سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 253


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 252

غزوہَ حنین پر ایک نظر:

غزوۂ حنین میں چونکہ کئی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، اس لئے قرآن کریم میں اس کا بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا، یہاں بھی مختصر طور پر ان کا ذکر کرنا مناسب ہے:

۱) پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان جب میدان جنگ میں آئیں تو انہیں تعداد کی کمی اور زیادتی کا خیال نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ ایمانی قوت اور ﷲ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے،
بدر، احد، خندق اور دوسری لڑائیوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھے، مگر ﷲ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے ان کو فتح عطا فرمائی اور ان سے کئی گنا تعداد کے دشمن ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔

حنین کی لڑائی میں معاملہ اس کے بر عکس ہوا، یہاں مسلمان اپنے دشمنوں سے تین گنا تھے، اس لئے ﷲ تعالیٰ پر جو اعتماد پہلی لڑائیوں میں تھا وہ اس لڑائی میں باقی نہ رہا، بلکہ ان کی نگاہ اپنی قوت کی طرف اٹھ گئی، چنانچہ بعض کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکل گئے کہ: "آج ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی سے مغلوب نہ ہوں گے۔" اپنے خاص بندوں کی یہ لاپرواہی ﷲ تعالیٰ کو پسند نہ آئی اور وہ ایک مرحلے پر اس لڑائی میں شکست کھاگئے اور اگر ﷲ تعالیٰ معمولی تنبیہ کے بعد ان کی مدد نہ کرتا تو العیاذ باللہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی نہ ملتا۔

۲) دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ مسلمان مصلحت وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جنگ و صلح کے اہم معاملات میں بھی غیر مسلموں کو اپنے ساتھ شریک کرسکتے ہیں، یہود مدینہ سے جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا معاہدہ اور صلح حدیبیہ میں غیر مسلم قبائل عرب کو مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوکر فریق صلح بننے کی اجازت کے واقعات گزر چکے ہیں، اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی مکّہ کے غیر مسلموں سے جانی ومالی مدد لی گئی، تاہم اس سلسلہ میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ غیر مسلموں ہی کو نہیں بلکہ کچے پکے مسلمانوں کو بھی نازک موقعوں پر آگے نہ رکھنا چاہیے۔

حنین کی لڑائی میں مکّہ کے نو مسلم اور غیر مسلم بھی مقدمۃ الجیش (لشکر کا اگلا دستہ) میں تھے، ان ہی کی کمزوری کی وجہ سے آغاز جنگ میں مسلمانوں کو شکست اٹھانی پڑی، کچھ تو اس لئے آگے آگے ہو گئے تھے کہ مسلمانوں سے اپنے اخلاص اور دوستی کا ثبوت دیں اور کچھ کے دل میں پہلے ہی چور تھا اور یہ سوچ کر آئے تھے کہ عین موقع پر لڑا ئی میں بھاگ کھڑے ہونگے، تاکہ جب بھگدڑ ہوجائے تو مسلمانوں کے قدم بھی اکھڑ جائیں اور مکّہ کی فتح کی ساری عزت کرکری ہوجائے، چنانچہ ابو سفیان نے بھاگتے ہوئے کہا: " آج مسلمانوں کے قدم سمندر سے ادھر نہ رکیں گے" اور شیبہ بن عثمان نے خود حضور اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ (ابن ہشام)

۳) تیسری بات قابلِ غور حضور اکرم ﷺ کی بہادری اور ثابت قدمی ہے، ذرا غور فرمائیے! دشمن بلندی سے تاک تاک کر تیروں کا مینہ برسا رہے ہیں، بارہ ہزار فوج تتر بتر ہوچکی ہے، صرف چند جانثار جن کی تعداد اسّی اور بعض روایتوں کے مطابق صرف تین ہی ہے باقی رہ گئے ہیں، مگر محبوب خدا ﷺ کے دل میں ذرا گھبراہٹ اور آپ ﷺ کے قدموں میں کوئی ڈگمگاہٹ نہیں، آپ ﷺ پورے سکون واطمینان کے ساتھ بیچ میدان میں پہاڑ کی طرح جمے کھڑے ہیں اور آپ ﷺ کی زبان پر یہ ترانہ ہے:

*انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب*

حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا ایساہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ ہر انسان کو اپنے انسان ہونے کا، محبوب خدا ﷺ کا دل بھی اس یقین سے لبریز تھا، پھر خوف و ہراس آپ ﷺ کے پاس کیوں پھٹکتا، آپ ﷺ اپنے چاروں طرف فرشتوں کی فوجیں دیکھ رہے تھے، پھر آپ ﷺ کے قدم کیوں ڈگمگاتے، چنانچہ تیروں کی اس دھواں دھار بارش میں آپ ﷺ اعلان فرما رہے تھے:

*" میں ﷲ کا سچا پیغمبر ہوں، اس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے اور جھوٹ بولنا سردار مکّہ عبدالمطلب کے بیٹے کے شایانِ شان بھی نہیں تو جب میں ﷲ کے کام کے لئے ﷲ کا بھیجا ہوا آیا ہوں تو مخلوق کی بڑی سی بڑی طاقت میرا کیا بگاڑ سکتی ہے "*

قرآن کریم میں ان حقیقتوں کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:

" اور اے مسلمانو! حنین کا دن یاد کرو جب تم کو اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن وہ کثرت ذرا تمہارے کام نہ آئی اور زمین میں فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ موڑ کر بھاگ گئے، تب ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر خاص اطمینان اور سکون نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتاریں جن کو تم دیکھ نہ سکتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہی کافروں کی سزاہے "

(سورہ توبہ : ۲۵، ۲۶)- (سیرت طیبہ - قاضی سجاد میرٹھی)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں