سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 246


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 246

اسلامی لشکر پر تیر اندازوں کا اچانک حملہ:

اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات ۱۰/شوال کو حنین پہنچا، لیکن مالک بن عوف یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر اسے راستوں، گزرگاہوں، گھاٹیوں، پوشیدہ جگہوں اور درّوں میں پھیلا اور چھپا چکا تھا اور اسے یہ حکم دے چکا تھا مسلمان جونہی نمودار ہوں انہیں تیروں سے چھلنی کردینا، پھر ان پر ایک آدمی کی طرح ٹوٹ پڑنا۔

ادھر سحر کے وقت رسول اللہ ﷺ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے پھر صبح کے جھٹپٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا، وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے، انہیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے تنگ دروں کے اندر ثقیف وہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں، اس لیے وہ بے خبری کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اُتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی، پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پَرے کے پَرے فردِ واحد کی طرح ٹوٹ پڑے (اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف تاک نہ رہا تھا، بالکل فاش شکست تھی، یہاں تک کہ ابو سفیان بن حرب نے جو ابھی نیا نیا مسلمان تھا، کہا: اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے چیخ کر کہا: دیکھو! آج سحر باطل ہوگیا، کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا: " تیرے منہ میں آگ پڑے، بخدا مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مردِ قریش کی فرمانروائی زیادہ محبوب ہے۔" (بہ اضافہ: اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے) ( اصابہ بن حجر - حیات محمد)

بہرحال جب بھگدڑ مچی تو رسول اللہ ﷺ نے دائیں طرف ہوکر پکارا:

لوگو! میری طرف آؤ میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں۔

اس وقت اس جگہ آپ ﷺ کے ساتھ چند مہاجرین اور اہلِ خاندان کے سوا کوئی نہ تھا، ابن اسحاق کے بقول ان کی تعداد نو یا دس تھی، نووی کا ارشاد ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ بارہ آدمی ثابت قدم رہے، امام احمد اور حاکم (مستدرک ۲/۱۱۷) نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ میں حنین کے روز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے، مگر آپ ﷺ کے ساتھ اسی مہاجرین وانصار ثابت قدم رہے، ہم اپنے قدموں پر (پیدل) تھے اور ہم نے پیٹھ نہیں پھیری۔ ترمذی نے بہ حسن، ابن عمر کی حدیث روایت کی ہے، ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے لوگوں کو حنین کے روز دیکھا کہ انہوں نے پیٹھ پھیر لی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سو آدمی بھی نہیں۔( فتح الباری ۸/۲۹ ،۳۰) نیزدیکھئے: مسند ابی یعلی ۳/۳۸۸، ۳۸۹)

ان نازک ترین لمحات میں رسول اللہ ﷺ کی بے نظیر شجاعت کا ظہور ہوا۔ یعنی اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپ ﷺ کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپ ﷺ پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے:

أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب

''میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔''

لیکن اس وقت ابو سفیان بن حارثؓ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت عباسؓ نے رکاب تھام لی تھی، دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے، اس کے بعد آپ ﷺ اتر پڑے اپنے رب سے مدد کی دعا فرمائی:

اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو جن کی آواز خاصی بلند تھی، حکم دیا کہ صحابہ کرام کو پکاریں، حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت بلند آواز سے پکارا:

درخت والو...! (بیعت رضوان والو...!) کہاں ہو؟ واللہ! وہ لوگ میری آواز سن کر اس طرح مڑے جیسے گائے اپنے بچوں پر مڑتی ہے اور جواباً کہا: ہاں ہاں آئے آئے۔ (صحیح مسلم ۲/۱۰۰)*

حالت یہ تھی کہ آدمی اپنے اونٹ کو موڑنے کی کوشش کرتا اور نہ موڑ پاتا تو اپنی زرہ اس کی گردن میں ڈال پھینکتا اور اپنی تلوار اور ڈھال سنبھال کر اونٹ سے کود جاتا اور اونٹ کو چھوڑ چھاڑ کر آواز کی جانب دوڑتا، اس طرح جب آپ ﷺ کے پاس سو آدمی جمع ہوگئے تو انہوں نے دشمن کا استقبال کیا اور لڑائی شروع کردی۔

اس کے بعد انصار کی پکار شروع ہوئی، او انصاریو! او انصاریو! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی، ادھر مسلمان دستوں نے جس رفتار سے میدان چھوڑا تھا اسی رفتار سے ایک کے پیچھے ایک آتے چلے گئے اور دیکھتے دیکھتے فریقین میں دھواں دھار جنگ شروع ہوگئی۔

رسول اللہ ﷺ نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو گھمسان کا رن پڑ رہا تھا، فرمایا:

''اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔'' پھر آپ ﷺ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: شاھت الوجوہ ''چہرے بگڑ جائیں۔''

یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو، یعلی بن عطا نے بیان کیا کہ مجھ سے ان (مشرکین) کے بیٹوں نے اپنے اپنے والد سے بیان کیا کہ ہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی دونوں آنکھوں اور منہ میں مٹی نہ بھر گئی ہو، پھر ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک آواز مثل اس آواز کے سنی جو لوہے کے (صیقل کے لئے) نئے طشت گزرنے سے پیدا ہوتی ہے، اس کے بعد ان کی دھار کند ہوتی چلی گئی اور دشمن پشت پھیرتا چلا گیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں