مرد بمقابلہ عورت

Image result for man vs woman

مرد بمقابلہ عورت
تحریر: یوسف ثانی (مدیر پیغام قرآن و حدیث)

یہ جنگ اگر ایک مرتبہ شروع ہوجائے تو شیطان کی کرپا سے کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مردوں اور عورتوں کی الگ الگ صفیں بن جاتی ہیں اور ہر صف سے اجتماعی طور پر دوسری صف کی طرف ایسے ایسے الزامات کی گولہ باری شروع ہوجاتی ہے کہ الحفیظ و الاماں۔ اللہ نے مرد اور عورت کو مسقل الگ مخلوق کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ اپنی ایک ہی اشرف ترین مخلوق (انسان) کے دو اصناف (مرد وزن) کے طور پر پیدا کیا ہے۔ پھر مرد اور عورت کو پیدا کرکے تنہا نہیں چھوڑ دیا بلکہ دونوں اصناف کو چار چار خوبصورت رشتوں کی مالا میں پرو کر ایک دوسرے کی حفاظت میں دیدیا۔ باپ اور بیٹی کے رشتے میں ایک مرد کو یہ ذمہ داری ملی کہ وہ ایک لڑکی کی پرورش، تعلیم و تربیت اور شادی کرکے اسے معاشرے کے لیے ایک مفید عورت بنائے تو ماں بیٹے کے رشتہ میں ایک عورت کو مستقبل کے ایک مرد کی پرورش، تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی گئی۔ اسی طرح ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے بہن بھائی اپنے اپنے علیحدہ گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل ہر دم ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ٹھہرتے ہیں۔ بہنیں بھائیوں کے اندرون خانہ کاموں میں مددگار بنی رہتی ہیں تو بھائی بہنوں کو بیرون خانہ کے گرم و سرد تھپیڑوں سے بچاتا ہے اور جب شادی کے بعد مرد اور عورت کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے تو یکبارگی تو دونوں ہی سرشاری کے جذبے سے جھوم جھوم جاتے ہیں۔ مرد صرف ایک مرد نہیں بلکہ باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہےاور بیٹا بھی ہے تو دوسری طرف عورت صرف ایک عورت نہیں ہے بلکہ ایک ماں ہے، بہن ہے، بیوی ہے اور بیٹی بھی ہے۔


جب ہم ان خوبصورت رشتوں کو پامال کرکے صرف مرد اور عورت بن جاتے ہیں تو ہم دیگر جانوروں کی طرح محض نر و مادہ جانور بن جاتے ہیں۔ عورت اور مرد جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے مقابلے کے لیے کھڑے ہوں گے تو جو طاقتور فریق ہوگا وہ اپنی مرضی تو چلائے گا اور حکم عدولی کی خود سزا بھی دے گا کہ حکمرانی تو طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر مرد صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا بن کر عورت سے ڈیل کرے اور عورت صرف ماں، بہن، بیوی اور بیٹی بن کر ان چاروں طرح کے مردوں سے ڈیل کرے تو شیطان کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ عورت کو اگر ان چار رشتوں میں سے کسی ایک یا دو رشتوں سے رنج ملے بھی تو وہ بقیہ رشتوں سے ملنے والی راحتوں کے سایہ تلے اسے خوشی خوشی جھیل سکتی ہے۔ دنیا نام ہی دکھ سکھ کے مجموعے کا ہے۔ عورت کو زیادہ تر شکوہ شکایت شوہر سے ہوتا ہے لیکن وہ شوہر سے ملنے والے مبینہ دکھ کو اپنے اوپر اتنا حاوی کرلیتی ہے کہ باپ کی شفقت، بھائیوں کی دریا دلی اور بے غرض محبت، اور سب سے زیادہ بیٹوں کی غیر مشروط اطاعت اور خدمت تک کو نظر انداز کردیتی ہے۔ یہی اس کا ناشکرا پن ہے، جس کی طرف شریعت اسلامی نے بھی بار بار نشاندہی کی ہے۔

اب مرد ذات کو ہی دیکھ لیجیے۔ وہ ماں نامی عورت کے زیر سایہ پل کر جوان ہوتا ہے۔ ماں کی ڈانٹ اور مار کھا کر بھی وہ کبھی بد مزہ نہیں ہوتا اور جب وہ جسمانی اور مالی طور پر ماں سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے تب بھی وہ ماں سے اس کے "ظلم" کا بدلہ نہیں لیتا۔ اپنے ساتھ ساتھ پرورش پانے والی بہن یا بہنوں کی خاطر سو دکھ جھیلتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے، خود پر ان کو ترجیح دیتا ہے۔ بیٹیاں تو بہنوں سے بھی زیادہ باپ کا "خون چوستی" ہیں مگر باپ کبھی اُف تک نہیں کرتا۔ بیس، پچیس سال تک پال پوس کر ایک اجنبی کے حوالے اس طرح کرتا ہے کہ پھر کبھی اس اجنبی کو گرم نظروں سے بھی نہیں دیکھتا۔

ایک مرد، ماں بہنوں بیٹیوں پر مشتمل عورتوں کی ٹیم کے سامنے ساری عمر سر جھکائے رہتا ہے۔ تو کیا اس کا یہ "حق" نہیں بنتا کہ ایک یا ایک سے زائد عورتوں کو اپنے گھر بیوی بنا کر لائے تو اس پر مبینہ "حکمرانی" کرے؟ ایک ہی مرد جب تین طرح کی عورتوں (ماں، بہنوں، بیٹیوں) کے لیے ساری عمر قربانی دے سکتا ہے تو کیا ایک عورت اپنے باپ، بھائیوں اور بیٹوں سے حاصل شدہ غیر مشروط خدمات کے عوض صرف اور صرف ایک مرد یعنی اپنے شوہر کے لیے قربانی نہیں دے سکتی؟ تین طرح کے مردوں سے فائدہ اٹھانے بلکہ اٹھاتے رہنے کے بعد بھی کیا عورت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک شوہر نما مرد کے لیے خود کو وقف کردے۔ مرد تو بیک وقت کئی بہنوں اور کئی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ اپنی ماں اور بیوی کے لیے بھی خود کو وقف کیے رہتا ہے۔

شوہر اور بیوی کا باہمی رشتہ نہ صرف یہ کہ انسان کا اولین رشتہ ہے بلکہ یہ دیگر انسانی رشتوں کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اسی لیے خالق کائنات نے اس اولین اور اہم ترین رشتے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے۔
 ستر کو ڈھانکنے، جسم کی حفاظت اورزینت کے لیے لباس کو نازل کیا گیا(اعراف۔26)۔ 
شوہر اور بیوی ایک دوسرے لیے لباس کی مانند ہیں (البقرة:187)۔
 تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو (روم:21)۔ 
جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں (النساء:34)۔
 ایسی بیویاں جو سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار ہو، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ(التحریم: 5)۔
 تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ (البقرة:223) 
اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیٰحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو (النساء:34)
 اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو (النساء:35)۔
 اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں (النساء:128)۔
 اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا۔ النساء:130

اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے حسب ذیل عمومی ہدایات بھی دی ہیں۔


دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اُن سے اجازت نہ لے لو اوراُن پر سلام نہ بھیج لو (النور:27)۔
 جب تک اجازت نہ دیدی جائے، داخل نہ ہو۔واپس جانے کو کہا جائے تو واپس ہوجاؤ (النور:28)۔ 
مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (النور:30)۔
 مومن عورتیں اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اپنا بنا ؤ سنگھار نہ دکھائیں (النور:31)۔
 وہ اپنا بنا ؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں،ا پنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہو، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں (النور:31)۔
 وہ اپنے پا ؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلاکریں کہ اُن کی چھپی ہوئی زینت کا لوگوں کو علم ہوجائے (النور:31)۔ 
لونڈی غلام اور چھوٹے بے عقل بچے تمہارے پاس پردے کے ان تین اوقات میں اجازت لے کر آیا کریں۔ صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کو اور عشاءکی نماز کے بعد(النور:58)۔ 
جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو بڑوں کی طرح اجازت لے کر آیا کریں (النور:59)۔ 
جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں (النور:60)۔
 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلاکوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو(احزاب:32)۔
 اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو(احزاب:33)۔ 
مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں (احزاب:59)۔


اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نے بھی میدان زندگی میں عمدہ تعلقات کار کے لیے مردوں اور عورتوں کو خصوصی ہدایات دی ہیں۔ 
عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے(مستدرک حاکم)۔
 اگر میں کسی مخلوق کے لےے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے (ترمذی)۔
 جس عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی (ترمذی)۔
 لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا گھر میں آناتمہیں ناپسند ہو وہ اس کو گھر آنے کا موقع نہ دیں۔ اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تم سزادے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو۔ تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے کی ضروریات کا بدوبست کرنا ہے (مسلم)۔
 عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ عورتوں کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ شوہر کی موجود گی میں اُس کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں(بخاری)۔
 بخیل شوہر کے مال سے بقدر ضرورت پوشیدہ طور پر کچھ لے لینا جائز ہے (بخاری)۔ 
عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری ہی دیکھی ہے کیونکہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کے حسن معاملت کا انکار کرتی ہو۔ تمہارے شوہر اور تمہارے بچے سب سے زیادہ اس امر کے مستحق ہیں کہ تم انہیں صدقہ دو (بخاری)۔
 جہنم میں عورتوں کی کثرت کا سبب شوہر کا کفر کرنا اوراُن کا احسان نہ ماننا ہے(ایمان، بخاری)۔
 اے عورتو! صدقہ دو اس لیے کہ میں (نبی ﷺ) نے تمہیں معراج میں زیادہ دوزخی دیکھا ہے۔ وہ اس لیے کہ تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو(بخاری)۔ عرصہ دراز تک دور رہنے کے بعد رات کو گھر واپس نہ آیا کرو۔ کوئی مومن اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح کوڑے سے نہ مارے(بخاری)۔
 جو اپنی بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا ایک دھڑگرا ہوا ہوگا(ترمذی، نسائی)۔
 ﷲ کے ہاں وہ بدترین درجہ میں ہوگا جو بیوی سے ہم بستری کے بعد اس کا راز فاش کرے (مسلم)۔ 
جب خاوند اپنی بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے اورخاوند اس پر غصہ ہوکر سوجائے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں (بخاری)۔
 حضرت عائشہؓ نبی ﷺ کو خوشبو لگاتی تھی پھر آپ ﷺ اپنی بیویوں کے پاس جاتے اور ہم بستری فرماتے۔ جب تم میں سے کوئی جنبی ہوتو وہ وضو کرکے سوئے (بخاری)۔


مرد اور عورت نکاح کے ذریعہ شوہر اور بیوی کے مقدس رشتے میں بندھتے ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر کبھی کسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ نہ رہ سکیں تو شریعت کے بتائے ہوئے طلاق کے شرعی طریقے کے مطابق ایک دوسرے سے جدا بھی ہوسکتے ہیں۔ نکاح و طلاق سے متعلق مومن مردوں اور مومن عورتوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں۔


جو نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے۔ نکاح نظر کونیچی رکھنے اور شر مگاہ کو محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔ جو نکاح کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ سے شہوت ختم ہوجاتی ہے (بخاری)۔ 
قریش کی عورتیں بہتر ہیں،اولاد پر بہت مہربان اور شوہر کے مال کا بہت خیال رکھنے والیاں (بخاری)۔
 نبی ﷺ کا ایک صحابی ؓسے سوال: کسی کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی؟ کسی عورت کا رشتہ طے ہوجانے کے بعد اُسی عورت کو اپنا رشتہ نہ بھجواؤ (بخاری)
 نکاح کے وقت عورتوں کے مال، نسب یا خوبصورتی کی بجائے اس کی دینداری کو فوقیت دینی چاہیے۔ مَردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ ضرر رساں نہیں ہے۔ بیوہ عورت کا نکاح ا س کی اجازت کے بغیر کنواری کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے۔ کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغامِ نکاح پر اپنا پیغام نہ بھیجے۔ کسی عورت کو اپنے خاوند سے یہ درخواست کرنا درست نہیں کہ وہ اس کی سوکن کو طلاق دےدے۔ جب کوئی بیوہ عورت پر کنواری سے نکاح کرے تو اُس کے پاس سات دن رہے پھر باری باری رہے۔ جب کسی کنواری پر بیوہ عورت سے نکاح کرے تو اُس کے پاس تین دن رہے پھر باری باری سے رہے (بخاری)۔
 تین کام ایسے ہیں جن میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ نماز جب اس کا وقت آجائے۔ جنازہ جب تیار ہوکر آجائے اور بے شوہر والی کا نکاح جب اس کے لیے مناسب جوڑ مل جائے (ترمذی)۔
 جب کوئی کسی عورت کو اپنے نکاح میں لائے تو یہ دعا کرے: اے اﷲ! اس میں اور اس کی فطرت میں جو خیر اور بھلائی ہو، میں تجھ سے اس کی استدعا کرتا ہوں اور اس میں اور اس کی فطرت میں جو شر اور برائی ہو اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔
 کسی عورت کو نکاح کا پیغام دینا ہو تو اسے ایک نظر دیکھ لینا گناہ نہیں۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)۔
 شوہر دیدہ (بیوہ یا مطلقہ)عورت کو اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق اور اختیار ہے(مسلم)۔ 
کنواری کے نکاح سے قبل اس سے اجازت حاصل کی جائے، خاموشی بھی اجازت ہے(صحیح مسلم)۔
 وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)


حلال اور جائز چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیزطلاق ہے (ابو داؤد)۔ 
سخت تکلیف کے بغیر شوہر سے طلاق کامطالبہ کرنے والی پر جنت کی خوشبو حرام ہے (مسند احمد، ترمذی)۔
 عورتوں کو طلاق نہ دو ا لّایہ کہ چال چلن مشتبہ ہو۔ ذائقہ چکھنے کے شوقین مردو زن نا پسندیدہ ہیں (طبرانی)۔
 کوئی عورت اپنی سوتن مسلمان بہن کو طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو بھی خود حاصل کرلے(بخاری)۔
نکاح،طلاق اور رجعت (ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کرنا) تین ایسی چیزیں ہیں جن کا ہنسی مذاق کے طور پر کہنا بھی حقیقت ہی کے حکم میں ہے (جامع ترمذی، سنن ابو داؤد)۔
 زبردستی کی طلاق کا اعتبار نہیں (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔ 
طلاق دورانِ حیض نہیں بلکہ ایامِ طہر میں مباشرت کیے بغیر دینا چاہیے۔ (بخاری)


کاش مرد اور عورت شیطان اور شیطان صفت انسانوں کے بہکاوے میں آکر صرف مرد عورت بن کر اپنی قدر و قیمت نہ گھٹائیں۔ مرد باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا بن کر رہے تو عورت بیٹی بہن بیوی اور ماں کے عظیم رشتوں میں خود کو محصور و مستور کر لے تو مرد و زن دونوں کی دنیا بھی سنور جائےاور آخرت بھی۔ اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔

 کاش کہ ہر مرد و زن کے دل میں اتر جائے مری بات!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں