سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی سخاوت




رسول اللہ ﷺ کی سخاوت:

حضرت ابن عبّاس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اول تو تمام لو گوں سے زیادہ سخی تھے ( کوئی بھی آپ ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا کہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطا کرنے میں بادشاہوں سے بھی زیادہ عطا کرنے والےتھے۔

ایک دفعہ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور آپ ﷺ نے اسے پہن لیا، اسی وقت ایک شخص نے مانگ لی، آپ ﷺ نے اسی وقت مرحمت فرما دی۔ آپ ﷺ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا فرماتے اور قرض خواہ کے انتہائی تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آ گیا اور قرض ادا کرنے کے بعد کچھ بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ فرما لیتے گھر تشریف نہ لے جاتے تھے اور بالخصوص رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، ( یعنی گیارہ مہینوں میں جتنی سخاوت فرماتے اس سے کہیں زیاد ہ رمضان المبارک میں فرماتے تھے) اور اس مہینہ میں جب بھی حضرت جبریل ؑ تشریف لاتے اور آپ ﷺ کو کلام اللہ سناتے، اس وقت آپ ﷺ بھلائی اور نفع رسانی میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ ( خصائل نبوی بحوالہ اسوہ رسول اکرم: ص:۶۲)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے پاس کہیں سے نوے ہزار درہم آئے، آپ ﷺ نے ایک چادر پر ڈلوا دیئے اور وہیں بیٹھے بیٹھے تقسیم فرمائے، ختم ہونے کے بعد ایک سائل آیا تو حضور ﷺ نے اس کو فرمایا: آپ کسی سے میرے نام کا قرض لے لو، جب میرے پاس ہو گا تو واپس کردوں گا۔

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ سے کچھ مانگا گیا ہو اور آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ میں نہیں دیتا، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کل کے لئے کوئی چیز سنبھال کر نہیں رکھتے تھے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، خاص کر رمضان میں تو بہت ہی سخی ہو جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری باب بد ء الوحی)

ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے فرمایا: " اے أبو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد جتنا سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی باقی رہے، سوائے اس کے جو ادائے قرض کے لئے ہو، تو اے أبوذر! میں دونوں ہاتھوں سے اس مال کو اللہ کی مخلوق میں تقسیم کر کے اٹھوں گا "۔ ( صحیح بخاری کتا ب الاستقراض : ص ۳۲۱ )

ایک دن رسول خدا ﷺ کے پاس چار اشرفیاں تھیں، دو تو آپ نےخرچ کر دیں اور دو بچ گئی ان کی وجہ سے پوری رات آپ ﷺ کو نیند نہیں آئی، ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا معمولی بات ہے، صبح خرچ کر دیجئے گا، حضور ﷺ نے فرمایا: " اے حمیرا! کیا معلوم کہ میں صبح تک زندہ رہوں یا نہیں۔ " (مشکوۃ بحوالہ اسوہ رسول اکرم : ص: ۶۳ )


*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں