وراثت کے قرآنی احکامات
قرآن کی چوتھی سورت النساء میں وراثت کے تفصیلی احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ متعلقہ آیات کا عام فہم مفہوم کچھ یوں ہے۔
مَردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔(النساء۔ 7) اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔(النساء۔ 8) لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔ (النساء۔ 9)جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ النساء۔ 10
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں ، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے- النساء-11
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو انہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حقدار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا۔ بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے۔اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہو) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔ النساء -12
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا ا کہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ النساء-176
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (النساء-13) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔ النساء ۔ 14
وصیت:
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو، جس کے پاس وصیت کے لائق کچھ مال ہو، یہ جائز نہیں کہ دو شب بھی بغیر اس کے رہے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔ (کتاب الوصایا، صحیح بخاری)۔
حضرت جابرؓ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جو انتقال سے قبل وصیت کرگیا تو اس کا انتقال شریعت پر چلتے ہوئے ہوا۔ لہٰذا اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگئی - سنن ابن ماجہ
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تومیں نے کہا کہ میرے مرض کی یہ کیفیت ہے اور میں مالدار ہوں اور میرے بعد میری لڑکی کے سوا کوئی وارث نہیں تو کیا میں اپنے مال کی دو تہائی خیرات کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا نصف؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تہائی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کردو مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں فقیر چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔
کتاب الجنائز، صحیح بخاری
نوٹ:اس ویب سائٹ پر کسی بھی مرحوم مرد یا مرحومہ خاتون کی جائیداد تقسیم کرنے کا کیلکولیٹرموجود ہے۔ مرحوم یا مرحومہ کی جائیداد کی کل مالیت اور اس کے ورثاء کو مینشن کیجئے اور ہر ایک کا حصہ معلوم ہوجائے گا۔
http://miraas-in-islam.com/urdu/Default.aspx
حضرت جابرؓ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جو انتقال سے قبل وصیت کرگیا تو اس کا انتقال شریعت پر چلتے ہوئے ہوا۔ لہٰذا اس کی موت تقویٰ اور شہادت والی موت ہوئی اور اس کی مغفرت ہوگئی - سنن ابن ماجہ
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تومیں نے کہا کہ میرے مرض کی یہ کیفیت ہے اور میں مالدار ہوں اور میرے بعد میری لڑکی کے سوا کوئی وارث نہیں تو کیا میں اپنے مال کی دو تہائی خیرات کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا نصف؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تہائی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کردو مگر یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں فقیر چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔
کتاب الجنائز، صحیح بخاری
نوٹ:اس ویب سائٹ پر کسی بھی مرحوم مرد یا مرحومہ خاتون کی جائیداد تقسیم کرنے کا کیلکولیٹرموجود ہے۔ مرحوم یا مرحومہ کی جائیداد کی کل مالیت اور اس کے ورثاء کو مینشن کیجئے اور ہر ایک کا حصہ معلوم ہوجائے گا۔
http://miraas-in-islam.com/urdu/Default.aspx
اج ایک دوست سے رابطہ کیا گپ شپ لگ رھی تھی کے درمیان میں ویراثت کی بات شروع ھویی تو میں نے ان سے پوچها کے فلاں بندوں نے زمین کیسے تقسيم کیا تو اس نے کہا کے چار بھایی تھے ایک بہن تھی جو شادی شدہ تھی اور اور اسکے بچے بھی ھے یعنی بہن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بھی ھے لیکن چچونکے انکے والد ذندہ تھا جب اسکی بہن فوت ھویی تو کسی مولوی سے فتواہ لیا ھےے کے باپ کے زندہ ھو اور بیٹی فوت ھوجایے تو تو انکا ویراثت ختم ھو جاتی ھے خواہ انکے بچے بھی ھو ،،،،،،ایا یہ فتواہ ٹھیک ھے یا غلط ،،،،سورۃ انسا۶ ایات نمبر 11 میں ایسا نہی
جواب دیںحذف کریںجس وقت کسی فرد کا انتقال ہوتا ہے تو اس وقت اس کے جتنے وارث زندہ ہیں، وراثت انہی کو ملتی ہے۔ پہلے سے وفات شدہ اولاد کی اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب
جواب دیںحذف کریں