رباء اور غیر سودی بنک
قرآن:
۔ 1) اے ایمان والو! یہ بڑھتا اور چڑھتا سُود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو۔ امید ہے کہ فلاح پاؤ گے ۔(آلِ عمران:130)
۔2) جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھُو کر باؤلا کر دیا ہو۔ اور اس حالت میں اُن کے مُبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خواری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔(البقرۃ: 275)
۔3) اللہ سُود کو مٹاتا اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔(البقرۃ:276)
۔4) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ (البقرۃ:278)
۔5) لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (البقرۃ:279)
سود کی مذمت احادیث میں
۔ 1) فرمان رسولﷺ: سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد سے بھاگنا اور پاک دامن مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔(بخاری:2766)
۔2) فرمان رسولﷺ: سود ستر گناہوں کے برابر ہے۔ ان میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔
(ابن ماجہ:2274)
۔3) رسول اللہ ﷺ نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔(ابن ماجہ:2277)
۔4) فرمان رسولﷺ: یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا ۔ (ابن ماجہ؛ 2278)
احادیث میں سود کی پہچان:
۔ 1) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (کھجور کی ایک عمدہ قسم ) برنی کھجور لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی تو اس کے دو صاع کے بدلہ میں برنی کے ایک صاع لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توبہ توبہ! یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کرو۔ البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (پہلے خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خرید لیا کرو (بخاری:2312)
۔2) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے عوض سونے کی، چاندی کے عوض چاندی کی، گندم کے عوض گندم کی، جو کے عوض جو کی، کھجور کے عوض کھجور کی اور نمک کے عوض نمک کی بیع سے منع فرما رہے تھے۔ الا یہ کہ برابر برابر، نقد بہ نقد ہو ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود کا لین دین کیا ۔(مسلم:4061)
۔3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کے عوض سونا ، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور اور نمک کے عوض نمک ( کی تجارت) مثل بہ مثل (ایک جیسی) ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا لین دین کیا۔ اس میں لینے والا اور دینے والا برابر ہیں (مسلم:4064)
۔4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجور کے عوض کھجور، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو اور نمک کے عوض نمک (کی تجارت) مثل بہ مثل (ایک جیسی) دست بدست ہو ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا (لین دین) کیا۔ الا یہ کہ ان کی اجناس الگ الگ ہوں۔(مسلم:4066)
۔5) ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ برنی کھجور لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: یہ کہاں سے لائے ہو؟حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے پاس ردی کھجور تھی۔ میں نے آپ کے کھانے کے لیے اُسے دو صاع کے عوض (اِس کے) ایک صاع سے بیچ دیا ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے افسوس ہوا۔ یہ تو عین سود ہے۔ ایسا نہ کرو بلکہ جب تم اعلی کھجور خریدنا چاہو تو ردی کھجور کو (نقدی وغیرہ کے عوض کی گئی) دوسری بیع کے ذریعے سے بیچ دو۔ پھر اس کی قیمت سے دوسری اعلی قسم کی کھجور خرید لو۔ (مسلم:4083)
۔6) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو۔ گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو۔ اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو۔(ترمذی: 1240)
۔7) سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک ناپ تول کر اور برابر برابر فروخت کیے جائیں گے۔ جو زیادہ دے گا یا جو زیادتی کا مطالبہ کرے گا، وہ سود لے گا۔ ہاں جب اجناس مختلف ہو جائیں تو پھر زیادہ دینے یا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسند احمد: 5964)
۔8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا سونے کے بدلے برابر برابر بیچو، ڈلی ہو یا سکہ۔ چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر بیچو ڈلی ہو یا سکہ۔ گیہوں گیہوں کے بدلے برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں۔ جو جو کے بدلے میں برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں۔ اسی طرح کھجور کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں۔ نمک نمک کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا، سود لیا۔ سونے کو چاندی سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ادھار درست نہیں۔ گیہوں کو جو سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا" نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ادھار بیچنا صحیح نہیں۔ (ابو داؤد:3349)
۔9) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کھجور کا کھجور کے ساتھ، گندم کا گندم کے ساتھ، جو کا جو کے ساتھ اور نمک کا نمک کے ساتھ سودا نقد اور برابر ہونا چاہیے۔ جو زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سود کا لین دین کیا ۔ الا یہ کہ اجناس بدل جائیں۔ (نسائی:4563)
ان احادیث سے حاصل شدہ نتائج:
۔1۔ ایک ہی جنس کے لین دین (نقد یا ادھار) میں اگر مقدار کے فرق کی شرط بلا عوض ہو تو یہ اضافہ سود ہے، جو شریعت اسلامی میں حرام ہے۔
۔2۔ اگر دو مختلف اجناس (شئے اور پیسہ بھی دو مختلف جنس ہیں) کا لین دین ہو تو باہمی رضامندی سے کسی بھی مقدار میں لین دین کیا جاسکتا ہے۔
۔3۔ اگر مختلف اجناس کے دو یا دو سےزائد بیع (تجارتی لین دین) کا حاصل بھی وہی ہو، جو ایک ہی جنس کے مختلف مقدار کے بیع (یعنی سود والی بیع) کا ہو تب بھی مختلف اجناس والی بیع عدم سود کے سبب جائز اور ایک ہی جنس کی مختلف مقدار والی بیع سود کی شمولیت کے باعث حرام ہوگی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
۔4۔ روایتی بنک ایک ہی جنس یعنی روپے کے لین دین (قرض اور ڈپازٹس وغیرہ) میں اضافی رقم کا لین دین کرتے ہیں، جو سود اور حرام ہے۔
۔5۔ غیر سودی یا اسلامی بنک روپیہ قرض نہیں دیتے بلکہ صارف جس چیز (جیسے مکان، گاڑی، مشینری وغیرہ) کے لئے روپیہ قرض لینا چاہتا ہے، بنک وہی چیز خود مارکیٹ سے خرید کر (اپنا منافع رکھ کر) صارف کو قسطوں پر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ فروخت کرتا ہے یا اس شئے کے حصص ایک ایک کرکے فروخت کرتا ہے اور مکمل حصص کی فروخت تک اس شئے کے استعمال کا کرایہ وصول کرتا ہے۔
۔6۔ روایتی بنکوں کا سودی پراسس اور اسلامی بنکوں کا غیر سودی پراسس کا اینڈ رزلٹ تقریبا" ملتا جلتا ہوتا ہے۔ یعنی روایتی بنک سے سودی قرض لیکر مکان وغیرہ خریدنے کے بعد جتنا کل رقم (قرض+سود) واپس کرنا ہوتا ہے، تقریبا" اتنی ہی رقم اسی مکان کو اسلامی یعنی غیر سودی بنک سے قسطوں یا حصص+کرایہ میں خریدنے پر لگتا ہے۔
۔● ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دونوں قسم کے بنک تجارتی بنک ہیں۔ دونوں کے منافع کی شرح تقریبا" یکساں ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اسلامی بنک چل ہی نہیں سکتا۔
۔● اسلامی بنک اگر مارکیٹ یعنی سودی بنکوں سے کم منافع لے تو اسے نقصان ہوگا اور بنک ہی بند ہوجائے گا۔ زیادہ لے تو کوئی صارف اس کے پاس ہی نہیں آئے گا۔ واضح رہے کہ دونوں قسم کے بنکس کے انتظامی اخراجات یعنی بلڈنگ کرایہ، مینٹیننس، اسٹاف سیلیری سب یکساں ہوتی ہے۔
۔■ اسلامی بنکنگ کوئی خیراتی، ویلفیئر ادارہ نہیں جو عوام کو مارکیٹ سے سستے قرض یا قرض حسنہ دینے کے لئے بنایا گیا ہو۔
۔■ اگر مارکیٹ میں بکرے کے گوشت کی دو دکانیں ہوں۔ ایک دکاندار بکرے کو جھٹکے سے مار کر حرام گوشت بیچتا ہو اور دوسرا ذبیحہ کرکے حلال گوشت بیچتا ہو تو گوشت پراسسنگ مختلف ہونے بلکہ حرام اور حلال ہونے کے باعث دونوں کی قیمتوں میں فرق نہیں ہوجائے گا۔ کیونکہ مال تجارت بھی یکساں ہے اور مارکیٹ بھی وہی ہے، لہٰذا دونوں پروڈکٹ کی لاگت اور قیمت بھی یکساں ہوگی۔
۔7۔ اسلامی بنکنگ کے پراسس کو حرام کہنے والے مندرجہ بالا بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو غور سے پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کو سود اور حرام قرار دیا ہے اور کس بیع کو جائز قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
رباء کی تین لازمی شرائط
ا===============ا
رباء (اردو اصطلاح سود) نقد یا ادھار بیع (یعنی لین دین، تجارت یا فائنانشیل ڈیلز) میں اس "اضافہ" کو کہتے ہیں جو:
۔1۔ ایک ہی جنس (جیسے درہم، روپیہ، کھجور، گندم، اونٹ وغیرہ وغیرہ) کی بیع میں راس المال (اصل مال) پر ہو۔
۔2۔ اور یہ اضافہ بوقت بیع دونوں میں سے ایک فریق پر مشروط کردیا گیا ہو۔
۔3۔ اور اس اضافے کا کوئی "عوض" (بدلہ) بھی نہ ہو۔
ان تینوں شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی کسی بیع میں موجود نہ ہو تو ایسی بیع میں رباء باقی نہیں رہتا۔ خواہ "اضافہ" باقی رہے۔ جیسے:
۔1۔ بیع میں اگر جنس تبدیل شدہ ہو (رقم سے جنس یا مختلف اجناس جیسے گندم-کھجور وغیرہ) تو کسی بھی قسم کا "اضافہ" رباء نہیں کہلائے گا۔
۔2۔ اگر بوقت بیع اضافہ مشروط نہ کیا گیا ہو تب بھی راس المال میں کسی قسم کا اضافہ رباء نہیں کہلائے گا۔
بلکہ ایسا اضافہ مستحسن اور مسنون ہے۔ فرمان رسول ﷺ ہے: تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بہتر ہے۔متفق علیہ (المصابیح:2906)۔ بہترین مسلمان وہ ہے جو (قرض وغیرہ کی) ادائیگی میں اچھا ہو ۔(نسائی:4621)۔
۔3۔ بیع کے راس المال میں اضافہ کا کوئی عوض (بدلہ) موجود ہو تب بھی یہ اضافہ رباء شمار نہیں ہوگا۔
ربا کی تعریف فقہا کی نظر میں:
۔■ امام_سرخسی : الربا ھو الفضل الخالی عن العوض المشروط فی البیع۔ (ربا وہ اضافہ ہے جس کے مقابل میں عوض نہ ہو اور جسے مال کے تبادلے میں مشروط کیا گیا ہو۔)
۔■ امام_مرغینانی(صاحبِ ہدایہ): "الربا هو الفضل المستحق لأحد المتعاقدين في المعاوضة الخالي عن عوض شرط فيه۔"(ربا وہ اضافہ ہے جس کا استحقاق عقدِ معاوضہ میں ایک فریق کےلیے مشروط کیا جائے اور اس کے مقابل میں عوض نہ ہو۔
۔■ امام_تمرتاشی: فضل خال عن عوض بمعیار شرعی مشروط لاحد المتعا قدین فی المعاوضۃ۔ (ایسا اضافہ جس کے مقابل میں شرعی معیار کوئی عوض نہ ہو اور یہ اضافہ عقدِ معاوضہ میں ایک فریق کے لیے مشروط ہو۔)