سیرت النبیﷺ
آپ ﷺ کا مقامِ عبدیت
حضرت فضل ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو بخار چڑھ رہا ہے، اور سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی ہے، حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرا ہاتھ پکڑ لو، میں نے ہاتھ پکڑا، حضور ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو آواز دے دو اور سب کو جمع کرو، میں نے لوگوں کو جمع کیا، حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور اس کے بعد یہ مضمون ارشاد فرمایا:
" میرا تم لوگوں کے پاس سے چلے جانے کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لئے جس کی کمر پہ میں نے مارا ہو میری کمر حاضر ہے وہ اپنا بدلہ لے سکتا ہے اور جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو وہ بھی اپنا بدلہ لے سکتا ہے، جس کا کوئی مالی مطالبہ مجھ پر ہے تو وہ بھی اپنا مطالبہ سامنے لائے، کوئی شخص یہ شک نہ کرے کہ اس کے بدلہ لینے سے میرے دل میں بغض پیدا ہو گا، کیونکہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت میں ہے اور نہ ہی میرے لئے موزوں ہے، خوب سمجھ لو! مجھے وہ شخص بہت زیادہ محبوب ہے جو اپنا حق مجھ سے وصول کرے یا معاف کر دے، کہ میں بشاشت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں اور میں اس اعلان کو ایک دفعہ کہہ دینے پر اکتفاء نہیں کرتا، دوبارہ بھی اعلان کروں گا، چنانچہ آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور وہی اعلان دوبارہ کیا اور بغض سے متعلق مضمون دوبارہ ارشاد فرمایا اور یہ فرمایا کہ جس کے ذمے کوئی حق ہےتو وہ بھی ادا کرے اور دنیا کی رسوائی کا خیال نہ کرے، کیونکہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے۔
ایک صاحب کھڑے ہو ئے اور عرض کیا کہ میرے تین درہم آپ کے ذمے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: میں نہ کسی مطالبہ کرنے والے کی تکذیب کرتا ہوں اور نہ اس کو قسم دیتا ہوں، لیکن پوچھنا چاہتا ہوں یہ تین درہم کیسے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ایک مرتبہ آپ کے پا س ایک سائل آیا تھا تو آ پ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس کو تین درہم دے دو، حضور ﷺ نے حضرت فضل ؓ سے فرمایا اس کو تین درہم دے دو، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا، اس نے کہا: میرے ذمے بیت المال کے تین درہم ہیں، میں نے خیانت سے لے لئے تھے، حضور ﷺ نے اس سے پوچھا: خیانت کیوں کی تھی؟ عرض کیا میں اس وقت بہت محتاج تھا، حضور ﷺ نے حضرت فضل سے فرمایا اس سے لے لو، اس کے بعد حضور ﷺ نے اعلان فرمایا جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، ایک صاحب اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں اور بہت سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے دعا فرمائی، یا اللہ اس کو سچائی عطا فرما، ایمان کامل عطا فرما اور نیند کی زیادتی کے مرض سے اس کو چھٹکارا عطا فرما، اس کے بعد ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جھوٹا ہوں منافق ہوں، کوئی گناہ ایسا نہیں جو میں نے نہ کیا ہو، حضرت عمر ؓ نےاس کو تنبیہ فرمائی کہ اپنے گنا ہوں کو پھیلاتے ہو، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا عمر! چپ رہو دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے کم ہے، اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، یا اللہ اس کو سچائی اور کامل ایمان نصیب فرما اور اس کے احوال کو بہتر فرما۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! میں بہت بزدل ہوں اور سونے کا مریض ہوں، حضور ﷺ نے اس کے لئے بھی دعا فرمائی، حضرت فضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم دیکھتے تھے اس شخص سے زیادہ بہادر کوئی نہیں تھا۔
پھر حضور ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان پر تشریف لائے اور اسی طرح عورتوں کے مجمع میں بھی اعلان فرمایا اور جو جو ارشادات مردوں کے مجمع میں فرمائے تھے یہاں بھی اسی طرح ان کا اعادہ فرمایا، ایک صحابیہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی زبان سے عاجز ہوں، حضور ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی، پھر حضور ﷺ نے اعلان فرمایا: جس کسی کو اپنی کسی حالت کا اندیشہ ہو وہ بھی دعا کرا لے، چنانچہ لوگوں نے اپنے متعلق مختلف دعائیں کرائیں۔ ( خصائل نبوی ، بحوالہ أسوۂ ر سول أکرم: ص۷۷)
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں