھاجس سے قافلہ والے تنگ ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ پر بہت خفا ہوئے۔ رسول اللہ جب اگلی صبح وہیں بیدار ہوئے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ نے تیمم کی ّآیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کرکے نماز پڑھی۔ اس پر اسید بن حفیر ؓ نے کہا: اے آل ابی بکرؓ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔پھر جب اس اونٹ کو ہٹایا گیا، جس پر اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سوار تھیں تو ہار اسی اونٹ کے نیچے سے مل گیا۔(بخاری:۴۳۳؛ ۶۳۳)۔ تیمم کا مسنون طریقہ:اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مار پھر انہیں پھونک کر اضافی مٹی اڑادو اور دونوں ہاتھوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کرلو (بخاری:۸۳۳ تا ۳۴۳)۔ ایک سفر لوگ تاخیر سے اُٹھے اور نماز پڑھی تو نبی ﷺ نے ایک فرد کو دیکھا جو نماز سے الگ کنارے پر کھڑا تھا اور نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ ﷺ کے پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ غسل کی حاجت ہوگئی تھی اور غسل کے لیے پانی موجود نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مٹی سے کام لو۔ گویا تیمم، وضو اور غسل دونوں کے لیے کافی ہے۔(بخاری:۴۴۳؛ ۸۴۳)۔

طہارت۔ جنابت:
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنابت کی حالت میں تھے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سر راہ دیکھا تو لوٹ گئے اور غسل کرکے واپس آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر آپؓ نے کہا: میں نے جنابت کی حالت میں آپ کے ساتھ بیٹھنا بُرا جانا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! مومن کبھی نجس نہیں ہوسکتا  (بخاری:۳۸۲؛ ۵۸۲)۔

طہارت۔ حیض:
 کسی عورت کو کپڑے میں حیض آجائے تو پہلے اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو کر پاک کرلے (بخاری:۷۲۲)۔ اگر حیض کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اسے رگڑ کر، اسے پانی سے دھو کر اسی کپڑے میں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ (بخاری:۷۰۳؛ ۸۰۳)۔ حیض کے مقررہ دن کے گزرنے کے بعد خواتین استحاضہ کے خون کو بدن اور کپڑے سے دھو کر نماز ادا کریں اور ہر نماز کے لیے علیحدہ وضو کریں (بخاری:۸۲۲)۔ اگر حیض کے وقت پہننے کے لئے ایک ہی کپڑا ہو اور اس میں خون لگ جائے تو صحابیات اس پر تھوک ڈال کر اسے ناخنوں سے مسل دیتیں (بخاری:۲۱۳)حیض کا غسل کرکے عورتوں کو مشک یا خوشبو لگا ہوا کپڑا خون لگی ہوئی جگہ پر پھیر لینا چاہئے تاکہ خون کی بدبو رفع ہوجائے(بخاری:۴۱۳؛ ۵۱۳؛ ۷۵۳۷)۔ صحابیات زرد اور مٹیالے رنگ کے خون کے اجراء کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں (بخاری:۶۲۳)۔

حیض۔ استخاضہ: خواتین کو حیض کے مقررہ ایام کے بعد بھی خون نہ رکے تو وہ رگ (استخاضہ) کا خون ہے، حیض کا نہیں۔ چنانچہ جب حیض کے مقررہ ایام گزر جائیں تو خون جاری رہنے کے باوجود خواتین غسل کر کے، خون دھو کر نماز پڑھنا شروع کریں (بخاری:۶۰۳)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج حالت استحاضہ میں بھی اعتکاف اور نماز اداکیا کرتی تھیں اور خون بہنے کی وجہ سے اکثر طشت اپنے نیچے رکھ لیا کرتی تھیں (بخاری:۹۰۳ تا ۱۱۳)۔ اُم حبیبہ ؓ سات سال تک مستحاضہ رہیں اور ہر نمازکے وقت غسل کرکے نماز ادا کرتی تھیں (بخاری: ۷۲۳)۔ 

حیض۔ نماز، روزہ، حج: جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے (بخاری:۴۰۳)۔ جب حیض کا خون آئے تو خواتین نماز چھوڑ دیں۔ جب حیض کے مقررہ دن گزر جائیں اور خون نہ رکے تو یہ استحاضہ کی بیماری ہے۔ استحاضہ ایک رگ کا خون ہے، حیض نہیں ہے۔ حیض ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے لکھ دیا ہے۔ حائضہ خاتون حج کے تمام افعال پورے کریں، صرف بیت اللہ کا طواف حیض سے پاک ہونے تک مؤخر کردیں (بخاری: ۴۹۲؛  ۵۰۳)۔ جب حیض کے دن آئیں تو نماز کو چھوڑ دیا کرو۔ اور جب حیض کے مقررہ ایام گزر جائیں اور استخاضہ یعنی رگ کا خون جاری رہے تب بھی غسل کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے (بخاری:۰۲۳؛ ۵۲۳؛۱۳۳)۔ ایام حیض کے دوران چھوٹی ہوئی نمازیں معاف ہیں یعنی ان کی قضا نہیں ہے (بخاری:۱۲۳)۔ نماز عید کے موقع پر جوان لڑکیوں، پردہ والیوں اور حائضہ خواتین کو عیدگاہ جیسے خیر کے موقع پر دعاؤں میں شریک ہونا چاہئے۔ البتہ حائضہ عورتیں نماز سے دور رہیں (بخاری:۴۲۳)

 حیض۔ گھریلو کام: حائضہ خاتون گھر کے سارے کام کرسکتی ہے، حتیٰ کہ شوہر کی خدمت بھی۔ اُم المومنین حالت حیض میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کنگھا بھی کردیا کرتی تھیں اور معتکف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بھی دھو دیتی تھیں۔ (بخاری:۵۹۲؛ ۶۹۲؛ ۱۰۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حائضہ زوجہ کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت بھی کرلیا کرتے تھے (بخاری: ۷۹۲)۔ 

حیض۔ بیوی،شوہر: نبی کریم ﷺ ازار باندھی ہوئی اپنی حائضہ زوجہ کے ساتھ ایک چادر میں لیٹ جاتے تھے (بخاری:۸۹۲؛ ۰۰۳)۔ حائضہ بیوی سے بوس و کنار، لپٹنا اور ایک ساتھ لیٹنا بھی جائز ہے جبکہ زوجہ ازار یعنی شلوار وغیرہ پہنے ہوئے ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرلیا کرتے تھے (بخاری:۲۰۳؛ ۳۰۳؛ ۳۲۳؛ ۹۲۹۱)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حائضہ ہوتیں تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے بدن سے لپٹا (مباشرت کر) لیا کرتے تھے (بخاری:۰۳۰۲)۔

حیض۔ احرام: اگر عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد حیض آجائے تو عمرہ چھوڑ دینا چاہئے اور حیض کے اختتام کے بعد عمرہ کرنا چاہئے۔ لیکن اگر دوران حج حیض آجائے تو حج کے تمام افعال پورے کریں، سوائے طواف کے۔ طواف حیض کے اختتام پر ادا کرے۔(بخاری:۶۱۳؛ ۷۱۳)۔


حیض۔طواف وداع:  حج میں طواف زیارت کے بعدحیض آجائے تو طواف وداع کئے بغیر بھی مکہ سے نکلا جاسکتا ہے۔ صفیہ بنت حیی ؓ کے ساتھ ایسا ہی ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلنے کا حکم دیا (بخاری:۸۲۳؛ ۹۲۳؛۰۳۳) 

طہارت۔ غسل:
 غسل۔ جنابت: اُم المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتیں پھر آپ اسی کپڑے کو پہن کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے کپڑے موجود ہوتے تھے (بخاری:۹۲۲ تا ۲۳۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل کرلیا کرتے تھے، حالانکہ دونوں جنبی ہوتے تھے (بخاری:۹۹۲؛۹۲۹۱؛ ۶۵۹۵؛ ۹۳۳۷)۔غسل جنابت کا مسنون طریقہ:پہلے دونوں ہاتھ دھونا، پھر وضو کرنا مگر پاؤں نہ دھونا، پھر شرمگاہ اور جہاں گندگی لگی ہو اسے دھونا، پھر گیلی انگلیوں سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرنا، پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالنا، پھر تمام بدن پر پانی بہانا اور پھر جگہ تبدیل کرکے پاؤں دھونا۔ (بخاری:۸۴۲؛ ۹۴۲)۔ غسل کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے تھے  (بخاری:۴۵۲؛۵۵۲)۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں اپنی تمام نو (۹) بیویوں کے پاس تشریف لے گئے (بخاری:۴۸۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں شرمگاہ دھو کر، وضو کرکے سوجایا کرتے تھے (بخاری:۶۸۲ تا۰ ۹۲)۔ جب  جماع کے لئے مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا (اور دونوں کی شرم گاہیں مل گئیں، خواہ انزال ہوا یا نہیں) تودونوں پر غسل واجب ہوگیا (بخاری: ۱۹۲)۔

غسل۔ احتلام: احتلام سے عورت پر بھی غسل فرض ہوجاتا ہے، جب وہ اپنے کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر دیکھ لے۔ (بخاری:۰۳۱؛ ۸۲۳۳؛ ۱۹۰۶؛ ۱۲۱۶)۔ حضرت  ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ اُم سلیم نے پوچھا: کیا عورت پر بھی احتلام کے بعد غسل فرض ہوجاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:ہاں! اگر اپنے جسم یا کپڑے پر اپنی منی کا پانی دیکھے تو اسے بھی غسل کرنا ہوگا (بخاری:۲۸۲)۔

غسل۔ جریان: جس مرد کو جریان یعنی مذی نکلنے کا مرض ہو تو اس مرض میں غسل نہیں بلکہ صرف وضو فرض ہوتا ہے۔ (بخاری:۲۳۱)۔ مذی نکلنے کی صورت میں شرمگاہ کو دھو کر وضو کرلینا ہی کافی ہے (بخاری: ۹۶۲)۔

غسل۔ میت: میت کو غسل داہنی طرف سے دو اور اعضاء وضو سے غسل کی ابتدا کرو (بخاری:  ۷۶۱)۔ 

غسل۔ پانی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (ڈھائی کلو گرام) سے پانچ مد تک پانی سے غسل کرتے اور ایک مد پانی سے وضو کر تے (بخاری:۱۰۲)۔ سَوا چھ کلو گرام پانی والے فرق کے ایک ہی برتن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین رضی اللہ عنہا غسلِ جنابت کرلیا کرتے تھے (بخاری:۰۵۲؛ ۳۵۲؛ ۱۶۲؛ ۳۶۲؛ ۴۶۲)

طہارت۔ فطرت:
پانچ چیزیں فطرت سے ہیں۔ ختنہ کرنا، زیر ناف بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھیں کترنا اور ناخن کاٹنا (بخاری: ۷۹۲۶)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسّی ( ۸۰) برس کی عمر میں اپنا ختنہ کیا تھا (بخاری: ۸۹۲۶)۔

 طہارت۔ نجاست:
کتا کسی برتن سے کچھ پی لے تواس برتن کو سات مرتبہ دھو کر پاک کرو (بخاری:۲۷۱)۔ اگر چوہا گھی میں گرجائے تو اسے نکال کر آس پاس کے گھی نکال پھینکو اور باقی گھی استعمال کرلو (بخاری:۵۳۲؛ ۶۳۲)۔

ظلم۔ شرک:
بے شک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے (بخاری: ۰۶۳۳)۔  بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے (بخاری: ۸۲۴۳؛ ۹۲۴۳)۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا تباہ کردینے والی چیز ہے، اس سے بچو (بخاری: ۴۶۷۵)۔ اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ بندے خاص اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ جب بندے یہ کام کرلیں تو پھربندوں کا اللہ پر حق ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے (بخاری: ۷۶۹۵)۔

ظلم۔ ظالم، مظلوم:
ظلم قیامت کے دن کئی طرح کی تاریکیاں ثابت ہوگا (بخاری:۷۴۴۲)۔مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کی  بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا (بخاری:۸۴۴۲)۔کسی پر ظلم کیا ہو تو اسی دنیا میں معاف کرالو۔ قیامت کے دن ظلم کے بدلے میں درہم و دینار نہیں بلکہ نیک عمل لیا جائے گا۔اور اگر ظالم کے پاس دینے کو نیکی نہ ہو تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی (بخاری:۹۴۴۲)۔جس نے کسی کی زمین ظلماََ لی، قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا(بخاری:۲۵۴۲ تا ۴۵۴۲)۔اگر کوئی شخص محض اپنے زور بیان کی مددسے مجھ سے اپنے حق میں غلط فیصلہ کرالیتا ہے تو گویا وہ دوزخ کا ایک ٹکڑا لے رہا ہے۔ وہ لے لے یا چھوڑ دے (بخاری:۸۵۴۲)۔اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا (بخاری:۶۸۶۴)۔

عبادات، اعمال صالحہ: 
عبادات میں تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے، جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ اللہ کو دین کا وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جاسکے۔(بخاری:۴۴)۔ لوگو! عمل اتنا ہی کرو جتنی کہ تم میں طاقت ہو۔ اللہ کی بارگاہ سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل ہے جسے پابندی سے کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو (بخاری: ۱۶۸۵)۔عمل وہی اختیار کرو، جس کی تم میں طاقت ہو (بخاری:۰۷۹۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز بھی پڑھتے اور سوتے بھی تھے(بخاری:۲۷۹۱)۔ رات بھر عبادت کرنے اور دن میں روزہ رکھنے والے صحابی عبداللہ بن عمرو ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سو ؤبھی۔ روزے بھی رکھو اور بلا روزے کے بھی رہو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے (بخاری: ۴۳۱۶)۔ نبی ﷺکو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جسے آدمی ہمیشہ کرتا رہے (بخاری: ۲ ۶۴۶؛ ۵۶۴۶)۔ اپنے وقت پر نماز پڑھنا،  پھر والدین کے ساتھ نیک معاملہ کرنا، پھر اللہ کے ساتھ جہاد کرناسب سے افضل ا عمال ہیں (بخاری: ۴۳۵۷)۔ جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کے ساتھ ہو تو نماز کے وقت بلند آواز کے ساتھ اذان دو۔ کیونکہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے گی اور اسے جن و انس اور دوسری چیزیں بھی سنیں گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی(بخاری: ۸۴۵۷)۔

عذاب۔ بستی:
عذاب والوں کے آثار سے اگر گزر ہو توروتے ہوئے گزرو (بخاری:۳۳۴)۔ قوم ثمود کی بستی حجرکے کنوؤں کا پانی پینے سے منع کیا گیا۔ ان ظالموں کی بستی سے بھی گزرنے سے منع کیا گیا،اگر گزرنا پڑے تو روتے ہوئے داخل ہو تاکہ تمہیں وہ عذاب نہ آ پکڑے، جس میں یہ ظالم گرفتار کئے گئے تھے (بخاری: ۸۷۳۳ تا ۱۸۳۳)

عذاب۔ طاعون:
طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا۔اگر تمہیں پتہ چلے کہ کہیں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی کی بستی میں طاعون پھیل جائے تو وہ اللہ کی رحمت سے امید لگائے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا (بخاری: ۴۷۴۳) 

عقیقہ، تحنیک:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ ؓ کے نومولود بیٹے کا نام ابراہیم رکھا اورکھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کرکے اسے چٹایا یعنی تحنیک کیا(بخاری: ۷۶۴۵)۔ اسماء بنت ابی بکرؓ نے حالت حمل میں ہجرت کی اور قباء میں پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ یہیں عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے تو آپ اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور سے تحنیک کی(بخاری: ۹۶۴۵)۔ابوطلحہ ؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ ان کا بیمار بچہ وفات پاگیا۔واپس آکر پوچھا کہ بچہ کیسا ہے تو ان کی بیوی اُم سلیم نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے۔ بیوی نے شوہر کوپہلے کھانا کھلایا، ان کے ساتھ ہم بستری کی پھر بچہ کی وفات کا بتلایا تو اسے دفن کردیا گیا۔ صبح یہ ماجرا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سنایا تو آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما۔ پھر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تونبی کریم ﷺ نے ان کا نام عبداللہ رکھا اور بچہ کی کھجور سے تحنیک کی (بخاری: ۰۷ ۴۵)۔لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے اس لیے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے بال دور کرو (بخاری: ۲۷ ۴۵)۔

علاج و امراض:
 عکل یا عرینہ قبائل کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور بیمار ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح جا کر اونٹوں کا دودھ اور پیشاب ملاکر پینے کا حکم دیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہوگئے  (بخاری:۳۳۲؛ ۱۰۵۱)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس طرح کیا کہ پہلے زخم کو دھویا پھر بوریا کا ایک ٹکڑا جلاکر زخم میں بھر دیا گیا (بخاری:۳۴۲)۔ مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کردیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ جب چاہتا ہے، ہوا کے ایک جھونکے سے ہی اسے اکھاڑ پھینک دیتا ہے  (بخاری: ۳۴۶۵؛ ۴۴۶۵)۔

امراض۔ بھلائی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو فرماتے: کوئی حرج نہیں۔ ان شاء اللہ یہ بخار تمہارے گناہوں کو دھو دے گا(بخاری: ۶۱۶۳)۔مسلمان جب کسی تکلیف میں گرفتار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں (بخاری: ۷۴۶۵؛ ۸۴۶۵؛ ۰۶۶۵؛ ۱۶۶۵؛ ۷۶۶۵)۔مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اسے ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ اسے اس کے گناہ کا کفارہ بنا دیتا ہے (بخاری: ۰۴۶۵ تا ۲۴۶۵)۔اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری اور دیگر تکالیف میں مبتلا کردیتا ہے (بخاری: ۵۴۶۵)۔ایک سیاہ عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مرگی کے دورہ کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے، میرے لیے دعا کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر، تجھے جنت ملے گی۔ اور اگر تو چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کروں۔ خاتون نے عرض کیا: میں صبر کروں گی۔ بس آپ یہ دعا کردیجئے کہ مرگی کے دورہ میں میرا ستر نہ کھلے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی (بخاری: ۲۵۶۵)۔حدیث قدسی: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کے دو محبوب اعضاء آنکھوں کے بارے میں آزماتا ہوں یعنی اسے نابینا کردیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں (بخاری: ۳۵۶۵)۔اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ کی محبت بھی اتنی ہی کردے جتنی مکہ کی محبت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کردے اور اس کے مد وصاع میں برکت عطا فرما (بخاری: ۴۵۶۵؛ ۷۷۶۵)۔

 امراض۔ موت: کسی شخص کو اپنی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ بہت زیادہ تکلیف میں مبتلا شخص ایسے کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے (بخاری: ۱۷۶۵)۔ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہوا تو امید ہے کہ اس کے اعمال میں اوراضافہ ہوجائے گا اور اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ ہی کرلے(بخاری: ۳۷۶۵)۔

 علاج۔ نبویؐ: کھمبی مَن کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے (بخاری: ۸۷۴۴؛ ۹۳۶۴؛۸۰۷۵)۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری، جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو(بخاری: ۸۷۶۵)۔ شفا تین چیزوں میں ہے شہد، حجامہ اور آگ سے داغنا۔ لیکن میں امت کو آگ سے داغ کر علاج کرنے سے منع کرتا ہوں (بخاری: ۰۸۶۵؛ ۱۸۶۵؛ ۳۸۶۵؛ ۲۰۷۵؛ ۴۰۷۵)۔ کلونجی میں ہر بیماری کی دوا ہے سوائے موت کے(بخاری: ۷۸۶۵؛ ۸۸۶۵)۔دودھ شہد ملا دلیہ تلبینہ مریض کے دل کو سکون اور غم کو دور کرتا ہے (بخاری: ۹۸۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا (حجامہ) لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اس کی مزدوری دی (بخاری: ۱۹۶۵؛ ۶۹۶۵)۔ عود ہندی (کست) میں سات بیماریوں کا علاج ہے، حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے۔اگر ذات الجنب ہو تو حلق میں ڈالو (لدود کرو)۔ پسلی کے درد میں یہ چبائی جاتی ہے۔یہ نمونیہ کے لیے بھی شفاء ہے۔ (بخاری: ۲۹۶۵؛۳۱۷۵؛ ۸۱۷۵)۔ دست کے مرض کا مسنون علاج بار بار شہد پلانا ہے (بخاری:۶۱۷۵)۔ جنگ اُحد کے دن خود ٹوٹنے سے نبی مبارک کا چہرہ خون آلود ہوگیا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے پہلے چہرہ کو پانی سے دھویا پھر ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ کو زخموں میں بھر دیا تب خون کا بہنا رکا (بخاری:۲۲۷۵)۔ بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے۔ اس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ (بخاری:۳۲۷۵تا ۶۲۷۵)۔ روزانہ سات عجوہ کھجوریں کھالیا کرو۔ اس سے دن رات تک زہر اور جادو سے نقصان نہیں ہوگا (بخاری: ۸۶۷۵؛ ۹۶۷۵؛ ۹۷۷۵)۔ جب مکھی تمہارے کسی کھانے کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی برتن میں ڈبوکر پھر اسے نکال کر پھینک دو۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں شِفا اور دوسرے میں بیماری ہے (بخاری: ۲۸۷۵)۔ صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے(بخاری: ۲۱۴۶)۔

علاج۔ حجامہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ روزہ کی حالت میں حجامہ کروایا (بخاری: ۴۹۶۵)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ احرام کی حالت میں حجامہ کروایا (بخاری: ۵۹۶۵؛ ۸۹۶۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر میں حجامہ کروایا  (بخاری: ۸۹۶۵؛۹۹۶۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھے سر کے درد کی وجہ سے سر میں حجامہ کروایا تھا (بخاری:۰۰۷۵؛ ۱۰۷۵)۔ 

علاج۔ جھاڑ پھونک: اُمت محمدیہ میں ستّر ( ۷۰) ہزار ایسے افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے، فال نہیں دیکھتے، آگ سے داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں (بخاری:۵۰۷۵؛ ۲۵۷۵)۔

جھاڑ پھونک۔ مسنون: عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا کسی اور چیز پر جھاڑ پھونک کرنا درست نہیں (بخاری:۵۰۷۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات اپنے اوپر معوذات (سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق، سورۃ الناس) پڑھ دَم کرتے۔ اپنے ہاتھوں پر دَم کرکے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے  (بخاری: ۵ ۳۷۵؛ ۱۵۷۵)۔ بچھو کے کاٹنے کا سورۃ فاتحہ سے دَم کرنا اور اس کی اجرت لینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق شدہ عمل ہے (بخاری: ۶۳۷۵؛ ۷۳۷۵؛ ۹۴۷۵)۔ نظر بد لگ جانے پر معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) سے دَم کرلیا کرو (بخاری: ۸۳۷۵)۔ نظر بد لگنا حق ہے۔ نظر بد لگنے کی وجہ سے ایک لڑکی کے چہرے پر کالے دھبے پڑگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس پر دَم کرادو (بخاری: ۹۳۷۵؛ ۰۴۷۵)۔ ہر زہریلے جانور کے کاٹنے میں جھاڑنے (دَم کرنے) کی اجازت ہے (بخاری: ۱۴۷۵)۔ بیمار پر یہ دعا پڑھ کر دَم کرنا ایک مسنون عمل ہے :  اللہم رب الناس، مُذ ھِب الناس، اشفِ انت الشافی لا شافی الا انتَ، شِفاءَ لا یُغادرُ سَقَما۔ اے اللہ! لوگوں کے رب! تکلیف کو دور کردینے والے! شِفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کوئی شفاء  دینے والانہیں۔ ایسی شِفاء عطا فرما کہ بیماری بالکل باقی نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بیماروں پر یہ دعا پڑھ کر دم کرتے (بخاری: ۲۴۷۵؛ ۳۴۷۵؛ ۰۵۷۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے لیے شہادت کی انگلی زمین  پر لگا کر یہ دعا پڑھتے تھے  بسم اللہ تربۃ ارضنا بریقۃ بعضنا یشفی سقیمنا باذن ربنا:  اللہ کے نام سے ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کی شِفایابی کا ذریعہ ہوگی  (بخاری: ۵۴۷۵؛ ۶۴۷۵)۔ سوتے وقت اور بیماری کی حالت میں اپنے دونوں ہتھیلیوں پر معوذات(سورۃ اخلاص، الفلق اور الناس) پڑھ کر دم کرو اور دونوں ہاتھوں کو چہرے اور جسم پر پھیر لو (بخاری: ۸۴۷۵)۔ امراض میں چھوت چھات اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں ہے۔

مریض۔ عیادت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کی عیادت کرتے تو یوں دعا کرتے:اے لوگوں کے پروردگار! بیماری دور کردے۔ اے انسانوں کے پالنے والے! شفاء عطا فرما تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء نہیں۔ ایسی شفاء دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے (بخاری: ۵۷۶۵)۔

امراض۔ وبائی: چھوت لگنا، بد شگونی لینا، الو پرندہ اور ماہِ صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہے۔ البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگ جیسے شیر سے بھاگتا ہے  (بخاری:۷۰۷۵؛ ۷۱۷۵)۔ جب کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہو تو وہاں مت جاؤ  اور جب ایسی جگہ وبا پھوٹ پڑے جہاں تم خود موجود ہوتو وہاں سے نہ نکلو (بخاری:۸۲۷۵ تا ۰۳۷۵)۔ مدینہ منورہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا اور نہ طاعون آسکے گا (بخاری:۱۳۷۵)۔ طاعون کے مرض اور پیٹ کی بیماری (ہیضہ) میں وفات پانے والا ہر مسلمان شہید ہے (بخاری:۲۳۷۵ تا ۴۳۷۵)۔  اللہ نے طاعون کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی مومن کی بستی میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے اوروہ صبر کرکے وہیں ٹھہرا رہے اور اجر کا امیدوار ہو توموت کی صورت میں اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا (بخاری: ۹۱۶۶)۔

علم، جہل:
 اللہ علماء کو موت دے کر علم کو اُٹھائے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے۔ ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے (بخاری:۰۰۱)۔ اللہ تعالیٰ علم کو ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا  بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا۔ پھر کچھ جاہل  لوگ باقی رہ جائیں گے جو لوگوں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے (بخاری: ۷۰۳۷)۔

عیدین۔ عید الفطر:
ایک مرتبہ عید کے دن حجرہ عائشہ  ؓ میں انصار کی دو لڑکیاں  دف بجاتے ہوئے جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ میں داخل ہوئے۔ آپ ﷺ کوئی اعتراض کئے بغیر بستر پر دوسری طرف منہ کرکے لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعدحضرت ابوبکرؓ  حجرہ میں آئے تو اپنی بیٹی پر خفا ہوئے اور فرمایا: یہ شیطانی گانے بجانے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکرؓ!انہیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اورآج  ہماری عیدکا دن ہے۔ (بخاری: ۹۴۹؛ ۲۵۹؛ ۷۸۹؛ ۶۰۹۲؛ ۱۳۹۳)۔ عید کے دن حبشہ کے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کے دروازہ پر اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کواپنی پیٹھ کے پیچھے کھڑا کرکے انہیں یہ کھیل اُس وقت تک دکھاتے رہے، جب تک وہ تھک نہ گئیں۔حضرت ابوبکرؓ نے حبشیوں کو ڈانٹا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو اور بنی ارفدہ! تم بے فکر ہوکر کھیلو(بخاری: ۰۵۹؛ ۸۸۹؛ ۷۰۹۲؛ ۰۳۵۳)۔ عید کے دن حرم میں ہتھیار نہیں لایا جاتا تھا (بخاری: ۶۶۹؛ ۷۶۹)۔ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزے نہ رکھے جائیں (بخاری: ۴۶۸۱؛ ۱۷۵۵؛۵۰۷۶)۔ 

عیدین۔ جمعہ:
جمعہ کے دن عید الفطر کا خطبہ دیتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج کے دن تمہارے لیے دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہوگئیں ہیں۔لہٰذا جس کا جی چاہے، جمعہ بھی پڑھ لے (یعنی جمعہ کی بجائے ظہر بھی پڑھ سکتا ہے) (بخاری: ۲۷۵۵)۔

عید الفطر۔ عید گاہ، نماز: عید الفطر کے دن طاق عدد کھجوریں کھا کر نمازِ عید کے لیے نکلتے (بخاری: ۳۵۹)۔ عیدین کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر عیدگاہ میں پہلے نماز پڑھاتے، پھر خطبہ میں وعظ و نصیحت فرماتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو لشکر تشکیل دیتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے پھر مدینہ تشریف لاتے (بخاری: ۶۵۹ تا ۸۵۹؛ ۲۶۹؛ ۳۶۹)۔ ادوارِ رسالت و خلفائے راشدین میں عیدین کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا (بخاری: ۹۵۹؛۰۶۹)۔ نماز عید اور خطبہ سے فارغ ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصیحت کی تو عورتوں نے حضرت بلالؓ کی پھیلائی ہوئی جھولی میں صدقہ کے طور پر اپنے زیورات ڈالتی رہیں (بخاری: ۱۶۹؛ ۵۷۹؛۷۷۹ تا ۹۷۹؛ ۱۳۴۱؛ ۹۴۴۱) ۔عید الفطر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نمازِ عید پڑھی۔ نہ اس سے پہلے کوئی نفل پڑھا نہ اس کے بعد (بخاری: ۴۶۹؛۹۸۹؛ ۱۳۴۱؛۳۸۸۵)۔ عیدین کی نماز کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی کی آڑ بطور سترا گاڑ دی جاتی تھی اور آپ ﷺ اسی کی آڑ میں نماز پڑھتے تھے (بخاری: ۲۷۹؛ ۳۷۹)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ جانے والے کم سن ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا کوئی ذکر نہیں کیا (بخاری: ۵۲۳۷)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے عید گاہ جاتے اور دوسرے راستہ سے واپس آتے (بخاری: ۶۸۹)۔

عید گاہ۔ خواتین: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی عیدگاہ جاتیں تھیں۔ یہ سب مردوں کی صفوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی تکبیر کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی دعا کرتیں۔ البتہ حائضہ والیاں نماز نہیں پڑھتی تھیں (بخاری: ۱۷۹؛ ۴۷۹؛ ۰۸۹؛ ۱۸۹)۔

 عیدین۔ عید الاضحی:
 عید الاضحی۔ایام تشریق:ذی الحجہ کے پہلے دس دن یعنی ایام تشریق کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں بھی نہیں، جہاد میں بھی نہیں، ماسوائے اُس شخص کے جو جہاد کے لیے اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا (بخاری: ۹۶۹)۔ ایام حج میں منیٰ کے قیام کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ میں لیٹے ہوئے تھے اور وہاں دو انصاری لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔ ابوبکر ؓ نے یہ منظر دیکھ کر انہیں ڈانٹا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابوبکرؓ! انہیں چھوڑ دو۔ یہ عید کے دن ہیں (بخاری: ۹۲۵۳)۔

عید الاضحی۔ نماز، قربانی: عید الاضحی کے دن کی ابتداء ہم نماز عید سے کریں گے، پھر قربانی کریں گے۔ یہی میری سنت ہے۔ جو نماز عید سے پہلے ذبیحہ کرے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی ہوگی، قربانی کی نہیں (بخاری:  ۱۵۹؛۵۴۵۵؛ ۶۴۵۵؛ ۰۶۵۵؛ ۳۶۵۵)۔ عید الاضحی کے دن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کردے تو اس کا ذبیحہ جانور کا گوشت ہے، قربانی نہیں۔ اسے نماز کے بعد دوبارہ قربانی کرنی چاہیے (بخاری: ۴۵۹؛ ۵۵۹؛ ۵۶۹؛ ۸۶۹؛ ۶۷۹؛ ۳۸۹ تا ۵۸۹؛۰۰۵۵؛ ۹۴۵۵؛ ۱۶۵۵؛ ۲۶۵۵؛ ۳۷۶۶؛ ۴۷۶۶؛ ۰۰۴۷)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں نحر اور ذبح کیا کرتے تھے (بخاری: ۲۸۹)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور پر سوار ہونے کی اجازت دی تھی(بخاری:۹۸۶۱؛ ۰۹۶۱؛ ۶۰۷۱؛  ۹۵۱۶؛ ۰۶۱۶)۔ قربانی کے جانوروں کے لیے ہار بنانا اور انہیں ہار پہنانا مسنون ہے  (بخاری:۴۰۷۱؛ ۵۰۷۱)۔

قربانی۔ گوشت، کھال: حج تمتع کی قربانی آزاد اور غلام دونوں پر واجب ہے (بخاری:۱۱۷۱)۔ اونٹوں کو بٹھا یا لٹاکر نہیں بلکہ کھڑا کرکے ہی نحر کرنا سنت ہے (بخاری:۳۱۷۱)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانوروں کی کھال کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا (بخاری:۷۰۷۱)۔ قربانی کے گوشت، اوجھڑی اور کھال میں سے کوئی چیز بھی قصائی کو مزدوری میں نہ دی جائے (بخاری:۶۱۷۱ تا ۸۱۷۱)۔ منیٰ میں قربانی کا گوشت کھانے اور توشہ کے طور پرگھر لے جانے کی بھی اجازت ہے (بخاری:۹۱۷۱)۔ قربانی کے جانوروں کے جھول اور کھال کو خیرات کرنے کا حکم ہے(بخاری:۹۹۲۲)۔ عورت کا ذبیحہ جائز ہے۔کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک باندی نے اپنے مالک کے چرتے ہوئے بکریوں میں سے ایک کو مرتے دیکھ کر نوکدار پتھر سے ذبح کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھانے کا حکم دیا (بخاری: ۴۰۳۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام ؓ قربانی کا گوشت بطور توشہ مدینہ لے جایا کرتے تھے (بخاری:۰۸۹۲)۔ جس شخص کے اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا (بھیڑ بکریوں کی انتڑیوں کا ہار) ہو وہ اسے کاٹ ڈالے (بخاری:۵۰۰۳)۔ تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت کا حکم منسوخ کردیا گیا تھا (بخاری:۷۹۹۳)۔ قربانی کا گوشت کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو یعنی قربانی کا گوشت جمع کرکے رکھنا بھی جائز ہے (بخاری:  ۹۶۵۵)۔ مسلمان گوشت لاکر دے اور یہ یقینی نہ بھی ہو کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں تب بھی اسے اللہ کا نام لے کر کھاسکتے ہو (بخاری: ۸۹۳۷)۔
 
 قربانی۔ جانور: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بکریوں کے گوشت سے بہتر کی حامل ایک سال سے کم عمر کی بکری کی قربانی کی اجازت دے دی تھی(بخاری: ۹۴۵۵)۔نبی کریم ﷺ نے ابو بردہ ؓ کو ایک سال سے کم عمرکی بکری کی قربانی کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا: کسی اور کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں (بخاری: ۶۵۵۵؛ ۷۵۵۵؛ ۰۶۵۵؛ ۳۶۵۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی(بخاری: ۹۵۵۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے (بخاری: ۳۵۵۵؛۴۵۵۵؛ ۸۵۵۵؛۴۶۵۵؛ ۵۶۵۵)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھوں کی قربانی کی اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھا (بخاری: ۹۹۳۷)۔ قربانی کے اونٹ پر سواری کرنا جائز ہے (بخاری:۴۵۷۲؛ ۵۵۷۲)۔

  غلام، باندی، خادم:
غلام۔ احکامات: تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اگرچہ اللہ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ انہیں وہی کھلاؤ  پہناؤجو خود کھاتے پہنتے ہو۔ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا کرنا پڑے تو ان کی خود بھی مدد کردیا کرو (بخاری:۱۳؛۵۴۵۲؛ ۰۵۰۶)۔ کوئی اپنے غلام کو میرا بندہ، میری بندی اور خود کو ان کا رب (بمعنی آقا) نہ کہے بلکہ انہیں میرا خادم، میری خادمہ، میرا غلام، میری باندی اور خود کو سردار یا آقا کہلوائے (بخاری:۲۵۵۲)۔وہ غلام کتنا اچھا ہے جو اپنے رب کی عبادت حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے اور اپنے مالک کی خیر خواہی بھی کرتا رہے (بخاری: ۹۴۵۲)۔  اپنے آقا کا خیر خواہ غلام جو اپنے رب عبادت بھی اچھی طرح کرتا ہو تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے (بخاری:۷۹؛۶۴۵۲ تا ۸۴۵۲؛ ۰۵۵۲؛ ۱۵۵۲؛۱۱۰۳؛ ۶۴۴۳؛ ۳۸۰۵)۔  جو کوئی اپنے مالک کو چھوڑ کر اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مالک بنائے، اس پراللہ، تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل (بخاری:۰۷۸۱)۔ مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے (بخاری: ۰۳۲۲؛ ۱۳۲۲؛۴۳۵۲)۔ ایک صحابی نے اپنے غلام کو مدبر بنادیا (کہ ان کی موت کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا)۔ چونکہ ان کے پاس کوئی اور مال نہ تھا تو نبی کریم ﷺ نے اس غلام کو آٹھ سو درہم میں بیچ کر اس کی قیمت انہیں بھیج دی (بخاری: ۶۸۱۷)۔  جب کوئی غلام  یا خادم تمہارے لیے کھانا پکا کر لائے اورتم اسے اپنے ساتھ بٹھا کر نہ کھلا سکو تو اسے ایک دو لقمہ ہی کھلادو (بخاری: ۷۵۵۲؛۰۶۴۵)۔ مدینہ میں حضرت انس  ؓ لڑکپن سے ہی سفر و حضر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے مگر آپ ﷺ نے کبھی انس ؓ کو سرزنش نہیں کی کہ فلاں کام کیوں نہیں کیا (بخاری:۸۶۷۲)۔ کسی گھرانے کا غلام اسی گھرانے کا ایک فرد ہوتا ہے (بخاری: ۱۶۷۶)۔

غلام۔ آزادی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا (بخاری: ۴۵۰۱؛۹۱۵۲؛  ۰۲۵۲)۔ اگر کسی نے مال والا غلام بیچا تو مال بیچنے والے کا ہوتا ہے الا یہ کہ خریدار مال سمیت غلام خریدنے کی شرط لگا دے (بخاری:۹۷۳۲)۔ ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کیا لیکن اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اس کا غلام واپس کرادیا جسے نعیم بن نحام نے خرید لیا (بخاری:۵۱۴۲)۔جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ اس غلام کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے ہر عضو کو دوزخ سے آزاد کردے گا(بخاری:۷۱۵۲)۔ سب سے زیادہ قیمتی اور مالک کی نظر میں پسندیدہ غلام آزاد کرنا افضل ہے (بخاری: ۸۱۵۲)۔ جس نے کسی مشترک غلام کے اپنے حصے کو آزاد کیا اور اس کے پاس غلام کی پوری آزادی کے لیے مال بھی ہے تو باقی شراکت دار کو ان کے حصے کی قیمت ادا کرکے پورا غلام آزاد کرنا اس پر لازم ہے۔ اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو باقی حصوں کی آزادی کے لیے غلام کو خود کوشش کرکے قیمت ادا کرنی ہوگی (بخاری:۱۲۵۲ تا ۷۲۵۲؛ ۳۵۵۲)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اسلام قبول کرنے کی نیت سے مدینہ کے لیے نکلے تو راستے میں ان کا غلام ان سے بچھڑگیا۔ مدینہ پہنچ کر جب ابو ہریرہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کا غلام بھی وہاں پہنچ گیا تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے اپنے غلام کو آزاد کردیا (بخاری:۰۳۵۲ تا ۲۳۵۲)۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے تھے اور سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دئے تھے۔اسلام لانے کے بعد بھی انہوں نے سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو، وہ سب قائم رہیں گی (بخاری:۸۳۵۲)۔ جو باندی یا غلام کو آزاد کرے، تو اس کا ولاء آزاد کرنے والے کے ساتھ ہے (بخاری: ۷۹۰۵)۔ جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ غلام کے ایک ایک عضو کے بدلہ آزاد کرنے والے کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد کرے گا(بخاری: ۵۱۷۶)۔ 

غلام، باندی۔ مکاتبت: حضرت بریرہ ؓ نے اپنے آقا سے پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں کی عوض مکاتبت کی اور اس سلسلہ میں مدد کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کل قیمت یکمشت دے کر انہیں خریدنے کی پیشکش کی اور کہا کہ میں تمہیں خرید کر آزاد کردوں گی یوں تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوجائے گی۔حضرت بریرہؓ کے مالک نے انہیں بیچنا اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ بریرہ کی ولاء(وہ ترکہ جو آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے) انہی کے پاس رہے گا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ جو کوئی ایسی شرط لگائے جس کی دلیل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے (بخاری:۰۶۵۲ تا ۵۶۵۲؛ ۸۷۵۲؛ ۷۱۷۲؛ ۶۲۷۲؛ ۹۲۷۲؛ ۵۳۷۲؛ ۹۵۷۶؛ ۰۶۷۶)۔ ولاء کے تعلق کو بیچنے یا ہبہ کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (بخاری: ۶۵۷۶)۔فرمانِ عائشہ ؓ: بریرہ ؓ سے دین کے تین مسئلے معلوم ہوئے۔ شادی شدہ باندی اگر اپنے غلام شوہر سے پہلے آزاد ہوجائے تو اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو غلام یا باندی کو آزاد کرے۔ اگر کوئی زکوٰۃ میں ملا ہوا مال دوسرے کو دے تو دوسرے کے لیے یہ ہدیہ بن جاتا ہے (بخاری: ۸۷۲۵)۔

لونڈی احکامات: اس آدمی  کے لیے دُگنااجر ہے جس کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اسے عمدہ تعلیم و تربیت دے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔ (بخاری:۷۹؛۷۴۵۲؛ ۳۸۰۵؛۱۱۰۳؛۶۴۴۳)۔ جب کوئی غیر شادی شدہ باندی زنا کرے تو شرعی ثبوت ملنے پر اسے کوڑے لگوائے مگر لعنت نہ کرے۔ باندی اگر یہی کام تیسری یا چوتھی مرتبہ بھی کرے تو اسے بیچ دے، خواہ ایک رسی کے بدلہ ہی میں بیچنا پڑے (بخاری: ۲۵۱۲ تا ۴۵۱۲؛ ۲۳۲۲ تا ۴۳۲۲؛۵۵۵۲؛ ۶۵۵۲)۔ غزوہ بنی مصطلق میں مسلمانوں کو قیدی اور باندیاں ہاتھ آئیں۔ امیر لشکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا ہم باندیوں سے ہم بستری کے دوران عزل (حمل سے بچنے کے لیے منی باہر خارج کرنا) کرسکتے ہیں؟ جواب ملا: تم ایسا کرسکتے ہو۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن روحوں کی پیدائش مقدر ہوچکی ہے، وہ تو ضرور پیدا ہوکر رہیں گی (بخاری:۹۲۲۲؛۲۴۵۲؛ ۳۰۶۶؛ ۹۰۴۷)۔ بیوی کی باندی سے ہم بستری کرنا جائز نہیں۔ لاعلمی کی وجہ سے بیوی کی باندی سے ہم بستری کرنے والے کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو کوڑوں کی سزا دی تھی (بخاری:۰۹۲۲)۔ ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے رسول اللہ ﷺنے منع فرمایا ہے (بخاری:۵۳۵۲)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر جب حملہ کیا تو وہ بالکل غافل تھے۔ ان کے لڑنے والوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو قید کرلیا گیا۔ انہی قیدیوں میں جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو اُم المومنین بنیں (بخاری:۱۴۵۲)۔  

لونڈی، غلام۔ حقوق: باندی کے لڑکے کا تنازعہ: نبی ﷺکا فیصلہ کہ لڑکا جس کے بستر پر پیدا ہو، اسی کا شمار ہوگا (بخاری:۳۳۵۲)۔  حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے مالک سے خرید کر آزاد کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دئے گئے اختیار سے انہوں نے اپنے دور غلامی کے شوہر حضرت مغیث ؓ سے اپنے نکاح کو فسخ کردیا تھا (بخاری:۶۳۵۲؛۸۷۵۲؛۷۹۰۵؛۸۵۷۶)۔ بریرہ ؓ نے اپنی آزادی کے بعد اپنے غلام شوہر مغیثؓ کے ساتھ رہنے سے انکار کردیا تو وہ مدینہ کی گلیوں میں روتے پھرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے بریرہ ؓ سے کہا:کاش تم مغیث ؓکے بارے میں اپنا فیصلہ بدل لو۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں صرف سفارش کررہا ہوں۔ بریرہؓ نے جواب دیا: مجھے مغیث ؓکے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے (بخاری: ۳۸۲۵)۔ جس نے اپنے غلام پر غلط تہمت لگائی تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے (بخاری: ۸۵۸۶)۔ 

لونڈی سے زنا: ایک سرکاری غلام نے حصہ خمس کی ایک باندی سے زبردستی صحبت کرلی تو حضرت عمرؓ نے غلام پر حد جاری کرائی اور اسے شہر بدر بھی کردیا لیکن باندی پر حد جاری نہیں کی(بخاری: ۹۴۹۶)۔ امام زہریؒ (تابعی) کہتے ہیں:اگر کسی آزاد نے کسی کنواری باندی سے ہمبستری کرلی تو اسے کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور باندی کی قیمت میں جو کمی ہوئی ہے، وہ بھی باندی کے مالک کو دینے ہوں گے۔ لیکن اگر آزاد مرد نے ثیبہ (غیر کنواری) لونڈی سے زنا کیا تو اس پر صرف حد لگائی جائے گی، کوئی تاوان واجب نہ ہوگا (بخاری: ۹۴۹۶)۔

غلام، قیدی۔ ہجرت، فدیہ: بعض انصاریوں نے اپنے بھانجہ عباس کا فدیہ معاف کرنے کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درہم بھی چھوڑنے سے منع فرمادیا (بخاری:۷۳۵۲)۔ ابن عباسؓ کا فرمان:ہمارے لیے مشرکین دو طرح کے تھے۔ ایک لڑائی کرنے والے مشرکین دوسرے عہد و پیمان کرنے والے مشرکین۔جب اہل کتاب حرب کی کوئی عورت قبول اسلام اور ہجرت کرکے مدینہ آتی تو حیض سے پاک ہونے کے بعد ان سے نکاح جائز ہوجاتا۔ اگر مشرکین میں سے کوئی غلام یا لونڈی قبول اسلام کرکے ہجرت کرتی تو اسے آزاد سمجھا جاتا اور وہ مہاجرین کے سے حقوق پاتے۔ البتہ اگر اس کا تعلق معاہد مشرکین سے ہوتا ان کے مالک مشرکین کو ان کی قیمت ادا کی جاتی (بخاری: ۶۸۲۵)۔

غیب۔ علوم:
غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۱۔کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا؟  ۲۔ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟۳۔ قیامت کب آئے گی؟ ۴۔اسے موت کس جگہ آئے گی؟ ۵۔ بارش کب ہوگی؟ (بخاری:۹۳۰۱؛ ۹۷۳۷)۔ غیب کے خزانے پانچ ہیں جیسا کہ سورۃ لقمان آیت:۴۳ میں اللہ نے فرمایا ہے: بے شک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے۔ وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحموں میں کیا ہے۔ کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ کس زمین پر مرے گا۔ بے شک اللہ ہی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے (بخاری:۷۲۶۴؛ ۷۹۶۴)۔ اے اُمت محمد ﷺ! اگر تمہیں وہ معلوم ہوتا جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ (بخاری: ۱۲۲۵)۔

فتنہ، فسق و فجور:
 فتنے۔ نشانیاں: ایک وقت ایسا آئے گا جب علم اُٹھا لیا جائے گا، جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور قتل بڑھ جائے گا  (بخاری:۵۸)۔ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے اور زلزلوں کی کثرت نہ ہوجائے۔زمانہ جلدی جلدی گزرے گا،فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور قتل کی کثرت ہوجائے گی۔ قتل اور مال و دولت کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا (بخاری:۶۳۰۱)۔ کفر کی چوٹی مشرق میں اور فخر، تکبر گھوڑے اونٹ والوں اور زمینداروں میں ہوتا ہے جبکہ بکری والوں میں دل جمعی ہوتی ہے (بخاری: ۱۰۳۳)۔

فتنے۔ جھگڑے: اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو (بخاری:۷۵۴۲؛۳۲۵۴؛۸۸۱۷)۔ جھگڑے میں چہرے پر مارنے سے پرہیز کرو (بخاری:۹۵۵۲)۔ عنقریب تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے (بخاری: ۷۶۴۲؛ ۷۹۵۳؛ ۰۶۰۷)۔  

فتنے۔ تباہی: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ نجد میں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ اور شیطان کا سینگ وہیں سے طلوع ہوگا (بخاری:۷۳۰۱؛ ۴۹۰۷)۔ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا تو نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود بربادی ہوگی (بخاری: ۶۴۳۳)۔  اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آگیا ہے (بخاری: ۸۹۵۳)۔سبحان اللہ! مسلمانوں کو ملنے کے لیے کیسے کیسے خزانے اترے ہیں اور کیا کیا فتنے و فساد اترے ہیں (بخاری: ۹۹۵۳)۔ 

۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں