سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 210


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 210

غزوہ ٔ خیبر (محرم ۷ھ ):

خیبر ، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب وہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔

غزوے کا سبب:

جب رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش ) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دوبازوؤں -یہود اور قبائل نجد- سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہرجانب سے مکمل امن وسلامتی حاصل ہوجائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پاکر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہوجائیں۔

چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔

رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تواس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل ِ خیبر ہی تھے جو جنگ ِ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھالائے تھے۔

پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدرو خیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو - بنو غطفان اور بدوؤں - سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ اور اپنی ا ن کارروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو بار بارفوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً: ''سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم '' کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت - یعنی قریش- جو ان یہود سے زیادہ بڑی ،طاقتور،جنگجو اورسرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رُخ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن جونہی قریش کے ساتھ اس محاذآرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔

==================>> جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں