سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 146


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 146

مکی لشکر کی روانگی اور مدینے میں اطلاع:

بھرپور تیاری کے بعد مکی لشکر نے اس حالت میں مدینے کا رُخ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور انتقام کا جذبہ ان کے دلوں میں شعلہ بن کر بھڑک رہا تھا اور یہ عنقریب پیش آنے والی جنگ کی خونریزی اور شدت کا پتا دے رہا تھا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ قریش کی اس ساری نقل وحرکت اور جنگی تیاریوں کا بڑی چابک دستی اور گہرائی سے مطالعہ کررہے تھے، چنانچہ جوں ہی یہ لشکر حرکت میں آیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی ساری تفصیلات پر مشتمل ایک خط فوراً نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ فرما دیا۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قاصد پیغام رسانی میں نہایت پُھر تیلا ثابت ہوا، اس نے مکے سے مدینے تک کوئی پانچ سو کلومیٹر کی مسافت تین دن میں طے کرکے ان کا خط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کیا، اس وقت آپ مسجد قباء میں تشریف فرما تھے، یہ خط حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں رازداری برتنے کی تاکید کی اور جھٹ مدینہ تشریف لا کر انصار ومہاجرین کے قائدین سے صلاح ومشورہ کیا۔

اس کے بعد مدینے میں عام لام بندی کی کیفیت پیدا ہوگئی، لوگ کسی بھی اچانک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت ہتھیار بند رہنے لگے، حتی کہ نماز میں بھی ہتھیار جدا نہیں کیا جاتا تھا، ادھر انصار کا ایک مختصر سا دستہ جس میں سعد بن معاذ، اُسَید بن حُضیر اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی پر تعینات ہوگیا، یہ لوگ ہتھیار پہن کر ساری ساری رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر گزار دیتے تھے۔

کچھ اور دستے اس خطرے کے پیش نظر کہ غفلت کی حالت میں اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے، مدینے میں داخلے کے مختلف راستوں پر تعینات ہوگئے، چند دیگر دستوں نے دشمن کی نقل وحرکت کا پتا لگانے کے لیے طلایہ گردی شروع کردی، یہ دستے ان راستوں پر گشت کرتے رہتے تھے جن سے گزر کر مدینے پر چھا پہ مارا جاسکتا تھا۔

ادھر مکی لشکر معروف کاروانی شاہراہ پر چلتا رہا، یہاں تک کہ مدینے کے قریب پہنچ کر پہلے وادیٔ عقیق سے گزرا، پھر کسی قدر داہنے جانب کترا کر کوہ اُحد کے قریب عینین نامی ایک مقام پر جو مدینہ کے شمال میں وادئ قناۃ کے کنارے ایک بنجر زمین ہے، پڑاؤ ڈال دیا، یہ جمعہ 6 شوال 3 ھ کا واقعہ ہے۔

مدینے کے ذرائع اطلاعات مکی لشکر کی ایک ایک خبر مدینہ پہنچارہے تھے، حتیٰ کہ اس کے پڑاؤ کی بابت آخری خبر بھی پہنچادی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوجی ہائی کمان کی مجلس شوریٰ منعقد فرمائی، جس میں مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے صلاح مشورہ کرنا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا دیکھا ہوا ایک خواب بتلایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ واللہ! میں نے ایک بھلی چیز دیکھی، میں نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کے سرے پر کچھ شکستگی ہے اور یہ بھی دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ زِرہ میں داخل کیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گائے کی یہ تعبیر بتلائی کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قتل کیے جائیں گے، تلوار میں شکستگی کی یہ تعبیر بتلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا کوئی آدمی شہید ہوگا اور محفوظ زِرہ کی یہ تعبیر بتلائی کہ اس سے مراد شہر مدینہ ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینے سے باہر نہ نکلیں، بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہوجائیں، اب اگر مشرکین اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بے مقصد اور بُرا قیام ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کوچے کے ناکوں پر ان سے جنگ کریں گے اور عورتیں چھتوں کے اُوپر سے ان پر خشت باری کریں گی۔

یہی صحیح رائے تھی اور اسی رائے سے عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے بھی اتفاق کیا جو اس مجلس میں خزرج کے ایک سر کردہ نمائندہ کی حیثیت سے شریک تھا، لیکن اس کے اتفاق کی بنیاد یہ نہ تھی کہ جنگی نقطۂ نظر سے یہی صحیح موقف تھا، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور کسی کو اس کا احساس بھی نہ ہو۔

لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس نے چاہا کہ یہ شخص اپنے رفقاء سمیت پہلی بار سر عام رسوا ہوجائے اور اُن کے کفر ونفاق پر جو پردہ پڑا ہوا ہے، وہ ہٹ جائے اور مسلمانوں کو اپنے مشکل ترین وقت میں معلوم ہوجائے کہ ان کی آستین میں کتنے سانپ رینگ رہے ہیں۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 146 مکی لشکر کی روانگی اور مدینے میں اطلاع: بھرپور تیاری کے بعد مکی لشکر نے اس حالت میں مدینے کا ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 145


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 145

انتقامی جنگ کے لئے قریش کی تیاریاں:

اہل مکہ کو معرکہ بدر میں شکست وہزیمت کی جو زک اور اپنے صَنادید واَشراف کے قتل کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا، اس کے سبب وہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب سے کھول رہے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنے مقتولین پر آہ وفغاں کرنے سے بھی روک دیا تھا اور قیدیوں کے فدیے کی ادائیگی میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کرنے سے منع کردیا تھا، تاکہ مسلمان ان کے رنج وغم کی شدت کا اندازہ نہ کرسکیں، پھر انہوں نے جنگ بدر کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں اور اپنے جذبۂ غیظ وغضب کو تسکین دیں، اس کے ساتھ ہی اس طرح کی معرکہ آرائی کی تیاری بھی شروع کردی، اس معاملے میں سردارانِ قریش میں سے عِکرمَہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ، ابو سفیان بن حرب اور عبد اللہ بن ربیعہ زیادہ پُرجوش تھے اور سب سے پیش پیش تھے۔

ان لوگوں نے اس سلسلے میں پہلا کام یہ کیا کہ ابو سفیان کا وہ قافلہ جو جنگ بدر کا باعث بنا تھا اور جسے ابوسفیان بچا کر نکال لے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا، اس کا سارا مال جنگی اخراجات کے لیے روک لیا اور جن لوگوں کا مال تھا ان سے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت دھچکا لگایا ہے اور تمہارے منتخب سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے، لہٰذا ان سے جنگ کرنے کے لیے اس مال کے ذریعے مدد کرو، ممکن ہے کہ ہم بدلہ چکا لیں۔

قریش کے لوگوں نے اسے منظور کر لیا، چنانچہ یہ سارامال جس کی مقدار ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی، جنگ کی تیاری کے لیے بیچ ڈالا گیا، پھر انہوں نے رضاکارانہ جنگی خدمات کا دروازہ کھول دیا کہ جو اَحَابِیش، کنانہ اور اہل تِہامہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہیں وہ قریش کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔

انہوں نے اس مقصد کے لیے ترغیب وتحریص کی مختلف صورتیں بھی اختیار کیں، یہاں تک کہ ابوعزہ شاعر جو جنگ بدر میں قید ہوا تھا اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عہد لے کر کہ اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کبھی نہ اٹھے گا، ازراہِ احسان بلا فدیہ چھوڑدیا تھا، اسے صفوان بن امیہ نے ابھارا کہ وہ قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا کام کرے اور اس سے یہ عہد کیا کہ اگر وہ لڑائی سے بچ کر زندہ وسلامت واپس آگیا تو اسے مالا مال کردے گا، ورنہ اس کی لڑکیوں کی کفالت کرے گا، چنانچہ ابوعزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے ہوئے عہد وپیمان کو پسِ پشت ڈال کر جذبات غیرت وحمیت کو شعلہ زن کر نے والے اشعار کے ذریعے قبائل کو بھڑکانا شروع کردیا، اسی طرح قریش نے ایک اور شاعر مسافع بن عبد مناف جُمحی کو اس مہم کے لیے تیار کیا۔

ادھر ابوسفیان نے غزوہ سَویق سے ناکام ونامراد بلکہ سامان رسد کی ایک بہت بڑی مقدار سے ہاتھ دھو کر واپس آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو ابھارنے اور بھڑکانے میں کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھائی۔

پھر اخیر میں سَریۂ زید بن حارثہ کے واقعے سے قریش کو جس سنگین اور اقتصادی طور پر کمر توڑ خسارے سے دوچار ہونا پڑا اور انہیں جس قدر بے اندازہ رنج والم پہنچا، اس نے آگ پر تیل کا کام کیا اور اس کے بعد مسلمانوں سے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے قریش کی تیاری کی رفتار میں بڑی تیزی آگئی۔

چنانچہ سال پورا ہوتے ہوتے قریش کی تیاری مکمل ہوگئی، ان کے اپنے افراد کے علاوہ ان کے حلیفوں اور احابیش کو ملا کر مجموعی طور پر کل تین ہزار فوج تیار ہوئی، قائدین قریش کی رائے ہوئی کہ اپنے ساتھ عورتیں بھی لے چلیں، تاکہ حرمت وناموس کی حفاظت کا احساس کچھ زیادہ ہی جذبہ جان سپاری کے ساتھ لڑنے کا سبب بنے، لہٰذا اس لشکر میں ان کی عورتیں بھی شامل ہوئیں جن کی تعداد پندرہ تھی، سواری وبار برداری کے لیے تین ہزار اونٹ تھے اور رسالے کے لیے دو سو گھوڑے، ان گھوڑوں کو تازہ دم رکھنے کے لیے پورے راستے ان پر سواری نہیں کی گئی، حفاظتی ہتھیاروں میں سات سو زِرہیں تھیں۔

ابو سفیان کو پورے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا گیا، رسالے کی کمان خالد بن ولید کو دی گئی اور عکرمہ بن ابی جہل کو ان کا معاون بنایا گیا، پرچم مقررہ دستور کے مطابق قبیلہ بنی عبدالدار کے ہاتھ میں دیا گیا۔

==================ََ>>جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 145 انتقامی جنگ کے لئے قریش کی تیاریاں: اہل مکہ کو معرکہ بدر میں شکست وہزیمت کی جو زک اور اپنے صَ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 144


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 144

سریہ زید بن حارثہ ؓ:

جنگ احد سے پہلے مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی، جو جمادی الآخر 3 ھ میں پیش آئی۔

واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد قلق واضطراب میں مبتلا تو تھے ہی، مگر جب گرمی کا موسم آگیا اور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا توانہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی، اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے جسے قریش کی طرف سے اس سال ملکِ شام جانے والے تجارتی قافلے کا میر کارواں منتخب کیا گیا تھا، قریش سے کہا: ''محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پُر صعوبت بنادی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں، وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگانِ ساحل نے ان سے مصالحت کرلی ہے، عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہوگئے ہیں، اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں۔؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا، کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دار ومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں۔''

صفوان کے اس سوال کے بعد اس موضوع پر غور وخوض شروع ہوگیا، آخر اسود بن عبدالمطلب نے صفوان سے کہا: ''تم ساحل کا راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سفر کرو۔'' واضح رہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے، نجد سے ہو کر شام جاتا ہے اور مدینہ کے مشرق میں خاصے فاصلے سے گزرتا ہے، قریش اس راستے سے بالکل ناواقف تھے، اس لیے اسود بن عبد المطلب نے صفوان کو مشورہ دیا کہ وہ فرات بن حیان کو جو قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا، راستہ بتانے کے لیے راہنما رکھ لے، وہ اس سفر میں اس کی رہنمائی کردے گا۔

اس انتظام کے بعد قریش کا کارواں صفوان بن امیہ کی قیادت میں نئے راستے سے روانہ ہوا، مگر اس کارواں اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی خبر مدینہ پہنچ گئی، ہوا یہ کہ سلیط بن نعمان رضی اللہ عنہ جو مسلمان ہوچکے تھے، نعیم بن مسعود کے ساتھ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، بادہ نوشی کی ایک مجلس میں جمع ہوئے، یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے، جب نعیم پر نشے کا غلبہ ہوا تو انہوں نے قافلے اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی تفصیل بیان کرڈالی، سلیط رضی اللہ عنہ پوری برق رفتاری کے ساتھ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ساری تفصیل کہہ سنائی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً حملہ کی تیاری کی اور سو سواروں کا ایک رسالہ حضرت زید بن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہ کی کمان میں دے کر روانہ کیا، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے نہایت تیزی سے راستہ طے کیا اور ابھی قریش کا قافلہ بالکل بے خبری کے عالم میں قردہ نامی ایک چشمہ پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے اُتررہا تھا کہ اسے جا لیا اور اچانک یلغار کرکے پورے قافلے پر قبضہ کرلیا، صفوان بن امیہ اور دیگر محافظین کارواں کو بھاگنے کے سوا کوئی چارۂ کار نظر نہ آیا۔

مسلمانوں نے قافلے کے راہنما فرات بن حیان اور مزید دو آدمیوں کو گرفتار کرلیا، ظروف اور چاندی کی بہت بڑی مقدار جو قافلے کے پاس تھی اور جس کا اندازہ ایک لاکھ درہم تھا، بطور غنیمت ہاتھ آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خُمس نکال کر مالِ غنیمت رسالے کے افراد پر تقسیم کردیا اور فرات بن حیان نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔ (ابن ہشام ۲/۵۰ ، ۵۱۔ رحمۃ للعالمین ۲/۲۱۹)

بدر کے بعد قریش کے لیے یہ سب سے الم انگیز واقعہ تھا، جس سے ان کے قلق واضطراب اور غم والم میں مزید اضافہ ہوگیا، اب ان کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو اپنا کبر وغرور چھوڑ کر مسلمانوں سے صلح کرلیں، یا بھر پور جنگ کرکے اپنی عزتِ رفتہ اور مجدِ گزشتہ کو واپس لائیں اور مسلمانوں کی قوت کو اس طرح توڑ دیں کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں، قریش مکہ نے اسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا، چنانچہ اس واقعہ کے بعد قریش کا جوشِ انتقام کچھ اور بڑھ گیا اور اس نے مسلمانوں سے ٹکر لینے اور ان کے دیار میں گھس کر ان پر حملہ کرنے کے لیے بھر پور تیاری شروع کردی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح:

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، ان کا پہلا نکاح خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا اور انہوں نے ان ہی کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی، خنیس رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور واپس آ کر ان ہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی، خنیس رضی اللہ عنہ نے اپنی یادگار میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بیوہ ہوجانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کی فکر ہوئی، اتفاق سے اسی زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو چکا تھا، اس بناء پر سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے نکاح کی خواہش حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کی، انہوں نے کہا: "میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی بے التفاتی کا رنج ہوا، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ ان کے بہترین دوستوں نے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ وہ بڑی خوبیوں کی مالک ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باتوں سے متاثر ہوئے اور بولے: "پرواہ نہ کرو، میں عثمان کے لئے تمہاری بیٹی سے بہتر بیوی کا انتظام کروں گا اور تمہاری بیٹی کو عثمان سے بہتر شوہر ملے گا۔" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں اپنی دوسری بیٹی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا دے کر انہیں اعزاز بخشنا چاہتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوہ بیٹی سے خود نکاح کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقار میں اضافہ کے خواہش مند تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے 45 ہجری میں وفات پائی، مروان بن الحکم حاکم مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بنی حزم کے گھر سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے گھر تک جنازہ کو کندھا دیا، جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت:

15 رمضان المبارک کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی، آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 144 سریہ زید بن حارثہ ؓ: جنگ احد سے پہلے مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی، جو جمادی ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 143


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 143

کعب بن اشرف یہودی کا قتل:

کعب بن اشرف یہودیوں میں وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہلِ اسلام سے نہایت سخت عداوت اور جلن تھی، یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کی کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا، اس کا تعلق قبیلہ طی کی شاخ بنو نبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی۔

یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا، عرب میں اس کے حسن وجمال کا شہرہ تھا اور یہ ایک معروف شاعر بھی تھا، اس کا قلعہ مدینے کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا، اسے جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سردارانِ قریش کے قتل کی پہلی خبر ملی تو بے ساختہ بول اٹھا: "کیا واقعتاً ایسا ہوا ہے؟ یہ عرب کے اشراف اور لوگوں کے بادشاہ تھے، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مارلیا ہے تو روئے زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔''

اور جب اسے یقینی طور پر اس خبر کا علم ہوگیا تو اللہ کا یہ دشمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی پر اتر آیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے لگا، اس سے بھی اس کے جذبات آسودہ نہ ہوئے تو سوار ہوکر قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی کا مہمان ہوا، پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے، ان کی آتشِ انتقام تیز کرنے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدانِ بدر میں قتل کیے جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔

مکے میں اس کی موجودگی کے دوران ابو سفیان اور مشرکین نے اس سے دریافت کیا کہ ہمارا دین تمہارے نزدیک زیادہ پسندیدہ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا اور دونوں میں سے کون سا فریق زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟" کعب بن اشرف نے کہا: ''تم لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو۔'' اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

''تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہیں۔'' ﴿٥١﴾ (۴: ۵۱)

کعب بن اشرف یہ سب کچھ کرکے مدینہ واپس آیا تو یہاں آکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار کہنے شروع کیے اور اپنی زبان درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچائی، اس نے اپنی خبیث طبیعت کی بنا پر اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہنے لگا۔ یہی حالات تھے جن سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دی ہے۔''

اس کے جواب میں محمد بن مسلمہ، عبادہ بن بشر، ابو نائلہ (جن کا نام سلکان بن سلامہ تھا اور جو کعب کے رضاعی بھائی تھے) حارث بن اوس اور ابو عبس بن جبر رضی اللہ عنہم نے اپنی خدمات پیش کیں، اس مختصر سی کمپنی کے کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ حکمت عملی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کعب بن اشرف سے کچھ ایسا کہہ سکیں کہ جس کی مدد سے اسے پھانسا جا سکے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔

اس کے بعد محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور بولے: ''اس شخص نے (اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔'' کعب نے کہا: ''واللہ! ابھی تم لوگ اور بھی اکتا جاؤ گے۔''

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک یہ دیکھ نہ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اچھا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وَسق یا دو وسق غلہ دے دیں۔" کعب نے کہا: ''میرے پاس کچھ رہن رکھو۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''آپ کون سی چیز پسند کریں گے۔؟'' کعب نے کہا: ''اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔''

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''بھلا ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں، جبکہ آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں۔'' اس نے کہا: ''تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دو وسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا، یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے، البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔''

اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ہتھیار لے کر اس کے پاس آئیں گے،
ادھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے، کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے، پھر بو لے: ''بھئ ابن اشرف! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں، لیکن اسے آپ ذرا صیغۂ راز ہی میں رکھیں گے۔" کعب نے کہا: '' ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔"

ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''بھئ اس شخص (اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تھا) کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے، ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے، سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چور چور ہیں۔" اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کی تھی، دورانِ گفتگو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقاء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں، انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں، آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔

محمد بن مسلمہ اور ابو نائلہ رضی اللہ عنہم اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے، کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیار اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پر کعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔

اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد 14 ربیع الاول 3 ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی، پھر فرمایا: "اللہ کے نام لے کر جاؤ، اللہ تمہاری مدد فرمائے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔

ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے قدرے زور سے آواز دی، آواز سن کر وہ ان کے پاس آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی، کہا: ''اس وقت کہاں جارہے ہیں؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔''

کعب نے کہا: ''یہ تو میرا بھائی محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہ ہے۔" اس کے بعد وہ باہر آگیا، خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں، جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں، پھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''ابن اشرف! کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذر آج رات باتیں کی جائیں۔''

اس نے کہا: "اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں۔" اس پر سب لوگ چل پڑے، اثناء راہ میں ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آج جیسی عمدہ خوشبو تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔" یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا، کہنے لگا: "میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عورت ہے۔"

ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اجازت ہوتو ذر آپ کا سر سونگھ لوں؟" وہ بو لا: "ہاں ہاں۔" ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا، پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا، کچھ اور چلے توابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "بھئ ایک بار اور۔" کعب نے کہا: "ہاں ہاں۔" ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حرکت کی، یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔

اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: "بھئ ایک بار اور۔" اس نے کہا: "ٹھیک ہے۔" اب کی بار ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے: ''لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔'' اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔

یہ دیکھ کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے، کدال آر پار ہوگئی اور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا، حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)۔

کارروائی کے دوران حضرت حارث بن اوس رضی اللہ عنہ کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، چنانچہ واپسی میں انہیں اٹھا لیا اور بقیع غرقد پہنچ کر اس زور کا نعرہ لگایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی سنائی پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے اسے مار لیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اللہ اکبر کہا۔

پھر جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((افلحت الوجوہ )) "یہ چہرے کامیاب رہیں۔" ان لوگوں نے کہا: (ووجہک یا رسول اللہ) "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ بھی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!" اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد وثنا کی اور حارث رضی اللہ عنہ کے زخم پر لعابِ دہن لگا دیا، جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔

اس واقعے کی تفصیل ابن ہشام ۲/۵۱ - ۵۷ , صحیح بخاری ۱/۳۴۱ -۴۲۵ ، ۲/۵۷۷ , سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/۴۲، ۴۳ اور زاد المعاد ۲/۹۱ سے ماخوذ ہے۔

ادھر یہود کو جب اپنے طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کا علم ہوا تو ان کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہر دوڑ گئی، ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن وامان کے ساتھ کھیلنے والوں، ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے والوں اور عہد وپیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کار گر نہیں ہورہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے، اس لیے انہوں نے اپنے اس طاغوت کے قتل پر چوں تک نہ کیا، بلکہ ایک دم، دم سادھے پڑے رہے۔

اس طرح ایک مدّت تک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیرون مدینہ سے پیش آنے والے متوقع خطرات کا سامنا کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور مسلمان ان بہت سی اندرونی مشکلات کے بارِ گراں سے سبکدوش ہوگئے جن کا اندیشہ انہیں محسوس ہورہا تھا اور جن کی بُو وقتاً فوقتاً وہ سونگھتے رہتے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 143 کعب بن اشرف یہودی کا قتل: کعب بن اشرف یہودیوں میں وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہلِ اسلام سے نہای...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 142


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 142

 غزوہ ٔسویق اور غزوہ ٔ ذی امر:

 غزوہ ٔسویق:

ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہود اورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھے جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو.. وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتے تھے.. انہوں نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب ان کے سر کو پانی نہ چھو سکے گا , یہاں تک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرلے.. چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دو سو سواروں کو لے کر روانہ ہوئے اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوئے.. مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے لیکن چونکہ ابوسفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی , اس لیے انہوں نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے..

اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوئے اور حیی بن اخطب کے پاس جا کر اس کا دروازہ کھلوایا.. حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا.. ابوسفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچے جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا.. ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی.. اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی.. خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا.. رات کے پچھلے پہر ابوسفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچے اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا.. اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلے..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے.. چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کرکے واپسی کی راہ لی.. مسلمان ستو وغیرہ لاد پھاند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوہ ٔسویق رکھ دیا.. (سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں) یہ غزوہ جنگ بدر کے صرف دو ماہ بعد ذی الحجہ 2ھ میں پیش آیا.. اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا گیا تھا..

(زاد المعاد ۲/ ۹۰ ، ۹۱ ، ابن ہشام ۲/ ۴۴ ، ۴۵)

غزوہ ٔ ذی امر:

معرکہ ٔ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرقیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم 3 ھ میں پیش آئی.. اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھاپہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے.. یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوار وپیادہ پر مشتمل ساڑھے چار سو کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا..

راستے میں صحابہ نے بنو ثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں دے دیا اور اس نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا..

ادھر دشمن کو جیش مدینہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردوپیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمعیت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا.. یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ''ذی امر '' کے نام سے معروف تھا..

( ابن ہشام ۲/۴۶)

===========>> جاری ھے..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 142  غزوہ ٔسویق اور غزوہ ٔ ذی امر:  غزوہ ٔسویق: ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہود اورمنافقین اپنی ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 141


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 141

غزوہ بنو قینقاع: 

جب یہود نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی زبردست مدد فرما کر انہیں عزت وشوکت سے سرفراز فرمایا ہے اور ان کا رعب ودبدبہ دور ونزدیک ہر جگہ رہنے والوں کے دلو ں پر بیٹھ گیا ہے تو ان کی عداوت وحسد کی ہانڈی پھٹ پڑی.. انہوں نے کھلم کھلا شر وعداوت کا مظاہرہ کیا اور علی الاعلان بغاوت وایذا رسانی پر اتر آئے..

ان میں سب سے زیادہ کینہ توز اور سب سے بڑھ کر شریر کعب بن اشرف تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے.. اسی طرح تینوں یہودی قبائل میں سب سے زیادہ بدمعاش بنو قینقاع کا قبیلہ تھا.. یہ لوگ مدینہ ہی کے اندر تھے اور ان کا محلہ انہی کے نام سے موسوم تھا.. یہ لوگ پیشے کے لحاظ سے سونار ، لوہار اور برتن ساز تھے.. ان پیشوں کے سبب ان کے ہرآدمی کے پاس وافر مقدار میں سامانِ جنگ موجود تھا.. ان کے مردان جنگی کی تعداد سات سو تھی اور وہ مدینے کے سب سے بہادر یہودی تھے.. انھی نے سب سے پہلے عہد شکنی کی..

جب اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تو ان کی سرکشی میں شدت آگئی.. انہوں نے اپنی شرارتوں ، خباثتوں اور لڑانے بھڑانے کی حرکتوں میں وسعت اختیار کرلی اور خلفشار پیدا کرنا شروع کر دیا.. چنانچہ جو مسلمان ان کے بازار میں جاتا , اس سے مذاق واستہزاء کرتے اور اسے اذیت پہنچاتے.. حتیٰ کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی..

اس طرح جب صورت حال زیادہ سنگین ہوگئی اور ان کی سرکشی خاصی بڑھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جمع فرما کر وعظ ونصیحت کی اور رشدو ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا لیکن اس سے ان کی بدمعاشی اور غرور میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا..

چنانچہ امام ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابنِ عباس سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو بدر کے دن شکست دے دی اور آپ مدینہ تشریف لائے تو بنو قینقاع کے بازار میں یہود کو جمع کیا اور فرمایا.. "اے جماعت یہود ! اس سے پہلے کہ تم پر بھی ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش پر پڑ چکی ہے , اسلام قبول کرلو..''

انہوں نے کہا.. ''اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہیں اس بنا پر خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری مڈ بھیڑ قریش کے اناڑی اور نا آشنا ئے جنگ لوگوں سے ہوئی اور تم نے انہیں مارلیا.. اگر تمہاری لڑائی ہم سے ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالا نہ پڑا ہوگا.."

بنو قینقاع نے جو جواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلانِ جنگ تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا غصہ پی لیا اور صبر کیا.. مسلمانوں نے بھی صبر کیا اور آنے والے حالات کا انتظار کرنے لگے..

ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی.. چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بند کرلی..

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی.. یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا.. اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی.. جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا.. اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا.. جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا.. اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی.. نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا..

(زاد المعاد ۲/۷۱،۹۱ ابن ہشام ۲؍۴۷ ، ۴۸ ، ۴۹)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا اور خود حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا..

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصرہ کر لیا.. یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال 2ھ کی 15 تاریخ.. پندرہ روز تک محاصرہ جاری رہا.. پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے.. چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جان ومال ، آل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا..

لیکن یہی موقع تھا جب عبداللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا.. اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں.. اس نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے..''

واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاخیر کی.. اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی مگر اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے رُخ پھیر لیا لیکن اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مجھے چھوڑ دو" اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر دیکھیں.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تجھ پر افسوس , مجھے چھوڑ.." لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بولا.. ''نہیں واللہ ! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا , یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرما دیں.. چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سو زِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا , آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے..؟ واللہ ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کر رہا ہوں.."

بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی.. البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں.. چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کر لیے جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا.. غنائم جمع کرنے کا کام محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انجام دیا..

===========>> جاری ھے..

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 141 غزوہ بنو قینقاع:  جب یہود نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی زبردست مدد فرم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 140


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 140

مدینہ کے یہود کی عیاری:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا تھا، اس کی دفعات پچھلی اقساط میں ذکر کی جاچکی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو، لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پُر ہے، وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے اور مسلمانوں کی صفوں کے اندر دسیسہ کاری، سازش، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی "شاش بن قیس" جو قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھا اور مسلمانوں سے سخت عدوات وحسد رکھتا تھا، ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گزرا جس میں اوس خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے، اسے یہ دیکھ کر کہ اب ان کے اندر جاہلیت کی باہمی عداوت کی جگہ اسلام کی الفت واجتماعیت نے لے لی ہے اور ان کی دیرینہ شکر رنجی کا خاتمہ ہو گیا ہے، سخت رنج ہوا، کہنے لگا: ''اوہ! اس دیار میں قیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں، واللہ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گزر نہیں۔''

چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا، حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں، کچھ ان میں سنائے، اس یہودی نے ایسا ہی کیا، اس کے نتیجے میں اوس و خزرج میں ''تُو تُو مَیں مَیں'' شروع ہوگئی، لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے، حتیٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ و قدح شروع کردی، پھر ایک نے اپنے مدّ مقابل سے کہا: "اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں۔" مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے۔

اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے: "چلو تیار ہیں! حرہ میں مقابلہ ہوگا۔" اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ہوگئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: ''اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ اللہ! کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرما چکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطان کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اطاعت شعار و فرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھا دی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۵۵۵، ۵۵۶)

یہ ہے ایک نمونہ ان ہنگاموں اور اضطراب کا جنہیں یہود مسلمانوں کی صفوں میں بپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور یہ ہے ایک مثال اس روڑے کی جسے یہ یہود اسلامی دعوت کی راہ میں اٹکاتے رہتے تھے، اس کام کے لیے انہوں نے مختلف منصوبے بنا رکھے تھے، وہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے تھے، صبح مسلمان ہو کر شام کو پھر کافر ہوجاتے تھے، تاکہ کمزور اور سادہ لوح قسم کے لوگوں کے دلوں میں شک وشبہے کے بیج بو سکیں، کسی کے ساتھ مالی تعلق ہوتا اور وہ مسلمان ہوجاتا تو اس پر معیشت کی راہیں تنگ کردیتے، چنانچہ اگر اس کے ذمے کچھ بقایا ہوتا تو صبح وشام تقاضے کرتے اور اگر خود اس مسلمان کا کچھ بقایا ان پر ہوتا تو اسے ادا نہ کرتے، بلکہ باطل طریقے پر کھا جاتے اور کہتے کہ تمہارا قرض تو ہمارے اُوپر اُس وقت تھا جب تم اپنے آبائی دین پر تھے، لیکن اب جبکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے تو اب ہمارا اور تمہارا کوئی لین دین نہیں۔
(مفسرین نے سورہ آل عمران وغیرہ میں ان کی اس قسم کی حرکات کے نمونے ذکر کیے ہیں)

واضح رہے کہ یہود نے یہ ساری حرکتیں بدر سے پہلے ہی شروع کردی تھیں اور اس معاہدے کے علی الرغم شروع کردیں تھیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کر رکھا تھا، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ ان یہود کی ہدایت یابی کی امید میں ان ساری باتوں پر صبر کرتے جارہے تھے، اس کے علاوہ یہ بھی مطلوب تھا کہ اس علاقے میں امن وسلامتی کا ماحول برقرار رہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 140 مدینہ کے یہود کی عیاری: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 139


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 139

نبی ﷺ کے قتل کی سازش:

جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا، بالآخر مکے کے دو بہادر نوجوان نے طے کیا کہ وہ اپنی دانست میں اس اختلاف وشقاق کی بنیاد اور اس ذلت ورسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتمہ کردیں گے۔

چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں تھا، اس لیے عمیر نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔

اس پر صفوان نے کہا: ''اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔'' جواب میں عمیر نے کہا: ''اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو، دیکھو! اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں اور اہل وعیال نہ ہوتے جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے تو میں سوار ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے، میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔''

صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا: ''اچھا چلو! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے، میں اسے تمہاری جانب سے ادا کر دوں گا اور تمہارے اہل وعیال میرے اہل وعیال ہیں، جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اور ان کو نہ ملے۔"

عمیر نے کہا: "اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغۂ راز میں رکھنا۔"
صفوان نے کہا: "ٹھیک ہے، میں ایسا ہی کروں گا۔"

اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار پر سان رکھائی اور زہر آلود کرائی، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز واکرام کے متعلق باتیں کررہے تھے، انہوں نے دیکھتے ہی کہا: ''یہ اللہ کا دشمن عمیر، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔"

پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: "اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے میرے پاس لے آؤ۔"

عمیر آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلوار کے پرتلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اس کے خطرے سے چوکنا رہو! کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے، اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پرتلا لپیٹ کر پکڑے ہوئے ہیں تو فرمایا: ''عمر! اسے چھوڑ دو اور عمیر! تم قریب آجاؤ۔''

اس نے قریب آکر کہا: "آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔" نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے، یعنی سلام سے، جو اہل ِ جنت کا تحیہ ہے۔" اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے عمیر! تم کیوں آئے ہو؟"

اس نے کہا: "یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے، اسی کے لیے آیا ہوں، آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرما دیجیے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے؟" اس نے کہا: "اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو؟" اس نے کہا: "بس صرف اسی قیدی کے لیے آیا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں، ان کا تذکرہ کیا، پھر تم نے کہا: "اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیتا" اس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمے داری لی، بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔"

عمیر نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے اور آپ پر جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے ہم جھٹلا دیا کرتے تھے، لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا، اس لیے واللہ! مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہیں پہنچائی، پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔"

پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔''

ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوادے گا، ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیر رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا، بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوچکا ہے، یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا۔
(ابن ہشام ۱/۶۶۱، ۶۶۲ ، ۶۶۳)

---------->> جاری ھے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 139 نبی ﷺ کے قتل کی سازش: جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبی کر...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 138


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 138

غزوۂ بدر کے بعد کی جنگی سرگرمیاں:

نابینا صحابیؓ کے ہاتھوں گستاخ شاعرہ کا قتل:

یہودی قبیلہ بنی خطمہ میں "عصمہ" نامی شاعرہ تھی جو مروان بن زید کی بیٹی تھی، وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی ہجو لکھتی اور خاص طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی، اپنے ایام ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈال دیا کرتی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی بدر سے واپس نہیں ہوئے تھے کہ اس نے ایک ہجو لکھی، ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے یہ ہجو سنی تو عہد کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدر سے بہ سلامتی واپسی کے بعد اس شاعرہ کو قتل کردوں گا۔

چنانچہ بدر میں فتح کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لئے تلوار لے کر نکلے اور رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو کر اسے قتل کردیا-

صبح میں بعد نماز فجر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی اور عرض کیا کہ کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "دو بھیڑیں بھی آپس میں سر نہ ٹکرائیں گی۔"

ان کی یہ جرأت دیکھ کر اس قبیلہ کے چند لوگ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن ڈر کر ظاہر نہیں کررہے تھے، اب ان میں بھی جرأت پیدا ہوگئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: "اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جس نے ﷲ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔" یہ بھی فرمایا کہ: "ان کو نابینا نہ کہو، یہ بینا اور بصیر ہیں۔" جب وہ بیمار ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عصمہ نامی اس گستاخ شاعرہ کا قتل ۲۶ رمضان کو کیا تھا۔ (ابن کثیر)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید بن ولید بن مغیرہ مخزومی اسیرانِ جنگ میں سے فدیہ کی ادائی کے بعد آزاد ہوئے تو ایمان لائے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے۔

حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، وہ جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے مسلمان ہیں۔

غزوہ بدر سے لوٹنے کے بعد بہ اختلاف روایت ماہ شوال یا ذی الحجہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا، اس کے علاوہ غزوۂ بدر کے بعد حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔

بدر کا معرکہ مسلمانوں اور مشرکین کا سب سے پہلا مسلح ٹکراؤ اور فیصلہ کن معرکہ تھا، جس میں مسلمانوں کو فتحِ مبین حاصل ہوئی اور سارے عرب نے اس کا مشاہدہ کیا، اس معرکے کے نتائج سے سب سے زیادہ وہی لوگ دل گرفتہ تھے جنہیں براہ راست یہ نقصان عظیم برداشت کرنا پڑا تھا یعنی مشرکین، یا وہ لوگ جو مسلمانوں کے غلبہ وسربلندی کو اپنے مذہبی اور اقتصادی وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے یعنی یہود، چنانچہ جب سے مسلمانوں نے بدر کا معرکہ سر کیا تھا یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور رنج والم سے جل بھن رہے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا (۵: ۸۲)

'تم اہلِ ایمان کا سب سے زبردست دشمن یہود کو پاؤ گے اور مشرکین کو۔''

مدینے میں کچھ لوگ ان دونوں گروہوں کے ہمرازو دمساز تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ اپنا وقار برقرار رکھنے کی اب کوئی سبیل باقی نہیں رہ گئی ہے تو بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے، یہ عبداللہ بن اُبی اور اس کے رفقاء کا گروہ تھا، یہ بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور مشرکین سے کم غم وغصہ نہ رکھتا تھا۔

ان کے علاوہ ایک چوتھا گروہ بھی تھا، یعنی وہ بدو جو مدینے کے گرد وپیش بود وباش رکھتے تھے، انہیں کفر و اسلام سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن یہ لٹیرے اور رہزن تھے، اس لیے بدر کی کامیابی سے انہیں بھی قلق و اضطراب تھا، انہیں خطرہ تھا کہ مدینے میں ایک طاقتور حکومت قائم ہوگئی تو ان کی لوٹ کھسوٹ کا راستہ بند ہوجائے گا، اس لیے ان کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف کینہ جاگ اٹھا اور یہ بھی مسلم دشمن ہوگئے۔

اس طرح مسلمان چاروں طرف سے خطرے میں گھر گئے، لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں ہر فریق کا طرز عمل دوسرے سے مختلف تھا، ہر فریق نے اپنے حسب حال ایسا طریقہ اپنایا تھا جو اس کے خیال میں اس کی غرض وغایت کی تکمیل کا کفیل تھا۔

چنانچہ اہل مدینہ نے اسلام کا اظہار کرکے درپردہ سازشوں، دسیسہ کا ریوں اور باہم لڑانے بھڑانے کی راہ اپنائی، یہود کے ایک گروہ نے کھلم کھلا رنج وعداوت اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا، اہل مکہ نے کمر توڑ ضرب کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور بدلہ اور انتقام لینے کا کھلا اعلان کیا، ان کی جنگی تیاریاں بھی کھلے عام ہورہی تھیں اور سال بھر کے بعد وہ عملاً ایک ایسی معرکہ آرائی کے لیے مدینے کی چہاردیواری تک چڑھ آئے جو تاریخ میں غزوہ احد کے نام سے معروف ہے اور جس کا مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر برا اثر پڑا تھا۔

ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں نے بڑے اہم اقدامات کیے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائدانہ عبقریت کا پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینے کی قیادت گرد وپیش کے ان خطرات کے سلسلے میں کس قدر بیدار تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے کتنے جامع منصوبے رکھتی تھی۔ اگلی اقساط میں اسی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے گا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 138 غزوۂ بدر کے بعد کی جنگی سرگرمیاں: نابینا صحابیؓ کے ہاتھوں گستاخ شاعرہ کا قتل: یہودی قبی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 137


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 137

جنگِ بدر پر قرآن کا تبصرہ:

غزوہ بدر حق وباطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا، اس جنگ کے بعد اسلام کا بول بالا ہوا اور کفر کو ذلت نصیب ہوئی، اس غزوہ میں کامیابی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کو پورے عرب میں استقرار نصیب ہوا، تمام قوتیں ان کا لوہا ماننے پر مجبور ہوئیں، قریش کے مقابلہ میں مساوی فریق کی حیثیت حاصل ہوئی، انہیں مسلمانوں کی قوت کا احساس ہوا، قریش کی سیاسی شہرت اور سیاسی حیثیت بری طرح مجروح ہوئی، ان کی شام کی تجارتی شاہراہ غیر محفوظ ہو گئی، اسلام کی مرکزیت اور مدینہ کی مملکت مستحکم ہو گئی، عرب قبائل کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوگئے، یہود مدینہ معیشت، عسکری اور مادی وسائل کی بناء پر اپنے کو بر تر تصور کرتے تھے، اس فتح نے انہیں مرعوب کردیا اور یہود مسلمانوں کو اپنے لئے زبردست خطرہ محسوس کرنے لگے، ڈاکٹر حمیداللہ کا خیال ہے کہ اس فتح کے بعد یہودی میثاق مدینہ کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
(شاہ مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ)

اصحاب بدر کے درجات بہت بلند ہیں، غزوہ بدر کا ذکر قرآن مجید میں سورۂ انفال میں آیا ہے، اسی غزوہ کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوہ پر ایک الٰہی تبصرہ ہے گر یہ تعبیر صحیح ہو، یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے، اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی نظر ان کوتاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف مبذول کرائی جو ان میں فی الجملہ باقی رہ گئیں تھیں اور جن میں سے بعض بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا، اس توجہ دہانی کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک صاف کرکے کامل ترین بن جائیں۔

اس کے بعد اس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی اس کا ذکر فرمایا، اس کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبسالت کے فریب میں نہ آجائیں جس کے نتیجے میں مزاج وطبائع پر غرور وتکبر کا تسلط ہو جاتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور اس کے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطاعت کیش رہیں۔

پھر ان بلند اغراض ومقاصد کا تذکرہ کیاگیا ہے جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خوفناک اور خون ریز معرکے میں قدم رکھا تھا اور اسی ضمن میں ان اخلاق واوصاف کی نشان دہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔

پھر مشرکین ومنافقین کو اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے فصیح وبلیغ نصیحت فرمائی گئی ہے، تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔

اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد و اصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔

پھر اس مرحلے پر اسلامی دعوت کو جنگ وصلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی ان کی توضیح اور مشروعیت ہے، تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہل جاہلیت کی جنگ میں امتیاز قائم ہوجائے اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام محض ایک نظر یہ نہیں ہے، بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کا داعی ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔

پھر اسلامی حکومت کے قوانین کی کئی دفعات بیان کی گئی ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمان اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔

متفرق واقعات :

2 ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی، صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔

پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی، وہ شوال 2 ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی، کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا، اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے:

وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (۸: ۲۶)

''اور یاد کرو! جب تم تھوڑے تھے، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی، تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 137 جنگِ بدر پر قرآن کا تبصرہ: غزوہ بدر حق وباطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا، اس جنگ کے بعد اسلام ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 136


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 136

بدر کے قیدیوں کا قضیہ:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ لوگ چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں، میری رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے فدیہ لے لیں، اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفارکے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے بازو بن جائیں۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' (عمر) ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''واللہ! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں کو (جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی تھا) میرے حوالے کردیں اور میں اس کی گردن ماروں، عقیل بن ابی طالب کو علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو جو حمزہ (رضی اللہ عنہ) کا بھائی ہے، حمزہ (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن مار دیں، یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے اور یہ حضرات مشرکین کے صنادِید وائمہ اور قائدین ہیں۔''

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا، اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ دونوں رو رہے تھے۔

میں نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے بتائیں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے، اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔'' اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

''کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے، تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے، اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے، اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔" ﴿٦٨﴾ (۸: ۶۷،۶۸ )

بہر حال چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا، فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی، اہل مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہو وہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے، جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا، اس فہرست میں مطلب بن حنطب، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں، آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے)

اسیرانِ جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد ابوالعاص (جو تاحال مشرک تھے) بھی تھے، جن کے پاس فدیہ کی رقم نہیں تھی، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو (جو ان کی زوجہ تھیں اور مکہ میں تھیں) کہلا بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں، جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تھا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جہیز میں ان کو ایک قیمتی ہار دیا تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے زر فدیہ کے ساتھ وہ ہار بھی گلے سے اتار کر بھیج دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ ہار دیکھا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، آپ بے اختیار رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ تمہاری مرضی ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار واپس کردوں، سب نے تسلیم کر لیا اور وہ ہار واپس کر دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی راہ چھوڑ دیں گے، چنانچہ حضرت ابوالعاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ہجرت فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا، جب زینب تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔

یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے، بعد میں ابوالعاص رضی اللہ عنہ مدینہ آکر مسلمان ہو گئے۔

قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوا دیجیے! اس کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔"

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی، کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے، جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 136 بدر کے قیدیوں کا قضیہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 135


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 135

مدینے میں فتح کی خوشخبری:

مسلمانوں کی فتح ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری دینے کے لیے دو قاصد روانہ فرمائے، ایک حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، جنہیں عوالی (بالائی مدینہ) کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا اور دوسرے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، جنہیں زیرین مدینہ کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا-

اس دوران یہود اور منافقین نے جھوٹے پر وپیگنڈے کر کر کے مدینے میں ہل چل بپا کر رکھی تھی، یہاں تک کہ یہ خبر بھی اڑا رکھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کر دیئے گئے ہیں،
چنانچہ جب ایک منافق نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار آتے دیکھا تو بول پڑا: "واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے ہیں، دیکھو! یہ تو انہی کی اونٹنی ہے، ہم اسے پہچانتے ہیں اور یہ زید بن حارثہ ہے، شکست کھا کر بھاگا ہے اور اس قدر مرعوب ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے۔"

بہرحال! جب دونوں قاصد پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے تفصیلات سننے لگے، حتیٰ کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتح یاب ہوئے ہیں، اس کے بعد ہر طرف مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے دَرو بام تہلیل وتکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھے اور جو سربر آوردہ مسلمان مدینے میں رہ گئے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس فتح مبین کی مبارک باد دینے کے لیے بدر کے راستے پر نکل پڑے۔

فتح بدر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس اس وقت خبر پہنچی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، دفن کرکے قبر پر مٹی برابر کر چکے تھے، ان کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ ختم ہونے کے بعد تین دن بدر میں قیام فرمایا اور ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ جنگ سے کوچ نہیں فرمایا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں لشکر کے اندر اختلاف پڑگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کے حوالے کردے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل کی اور اس کے بعد اللہ نے وحی کے ذریعہ اس مسئلے کا حل نازل فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی :

''لوگ آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو! غنیمت اللہ اور رسول کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرلو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر واقعی تم لوگ مومن ہو۔'' ﴿١﴾ (۸: ۱)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ ( مسند احمد ۵ / ۳۲۳ ، ۳۲۴ حاکم ۲/۳۲۶ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین روز بدر میں قیام فرماکر مدینے کے لیے چل پڑے، آپ کے ہمراہ مشرک قیدی بھی تھے اور مشرکین سے حاصل کیا ہوا مال غنیمت بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس کی نگرانی سونپی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادیٔ صفراء کے درّے سے باہر نکلے تو درّے اور نازیہ کے درمیان ایک ٹیلے پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں خمس (پانچواں حصہ) علیحدہ کر کے باقی مال غنیمت مسلمانوں پر برابر تقسیم کردیا۔

وادیٔ صفراء ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے، اس شخص نے جنگِ بدر میں مشرکین کا پرچم اُٹھارکھا تھا اور یہ قریش کے اکابر مجرمین میں سے تھا، اسلام دشمنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا، آپ کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن مار دی۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ شخص جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا، اس کا کچھ ذکر پیچھے گزر چکا ہے، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیٹھ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈالی تھی اور اسی شخص نے آپ کی گردن پہ چادر لپیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بروقت نہ گئے ہوتے تو اس نے (اپنی دانست میں تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالا تھا، حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن ماردی۔ (سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۲)

جنگی نقطۂ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا، کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ رَوحاء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپ کا استقبال کرنے اور آپ کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔

اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی، آپ نے انہیں صحابہ کرام پر تقسیم فرما دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی، اس وصیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کھجور کھاتے تھے، لیکن قیدیوں کو روٹی پیش کرتے تھے، واضح رہے کہ مدینے میں کھجور بے حیثیت چیز تھی اور روٹی خاصی گراں قیمت۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 135 مدینے میں فتح کی خوشخبری: مسلمانوں کی فتح ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل...

وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں)​


وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں)​
اقتباس تحریر:مقبول احمد سلفی

جنوری آتے ہی پچھلا سال پرانا اور آنے والا "نیا سال" ہوجاتا ہے، اس موقع پر پہلی جنوری کو دنیا بھر میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں ، خوشی منانے کے نام پرمذہبی یاسماجی خدمات نہیں انجام دی جاتیں بلکہ کفرومعصیت ، رقص وسرود،فسق وفجور اور شراب وکباب کی مستیاں چلتی ہیں حتی کہ زناکاریاں اورعیاشیاں تک کی جاتی ہیں ۔ اللہ کی پناہ ایسی خوشی اور اظہار خوشی کے فحش طریقوں سے ۔ آپ اگر ان لوگوں کا جائزہ لیں جو ایسی خوشیاں مناتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ وہ درحقیقت وقت کی اہمیت سے لاپرواہ اور زندگی کےاصل مقصد سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔

اسلام میں وقت کوبڑی اہمیت حاصل ہےاس وجہ سے انسانی زندگی کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ بہت ہی قیمتی ہے ۔ وقت وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں فیصلہ ہوگا اور ہرشخص کو اس کے مطابق نتیجہ ملے گایعنی جس انسان کا دنیاوی وقت اچھا ہوگا آخرت میں اس کا نتیجہ بھی اچھا ہوگا اور جس کا دنیاوی وقت برا گزرا ہوگااس کے ساتھ آخرت میں بھی برا ہی ہوگا۔

مومن اور کافر کی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کافر دنیا کو عیش وعشرت اور کھانے پینے کی جگہ سمجھتا ہےاوراسی حساب سے زندگی گزارتا ہےجس کی پاداش میں اللہ اسے جہنم رسیدکرےگا جبکہ مومن اس دنیا کو آخرت کی تیاری کی جگہ خیال کرتا ہے اور اللہ کے عذاب اور جہنم سے خوف کھاکر یہاں کفر ومعصیت سے بچتا اور ایمان وعمل صالح کا کام کرتا ہے جس کے بدلے میں اللہ اسے باغوں والے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ کا فرمان ہے :

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (محمد:12)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انہیں اللہ تعالٰی یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ (دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں ان کا اصل ٹھکانا جہنم ہے ۔

اس آیت پر غورکرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بھی مدنظررکھیں جسے ابن مبارک رحمہ اللہ نےاپنی کتاب الزہد والرقائق میں ذکر کیا ہے،آپ فرماتے ہیں:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ هَمُّ أَحَدِهِمْ فِي بَطْنِهِ ، وَدِينُهُ هَوَاهُ۔ ( حوالہ : الزهد والرقائق لابن المبارك , بَابٌ : فِي طَلَبِ الْحَلالِ, رقم الحديث: 601)
ترجمہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔

آج مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی میں وہ مومنانہ کردارنظر نہیں آتا جس کا ذکر اللہ نے مذکور ہ آیت میں کیا ہے بلکہ وہ طرززندگی نظر آتی ہے جس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما کررہے ہیں ۔ واقعی عین وہی زمانہ مسلمانوں پر آگیا ہے، ایک طرف حرام وحلال کی پرواہ کئے بغیرلوگ پیٹ بھرنا ہی مقصدحیات سمجھ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف دنیا پرستی، نفس پرستی،قبر پرستی، شخصیت پرستی اور بدعت وضلالت کو دین کا نام دے کر بڑے اخلاص سے انہیں انجام دیا جارہا ہے ۔

دنیا پرستی نے ہمیں مقصد حیات سے اس قدر دورہٹادیا کہ ماہ وسال کس رفتار سے گزررہے ہیں اس کا ادراک وشعور ناپید ہوتا جارہا ہے ، ایسا محسوس ہونادراصل قیامت کی ایک اہم نشانی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے :

لا تقومُ السَّاعةُ حتَّى يتقارَبَ الزَّمانُ ، فتَكونُ السَّنةُ كالشَّهرِ، والشَّهرُ كالجُمُعةِ ، وتَكونُ الجمعةُ كاليَومِ، ويَكونُ اليومُ كالسَّاعةِ ، وتَكونُ السَّاعةُ كالضَّرمةِ بالنَّارِ(صحيح الترمذي:2332)
ترجمہ: قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا ،سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی۔

زمانہ قریب ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ زمانے کی برکات وفوائد ختم ہوجائیں گے ، نقصان ہی نقصان ہوگا اور یہ بھی مطلب ہے کہ لوگ دنیا میں ایک قدرمست ومگن ہوجائیں گے کہ ماہ وسال کس طرح گزررہے ہیں اس کا احساس جاتا رہے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ آج ہمارے ہاتھوں میں انٹرنیٹ موبائل آگیا ہے ، رات یا دن میں کسی وقت موبائل استعمال کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو گھنٹوں گھنٹے کس طرح گزرجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ اور ٹسٹ سیریزجو مہینوں پر مشتمل ہوتی ہیں ، ان کی وجہ سے نہ صرف کھیلنے والوں کا بلکہ دیکھنے ،سننے اور انتظامی امور سنبھالنے والوں کے بھی کئی کئی ماہ ضائع ہوجاتے ہیں جس کا شعور وادراک انہیں نہیں ہوپاتا۔ کھیل کا مطلب ہوتا ہے چند لمحے یا گھنٹہ بھر کا مگر مہینوں پرمشتمل ٹورنامنٹ اور سیریز سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے کھیل کوزندگی کا مقصداور دنیا کوکھیل کی جگہ سمجھ لیا ہے ، اس سے زیادہ حیرانی ان لوگوں پر ہے جو زندگی بھرکے لئے کھلاڑی بن جاتے ہیں یعنی ان لوگوں کی زندگی کھیل تماشے میں تمام جاتی ہے ۔ لمحہ فکریہ ہے ان تمام لوگوں کے لئےجو کھیلوں میں اپنی عمر ضائع کرتے ہیں چاہے وہ کھلاڑی ہوں یا عملہ ہوں یا تماش بیں ۔

وقت اور زندگی اللہ کی طرف سے ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے ،اس کی محافظت اور قدرکرنا ہماری ذمہ داری ہےمگر اس کی ادائیگی میں اکثریت کوتاہ نظر آتی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

 نِعْمَتانِ مَغْبُونٌ فِيهِما كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ والفَراغُ(صحيح البخاري:6412)
ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔

ایسی ہی ایک دوسری حدیث ہے جس میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو چند نصیحتیں فرمائی ہیں ، آپ انہیں نصیحت کرتےہوئے فرماتے ہیں :
اغتنِمْ خمسًا قبلَ خمسٍ : حَياتَك قبلَ موتِك ، و صِحَّتَك قبلَ سَقَمِك ، و فراغَك قبلَ شُغْلِك ، و شبابَك قبلَ هَرَمِك ، و غِناك قبلَ فقرِكَ(صحيح الجامع:1077)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔

کس قدر قیمتی پندونصائح ہیں ؟ جو ان نصیحتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے گایقینا اس کی دنیا وآخرت سنور جائے گی ۔

آئیے اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتا ہوں جو وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں معاون ہوں گے ۔

(1) سب سے پہلے تو گزشتہ زندگی اور اپنے نفس کا محاسبہ ابھی اور اسی وقت کریں۔ سوچیں، یاد کریں اورجہاں جہاں کمیاں، کوتاہیاں پائی جائیں آئندہ ان کی تلافی کی جائے۔ حقوق العباد سے متعلق غلطیوں کی تلافی انہیں بندوں سے ہوگی جن سے متعلق ہے تاہم اللہ کے حق میں کی گئیں چھوٹی بڑی تمام قسم کی نافرمانیوں کے لئے سچے دل سے توبہ کریں ، اللہ اپنے بندوں کو بے پناہ معاف کرنے والا ہے ۔ سابقہ گناہوں پر شرمندگی اور آئندہ نیکی کاپختہ عزم کرنا اولین مقصد بنائیں۔

(2) انسان گناہوں کی طرف نفس کی خواہش کی وجہ سے جاتا ہے اور نفس میں برے خیال شیطان ڈالتا ہے تو جس طرح شیطان ہمارا بڑا دشمن ہے نفس بھی اسی طرح بڑا دشمن ہے اس لئے جہاں شیطان سے بچنا ہے اس کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا ہے وہیں نفس کی ایسی تربیت کریں ،اس پر عبادت کا اس قدربوجھ ڈالیں کہ نفس آپ کے قابو میں ہوجائے ۔

(3) ایسے دوستوں کی صحبت اختیار کریں جن کے یہاں اوقات کی اہمیت اور زندگی گزارنے کا بہترین سلیقہ ہے اور بری صحبت سے بچیں جو تضییع اوقات کا بڑا سبب ہے۔

(4) اسلاف کی سیرت بھی پڑھنی چاہئے اس سے زندگی میں ادب و سلیقہ اور شعورحیات پیدا ہوگا۔ میں نے ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی سیرت میں پڑھا تھا کہ وہ بہت ذہین طالب علم نہیں تھے مگر دوخوبیوں کی وجہ سے ذہین وفطین ساتھیوں سے سبقت لے گئے ، ایک وقت کی تنظیم اور دوسری جہد مسلسل ۔ میں نے اپنی زندگی میں کچھ کرنے کے لئے ڈاکٹرصاحب کی ان دوخوبیوں کو اپنانے کی کوشش کی اور ثمرات کا مشاہدہ کیا۔

(5) بیماری سے پہلے جو صحت ملی ہے اور موت سے پہلے جو زندگی نصیب ہوئی ہے اسے قیمتی سرمایہ سمجھ کر اچھے کام میں صرف کریں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
إذَا أمْسَيْتَ فلا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وإذَا أصْبَحْتَ فلا تَنْتَظِرِ المَسَاءَ، وخُذْ مِن صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، ومِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ(صحيح البخاري:6416)
ترجمہ: شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے مطلب یہ ہے کہ موت اور بیماری سے پہلے شام کے وقت جو کام ہو اسی وقت کرلو صبح کا انتظار نہ کرو اور صبح کے وقت جو کام آئے اسی وقت کرلوشام کا انتظار نہ کرو۔

(6) آدمی اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے ؟ اسے زندگی کا اصل مقصد پتہ نہیں ہوگا یا اس میں ایمان کی حرارت اورفکرآخرت ناپید ہوگی یا وہ گناہوں کی طرف مائل ہوگا یا دنیا طلبی میں منہمک ہوگا یا دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہوگا کہ یہ عیش کرنے اور کھیل کود کرنے کی جگہ ہے یا بری صحبت کا اثرہوگا یا نفس اور شیطان کا اس پرغلبہ ہوگا۔
ایسے حالات میں ہمارے لئے معاون امور یہ ہیں ۔

اولا: ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ زندگی کااصل مقصد اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق چلنا ہے، کھانا پینا محض زندگی کی ضرورت ہے مقصد نہیں ہے اس لئے دل میں دنیا طلبی کی محبت نہیں آخرت کی فکر ہونی چاہئے۔

ثانیا: موت کو کثرت سے یاد کریں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم بھی دیا ہے تاکہ موت کی فکر سے ایمان میں قوت وحرارت پیدا ہوگی،دل سےمعصیت اوردنیا طلبی کا خیال دور ہوگا اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت ہوگی ۔

ثالثا: موت کی اس گھڑی اور سختی کو یاد کریں جب روح نکل رہی ہوتی ہے ،پاس میں سارے اہل وعیال ہوتے ہیں مگر نہ کوئی سختی کم کرسکتا ہے اور نہ ہی موت ٹال سکتا ہے ۔ جس طرح موت کے وقت اہل وعیال اور مال ودولت کچھ کام نہیں آتے اسے طرح آخرت میں اپنے عمل کے سواکچھ کام نہیں آئے گا۔

رابعا: قبرستان کی زیارت کریں تاکہ فکرآخرت پیدا ہو ، آخرت کی تیاری کا خیال دل میں آسکےاور آنے والی زندگی کے لئے توشہ اکٹھا کریں ۔

خامسا: قبرکی منزل سے لے کر میدان حشر تک اکیلے پن کا احساس کریں ، نہ مرتے وقت کوئی ساتھ دیا، نہ مرکرکوئی دوسراہماری قبر میں ساتھ دینے کے لئے آیا اور آخرت میں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگیں گے ہی ۔

سادسا: سب سے اہم معاون امر یہ ہے کہ ہمیں سدا اس وقت کو یاد کرنا چاہئےجب ہمارا حساب وکتاب ہوگا اور ہم سے عمر کے بارے میں سوال ہوگا ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يسألَ عن عمرِهِ فيما أفناهُ(صحيح الترمذي:2417)
ترجمہ:قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں ختم کی۔

(7) اللہ نے قرآن میں اوقات کی قسم کھائی ہے ، کہیں رات ودن کی تو کہیں فجر اور عصر کے وقت کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو اوقات کی اہمیت اوران کی محافظت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے اس لئے ہمیں اوقات کو اہمیت دینی چاہئے،ان کی حفاظت کرنی چاہئے اور لایعنی اور گناہوں کے کاموں میں وقت صرف کرنے سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے۔

(8) وقت کی تنظیم کاری کریں یعنی اپنے لئے دن ورات کا ایسا شیڈول تیار کریں جس میں اپنے اپنے وقت پر پابندی سےگھریلو، سماجی اور دینی سارے کام بحسن وخوبی انجام پاتے رہیں۔ بطور مثال بہت سے لوگ نماز یا تلاوت یا دعا یا ذکرکے لئے بہانہ بناتے ہیں کہ دنیاوی کاموں سے فرصت نہیں ہے ۔ یہ عذرلنگ ہے آپ نے زندگی کو منظم نہیں کیا ہے ، آپ اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ عبادات بھی مقررہ اوقات میں پابندی سے کریں اور دنیاوی معاملات اور ذمہ داریاں بھی اچھے سے نبھاسکیں۔


وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں)​ اقتباس تحریر:مقبول احمد سلفی جنوری آتے ہی پچھلا سال پرانا اور آنے والا " نیا سال &qu...