بیٹی کی شادی

Related image
بیٹی کی شادی -
تحریر: یوسف ثانی (مدیر پیغام قرآن و حدیث) 

بیٹیوں کی پرورش پر جو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بیٹیوں کی پرورش اور شادی اسلامی طریقے سے کرنا کتنا مشکل اورکٹھن کام ہے۔ یہ کام اور بھی مشکل جاتا ہے، اگر ہمارا معاشرہ اسلامی کلچر کی بجائے غیر اسلامی کلچر کو فروغ دینے والا ہو۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ من حیث القوم ہم سب ترجیحی بنیادوں پراپنی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا مجموعی رویہ اس کے برعکس ہوجائے اور ہم سب ترجیحی بنیادوں پر اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی شادیاں کرنے لگ جائیں تو یقین کیجیے کہ ہماری بہن بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ از خود حل ہوجائے گا۔ لیکن جب تک بچوں کی شادیوں کے مسئلہ پر ہماری ترجیحات کی سمت درست نہیں ہوجاتی، اپنی بہن بیٹیوں کی شادیاں تو کرنی ہی ہیں۔ تین سالہ پری اسکولنگ، دس سالہ اسکولنگ، دو سالہ کالج، پانچ سالہ میڈیکل یونیورسٹی یعنی بیس سال کی رسمی تعلیم، ایک سال کی ہاؤس جاب اور اس کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی سے ایک سالہ قرآن کورس کی تکمیل کے بعد ہم نے الحمد اللہ اپنی دختر نیک اختر ڈاکٹر عائشہ کی شادی کردی ہے۔ بیٹی کی پیدائش، پرورش اور شادی کی کاوشوں پر مبنی پاؤ صدی کی روداد بیٹیوں کے والدین کے لیے پیش ہے۔


رشتہ کی تلاش کے لیے دستیاب تمام ذرائع کواستعمال کیا جانا چاہیے۔ مثلاً خاندان اور دوست احباب سے ذکر کیجیے۔ میریج بیوروز (آن لائن اور آف لائن دونوں) سے رابطہ کیجیے۔ واٹس اپ کے میرج گروپ سے استفادہ کیجیے۔ آپ اردو انگریزی اخبارات میں ضرورت رشتہ میں اشتہار بھی دے سکتے ہیں۔ بیک وقت یا باری باری ان سب ذرائع کو استعمال کرکے آپ اپنے بچے یا بچی کے لیے مطلوبہ رشتہ مطلوبہ ٹائم فریم میں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں رشتہ کی تلاش، بالخصوص وقت آنے پر بیٹیوں کے لیے رشتہ کی تلاش ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے اکثر والدین رشتہ ملنے سے پہلے اور رشتہ ملنے کے بعد کسی اور طرف بالکل دھیان نہیں دیتے۔ مزید برآں رشتہ ملنا اس لیے بھی مشکل تر ہوجاتا ہے کہ ہم ایک خودساختہ تنگ سا دائرہ بنا کر اسی دائرہ کے اندر رشتہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ تنگ دائرہ کبھی برادری سسٹم کا ہوتا ہے تو کبھی مخصوص مذہبی مسلک کا تو کبھی خوشحال اور دولت والے گھرانے کا۔ چنانچہ وقت آنے پر اپنے منتخب کردہ تنگ دائرہ میں بیٹیوں کیا بیٹے کے لیے بھی رشتہ تلاش کرنا محال ہوجاتا ہے اور وقت کا پہیہ گزرتا چلاجاتا ہے۔ ہمیں ان دونوں محدودات سے باہر نکل کر رشتہ تلاش کرنے کا کام کرنا چاہئے۔ کسی بھی کام یامشن کا آغاز وقت آنے پر نہیں بلکہ وقت آنے سے پہلے سے شروع کردینا چاہئے۔ ہم نے بچوں کی پیشہ ورانہ تعلیمی سلسلہ کی پلاننگ اور کوششوں کا آغاز اسی وقت کردیا تھا جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے۔ اللہ کی رحمت کے بعد اس پیشگی پلاننگ اور محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے تینوں بڑے بچے الحمدللہ این ای ڈی، ڈاؤ اور آئی بی اے سے ڈگری لینے میں کامیاب ہوئے۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے میٹرک کے بعد دینی تعلیم کو پسند کرتے ہوئے ایک بڑے دینی جامعہ کا رخ کیا ہے۔ جبکہ روزگار کے لیے وہ ساتھ ہی ساتھ آئی ٹی انجینئرنگ کر رہا ہے۔

یہی پروگرام بچوں کی شادی کا بھی تھا کہ وقت آنے پر نہیں بلکہ گریجویشن کی تکمیل سے قبل ہی رشتہ تلاش کرنا شروع کردیں گے اور فائنل امتحان ہوتے ہی کیا بیٹے، کیا بیٹی سب کی شادی کردیں گے۔ بچے بعد از شادی اپنا کیریئر بناتے رہیں گے۔ مگر افسوس! مصمّم دلی ارادے کے باوجود معاشرتی چلن کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔ شادی کے لیے رضامندی کی لازمی تکون یعنی امیدوار، والد اور والدہ میں سے میرے پاس ایک تہائی ووٹ ہی تھا، جو کسی بھی پروگرام کی کامیابی کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔ گو میں نے بچوں کے آخری تعلیمی سال کے دوران ہی ان کی شادی کی باتیں کرنا شروع کردی تھیں، مگر بقیہ دونوں فریقوں میں سے کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ چنانچہ بڑے انجینئر بیٹے کی شادی گریجویش اور جاب کے دو سال بعد ہی ہوسکی۔

ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہم نے ڈاکٹر عائشہ صاحبہ کو بھی گریجویشن کے فوری بعد شادی کرنے کا نوٹس دیا تو بقیہ دونوں فریقین نے ہاؤس جاب کی تکمیل کی مہلت طلب کی۔ ہم نے رضامندی ظاہر کی تو دختر نیک اختر نے ایف سی پی ایس کرنے کا عندیہ دیا جسے ہم نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی اسپیشلائزیشن وغیرہ کرنا ہے، شادی کے بعد ہی کرنا۔ البتہ اگر شادی سے قبل شارٹ قرآنی کورس کرلو تو مجھے خوشی ہوگی۔ چنانچہ محترمہ نے ہاؤس جاب کے بعد جیسے ہی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے قائم کردہ قرآن اکیڈمی میں داخلہ لیا، ہم ان کے رشتہ کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔

ہم نے رشتہ کی تلاش کا روایتی محدود دائرہ تو برقرار رکھا لیکن اسے الٹا کردیا۔ مطلب یہ کہ مختلف کرائی ٹیریاز پر مبنی ایک چھوٹا سا دائرہ بنا کر اس دائرہ کے اندر والے رشتوں کو ڈاکٹر صاحبہ کے لیے نامناسب اور غیر ہم آہنگ قرار دے کر اس محدود دائرہ سے باہرموجود وسیع مواقع کو رشتہ کی تلاش کے لیے اوپن کردیا۔ اس محدود ممنوعہ دائرہ میں حجاب و نقاب کو پسند نہ کرنے والے گھرانے، ہمارے مذہبی خیالات سے متضاد مسالک والے گھرانے، مغربی ممالک میں شہریت رکھنے والے یا اس کی خواہش رکھنے والے گھرانے یا کیریئر کے نام پر وہاں جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو شامل کرکے متفقہ طور پر یہ طے کرلیا کہ اس خودساختہ ممنوعہ دائرے کے اندر سے کوئی بھی رشتہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ رشتوں کی رسمی تلاش سے قبل ہی ہم نے بچوں سے بھی کہہ دیا تھا کہ اگر ان کی نظر میں اپنے لیے کوئی معقول رشتہ ہو تو ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ تلاش رشتہ کا آغاز ہم وہیں سے کریں گے۔ سال بھر کی جہد مسلسل کے دوران بہت سی اچھی فیملیز سے ملاقاتیں ہوئیں۔

ہماری ہر پہلی ملاقات چھہ رکنی ہوا کرتی۔ دونوں امیدوار اور دونوں امیدوار کے دونوں والدین۔ رسمی ملاقات سے قبل بذریہ ای میل اور فون تفصیلی تعارف کا باہمی تبادلہ بھی ہوتا۔ پہلی ہی ملاقات میں ہم سامنے والوں سے ان کی تمام توقعات پوچھتے، اوراپنی جملہ توقعات بتلاتے۔ شادی کی تقریب کو زیادہ سے زیادہ اسلامی انداز میں، اور فضول رسموں، ویڈیوگرافی، مخلوط تقریبات پر اپنے تحفظات رکھتے۔ بہت سے لوگ تو یہ سب کچھ سن کر ہی اللہ حافظ کہہ کر چل دیتے۔ لیکن ہمارے نزدیک رشتہ طے کرنے سے قبل شادی کے طریقہ کار کی تفصیلات ایک دوسرے کو بتلانا ضروری تھا۔ اکثر اوقات ہم لوگ ایسا نہیں کرتے اور رشتہ طے ہونے، منگنی دھوم دھام سے ہونے کے بعد کسی چھوٹی سی بات پر بھی رشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔

بالآخر موجودہ گھرانے کو ہماری ساری باتیں پسند آئیں کہ کوئی منگنی، مایوں یا دیگر فضول رسم نہیں ہوگا۔ صرف نکاح اور رخصتی ہوگی۔ شادی کی ہر دو تقریب غیر مخلوط ہوگی۔ کوئی پروفیشنل فوٹو گرافر یا ویڈیوگرافر نہیں ہوگا البتہ گھریلو بچے ازخود ڈیجیٹل تصاویر یا ویڈیو بنا سکیں گے۔ دلہا کے کپڑے وغیرہ دلہا والے ہی بنائیں گے اور دلہن کے کپڑے، دلہن والے۔ اس کے برعکس مروجہ طریقہ غیر فطری اور بعد ازاں شکوہ شکایات کا سبب بنتا ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ ہم جہیز وغیرہ کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لیے بیٹے کی شادی پر جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لیا۔ لڑکے والوں نے کہا کہ ہم بھی جہیز کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں بھی کچھ نہیں چاہئے۔ پھر ہم نے کہا کہ لیکن ہم اپنی بیٹی اور داماد کو تحائف بطور ہدیہ دیں گے اور جو کچھ بھی دیں گے پیشگی بتلاکر دیں گے۔ اور آپ ہدیہ لینے سے شرعا انکار نہیں کرسکتے۔ پہلے تو انہوں نے ہمارے اس "جال" میں آنے سے انکار کیا مگر پھر ہمارے اصرار پر راضی ہونا پڑا کہ بہرحال خوشی کے مواقع پرتحفوں اور ہدیوں کا لین دین حرام نہیں ہے۔ محروم طبقات کی محرومیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خوشحال گھرانوں کو بھی شادی کے موقع پر بیٹیوں کو مال و اسباب بالکل نہیں دینا چاہئے۔ یا اگر بیٹی کو کچھ دینا ہی ہے تو جہیز کی بجائے وراثت میں حصہ دیں۔ اول تو یہ کوئی معقول بات نہیں کہ چونکہ غریب گھرانے اپنی شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات اور مواقع پر بہت محدود اخراجات کرسکتے ہیں۔ لہذا خوشحال گھرانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ پھرشادی کے موقع پر بیٹی کو دیے جانے والے تحائف (جہیز) کا وراثت سے موازنہ کرنا بھی درست نہیں۔ شادی کے موقع پر باپ اپنی بیٹی کو شادی کا تحفہ (جہیز) دیتا ہے۔ جب کہ وراثت کا استحقاق تو باپ کے مرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ البتہ اگر باپ ریٹائرمنٹ کے قریب ہو اور اس کے پاس اپنے تمام بچوں کو پراپرٹیز دینے کی استطاعت ہو توصرف بیٹو کو نہیں بلکہ بیٹی کو بھی مساوی پراپرٹی دے۔ اور ہم نے ایسا ہی کیا کہ ہم بھی اب ملازمت (اور اوسط زندگی) سے ریٹائرہونے والے ہیں۔

ڈاکٹرعائشہ کو ہماری طرف سے اصل تحفہ براہ راست ان الفاظ میں واٹس ایپ کیا گیا:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:
جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں (النسا۔ ۳۴)
اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو(احزاب:۳۳)۔ 
عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے (مستدرک حاکم)
۔اگر میں کسی مخلوق کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی (ترمذی) 
شوہر کی موجود گی میں اُس کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں۔ جب خاوند اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اورخاوند اس پر غصہ ہوکر سوجائے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ جہنم میں عورتوں کی کثرت کا سبب شوہر کا کفر کرنا اوراُن کا احسان نہ ماننا ہے- بخاری

سسرال میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم، ذاتی جائیداد یا برائے نام دینی تعلیم کا تکبر کبھی نہ کرنا۔ ماں باپ سے صرف رسمی تعلق رکھنا۔ اب تمہاری جنت یا جہنم تمہارے شوہر کی خوشی یا ناراضگی میں ہوگی۔ میڈیکل پریکٹس جاری رکھنا یا نہ رکھنے کا فیصلہ اپنی ذاتی مرضی سے نہیں بلکہ شوہر کی مرضی سے کرنا۔ ہمیشہ شوہر یا ساس سسر کے ساتھ ہی ڈرائیوکرنا، اکیلے کبھی ڈرائیو نہ کرنا۔ نہ پوچھے بغیر گھر سے باہر نکلنا اور نہ ہی پوچھے بغیرکسی کو بھی سسرال میں انوائٹ کرنا۔ شوہرکو اس کے اپنے جاب سے متعلق فیصلہ، اسے خود کرنے دینا۔ تم اپنی طرف سے کوئی بھی اصرار نہ کرنا۔ کبھی بھی اور کسی حال میں بھی میکہ اکیلی نہ آنا۔ شوہر، ساس یا سسر کے ساتھ ہی آنا۔ حتی الامکان میکہ میں رات نہ گذارنا۔ حدیث ہے کہ:جو چپ رہا وہ نجات پاگیا۔ سو ہر معاملہ یا مسئلہ میں چپ ہی رہنا۔ شوہر یا ساس سسر کو بولنے، فیصلہ کرنے دینا۔ شوہر، ساس سسرکے مقابلہ میں اپنے ذاتی ساز و سامان سے کبھی محبت نہ کرنا۔ لوگ اہم ہوتے ہیں، چیزیں نہیں۔ چیزوں کے خراب ہونے، ٹوٹنے پر افسردہ نہ ہونا۔ نہ ہی انہیں اس طرح سینت کر چھپا کر رکھنا کہ سسرال والے کنجوس یا لالچی سمجھیں۔ اپنی چیزیں سب کو استعمال کرنے دینا اور وہاں کی چیزیں پوچھ کر استعمال کرنا۔ اپنا موبائل فون کبھی بھی پاس ورڈ سے پروٹیکٹ کرکے نہ رکھنا۔ اپنے موبائل کو شوہر یا ساس سسر کی دسترس سے دور نہ رکھنا۔ شوہراگر گھرپر ہو توان کمنگ موبائل کال اسے ہی اٹھانے دینا۔ اسے میری آخری نصیحت یا آخری وصیت سمجھ کر عمل کرنا تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو رہو۔ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ آمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں