سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 262


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 262

اسلامی لشکر تبوک میں:

جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا : کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گے، لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئے ، یہاں تک کہ میں آجاؤں۔ حضرت معاذؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دوآدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! آپﷺ نے ان دونوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا ، فرمایا۔ پھر چشمے سے چُلّو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا۔ یہاں تک کہ قدرے جمع ہوگیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنا چہرہ اور ہاتھ دُھویا اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرام نے سیر ہوکر پانی پیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔

راستے ہی میں یا تبوک پہنچ کر... روایا ت میں اختلاف ہے ... رسول اللہﷺ نے فرمایا : آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی مضبوطی سے باندھ دے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کی بجز بنو ساعدہ کے دو آدمیوں کے جن میں سے ایک آدمی قضائے حاجت کے لئے نکلا اور دوسرا اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا، جو آدمی قضائے حاجت کے لئے نکلا تھا اسے راستہ میں خناق ہوگیا اور جو اونٹ کی تلاش میں نکلا تھا اسے ہوا نے اٹھا کر طے کے پہاڑوں پر پھینک دیا، حضور اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا! " کیا میں نے تم لوگوں کو اس سے نہ روکا تھا کہ کوئی آدمی کسی کو ہمراہ لئے بغیر نہ نکلے" پھر حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کے لئے جو خناق میں مبتلا ہوا تھا دعا کی اور وہ شفا یاب ہوگیا، جو شخص طے کے پہاڑوں میں پڑا ہوا تھا اسے حضور اکرم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد طے کے ایک آدمی نے لاکر پیش کیا. (ابن ہشام) ( مسلم عن معاذ بن جبل ۲/۲۴۶)

حجر سے آگے بڑھے تو راستہ میں آپﷺ کی اونٹنی گم ہوگئی، منافقین کو بات مل گئی، آپس میں کہنے لگے کہ محمدﷺ تو یہ دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ہم کو آسمان سے خبریں ملا کرتی ہیں، ہم آسمانی حالات کو جانتے ہیں، تعجب ہے کہ اپنی اونٹنی کا حال تک نہیں جانتے کہ وہ اس وقت کہاں ہے، حضور اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا " بخدا میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میرے رب نے جو کچھ  مجھے سکھایا ہے اور اب میں بہ الہام الہیٰ کہتا ہوں کہ اونٹنی فلاں مقام پر ہے، اس کی مہار ایک درخت سے اٹک گئی ہے جس سے وہ رکی ہوئی ہے، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے ایک صحابیؓ کو بھیج کر اونٹنی کو منگوالیا، یہ بات کہنے والا منافق زید بن اللصیت قبیلہ قینقاع سے تھا، کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اس نے توبہ کرلی اور بخشی بن جہیر تائب ہوگیا تھا اور یہ دعا کی تھی کہ اس گنا ہ کے کفارے میں ایسے مقام پر شہید کیا جاؤں جہاں میرا نام و نشان نہ ملے، ﷲ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور یہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے. (سیرت النبی- ابن خلدون)

راستہ میں ایک شخص پیچھے رہنے لگا تو لوگوں نے کہا … یا رسول ﷲ ! ایک آدمی پیچھے رہ گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اگر اس میں کوئی بھلائی ہوگی تو ﷲ تعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملا دے گا اور اگر اس کے خلاف ہے تو ﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نجات دلادی، کسی نے کہا … یا رسول ﷲ! ابو ذرؓ پیچھے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اونٹ کی رفتار دھیمی کردی ہے، آپﷺ نے فرمایا! اسے جانے دو ، اگر اس میں کوئی خیر ہے تو ﷲ تعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملادے گا ورنہ نجات دے دے گا، اب ابو ذرؓ اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے رک گئے، اونٹ تاخیر کرنے لگا تو انہوں نے اپنا سامان لیا اور پشت پر لاد کر حضور اکرم ﷺ کے نقشِ قدم پر پیدل چلنے لگے، جب آپﷺ نے ایک منزل پر قیام کیا تو کسی نے کہا … یا رسول ﷲ! وہ شخص تو اس راستہ پر تنہا چل رہا ہے ، آپﷺ نے فرمایا! ابوذر نہ ہو؟ جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو کہا … یا رسول ﷲ ! وہ ابو ذر ہی ہیں، یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا! ﷲ تعالیٰ ابو ذر پر رحم فرمائے، ابو ذر تنہا چلے گا، تنہا مرے گا اور تنہا حشر کے دن اٹھایا جائے گا۔

حضرت عبدﷲؓ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت ابو ذرؓ مقام ربدہ میں مقیم تھے اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی تو اس وقت ان کے پاس ان کی بیوی اور غلام کے سوا اور کوئی نہ تھا، انہوں نے بیوی اور غلام کو وصیت کی تھی کہ تم مجھے غسل دینا اور کفنانا اور عام راستہ پر رکھ دینا، پھر پہلی جماعت جو تمہارے پاس سے گزرے اس سے کہنا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں، آپ لوگ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں چنانچہ ان کی وفات کے بعد انھیں سرِ راہ رکھ دیا گیا، اہلِ عراق کے ایک گروہ کا گزر ہوا تو برسرِ راہ جنازہ دیکھا تو وہ رک گئے، اس وقت غلام نے کہا کہ یہ رسول ﷲ ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں اس لئے آپ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں، راوی کا یہ بیان سن کر حضرت عبدﷲؓ بن مسعود رونے لگے اور بولے رسول اکرم ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ تم تنہا چلو گے، تنہا مروگے اور حشر میں تنہا اٹھائے جاؤگے، پھر قافلہ والے ابو ذرؓ کو دفن کئے، بعد میں حضرت عبدﷲؓ بن مسعود نے اپنا یہ قصہ ان لوگوں کو بتایا اور یہ بھی کہا کہ رسول اﷲﷺ نے ان سے تبوک جاتے ہوئے یہ فرمایاتھا۔ (ابن ہشام)

=================>> جاری ہے ۔۔۔

ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 262 اسلامی لشکر تبوک میں: جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا : کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 261


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 261

اسلامی لشکر تبوک کی راہ میں:

اس دھوم دھام جوش وخروش اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اور کہا جاتا ہے کہ سباعؓ بن عرفطہ کو مدینہ کا گورنر بنایا۔ چونکہ اس غزوہ میں ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی آپﷺ کے ساتھ نہیں گئیں تھیں اس لئے اہلِ حرم کی حفاظت کے لئے کسی عزیزِ خاص کا رہنا ضروری تھا، آپﷺ نے ان کی دیکھ بھال کے لئے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا لیکن انھوں نے شکایت کی کہ آپﷺ مجھ کو بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ کے ساتھ تھی، یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ کوہِ طور پر جاتے وقت حضرت ہارونؑ کو اپنا قائم مقام بنا گئے تھے اسی طرح میں تم کو اس سفر میں اپنا قائم مقام بنا رہا ہوں ، حضرت علیؓ اس جواب سے مطمئن ہوگئے ۔ (سیرت النبی ﷺ)

بہرحال رسول اللہﷺ نے اس انتظام کے بعد شمال کی جانب کوچ فرمایا (نسائی کی روایت کے مطابق یہ جمعرات کا دن تھا ) منزل تبوک تھی لیکن لشکر بڑا تھا۔ تیس ہزار مردان جنگی تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ اس لیے مسلمان ہر چند مال خرچ کرنے کے باوجود لشکر کو پوری طرح تیار نہ کرسکے تھے بلکہ سواری اور توشے کی سخت کمی تھی۔ چنانچہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں کے لیے ایک ایک اونٹ تھا جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے لیے بسا اوقات درختوں کی پتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں جس سے ہونٹوں میں ورم آگیا تھا مجبورا ً اونٹوں کو قلت کے باوجود ذبح کرنا پڑا، تاکہ اس کے معدے اور آنتوں کے اندر جمع شدہ پانی اور تری پی جاسکے۔ اسی لیے اس کا نام جیشِ عُسرت (تنگی کا لشکر ) پڑگیا۔

تبوک کی راہ میں لشکر کا گزر حِجر یعنی دیار ثمود سے ہوا۔ ثمود وہ قوم تھی جس نے وادیٔ القریٰ کے اندر چٹانیں تراش تراش کر مکانات بنائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہاں کے کنویں سے پانی لے لیا تھا، لیکن جب چلنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم یہاں کا پانی نہ پینا اور اس سے نماز کے لیے وضو نہ کرنا۔ اور جو آٹا تم لوگوں نے گوندھ رکھا ہے اسے جانوروں کو کھلا دو ، خود نہ کھاؤ۔ آپﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ لوگ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔

صحیحین میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ حِجر (دیارِ ثمود ) سے گزرے تو فرمایا:

ان ظالموں کی جائے سکونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر بھی وہی مصیبت نہ آن پڑے جو ان پر آئی تھی۔ ہاں مگر روتے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل کر وادی پار کرگئے۔ ( صحیح بخاری باب نزول النبیﷺ الحجر ۲/۶۳۷)

راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے شکوہ کیا۔ آپﷺ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔
رئیس المنافقین عبدﷲ بن اُبی بن سلول ایک گروہ لے کر آپﷺ کے ہمراہ ہوگیا؛ لیکن تھوڑی دور چل کر معہ اپنے ہمراہیوں کے واپس چلاگیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 261 اسلامی لشکر تبوک کی راہ میں: اس دھوم دھام جوش وخروش اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگی...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 260


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 260

مخلصین کا جذبۂ ایثار:

موسم سخت تھا اور قحط کا زمانہ تھا، حنین اور طائف کے میدانوں سے لوٹ کر آئے ہوئے کچھ زیادہ مدت نہیں گزری تھی، پھر مقابلہ بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے تھا جس کی حدیں عرب سے قسطنطنیہ تک وسیع تھیں مگر مخلص مسلمانوں نے جیسے ہی حضور اکرم ﷺ کی زبانِ مبارک سے جہاد میں شرکت کا پیام سنا تو مدینہ منورہ کی فضا لبیک یا رسول ﷲ کی صداؤں سے گونج اُٹھی، جوانوں، بوڑھوں، بیماروں ، تندرستوں ، سواروں اور پیدلوں کے قافلے کے قافلے آنے شروع ہوگئے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جونہی رسول اللہﷺ کا ارشاد سنا کہ آپﷺ رومیوں سے جنگ کی دعوت دے رہے ہیں، جھٹ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑے۔ اور پوری تیز رفتاری سے لڑائی کی تیاری شروع کردی۔ قبیلے اور برادریاں ہر چہار جانب سے مدینہ میں اترنا شروع ہوگئیں اور سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری تھی، کسی مسلمان نے اس غزوے سے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا۔ البتہ تین مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں کہ صحیح الایمان ہونے کے باوجود انہوں نے غزوے میں شرکت نہ کی۔ حالت یہ تھی کہ حاجت مند اور فاقہ مست لوگ آتے، اور رسول اللہﷺ سے درخواست کرتے کہ ان کے لیے سواری فراہم کردیں۔ تاکہ وہ بھی رومیوں سے ہونے والی اس جنگ میں شرکت کرسکیں۔ اور جب آپﷺ ان سے معذرت کرتے کہ :

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ (۹: ۹۲)

''میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوتے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں۔''

اسی طرح مسلمانوں نے صدقہ وخیرات کرنے میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ملک شام کے لیے ایک قافلہ تیار کیا تھا۔ جس میں پالان اور کجاوے سمیت دوسو اونٹ تھے اور دو سو اوقیہ (تقریبا ًساڑھے انتیس کلو ) چاندی تھی۔ آپ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کیا۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار (تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) لے آئے اور انہیں نبیﷺ کی آغوش میں بکھیردیا۔ رسول اللہﷺ انہیں الٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے پھر صدقہ کیا ، اور صدقہ کیا ، یہاں تک کہ ان کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نوسو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جا پہنچی۔(جامع ترمذی : مناقب عثمان بن عفان)

ادھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ دوسو اوقیہ (تقریباً ساڑھے ۲۹ کلو ) چاندی لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال حاضرِ خدمت کردیا۔ اور بال بچوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے سوا کچھ نہ چھوڑا۔ ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور سب سے پہلے یہی اپنا صدقہ لے کر تشریف لائے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال خیرات کیا۔ حضرت عباسؓ بہت سا مال لائے۔ حضرت طلحہ ، سعد بن عبادہ اور محمد بن مسلمہ بھی کافی مال لائے۔ حضرت عاصم بن عدیؓ نوے وسق (یعنی ساڑھے تیرہ ہزار کلو ،ساڑھے ۱۳ ٹن ) کھجور لے کر آئے۔ بقیہ صحابہ بھی پے در پے اپنے تھوڑے زیادہ صدقات لے آئے، یہاں تک کہ کسی کسی نے ایک مُد یا دومد صدقہ کیا کہ وہ اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ عورتوں نے بھی ہار، بازو بند ، پازیب ، بالی اور انگوٹھی وغیرہ جو کچھ ہوسکا آپﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ کسی نے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا، اور بخل سے کام نہ لیا۔ صرف منافقین تھے جو صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں پر طعنہ زنی کرتے تھے ، (کہ یہ ریا کارہے) اور جن کے پاس اپنی مشقت کے سوا کچھ نہ تھا ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (کہ یہ ایک دو مد کھجور سے قیصر کی مملکت فتح کرنے اٹھے ہیں)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 260 مخلصین کا جذبۂ ایثار: موسم سخت تھا اور قحط کا زمانہ تھا، حنین اور طائف کے میدانوں سے لوٹ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 259


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 258

رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم:

رسول اللہﷺ حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقتِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپﷺ سمجھ رہے تھے کہ اگر آپﷺ نے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میں کاہلی اور سستی سے کام لیا، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردشِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپ نے اور آپ کے صحابۂ کرام نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔

رسول اللہﷺ ان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپﷺ نے طے کیا کہ رومیوں کو دارالاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔

جب ہرقل کے عظیم لشکر کے مسلمانوں پر حملہ کی خبریں تمام عرب میں پھیل گئیں اور قرائن اس قدر قوی تھے کہ انہیں غلط سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں رہی، حضور اکرم ﷺ نے فوج کی تیاری کا حکم دے دیا، سوئے اتفاق یہ کہ ملک میں اس وقت قحط سالی پھیلی ہوئی تھی اور شدت کی گرمی کا زمانہ تھا، ان حالات میں منافقین کی ایک جماعت کے لوگ جو بظاہر خود کو مسلمان کہتے تھے لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس شدت کی گرمی میں نہ نکلو، وہ خود بھی شرکت سے جی چراتے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے، چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

(ترجمہ)

" اور انہوں نے کہا گرمی میں جنگ کے لئے نہ نکلو، آپﷺ کہہ دیجیے جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے اگر وہ سمجھیں تو کم ہنسیں اور زیادہ روئیں، ان کرتوت کے بدلے میں جو وہ کرتے ہیں"
(سورہ توبہ : ۸۲)

آپﷺ کا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورتِ حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپﷺ نے صاف صاف اعلان فرما دیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی۔ اور جنگ ہی پر ابھارنے کے لیے سورۂ توبہ کا بھی ایک ٹکڑا نازل ہوا۔ ساتھ ہی آپﷺ نے صدقہ وخیرات کر نے کی فضیلت بیان کی اور اللہ کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ کر نے کی رغبت دلائی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 258 رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم: رسول اللہﷺ حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقتِ نظر سے فرم...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 258


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 257

مسجد ضرار:

اپنے ان ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لئے ایک جگہ کا تعین کرکے منافقین نے مسجد کی شکل کا ایک ڈھانچہ تیار کیا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:

یارسول ﷲ! ہم لوگوں نے بیماروں اور محتاجوں کے لئے نیز بارش اور سردی کی راتوں میں نماز کے لئے ایک مسجد بنائی ہے، ہماری خواہش ہے کہ آپ ﷺ اس مسجد میں تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں، اس درخواست کے پسِ پشت منافقین کا یہ مقصد تھا کہ حضور ﷺ کے وہاں نماز پڑھنے کے بعد مسلمان اس میں آتے جاتے رہیں گے اور ان کے سایہ تلے منافقین اپنے ہمنواؤں کو اس جگہ محفوظ رکھ سکیں گے۔

چونکہ حضور اکرم ﷺ اس وقت غسّانیوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لئے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جنگ سے واپسی کے بعد وہاں نماز ادا فرمائیں گے، حضور ﷺ کے اس جواب نے منافقین کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، ابن ہشام کے مطابق جن لوگوں نے یہ مسجد بنائی تھی وہ بارہ اشخاص تھے، جن کے نام یہ ہیں:

۱) خذام بن خالد۔ یہ بنو عبید بن زید کی شاخ بنو عمر و بن عوف کا ایک فرد تھا، اس کے گھر کے ایک حصہ میں یہ مسجد بنائی گئی تھی۔
۲) ثعلبہ بن حاطب بنو اُمیہ بن زید کا آدمی تھا،
۳) معتب بن قشیر بنوضبیعہ بن زید سے تھا،
۴) ابوحبیبہ بن ازعر بنوضبیعہ بن زید سے تھا،
۵) عباد بن حنیف اخو سہل بن حنیف بن عمرو بن عوف سے تھا،
۶) جاریہ بن عامراور اس کے دو بیٹے،
۷) مجمع بن جاریہ
۸) زید بن جاریہ
۹) نبتل بن حارث بنوضبیعہ بن زید سے تھا،
۱۰) یخرج بنوضبیعہ بن زید سے تھا،
۱۱) بجاد بن عثمان بنوضبیعہ بن زید سے تھا،
۱۲) ودیعہ بن ثابت بنو اُمیہ بن زید سے تھا،
(ابن ہشام)

(ترجمہ)

" اور انہوں نے کہا گرمی میں جنگ کے لئے نہ نکلو، آپ ﷺ کہہ دیجیے! جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے، اگر وہ سمجھیں تو کم ہنسیں اور زیادہ روئیں، ان کرتوت کے بدلے میں جو وہ کرتے ہیں۔'' (سورہ توبہ : ۸۲)

رسول ﷲ ﷺ کو خبر ملی کہ کچھ منافقین سویلم یہودی کے گھر میں جمع ہوکر غزوۂ تبوک میں شرکت کرنے سے لوگوں کو منع کررہے ہیں، آپ ﷺ نے طلحہؓ بن عبیدﷲ کو چند صحابہ کے ساتھ ان کی طرف بھیجا اور حکم دیا کہ سویلم کا گھر مع ان لوگوں کے جلادیں، طلحہؓ نے ایسا ہی کیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 257 مسجد ضرار: اپنے ان ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لئے ایک ج...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 257


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 256

غزوہ تبوک - سبب:

غزوۂ فتح مکہ، حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا، اس معرکے کے بعد اہلِ عرب کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی رسالت میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا، اسی لیے حالات کی رفتار یکسر بدل گئی اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئے، اس کا کچھ اندازہ ان تفصیلات سے لگ سکے گا جنہیں ہم وفود کے باب میں پیش کریں گے اور کچھ اندازہ اس تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو حجۃ الوداع میں حاضر ہوئی تھی، بہرحال اب اندرونی مشکلات کا تقریباً خاتمہ ہوچکا تھا اور مسلمان شریعتِ الٰہی کی تعلیم عام کرنے اور اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے یکسو ہوگئے تھے، اب ایک ایسی طاقت کا رُخ مدینہ کی طرف ہوچکا تھا جو کسی وجہ جواز کے بغیر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی، یہ طاقت رومیوں کی تھی جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی قوت کی حیثیت رکھتی تھی۔

حضور اکرم ﷺ نے تبلیغ اسلام کے لئے جو خطوط بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کے نام بھیجے تھے اُن میں ایک خط شہنشاہ روم کے نام بھی تھا، قیصرِ روم نے حضور ﷺ اور مسلمانوں سے متعلق حالات معلوم کروائے تھے اور اسے یقین ہوگیا تھا کہ حضور اکرم ﷺ ﷲ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں، مگر جب آپ ﷺ کا نامِ مبارک دیکھا جس میں دعوتِ اسلام دی گئی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ اسلام اور سلطنت میں سے اُسے کسی ایک چیز ہی کو منتخب کرنا پڑے گا تو اُس نے سلطنت کو ترجیح دی، اُسی زمانے میں حضور اکرم ﷺ نے ایک خط شام کے شاہِ غسّان کے نام بھی بھیجا تھا جس میں اُسے اسلام کی دعوت دی گئی تھی، لیکن شام کی سرحد پر وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمرو غسّانی نے حضور اکرم ﷺ کے قاصد حضرت حارثؓ بن عُمیر ازدی کو قتل کردیا تھا، سفیر کا قتل ایک بڑا جرم تھا جس کی تنبیہ کے لئے حضور اکرم ﷺ نے تین ہزار صحابہ کرامؓ کی ایک جمعیت کو سرحدِ شام کی طرف روانہ کیا تھا، شرحبیل بھی اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے ایک لاکھ شامی اور رُومی سپاہیوں کی فوج لے کر میدان میں آگیا تھا، نبی ﷺ نے اس کے بعد حضرت زید بن حارثہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجا تھا جس نے رومیوں سے سر زمین موتہ میں خوفناک ٹکر لی، مگر یہ لشکر ان متکبر ظالموں سے انتقام لینے میں کامیاب نہ ہوا، البتہ اس نے دور ونزدیک کے عرب باشندوں پر نہایت بہترین اثر ات چھوڑے۔

قیصر روم ان اثرات کو اور ان کے نتیجے میں عرب قبائل کے اندر روم سے آزادی اور مسلمانوں کی ہم نوائی کے لیے پیدا ہونے والے جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا، اس کے لیے یقینا یہ ایک ''خطرہ '' تھا جو قدم بہ قدم اس کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا اور عرب سے ملی ہوئی سر حد شام کے لیے چیلنج بنتا جارہا تھا، اس لیے قیصر نے سوچا کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک عظیم اور ناقابل شکست خطرے کی صورت اختیار کرنے سے پہلے پہلے کچل دینا ضروری ہے تاکہ روم سے متصل عرب علاقوں میں ''فتنے'' اور ''ہنگامے'' سر نہ اٹھا سکیں۔

ان مصلحتوں کے پیش نظر ابھی جنگِ موتہ پر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ قیصر نے رومی باشندوں اور اپنے ماتحت عربوں یعنی آلِ غسان وغیرہ پر مشتمل فوج کی فراہمی شروع کردی اور ایک خونریز اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری میں لگ گیا۔

روم وغَسّان کی تیاریوں کی عام خبریں:

ادھر مدینہ میں پے در پے خبریں پہنچ رہی تھیں کہ روم مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمہ وقت کھٹکا لگا رہتا تھا اور ان کے کان کسی بھی غیر مُعتاد آواز کو سن کر فوراً کھڑے ہوجاتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ رومیوں کا ریلا آگیا۔

ان حالات اور خبروں کا مسلمان سامنا کر ہی رہے تھے کہ انہیں اچانک ملک شام سے تیل لے کر آنے والے نبطیوں (نابت بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل، جنہیں ایک وقت پٹرا اور شمالی حجاز میں بڑا عروج حاصل تھا۔ زوال کے بعد رفتہ رفتہ یہ لوگ معمولی کسانوں اور تاجروں کے درجہ میں آگئے) سے معلوم ہوا کہ ہرقل نے چالیس ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا ہے اور روم کے ایک عظیم کمانڈر کو اس کی کمان سونپی ہے، اپنے جھنڈے تلے عیسائی لخم وجذام وغیرہ کو بھی جمع کرلیا ہے اور ان کا ہراول دستہ بلقاء پہنچ چکا ہے، اس طرح ایک بڑا خطرہ مجسم ہوکر مسلمانوں کے سامنے آگیا۔

پھر جس بات سے صورت حال کی نزاکت میں مزید اضافہ ہورہا تھا وہ یہ تھی کہ زمانہ سخت گرمی کا تھا، لوگ تنگی اور قحط سالی کی آزمائش سے دوچار تھے، سواریاں کم تھیں، پھل پک چکے تھے، اس لیے لوگ پھل اور سائے میں رہنا چاہتے تھے، وہ فی الفور روانگی نہ چاہتے تھے، ان سب پر مستزاد مسافت کی دوری اور راستے کی پیچیدگی اور دشواری تھی۔

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 256 غزوہ تبوک - سبب: غزوۂ فتح مکہ، حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا، اس معرکے کے بعد ا...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 256


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 255

حضرت عدیؓ بن حاتم کا ایمان لانا:

عدی بن حاتم کے ایمان لانے کا واقعہ ابن ہشام نے تفصیل سے لکھا ہے، اس کے بیان کے مطابق عدی کو آنحضرت ﷺ سے سخت نفرت تھی، وہ سردار قبیلہ تھے اور اپنی قوم کے ساتھ مرباع نامی مقام پر رہتے تھے، انہوں نے اپنے غلام چرواہے سے کہہ رکھا تھا کہ محمد ( ﷺ) کا لشکر آئے تو اطلاع دینا، جب وہ دن آ گیا تو انہوں نے اپنے متعلقین کو تیز رو سانڈنیوں پر سوار کیا اور عیسائیوں کے پاس ملک شام چلے گئے کیونکہ وہ خود بھی عیسائی تھے، ان کی بہن سفانہ پیچھے رہ گئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئی اور مدینہ روانہ کر دی گئی، ایک دن ان قیدیوں کی طرف حضور اکرم ﷺ کا گزر ہوا تو سفانہ نے عرض کیا:

" میں بڑے باپ کی بیٹی ہوں چھڑانے والا بھاگ گیا، آپ مجھ پر احسان فرما کر چھوڑ دیجئے۔ "

حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: تمہارا چھڑانے والا کو ن ہے؟ عرض کیا: عدی بن حاتم۔

آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جو اللہ اور رسول سے بھاگنے والا ہے، دو دن اسی طرح گزر گئے، تیسرے دن حضور ﷺ تشریف لائے، حضرت علیؓ بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے کھڑے ہوکر بات کرنے کے لئے کہا، چنانچہ سفانہ نے پھر وہی درخواست کی جسے سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ:

" میں نے احسان کیا اور تجھے آزاد کر دیا، لیکن جانے میں جلدی نہ کر، تیری قوم کا کوئی قابل اعتبار آدمی ملے تو اس کے ساتھ چلی جانا "

اتفاق سے قبیلہ قضاعہ کا ایک قافلہ مل گیا جو شام جارہا تھا، سفانہ نے اپنے بھائی عدی کے پاس جانے کا ارادہ ظاہر کیا، حضور ﷺ نے سواری خرچ اور کپڑے عطا فرمائے، اس طرح وہ اپنے بھائی عدی کے پاس پہنچی اور وہاں جاکر ان سے نہایت سخت سست الفاظ میں کہا کہ تم توصرف اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے آئے اور اپنی بہن کو تنہا چھوڑ دیئے، بہن کے ملامت کرنے پر عدی نادم ہوئے اور بہن سے مشورہ طلب کئے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ سفانہ نے کہا کہ اگر تمہیں اپنے قبیلہ کی سلامتی منظور ہے تو فوراً حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ جو تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔

چنانچہ حضرت عدی مدینہ گئے اور مسجد نبوی میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور ﷺ نے پوچھا کون ہو؟ عرض کیا: عدی بن حاتم۔ یہ سن کر حضور ﷺ انہیں اپنے گھر لے گئے، گھر جاتے ہوئے راستہ میں ایک بوڑھی عورت نے حضور ﷺ کو روک کر بڑی دیر تک اپنا حال سنایا اور آپ ﷺ سنتے رہے اور پھر اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت عدی کو ایک چمڑے کے گدے پر اصرار کرکے بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئے، حضرت عدی نے دل میں خیال کیا کہ یہ عمل بادشاہوں جیسا نہیں۔

اس کے بعد حضور ﷺ نے حضرت عدی کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جس پر عدی ؓ نے کہا کہ وہ ایک دین کے ماننے والے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: " میں تمہارے دین کو تم سے بہترجانتا ہوں۔" حضرت عدی نے پوچھا: وہ کس طرح؟ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تو اپنی قوم کا سردار نہیں اور کیا تو لوٹ کے مال میں سے چوتھائی حصہ وصول نہیں کرتا؟ حضرت عدی نے کہا: " برابر لیتا ہوں " حضور ﷺ نے فرمایا: " تمہارے دین میں یہ حلال نہیں ہے۔" حضرت عدی خاموش ہوگئے اور دل میں خیال کرنے لگے یہ بات صرف نبی ہی جان سکتا ہے۔

صحیح بخار ی میں حضرت عدیؓ سے مروی ہے کہ میں خدمت نبوی میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے آکر فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے آدمی نے آکر رہزنی کی شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا: عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھ لوگے کہ ہودج نشین عورت حیرہ سے چل کر آئے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے ﷲ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کروگے اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھوگے کہ آدمی چلو بھر کر سونا یا چاندی نکالے گا اور ایسے آدمی کو تلاش کرے گا جو اسے قبول کرلے تو کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے گا۔

یہ سن کر حضرت عدی نے اسلام قبول کرلیا اور مدینہ میں ایک انصاری کے مکان میں قیام کیا اور دن میں دو بار حضور ﷺ کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔

حضرت عدیؓ بن حاتم کہتے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ کی دو پیشن گوئیاں پوری ہوتی اپنے آنکھوں سے دیکھی اور تیسری بھی پوری ہو گئی، حضرت عدیؓ فتنہ ارتداد کے زمانہ میں ثابت قدم رہے اور اپنے قبیلہ کو بھی اس فتنہ سے روکے رکھا، نہایت طویل عمر پائی اور ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 255 حضرت عدیؓ بن حاتم کا ایمان لانا: عدی بن حاتم کے ایمان لانے کا واقعہ ابن ہشام نے تفصیل سے لکھ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 255


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 255

تحصیلدارانِ زکوٰة:

فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ ۸ ھ کے اواخر میں تشریف لائے تھے، ۹ھ کا ہلالِ محرم طلوع ہوتے ہی آپ نے قبائل کے پاس زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عمال روانہ فرمائے، جن کی فہرست یہ ہے:

عُمّال کے نام ====== وہ قبیلہ جس سے زکوٰۃ وصول کرنی تھی

عُیینہ بن حصن ============ بنو تمیم
یزید بن الحصین =========== اسلم اور غفار
عباد بن بشیر اشہلی ========= سلیم اور مُزینہ
رافع بن مکیث ============= جُہَینہ
عُمرو بن العاص ============ بنو فزارہ
ضحاک بن سفیان =========== بنو کلاب
بشیر بن سفیان ============ بنو کعب
ابن اللُتبِیَّہ ازدی ============ بنو ذبیان
( مہاجر بن ابی امیہ ========= شہر صنعاء (ان کی موجودگی میں ان کے خلاف اسود عنسی نے
صنعاء میں خروج کیا تھا)
زیاد بن لبید =============== علاقہ حضرموت
عدی بن حاتم ============== طی ٔ اور بنو اسد
مالک بن نُوَیرہ ============== بنو حنظلہ
زبر قان بن بدر ============== بنو سعد (کی ایک شاخ)
قیس بن عاصم ============== بنو سعد (کی دوسری شاخ)
علاء بن الحضرمی ============ علاقہ بحرین
علی بن ابی طالب ============ علاقہ نجران (زکوٰۃ اور جزیہ دونوں وصول کرنے کے لیے )

واضح رہے کہ یہ سارے عمال محرم ۹ھ ہی میں روانہ نہیں کردیے گئے تھے، بلکہ بعض بعض کی روانگی خاصی تاخیر سے اس وقت عمل میں آئی تھی جب متعلقہ قبیلہ نے اسلام قبول کرلیا تھا، البتہ اس اہتمام کے ساتھ ان عمال کی روانگی کی ابتداء محرم ۹ھ میں ہوئی تھی اور اسی سے صلح حدیبیہ کے بعد اسلامی دعوت کی کامیابی کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، باقی رہا فتح مکہ کے بعد کا دور تو اس میں تو لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے۔

آنحضرت ﷺ عمال کو ہدایت فرماتے کہ لوگوں کے بڑھیا مال لینے سے پرہیز کرو اور مسلمانوں سے فرماتے کہ جب عمال تمہارے پاس آئیں تو ان کو اور اپنے مال کو آزاد چھوڑ دو، اگر انہوں نے عدل سے کام لیا تو اپنے لئے اور اگر زیادتی کی تو ان پر وبال ہوگا۔

آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ کو بنی ذبیان کا عامل مقرر فرمایا، جب وہ اپنے علاقہ جاکر لوٹ آئے تو مال زکوٰۃ علیحدہ رکھا اور کچھ حصہ اپنے لئے الگ رکھا اورعرض کیا کہ یہ مجھے ہدیتاً پیش کیا گیا ہے، جب حضور ﷺ نے یہ سنا تو منبر پر تشریف لےگئے اور بعد حمد وثناء فرمایا:

"ایک شخص آیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ ہدیہ میرے واسطے ہے، وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا، تاکہ معلوم ہوجاتا کہ اس کو کون ہدیہ دیتا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو بھی اس مال زکوٰۃ میں سے کچھ لے گاتو وہ قیامت میں اس کو اٹھاکر لائے گا، اگروہ شتر ہوگا تو بلبلائے گا، گائے ہو گی تو آواز دے گی اور اگر بکری ہو تو ممیائے گی۔"
(سیرت احمد مجتبیٰ)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 255 تحصیلدارانِ زکوٰة: فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ ۸ ھ کے اواخر میں تشریف لائے تھے، ۹ھ کا ہلالِ م...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 254


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 253

مختلف وفود کی آمد:

اس طویل اور کامیاب سفر سے واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں قدرے طویل قیام فرمایا، اس دوران آپ وفود کا استقبال فرماتے رہے، حکومت کے عُمّال بھیجتے رہے، داعیانِ دین کو روانہ فرماتے رہے اور جنہیں اللہ کے دین میں داخلے اور عرب کے اندر برپا امر واقعہ کے سامنے سپر اندازی سے انکار واستکبار تھا، انہیں سرنگوں فرماتے رہے، ان امور کا مختصر ساخاکہ پیش خدمت ہے:

وفد بنی عذرہ (صفر۹ھ):

یمن سے بنی عذرہ کا وفد آیا جس میں بارہ افراد شامل تھے، یہ لوگ حضرت رُملہ ؓ بنت حارث تجاریہ کے گھر ٹھہرائے گئے تھے، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انہو ں نے عرض کیا: آپ ﷺ سے شرف ہم کلامی حاصل کرنے والے اجنبی نہیں ہیں، ہم قُصَیْ کے بھائی بنی عذرہ ہیں، ہم وہ ہیں جن کی مدد سے قصی نے خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے نکال باہرکیا تھا، ہماری قصی سے رشتہ داریاں قائم ہیں، حضور اکرم ﷺ نے اھلاً و سہلاً (خوش آمدید) کہتے ہوئے فرمایا: تم اپنے گھر ہی میں آئے ہو، تمہیں پہچانا نہیں تھا، وہ لوگ چند دن مدینہ میں مقیم رہے اور دین کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اسلام قبول کر لیا، بوقت رخصت انہیں انعام اور تحائف دئیے گئے، ان میں سے ایک کو حضور ﷺ نے چادر اوڑھائی، حضرت زمل ؓ بن عمر کو قوم کی سرداری کا جھنڈا عطا فرمایا۔

وفد بنی کنانہ (۹ہجری)

غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت واثلہ بن الاسقع حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کئے اور حضور ﷺ کے ہمراہ نماز فجر پڑھی، جب یہ واپس اپنے وطن گئے تو باپ نے منہ پھیر لیا، لیکن بہن نے اسلام قبول کر لیا، جب وہ پھر مدینہ آئے تو اس وقت حضور ﷺ تبوک روانہ ہو چکے تھے، حضرت کعبؓ بن عجرہ انہیں ساتھ لےکر تبوک گئے، حضور ﷺ نے انہیں خالدؓ بن ولید کے ساتھ دومۃ الجندل کی مہم پر بھیج دیا۔

وفد بلی (ربیع الاول۹ہجری):

یمن کے ایک قبیلہ کا ایک وفد ماہ ربیع الاول میں حضور ﷺ کی خدمت میں آیا تھا، وفد کے افراد کی تعداد معلوم نہیں، حضرت ردیفع ؓ بن ثابت انہیں لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یہ میرے قبیلہ کے لوگ ہیں، ارشاد ہوا کہ تجھے اور تیری قوم کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں، اللہ جس کے لئے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے اسلام کی ہدایت دیتا ہے، وفد کے امیرا بو الغیابؓ نے عرض کیا کہ ہم نے بت پرستی سے توبہ کر کے اسلام قبول کرلیا ہے، جو کچھ آپ ﷺ لائے ہیں اس کی تصدیق کرتے ہیں، انہوں نے کچھ سوالات بھی کئے جن کے جوابات حضور ﷺ نے دئیے، وفد قیام گاہ پر لوٹا تو حضرت ردیفعؓ کہتے ہیں کہ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ خود کھجوریں لئے میرے گھر کی طرف آرہے ہیں، فرمایا: ان کھجوروں سے ان کی دعوت کرو، وہ تین دن ٹھہرے، حضور ﷺ نے انعام اور تحائف دے کر رخصت فرمایا۔

وفد بنی اسد بن خزیمہ (ابتداء ۹ھ):

اس وفد میں دس افراد شامل تھے، جب یہ وفد آیا تو حضور ﷺ مع صحابہؓ مسجد میں تشریف فرما تھے، حضرمی بن عامر نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ کا کوئی نمائندہ ہماری طرف نہیں آیا، پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، ہم خشک سالی کے موسم میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ہیں، اس موقع پر سورۂ حجرات کی آیت ۱۷ نازل ہوئی:

(ترجمہ ) "یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں، کہہ دو اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم سچے ہو"۔ ( سورۂ حجرات : ۱۷ )

اس وفد میں طلحہ بن خویلد بھی شامل تھا جس نے حضرت ابو بکرؓ صدیق کے دور خلافت میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 253 مختلف وفود کی آمد: اس طویل اور کامیاب سفر سے واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں قدرے طویل...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 253


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252

غزوہَ حنین پر ایک نظر:

غزوۂ حنین میں چونکہ کئی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، اس لئے قرآن کریم میں اس کا بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا، یہاں بھی مختصر طور پر ان کا ذکر کرنا مناسب ہے:

۱) پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان جب میدان جنگ میں آئیں تو انہیں تعداد کی کمی اور زیادتی کا خیال نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ ایمانی قوت اور ﷲ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے،
بدر، احد، خندق اور دوسری لڑائیوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھے، مگر ﷲ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے ان کو فتح عطا فرمائی اور ان سے کئی گنا تعداد کے دشمن ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔

حنین کی لڑائی میں معاملہ اس کے بر عکس ہوا، یہاں مسلمان اپنے دشمنوں سے تین گنا تھے، اس لئے ﷲ تعالیٰ پر جو اعتماد پہلی لڑائیوں میں تھا وہ اس لڑائی میں باقی نہ رہا، بلکہ ان کی نگاہ اپنی قوت کی طرف اٹھ گئی، چنانچہ بعض کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکل گئے کہ: "آج ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی سے مغلوب نہ ہوں گے۔" اپنے خاص بندوں کی یہ لاپرواہی ﷲ تعالیٰ کو پسند نہ آئی اور وہ ایک مرحلے پر اس لڑائی میں شکست کھاگئے اور اگر ﷲ تعالیٰ معمولی تنبیہ کے بعد ان کی مدد نہ کرتا تو العیاذ باللہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی نہ ملتا۔

۲) دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ مسلمان مصلحت وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جنگ و صلح کے اہم معاملات میں بھی غیر مسلموں کو اپنے ساتھ شریک کرسکتے ہیں، یہود مدینہ سے جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا معاہدہ اور صلح حدیبیہ میں غیر مسلم قبائل عرب کو مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوکر فریق صلح بننے کی اجازت کے واقعات گزر چکے ہیں، اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی مکّہ کے غیر مسلموں سے جانی ومالی مدد لی گئی، تاہم اس سلسلہ میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ غیر مسلموں ہی کو نہیں بلکہ کچے پکے مسلمانوں کو بھی نازک موقعوں پر آگے نہ رکھنا چاہیے۔

حنین کی لڑائی میں مکّہ کے نو مسلم اور غیر مسلم بھی مقدمۃ الجیش (لشکر کا اگلا دستہ) میں تھے، ان ہی کی کمزوری کی وجہ سے آغاز جنگ میں مسلمانوں کو شکست اٹھانی پڑی، کچھ تو اس لئے آگے آگے ہو گئے تھے کہ مسلمانوں سے اپنے اخلاص اور دوستی کا ثبوت دیں اور کچھ کے دل میں پہلے ہی چور تھا اور یہ سوچ کر آئے تھے کہ عین موقع پر لڑا ئی میں بھاگ کھڑے ہونگے، تاکہ جب بھگدڑ ہوجائے تو مسلمانوں کے قدم بھی اکھڑ جائیں اور مکّہ کی فتح کی ساری عزت کرکری ہوجائے، چنانچہ ابو سفیان نے بھاگتے ہوئے کہا: " آج مسلمانوں کے قدم سمندر سے ادھر نہ رکیں گے" اور شیبہ بن عثمان نے خود حضور اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ (ابن ہشام)

۳) تیسری بات قابلِ غور حضور اکرم ﷺ کی بہادری اور ثابت قدمی ہے، ذرا غور فرمائیے! دشمن بلندی سے تاک تاک کر تیروں کا مینہ برسا رہے ہیں، بارہ ہزار فوج تتر بتر ہوچکی ہے، صرف چند جانثار جن کی تعداد اسّی اور بعض روایتوں کے مطابق صرف تین ہی ہے باقی رہ گئے ہیں، مگر محبوب خدا ﷺ کے دل میں ذرا گھبراہٹ اور آپ ﷺ کے قدموں میں کوئی ڈگمگاہٹ نہیں، آپ ﷺ پورے سکون واطمینان کے ساتھ بیچ میدان میں پہاڑ کی طرح جمے کھڑے ہیں اور آپ ﷺ کی زبان پر یہ ترانہ ہے:

*انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب*

حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا ایساہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ ہر انسان کو اپنے انسان ہونے کا، محبوب خدا ﷺ کا دل بھی اس یقین سے لبریز تھا، پھر خوف و ہراس آپ ﷺ کے پاس کیوں پھٹکتا، آپ ﷺ اپنے چاروں طرف فرشتوں کی فوجیں دیکھ رہے تھے، پھر آپ ﷺ کے قدم کیوں ڈگمگاتے، چنانچہ تیروں کی اس دھواں دھار بارش میں آپ ﷺ اعلان فرما رہے تھے:

*" میں ﷲ کا سچا پیغمبر ہوں، اس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے اور جھوٹ بولنا سردار مکّہ عبدالمطلب کے بیٹے کے شایانِ شان بھی نہیں تو جب میں ﷲ کے کام کے لئے ﷲ کا بھیجا ہوا آیا ہوں تو مخلوق کی بڑی سی بڑی طاقت میرا کیا بگاڑ سکتی ہے "*

قرآن کریم میں ان حقیقتوں کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:

" اور اے مسلمانو! حنین کا دن یاد کرو جب تم کو اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن وہ کثرت ذرا تمہارے کام نہ آئی اور زمین میں فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ موڑ کر بھاگ گئے، تب ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر خاص اطمینان اور سکون نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتاریں جن کو تم دیکھ نہ سکتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہی کافروں کی سزاہے "

(سورہ توبہ : ۲۵، ۲۶)- (سیرت طیبہ - قاضی سجاد میرٹھی)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252 غزوہَ حنین پر ایک نظر: غزوۂ حنین میں چونکہ کئی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، اس لئے قرآن کریم میں...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252

ہوازن کے وفد کی آمد:

اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے، یہ کل چودہ آدمی تھے جن میں حضور اکرم ﷺ کا رضاعی چچا ابو زرقان بھی تھا ، اس وفد کا سربراہ زُہیر بن صُرد تھا ، وفد کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدیوں کو واپس کردیں، یہ درخواست نہایت رخت انگیز لہجہ میں کی گئی تھی، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اسلام قبول کیا، بیعت کی اور حضور اکرم ﷺ سے گفتگو کی ، رئیس وفد زُہیر بن صُرد نے عرض کیا …

یا رسول اﷲ ! آپﷺ نے جنہیں قید فرمایا ہے ان میں آپﷺ کی مائیں ، بہنیں ، پھوپھیاں اور خالائیں ہیں اور یہی قوم کی رسوائی کا سبب ہوتی ہیں، حضور اکرم ﷺ نے قبیلہ ہوازن میں ہی دودھ پیا تھا اور آپﷺ کی دایہ حضرت حلیمہؓ اسی خاندان کی بیٹی تھیں، وفد والوں نے اس تعلق کو واسطہ بناکر حضورﷺ سے درخواست کی اور کہا ! " اگر ہماری اسیر بیبیوں میں سے کسی نے حارث بن ابو شمر یا نعمان بن منزر کو اپنا دودھ پلایا ہوتا اور وہ آپﷺ ہی کی طرح ہم پر غالب آجاتا پھر ہم اس سے اپنی عورتوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو ناممکن تھا وہ ہماری استدعا کو مسترد کرتا اور آپﷺ تو دنیا بھر کے مربیوں سے بہتر ہیں"

حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا! کہ میرے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو تم دیکھ رہے ہو، مجھے سچی بات بہت پسند ہے، تم دو میں سے ایک چیز پسند کرلو، یا اسیر یا مال ، میں نے تمہارا بہت انتظار کیا؛ لیکن تم نہیں آئے ، رسول ﷲ ﷺ نے طائف سے واپس آکر ان کا دس روز سے زیادہ انتظارکیا، جب ان کو معلوم ہوگیا کہ رسول ﷲ ﷺ صرف ایک چیز لوٹائیں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے اسیروں کو پسند کرتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا! اچھا تو جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اٹھ کر کہنا کہ ہم رسول ﷲ ﷺکو مومنین کی جانب سفارشی بناتے ہیں اور مومنین کو رسول ﷲ ﷺ کی جانب سفارشی بناتے ہیں کہ آپﷺ ہمارے قیدی واپس کردیں، بعد فراغت نماز ظہر آپﷺ نے بعد حمد و ثنا لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا! 

"اما بعد… آپ کے یہ بھائی کفر سے توبہ کرکے آگئے ہیں ، میرا خیال ہے کہ میں ان کے اسیر ان کے حوالے کردوں، جو کوئی اپنی رضامندی سے ایسا کرے بہتر ہے اور جو شخص اپنے حصہ کو نہ دینا چاہے تو ہم اس کو پہلی غنیمت سے اس کا معاوضہ دے دیں گے اور وہ اپنے حصہ کو بہ خوشی دے دے، یہ سن کر لوگوں نے کہا … یا رسول ﷲ! ہماری جانیں آپﷺ پر قربان ، یہ مال کیا چیز ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ہم جان سکیں کہ آپ میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں؟ لہذا آپ لوگ جاکر اپنے نمائندوں سے مشورہ کے بعد یہ معاملہ پیش کروائیں، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور یوں آن کی آن میں چھ ہزار قیدی آزاد ہوگئے، صرف عینیہ بن حصن رہ گیا جس کے حصے میں ایک بڑھیا آئی تھی ، اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا لیکن آخر میں اس نے بھی واپس کردیا، حضور اکرم ﷺ نے قیدیوں کو آزاد ہی نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے ہر ایک کو "قبطیہ " مصری کپڑے کی پوشاک بھی عطا فرمائی۔

ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مالِ غنیمت سے فارغ ہوکر جعرانہ ہی سے عمرہ کا احرام باندھا اور مکّہ تشریف لاکر عمرہ ادا کیا، بقیہ مالِ غنیمت کو مجنّہ میں جو مرالظہران کے قریب واقع ہے محفوظ کروا دیا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت عتاب ؓ بن اسید کو مکّہ کا والی مقرر فرمایا اور ان کی معاش کے لئے روزانہ ایک درہم مقرر فرمایا ۔ (ابن ہشام)

حضرت معاذ ؓ بن جبل کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دینے کے لئے مکّہ میں رہنے کا حکم دیا اور خود مہاجرین و انصار کی معیت میں مدینہ واپس ہوئے، آپﷺ کی مدینہ کو واپسی ۲۴ذی قعدہ ۸ ہجری کو ہوئی۔

( تاریخ ابن خلدون ۲/۴۸ ، فتح مکہ ، حنین اور طائف کے ان غزوات اور ان کے دوران پیش آنے والے واقعات کے لیے دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۰۶ تا ۲۰۱ ، ابن ہشام ۲/۳۸۹ تا ۵۰۱ صحیح بخاری ، مغازی ،غزوۃ الفتح واوطاس والطائف وغیرہ ۲/۶۱۲ تا۶۲۲ ، فتح الباری ۸/۳ تا ۵۸)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252 ہوازن کے وفد کی آمد: اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے، یہ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 251


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 251

مالِ غنیمت کی تقسیم پر انصار کا حزن و اضطراب:

ابو سعیدؓ الخدری سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے قریش اور دوسرے قبائل میں تالیف قلب کے لئے مالِ غنیمت کی تقسیم کی اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار سخت ملول ہوئے اور چہ میگوئیاں کرنے لگے، ان کے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل ہی گیا کہ بخدا رسول اﷲ ﷺ اپنی قوم سے مل گئے ہیں، حضرت سعدؓ بن عبادہ انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کہا… یا رسول اﷲ ﷺ جماعت انصار آپﷺ کے اس طرز عمل سے کبیدہ خاطر ہے کہ آپﷺ نے مالِ غنیمت کو صرف اپنی قوم میں تقسیم کردیا اور دوسرے قبائل عرب میں بھی بڑے بڑے عطیے تقسیم کئے مگر قبیلہ انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہ ملا، رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا … تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟ سعد ؓ نے کہا … یارسول اﷲ! میں بھی اپنی قوم کا ہمنوا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا! اپنی قوم کو اس احاطہ میں بلا لاؤ، حضرت سعد ؓ نے جاکر انصار کو اس احاطہ میں جمع کیا، کچھ مہاجرین بھی آگئے تو انھیں داخل ہونے دیا، پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آگئے تو انہیں اندر جانے سے روک دیا، حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کے پاس آکر اطلاع دی کہ قبیلہ انصار مقررہ جگہ پر جمع ہوگیا ہے، رسول اﷲﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور انصار سے پوچھا… کیا تم نے ایسا کہا؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ہمارے سربرآوردہ لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، چند نو خیز نوجوانوں نے یہ فقرے کہے تھے ۔

صحیح بخاری باب مناقب الانصار وسیرت النبی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے جو سنا صحیح ہے، اس کے بعد آپﷺ نے ﷲ کی حمد و ثنا کی اور ایک خطبہ دیا جس کی فنِ بلاغت میں نظیر نہیں ملتی، آپﷺ نے فرمایا:

" تم کیوں اپنے دل میں رنجیدہ ہو ، کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، ﷲ نے تم کو ہدایت دی، تم غریب تھے ﷲ نے تم کو غنی کردیا، تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے ﷲ نے تم کو ایک دوسرے کا دوست بنادیا۔ انصار نے کہا… بے شک آپﷺ صحیح فرماتے ہیں، یہ ﷲ اور اس کے رسول کا احسان اور فضل ہے، رسول ﷲﷺ نے پھر کہا! تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے، انصار نے کہا… ہم کیا جواب دیں یا رسول ﷲ! ﷲاور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان اور فضل ہوا ہے، آپﷺ نے فرمایا! کیوں نہیں، اگر تم چاہو تو جواب دے سکتے ہو اور اس جواب میں تم سچے ہوگے اور میں بھی تمھاری تصدیق کروں گا، تم مجھے یہ جواب دے سکتے ہو کہ آپﷺ ہمارے پاس آئے جب کہ اوروں نے آپﷺ کی تکذیب کی تھی، ہم نے آپﷺ کی رسالت کی تصدیق کی، آپﷺ کو سب نے چھوڑ دیا تھا، ہم نے آپﷺ کی مدد کی، آپﷺ اپنے گھر سے نکال دیے گئے تھے، ہم نے آپﷺ کو پناہ دی، آپﷺ ضرورت مند تھے، ہم نے آپﷺ کی اعانت کی، اے گروہ انصار! کیا تم دنیا کی یہ حقیر شے کے لئے مجھ سے کبیدہ خاطر ہوگئے ہو؟ میں نے اس مال سے بعض لوگوں کی تالیف قلوب کرنا چاہی ہے تاکہ اسلام کی طرف سے ان کے دلوں میں کوئی کھوٹ باقی نہ رہے ، تمھارے اسلام پر مجھے پورا بھروسہ ہے، اے گروہ انصار! کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اور لوگ بکریاں اور اونٹ ہنکا کر اپنے اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمد رسول ﷲ کو اپنے گھر لے جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا، اگر تمام دنیا ایک راستہ اختیار کرے اور انصار دوسرا تو میں انصار کا راستہ اختیار کرتا، اے ﷲ! تو انصار پر رحم فرما اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل کر اور ان کی اولاد کی اولاد پر اپنی رحمت مبذول کر" (طبری)۔

رسول اللہﷺ کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ داڑ ھیاں تر ہوگئیں۔ اور کہنے لگے : ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہﷺ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ واپس ہوگئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔ (زادلمعاد)۔
(ابن ہشام ۲/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، ایسی ہی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ ۲/۶۲۰، ۶۲۱)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 251 مالِ غنیمت کی تقسیم پر انصار کا حزن و اضطراب: ابو سعیدؓ الخدری سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 250


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 250

اموالِ غنیمت کی تقسیم:

طائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑائی کا مالِ غنیمت محفوظ کردیا گیا تھا، وہاں آپ ﷺ کئی روز تک مالِ غنیمت تقسیم کئے بغیر ٹھہرے رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کا مال اور قیدی واپس کئے جائیں، لیکن تاخیر کے باوجود آپ ﷺ کے پاس کوئی نہ آیا تو آپ ﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم شروع کردی جس میں چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی تھے، حضور اکرم ﷺ نے اسلامی قانون کے مطابق کُل مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے لڑنے والوں میں بانٹ دئیے اور ایک حصہ بیت المال کے لئے روک لیا، اس پانچویں حصہ میں سے آپ ﷺ نے مکّہ اور دوسرے مقامات کے نو مسلموں کو دل کھول کر حصے دئیے۔

ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ عطا کیے، انہوں نے کہا: میرا بیٹا یزید؟ آپ ﷺ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا، انہوں نے کہا: اور میرا بیٹا معاویہ؟ آپ ﷺ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا، (یعنی تنہا ابوسفیان اور ان کے بیٹوں کو تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی)۔

حطیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دئیے گئے، اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دئیے گئے، اسی طرح صفوان بن اُمیہ کو سو اونٹ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دئیے گئے ۔ (الرحیق المختوم)

حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دئیے گئے اور کچھ مزید قرشی اور غیر قرشی رؤساء کو سو سو اونٹ دئیے گئے، کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دئیے گئے، یہاں تک کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ محمد ﷺ اس طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انہیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں، چنانچہ مال کی طلب میں بدّو آپ ﷺ پر ٹوٹ پڑے اور آپ ﷺ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کر دیا، اتفاق سے آپ ﷺ کی چادر درخت میں پھنس گئی، آپ ﷺ نے فرمایا: " لوگو! میری چادر دے دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوں گا، پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے، نہ بزدل نہ چھوٹا

اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لئے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا: " لوگو! وﷲ میرے لئے تمہارے مال فیٔ میں سے کچھ بھی نہیں حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں، صرف خُمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو حکم دیا کہ لوگوں پر مالِ غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں، انہوں نے ایسا کیا تو ایک فوجی کے حصے میں چار چار اونٹ اور چالیس چالیس بکریاں آئیں، جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں۔ (علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ سواروں کو تگنا حصہ ملتا تھا اس لئے ہر سوار کے حصے میں بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں آئیں)۔

یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی، کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راستہ سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں، اس قسم کے انسانوں کے لئے مختلف ڈھنگ کے اسبابِ کشش کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایمان سے مانوس ہوکر اس کے لئے پر جوش بن جائیں۔ (الرحیق المختوم)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 250 اموالِ غنیمت کی تقسیم: طائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 249


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 249

محاصرے کی طوالت:

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ طائف کے محاصرہ کو جب پندرہ دن گزر گئے تو آنحضرت ﷺ نے نوفل بن معاویہ سے مشورہ کیا کہ محاصرہ کو جاری رکھنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ یارسول ﷲ! ثقیف کی مثال اس لومڑی کی ہے جو اپنے بل میں چھپی بیٹھی ہو، اگر آپ ﷺ اس کے پیچھے پڑے رہیں گے اسے پکڑ لیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں تب بھی وہ آپ ﷺ کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتی۔

اسی زمانہ میں حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ کے سامنے ایک پیالہ مکھن سے بھرا ہوا پیش کیا گیا، مگر ایک مرغ نے ٹھونگ مار کر بہا دیا، آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواب کا تذکرہ فرمایا، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ میں اپنا مقصد حاصل نہ کرسکیں گے۔

محاصرہ کی طوالت کے دوران حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! اب تو ثقیف کے لئے آپ ﷺ بددعا فرمائیں، حضورﷺ نے جواب دیا: " اے عمر! مجھے ثقیف کے لئے ﷲ تعالیٰ نے بددعا کی اجازت نہیں دی"۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! جس قوم کے لئے ﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بد دعا سے روک دیا ہم اس کے مقابلہ میں اپنی جانیں کیوں گنواتے رہیں، یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عمرؓ کے ذریعہ لوگوں میں منادی کروادی کہ ہم ان شاء ﷲ کل واپس ہوں گے، لیکن یہ اعلان بعض صحابہؓ پر گراں گزرا، وہ کہنے لگے کہ ہم طائف فتح کئے بغیر واپس نہ ہونگے، اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا کل لڑائی پر چلنا ہے، چنانچہ دوسرے روز لڑائی پر گئے، لیکن دشمن کے تیروں کا نشانہ بننا پڑا اور کئی صحابہؓ زخمی ہوگئے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ہم ان شاءالله کل واپس ہونگے، یہ سن کر صحابہؓ خوش ہوگئے اور کوچ کی تیاری کرنے لگے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: کہو (ہم) لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور حمد کرنے والے ہیں، لیکن بعض صحابہؓ نے روانگی کے وقت پھر عرض کیا: یا رسول ﷲ! ثقیف کے کافروں کے لئے بددعا فرمائیں، لیکن حضور ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی:

 " اے اﷲ ثقیف کو ہدایت نصیب فرما اور انہیں میرے پاس بھیج دے

یہ دعا قبول ہوئی اور جلد ہی ثقیف کے سردار حضور اکرم ﷺ کے قدموں میں آگرے۔

واپسی:

آنحضرت ﷺ نے محاصرہ کو طول دینا پسند نہ فرمایا اس لئے کہ حُرمت والا مہینہ (ذی قعدہ) قریب آرہا تھا جس میں قتال وجہاد جائز نہیں، رسول ﷲ ﷺ طائف کا ایک مہینہ یا بیس روز تک محاصرہ کرنے کے بعد مراجعت فرمائی، جعرانہ ہوئے ہی تھے کہ ماہِ ذیقعد شروع ہوگیا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے لشکر سمیت عمرہ کا احرام باندھا، بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ طائف سے واپسی کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے ماہِ محرم ختم ہوجانے کے بعد پھر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.
(حیات محمد- محمد حسین ہیکل)

اس غزوہ میں بارہ صحابہؓ شہید ہوئے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

قریش میں سے :

۱: سعیدؓ بن عاص بن اُمیہ
۲: عرفطہؓ بن خباب حلیف بنی اُمیہ
۳: عبدﷲؓ بن ابوبکر صدیق کو تیر لگا اور وہ اس زخم کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد وفات پائے۔
۴: عبدﷲؓ بن ابی اُمیہ بن مغیرہ مخزومی (ام المومنین اُم سلمہ کے بھائی)
۵: عبدﷲؓ بن عامر بن ربیعہ حلیف بنی عدی
۶: سائبؓ بن حارث بن قیس بن عدی سہمی
۷: عبدﷲؓبن حارث (سائب کے بھائی)

بنو لیث سے :

۱: جلیحہ ؓ بن عبدﷲ۔ از بنی سعد بن لیث لیثی

خزرج میں سے :

۱: ثابتؓ بن جزع اسلمی
۲: حارث ؓ بن سہل بن ابی صعصعہ مازنی
۳: المنذر ؓ بن عبدﷲ بن عدی

اوس سے :

۱: رقیم ؓ بن ثابت بن ثعلبہ بن زید بن لوازن بن معاویہ اوسی۔

اس طرح سات قریشی، ایک لیثی، ایک اوسی اور تین خزرجی جملہ بارہ صحابہ ؓ شہید ہوئے، (سیرت النبی ، ابن کثیر)

مولف رحمتہ للعالمین نے شہدائے طائف کی تعداد ( ۳) بتلائی ہے:

ان ایام میں جب کہ طائف کا حضور اکرم ﷺ نے محاصرہ کرلیا تھا، طائف کے گردو نواح کے رہنے والے اکثر لوگ خود اور بعض وفود کی شکل میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لائے۔ (سیرت النبی- علامہ ابن خلدون)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 249 محاصرے کی طوالت: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ طائف کے محاصرہ کو جب پندرہ دن گزر گئے تو آنح...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 248


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 248

غزوہَ طائف:

یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے، کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے حنین سے فارغ ہوکر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال ۸ ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔

طائف نہایت مضبوط مقام تھا جس کے گرد شہر پناہ کے طور پر چار دیواری بنائی گئی تھی، یہاں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا جو نہایت بہادر، تمام عرب میں ممتاز اور قریش کا گویا ہمسر تھا، عروہ بن مسعود یہاں کا سردار تھا، ابو سفیان کی لڑکی اس سے بیاہی گئی تھی، کفار مکہ کہتے تھے کہ قرآن اگر اترتا تو مکہ یا طائف کے رؤساء پر اترتا، یہاں کے لوگ فن جنگ سے بھی واقف تھے، طبری اور ابن اسحٰق نے لکھا ہے کہ عروہ بن مسعود اور غیلان بن سلمہ نے جرش (یمن کا ایک ضلع) میں جاکر قلعہ شکن آلات یعنی دبابہ، صنّور اور منجنیق کے بنانے اور استعمال کرنے کا فن سیکھا تھا۔(طبری - سیرت النبی)

اہلِ شہر اور حنین کی شکست خوردہ فوج نے قلعہ کی مرمت کی، سال بھر کا رسد کا سامان جمع کیا اور مسلمانوں سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کیں، حنین کی فوجوں کا سپہ سالار مالک بن عوف نضری بھی شکست کے بعد یہیں آکر قلعہ میں محصور ہوگیا تھا۔

آنحضرت ﷺ نے حنین کے مال غنیمت اور اسیران جنگ کے متعلق حکم دیا کہ جعرانہ میں محفوظ رکھے جائیں اور خود اسی ماہ شوال ۸ھ میں طائف کے لئے روانہ ہوئے، حضرت خالدؓ مقدمتہ الجیش کے طور پر پہلے روانہ کردیئے گئے تھے، اُمہات المومنین میں حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت زینبؓ ساتھ تھیں، راستہ میں نخلۂ یمانیہ، پھر قرن منازل، پھر لیہ سے گزر ہوا، لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا، آپ نے اسے منہدم کروا دیا، پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کرلیا۔

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ طائف کی طرف جاتے ہوئے ایک قبر کے پاس سے گزرے، حضور ﷺ نے فرمایا یہ ابو رغال کی قبر ہے جو ثقیف کا والد ثمودی تھا، حرم میں رہائش کی وجہ سے عذاب سے محفوظ رہا، حرم سے باہر نکلا تو اس کو بھی اسی مقام میں وہی عذاب پہنچا جو اس کی قوم کو لاحق ہوا تھا اور یہاں دفن ہوا، اس بات کے صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ طلائی چھڑی بھی دفن ہوئی، اگر تم اس کو کھود ڈالو تو وہ حاصل کرسکتے ہو، لوگوں نے جلد ہی قبر کھود ڈالی اور طلائی چھڑی نکال لی۔
(سیرت النبی- ابن کثیر)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 248 غزوہَ طائف: یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے، کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 247


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 247

دشمن کو شکستِ فاش:

مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گزری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی، ثقیف کے تقریباً ستر آدمی قتل کیے گئے اور ان کے پاس جوکچھ مال، ہتھیار، عورتیں اور بچے تھے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہی وہ تغیر ہے جس کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس قول میں ارشاد فرمایا ہے :

''اور(اللہ نے ) حنین کے دن (تمہاری مدد کی) جب تمہیں تمہاری کثرت نے غرور میں ڈال دیا تھا، پس وہ تمہارے کچھ کا م نہ آئی اور زمین کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نے نہیں دیکھا اور کفر کرنے والوں کو سزا دی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔''

شکست کھانے کے بعد دشمن کے ایک گروہ نے طائف کا رخ کیا، ایک نخلہ کی طرف بھاگا اور ایک نے اوطاس کی راہ لی۔

رسول اللہﷺ نے ابو عامر اشعریؓ کی سرکردگی میں تعاقب کرنے والوں کی ایک جماعت اوطاس کی طرف روانہ کی، فریقین میں تھوڑی سی جھڑپ ہوئی، اس کے بعد مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے، البتہ اسی جھڑپ میں اس دستے کے کمانڈر ابو عامر اشعریؓ شہید ہوگئے۔

مسلمان شہسواروں کی ایک دوسری جماعت نے نخلہ کی طرف پسپا ہونے والے مشرکین کا تعاقب کیا اور دُرید بن صمہ کو جا پکڑا، جسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کردیا۔

شکست کھا کر مالک بن عوف میدان سے فرار ہوا اور اثنائے راہ میں ایک گھاٹی میں وہ اپنے ہم قوم سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ رکا اور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ تم ذرا توقف کرو تاکہ ہم میں جو کمزور ہیں وہ اس مقام سے گزر جائیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی آملیں، یہ اتنی دیر وہاں ٹھہر گیا جتنی دیر کہ اس کی فوج کی شکست خوردہ جماعتیں جو اس کے پاس آگئی تھیں گھاٹی سے گزر گئیں۔ (طبری)

شکست خوردہ مشرکین کے تیسرے اور سب سے بڑے گروہ کے تعاقب میں جس نے طائف کی راہ لی تھی، خود رسول اللہ ﷺ مال غنیمت جمع فرمانے کے بعد ان کی طرف روانہ ہوئے، مالِ غنیمت یہ تھا۔

قیدی چھ ہزار، اونٹ چوبیس ہزار، بکری چالیس ہزار سے زیادہ، چاندی چار ہزار اوقِیہ (یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم، جس کی مقدار چھ کوئنٹل سے چند ہی کلو کم ہوتی ہے )

رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا، پھر اسے جِعرانہ میں روک کر حضرت مسعود بن عمرو غفاریؓ کی نگرانی میں دے دیا اور جب تک غزوہ طائف سے فارغ نہ ہوگئے اسے تقسیم نہ فرمایا۔

قیدیوں میں شیماء بنت حارث سعدیہ بھی تھیں جو رسول اللہﷺ کی رضاعی بہن تھیں، جب انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا اور انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک علامت کے ذریعہ پہچان لیا، پھر ان کی بڑی قدر وعزت کی، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا اور احسان فرماتے ہوئے انہیں ان کی قوم میں واپس کردیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 247 دشمن کو شکستِ فاش: مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گزری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی، ثقیف کے...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 246


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 246

اسلامی لشکر پر تیر اندازوں کا اچانک حملہ:

اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات ۱۰/شوال کو حنین پہنچا، لیکن مالک بن عوف یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر اسے راستوں، گزرگاہوں، گھاٹیوں، پوشیدہ جگہوں اور درّوں میں پھیلا اور چھپا چکا تھا اور اسے یہ حکم دے چکا تھا مسلمان جونہی نمودار ہوں انہیں تیروں سے چھلنی کردینا، پھر ان پر ایک آدمی کی طرح ٹوٹ پڑنا۔

ادھر سحر کے وقت رسول اللہ ﷺ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے پھر صبح کے جھٹپٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا، وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے، انہیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے تنگ دروں کے اندر ثقیف وہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں، اس لیے وہ بے خبری کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اُتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی، پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پَرے کے پَرے فردِ واحد کی طرح ٹوٹ پڑے (اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف تاک نہ رہا تھا، بالکل فاش شکست تھی، یہاں تک کہ ابو سفیان بن حرب نے جو ابھی نیا نیا مسلمان تھا، کہا: اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے چیخ کر کہا: دیکھو! آج سحر باطل ہوگیا، کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا: " تیرے منہ میں آگ پڑے، بخدا مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مردِ قریش کی فرمانروائی زیادہ محبوب ہے۔" (بہ اضافہ: اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے) ( اصابہ بن حجر - حیات محمد)

بہرحال جب بھگدڑ مچی تو رسول اللہ ﷺ نے دائیں طرف ہوکر پکارا:

لوگو! میری طرف آؤ میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں۔

اس وقت اس جگہ آپ ﷺ کے ساتھ چند مہاجرین اور اہلِ خاندان کے سوا کوئی نہ تھا، ابن اسحاق کے بقول ان کی تعداد نو یا دس تھی، نووی کا ارشاد ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ بارہ آدمی ثابت قدم رہے، امام احمد اور حاکم (مستدرک ۲/۱۱۷) نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ میں حنین کے روز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے، مگر آپ ﷺ کے ساتھ اسی مہاجرین وانصار ثابت قدم رہے، ہم اپنے قدموں پر (پیدل) تھے اور ہم نے پیٹھ نہیں پھیری۔ ترمذی نے بہ حسن، ابن عمر کی حدیث روایت کی ہے، ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے لوگوں کو حنین کے روز دیکھا کہ انہوں نے پیٹھ پھیر لی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سو آدمی بھی نہیں۔( فتح الباری ۸/۲۹ ،۳۰) نیزدیکھئے: مسند ابی یعلی ۳/۳۸۸، ۳۸۹)

ان نازک ترین لمحات میں رسول اللہ ﷺ کی بے نظیر شجاعت کا ظہور ہوا۔ یعنی اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپ ﷺ کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپ ﷺ پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے:

أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب

''میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔''

لیکن اس وقت ابو سفیان بن حارثؓ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت عباسؓ نے رکاب تھام لی تھی، دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے، اس کے بعد آپ ﷺ اتر پڑے اپنے رب سے مدد کی دعا فرمائی:

اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو جن کی آواز خاصی بلند تھی، حکم دیا کہ صحابہ کرام کو پکاریں، حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت بلند آواز سے پکارا:

درخت والو...! (بیعت رضوان والو...!) کہاں ہو؟ واللہ! وہ لوگ میری آواز سن کر اس طرح مڑے جیسے گائے اپنے بچوں پر مڑتی ہے اور جواباً کہا: ہاں ہاں آئے آئے۔ (صحیح مسلم ۲/۱۰۰)*

حالت یہ تھی کہ آدمی اپنے اونٹ کو موڑنے کی کوشش کرتا اور نہ موڑ پاتا تو اپنی زرہ اس کی گردن میں ڈال پھینکتا اور اپنی تلوار اور ڈھال سنبھال کر اونٹ سے کود جاتا اور اونٹ کو چھوڑ چھاڑ کر آواز کی جانب دوڑتا، اس طرح جب آپ ﷺ کے پاس سو آدمی جمع ہوگئے تو انہوں نے دشمن کا استقبال کیا اور لڑائی شروع کردی۔

اس کے بعد انصار کی پکار شروع ہوئی، او انصاریو! او انصاریو! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی، ادھر مسلمان دستوں نے جس رفتار سے میدان چھوڑا تھا اسی رفتار سے ایک کے پیچھے ایک آتے چلے گئے اور دیکھتے دیکھتے فریقین میں دھواں دھار جنگ شروع ہوگئی۔

رسول اللہ ﷺ نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو گھمسان کا رن پڑ رہا تھا، فرمایا:

''اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔'' پھر آپ ﷺ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: شاھت الوجوہ ''چہرے بگڑ جائیں۔''

یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو، یعلی بن عطا نے بیان کیا کہ مجھ سے ان (مشرکین) کے بیٹوں نے اپنے اپنے والد سے بیان کیا کہ ہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی دونوں آنکھوں اور منہ میں مٹی نہ بھر گئی ہو، پھر ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک آواز مثل اس آواز کے سنی جو لوہے کے (صیقل کے لئے) نئے طشت گزرنے سے پیدا ہوتی ہے، اس کے بعد ان کی دھار کند ہوتی چلی گئی اور دشمن پشت پھیرتا چلا گیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 246 اسلامی لشکر پر تیر اندازوں کا اچانک حملہ: اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات ۱۰/شوال کو ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 245


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 245

رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے روانگی:

دشمن کی نقل و حرکت سے واقفیت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو حدردؓ اسلمی کو روانہ کیا تھا، تاکہ ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے اطلاع دیں، چنانچہ وہ وہاں جاکر واپس آئے اور دشمن کے منصوبوں کی اطلاع دی، حضور اکرم ﷺ نے مجبوراً مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں، رسد اور سامانِ جنگ کی ضرورت پیش آئی تو آپ ﷺ نے عبداﷲ بن ربیعہ سے جو ابو جہل کے بے مات بھائی تھے اور نہایت دولت مند تھے تیس ہزار درہم قرض لئے۔ (مسند ابن حنبل بحوالہ سیرت النبی)

رسول اﷲ ﷺ کو جب ہوازن و ثقیف کی پیش قدمی کی خبریں ملیں تو آپ ﷺ ۶شوال ۸ ہجری ہفتہ کو مکّہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے، آپ ﷺ کے ہمراہ بارہ ہزارکی فوج تھی جس میں دس ہزار اہلِ مدینہ تھے اور دو ہزار اہل مکّہ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، صفوان بن اُمیہ جو مکّہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہورتھا، لیکن اب تک اسلام نہیں لایا تھا، اس سے حضور اکرم ﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے، اس نے سو زرہیں اور ان کے لوازمات پیش کئے( شبلی نعمانی) اس کے بعد اس سرو سامان سے حنین کی طرف فوجیں بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ" آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے" لیکن بارگاہ ایزدی میں یہ نازش نا پسند تھی، سورۂ توبہ کی آیت ۴ میں اس کا ذکر ہے:

(ترجمہ ) " بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا نقصان پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدہ کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتاہے " ( سورہ ٔ توبہ : ۴ )

ابوسفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے، مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی، مقدمہ فوج میں گھڑ سواروں کا دستہ تھا جس کی نگرانی میں رسد کے بار بردار اونٹ بھی تھے، عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا، دوپہر میں ایک سوار نے آکر بتایا کہ میں نے فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بنو ہوازن پورے کے پورے آگئے ہیں، ان کے بال بچے اور مویشی بھی ساتھ ہیں، حضور اکرم ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: " ان شاءﷲ! یہ سب کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا" رات میں حضرت انسؓ بن ابی مرثد نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دئیے۔

حنین جاتے ہوئے راستے میں بیر کا ایک بہت بڑا سرسبز درخت نظرآیا جس کو عرب ایام جاہلیت میں ذات انواط کے نام سے یاد کرتے اور وہاں سالانہ ایک روزہ میلہ لگاتے تھے، اس پر اسلحہ لٹکاتے اور جانور ذبح کرتے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجیے جیسا کہ ان کے لئے ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس سوال سے ناراض ہوکر ارشاد فرمایا: تم نے مجھ سے ویسا ہی کہا ہے جیسا کہ قومِ موسیٰ نے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنادیجیے جیسے کہ ان کے معبود ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم لوگ ان لوگوں کا راستہ اختیار کروگے جو تم سے پیشتر گزر چکے ہیں، خبردار! ایسے خیالات کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو"۔ (سیرت النبی- ابن کثیر)

ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم اٹھائے ہوئے تھا، مہاجرین کے ہمراہ ایک لواء (چھوٹا عَلم) تھا جسے حضرت علیؓ بن ابی طالب اٹھائے ہوئے تھے اور ایک رایۃ (بڑا علم) تھا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص اٹھائے ہوئے تھے، ایک روایت میں(بڑا علم) حضرت عمرؓ بن الخطاب اٹھائے ہوئے تھے۔

خزرج کا لواء(چھوٹا جھنڈا )حضرت خباب بن المنذر اٹھائے ہوئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ خزرج کا ایک دوسرا لواء حضرت سعدؓ بن عبادہ کے ہمراہ تھا، اوس کا لواء حضرت اسیدؓ بن حضیر کے ہمراہ تھا، اوس و خزرج کے ہر بطن (شاخ قبیلہ )میں لواء یا رایۃ تھا جسے انہیں کا ایک نامزد شخص اٹھائے ہوئے تھا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 245 رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے روانگی: دشمن کی نقل و حرکت سے واقفیت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ح...