سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 262
اسلامی لشکر تبوک میں:
جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا : کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گے، لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئے ، یہاں تک کہ میں آجاؤں۔ حضرت معاذؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دوآدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! آپﷺ نے ان دونوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا ، فرمایا۔ پھر چشمے سے چُلّو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا۔ یہاں تک کہ قدرے جمع ہوگیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنا چہرہ اور ہاتھ دُھویا اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرام نے سیر ہوکر پانی پیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔
راستے ہی میں یا تبوک پہنچ کر... روایا ت میں اختلاف ہے ... رسول اللہﷺ نے فرمایا : آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی مضبوطی سے باندھ دے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کی بجز بنو ساعدہ کے دو آدمیوں کے جن میں سے ایک آدمی قضائے حاجت کے لئے نکلا اور دوسرا اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا، جو آدمی قضائے حاجت کے لئے نکلا تھا اسے راستہ میں خناق ہوگیا اور جو اونٹ کی تلاش میں نکلا تھا اسے ہوا نے اٹھا کر طے کے پہاڑوں پر پھینک دیا، حضور اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا! " کیا میں نے تم لوگوں کو اس سے نہ روکا تھا کہ کوئی آدمی کسی کو ہمراہ لئے بغیر نہ نکلے" پھر حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کے لئے جو خناق میں مبتلا ہوا تھا دعا کی اور وہ شفا یاب ہوگیا، جو شخص طے کے پہاڑوں میں پڑا ہوا تھا اسے حضور اکرم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد طے کے ایک آدمی نے لاکر پیش کیا. (ابن ہشام) ( مسلم عن معاذ بن جبل ۲/۲۴۶)
حجر سے آگے بڑھے تو راستہ میں آپﷺ کی اونٹنی گم ہوگئی، منافقین کو بات مل گئی، آپس میں کہنے لگے کہ محمدﷺ تو یہ دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ہم کو آسمان سے خبریں ملا کرتی ہیں، ہم آسمانی حالات کو جانتے ہیں، تعجب ہے کہ اپنی اونٹنی کا حال تک نہیں جانتے کہ وہ اس وقت کہاں ہے، حضور اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا " بخدا میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میرے رب نے جو کچھ مجھے سکھایا ہے اور اب میں بہ الہام الہیٰ کہتا ہوں کہ اونٹنی فلاں مقام پر ہے، اس کی مہار ایک درخت سے اٹک گئی ہے جس سے وہ رکی ہوئی ہے، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے ایک صحابیؓ کو بھیج کر اونٹنی کو منگوالیا، یہ بات کہنے والا منافق زید بن اللصیت قبیلہ قینقاع سے تھا، کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اس نے توبہ کرلی اور بخشی بن جہیر تائب ہوگیا تھا اور یہ دعا کی تھی کہ اس گنا ہ کے کفارے میں ایسے مقام پر شہید کیا جاؤں جہاں میرا نام و نشان نہ ملے، ﷲ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور یہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے. (سیرت النبی- ابن خلدون)
راستہ میں ایک شخص پیچھے رہنے لگا تو لوگوں نے کہا … یا رسول ﷲ ! ایک آدمی پیچھے رہ گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اگر اس میں کوئی بھلائی ہوگی تو ﷲ تعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملا دے گا اور اگر اس کے خلاف ہے تو ﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نجات دلادی، کسی نے کہا … یا رسول ﷲ! ابو ذرؓ پیچھے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اونٹ کی رفتار دھیمی کردی ہے، آپﷺ نے فرمایا! اسے جانے دو ، اگر اس میں کوئی خیر ہے تو ﷲ تعالیٰ اسے عنقریب تم لوگوں سے ملادے گا ورنہ نجات دے دے گا، اب ابو ذرؓ اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے رک گئے، اونٹ تاخیر کرنے لگا تو انہوں نے اپنا سامان لیا اور پشت پر لاد کر حضور اکرم ﷺ کے نقشِ قدم پر پیدل چلنے لگے، جب آپﷺ نے ایک منزل پر قیام کیا تو کسی نے کہا … یا رسول ﷲ! وہ شخص تو اس راستہ پر تنہا چل رہا ہے ، آپﷺ نے فرمایا! ابوذر نہ ہو؟ جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو کہا … یا رسول ﷲ ! وہ ابو ذر ہی ہیں، یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا! ﷲ تعالیٰ ابو ذر پر رحم فرمائے، ابو ذر تنہا چلے گا، تنہا مرے گا اور تنہا حشر کے دن اٹھایا جائے گا۔
حضرت عبدﷲؓ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت ابو ذرؓ مقام ربدہ میں مقیم تھے اور وہیں ان کی موت واقع ہوئی تو اس وقت ان کے پاس ان کی بیوی اور غلام کے سوا اور کوئی نہ تھا، انہوں نے بیوی اور غلام کو وصیت کی تھی کہ تم مجھے غسل دینا اور کفنانا اور عام راستہ پر رکھ دینا، پھر پہلی جماعت جو تمہارے پاس سے گزرے اس سے کہنا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں، آپ لوگ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں چنانچہ ان کی وفات کے بعد انھیں سرِ راہ رکھ دیا گیا، اہلِ عراق کے ایک گروہ کا گزر ہوا تو برسرِ راہ جنازہ دیکھا تو وہ رک گئے، اس وقت غلام نے کہا کہ یہ رسول ﷲ ﷺ کے صحابی ابو ذرؓ ہیں اس لئے آپ ان کے دفن میں ہماری مدد کریں، راوی کا یہ بیان سن کر حضرت عبدﷲؓ بن مسعود رونے لگے اور بولے رسول اکرم ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ تم تنہا چلو گے، تنہا مروگے اور حشر میں تنہا اٹھائے جاؤگے، پھر قافلہ والے ابو ذرؓ کو دفن کئے، بعد میں حضرت عبدﷲؓ بن مسعود نے اپنا یہ قصہ ان لوگوں کو بتایا اور یہ بھی کہا کہ رسول اﷲﷺ نے ان سے تبوک جاتے ہوئے یہ فرمایاتھا۔ (ابن ہشام)
=================>> جاری ہے ۔۔۔
ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں