ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تحریر: یوسف ثانی (مدیر پیغام قرآن و حدیث)


مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی زبانی کیا خوب بیان کی ہے کہ 

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر



انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر من حیث القوم عمل پیرا رہے، وہ نہ صرف سیاسی طور پر دنیا میں عروج پر رہے بلکہ عصری علوم و فنون میں بھی دنیا کے امام بنے رہے۔ دنیا کی دیگر اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگاہوں کا اسی طرح رُخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ مغرب اور یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ’تاریک دور‘ سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہواجب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس کے برعکس تاریخ ہمیں یہ دلچسپ صور تحال بھی بتلاتی ہے کہ مغربی اقوام اُس وقت تک تاریکی میں ڈوبی رہیں جب تک ان کا اپنے مذہب سے تعلق استوار رہا۔ بعد ازاں مغرب نے اسٹیٹ کے معاملات کوچرچ سے علیحدہ کیا اور اپنے مذہبی معاملات کو چرچ تک محدود کیا تو اُن پر دُنیوی ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔


ماہرینِ دینیات اس بات کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں۔


ماشا اللہ آپ ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں، آپ نے قرآن مجید تو پڑھا ہی ہوگا؟


ارے آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، میں نے تو آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک ختم کر لیا تھا۔ بلکہ اسکول جانے سے قبل کئی پارے حفظ بھی کر لیے تھے۔


ماشا اللہ بہت خوب، تو کیا اَب آپ قرآن پاک نہیں پڑھتے؟


اَب ایسا بھی نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں تو کم از کم ایک قرآن پاک تو ختم کر ہی لیتا ہوں۔ عام دنوں میں ذرا وقت نہیں ملتا البتہ جب کبھی کسی قرآن خوانی وغیرہ میں شرکت کر تا ہوں تو وہاں بھی ایک آدھ سپارہ تو ضرورپڑھ لیتا ہوں۔


ویسے یہ تو بتائیں کہ کیا کبھی آپ نے قرآن کو سمجھ کر بھی پڑھا ہے۔ عربی زبان تو شاید آپ کو نہیں آتی۔


بھئی عربی تو اسکولوں میں پڑھی تھی، اب تو سب کچھ بھول بھال گیا۔ البتہ قرآن کا ترجمہ تو اکثر پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ اخبارات و جرائد میں بھی قرآن کے ترجمے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اور میرے پاس تو کئی تفاسیر بھی موجود ہیں۔ اردو انگریزی دونوں زبانوں میں کئی ترجمے موجود ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً پڑھتا بھی رہتا ہوں۔ خاص طور سے جب کسی اسلامی موضوع پر کوئی تحریر لکھنی ہو یا تقریر کرنی ہو تو ان تفاسیر سے ضرور استفادہ کرتا ہوں۔


ماشاء اللہ آپ تو خاصے دیندار ہیں اور قرآن سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔


جی بس کیا عرض کروں، مسلمان ہونے کے ناطے قرآن سے تعلق تو رہتا ہی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے، اسے اُمّ الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔ تمام علوم کے سوتے قرآن ہی سے پھوٹتے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم سائنسدانوں اور اسکالرز نے بھی قرآن سے استفادہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ماہر حیاتیات کیتھ مور، البرٹ آئن اسٹائن، برنارڈشا، ٹالسٹائی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ واہ بھئی واہ، آپ کی تو قرآن کے بارے میں خاصی معلومات ہیں۔ بس جی اللہ کا شکر ہے، تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہوا ہے۔


ویسے آپ نے تو ماسٹرز کیا ہوا ہے نا؟


جی ہاں آپ کو تو پتہ ہی ہے، پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟


بس ویسے ہی، ذرا یہ تو بتلائیے کہ ماسٹرز تک کی تعلیم کے دوران آپ نے اندازاً کتنی تعداد میں کتابیں پڑھی ہوں گی؟


بھئی خیریت تو ہے نا؟ آج آپ کا سارا زور کتابوں ہی پر ہے۔ ظاہر ہے اس دوران سینکڑوں درسی اور حوالہ جاتی کتب تو پڑھی ہی ہوں گی۔ اور سچ پوچھیں تو مَیں نے اپنی زندگی میں درسی کتب سے زیادہ غیر درسی کتب ہی پڑھی ہوں گی۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے، مجھے کتابیں پڑھنے کا کتنا شوق ہے۔


اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔ ویسے یہ تو بتائیے کہ آپ کتابیں بالعموم پوری پڑھتے ہیں یا اِدھر اُدھر کے چند صفحات پڑھ کر چھوڑدیتے ہیں۔


بھئی آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کتابیں نہ ہوئیں، اخبارات و رسائل ہو گئے۔ بھئی کتابیں تو شروع سے لے کر آخر تک پڑھی جاتی ہیں۔ اور مَیں تو جب کوئی کتاب شروع کرلوں، اُس وقت تک چین نہیں آتا، جب تک اُسے ختم نہ کرلوں۔


بہت خوب! گویا اب تک آپ نے سینکڑوں کتابیں پڑھ چکے ہیں اور بیشتر کتابیں پوری یعنی شروع سے لے کر آخر تک پڑھی ہیں۔ اور آئندہ بھی یہی طرزِ عمل جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔


جی ہاں آپ درست کہہ رہے ہیں، کتابوں سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔ اور میرا تو کتابوں سے گہرا یارانہ ہے۔


اَب میں آپ سے ایک سوال کروں گا، آپ ناراض مت ہوئیے گا۔ کیا آپ نے آج تک پورا قرآن مجید پڑھا ہے؟


بھئی مَیں نے بتایا تو ہے کہ بچپن سے اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ قرآن پاک ختم کر چکا ہوں۔


نہیں میرا سوال یہ نہیں تھا۔ آپ کو چونکہ عربی زبان نہیں آتی لہٰذا عربی میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہوگا کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں اُس کا مطلب کیا ہے۔


یہ بات تو مَیں آپ کو پہلے ہی بتلا چکا ہوں۔


بھئی میرے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اب تک کی زندگی میں جہاں سینکڑوں اردو انگریزی کی کتابیں سمجھ کر پڑھ رکھی ہیںاور دیگر زبانوں کی مشہور و معروف کتابوں کے انگریزی یا اردو تراجم بھی پڑھے ہوئے ہیں۔ تو کیا آپ نے اسی طرح اب تک ایک مرتبہ بھی پورا قرآن مجید ترجمہ کے ذریعہ سمجھ کر پڑھا ہے؟


مَیں نے آپ کو بتلایا تو ہے کہ بارہا میں ترجمہ و تفاسیر سے بھی قرآن کا مطالعہ کرتا رہا ہوں اور اب بھی، جب کبھی وقت ملتا ہے تو قرآن کو سمجھ کر بھی پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔


بھئی یہ بات تو آپ پہلے بھی بتلا چکے ہیں اور میں آپ کے اس عمل کی تعریف بھی کر چکا ہوں۔ قرآن کے بارے میں ماشاء اللہ آپ کی معلومات بھی بہت ہیں۔


پھر آپ یہی سوال بار بار کیوں کر رہے ہیں؟


بھئی اب میں نے وہی سوال نہیں بلکہ ایک مختلف سوال کیا ہے، ذرا سوچ سمجھ کر صرف ہاں یا ناں میں جواب دیجیے کہ کیا آپ نے پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی ترتیب سے پورا قرآن مجید، تھوڑا تھورا کر کے ہی سہی سمجھ کر مکمل ختم کیا ہے۔


آں، ہاں، پورا تو شاید نہیں، لیکن۔۔۔


آپ اس لیکن کا سہارا نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ جب تک آپ کوئی کتاب پوری نہ پڑھ لیں، آپ کو چین نہیں آتا۔ آپ اب تک سینکڑوں کتابیں مکمل طور پر پڑھ چکے ہیں، جن میں کئی ایسی کتب بھی شامل ہیں، جن کی اصل زبان آپ کو نہیں آتی۔ لہٰذا آپ نے ان کتابوں کے اردو یا انگریزی تراجم پڑھے ہیں۔ خود قرآن کو بھی عربی زبان میں کئی مرتبہ ختم کر چکے ہیں۔


جی ہاں بالکل یہی بات ہے۔


مگر اس کے باوجود آپ نے ابھی تک ایک مرتبہ بھی قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پورا مکمل نہیں پڑھا۔


ہاں آپ کہہ سکتے ہیں۔


کیا آپ اس کھلی تضاد کی وجہ بتلا سکتے ہیں جب کہ آپ کا یہ ماننا بھی ہے کہ قرآن امّ الکتاب ہے اور سارے علوم کے سوتے اسی کتاب سے پھوٹتے ہیں۔ اسی وجہ سے غیر مسلم اسکالرز بھی قرآن سے استفادہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کی زبان بھی عربی نہیں ہے۔


ہاں یہ تو ہے۔ تو کیا آپ قرآن کو کم اہمیت دیتے ہیں؟


نہیں نہیں، خدا نخواستہ ایسی بات تو نہیں۔


پھر آخر اس کی وجہ کیا ہے؟


بس جی موقع نہیں ملا، دنیا داری کے جھمیلے میں وقت بھی نہیں ملتا۔


مگر آپ تو اسی جھمیلے میں سینکروں کتابیں پڑھ چکے ہیں۔


بس آپ اسے میری کوتاہی سمجھ لیں۔ آج تو آپ مجھے شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔


نہیں میرے بھائی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مَیں اصل میں آپ کی توجہ اُس 'بنیادی وجہ' کی طرف دلانا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے آپ آج تک ہزاروں کتابوں کو پڑھنے کے باوجود ایک اہم ترین کتاب قرآن مجید کا مکمل مطالعہ نہیں کر سکے۔


بنیادی وجہ؟


جی ہاں! بنیادی وجہ یعنی وہ روٹ کاز جس کی وجہ سے کوئی کام خراب ہوتا ہے، یا درست طریقہ سے نہیں ہو پاتا۔


آپ کا مطلب ہے کہ میری نا اہلی کے علاوہ بھی اس کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔


جی ہاں! ایک بنیادی وجہ ایسی بھی ہے جس کی وجہ سے کتابوں کا شوق نہ رکھنے والے نیم تعلیم یافتہ افراد تو ایک طرف، آپ جیسے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، کتابوں کے شوقین احباب بھی قرآن کو ترجمے کے ساتھ مکمل طور پر پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔


جی! تو ارشاد فرمائیے، وہ بنیادی وجہ کیا ہے؟


جی مَیں وہی عرض کرنے چلا ہوں۔ اصل میں ہم لوگ جب قرآن مجید کا اردو یا انگریزی ترجمہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ترجمہ کے مطالعہ کے دوران ہمیں ایک نامانوس سی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب و رسائل کو آسانی کے ساتھ پڑھنے کی اہلیت رکھنے والے قارئین بھی جب قرآن کا مطالعہ ترجمہ کے ساتھ شروع کرتے ہیں تو چندصفحات کے مطالعہ کے بعد ہی ان کی توجہ بھٹکنے لگتی ہے۔ دراصل ہم یا تو ایک ہی موضوع پر لکھی گئی کتاب کو روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یا پھر ایسے کتب و جرائد کو جس کے متنوع موضوعات کی درجہ بندی واضح طور پر دکھائی دے۔ کتاب کے آغاز میں روایتی طور پر فہرستِ مضامین موجود ہو۔ ہر باب کے طویل متن کو مختصر نثر پاروں میں تقسیم کیا گیا ہو اور قارئین کی دلچسپی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ذیلی عنوانات یا سرخیاں بھی دی گئی ہوں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث گریجویشن کی سطح تک سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کر لینے کے باوجود شاید ہی کوئی طالب علم ایسا نظر آتا ہو جس نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی مکمل قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ رکھا ہو۔ حالانکہ ہم سب بچپن ہی سے عربی زبان میں قرآن کا ناظرہ پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ عجمی ہونے کے باوجود عربی زبان زبان میں ناظرہ میں ہمیں کوئی دقت اس لیے نہیں ہوتی کہ عربی میں قرآن کی روانی اور اس کا حسنِ بیان توبے مثال ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود عالمِ عرب و عجم میں اس کی قرات کی روانی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جبکہ تراجم قرآن میں ایسی روانی ممکن ہی نہیں کہ یہ انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔


تقریری اندازِبیان میں نازل ہونے والی قرآن مجید آج ہمارے سامنے سورتوں اور آیات کی درجہ بندی کے ساتھ تحریرِ مسلسل کی شکل میں موجود ہے۔ قرآن مجید کا کوئی بھی ترجمہ اپنی بصری ہیئت میں ان کتب جیسا نہیں ہے، جنہیں ہم روز و شب روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں۔ عام قارئین کی اسی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پیغامِ قرآن نامی کتاب کو مرتب کیا گیا ہے۔ پیغامِ قرآن کے اصل متن اور ایک عام بامحاورہ ترجمہ قرآن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ پیغامِ قرآن میں آیات کے تراجم کی ترتیب کو تبدیل کیے بغیر ہر پارے کی جملہ آیات کو مختلف پیراگراف میں تقسیم کرکے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور ہر پارہ کے آغاز میں ایسے تمام ذیلی عنوانات کی فہرست بھی دی گئی ہے، تاکہ قارئین پیغامِ قرآن کو اسی سہولت کے ساتھ پڑھ سکیں جس کے وہ عام مطالعہ کے دوران عادی ہیں۔ ہر پیراگراف کے ساتھ سورت کا نام اور آیت کا نمبر شمار بطور حوالہ درج ہے، تاکہ پیغامِ قرآن کے مطالعہ کے دوران اگر کہیں مزید وضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو قرآن پاک کے اصل عربی متن اور دیگر تراجم و تفاسیر سے آسانی کے ساتھ رجوع کیا جاسکے۔ متن میں جہاں کہیں بھی اوامر و نواہی کا بلاواسطہ یابالواسطہ حکم موجود ہے اُن سطور کو جلی اور خط کشیدہ الفاظ میں تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں جملہ اوامر و نواہی کا اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے۔پیغامِ قرآن دراصل جدید تعلیم یافتہ اور کم پڑھے لکھے افراد کو براہِ راست قرآن کے مطالعہ کی طرف راغب کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عربی زبان سے نابلد اردو داں طبقہ تک قرآن کے پیغام کو براہِ راست پہنچا سکیں تاکہ وہ اسلام کے اصل پیغام سے باخبر ہو سکیں۔ پیغام قرآن کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے علاوہ ویب پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ جہاں اسے نہ صرف آن لائن ریڈ کیا جاسکتا ہے بلکہ ڈاؤن لوڈ بھی یا جاسکتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں