پیغام قرآن : پارہ 10-6


۶۔۔۔ لایحب اللہ کے مضامین


۱۔ اللہ بد گوئی کو پسند نہیں کرتا

اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الاّ یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ (مظلوم ہونے کی صورت میں اگر چہ تم کو بد گوئی کا حق ہے) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم بُرائی سے درگزر کرو، تو اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) بڑا معاف کرنے والا ہے، حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔(النسآء۔۔۔ ۱۴۹)

۲۔ منکرین حدیث پکے کافر ہیں

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں ، اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے، اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی ۔بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں ، اور اُن کے درمیان تفریق نہ کریں ، اُن کو ہم ضرور اُن کے اجر عطا کریں گے، اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(النسآء۔۔۔ ۱۵۲)

۳۔کافروں کا خدا کو دکھانے کا مطالبہ

اے نبیﷺ ! یہ اہلِ کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰؑ سے کر چکے ہیں ۔ اُس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰؑ کو صریح فرمان عطا کیا اور ان لوگوں پر طُور کو اٹھا کر ان سے (اُس فرمان کی اطاعت کا) عہد لیا۔ ہم نے ان کو حکم دیا کہ دروازہ میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو۔ ہم نے ان سے کہا کہ سبت کا قانون نہ توڑو اور اس پر ان سے پختہ عہد لیا۔ آخرکار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں __ حالانکہ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں ۔ (النسآء۔۔۔ ۱۵۵)

۴۔ عیسیٰؑ نہ قتل ہوئے نہ صلیب چڑھے

پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا، اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے ۔حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔ انہوں نے مسیحؑ کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔ اور اہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اُس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا ۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں ، اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبیﷺ ، تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔ اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روزِ آخر پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجرِ عظیم عطا کریں گے۔(النسآء۔۔۔ ۱۶۱)

۵۔ اللہ نے موسیٰؑ سے گفتگو کی

اے نبیﷺ ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ ہم نے ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ، عیسیٰؑ ، ایوبؑ، یونسؑ ، ہارونؑ اور سُلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے داؤدؑ کو زبور دی۔ ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ ہم نے موسیٰؑ سے اس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔(النسآء۔۔۔ ۱۶۴)

۶۔رسول خوش خبری دینے اور ڈرانے والے

یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجتّ نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ (لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں ) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبیﷺ جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں ، اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے۔ جو لوگ اس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے روکتے ہیں وہ یقیناً گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ اس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اتر آئے اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔(النسآء۔۔۔ ۱۶۹)

۷۔زمیں و آسمان میں سب کچھ اللہ کا ہے

لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔(النسآء۔۔۔ ۱۷۰)

۸۔ مسیحؑ عیسیٰ ابن مریمؑ اللہ کے بیٹے نہ تھے

اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسُوب نہ کرو۔ مسیحؑ عیسیٰ ابن مریمؑ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریمؑ کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ ’’تین‘‘ ہیں ۔ باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں ، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے۔(النسآء۔۔۔ ۱۷۱)

۹۔ تکبُّر کرنے والوں کے لئے سزا

مسیحؑ نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں ۔ اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبُّر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ اُس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرزِ عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پُورے پُورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبُّر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے۔(النسآء۔۔۔ ۱۷۳)

۱۰۔رب کی طرف سے روشن دلیل

لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیلِ روشن آ گئی ہے۔ اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے، اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا دے گا۔(النسآء۔۔۔ ۱۷۵)

۱۱۔بے اولاد مرنے والے کا ترکہ

اے نبیﷺ ! لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا ا کہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ (النسآء۔۔۔ ۱۷۶)

سورۂ المائدۃ

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

 ۱۲۔حالت احرام میں شکار حلال نہیں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱)

۱۳۔نیکی میں تعاون کرو، گناہ میں نہیں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو ۔ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال نہ کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذرِ خداوندی کی علامت کے طور پر پٹّے پڑے ہوئے ہوں ، نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکانِ محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کر سکتے ہو ۔اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں ، جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۲)

۱۴۔حرام جانوروں کا ذکر

تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھُٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ،سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کر لیا ۔اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔(المآئدۃ۔۔۔ ۳)

۱۵۔ قسمت کا حال معلوم کرنا حرام ہے

نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۳)

۱۶۔شکاری جانوروں سے شکار کرنا جائز ہے

لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سَدھایا ہو __ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکاری کی تعلیم دیا کرتے ہو __ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔(المآئدۃ۔۔۔ ۴)

۱۷۔ اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح جائز ہے

آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال اور تمہارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہو گا۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۵)

۱۸۔وضو، غسل اور تیمم کا ذکر

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔(المآئدۃ۔۔۔ ۶)

۱۹۔ ’’ہم نے سُنا اور اطاعت قبول کی‘‘

اللہ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اُس کا خیال رکھو اور اُس پختہ عہد و پیمان کو نہ بھُولو جو اس نے تم سے لیا ہے، یعنی تمہارا یہ قول کہ ’’ہم نے سُنا اور اطاعت قبول کی‘‘۔ اللہ سے ڈرو، اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔ رہے وہ لوگ جو کفر کریں اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں ، تو وہ دوزخ میں جانے والے ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۰)

۲۰۔مومن کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اُس احسان کو یاد کرو جو اس نے (ابھی حال میں ) تم پر کیا ہے، جبکہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کر لیا تھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، ایمان رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۱)

۲۱۔بنی اسرائیل سے اللہ کا عہد

اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کر دی۔ پھر یہ اُن کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے اُن کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں ، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں ۔ (پس جب یہ اس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں ) لہٰذا انہیں معاف کرو اور اُن کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۳)

۲۲۔ ’’نصاریٰ‘‘ سے اللہ کا عہد

اسی طرح ہم نے اُن لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم ’’نصاریٰ‘‘ ہیں ، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا بڑا حصہ انہوں نے فراموش کر دیا، آخرکار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور آپس کے بُغض و عناد کا بیج بو دیا، اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۴)

۲۳۔اہل کتاب کا حق کو چھپانے کا ذکر

اے اہل کتاب! ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو کتابِ الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۶)

۲۴۔ مسیحؑ کو خدا ماننے والے کافر ہیں

یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیحؑ ابن مریم ہی خدا ہے۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیحؑ ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارا دے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں ، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۷)

۲۵۔یہود و نصاریٰ اللہ کے چہیتے نہیں

یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔ ان سے پوچھو، پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں ۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے، زمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی مِلک ہیں ، اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۸)

۲۶۔بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا ہے

اے اہل کتاب! ہمارا یہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو دیکھو، اب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا__ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۹)

۲۷۔ موسیٰؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ

یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اُس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔ اے برادران قوم! اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’اے موسیٰؑ ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ، ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ۔ ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں ‘‘۔ ان ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اِن جباروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے، اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو‘‘۔ لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ ’’اے موسیٰؑ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں ۔ بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں ‘‘۔ اس پر موسیٰؑ نے کہا ’’اے میرے رب، میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی، پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے‘‘۔ اللہ نے جواب دیا ’’اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک اِن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ‘‘۔(المآئدۃ۔۔۔ ۲۶)

۲۸۔حضرت آدمؑ کے بیٹے کا بھائی کو قتل کرنا

اور ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سُنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ’’میں تجھے مار ڈالوں گا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘۔ آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا ’’افسوس مجھ پر! میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا‘‘۔ اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۳۱)

۲۹۔ایک قتل ناحق، پوری انسانیت کا قتل ہے

اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۳۲)

۳۰۔رسول سے لڑنے والوں کی سزا

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں ، یا سولی پر چڑھائے جائیں ، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں ، یا وہ جلاوطن کر دیے جائیں ۔ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔ مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ ۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۳۴)

۳۱۔دولت کافروں کو عذاب سے نہیں بچا سکتی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے۔ خوب جان لو کہ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اگر ان کے قبضہ میں ساری زمین کی دولت ہو اور اتنی ہی اور اس کے ساتھ، اور وہ چاہیں کہ اسے فدیہ میں دے کر روزِ قیامت کے عذاب سے بچ جائیں ، تب بھی وہ ان سے قبول نہ کی جائے گی اور انہیں دردناک سزا مل کر رہے گی۔ وہ چاہیں گے کہ دوزخ کی آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور انہیں قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۳۷)

۳۲۔چور مرد و عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم

اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ پھر یہ ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحمت فرمانے والا ہے۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۴۰)

۳۳۔ کتاب اللہ کے معنی تبدیل کرنے والے

اے پیغمبرﷺ ! تمہارے لیے باعثِ رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی د کھا رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل ان کے ایمان نہیں لائے، یا ان میں سے ہوں جو یہودی ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں ، اور دوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سُن گُن لیتے پھرتے ہیں ، کتاب اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا، ان کے لیے دُنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۴۱)

۳۴۔یہودی توراۃ سے منہ موڑنے والے ہیں

یہ جھوٹ سُننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں ، لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس (اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اسی کے مطابق اِن یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہِ یہود) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۴۴)

۳۵۔جان کے بدلے جان اور قصاص کا کفارہ

توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۴۵)

۳۶۔انجیل توراۃ کی تصدیق کرتی ہے

پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو بھیجا۔ توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں ۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۴۷)

۳۷۔اللہ نے ہی شریعت مقرر کی

پھر اے نبیﷺ ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو __ ہم نے تم (انسانوں ) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو __ پس اے نبیؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرّہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے، پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں ) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ (المآئدۃ۔۔۔ ۵۰)

۳۸۔یہود و نصاریٰ کو رفیق بنانے والا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۵۱)

۳۹۔ دلوں میں نفاق کی بیماری

تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں ‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کُن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے۔ اور اس وقت اہلِ ایمان کہیں گے ’’کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘؟ ان کے سب اعمال ضائع ہو گئے اور آخرکار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۵۳)

۴۰۔اپنے دین سے پھرنے والے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسولﷺ اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۵۶)

۴۱۔کون لوگ بندر اور سور بنائے گئے؟

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے۔ ان سے کہو، ’’اے اہلِ کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ‘‘؟ پھر کہو ’’کیا میں ان لوگوں کی نشان دہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔ اُن کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے اور وہ سواء ُ السبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ‘‘۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۶۰)

۴۲۔ظلم کرنے اور حرام مال کھانے والے

جب یہ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں ۔ تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں ۔ بہت بُری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں ۔ کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے؟ یقیناً بہت ہی بُرا کارنامۂ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں ۔(المآئدۃ۔۔۔ ۶۳)

۴۳۔اللہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے

یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی ان پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ، اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں اُلٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے، اور (اس کی پاداش میں ) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔اگر (اس سرکشی کے بجائے) یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی روش اختیار کرتے تو ہم اِن کی برائیاں اِن سے دور کر دیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انہوں نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں ۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رو بھی ہیں ، لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔ (المآئدۃ:۶۶)

۴۴۔اللہ کافروں کو کامیابی کی راہ نہ دکھائے گا

اے پیغمبرﷺ ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں ) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ صاف کہہ دو کہ ’’اے اہلِ کتاب، تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا۔ مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ (یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے) مسلمان ہوں یا یہودی، صابی ہوں یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۶۹)

۴۵۔بنی اسرائیل نے نبیوں کو قتل کیا

ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے۔ مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشاتِ نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں نے جھُٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا، اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہ ہو گا، اس لیے اندھے اور بہرے بن گئے۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کیا تو اُن میں اکثر لوگ اور زیادہ اندھے اور بہرے بنتے چلے گئے۔ اللہ ان کی یہ سب حرکات دیکھتا رہا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۷۱)

۴۶۔خدائی میں تثلیث کی تردید

یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیحؑ نے کہا تھا کہ ’’اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی‘‘۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو دردناک سزا دی جائے گی۔ پھر کیا یہ اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے؟ اللہ بہت درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۷۳)

۴۷۔حضرت عیسیٰؑ محض ایک رسول تھے

مسیحؑ ابن مریمؑ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں ایک راست باز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں ، پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں ۔ان سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔ کہو، اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور ’’سواء اسبیل‘‘ سے بھٹک گئے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۷۷)

۴۸۔یہودیوں کا مسلمانوں سے جذبۂ عداوت

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤدؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِ عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا۔ آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہلِ ایمان کے مقابلہ میں ) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں ۔ یقیناً بہت بُرا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لیے کی ہے، اللہ ان پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرﷺ اور اس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہلِ ایمان کے مقابلے میں ) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے۔ مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔ تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدُنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرورِ نفس نہیں ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۸۲)


۷۔۔۔ واِذا سَمِعوا کے مضامین


۱۔ قرآن کو نہ ماننے والے جہنمی ہیں

جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں ۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ ’’پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ’’آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اُسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے‘‘؟ اُن کے اِس قول کی وجہ سے اللہ نے اُن کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزاء ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا، تو وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۸۶)

۲۔حلال کو حرام نہ کر لو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ۔ جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھاؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔(المآئدۃ۔۔۔ ۸۸)

۳۔ قسم کا کفارہ تین روزے رکھنا

تم لوگ جو مُہمل قسمیں کھا لیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بُوجھ کر کھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچّوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑ دو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو۔(المآئدۃ۔۔۔ ۸۹)

۴۔ شراب اور جُوا شیطانی کام ہیں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ۔ ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے ۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدُولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسولﷺ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۹۲)

۵۔دورِ جہالت کے اعمال پر گرفت نہیں

جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں ، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رُکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں ، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں ۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۹۳)

۶۔احرام میں شکار اور اس کا کفارہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہو گا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا، یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۹۵)

۷۔احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے

تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا، جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِ راہ بھی بنا سکتے ہو، البتہ خشکی کا شکار، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۹۶)

۸۔کعبہ، ماہِ حرام اور قربانی

اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہو جاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھُلے اور چھُپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے۔ اے پیغمبرﷺ ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بُہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ (المآئدۃ:۱۰۰)

۹۔ناگوار باتیں نہ پو چھا کرو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور بُرد بار ہے۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مُبتلا ہو گئے۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۰۲)

۱۰۔ قانونِ الٰہی کے خلاف باپ دادا کی تقلید

اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وَصیلہ اور نہ حام ۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے توہمات کو مان رہے ہیں )۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۰۵)

۱۱۔وصیت کرتے وقت دو گواہ بنانے کا حکم

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحبِ عدل آدمی گواہ بنائے جائیں ، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں ۔ پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں ) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں ، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں )، اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں ، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے‘‘۔ لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو اُن کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو، اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہماری شہادت اُن کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے، اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے‘‘۔ اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے۔ اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۰۸)

۱۲۔عیسیٰؑ کا گہوارے میں بات کرنا

جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ پھر تصور کرو اُس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ ’’اے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی۔ میں نے رُوح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۱۰)

۱۳۔عیسیٰؑ کا مردے کو زندہ ، کوڑھی کو اچھا کرنا

میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تُو میرے حکم سے مٹی کا پُتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا۔ پھر جب تُو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا۔(المآئدۃ۔۔۔ ۱۱۰)

۱۴۔عیسیٰؑ کے حواری:کھانے کا خوان اترنا

اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا ’’ہم ایمان لائے اور گواہ ہو کہ ہم مسلم ہیں ‘‘۔ (حواریوں کے سلسلہ میں ) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ’’اے عیسیٰؑ ابن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے‘‘؟ تو عیسیٰؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ انہوں نے کہا ’’ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اُس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اُس پر گواہ ہوں ‘‘۔ اس پر عیسیٰؑ ابن مریم نے دعا کی ’’خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو، ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تُو بہترین رازق ہے‘‘۔ اللہ نے جواب دیا ’’میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں ، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو میں نے کسی کو نہ دی ہو گی‘‘۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۱۵)

۱۵۔عیسیٰؑ نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا

غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسیٰؑ بن مریم، کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ ’’سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالِم ہیں ۔ میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بُلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں ۔ اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ‘‘۔ تب اللہ فرمائے گا ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (المآئدۃ۔۔۔ ۱۲۰)


سورۂ الانعام

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۶۔زندگی کی ایک دوسری مدت کا بیان

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں ۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دُوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں ۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے۔ مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔ وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کھُلے اور چھُپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اُس سے خوب واقف ہے۔ (الانعام۔۔۔ ۳)

۱۷۔رب کی نشانیوں کا مذاق اڑانے والے

لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دَورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں ، (مگر جب انہوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخرکار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دَور کی قوموں کو اُٹھایا۔ (الانعام۔۔۔ ۶)

۱۸۔حق کو جھٹلانے والوں کا انجام

اے پیغمبرﷺ ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھُو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادُو ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مُبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مُبتلا ہیں ۔اے نبیﷺ ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخرکار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ان سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ __کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مُبتلا کر لیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔(الانعام:۱۲)

۱۹۔اللہ رازق کے سامنے جھکنے کا حکم

رات کے اندھیرے اور دن کے اُجالے میں جو کچھ ٹھیرا ہوا ہے، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے۔(الانعام۔۔۔ ۱۸)

۲۰۔میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے

ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں ۔
کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا۔ کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے اُن کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھُوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھُٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔(الانعام۔۔۔ ۲۱)

۲۱۔ روز حشر مشرکوں کا جھوٹ گھڑنا

جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پُوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اُٹھا سکیں گے کہ (یہ جھُوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔ دیکھو، اُس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ کو جھوٹ گھڑیں گے، اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو جائیں گے۔(الانعام۔۔۔ ۲۴)

۲۲۔ اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے

ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے)۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آ کر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کر لیا ہے وہ (ساری باتیں سننے کے بعد) یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک داستانِ پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ اس امرِ حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دُور بھاگتے ہیں ۔ (وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں ) حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دُنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اُس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہو گی، ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جھُوٹے (اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھُوٹ ہی سے کام لیں گے)۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے‘‘؟ یہ کہیں گے ’’ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے‘‘۔ وہ فرمائے گا ’’اچھا، تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو‘‘۔(الانعام۔۔۔ ۳۰)

۲۳۔ اللہ سے ملاقات کا انکار کرنے والے

نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا۔ جب اچانک وہ گھڑی آ جائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ’’افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی‘‘۔ اور ان کا حال یہ ہو گا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا بُرا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے۔ حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟(الانعام۔۔۔ ۳۲)

۲۴۔ نبیﷺ کو جھٹلانا اللہ کی آیات کو جھٹلانا ہے

اے نبیﷺ ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں ، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو۔ دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سُننے والے ہیں ۔ رہے مُردے، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے۔(الانعام۔۔۔ ۳۶)

۲۵۔مصیبت میں انسان اللہ ہی کو یاد کرتا ہے

یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پُوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مُبتلا ہیں ۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو ، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں ۔ مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں ۔ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے۔ ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔(الانعام۔۔۔ ۴۱)

۲۶۔اللہ نافرمان قوموں کو بھی خوشحالی دیتا ہے۔

تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھُک جائیں ۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر اُن کے دل تو اور سخت ہو گئے اور شیطان نے اُن کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اُس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بھُلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ اس طرح اُن لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظُلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العٰلمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)۔(الانعام۔۔۔ ۴۵)

۲۷۔بینائی و سماعت اللہ ہی عطا کرتا ہے

اے نبیﷺ ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مُہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو؟
دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چُرا جاتے ہیں ۔ کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ کی طرف سے اچانک یا عَلانیہ تم پر عذاب آ جائے تو کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہو گا؟ ہم جو رسول بھیجتے ہیں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ نیک کردار لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والے اور بد کرداروں کے لیے ڈرانے والے ہوں ۔ پھر جو لوگ اُن کی بات مان لیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں سزا بھُگت کر رہیں گے۔(الانعام۔۔۔ ۴۹)

۲۸۔ نبیﷺ غیب کا علم نہیں رکھتے

اے نبیﷺ ! ان سے کہو، ’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ (الانعام۔۔۔ ۵۰)

۲۹۔ایک کے ذریعہ دوسرے کی آزمائش

اور اے نبیﷺ ! تم اس (علمِ وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو ان کا حامی و مددگار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں ۔ اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دُور نہ پھینکو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دُور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے‘‘؟ ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے؟ (الانعام۔۔۔ ۵۳)

۳۰۔ توبہ و اصلاح سے معافی مل جاتی ہے

جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ’’تم پر سلامتی ہے۔ تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ (یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی بُرائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘۔ اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے۔ (الانعام۔۔۔ ۵۵)

۳۱۔ فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے

اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے۔ کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا، راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔ کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الانعام۔۔۔ ۵۷)

۳۲۔ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہو گی

کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھُلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمہیں اِسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ اپنے بندوں پر وہ پُوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے، پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں ۔ خبردار ہو جاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔(الانعام۔۔۔ ۶۲)

۳۳۔خطرات سے اللہ ہی بچاتا ہے۔

اے نبیﷺ ! ان سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گِڑگڑا گِڑگڑا کر اور چُپکے چُپکے دُعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تُو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟ __ کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ کہو، وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ ان سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں ، ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے، عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہو جائے گا۔(الانعام۔۔۔ ۶۷)

۳۴۔قرآن پر نکتہ چینی کرنے والوں کی محفل

اور اے نبیﷺ ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں ۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھُلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیزگار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا ان کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں ۔ چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھُوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکارِ حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔ (الانعام۔۔۔ ۷۰)

۳۵۔ صور پھونکنے پر حشر برپا ہو گا

اے نبیﷺ ! ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جب کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھِر جائیں ؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھِر رہا ہو دراں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آ، یہ سیدھی راہ موجود ہے؟ کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دو، نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اس دن وہ ہو جائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے۔ اور جس روز صُور پھونکا جائے گا اس روز بادشاہی اُسی کی ہو گی، وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالِم ہے اور دانا اور باخبر ہے۔ (الانعام۔۔۔ ۷۳) 

۳۶۔ ابراہیمؑ کا قصہ: حقیقی رب کی تلاش

ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا ’’کیا تُو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ‘‘۔ ابراہیمؑ کو ہم اسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں ۔ پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب۔ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اٹھا۔ ’’اے برادرانِ قوم! میں اُن سب سے بے زار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو۔ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔ اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ’’کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھا دی ہے۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ اور چاہے تو وہ ضرور ہو سکتا ہے، میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ اور آخر میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ حقیقت میں تو امن اُنہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘ یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی۔ ہم جسے چاہتے ہیں بلند مرتبے عطا کرتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ تمہارا رب نہایت دانا اور علیم ہے۔ (الانعام۔۔۔ ۸۳)

۳۷۔آلِ ابراہیمؑ کا ذکر

پھر ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی (وہی راہِ راست جو) اُس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی۔ اور اسی کی نسل سے ہم نے داؤدؑ ، سلیمانؑ ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی)۔ اس طرح ہم نیکو کاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں ۔ (اُسی کی اولاد سے) زکریاؑ، یحییٰؑ ، عیسیٰؑ اور ا لیاسؑ کو (راہ یاب کیا)۔ ہر ایک ان میں سے صالح تھا۔ (اسی کے خاندان سے ) اسماعیلؑ ، الیسعؑ اور یونسؑ اور لوطؑ کو (راستہ دکھایا)۔ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام دُنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ نیز ان کے آباء و اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ (الانعام۔۔۔ ۸۷)

۳۸۔ دینِ ابراہیمؑ کو اختیار کرو

یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی۔ اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو (پروا نہیں ) ہم نے کچھ اور لوگوں کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں ہیں ۔ اے نبیﷺ ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ و ہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے۔ (الانعام۔۔۔ ۹۰)

۳۹۔ مکہ ، مرکز دنیا ہے

ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے۔ ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسیٰؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟__ بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو۔ (اُسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ بڑی خیر و برکت والی ہے۔ اُس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی۔ اور اس لیے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔ جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ (الانعام:۹۲)

۴۰۔اللہ کے سامنے تن تنہا پیش ہونا ہے

اور اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھُوٹا بہتان گھڑے، یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے در آں حالے کہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلہ میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھا دوں گا؟ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لاؤ، نکالو اپنی جان، آج تمہیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔ (اور اللہ فرمائے گا) ’’لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہو گئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا، جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے اُن سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا کبھی کچھ حصہ ہے، تمہارے آپس کے سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہو گئے جن کا تم زَعم رکھتے تھے‘‘۔ (الانعام۔۔۔ ۹۴)

۴۱۔اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے

دانے اور گُٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے۔ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ پردۂ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے۔ اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے۔ اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے۔ یہ سب اسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں ۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۔ (الانعام۔۔۔ ۹۷)

۴۲۔اللہ ہی نے پانی برسایا اور نباتات اگائی

اور وہی ہے جس نے ایک جان سے تم کو پیدا کیا پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اُس کے سونپے جانے کی جگہ۔ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے۔ پھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گُچھّے کے گُچھّے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھُکے پڑتے ہیں ، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جُلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں ۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بُوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں ، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۰۰)

۴۳۔اللہ کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ کوئی شریکِ زندگی

وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے۔دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ گئی ہیں ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۰۴)

۴۴۔جھوٹے خداؤں کو گالیاں نہ دو

اس طرح ہم اپنی آیات کو بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں ’’تم کسی سے پڑھ آئے ہو‘‘، اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان پر ہم حقیقت کو روشن کر دیں ۔ اے نبیﷺ ! اُس وحی کی پیروی کیے جاؤ جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ اس ایک رب کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو۔ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کر سکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالدار ہو۔ اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے، پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ۔یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی (یعنی معجزہ) ہمارے سامنے آ جائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ ’’نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں ‘‘ اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آ بھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان نہیں لائے تھے۔ ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۱۰)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۸۔۔۔ ولواننا کے مضامین


۱۔ شیطان انسان اور شیطان جن

اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الّا یہ کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو (کہ یہ ایمان لائیں ) مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔ اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں ۔ اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے۔ پس تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں ۔ (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں __ پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔ تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔(الانعام۔۔۔ ۱۱۵)

۲۔اکثریت کا اللہ کے راستہ سے بھٹکانا

اور اے نبیﷺ ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ درحقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے۔(الانعام۔۔۔ ۱۱۷)

۳۔ ذبیحہ صرف اللہ کے نام کا حلال ہے

پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اُس کا گوشت کھاؤ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالتِ اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کر دیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کُن باتیں کرتے ہیں ، ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے۔ تم کھُلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی، جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پا کر رہیں گے۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے، شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔ (الانعام۔۔۔ ۱۲۱) 

۴۔کافروں کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں

کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اِسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ، اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں ۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں ، مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’’ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے‘‘۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے۔ قریب ہے وہ وقت جب یہ مجرم اپنی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔(الانعام۔۔۔ ۱۲۴)

۵۔جب اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے

پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اُس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے۔ اس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی اُن لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے، حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات اُن لوگوں کے لیے واضح کر دیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں ۔ ان کے رب کے پاس اُن کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا سرپرست ہے اس صحیح طرزِ عمل کی وجہ سے جو اُنہوں نے اختیار کیا۔(الانعام۔۔۔ ۱۲۷)

۶۔ روزِ حشر شیاطین کا جواب

جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جِنوں (یعنی شیاطین جن) سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ ’’اے گروہِ جن! تم نے تو نوعِ انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا‘‘۔ انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے ’’پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے، اور اب ہم اُس وقت پر آ پہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا‘‘ اللہ فرمائے گا ’’اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے‘‘۔ اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بے شک تمہارا رب دانا اور علیم ہے۔ دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں ) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے۔ (الانعام۔۔۔ ۱۲۹)

۷۔روزِ حشر کافروں کا اپنے خلاف گواہی دینا

(اس موقع پر اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ)’’اے گروہِ جن و انس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے‘‘؟ وہ کہیں گے ’’ہاں ، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں ‘‘۔ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔ (یہ شہادت اُن سے اس لیے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ) تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے ناواقف ہوں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۳۱)

۸۔انسان کا درجہ اس کے عمل پر منحصر ہے

ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے اور تمہارا رب لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنے والی ہے اور تم خدا کو عاجز کر دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اے نبیﷺ ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں ، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجامِ کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ (الانعام۔۔۔ ۱۳۵)

۹۔مشرکین کا غیر اللہ کے لئے حصہ مقرر کرنا

اِن لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعمِ خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے۔ پھر جو حصہ اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے۔ کیسے بُرے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ! (الانعام۔۔۔ ۱۳۶)

۱۰۔مشرکانہ جہالت والے کام

اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مُبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ، انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں ، حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر یہ اللہ کا نام نہیں لیتے، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے، عنقریب اللہ انہیں ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا۔ یقیناً وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام ٹھیرا لیا۔ یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہرگز وہ راہِ راست پانے والوں میں سے نہ تھے(الانعام:۱۴۰)

۱۱۔بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے حلال ہیں

وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صُورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ اور ان کی پیداوار جبکہ یہ پھلیں ، اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ اُن چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ یہ آٹھ نر و مادہ ہیں ، دو بھیڑ کی قسم سے اور دو بکری کی قسم سے۔ اے نبیﷺ ! ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے۔ پوچھو، ان کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں ؟ کیا تم اُس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا؟ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط رہنمائی کرے۔یقیناً اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ (الانعام۔۔۔ ۱۴۴)

۱۲۔ غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے

اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الاّ یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سُور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز ان میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حدِ ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (الانعام۔۔۔ ۱۴۵)

۱۳۔یہودی شریعت :ناخن والے جانور حرام

اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اُس کے جو ان کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں ۔ اب اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کا دامنِ رحمت وسیع ہے اور مجرموں سے اس کے عذاب کو پھیرا نہیں جا سکتا۔(الانعام۔۔۔ ۱۴۷)

۱۴۔مشرکوں کی حجت پر اللہ کا جواب

یہ مشرک لوگ (تمہاری ان باتوں کے جواب میں ) ضرور کہیں گے کہ ’’اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے‘‘۔ ایسی ہی باتیں بنا بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخرکار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا۔ ان سے کہو ’’کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کر سکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو‘‘۔ پھر کہو (تمہاری اس حجت کے مقابلہ میں ) ’’حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے، بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا‘‘۔ ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے‘‘۔ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز اُن لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے۔ اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۵۰)

۱۵۔ اللہ کی عائد کردہ دس پابندیاں

اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں : (۱) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، (۲) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، (۳) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے، (۴) اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھُپی، (۵) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔ (۶) اور یہ کہ مالِ یتیم کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رُشد کو پہنچ جائے۔ (۷) اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے۔ (۸) اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ (۹) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔(۱۰) نیز اُس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔ (الانعام۔۔۔ ۱۵۳)

۱۶۔قرآن دلیلِ روشن ، ہدایت اور رحمت ہے

پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی (اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں ۔ اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں کو دی گئی تھی اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔ اور اب تم یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتے کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم اُن سے زیادہ راست رَو ثابت ہوتے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیلِ روشن اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے، اب اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور اُن سے منہ موڑے۔ (الانعام۔۔۔ ۱۵۷)

۱۷۔قرآن سے منہ موڑنے کی سزا

جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس روگردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزا دے کر رہیں گے۔ کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آ کھڑے ہوں ، یا تمہارا رب خود آ جائے، یا تمہارے رب کی بعض صریح نشانیاں نمودار ہو جائیں ؟ جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہہ دو کہ اچھا، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔(الانعام۔۔۔ ۱۵۸)

۱۸۔نیکی کا اجر دس گنا، بدی کا بدلہ اتنا ہی ہے

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (الانعام۔۔۔ ۱۶۰)

۱۹۔جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے

اے نبیﷺ ! کہو، میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسُو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں ۔ (الانعام۔۔۔ ۱۶۳)

۲۰۔ جو کچھ ملا ہے اسی میں آزمائش ہے

کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، اس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔(الانعام۔۔۔ ۱۶۵)

سورۂ اعراف

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۱۔قرآن کافروں کو وعید اور مومنوں کو نصیحت

ا، ل، م، ص۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے نبیﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو __ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دِن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کر رہے تھے۔ اور جب ہمارا عذاب اُن پر آ گیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔(الاعراف۔۔۔ ۵)

۲۲۔روز حشر اعمال کا وزن ہو گا

پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔ اور وزن اس روز عین حق ہو گا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (الاعراف:۱۰)

۲۳۔ ابلیس کا آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار

ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو۔ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔پوچھا، ’’تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا‘‘؟ بولا، ’’میں اُس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے‘‘۔ فرمایا، ’’اچھا، تو یہاں سے نیچے اُتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تو اُن لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں ‘‘۔ ۔۔بولا، ’’مجھے اس دن تک مہلت دے جبکہ یہ سب دوبارہ اُٹھائے جائیں گے‘‘۔ فرمایا، ’’تجھے مہلت ہے‘‘۔ بولا، ’’اچھا تو جس طرح تُو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘۔ فرمایا، ’’نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت اُن سب سے جہنم کو بھر دوں گا (الاعراف:۱۸)

۲۴۔ جنت میں آدمؑ و حواؑ کا شجر ممنوعہ کو چکھنا

اور اے آدمؑ ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے‘‘۔پھر شیطان نے اُن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دُوسرے سے چھپائی گئی تھیں ، ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے اُن سے کہا ’’تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے‘‘۔ اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔ اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔

آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستَر ایک دوسرے کے سامنے کھُل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔ تب ان کے رب نے انہیں پکارا ’’کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘؟ دونوں بول اٹھے ’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘۔فرمایا، ’’اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے‘‘۔ اور فرمایا ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۲۵)

۲۵۔بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے

اے اولادِ آدم،ؑ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکنے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۔ اے بنی آدمؑ ، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مُبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور اُن کے لباس اُن پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے اُن لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (الاعراف۔۔۔ ۲۷)

۲۶۔کھاؤ پیو مگر حد سے تجاوز نہ کرو

یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟ اے نبیﷺ ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رُخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص رکھ کر جس طرح اس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے۔ اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔ ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں ۔اے بنی آدمؑ، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف۔۔۔ ۳۱)

۲۷۔ مہلت کی ایک مدت مقرر ہے

اے نبیﷺ ! ان سے کہو، کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں ؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ، اور قیامت کے روز تو خالصتہً انہی کے لیے ہوں گی۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں ۔اے نبیﷺ ، ان سے کہو، کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں : بے شرمی کے کام __ خواہ کھلے ہوں یا چھپے __ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اُسی نے فرمائی ہے۔ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی۔(الاعراف۔۔۔ ۳۴)

۲۸۔ جہنمی ایک دوسرے کو الزام دیں گے۔

(اور یہ بات اللہ نے آغازِ تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ) اے بنی آدمؑ یاد رکھو، اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سُنا رہے ہوں ، تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویہ کی اصلاح کرے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ آخر اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جھُوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھُٹلائے؟ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ گھڑی آ جائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی رُوحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ ’’بتاؤ، اب کہاں ہیں تمہارے معبُود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے‘‘؟ وہ کہیں گے کہ ’’سب ہم سے گُم ہو گئے‘‘۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔ اللہ فرمائے گا جاؤ، تم بھی اُسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہِ جن و انس جا چکے ہیں ۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہو گا، حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ جواب میں ارشاد ہو گا، ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہی ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔ اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا کہ (اگر ہم قابلِ الزام تھے) تو تمہی کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو۔ (الاعراف۔۔۔ ۳۹)

۲۹۔ مجرموں کے لئے جہنم کا بچھونا ہو گا

یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہو گا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔(الاعراف۔۔۔ ۴۱)

۳۰۔ نیک کام والے جنت میں رہیں گے

بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں __ اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں __ وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہو گی اسے ہم نکال دیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے‘‘۔ اس وقت ندا آئے گی کہ ’’یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۴۳)

۳۱۔ اہلِ جنت کا دوزخ والوں سے مکالمہ

پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پُکار کر کہیں گے، ’’ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پایا جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اُن وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے رب نے کیے تھے‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’ہاں ‘‘۔ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۴۵)

۳۲۔ جنت کے امیدواروں کا حال

ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘۔ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب اُن کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ’’اے رب، ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو‘‘۔پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔ اور کیا یہ اہلِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں ، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج‘‘ (الاعراف:۴۹)

۳۳۔دوزخیوں کا جنت والوں سے رزق مانگنا

اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ ’’اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھُلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۵۱)

۳۴۔ انجام دیکھ کر دنیا میں واپسی کی تمنا

ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آ جائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے؟ جس روز وہ انجام سامنے آ گیا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے کہ ’’واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں ؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں ‘‘۔ انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے تصنیف کر رکھے تھے آج اُن سے گم ہو گئے۔(الاعراف۔۔۔ ۵۳)

۳۵۔ زمین و آسمانوں کی چھ دنوں میں پیدائش

درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔ خبردار ہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ (الاعراف۔۔۔ ۵۴)

۳۶۔رب کو گڑگڑاتے ہوئے پکارو

اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔ (الاعراف۔۔۔ ۵۶)

۳۷۔ ہوا ،بادل، بارش اور فصلیں

اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں ، تو انہیں کسی مردہ سرزمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے۔ دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالتِ موت سے نکالتے ہیں ، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں (الاعراف۵۸)

۳۸۔ نوحؑ کے ساتھیوں کی کشتی میں نجات

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ‘‘۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو‘‘۔ نوحؑ نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ، تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاددہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے‘‘؟ مگر اُنہوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور ان لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے۔ (الاعراف۔۔۔ ۶۴)

۳۹۔قومِ عاد اور ہودؑ کا قصہ

اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے‘‘؟ اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے، جواب میں کہا ’’ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھُوٹے ہو‘‘۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، میں بے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ، تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے؟ بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنومند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو سچا ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ‘‘۔ آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے ہودؑ اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔(الاعراف۔۔۔ ۷۲)

۴۰۔ قومِ ثمود اور صالحؑ کا قصہ

اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے۔ یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے۔ اس کو کسی بُرے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۷۴)

۴۱۔ اونٹنی کا قتل اور قومِ ثمود کی تباہی

اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے، کہا ’’کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالحؑ اپنے رب کا پیغمبر ہے‘‘؟ انہوں نے جواب دیا ’’بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ‘‘۔ اُن بڑائی کے مدعیوں نے کہا ’’جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں ‘‘۔پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرُّد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اور صالحؑ سے کہہ دیا کہ ’’لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے‘‘۔ آخرکار ایک دَہلا دینے والی آفت نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ اور صالحؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۷۹)

۴۲۔ قومِ لوطؑ کی تباہی کا ذکر

اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ آخرکار ہم نے لوطؑ اور اس کے گھر والوں کو __ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی __ بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔ (الاعراف۔۔۔ ۸۴)

۴۳۔اہلِ مدین کو حضرت شعیبؑ کی تلقین

اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے۔ لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔ اور (زندگی کے) ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہو جاؤ۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘(الاعراف:۸۷)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۹۔۔۔ قال الملا کے مضامین


۱۔قومِ شعیبؑ کی تباہی کا احوال

اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ ’’اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا‘‘۔ شعیبؑ نے جواب دیا ’’کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔ ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الاّ یہ کہ خدا ہمارا رب ہی ایسا چاہے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اُسی پر ہم نے اعتماد کر لیا۔ اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تُو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۸۹)اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا ’’اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کر لی تو برباد ہو جاؤ گے‘‘۔ مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے اُن کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ جن لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔ شعیبؑ کے جھٹلانے والے ہی آخرکار برباد ہو کر رہے۔ اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۹۳)

۲۔اچانک عذابِ الٰہی کا سبب

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مُبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں ۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھُولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں ‘‘۔ آخرکار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھُٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں ؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ (الاعراف۔۔۔ ۹۹) 

۳۔تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے

اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں ، اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں ؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافُل برتتے ہیں ) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں ) اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ۔ ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۰۲)

۴۔دربارِ فرعون میں عصائے موسیٰ کا اژدہا بننا

پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔موسیٰؑ نے کہا ’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں ، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں ، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں ، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔ فرعون نے کہا ’’اگر تُو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر‘‘۔ موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۰۸)

۵۔جادوگروں کا حضرت موسیٰ سے شکست کھانا

اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو‘‘؟ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہرِ فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں ۔ چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔ انہوں نے کہا ’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا‘‘؟ فرعون نے جواب دیا ’’ہاں ، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے‘‘۔ پھر انہوں نے موسیٰؑ سے کہا۔ ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ‘‘؟ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’تم ہی پھینکو‘‘۔ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے۔ ہم نے موسیٰؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔(الاعراف۔۔۔ ۱۱۷)

۶۔دربارِ فرعون میں جادوگروں کا قبولِ اسلام

اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) اُلٹے ذلیل ہو گئے۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ’’ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اُس رب کو جسے موسیٰؑ اور ہارونؑ مانتے ہیں ‘‘۔فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا‘‘۔انہوں نے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ تُو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں ‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۲۶)

۷۔زمین کا وار ث اللہ اپنی مرضی سے بناتا ہے

فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا ’’کیا تُو موسیٰؑ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں ؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی اُن ہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۲۹)

۸۔ فرعون کا قحط اور خوشحالی پر ردِّ عمل

ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں ، اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھیراتے، حالانکہ درحقیقت اُن کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔ انہوں نے موسیٰؑ سے کہا کہ ’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں ‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۳۲)

۹۔طوفان ، ٹڈّی دَل، مینڈک اور خو ن کی بارش

آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈّی دَل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں ، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں ۔ مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے ’’اے موسیٰ، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر، اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے‘‘۔ مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۳۶)

۱۰۔ طاقتور کی جگہ کمزوروں کو حکمراں بنا دیا

اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۳۷)

۱۱۔ بنی اسرائیل کی بت پرستی کی خواہش

بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ’’اے موسیٰؑ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔ یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے‘‘۔ پھر موسیٰؑ نے کہا ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔ اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی، جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۴۱)

۱۲۔ موسیٰؑ کا اللہ سے ہم کلامی ، دیدار کی خواہش

ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی۔ موسیٰؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ ’’میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا‘‘۔ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’اے رب! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں ‘‘۔ فرمایا تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا‘‘۔ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ’’پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں ‘‘۔ فرمایا ’’اے موسیٰ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔ پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجا لا‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۱۴۴)

۱۳۔ شریعتِ موسویؑ اور اللہ کی ہدایت

اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: ’’ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں ، عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا۔ میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں ‘‘؟ (الاعراف۔۔۔ ۱۴۷)

۱۴۔قومِ موسیٰؑ کا بچھڑے کے پتلے کو پوجنا

موسیٰؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ ’’اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے‘‘۔ اُدھر سے موسیٰؑ غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ آتے ہی اس نے کہا ’’بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے‘‘؟ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارونؑ ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارونؑ نے کہا ’’اے میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر‘‘۔ تب موسیٰؑ نے کہا ’’اے رب، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۱۵۱)

۱۵۔برے عمل کے بعد توبہ و ایمان

(جواب میں ارشاد ہوا کہ) ’’جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔ اور جو لوگ بُرے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۵۳)

۱۶۔موسیٰؑ کا قوم کی طرف سے معافی مانگنا

پھر جب موسیٰؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، اور اس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں ۔ جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰؑ نے عرض کیا ’’اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے۔ کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں ۔ پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں ۔ اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا‘‘۔ جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں ، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۱۵۶)

۱۷۔آخری پیغمبرﷺ کی پیروی میں فلاح ہے

(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، بنی اُمی (صلی اللہ علیہ و سلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۵۷)

۱۸۔ محمدﷺ سب انسانوں کے لئے نبی ہیں

اے محمدﷺ ، کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے بنی اُمیّ پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی،امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۵۸)

۱۹۔ قومِ موسیٰؑ : بارہ چشمے او رمن و سلویٰ

موسیٰؑ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا۔ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی۔ اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھُوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اُتارا __ ’’کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں ‘‘۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۶۰)

۲۰۔آسمان سے عذابِ الٰہی کا نزول

یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ ’’اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسبِ منشا روزی حاصل کرو اور حِطّۃ حِطّۃ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے‘‘۔ مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اُس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۶۲)

۲۱۔برائی سے روکنے والے بچا لئے گئے

اور ذرا ان سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سَبت ہی کے دن اُبھر اُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سَبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں ‘‘۔ آخرکار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے، اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ، ذلیل اور خوار۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۶۶)

۲۲۔بنی اسرائیل پر قیامت تک عذاب ہو گا

اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ ’’وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے‘‘۔ یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے۔ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مُبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں ۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں ۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اَجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۷۱)

۲۳۔اللہ کی ربوبیت اور اولادِ آدمؑ کی گواہی

اور اے نبیﷺ ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا‘‘؟ دیکھو، اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں ۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۷۴)

۲۴۔آیاتِ ربّانی کو جھٹلانے والے کی مثال

اور اے نبیﷺ ، ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھُک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کُتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ کچھ غور و فکر کریں (الاعراف۱۷۶)

۲۵۔غفلت میں کھوئے گئے جانوروں جیسے ہیں

بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں ۔ جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۷۹)

۲۶۔اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو

اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔ میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۸۳)

۲۷۔اللہ رہنمائی نہ دے تو پھر کوئی رہنما نہیں

اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جُنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو (برا انجام سامنے آنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو؟ پھر آخر پیغمبرﷺ کی اس تنبیہ کے بعد اور کونسی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟__ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۸۶)

۲۸۔اللہ جانتا ہے ،قیامت کب نازل ہو گی

یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی؟ کہو ’’اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہو گا۔ وہ تم پر اچانک آ جائے گا‘‘۔ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پُوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو۔ کہو ’’اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ ’’میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ‘‘۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۸۸) 

۲۹۔ اللہ ہی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا

وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تُو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے۔ اللہ بہت بلند و برتر ہے اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ، جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں ۔ (الاعراف۔۔۔ ۱۹۲)

۳۰۔خدا کے بندوں کو خدا ماننے والے

اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں ۔ تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی رہے۔ تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں ۔ کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سُنیں ؟ اے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ ’’بلا لو اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو، پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو، میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں ، بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سُن بھی نہیں سکتے ۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے‘‘۔(الاعراف۔۔۔ ۱۹۸)

۳۱۔شیطان اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو

اے نبیﷺ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں
جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُرا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اُنہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے (الاعراف۲۰۲)

۳۲۔جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو

اے نبیﷺ ، جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟ ان سے کہو ’’میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں ۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے‘‘۔اے نبیﷺ ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ (الاعراف۔۔۔ ۲۰۶)

سورۂ الانفال


اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۳۳۔ اللہ کا ذکر اور مومنین کے د ل کی حالت

تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو ’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے ہیں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں ، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ (اِس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں ۔ (الانفال۔۔۔ ۶)

۳۴۔مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے

یاد کرو وہ موقع جبکہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔اور وہ موقع جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں ۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں ، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔ (الانفال:۱۰)

۳۵۔ جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے

اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں ، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ‘‘۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اُس کے لیے نہایت سخت گیر ہے __ یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزا چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔(الانفال۔۔۔ ۱۴)

۳۶۔چال کے طور پر میدانِ جنگ سے فرار

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری __ الاّ یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے __ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبیﷺ تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کا م میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (ان کافروں سے کہہ دو) ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔(الانفال۔۔۔ ۱۹)

۳۷۔جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے۔ یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔(الانفال۔۔۔ ۲۳)

۳۸۔فتنہ گناہ گاروں تک محدود نہیں رہتا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ا للہ اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں ۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ (الانفال۔۔۔ ۲۸)

۳۹۔اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں ۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چال رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔(الانفال:۳۰)

۴۰۔ اصلی دیوالیے کون لوگ ہیں

جب اُن کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ’’ہاں سُن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں ، یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں ‘‘۔ اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ ’’خدایا، اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ‘‘ اُس وقت تو اللہ اُن پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔ لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں ، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں ۔ اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہو سکتے ہیں ، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے؟ بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں ۔ پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔ جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے، مگر آخرکار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پُلندے کو جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں ۔(الانفال۔۔۔ ۳۷)

۴۱۔اللہ بہترین مددگار ہے

اے نبیﷺ ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اُسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گذشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔(الانفال۔۔۔ ۴۰)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۰۔۔۔ واعلمو کے مضامین


۱۔مالِ غنیمت کی تقسیم

اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اُس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اُس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو)۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(الانفال۔۔۔ ۴۱)

۲۔ جس بات کا فیصلہ اللہ کر لے

یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلوتہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے اور جاننے والا ہے۔(الانفال۔۔۔ ۴۲) اور یاد کرو وہ وقت جب کہ اے نبیؐ، خدا ان کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر کہیں وہ تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور اُن کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخرکار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں ۔ (الانفال۔۔۔ ۴۴)

۳۔مقابلہ میں ثابت قدم رہو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور ان لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اُس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔(الانفال۔۔۔ ۴۸)

۴۔نعمت کی تبدیلی اور اللہ کی سنت

جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مُبتلا کر رکھا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے۔ وہ ان کے چہروں ، اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’لو اب جلنے کی سزا بھگتو، یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ا نہیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کر دیا۔یہ سب ظالم لوگ تھے۔ (الانفال۔۔۔ ۵۴)

۵۔سب سے بد تر مخلوق

یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ (خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہو جائیں ۔ توقع ہے بد عہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الانفال۔۔۔ ۵۸)

۶۔مقابلہ کی تیاری اور طاقت کا حصول

منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا۔ (الانفال۔۔۔ ۶۰)

۷۔اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو

اور اے نبیﷺ ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ اے نبیﷺ تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے۔(الانفال۔۔۔ ۶۴)

۸۔ کم مومنین زیادہ کافروں پر بھاری ہیں

اے نبیﷺ ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ ا چھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ۔(الانفال۔۔۔ ۶۶)

۹۔جنگی قیدیوں سے سلوک

کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ ا گر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے نبیﷺ ، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں اُن سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں ، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم ہے۔ (الانفال۔۔۔ ۷۱)

۱۰۔ انصار و مہاجرین کا باہمی تعلق

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دار الاسلام میں ) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں ۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔ (الانفال۔۔۔ ۷۳) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے، اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں ۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں ، یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الانفال۔۔۔ ۷۵)

سورۂ التوبۃ


۱۱۔مشرکین سے معاہدہ

اعلان برأت ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے۔اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسولﷺ بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبیﷺ ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو، بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۴)

۱۲۔ پناہ کے طلب گار مشرکین کی حفاظت

پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔ اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے ضامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ (التوبہ۔۔۔ ۶)

۱۳۔عہد شکن کافروں سے جنگ کرو

ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ __بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے ۔مگر اُن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا۔ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہو گئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں ۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کفر کے علم برداروں سے جنگ کرو کیونکہ اُن کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے۔ (التوبہ۔۔۔ ۱۲)

۱۴۔مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا

کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اُس کی راہ میں ) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسولﷺ اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۱۶)

۱۵۔مشرکین اور مومنین برابر نہیں ہیں

مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مُجاور و خادم بنیں در آں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں ۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مُجاور و خادم) تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر کو مانیں ، اور نماز قائم کریں ، زکوٰۃ دیں ، اور ا للہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔ ان ہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے ہاں تو اُنہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں ۔ اُن کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں ۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۲۲)

۱۶۔کافر عزیزوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیﷺ ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں ، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں ، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ۔۔۔ ۲۴)

۱۷۔ غزوۂ حنین میں اللہ کے نادیدہ لشکر

اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غزوۂ حنین کے روز (اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)۔ اُس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں ۔ پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۲۷)

۱۸۔ مسجدِ حرام میں مشرکین داخل نہ ہوں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین ناپاک ہیں ، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں ۔ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۲۸)

۱۹۔ اہلِ کتاب سے جنگ اور جزیہ

جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں ۔ (التوبہ۔۔۔ ۲۹)

۲۰۔سونا چاندی جمع کرنے والے

یہودی کہتے ہیں کہ عُزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ دردناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔__ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ (التوبہ۔۔۔ ۳۵)

۲۱۔ماہِ حرام کو حلال ٹھہرانے والے

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں ۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ نَسیِ تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں ۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں ، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں __ ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں فرماتا۔(التوبہ۔۔۔ ۳۷)

۲۲۔ جہاد کرو اپنے جان و مال کے ساتھ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سر و سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری گہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ، اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دُوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اُس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے __ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (التوبہ۔۔۔ ۴۱)

۲۳۔جہاد سے رخصت چاہنے والے

اے نبیﷺ ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔اے نبیﷺ ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں ۔ (التوبہ۔۔۔ ۴۵) اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں سُست کر دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں ، اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ ’’مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے‘‘ __ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۴۹)

۲۴۔فاسق لوگوں کا راہِ خدا خرچ کرنا

تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ ان سے کہو ’’ہمیں ہرگز کوئی (بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے‘‘۔ان سے کہو، ’’تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں ‘‘۔ (التوبہ ۔۔۔ ۵۲) ان سے کہو ’’تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے۔ کیونکہ تم فاسق لوگ ہو‘‘۔ ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ۔ ان کے مال و دولت اور ان کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق ہی کی حالت میں دیں ۔ (التوبہ۔۔۔ ۵۵)

۲۵۔اللہ اور رسول کی عطا پر راضی رہنا

وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں ، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں ۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں ۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھُس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اس میں جا چھُپیں ۔اے نبیﷺ ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں ، اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں ۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسولﷺ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ ’’اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسولﷺ بھی ہم پر عنایت فرمائے گا، ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں ‘‘۔ (التوبہ۔۔۔ ۵۹)

۲۶۔زکوٰۃ کے حقیقی مصارف

یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۶۰)

۲۷۔ اللہ کے رسولﷺ کو دکھ دینے والے

ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو، ’’وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں ۔ اور جو لوگ اللہ کے رسولﷺ کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں ، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ اُن کو راضی کرنے کی فکر کریں ۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کرتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۶۳) یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو، ’’اور مذاق اُڑاؤ، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو‘‘۔ اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ان سے کہو ’’کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسولﷺ ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دُوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے‘‘۔ (التوبہ۔۔۔ ۶۶)

۲۸۔منافق مرد اور منافق عورتیں

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں ۔ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں ۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھُلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں ۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے __ تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش روؤں کے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے۔ پھر اُنہوں نے دنیا میں اپنے حصے کے مزے لُوٹے تھے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انہوں نے لُوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں اُن کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی خسارے میں ہیں __ کیا ان لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مَدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا۔ ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ (التوبہ۔۔۔ ۷۰)

۲۹۔مومن مرد اور مومن عورتیں

مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ۔۔۔ ۷۲)

۳۰۔کفار اور منافقین کا مقابلہ

اے نبیﷺ ، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے نا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے! اب اگر یہ اپنی روش سے باز آئیں تو انہی کے لیے بہتر ہے، اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔ (التوبہ۔۔۔ ۷۴)

۳۱۔ دولت ملنے پر بخیلی کرنے والے

ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کر دیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اُس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اُس کے حضور اُن کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں ۔ اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟ (وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور اُن لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہِ خدا میں دینے کے لیے) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں ۔ اللہ ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبیﷺ ، تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (التوبہ۔۔۔ ۸۰)

۳۲۔فاسقوں کو مال و اولاد کے ذریعہ سزا

جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں ۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’اس سخت گرمی میں نہ نکلو‘‘۔ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے)۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا ’’اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں ہی کے ساتھ بیٹھے رہو‘‘۔(التوبہ۔۔۔ ۸۳)

اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اِسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں ۔ (التوبہ۔۔۔ ۸۵)

۳۳۔جان و مال سے جہاد کرنے والے

جب کبھی کوئی اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں ۔ ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔ بخلاف اس کے رسولﷺ نے اور ان لوگوں نے جو رسولﷺ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔ (التوبہ۔۔۔ ۸۹)

۳۴۔ ضعیف اور بیمار لوگ جہاد سے مستثنیٰ ہیں

بدوی عربوں میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ (التوبہ۔۔۔ ۹۰) ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے زادِ راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وفادار ہوں ۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ البتہ اعتراض اُن لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواست کرتے ہیں کہ اُنہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)۔ (التوبہ۔۔۔ ۹۳)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں