سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 216


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 216

چار اہم قلعوں کی فتح:

قلعہ صعب بن معاذ کی فتح :

قلعہ ناعم کے بعد ، قلعہ صعب قوت وحفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاریؓ کی کمان میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا۔ تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اسلم کی شاخ بنوسہم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم لوگ چور ہوچکے ہیں ... اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : یا اللہ ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفروز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو۔ اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔ اس کے بعد لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب بن معاذ کی فتح عطافرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہو۔( ابن ہشام ۲/۳۳۲)

اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنواسلم ہی پیش پیش تھے۔ یہاں بھی قلعے کے سامنے مبارزت اور مار کاٹ ہوئی۔ پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہوگیا۔ اور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبابے(لکڑی کا ایک محفوظ اور بند گاڑی نما ڈبہ بنایا جاتا تھا جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعے کی فصیل کو جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زد سے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہی دبابہ کہلاتا تھا۔ اب ٹینک کو دبابہ کہا جاتا ہے۔) بھی پائے۔

ابن اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ لوگوں نے (فتح حاصل ہوتے ہی) گدھے ذبح کردیے۔ اور چولہوں پر ہنڈیاں چڑھادیں لیکن جب رسول اللہ ﷺ  کو اس کا علم ہوا تو آپ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرمادیا۔

قلعہ زبیر کی فتح :

قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود ، نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر قلعہ زبیر میں جمع ہوگئے۔ یہ ایک محفوظ قلعہ تھا، اور پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا۔ راستہ اتنا پر پیچ اور مشکل تھا کہ یہاں نہ سواروں کی رسائی ہوسکتی تھی نہ پیادوں کی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کے گرد محاصرہ قائم کیا۔ اور تین روز تک محاصرہ کیے پڑے رہے۔ اس کے بعد ایک یہودی نے آکر کہا : اے ابو القاسم ! اگر آپ ﷺ ایک مہینہ تک محاصرہ جاری رکھیں تو بھی انہیں کوئی پروا نہ ہوگی۔ البتہ ان کے پینے کا پانی اور چشمے زمین کے نیچے ہیں۔ یہ رات میں نکلتے ہیں پانی پی لیتے ہیں اور لے لیتے ہیں۔ پھر قلعہ میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اور آپ ﷺ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کا پانی بند کردیں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ اس اطلاع پر آپ نے ان کا پانی بند کردیا۔ اس کے بعد یہود نے باہر آکر زبردست جنگ کی جس میں کئی مسلمان شہید ہو گئے اور تقریباً دس یہودی بھی کام آئے لیکن قلعہ فتح ہوگیا۔

قلعہ ابی کی فتح:

قلعہ زبیر سے شکست کھانے کے بعد یہود ، حصنِ ابی میں قلعہ بند ہوگئے۔ مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا۔ اب کی بار دو شہ زور اور جانباز یہودی یکے بعد دیگرے دعوت ِ مبارزت دیتے ہوئے میدان میں اترے۔ اور دونوں ہی مسلمان جانبازوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ دوسرے یہودی کے قاتل سُرخ پٹی والے مشہور جانفروش حضرت ابو دجانہ سماک بن خرشہ انصاریؓ تھے۔ وہ دوسرے یہودی کو قتل کرکے نہایت تیزی سے قلعے میں جا گھسے۔ اور ان کے ساتھ ہی اسلامی لشکر بھی قلعے میں جا گھسا۔ قلعے کے اندر کچھ دیر تک تو زوردار جنگ ہوئی لیکن اس کے بعد یہودیوں نے قلعے سے کھسکنا شروع کردیا۔ اور بالآخر سب کے سب بھاگ کر قلعہ نزار میں پہنچ گئے ، جو خیبر کے نصف اوّل (یعنی پہلے منطقے ) کا آخری قلعہ تھا۔

قلعہ نزار کی فتح :

یہ قلعہ علاقے کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور یہود کو تقریباً یقین تھا کہ مسلمان اپنی انتہائی کوشش صرف کردینے کے باوجود اس قلعہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اس قلعے میں انہوں نے عورتوں اور بچوں سمیت قیام کیا جبکہ سابقہ چار قلعوں میں عورتوں اور بچوں کو نہیں رکھا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس قلعے کا سختی سے محاصرہ کیا۔ اور یہود پر سخت دباؤ ڈالا لیکن قلعہ چونکہ ایک بلند اور محفوظ پہاڑی پر واقع تھا اس لیے اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت بن نہیں پڑرہی تھی۔ ادھر یہود قلعے سے باہر نکل کر مسلمانوں سے ٹکرانے کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ البتہ تیر برسا برسا کر اور پتھر پھینک پھینک کر سخت مقابلہ کررہے تھے۔ جب اس قلعہ (نزار) کی فتح مسلمانوں کے لیے زیادہ دشوار محسوس ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے منجنیق کے آلات نصب کرنے کا حکم فرمایا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چند گولے پھینکے بھی جس سے قلعہ کی دیواروں میں شگاف پڑگیا۔ اور مسلمان اندر گھس گئے۔ اس کے بعد قلعے کے اندر سخت جنگ ہوئی۔ اور یہود نے فاش اور بدترین شکست کھائی۔ کیونکہ وہ بقیہ قلعوں کی طرح اس قلعے سے چپکے چپکے کھسک کر نہ نکل سکے بلکہ اس طرح بے محابا بھاگے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جا سکے اور انہیں مسلمانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔

اس مضبوط قلعے کی فتح کے بعد خیبر کا نصف اول یعنی نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہوگیا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے کچھ مزید قلعے بھی تھے۔ لیکن اس قلعے کے فتح ہوتے ہی یہودیوں نے ان باقی ماندہ قلعوں کو بھی خالی کردیا۔ اور شہر خیبر کے دوسرے منطقے یعنی کتیبہ کی طرف بھاگ گئے۔

==================>>  جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 216 چار اہم قلعوں کی فتح: قلعہ صعب بن معاذ کی فتح : قلعہ ناعم کے بعد ، قلعہ صعب قوت وحفاظت...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 215


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 215

معرکے کا آغاز اور قلعہ ناعم کی فتح:

بہرحال یہود نے جب لشکر دیکھا تو سیدھے شہر میں بھاگے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ جنگ گے لیے تیارہو جائیں مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ کیونکہ یہ قلعہ اپنے محلِ وقوع کی نزاکت اور اسٹراٹیجی کے لحاظ سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور یہی قلعہ مَرْحب نامی اس شہ زور اور جانباز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کے برابرمانا جاتا تھا۔

حضرت علی بن ابی طالبؓ مسلمانوں کی فوج لے کر اس قلعے کے سامنے پہنچے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ تو انہوں نے یہ دعوت مسترد کردی اور اپنے بادشاہ مرحب کی کمان میں مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اتر کر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی جس کی کیفیت سلمہ بن اکوعؓ نے یوں بیان کی ہے کہ جب ہم لوگ خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لے کر ناز و تکبر کے ساتھ اَٹْھلاتا اور یہ کہتا ہو نمودار ہوا :

قد علمت خیبر أنی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
إذا الحروب أقبلت تلہب

خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار پوش ، بہادر اور تجربہ کار ! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو۔
اس کے مقابل میرے چچا عامر نمودار ہوئے اور فرمایا:

قد علمت خیبر أنی عامر
شاکی السلاح بطل مغامر

''خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہو ں۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو۔ ''

پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کے ڈھال میں جا چبھی۔ اور عامر نے اسے نیچے سے مارنا چاہا۔ لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی۔ انہوں نے اس کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آلگا۔ اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

نبی ﷺ نے اپنی دو انگلیاں اکٹھا کرکے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے۔ کم ہی ان جیسا کوئی عرب رُوئے زمین پر چلا ہوگا۔( صحیح مسلم ، باب غزوۂ خیبر ۲/۱۲۲ باب غزوہ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵ صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳)

بہرحال حضرت عامر کے زخمی ہوجانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علیؓ تشریف لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ نے یہ اشعار کہے:

 أنا الذي سمتني أمي حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ 
 أوفیہم بالصاع کیل السندرہ 

''میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔'' 

اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پھر حضرت علیؓ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ مرحب کے قاتل کے بارے میں مآخذ کے اندر بڑا اختلاف ہے۔ اور اس میں بھی سخت اختلاف ہے کس دن وہ مارا گیا اور کس دن یہ قلعہ فتح ہوا۔ صحیحین کی روایت کے سیاق میں بھی کسی قدر اس اختلاف کی علامت موجود ہے۔ ہم نے اوپر جو ترتیب ذکر کی ہے وہ صحیح بخاری کی روایت کے سیاق کو ترجیح دیتے ہوئے قائم کی گئی ہے۔

جنگ کے دوران حضرت علیؓ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو ایک یہودی نے قلعہ کی چوٹی سے جھانک کرکہا : تم کون ہو ؟ حضرت علیؓ نے کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ یہودی نے کہا: اس کتاب کی قسم جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ! تم لوگ بلند ہو ئے۔ اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیرؓ میدان اترے۔ اس پر ان کی ماں حضرت صفیہ ؓ نے کہا : یارسول اللہ ! کیا میرا بیٹا قتل کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے یاسر کو قتل کردیا۔

اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی، جس میں کئی سربرآوردہ یہودی مارے گئے۔ اور بقیہ یہود میں تابِ مقاومت نہ رہی۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا حملہ نہ روک سکے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی دن جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کو شدید مقاومت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہود، مسلمانوں کو زیر کرنے سے مایوس ہوچکے تھے۔ اس لیے چپکے چپکے اس قلعے سے منتقل ہوکر قلعہ صعب میں چلے گئے اور مسلمانو ں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کرلیا۔

==================>>  جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 215 معرکے کا آغاز اور قلعہ ناعم کی فتح: بہرحال یہود نے جب لشکر دیکھا تو سیدھے شہر میں بھاگے اور ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 214


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 214

اسلامی لشکر خیبر کے دامن میں:

مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گزاری لیکن یہودیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ نبیﷺ کا دستور تھا کہ جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے۔ چنانچہ اس رات جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے غلس (اندھیرے ) میں فجر کی نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد مسلمان سوار ہوکر خیبر کی طرف بڑھے۔ ادھر اہل خیبر بے خبری میں اپنے پھاوڑے اور کھانچی وغیرہ لے کر اپنی کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو اچانک لشکر دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم! محمد لشکر سمیت آگئے ہیں۔

نبیﷺ نے (یہ منظر دیکھ کر ) فرمایا:اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترپڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بُری ہوجاتی ہے ۔ـ
(صحیح بخاری : باب غزوہ خیبر ۲/۶۰۳ ، ۶۰۴)

خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے:

۱۔ حصن ناعم
۲۔ حصن صعب بن معاذ
۳۔ حصن قلعہ زبیر
۴۔ حصن ابی
۵۔ حصن نزار

ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا۔ اور بقیہ دو قلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کَتیبَہ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے :
حصن قموص (یہ قبیلہ بنو نضیر کے خاندان ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ )
حصن وطیح
حصن سلالم

ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں، مگر وہ چھوٹی تھیں اور قوت وحفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی۔ دوسرے منطقے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔

نبیﷺ نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ اس پر حباب بن منذرؓ نے آکر عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بتلایئے کہ اس مقام پر اللہ نے آپ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا ہے یایہ محض آپ کی جنگی تدبیر اور رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں یہ محض ایک رائے اور تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ مقام قلعہ ٔنطاۃ سے بہت ہی قریب ہے اور خیبر کے سارے جنگجو افراد اسی قلعے میں ہیں۔ انہیں ہمارے حالات کا پورا پورا علم رہے گا اور ہمیں ان کے حالات کی خبر نہ ہوگی۔ ان کے تیر ہم تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہمارے تیر ان تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ہم ان کے شب خون سے بھی محفوظ نہ رہیں گے۔ پھر یہ مقام کھجوروں کے درمیا ن ہے۔ پستی میں واقع ہے۔ اور یہاں کی زمین بھی وبائی ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمائیں جو ان مفاسد سے خالی ہو۔ اور ہم اسی جگہ منتقل ہوکر پڑاؤ ڈالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے جورائے دی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد آپ دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔

 جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہﷺ داخل ہوئے فرمایا : میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ! ان کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے۔ ( اسی بیماری کی وجہ سے پہلے پہل آپ پیچھے رہ گئے تھے، پھر لشکر سے جاملے) فرمایا : انہیں بلالاؤ۔ وہ لائے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب ِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ شفایاب ہوگئے، گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر انہیں جھنڈا عطافرمایا۔

انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا : اطمینان سے جاؤ یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے ہیں ان سے آگاہ کرو۔ واللہ تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کوبھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
"صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۵ ، ۶۰۶ "

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے ایک قلعے کی فتح میں متعدد کوششوں کی ناکامی کے بعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا لیکن محققین کے نزدیک راجح وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔

==================ِ>>  جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 214 اسلامی لشکر خیبر کے دامن میں: مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گزار...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط 213


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط 213

راستے کے بعض واقعات:

حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے۔ رات میں سفر طے ہورہا تھا۔ ایک آدمی نے عامر سے کہا : اے عامر ! کیوں نہ ہمیں اپنے کچھ نوادرات سناؤ -عامر شاعر تھے - سواری سے اترے اور قوم کی حدی خوانی کرنے لگے۔ اشعار یہ تھے:

اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینـا
فـاغفر فداء لک ما اتقینا وثبت الأقدام إن لاقینا
وألقیــن سکینــۃ علینــا إنــا إذا صیح بنـا أبینـا
وبالصیـاح عولـوا علینـــا

''اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے۔ 
 ہم تجھ پر قربان ! تو ہمیں بخش دے۔ جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں۔ اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ 
اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑجاتے ہیں،
 اور للکار میں ہم پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے۔''

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے ؟ لوگوں نے کہا: عامر بن اکوع۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا : اب تو (ان کی شہادت ) واجب ہوگئی۔ آپ نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ورکیوں نہ فرمایا۔( صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵)

صحابہ کرام کو معلوم تھا کہ ( جنگ کے موقع پر )رسول اللہ ﷺ کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تو وہ شہید ہوجاتا ہے۔ ( صحیح مسلم ۲/۱۱۵) اور یہی واقعہ جنگِ خیبر میں (حضرت عامر کے ساتھ ) پیش آیا۔ (اسی لیےانہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے)
خیبر کے بالکل قریب وادی ٔ صہباء میں آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لایا گیا۔ آپ ﷺ کے حکم سے سانا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ مغرب کے لیے اُٹھے تو صرف کلی کی۔ صحابہ نے بھی کلی کی۔ پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اوروضو نہیں فرمایا۔ (پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا۔ )پھر آپ ﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی۔( مغازی الواقدی (غزوہ خیبر ص ۱۱۲)

نیز جب آپ ﷺ خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی پڑنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ لشکر ٹھہر گیا۔ اور آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی :

(( اللہم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضین السبع وما أقللن، ورب الشیاطین وما أضللن فإنا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر أہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شر ہذہ القریۃ وشر أہلہا وشر ما فیہا ۔))

''اے اللہ ! ساتوں آسما ن ، اور جن پروہ سایہ فگن ہیں ، ان کے پروردگار ! اور ساتوں زمین ، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے پروردگار ! اور شیاطین ، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، ان کے پروردگار! ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی ، اس کے باشندوں کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس بستی کے شر سے ، اس کے باشندوں کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔'' (ابن ہشام ۲/۳۲۹)

==================>> جاری ہے ۔۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط 213 راستے کے بعض واقعات: حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 212


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 212

یہود کیلئے منافقین کی سرگرمیاں:

اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ ودو کی۔ چنانچہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے یہود ِ خیبر کو یہ پیغام بھیجا کہ اب محمد ﷺ نے تمہار ا رُخ کیا ہے۔ لہٰذا چوکنا ہو جاؤ ،تیاری کرلو۔ اوردیکھو! ڈرنا نہیں۔ کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا سازوسامان زیادہ ہے۔ اور محمد ﷺ کے رفقاء بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں۔ اور ان کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں۔

جب اہل خیبر کو اس کا علم ہو ا تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس کو حصولِ مدد کے لیے بنو غطفان کے پاس روانہ کیا۔ کیونکہ وہ خیبر کے یہودیوں کے حلیف اور مسلمانوں کے خلاف ان کے مدد گار تھے۔ یہود نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر انہیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو خیبر کی نصف پیداوار انہیں دی جائے گی۔

رسول اللہ ﷺ نے خیبر جاتے ہوئے جبل عِصْر کو عبور کیا - عِصْر کے عین کو زیر ہے اور ص ساکن ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ دونو ں پر زبر ہے - پھر وادیٔ صہباء سے گذرے۔ اس کے بعد ایک اور وادی میں پہنچے جس کا نام رجیع ہے۔ (مگر یہ وہ رجیع نہیں جہاں عضل وقارہ کی غداری سے بنو لحیان کے ہاتھو ں آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت اور حضرت زید وخبیب رضی اللہ عنہما کی گرفتاری اور پھر مکہ میں شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا )

رجیع سے بنو غطفان کی آبادی صرف ایک دن اور ایک رات کی دوری پر واقع تھی اور بنو غطفان نے تیار ہوکر یہود کی اِمداد کے لیے خیبر کی راہ لے لی تھی۔ لیکن اثنائے راہ میں انھیں اپنے پیچھے کچھ  شور وشغب سنائی پڑا تو انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کردیا ہے اس لیے وہ واپس پلٹ کر آگئے اور خیبر کو مسلمانوں کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں ماہرین ِ راہ کو بلایا جو لشکر کو راستہ بتانے پر مامور تھے ان میں سے ایک کا نام حسیل تھا - ان دونو ں سے آپ نے ایسا مناسب ترین راستہ معلوم کرنا چاہا جسے اختیار کر کے خیبر میں شمال کی جانب سے یعنی مدینہ کے بجائے شام کی جانب سے داخل ہوسکیں۔ تاکہ اس حکمت ِ عملی کے ذریعے ایک طرف تو یہود کے شام بھاگنے کا راستہ بند کردیں۔ اور دوسری طرف بنو غطفان اور یہود کے درمیان حائل ہوکر ان کی طرف سے کسی مدد کی رسائی کے امکانات ختم کردیں۔

ایک راہنمانے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو ایسے راستے سے لے چلوں گا۔ چنانچہ وہ آگے آگے چلا۔ ایک مقام پر پہنچ کر جہاں متعدد راستے پھوٹتے تھے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان سب راستوں سے آپ منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہرایک کا نام بتائے۔ اس نے بتایا کہ ایک کا نام حَزن (سخت اور کھردرا) ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر چلنا منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا : دوسرے کا نام شاش (تفرق واضطراب والا) ہے۔ آپ نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا: تیسرے کا نام حاطب (لکڑہارا ) ہے آپ نے اس پر بھی چلنے سے انکار کردیا۔ حُسَیْل نے کہا : اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : اس کا نام کیا ہے ؟ حُسیل نے کہا: مرحب۔ نبی ﷺ نے اسی پر چلنا پسند فرمایا۔

=================>>  جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 212 یہود کیلئے منافقین کی سرگرمیاں: اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ ودو کی۔ چ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 211


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 211

خیبر کو روانگی:

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا۔ پھر محرم کے باقی ماندہ ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہوگئے۔مفسرین کا بیان ہے کہ خیبر اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا جوا س نے اپنے ارشاد کے ذریعہ فرمایا تھا :

وَعَدَكُمُ اللَّـهُ مَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِ (۴۸: ۲۰)
''اللہ نے تم سے بہت سے اموال ِ غنیمت کا وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کرو گے تو اس کو تمہارے لیے فوری طور پر عطاکردیا۔''

''جس کو فوری طور پر ادا کردیا '' اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور ''بہت سے اموال ِ غنیمت '' سے مراد خیبر ہے۔

چونکہ منافقین اور کمزور ایمان کے لوگ سفر حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان کے بارے میں حکم دیتے ہوئے فرمایا :

 سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُ‌ونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِ‌يدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّـهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّـهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۴۸: ۱۵) 

 ''جب تم اموال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑ ے گئے لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات بدل دیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اللہ نے پہلے ہی سے یہ بات کہہ دی ہے (اس پر) یہ لوگ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو۔ (حالانکہ حقیقت یہ ہے ) کہ یہ لوگ کم ہی سمجھتے ہیں۔''

چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی روانگی کا ارادہ فرمایا تو اعلان فرمادیا کہ آپ کے ساتھ صرف وہی آدمی روانہ ہوسکتا ہے جسے واقعتاً جہاد کی رغبت اور خواہش ہے۔ اس اعلان کے نتیجہ میں آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ جاسکے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت ِ رضوان کی تھی۔ اور ان کی تعداد صرف چودہ سو تھی۔

اس غزوے کے دوران مدینہ کا انتظام حضرت سباع بن عرفطہ غفاری کو اور ابن اسحاق کے بقول نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو سونپا گیا تھا۔ محققین کے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔( دیکھئے: فتح الباری ۷/۴۶۵ ، زاد المعاد ۲/۱۳۳)

اسی موقع پر حضرت ابوہریرہؓ بھی مسلمان ہوکر مدینہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت حضرت سباع بن عرفطہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو ہریرہؓ ان کی خدمت میں پہنچے۔ انہوں نے توشہ فراہم کردیا۔ اور حضرت ابو ہریرہؓ خدمت نبوی ﷺ میں حاضری کے لیے خیبر کی جانب چل پڑے۔ جب خدمت نبوی میں پہنچے تو (خیبر فتح ہوچکا تھا ) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے گفتگو کر کے حضرت ابو ہریرہ اور ان کے رفقاء کو بھی مال غنیمت میں شریک کر لیا۔

==================>> جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 211 خیبر کو روانگی: ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ کا پورا مہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 210


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 210

غزوہ ٔ خیبر (محرم ۷ھ ):

خیبر ، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب وہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔

غزوے کا سبب:

جب رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش ) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دوبازوؤں -یہود اور قبائل نجد- سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہرجانب سے مکمل امن وسلامتی حاصل ہوجائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پاکر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہوجائیں۔

چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔

رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تواس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل ِ خیبر ہی تھے جو جنگ ِ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھالائے تھے۔

پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدرو خیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو - بنو غطفان اور بدوؤں - سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ اور اپنی ا ن کارروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو بار بارفوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً: ''سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم '' کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت - یعنی قریش- جو ان یہود سے زیادہ بڑی ،طاقتور،جنگجو اورسرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رُخ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن جونہی قریش کے ساتھ اس محاذآرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔

==================>> جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 210 غزوہ ٔ خیبر (محرم ۷ھ ): خیبر ، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 209


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 209

صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں -

غزوہِ غابہ یا غزوہِ ذی قرد:

یہ غزوہ درحقیقت بنو فزارہ کی ایک ٹکڑی کے خلاف جس نے رسول اللہﷺ کے مویشیوں پر ڈاکہ ڈالاتھا ، تعاقب سے عبارت ہے۔
حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے یہ پہلا اور واحد غزوہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کوپیش آیا۔ امام بخاری نے اس کا باب منعقد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا تھا۔ اور یہی بات ا س غزوے کے خصوصی کار پرداز حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کی روایت صحیح مسلم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جمہور اہل مغازی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے لیکن جو بات صحیح میں بیان کی گئی ہے اہلِ مغازی کے بیان کے مقابل میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری باب غزوۃ ذات قرد ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۳،۱۱۴، ۱۱۵فتح الباری ۷/ ۴۶۰،۴۶۱،۴۶۲، زاد المعاد ۲/۱۲۰۔ حدیبیہ سے اس غزوے کے موخرہونے پر حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ دیکھئے: مسلم : کتاب الحج باب الترغیب فی سکنی المدینۃ والصبر علی لاوائہا حدیث نمبر ۴۷۵ (۱۳۷۴) ۲/۱۰۰۱۔

اس غزوہ کے ہیرو حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے جوروایات مروی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ اپنے غلام رباح کے ہمراہ چرنے کے لیے بھیجے تھے۔ اور میں بھی ابو طلحہ کے گھوڑے سمیت ان کے ساتھ تھا کہ اچانک صبح دم عبد الرحمن فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا۔ اور ان سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو قتل کردیا۔ میں نے کہا کہ رباح ! یہ گھوڑا لو۔ اسے ابوطلحہ تک پہنچادو۔ اور رسول اللہ ﷺ کو خبر کردو۔ اور خود میں نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رُخ کیا۔ اور تین بار پکار لگائی : یا صَبَاحاہ !ہائے صبح کا حملہ۔ پھر حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلا۔ ان پر تیر برساتا جاتا تھا اور یہ رجزپڑھتا جاتا تھا۔
[خذھا ] أنا ابن الأکوع والیـوم یـوم الـرضـع
''( لو )میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے (یعنی آج پتہ لگ جائے گا کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے )''
سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ واللہ میں انھیں مسلسل تیروں سے چھلنی کرتا رہا۔ جب کوئی سوار میری طرف پلٹ کر آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا۔ پھراسے تیر مار کر زخمی کردیتا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور پتھروں سے ان کی خبر لینے لگا۔ اس طرح میں نے مسلسل ان کا پیچھا کیے رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے جتنے بھی اونٹ تھے میں نے ان سب کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اور ان لوگوں نے میرے لیے ان اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا۔
لیکن میں نے پھر بھی ان کا پیچھا جاری رکھا۔ اور ان پر تیر برساتا رہا یہاں تک کہ بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں اس پر (بطور نشان ) تھوڑے سے پتھر ڈال دیتا تھا تاکہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقاء پہچان لیں (کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔ ) اس کے بعد وہ لوگ ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانے لگے۔ میں بھی ایک چوٹی پر جا بیٹھا۔ یہ دیکھ کر ان کے چار آدمی پہاڑ پر چڑھ کر میری طرف آئے (جب اتنے قریب آگئے کہ بات سن سکیں تو ) میں نے کہا: تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں سلمہ بن اکوعؓ ہوں ، تم میں سے جس کسی کو دوڑاؤں گا بے دھڑک پالوں گا اور جوکوئی مجھے دوڑائے گا ہرگزنہ پاسکے گا۔ میری یہ بات سن کر چاروں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی جگہ جمارہا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے درمیان سے چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے اخرم تھے۔ ان کے پیچھے ابو قتادہ ، اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود۔ (محاذ پر پہنچ کر ) عبدالرحمن اور حضرت اخرم میں ٹکر ہوئی۔ حضرت اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا لیکن عبد الرحمن نے نیزہ مار کر حضرت اخرم کو قتل کردیا۔ اور ان کے گھوڑے پر جا پلٹا مگر اتنے میں حضرت قتادہؓ ، عبدالرحمن کے سر پر جاپہنچے اور اسے نیزہ مار کرزخمی کردیا۔ بقیہ حملہ آور پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اور ہم نے انھیں کھدیڑنا شروع کیا۔ میں اپنے پاؤں پر اچھلتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان لوگوں نے اپنا رخ ایک گھاٹی کی طرف موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے اور وہاں پانی پینا چاہتے تھے لیکن میں نے انھیں چشمے سے پرے ہی رکھا اور وہ ایک قطرہ بھی نہ چکھ سکے۔ رسول اللہ ﷺ اور شہسوار صحابہ دن ڈوبنے کے بعد میرے پاس پہنچے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان کے جانور بھی چھین لوں۔ اور ان کی گردنیں پکڑ کر حاضر خدمت بھی کردوں۔ آپ نے فرمایا : اکوع کے بیٹے! تم قابو پاگئے ہو تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت بنو غطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے۔
(اس غزوے پر ) رسول اللہ ﷺ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابو قتادہ اور سب سے بہتر پیادہ سلمہ ہیں۔ اور آپ نے مجھے دو حصے دیے۔ ایک پیادہ کا حصہ اور ایک شہسوار کا حصہ۔ اور مدینہ واپس ہوتے ہوئے مجھے (یہ شرف بخشا کہ ) اپنی عضباء نامی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار فرمالیا۔
ا س غزوے کے دوران رسول اللہﷺ نے مدینہ کا انتظام حضرت ابن اُمِ مکتوم کو سونپا تھا۔ اور اس غزوے کا پرچم حضرت مقداد بن عمروؓ کو عطافرمایا تھا۔( سابقہ مآخذ)

==================>> جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 209 صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں - غزوہِ غابہ یا غزوہِ ذی قرد: یہ غزوہ درحقیقت بنو فزار...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 207


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 207

 حارث بن ابی شمر غسانی۔ حاکم دمشق کے نام خط:

نبی ﷺ نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا:

''بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف !!

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور ایمان لائے اور تصدیق کرے اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ پر ایمان لاؤ جو تنہا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تمہارے لیے تمہاری بادشاہت باقی رہے گی۔''

یہ خط قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی حضرت شجاع بن وہب کے بدست روانہ کیا گیا، جب انہوں نے یہ خط حارث کے حوالے کیا تو اس نے کہا: ''مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے؟ میں اس پر یلغار کرنے ہی والاہوں۔'' اور اسلام نہ لایا۔ ( زاد المعاد ۳/۶۳ محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ، خضیری ۱/۱۴۶)

بلکہ قیصر سے رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کی اجازت چاہی، مگر اس نے اس کو اس کے ارادے سے باز رکھا۔ پھر حارث نے شجاع بن وہب کو پارچہ جات اور اخراجات کا تحفہ دے کر اچھائی کے ساتھ واپس کردیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 207  حارث بن ابی شمر غسانی۔ حاکم دمشق کے نام خط: نبی ﷺ نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا: ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 208


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 208



 شاہِ عمان کے نام خط:

نبی ﷺ نے ایک خط شاہِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان دونوں کے والد کا نام جلندی تھا۔

''محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام!

اس شخص پر سلا م جو ہدایت کی پیروی کرے، میں تم دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لاؤ سلامت رہوگے، کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا رسول ہوں، تاکہ جو زندہ ہے اسے انجام کے خطرہ سے آگاہ کردوں اور کافروں پر قول برحق ہوجائے۔ اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لوگے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا اور اگرتم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہوجائے گی، تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہوگی اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آجائے گی۔

اس خط کو لے جانے کے لیے ایلچی کی حیثیت سے حضرت عمرو بن العاصؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں روانہ ہوکر عمان پہنچا۔ اور عبد سے ملاقات کی۔ دونوں بھائیوں میں یہ زیادہ دور اندیش اور نرم خوتھا۔

میں نے کہا: میں تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس رسول اللہ ﷺ کا ایلچی بن کر آیا ہوں، اس نے کہا: میرا بھائی عمر اور بادشاہت دونوں میں مجھ سے بڑا اور مجھ پر مقدم ہے، اس لیے میں تم کو اس کے پاس پہنچا دیتا ہوں کہ وہ تمہارا خط پڑھ لے۔

اس کے بعد اس نے کہا: اچھا! تم دعوت کس بات کی دیتے ہو؟
میں نے کہا: ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جو تنہا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے چھوڑ دو اور یہ گواہی دوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

عبد نے کہا: اے عمرو! تم اپنی قوم کے سردار کے صاحبزادے ہو، بتاؤ! تمہارے والد نے کیا کیا؟ کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرز عمل لائقِ اتباع ہوگا۔
میں نے کہا: وہ تو محمد ﷺ پر ایمان لائے بغیر وفات پاگئے، لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش! انہوں نے اسلام قبول کیا ہوتا اور آپ کی تصدیق کی ہوتی، میں خود بھی انہیں کی رائے پر تھا، لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی۔

عبد نے کہا: تم نے کب ان کی پیروی کی؟
میں نے کہا: ابھی جلد ہی۔
اس نے دریافت کیا: تم کس جگہ اسلام لائے؟
میں نے کہا: نجاشی کے پاس اور بتلایا کہ نجاشی بھی مسلمان ہوچکا ہے۔
عبد نے کہا: اس کی قوم نے اس کی بادشاہت کا کیا کیا؟
میں نے کہا: اسے برقرار رکھا اور اس کی پیروی کی۔
اس نے کہا: اسقفوں اور راہبوں نے بھی اس کی پیروی کی؟
میں نے کہا: ہاں!
عبد نے کہا: اے عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ آدمی کی کوئی بھی خصلت جھوٹ سے زیادہ رسوا کن نہیں۔
میں نے کہا: میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہم اسے حلال سمجھتے ہیں۔
عبد نے کہا: میں سمجھتا ہوں، ہرقل کو نجاشی کے اسلام لانے کا علم نہیں۔
میں نے کہا: کیوں نہیں۔
عبد نے کہا: تمہیں یہ بات کیسے معلوم ؟
میں نے کہا: نجاشی ہرقل کو خراج ادا کیا کرتا تھا، لیکن جب اس نے اسلام قبول کیا اور محمد ﷺ کی تصدیق کی تو بولا: اللہ کی قسم! اب اگر وہ مجھ سے ایک درہم بھی مانگے تو میں نہ دوں گا اور جب اس کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس کے بھائی یناق نے کہا: کیا تم اپنے غلام کو چھوڑ دوگے کہ وہ تمہیں خراج نہ دے اور تمہارے بجائے ایک دوسرے شخص کا نیا دین اختیار کرلے؟

ہرقل نے کہا: یہ ایک آدمی ہے جس نے ایک دین کو پسند کیا اور اسے اپنے لیے اختیار کرلیا، اب میں اس کا کیا کرسکتا ہوں؟ اللہ کی قسم! اگر مجھے اپنی بادشاہت کی حرص نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو اس نے کیا ہے۔
عبد نے کہا : عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟
میں نے کہا: واللہ! میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد نے کہا: اچھا مجھے بتاؤ! وہ کس بات کا حکم دیتے ہیں اور کس چیز سے منع کرتے ہیں ؟
میں نے کہا: اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں، نیکی و صِلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور ظلم و زیادتی، زنا کاری، شراب نوشی اور پتھر، بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔

عبد نے کہا: یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں، اگر میرا بھائی بھی اس بات پر میری متابعت کرتا تو ہم لوگ سوار ہوکر (چل پڑتے ) یہاں تک کہ محمد ﷺ پر ایمان لاتے اور ان کی تصدیق کرتے، لیکن میرابھائی اپنی بادشاہت کا اس سے کہیں زیادہ حریص ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی کا تابع فرمان بن جائے۔

میں نے کہا: اگر وہ اسلام قبول کرلے تو رسول اللہ ﷺ اس کی قوم پر اس کی بادشاہت برقرار رکھیں گے، البتہ ان کے مالداروں سے صدقہ لے کر فقیروں پر تقسیم کردیں۔
عبد نے کہا: یہ بڑی اچھی بات ہے، اچھا بتاؤ صدقہ کیا ہے؟
جواب میں میں نے مختلف اموال کے اندر رسول اللہ ﷺ کے مقرر کیے ہوئے صدقات کی تفصیل بتائی، جب اونٹ کی باری آئی تو وہ بولا: اے عمرو! ہمارے ان مویشیوں میں سے بھی صدقہ لیا جائے گا، جو خود ہی درخت پر چر لیتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں!
عبد نے کہا: واللہ !میں نہیں سمجھتا تھا کہ میری قوم اپنے ملک کی وسعت اور تعداد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس کی ڈیوڑھی میں چند دن ٹھہرارہا، وہ اپنے بھائی کے پاس جاکر میری ساری باتیں بتاتا رہتا تھا، پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا اور میں اندر داخل ہوا، چوبداروں نے میرے بازو پکڑ لیے، اس نے کہا: چھوڑ دو اور مجھے چھوڑ دیا گیا، میں نے بیٹھنا چاہا تو چوبداروں نے مجھے بیٹھنے نہ دیا، میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: اپنی بات کہو! میں نے سر بمہر خط اس کے حوالے کردیا۔ اس نے مہر توڑ کر خط پڑھا اور پورا خط پڑھ چکا تو اپنے بھائی کے حوالہ کردیا، بھائی نے بھی اسی طرح پڑھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی اس سے زیادہ نرم دل ہے۔

بادشاہ نے پوچھا: مجھے بتاؤ قریش نے کیا روش اختیار کی ہے؟
میں نے کہا: سب ان کے اطاعت گزار ہوگئے ہیں، کسی نے دین کی رغبت کی بنا پر اور کسی نے تلوار سے مقہور ہوکر۔
بادشاہ نے پوچھا: ان کے ساتھ کون لوگ ہیں؟
میں نے کہا: سارے لوگ ہیں، انہوں نے اسلام کو برضا و رغبت قبول کرلیا ہے۔ اور اسے تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے، انہیں اللہ کی ہدایت اور اپنی عقل کی رہنمائی سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ وہ گمراہ تھے، اب اس علاقہ میں میں نہیں جانتا کہ تمہارے سوا کوئی اور باقی رہ گیا ہے اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا اور محمد ﷺ کی پیروی نہ کی تو تمہیں سوار روند ڈالیں گے اور تمہاری ہریالی کا صفایا کردیں گے، اس لیے اسلام قبول کرلو! سلامت رہوگے اور رسول اللہ ﷺ تم کو تمہاری قوم کا حکمراں بنادیں گے، تم پر نہ سوار داخل ہوں گے نہ پیادے۔

بادشاہ نے کہا: مجھے آج چھوڑ دو اور کل پھر آؤ، اس کے بعد میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا۔
اس نے کہا: عمرو! مجھے امید ہے کہ اگر بادشاہت کی حرص غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔

دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گیا، لیکن اس نے اجازت دینے سے انکار کردیا، اس لیے میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا اور بتلایا کہ بادشاہ تک میری رسائی نہ ہوسکی، بھائی نے مجھے اس کے یہاں پہنچا دیا، اس نے کہا: میں نے تمہاری دعوت پر غور کیا، اگر میں بادشاہت ایک ایسے آدمی کے حوالے کردوں جس کے شہسوار یہاں پہنچے بھی نہیں تو میں عرب میں سب سے کمزور سمجھا جاؤں گا اور اگر شہسوار یہاں پہنچ آئے تو ایسا رن پڑے گا کہ انہیں کبھی اس سے سابقہ نہ پڑا ہوگا۔
میں نے کہا: اچھا تو میں کل واپس جارہا ہوں۔

جب اسے میری واپسی کا یقین ہوگیا تو اس نے بھائی سے خلوت میں بات کی اور بو لا: یہ پیغمبر جن پر غالب آچکا ہے، ان کے مقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں اور اس نے جس کسی کے پاس پیغام بھیجا ہے، اس نے دعوت قبول کرلی ہے، لہٰذا دوسرے دن صبح ہی مجھے بلوایا گیا اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کرلیا اور نبی ﷺ کی تصدیق کی اور صدقہ وصول کرنے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا۔ اور جس کسی نے میری مخالفت کی اس کے خلاف میرے مدد گار ثابت ہوئے۔( زاد المعاد ۳/۶۲، ۶۳)

اس واقعے کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ بادشاہوں کی بہ نسبت ان دونوں کے پاس خط کی روانگی خاصی تاخیر سے عمل میں آئی تھی، غالباً یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔

ان خطوط کے ذریعے نبی ﷺ نے اپنی دعوت روئے زمین کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی اور اس کے جواب میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر کیا، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوگئی اور ان کے نزدیک آپ ﷺ کا دین اور آپ کا نام ایک جانی پہچانی چیز بن گیا۔

================>> جاری ہے

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 208  شاہِ عمان کے نام خط: نبی ﷺ نے ایک خط شاہِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 206


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 206

ہوذہ بن علی حاکم یمامہ کے نام خط:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوذہ بن علی، حاکم یمامہ کے نام حسب ذیل خط لکھا:

''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب​:

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آکر رہے گا، لہذا اسلام لاؤ سالم رہوگے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے، اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا۔

اس خط کو پہنچانے کے لیے بحیثیت قاصد سلیط بن عمرو عامری رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا، حضرت سلیط اس مہر لگے ہوئے خط کو لے کر ہوذہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو مہمان بنایا اور مبارک باد دی، حضرت سلیط رضی اللہ عنہ نے اسے خط پڑھ کر سنایا تو اس نے درمیانی قسم کا جواب دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ لکھا :

آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں، اس کی بہتری اور عمدگی کا کیا پوچھنا اور عرب پر میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے، اس لیے کچھ کار پردازی میرے ذمہ کریں، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں گا، اس نے حضرت سلیط رضی اللہ عنہ کو تحائف بھی دئیے اور ہجر کا بنا ہوا کپڑا بھی دیا، حضرت سلیط رضی اللہ عنہ یہ تحائف لے کر خدمت نبوی میں واپس آئے اور ساری تفصیلات گوش گزار کیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا: " اگر وہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی مجھ سے طلب کرے گا تو میں اسے نہ دوں گا، وہ خود بھی تباہ ہوگا اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا۔''

پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ خبر دی کہ ہوذہ کا انتقال ہو چکا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سنو! یمامہ میں ایک کذاب نمودار ہونے والا ہے جو میرے بعد قتل کیا جائے گا، ایک کہنے والے نے کہا: یا رسول اللہ! اسے کون قتل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ ( زادالمعاد 63/3)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم ۔۔۔ مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 206 ہوذہ بن علی حاکم یمامہ کے نام خط: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوذہ بن علی، حاکم یمامہ کے نام حس...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 205


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 205

منذر بن ساوی کے نام خط:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس لکھ کر اسے بھی اسلام کی دعوت دی اور اس خط کو حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں روانہ فرمایا، جواب میں منذر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا:

" امابعد! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ کا خط اہل بحرین کو پڑھ کر سنا دیا، بعض لوگوں نے اسلام کو محبت اور پاکیزگی کی نظر سے دیکھا اور اس کے حلقہ بگوش ہوگئے اور بعض نے پسند نہیں کیا اور میری زمیں میں یہود اور مجوس بھی ہیں، لہذا آپ اس بارے میں اپنا حکم صادر فرمائیے۔''

اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط لکھا:

" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی جانب سے منذر بن ساوی کی طرف​:
تم پر سلام ہو، میں تمہارے ساتھ اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔

امابعد! میں تمہیں اللہ عزوجل کی یاد دلاتا ہوں، یاد رہے کہ جو شخص بھلائی اور خیر خواہی کرے گا وہ اپنے ہی لیے بھلائی کرے گا اور جو شخص میرے قاصدوں کی اطاعت اور ان کے حکم کی پیروی کرے، اس نے میری اطاعت کی اور جو ان کے ساتھ خیر خواہی کرے، اس نے میرے ساتھ خیر خواہی کی اور میرے قاصدوں نے تمہاری اچھی تعریف کی ہے اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کر لی ہے، لہذا مسلمان جس حال پر ایمان لائے ہیں، انہیں اس پر چھوڑ دو اور میں نے خطا کاروں کو معاف کردیا ہے، لہذا ان سے قبول کرلو اور جب تک تم اصلاح کی راہ اختیار کیے رہو گے، ہم تمہیں تمہارے عمل سے معزول نہ کریں گے اور جو یہودیت یا مجوسیت پر قائم رہے اس پرجزیہ ہے

( زادالمعاد 61،62/3 ۔ یہ خط ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا فوٹو شائع کیا ہے، زادالمعاد کی عبارت اور اس فوٹو والی عبارت میں صرف ایک لفظ کا فرق ( یعنی فوٹو میں ) ہے " لا الہ الا ھو " کے بجائے " لا الہ غیرہ " ہے )

==================>> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم ۔۔۔ مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 205 منذر بن ساوی کے نام خط: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس ...

سیرت النبی کریم ﷺ قسط: 204


سیرت النبی کریم ﷺ قسط: 204

قیصر، شاہِ روم کے نام خط:

صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے ہرقل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے:

" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ﷺ کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف​:

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے، تم اسلام لاؤ سالم رہو گے، اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبارہ دے گا اور اگر تم نے رو گردانی کی تو تم پر اریسیوں( رعایا) کا بھی ( گناہ) ہوگا۔

اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے، پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔''
(صحیح بخاری 4،5/1)

اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لئے دحیہ بن خلیفہ کلبی (رضی اللہ عنہ) کا انتخاب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بُصرٰی کے حوالے کردیں اور وہ اسے قیصر کے پاس پہنچا دے گا، اس کے بعد جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

ان کا ارشاد ہے کہ ابو سفیانؓ بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہرقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا، یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصۂ امن میں ملک شام تجارت کے لئے گئی ہوئی تھی، یہ لوگ ایلیاء(بیت المقدس) میں اس کے پاس حاضر ہوئے، (اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجالانے کے لئے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھوں اہل فارس کو شکست فاش دی۔( دیکھئے صحیح مسلم 99/2)۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کرلی اور وہ صلیب بھی واپس کردی، جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی، قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ پر نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لیے 629ء یعنی7ھ میں ایلیاء(بیت المقدس) گیا تھا۔

ہرقل نے انہیں اپنے دربار میں بلایا، اس وقت اس کے گردا گرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے، پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے، اس سے تمہارا کون سا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے۔؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا: میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرکے اس کی پشت کے پاس بٹھا دو، اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: میں اس شخص سے اُس آدمی ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق سوالات کروں گا، اگر یہ جھوٹ بولے تو تم لوگ اسے جھٹلا دینا، ابو سفیان کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یقیناً جھوٹ بولتا۔

ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے؟
میں نے کہا: وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا: تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا: بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا: یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا: بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: اس نے جو بات کی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اس کو جھوٹ سے مُتہم کرتے تھے؟
میں نے کہا: نہیں۔
ہرقل نے کہا: کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے؟
میں نے کہا: نہیں، البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں، معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوا مجھے اور کہیں کچھ گھسیڑنے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا: کیا تم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے؟
میں نے کہا: جی ہاں۔
ہرقل نے کہا: تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی؟
میں نے کہا: جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر کی چوٹ ہے، وہ ہمیں زک پہنچا لیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچا لیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا: وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا: وہ کہتا ہے صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، تمہارے باپ دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پرہیز، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔

اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: " تم اس شخص ( ابو سفیان ) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص کا نسب پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ اونچے نسب کا ہے اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟ تم نے بتلایا کہ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے ۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تم نے بتلایا کہ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے ۔

اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے، اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔

میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ تو تم نے بتایا کہ کمزوروں نے اس کی پیروی کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبروں کے پیروکار ہوتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں اور حقیقت یہ ہے ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں، وہ بدعہدی نہیں کرتے۔

میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے، بت پرستی سے منع کرتا ہے اور نماز، سچائی اور پرہیز گاری وپاک دامنی کا حکم دیتا ہے تو جو کچھ تم نے بتایا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو یہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہو جائے گا، میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم سے ہوگا، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا"۔

اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگا کر پڑھا، جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اوربڑا شور مچا، ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کر دئیے گئے، جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ ( ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، ابو کبشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا یا نانا میں سے کسی کی کنیت تھی، اور کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے رضاعی باپ ( حلیمہ سعدیہ کے شوہر ) کی کنیت تھی، بہر حال! ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء واجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کر دیتے۔) کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑ گیا، اس سے تو بنواصفر ( رومیوں(( بنو الاصفر ( اصفر کی اولاد ۔ اور اصفر کے معنی زرد، پیلا ) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر ( پیلے ) کے لقب سے مشہور ہو گیا تھا)) کا بادشاہ ڈرتا ہے، اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آکر رہے گا، یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کر دیا۔''

یہ قیصر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا، اس نامہ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پہنچانے والے یعنی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا، لیکن حضرت دحیہ یہ تحائف لےکر واپس ہوئے تو حسمٰی میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگوں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا، حضرت دحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔

تفصیل سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں پانچ سو صحابہ کرام کی ایک جماعت حُسمٰی روانہ فرمائی، حضرت زید نے قبیلہ جذام پر شب خون مار کر ان کی خاصی تعداد کو قتل کردیا اور ان کے چوپایوں اور عورتوں کو ہانک لائے، چوپایوں میں ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں تھیں اور قیدیوں میں ایک سو عورتیں اور بچے تھے۔

چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قبیلہ جذام میں پہلے سے مصالحت کا عہد چلا آرہا تھا، اس لئے اس قبیلہ کے ایک سردار زید بن رفاعہ جذامی (رضی اللہ عنہ) نے جھٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں احتجاج و فریاد کی، زید بن رفاعہ اس قبیلے کے کچھ مزید افراد سمیت پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے اور جب حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ پر ڈاکہ پڑا تھا توان کی مدد بھی کی تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا احتجاج قبول کرتے ہوئے مال غنیمت اور قیدی واپس کر دیئے۔

عام اہل مغازی نے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ سے پہلے بتلایا ہے، مگر یہ فاش غلطی ہے، کیونکہ قیصر کے پاس نامہ مبارک کی روانگی صلح حدیبیہ کے بعد عمل میں آئی تھی، اسی لیے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بلا شبہ حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ (دیکھئے زاد المعاد 122/2 ، حاشیہ تلقیح الفہوم ص 29)

=================>> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم: مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ

سیرت النبی کریم ﷺ قسط: 204 قیصر، شاہِ روم کے نام خط: صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جس...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 203


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 203

شاہِ فارس خسرو پرویز کے نام خط:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط بادشاہ فارس کسرٰی ( خسرو ) کے پاس روانہ کیا، جو یہ تھا:

" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی عظیم فارس کی جانب​!

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف اللہ کا فرستادہ ہوں، تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافرین پر حق بات ثابت ہو جائے ( یعنی حجت تمام ہو جائے )، پس تم اسلام لاؤ سالم رہو گے اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہوگا۔''

اس خط کو لے جانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ( رضی اللہ عنہ ) کو منتخب فرمایا، انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا، اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعے کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ( رضی اللہ عنہ ) کو روانہ کیا، بہرحال! جب یہ خط کسرٰی کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے چاک کردیا اور نہایت متکبرانہ انداز میں بولا:

''میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے''

اور پھر وہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، چنانچہ اس کے بعد کسرٰی نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے، اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں، باذان نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کئے اور انہیں ایک خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وانہ کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسرٰی کے پاس حاضر ہو جائیں، جب وہ مدینہ پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا: "شہنشاہ کسرٰی نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعے حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پاس ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسرٰی کے رو برو حاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لئے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں، ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں

ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دل چسپ "مہم" در پیش تھی خود خسرو پرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑک رہا تھا، جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کرکے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات 10 جمادی الاولیٰ 7ھ کا واقعہ ہے۔ (فتح الباری 127/8)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا، چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس واقعے کی خبر دی، ان دونوں نے کہا کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نے آپ کی اس سے بہت معمولی بات بھی قابل اعتراض شمار کی ہے تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اسے میری اس بات کی خبر کردو اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی، جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جا کر رکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جا ہی نہیں سکتے۔

تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیر اقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنا دوں گا، اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا، تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے، شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا: ''اسے تاحکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔''

اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء ( جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہو گئے۔ (محاضرات خضری 147/1 ، فتح الباری 127،128/8 ، نیز دیکھئے رحمۃ اللعالمین)

================== جاری ہے ۔۔۔۔۔

الرحیق المختوم: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مرحوم

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 203 شاہِ فارس خسرو پرویز کے نام خط: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط بادشاہ فارس کسرٰی ( خسرو ) ک...

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 202


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 202

2- "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ "جریج بن متی" (یہ نام علامہ منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے.. ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام "بنیامین" بتلایا ہے.. دیکھئے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" ، ص ۱۴۱) کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب "مقوقس" تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا.. نامۂ گرامی یہ ہے..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب..

اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں.. اسلام لاؤ سلامت رہوگے اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا.. لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا.. اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں.. پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں..

(زاد المعاد لابن قیم , ۳/۶۱.. ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے.. ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے.. زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللہ.. اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط.. دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)

اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا.. وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا.. "(اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا.. اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا.. پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا , پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا.. لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو.. ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں.."

مقوقس نے کہا.. "ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے.."

حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے.. دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے.. یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے.. میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی , اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بشارت دی ہے اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو.. جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں.."

مقوقس نے کہا.. "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے.. وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں.. میں مزید غور کروں گا.."

مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا.. پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے..

آپ پر سلام ! اما بعد ! میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا.. مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے.. میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا.. میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں اور آپ پر سلام..''

مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا.. دونوں لونڈیاں "ماریہ" اور "سیرین" تھیں.. خچر کا نام دُلدل تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہا.. (زاد المعاد ۳/۶۱)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس رکھا اور انہی کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے..

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی تھیں , اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں.. حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا.. حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے..

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت بہت زیادہ رہتی تھی.. گو وہ کنیز تھیں (جاربات یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھم کی طرح اُن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا.. (اصابہ ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ.....

"قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو.. اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے.. اُن سے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ علیہ السلام) اور میرے لڑکے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)..

(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)

=========>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 202 2- "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ " ج...