::: قُران سیکھنے اور پڑھنے والوں کی اقسام :::
تحریر: عادل سہیل
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں شیطان مردُود (یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے) کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَ شعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور (لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
الحمد للہ ، دِین سے دُوری اور نئے نئے نظریات کا شکار ہونے کے باوجود مُسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اللہ سبُحانہُ و تعالی کی کتاب کو سیکھتے اور پڑھتے ہوئے دِکھائی دیتی ہے ، ہمیں اپنے ہر کلمہ گو بھائی اور بہن کے بارے میں یہ ہی حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دِین سیکھنے اور حق جاننے کے لیے اُس پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ، اللہ پاک کے کلام کا مُطالعہ یا قرأت کرتا ہے ،
لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے قُران سیکھنے ، سکھانے ، پڑھنے پڑھانے میں اپنی نیت کی جانچ بھی کرتے رہنا چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی اپنے کِسی عمل کے بارے میں اپنی نیت کو اپنے تئیں دُرُست سمجھ رہا ہو لیکن حقیقت اُس کے بر عکس ہو ،
قُران سیکھنے اور پڑھنے کے بارے میں اپنی نیت کو جانچنے کے لیے ، اور دُوسروں کے اطوار کو دیکھ کر اُن کے قُران سیکھنے سِکھانے، پڑھنے پڑھانے کی حقیقت اور انجام کے بارے میں اندازہ کرنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کچھ کسوٹیاں بتائی ہیں ، آئیے اُن کا مُطالعہ کرتے ہیں اور پھر جانچتے ہیں کہ ہم میں سے کِس کا قُران سیکھنا سکھانا ، پڑھنا پڑھانا کون سے ز ُمرے میں آتا ہے ، اور اُس کی بنیاد پر ہم خود کس گروہ میں ہیں ،
::: قرآن سیکھنے والوں کی اقسام :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے کہ
﴿ تَعَلَّمُوا القُران َ ، وسَلُوا اللَّہ َ بِہِ الجَنَّۃَ قَبلَ أن یَتعَلَّمَہ ُ قَومٌ یَسأَلوُن َ بِہِ الدُنیا ، فإِنَّ القُران َ یَتعَلَّمَہ ُ ثَلاثَۃٌ (1) رَجُلٌ یُباھِی بِہِ ، و (2) رجُلٌ یَستَأَکِلُ بِہِ ، و(3) رجُلٌ یَقرأَہُ لِلَّہِ
قُران سیکھو اور اُس کے ذریعے اللہ سے جنت کا سوال کرو ، اِس سے پہلے کہ وہ لوگ قُران سیکھیں جو قُران کے ذریعے دُینا کا سوال کیا کریں گے ، بے شک قُران تین قِسم کے لوگ سیکھتے ہیں ( 1 ) وہ آدمی جو قُران کے ذریعے اپنی بڑائی جتاتا ہے ، اور ( 2 ) وہ آدمی جو قُران کے ذریعے کھاتا ہے، اور ( 3 )وہ آدمی جو قُران اللہ کے لیے پڑھتا ہے ﴾ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ، حدیث 258 ،
اِس مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ تعلیم عطاء فرمائی کہ قُران صرف آخرت کی خیر اور اللہ کے قُرب کے لیے سیکھا جانا چاہیے ، اِس کے علاوہ قُران سیکھنا دُنیاوی فوائد کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن آخرت کے نُقصان کا موجب بھی ہو گا ، اِن مُعاملات کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل فرمان مُبارک میں ہے ،
::: قرآن پڑھنے والوں کی اِقسام :::
بشیر بن ابی عمر الخولانی رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں الولید بن قیس(رحمہُ اللہ) نے بتایا کہ اُنہوں نے ابو سعید الخُدری (رضی اللہ عنہ ُ )سے سُنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ
((( یَکُونُ خَلفٌ مِن بَعدِ سِتِّینَ سَنَۃً ﴿ أَضَاعُوا الصَّلاَۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیًّا ﴾، ثُمَّ یَکُونُ خَلفٌ یقرؤون القُرآنَ لاَ یَعدُو تَرَاقِیَہُم ، وَیَقرَأُ القُرآنَ ثَلاَثَۃٌ (1) مُؤمِنٌ وَ (2) مُنَافِقٌ وَ (3) فَاجِرٌ
:::ساٹھ سال بعد ایسے لوگ آئیں گے جو﴿ نماز ضائع کریں گے اور خواہشات کی پیروی کریں گے پس جلد ہی وہ لوگ غیّا(جہنم کی ایک وادی)میں پہنچیں گے﴾پھر اُن کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے(لیکن)قُران اُن کے گلوں(حلق)سے آگے نہیں جائے گا،اور قُران تین قِسم کے لوگ پڑھتے ہیں (1) إِیمان والا، اور (2) مُنافق، اور (3) فاجر)))،
بشیر الخولانی رحمہُ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ولید(رحمہُ اللہ) سے پوچھا کہ"""یہ تینوں کیا ہیں ؟ (یعنی یہ تینوں قسم کے لوگ کون سے ہیں ؟ ) """،
تو ولید(رحمہُ اللہ)نے بتایا"""مُنافق وہ ہے جو قُران کا مُنکر ہو (یعنی دِل سے قُران پر إِیمان نہ رکھتا ہو صِرف دِکھاوے کے لیے پڑھتا ہو)،
اور فاجر وہ ہے جوقُران کے ذریعے کھاتا ہو(یعنی قُران کو کِسی بھی طور، کسی قِسم کی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہو ، خواہ وہ براہ راست مال و دولت لیتا ہو ، یا رُتبہ و جاہ بنا کر اُس راستے سے مال و متاع بٹورنے کا سلسلہ کرتا ہو)،
اور مؤمن وہ ہے جو قُران پر إِیمان رکھتا ہو"""، [1]
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارک کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قُران کا ہر قاری اللہ کی رضا کے لیے نہیں پڑھ رہا ہوتا اور نہ ہی اللہ کی رضا کے لیے سیکھ رہا ہوتا ہے ،
بلکہ کوئی تو صرف دُنیا میں اپنی قُران خوانی کی بنا پر اِترانے اور فخر کرنے کے لیے قرآن پڑھتا ہے ، جبکہ اُس کے دِل میں قرآن پر اِیمان نہیں ہوتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مُنافق قرار دیا ہے ، اور اُس کا یہ نفاق اُس کے اقوال اور خاص طور پر اُس کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے جِس کی کچھ وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان میں ملتی ہے
((( أَلاَ إِنِّى أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ ، أَلاَ يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ::: خبردار رہو یاد رکھو ، کہ یقیناً مجھے قران بھی دیا گیا ہے ،اور اُس کے ساتھ ، اُس ہی کی طرح بھی ، خبردار رہو یاد رکھو ، کہ قریب ہی ہے کہ (تُم لوگ ) ایسا شخص (پاؤ)گے جو بھرے پیٹ کی حالت میں اپنی نشت گاہ پر ٹیک لگائے ہو گااور کہے گا ، تُم لوگوں پر قران کی پیروی کرنا فرض ہے ، لہذا تُم لوگ جو کچھ قران میں حلال پاتے ہو اُسے حلال قرار دو ، اور جو کچھ قران میں حرام پاتے ہو اُسے حرام قرار دو))) [2]،
پس ، قُران پڑھنے والوں کی پہلی قِسم میں وہ لوگ ہیں جو اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان کیے گئے حال کے مُطابق ہوتے ہیں اور اِس میں ذِکر کردہ باتوں کے جیسی باتیں کرتے ہوئے دِکھائی اور سُنائی دیتے رہے ہیں ، دے رہے ہیں ، اور مُستقبل میں دیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن فرامین کی روشنی میں ایسے لوگوں کی قُرانی خوانی اور قُران کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ اللہ کی رضا کے لیے ، اور نہ ہی اللہ کی رضا کا سبب تھا ، نہ ہے ، اور نہ ہو سکتا ہے ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کو نظر انداز کرتے ہیں، جی ہاں لوگوں میں اپنی قُرانی خوانی اورقُران فہمی کا رعب جمانے کے لیے ، اپنی خوش فہمی پر اِترانے کے لیے ، اپنے آپ پر فخر کرنے کے لیے قُران خوانی ، قُرانی درس و تدریس اور قُرانی تدبر و تفہیم ء وغیرہ کے خود ساختہ ، لیکن مُخالفء قُران مُظاہرے کیے جاتے ہیں ،
قُران پڑھنے والوں کی دُوسری قِسم میں وہ لوگ ہیں جو قرآن پڑھا کر ، سیکھا کر ، اُس کو آڑ بنا کر اُسکے ذریعے دُنیا کا مال اور دیگر فوائد فوائد حاصل کرتے ہیں ،
اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو قرآن کو صِرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے پڑھتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پہلی دو اقسام کے قرآن پڑھنے والوں کی پہچان عطا ءفرمائے اور اُن میں ہونے سے اور اُن کے تابع فرمان ہونے سے بچنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ، اور اپنی رحمت خاص سے تیسری قسم میں سے بنائے ، جو اِیمان کے ساتھ قرآن کو اللہ کی رضا کے لیے پڑھتے ہیں ، اور اللہ کی رضا کے لیے اور اُس کے بتائے ہوئے طریقے کے مُطابق سیکھتے ہیں ، نہ کہ اپنی عقل ، سوچ ، فِکر ، منطق ، فلسفے اور لُغت کی قلا بازیوں کے ذریعے ۔ و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] المستدرک الحاکم /حدیث3416/کتاب التفسیر /باب تفسیر سورۃ مریم ،إِمام الذھبی نے تلخیص میں صحیح قرار دِیا،صحیح ابن حبان / حدیث 755/کتاب الرقاق /باب8قراءۃ القُران، مُسند احمد/حدیث11358،یا، 11399،یا، 11649/مُسند ابی سعید الخُدری میں سے حدیث رقم 373،سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/حدیث3043۔
[2] سُنن ابو داود /حدیث 4591/ کتاب السُنّۃ /باب 5 ، مُسنداحمد ، سُنن البیہقی الکبری ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں