مسئلہِ تین طلاق



مسئلہِ تین طلاق

(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 دین اسلام میں شوہر اپنی بیوی کو "تین مرتبہ" طلاق دینے کا شرعی حق رکھتا ہے۔ اس "تین مرتبہ" طلاق کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔


ا۔ پہلا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر پہلی مرتبہ طلاق دینا

۲۔ پہلی طلاق کی عدت (یعنی تین حیض) کے اندر "رجوع" کرنا یا بعد از عدت دوسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر دوسری مرتبہ طلاق دینا۔

۳۔ دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرنا یا بعد از عدت تیسرا نکاح کرنا ۔۔۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دینا 


تین مرتبہ طلاق کے لئے، تین مرتبہ نکاح (یا متبادل رجوع) کرنا لازمی ہے۔


 اس "تیسری مرتبہ طلاق" کے بعد اب نہ تو مرد "رجوع" کرسکتا ہے اور نہ ہی چوتھی مرتبہ اسی سے نکاح کرسکتا ہے۔ اب عورت تیسری مرتبہ طلاق کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے شادی کرسکتی ہے۔ اب اگر یہ دوسرا شوہر خدا نخواستہ انتقال کرجائے یا یہ بھی طلاق دے دے (طلاق لینے کی نیت سے نکاح کرنا حرام ہے۔حدیث) تب اس طلاق کی عدت گزار کر اپنے پہلے والے شوہر سے بھی چوتھا نکاح کرسکتی ہے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں "حلالہ" کہتے ہیں۔


فقہ حنفی میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو تین مرتبہ طلاق نافذ کردیا جاتا ہے، جو سنت کے سراسر خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ دو احادیث پیش ہیں، جن کی رو سے ایک ساتھ دی گئی  مبینہ "تین طلاق"، ایک طلاق ہی شمار ہوتی ہے۔ اہل حدیث علمائے کرام اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔ 


حدیث۔1: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، دور حضرت ابوبکر صدیق اور دور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پہلے دو برسوں تک (ایک ساتھ دی گئی) تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی تھی۔ (مسلم)


حدیث۔2: حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جانتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(نسائی۔3435)


طلاق کے بعد (یعنی طلاق کی عدت کی مدت گزرنے کے بعد) سابقہ شوہر سے نکاح ثانی کی اجازت بلکہ ترغیب خود اللہ تبارک تعالٰی نے ان الفاظ میں دی ہے:


 اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (سابقہ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔ (البقرۃ۔ ۲۹۹)


اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے جملہ معاملات قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

ا================ا


ایک ساتھ تین طلاق دینے کے ایک طلاق ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے:


طلاق کوئی چیز جیسے گیند وغیرہ نہیں ہے کہ ایک ساتھ تین یا زائد بھی دے دی جائے۔ یہ ایک عمل یعنی فعل کا نام ہے جیسے باؤلنگ ایک فعل ہے۔ باؤلنگ جیسا کوئی بھی عمل باری باری ہی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ باؤلنگ کی۔ پھر دوسری مرتبہ باؤلنگ کی پھر تیسری مرتبہ باؤلنگ  کی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پہلی مرتبہ طلاق دی، پھر دوسری مرتبہ طلاق دی، پھر تیسری مرتبہ طلاق دی۔ 


یا جیسے دن بھر میں "پانچ مرتبہ" نماز ادا کرنا فرض ہے۔ اب اگر کوئی نمازی نماز فجر کے وقت ہی ایک ساتھ ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی فرض رکعتیں بھی ادا کرلے، تب بھی "پانچوں وقت کی نمازیں" ادا نہیں ہوں گی۔ بلکہ یہ "ایک ہی نماز" یعنی فجر کی پہلی نماز ہی ادا ہوگی۔ اضافی پڑھی گئی رکعتوں کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔


ویسے بھی یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ طلاق منکوحہ کو دی جاتی ہے، کسی غیر منکوحہ یا مطلقہ کو نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ بیوی کو طلاق دی گئی تو وہ منکوحہ سے مطلقہ بن گئی اور عدت میں بیٹھ گئی۔ اب اس عدت والی مطلقہ سے رجوع کرکے اسے واپس بیوی (منکوحہ) تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس مطلقہ (غیر بیوی) کو مزید طلاق کیسے دی جاسکتی ہے؟ شوہر اپنی منکوحہ کو تین مرتبہ طلاق (تین طلاقیں ایک ساتھ) نہیں دے سکتا ہے۔ ترتیب صرف یہی ہوسکتی ہے۔


1۔ نکاح ۔ طلاق ؛

 2۔نکاح (یا رجوع)۔ طلاق

 3۔ نکاح (یا رجوع) ۔ طلاق۔


نوٹ: پچھلے دنوں بھائی کا ایک دوست اپنی بیوی کو "ایک ساتھ تین طلاق" دے کر پچھتاتا رہا تھا۔ پھر ہم نے اسے سمجھایا کہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہو۔ دونوں طرف کی فیملیز مصر تھیں کہ اب تو حلالہ کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ہم نے دارالعلوم جامعہ ابوبکر، گلشن اقبال (جہاں کے بہت سے اساتذہ مدینہ اسلامک یونیورسٹی کے فاضل ہیں) سے باقاعدہ فتوی لے کر دیا۔ تب ان کی فیملیز مطمئن ہوئیں۔ اور دونوں کا نکاح ثانی ہوگیا الحمدللہ۔ یوں ایک گھر مستقل ٹوٹنے سے اور بچے رلنے سے بچ گئے۔ ثم الحمدللہ


(مرتبہ: یوسف ثانی، مدیر: پیغام قرآن و حدیث)


 نوٹ ثانی:


آج کل طلاق کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غصہ ختم ہوجائے تو پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ پھر کم علمی کے سبب یا تو ایک گھر ٹوٹ جاتا ہے، بچے رل جاتے ہیں یا پھر بعض مولویوں کے کہنے پر "حرام حلالہ" کے ذریعہ عورت پر ظلم کرواتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والی فیملی میں ایسا ہی ایک تازہ ترین طلاق کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے دونوں گھرانوں کو اوپر والا مراسلہ بھیج دیا اس امید پر کہ انہیں عقل آجائے اور دو گھرانے اور دو معصوم بچے رلنے سے بچ جائیں۔ یہ مراسلہ اپنے پاس محفوظ رکھ لیجئے۔ خدانخواستہ کسی جاننے والی فیملی میں ایسا کوئی سانحہ ہوجائے تو اس سے ان کی علمی مدد کی جاسکتی ہے۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

3 تبصرے:

  1. السلام علیکم! آپ نے جو دو احادیث پیش کی ہیں ان میں سے دوسری روایت کے اخیر الفاظ ہیں کہ حضرت عمر رض کے ابتدائ دور میں گویا اخیر دور میں ایسا نہیں تھا یعنی جمہور صحابہ رض نے اس پر کوئ اعتراض بھی نہیں کیا - اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پہلی بات یہ نوٹ کیجئے کہ شارع (شریعت دینے والے، اللہ کی طرف سے) صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شارع نہیں بلکہ شارح (شریعت کی شرح یعنی تشریح کرنے والے) ہیں۔
      چنانچہ جو عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جاری تھا یعنی ایک ساتھ متعدد طلاقوں کو ایک ہی گنا جاتا تھا۔ وہی شریعت ہے۔ حضرت عمر رض نے بطور حکمران قانون بنایا تھا جو غلط تھا اور دیگر روایات کے مطابق وفات سے قبل اس سے رجوع کرلیا تھا

      حذف کریں
    2. شارع نبی کریم ص ہیں حضرت عمر رض نہیں۔ ان کا یہ حکم بطور امیر المومنین تھا جسے انہوں نے وفات سے قبل دیگر روایات کے مطابق رجوع کرلیا تھا۔ واللہ اعلم

      حذف کریں