*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 1*
*سرزمینِ عرب اور قومِ عرب کا مختصر جائزہ:*
آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ہے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جائے، تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے۔
ملک عرب ایک جزیرہ نما ہے، جس کے جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان، مغرب میں بحیرہ قلزم ہے، تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ہے، مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد، بےآب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ہے، جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ہیں۔ طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ہیں۔
*یمن:*
یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رہا ہے، جس کو پر امن ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا، آب وہوا معتدل ہے اور اس کے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ہیں، جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ہوتے ہیں، قوم "سبا" کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بنائے جن میں "مأرب" نام کا مشھور بند بھی تھا، اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ہوگئی۔
*حجاز:*
یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقع ہے، حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا، اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے، حجاز کا دوسرا اہم شھر یثرب ہے، جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا، جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ہے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ سے عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ہے، حجاز میں بدر، احد، بئر معونہ، حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ہیں۔
*نجد:*
ملک عرب کا ایک اہم حصہ نجد ہے، جو حجاز کے مشرق میں ہے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت "الریاض" واقع ہے۔
*حضرموت:*
یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ہے، بظاہر ویران علاقہ ہے، پرانے زمانے میں یہاں "ظفار" اور "شیبان" نامی دو شھر تھے۔
*مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات):*
ان میں عمان، الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ہیں، یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے، جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔
*وادی سَیناء:*
حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ہے، جہاں قوم موسی' علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رہی، طور سیناء بھی یہیں واقع ہے، جہاں حضرت موسی' علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں۔
*نوٹ:*
ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب، یمن، بحرین، عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام، عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ہوئے اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وہاں نقل مکانی کرکے آباد ہوئی اور نتیجتاً یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے، لیکن اصل عرب علاقہ وہی ہے جو موجودہ سعودیہ، بحرین، عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ہے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ہے۔
*عرب کو "عرب" کا نام کیوں دیا گیا؟*
اس کے متعلق دو آراء ہیں۔ ایک رائے کے مطابق عرب کے لفظی معنی "فصاحت اور زبان آوری" کے ہیں۔ عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے، اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔
دوسری رائے کے مطابق لفظ عرب "عربہ" سے نکلا ہے، جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ہیں، چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا۔ (جاری)
استفادہ اور مرتب کردہ: الہدی انٹر نیشنل
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی.
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں