سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 263


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 263

جنگ کی تیاریاں اور صلح:

اسلامی لشکر تبوک میں اُتر کر خیمہ زن ہوا۔ وہ رومیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اہلِ لشکر کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ خطبہ دیا۔ آپﷺ نے جوامع الکلم ارشاد فرمائے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کی رغبت دلائی۔ اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کے انعامات کی خوشخبری دی۔ اس سے فوج کا حوصلہ بلند ہوا۔ ان میں توشے، ضروریات اور سامان کی کمی کے سبب جو نقص اورخلل تھا وہ اس راہ سے پُر ہوگیا۔

دوسری طرف روم اور ان کے حلیفوں کا یہ حال ہوا، جب لشکرِ اسلام کے کوچ کے خبریں شہنشاہ روم کو پہنچیں تو وہ مرعوب ہوگیا، اس نے سوچا کہ جب موتہ کی لڑائی میں تین ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ رومیوں سے جم کر مقابلہ کیا تھا تو تیس ہزار کے لئے تو دس لاکھ فوج ہونی چاہیے، پھر اگر وہ ان غیر تربیت یافتہ عرب رضاکاروں سے شکست کھا گیا تو اس کی ساری عزت جو اس نے حال ہی میں شہنشاہ ایران کو شکست دے کر حاصل کی تھی خاک میں مل جائے گی اس لئے اس نے مناسب یہی سمجھا کہ مسلمانوں کے لشکر کے مقابلہ میں نہ آئے، چنانچہ اس نے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹ جانے کا حکم دے دیا اور وہ اندرونِ ملک مختلف شہروں میں بکھر گئے،ان کے اس طرزِ عمل کا اثر جزیرۃ العرب کے اندر اور باہر مسلمانوں کی فوجی ساکھ پر بہت عمدہ مرتّب ہوا اور مسلمانوں نے ایسے اہم سیاسی فوائد حاصل کئے کہ جنگ کی صورت میں اس کا حاصل کرنا آسان نہ تھا، سرحدِ شام کے عیسائی عرب قبیلوں کے سرداروں نے جب یہ دیکھا کہ قیصرِ روم جس کو وہ اپنا محافظ اور سرپرست سمجھتے تھے مسلمانوں کے مقابلہ سے کترا گیاہے تو انھوں نے بجائے قسطنطنیہ کے مدینہ منورہ سے اپنا تعلق قائم کرنا مناسب سمجھا۔

*تفصیل یہ ہے :*

اَیْلَہ کے حاکم یحنہ بن روبہ نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر جزیہ کی ادائیگی منظور کی اور صلح کا معاہدہ کیا۔ جَرْبَاء اور اَذرُخ کے باشندوں نے بھی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر جزیہ دینا منظور کیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی جو ان کے پاس محفوظ تھی۔ اہل ِ مقناء نے اپنے پھلوں کی چوتھائی پیداوار دینے کی شرط پر صلح کی۔ آپ نے حاکمِ اَیْلَہ کو بھی ایک تحریر لکھ دی جو یہ تھی :

*''بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ پروانہ ٔ امن ہے اللہ کی جانب سے اور نبی محمدرسول اللہ کی جانب سے۔ یحنہ بن روبہ اور باشندگان ِایلہ کے لیے۔ خشکی اور سمندر میں ان کی کشتیوں اور قافلوں کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور محمد نبی کا ذمہ ہے اور یہی ذمہ ان شامی اور سمندری باشندوں کے لیے ہے جو یحنہ کے ساتھ ہوں۔ ہاں ! اگر ان کا کوئی آدمی کوئی گڑبڑ کرے گا تو اس کا مال اس کی جان کے آگے روک نہ بن سکے گا اور جو آدمی اس کا مال لے لے گا اس کے لیے وہ حلال ہوگا۔ انہیں کسی چشمے پر اترنے اور خشکی یا سمندر کے کسی راستے پر چلنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔''*

اس کے علاوہ رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چارسو بیس سواروں کا رسالہ دے کر دومۃ ُ الجُندل کے حاکم اُکَیْدرکے پا س بھیجا۔ اور فرمایا : تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے۔ حضرت خالدؓ وہاں تشریف لے گئے۔ جب اتنے فاصلے پر رہ گئے کہ قلعہ صاف نظر آرہا تھا تو اچانک ایک نیل گائے نکلی اور قلعہ کے دروازے پر سینگ رگڑنے لگی۔ اُکَیدر اس کے شکار کو نکلا۔ چاندنی رات تھی۔ حضرت خالدؓ اور ان کے سواروں نے اسے جالیا۔ اور گرفتار کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اس کی جان بخشی کی۔ اور دوہزار اونٹ ، آٹھ سو غلام ، چار سو زِرہیں اور چار سو نیزوں کی شرط پر مصالحت فرمائی۔ اس نے جزیہ بھی دینے کا اقرار کیا۔ چنانچہ آپﷺ نے اس سے یحنہ سمیت دُومہ، تبوک ، ایلہ اور تیماء کے شرائط پر معاملہ طے کیا۔

ان حالات کو دیکھ کر وہ قبائل جو اب تک رومیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے، سمجھ گئے کہ اب اپنے ان پُرانے سرپرستوں پر اعتماد کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوکر براہِ راست رُومی سرحد سے جاملیں اور رُوم کے آلہ کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں