آپ ﷺ کی امانت، دیانت اور تواضع:
آپ ﷺ کی دیانت وامانت:
حضور ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن گئی اور آپ ﷺ کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی مشرک ایسا نہ تھا جو آپ ﷺ کی امانت و دیانت پر شک کرتا ہو، بلکہ یہ لوگ اپنا روپیہ پیسہ آپ ﷺ کے پاس ہی امانت رکھتے تھے اور مکہ میں کسی دوسرے کو آپ ﷺ سے بڑھ کر امین نہیں سمجھتے تھے، ہجرت کے موقع پر حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑ نے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آئیں۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص ۶۵)
آپ ﷺ کی تواضع:
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا :
مسلمانو! میری حد سے زیادہ تعریف نہ کرو، جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف کی ہے، کیونکہ میں خدا کا بندہ ہوں، بس تم میری نسبت اتنا ہی کہہ سکتے ہو کہ محمد ( ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص:۶۵)
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ عصا پر ٹیک لگا ئے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپ ﷺ کے لئے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے فرمایا:
جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح تم کھڑے نہ ہوا کرو اور فرمایا میں خدا کا بندہ ہوں اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح بندے کھاتے ہیں اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح بندے بیٹھتے ہیں، آپ ﷺ کا یہ فرمانا آپ ﷺ کی برد باری اور متواضعانہ عادتِ کریمہ کی وجہ سے تھا۔ ( مدارج النبوۃ: بحوالہ أسوہ رسول أکرم : ص۶۶)
ایک حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں چند صحابہ ؓ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور اس کا کام آپس میں تقسیم کر لیا، کسی نے بکری ذبح کرنا اپنے ذمہ لیا اور کسی نے کھال نکالنا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمے ہے، صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ﷺ یہ کام بھی ہم خود کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام بخوشی کرلو گے، لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز نظر آؤں اور اللہ تعالیٰ بھی اس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ ( خصائل نبوی: بحوالہ أسوۂ رسول أکرم :ص: ۶۶)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ بازار گیا اور حضور ﷺ نے ایک سرابیل (پاجامہ ) چار درہم میں خریدا اور وزن کرنے والے سے آپ نے فرمایا: قیمت میں مال خوب خوب کھینچ کر تولو (یعنی وزن میں کم یا برابر نہ لو، بلکہ زیادہ لو) وہ شخص حیرت سے بولا: میں نے کبھی بھی کسی کو قیمت کی ادائیگی میں ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا، اس پر حضرت أبو ہریرہ ؓ نے کہا: افسوس ہے تجھ پر کہ تو نے اپنے نبی کو نہیں پہچانا، پھر وہ شخص ترازو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کو بوسہ دینے لگا، آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور وطریقہ ہے کہ وہ بادشاہوں اور سربراہوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو تم ہی میں سے ایک شخص ہوں، ( یہ آپ ﷺ نے از راہ تواضع فرمایا جیسا کہ آپ کی عادت کریمہ تھی) اس کے بعد آپ نے سرابیل کو خود اٹھایا، حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ آگے بڑھ کر سرابیل آپ ﷺ کے ہاتھ سے لےلوں، مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سامان کے مالک ہی کا حق ہے کہ وہ اپنا سامان خود اٹھائے سوائے اس شخص کے جو کمزور ہو اور خود نہ اٹھا سکے تو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔ (مدارج النبوۃ : بحوالہ أسوہ رسول اکرم : ص ۶۷ )
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا جو چار درہم کا بھی نہ ہو گا اور حضور ﷺ یہ دعا مانگ رہے تھے: یا اللہ اس حج کو ایسا حج فرما جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔ (شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص۶۷)
جب مکہ فتح ہوا اور آپ ﷺ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اللہ کے حضور میں عاجزی اور تواضع سے سر کو اس قدر جھکادیا قریب تھا کہ آپ کا سر مبارک اس لکڑی کے اگلے حصہ کو لگ جائے۔ (کتاب الشفاء، قاضی عیاض: بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ۶۷)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کے نزدیک حضور ﷺ سے زیا دہ اس دنیا میں کوئی شخص محبوب نہیں تھا، اس کے باوجود پھر بھی صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ حضور ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ ( شمائل ترمذی: بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص ۶۷)
ایک مرتبہ نجاشی بادشاہِ حبشہ کے کچھ ایلچی آئے، تو حضور ﷺ ان کی خاطر مدارات کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان کی خدمت کا ہمیں موقع دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے ہمارے صحابہ کی بڑی خدمت وتکریم کی ہے، میں پسند کرتا ہوں کہ ان کا بدلہ ادا کروں۔ ( مدارج النبوۃُ: بحوالہ أسوۂ رسول اکرم : ص : ۶۷)
ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں