قرآن فہمی سیریز ۔۔۔ 03

 


قرآن فہمی سیریز


از ڈاکٹر فرحت ہاشمی


نفاق کی نشاندہی کیسے کریں؟ 


سورہ البقرہ آیت ۸ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں


وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ

اور لوگوں میں سے کوئی ہے جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر اور نہیں وہ ایمان لانے والے۔ 


 اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے سے مراد دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار  کرنا اور اعضاء سے عمل کرکے دکھانا ہے۔ اگر ان تینوں میں کوئی ایک بھی حصہ غائب ہوجائے تو  انسان نفاق کی طرف نکل جاتا ہے۔ 


یعنی:

اگر کوئی انسان دل سے یقین کرے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے۔ 

یا کوئی انسان اپنی زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے تصدیق نہ کرے۔  

یا کوئی انسان دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار کریں لیکن عمل دل کی تصدیق اور زبان کے اظہار کے مطابق نہیں۔ 


نفاق کی دو اقسام

۱- اعتقادی نفاق

۲- عملی نفاق


۱- اعتقادی نفاق: یہ نفاقِ اکبر ہے۔ نفاق کی اس قسم میں انسان کفر اور عقیدے کے بگاڑ کو دل میں چھپا رہا ہوتا ہے۔ اس قسم کی منافقت کا انجام کفر سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ 


اس اعتقادی نفاق کی مندرجہ ذیل علامات ہیں:

(۱) رسول اللہﷺ کی تکذیب کرنا۔

(۲) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات کا انکار کرنا۔

(۳) رسول اللہﷺ سے بغض و عداوت رکھنا۔

(۴) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات سے بغض و عداوت رکھنا۔

(۵) رسول اللہﷺ کے دین  کی پستی اور اس کی زوال پذیری پر خوشی محسوس کرنا۔

(۶)  رسول اللہﷺ کے دین کی نشر و اشاعت اور اسلام کی عروج و بالا دستی پر کڑھنا۔


۲- عملی نفاق: اس سے مراد دل میں ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ منافقین والا کوئی عمل سرانجام دینا ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی ملت سے خارج تو نہیں ہوتا لیکن یہ عمل اس کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسے آدمی میں ایمان و نفاق دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔


رسول اللہﷺ نے صحیح البخاری کی حدیث 34  میں فرمایا ہے کہ:

”چار چیزیں جس بھی آدمی میں ہوں گی وہ پکا منافق ہو گا، جس میں ان چار میں سے ایک چیز ہو گی اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ وہ چار یہ ہیں:

 ۱- جب بھی اس کے پاس امانت رکھی جائے اس میں خیانت کرے۔

 ۲۔ جب بھی بات کرے جھوٹ بولے۔

۳۔ جب بھی عہد و پیمان کرے اسے پورا نہ کرے

۳- اور جب بھی لڑائی جھگڑا کرے گالی گلوچ کرے۔“


اگر ہم اوپر بیان کردہ کسی ایک بھی کیٹگری میں آتے ہیں تو ہم منافقت کا شکار ہیں۔ 


منافقت ہمیں دو چہرے والا بنادیتی ہے یعنی ہمارے دل میں عقیدہ کچھ ہوتا ہے اور ہم زبان سے اقرار کسی اور چیز کا کررہے ہیں اور جیسے ہمیں دین پر چلنے میں کسی قسم خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ہم دوسرے دروازے سے نکل کر راستہ بدل لیتے ہیں۔ 


ہمیں منافقت سے بچنے کے دعا مانگنی چاہیے۔ 

اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيَ مِنَ النِّفَاقِ، وَعمَلِيَ مِنَ الرِّيَاءِ، وَلِسَانِيَ مِنَ الْكَذِبِ، وَعَيْنِيَ مِنَ الْخِيَانَةِ، إِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں