سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 251


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 251

مالِ غنیمت کی تقسیم پر انصار کا حزن و اضطراب:

ابو سعیدؓ الخدری سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے قریش اور دوسرے قبائل میں تالیف قلب کے لئے مالِ غنیمت کی تقسیم کی اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار سخت ملول ہوئے اور چہ میگوئیاں کرنے لگے، ان کے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل ہی گیا کہ بخدا رسول اﷲ ﷺ اپنی قوم سے مل گئے ہیں، حضرت سعدؓ بن عبادہ انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کہا… یا رسول اﷲ ﷺ جماعت انصار آپﷺ کے اس طرز عمل سے کبیدہ خاطر ہے کہ آپﷺ نے مالِ غنیمت کو صرف اپنی قوم میں تقسیم کردیا اور دوسرے قبائل عرب میں بھی بڑے بڑے عطیے تقسیم کئے مگر قبیلہ انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہ ملا، رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا … تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟ سعد ؓ نے کہا … یارسول اﷲ! میں بھی اپنی قوم کا ہمنوا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا! اپنی قوم کو اس احاطہ میں بلا لاؤ، حضرت سعد ؓ نے جاکر انصار کو اس احاطہ میں جمع کیا، کچھ مہاجرین بھی آگئے تو انھیں داخل ہونے دیا، پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آگئے تو انہیں اندر جانے سے روک دیا، حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کے پاس آکر اطلاع دی کہ قبیلہ انصار مقررہ جگہ پر جمع ہوگیا ہے، رسول اﷲﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور انصار سے پوچھا… کیا تم نے ایسا کہا؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ہمارے سربرآوردہ لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، چند نو خیز نوجوانوں نے یہ فقرے کہے تھے ۔

صحیح بخاری باب مناقب الانصار وسیرت النبی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے جو سنا صحیح ہے، اس کے بعد آپﷺ نے ﷲ کی حمد و ثنا کی اور ایک خطبہ دیا جس کی فنِ بلاغت میں نظیر نہیں ملتی، آپﷺ نے فرمایا:

" تم کیوں اپنے دل میں رنجیدہ ہو ، کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، ﷲ نے تم کو ہدایت دی، تم غریب تھے ﷲ نے تم کو غنی کردیا، تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے ﷲ نے تم کو ایک دوسرے کا دوست بنادیا۔ انصار نے کہا… بے شک آپﷺ صحیح فرماتے ہیں، یہ ﷲ اور اس کے رسول کا احسان اور فضل ہے، رسول ﷲﷺ نے پھر کہا! تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے، انصار نے کہا… ہم کیا جواب دیں یا رسول ﷲ! ﷲاور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان اور فضل ہوا ہے، آپﷺ نے فرمایا! کیوں نہیں، اگر تم چاہو تو جواب دے سکتے ہو اور اس جواب میں تم سچے ہوگے اور میں بھی تمھاری تصدیق کروں گا، تم مجھے یہ جواب دے سکتے ہو کہ آپﷺ ہمارے پاس آئے جب کہ اوروں نے آپﷺ کی تکذیب کی تھی، ہم نے آپﷺ کی رسالت کی تصدیق کی، آپﷺ کو سب نے چھوڑ دیا تھا، ہم نے آپﷺ کی مدد کی، آپﷺ اپنے گھر سے نکال دیے گئے تھے، ہم نے آپﷺ کو پناہ دی، آپﷺ ضرورت مند تھے، ہم نے آپﷺ کی اعانت کی، اے گروہ انصار! کیا تم دنیا کی یہ حقیر شے کے لئے مجھ سے کبیدہ خاطر ہوگئے ہو؟ میں نے اس مال سے بعض لوگوں کی تالیف قلوب کرنا چاہی ہے تاکہ اسلام کی طرف سے ان کے دلوں میں کوئی کھوٹ باقی نہ رہے ، تمھارے اسلام پر مجھے پورا بھروسہ ہے، اے گروہ انصار! کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اور لوگ بکریاں اور اونٹ ہنکا کر اپنے اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمد رسول ﷲ کو اپنے گھر لے جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا، اگر تمام دنیا ایک راستہ اختیار کرے اور انصار دوسرا تو میں انصار کا راستہ اختیار کرتا، اے ﷲ! تو انصار پر رحم فرما اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل کر اور ان کی اولاد کی اولاد پر اپنی رحمت مبذول کر" (طبری)۔

رسول اللہﷺ کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ داڑ ھیاں تر ہوگئیں۔ اور کہنے لگے : ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہﷺ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ واپس ہوگئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔ (زادلمعاد)۔
(ابن ہشام ۲/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، ایسی ہی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ ۲/۶۲۰، ۶۲۱)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں