سیرت النبی کریم ﷺ قسط: 204


سیرت النبی کریم ﷺ قسط: 204

قیصر، شاہِ روم کے نام خط:

صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے ہرقل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے:

" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ﷺ کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف​:

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے، تم اسلام لاؤ سالم رہو گے، اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبارہ دے گا اور اگر تم نے رو گردانی کی تو تم پر اریسیوں( رعایا) کا بھی ( گناہ) ہوگا۔

اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے، پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔''
(صحیح بخاری 4،5/1)

اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لئے دحیہ بن خلیفہ کلبی (رضی اللہ عنہ) کا انتخاب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بُصرٰی کے حوالے کردیں اور وہ اسے قیصر کے پاس پہنچا دے گا، اس کے بعد جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

ان کا ارشاد ہے کہ ابو سفیانؓ بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہرقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا، یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصۂ امن میں ملک شام تجارت کے لئے گئی ہوئی تھی، یہ لوگ ایلیاء(بیت المقدس) میں اس کے پاس حاضر ہوئے، (اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجالانے کے لئے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھوں اہل فارس کو شکست فاش دی۔( دیکھئے صحیح مسلم 99/2)۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کرلی اور وہ صلیب بھی واپس کردی، جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی، قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ پر نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لیے 629ء یعنی7ھ میں ایلیاء(بیت المقدس) گیا تھا۔

ہرقل نے انہیں اپنے دربار میں بلایا، اس وقت اس کے گردا گرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے، پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے، اس سے تمہارا کون سا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے۔؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا: میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرکے اس کی پشت کے پاس بٹھا دو، اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: میں اس شخص سے اُس آدمی ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق سوالات کروں گا، اگر یہ جھوٹ بولے تو تم لوگ اسے جھٹلا دینا، ابو سفیان کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یقیناً جھوٹ بولتا۔

ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے؟
میں نے کہا: وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا: تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا: بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا: یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا: بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: اس نے جو بات کی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اس کو جھوٹ سے مُتہم کرتے تھے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے؟
میں نے کہا: نہیں، البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں، معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوا مجھے اور کہیں کچھ گھسیڑنے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا: کیا تم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے؟
میں نے کہا: جی ہاں۔
ہرقل نے کہا: تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی؟
میں نے کہا: جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر کی چوٹ ہے، وہ ہمیں زک پہنچا لیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچا لیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا: وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا: وہ کہتا ہے صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، تمہارے باپ دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پرہیز، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔

اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: " تم اس شخص ( ابو سفیان ) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص کا نسب پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ اونچے نسب کا ہے اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟ تم نے بتلایا کہ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے ۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تم نے بتلایا کہ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے ۔

اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے، اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔

میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ تو تم نے بتایا کہ کمزوروں نے اس کی پیروی کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبروں کے پیروکار ہوتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں اور حقیقت یہ ہے ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں، وہ بدعہدی نہیں کرتے۔

میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے، بت پرستی سے منع کرتا ہے اور نماز، سچائی اور پرہیز گاری وپاک دامنی کا حکم دیتا ہے تو جو کچھ تم نے بتایا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو یہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہو جائے گا، میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم سے ہوگا، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا"۔

اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگا کر پڑھا، جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اوربڑا شور مچا، ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کر دئیے گئے، جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ ( ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، ابو کبشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا یا نانا میں سے کسی کی کنیت تھی، اور کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے رضاعی باپ ( حلیمہ سعدیہ کے شوہر ) کی کنیت تھی، بہر حال! ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء واجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کر دیتے۔) کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑ گیا، اس سے تو بنواصفر ( رومیوں(( بنو الاصفر ( اصفر کی اولاد ۔ اور اصفر کے معنی زرد، پیلا ) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر ( پیلے ) کے لقب سے مشہور ہو گیا تھا)) کا بادشاہ ڈرتا ہے، اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آکر رہے گا، یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کر دیا۔''

یہ قیصر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا، اس نامہ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پہنچانے والے یعنی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا، لیکن حضرت دحیہ یہ تحائف لےکر واپس ہوئے تو حسمٰی میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگوں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا، حضرت دحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔

تفصیل سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں پانچ سو صحابہ کرام کی ایک جماعت حُسمٰی روانہ فرمائی، حضرت زید نے قبیلہ جذام پر شب خون مار کر ان کی خاصی تعداد کو قتل کردیا اور ان کے چوپایوں اور عورتوں کو ہانک لائے، چوپایوں میں ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں تھیں اور قیدیوں میں ایک سو عورتیں اور بچے تھے۔

چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قبیلہ جذام میں پہلے سے مصالحت کا عہد چلا آرہا تھا، اس لئے اس قبیلہ کے ایک سردار زید بن رفاعہ جذامی (رضی اللہ عنہ) نے جھٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں احتجاج و فریاد کی، زید بن رفاعہ اس قبیلے کے کچھ مزید افراد سمیت پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے اور جب حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ پر ڈاکہ پڑا تھا توان کی مدد بھی کی تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا احتجاج قبول کرتے ہوئے مال غنیمت اور قیدی واپس کر دیئے۔

عام اہل مغازی نے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ سے پہلے بتلایا ہے، مگر یہ فاش غلطی ہے، کیونکہ قیصر کے پاس نامہ مبارک کی روانگی صلح حدیبیہ کے بعد عمل میں آئی تھی، اسی لیے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بلا شبہ حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ (دیکھئے زاد المعاد 122/2 ، حاشیہ تلقیح الفہوم ص 29)

=================>> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم: مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں