سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی




آپ ﷺ کا رحم اور رقت قلبی:

آپ ﷺ کی رقتِ قلبی:

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک نواسی قریب الوفات تھیں، حضور ﷺ نے اس کو گود میں اٹھالیا اور اپنے سامنے رکھ لیا اور اسی حالت میں اس کی روح پرواز کر گئی، ام ایمن (جو حضور ﷺ کی ایک کنیز تھی) چلاّ کر رونے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی کے سامنے بھی رونے شروع کر دیا؟ ( چونکہ آپ کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے ) انہوں نے عرض کیا حضور بھی تو رو رہے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں ہے، یہ اللہ کی رحمت ہے، پھر فرمایا کہ مؤمن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے، حتٰی کہ خود اس کی روح نکال لی جاتی ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی حمد کرتا ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے عثمان بن مظعون ؓ کی پیشانی کو ان کی وفات کے بعد بوسہ دیا، اس وقت آپ ﷺ کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص: ۷۳)

حضرت عبد اللہ بن شخیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضو ر ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص:۷۴)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کی تلاوت سناؤ، میں نے عرض کیا کہ حضور (ﷺ) قرآن آپ پر ہی نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ کسی دوسرے سے سنوں، میں نے امتثال امر میں پڑھنا شروع کیا اور جب سورہ نساء کی اس آیت پر پہنچا:

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (سورۃ النساء41 : رکوع : ۶ پارہ : ۵)

ترجمہ:

'' سو اس وقت کیا حال ہو گا جبکہ ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو ان لوگوں پر ( جو آپ سے سابق ہیں ) گواہی دینے کے لئے حاضر کیا جائے گا۔''

عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضور ﷺ کے پرنور چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی دونوں آنکھیں بہہ رہی تھی۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ اپنی صاحبزادی ( ام کلثوم ) کی قبر پہ تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (شمائل ترمذی : بحوالہ اسوہ ٔ رسول اکرم: ص ۷۴)

آپ ﷺ کا رحم وترحّم:

ایک دفعہ ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے اور وہ آوازیں نکال رہے تھے، حضور ﷺ نے پوچھا یہ بچے کیسے ہیں؟ صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزرا تو ان کی آوازیں آرہی تھیں، میں نے ان کو نکال لیا، ان کی ماں نے دیکھا تو بے تاب ہو کر میرے سرپہ چکر کاٹنے لگی، حضور ﷺ نے فرمایا: فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے اٹھائے تھے۔( مشکوۃ : بحوالہ أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق : )

ایک دفعہ حضور ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا، آپﷺ نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے مالک کو بلا کر فرمایا : اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ (أبو داؤد باب الرحمۃ والشفقہ علی الخلق)

ایک دفعہ حضرت أبو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے، اتفاق سے رسول اکرم ﷺ اس موقع پر تشریف لائے، آپ ﷺ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا: " أبو مسعود! اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔" حضرت أبو مسعود ؓ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک سن کر تھرّا اٹھے اور عرض کیا: " یا رسول اللہ! میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ " حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تمہیں چھو لیتی۔ ( أبو داؤد :۴/۵۰۴ ،کتا ب الأدب ، باب حق المملوک،ح:۵۱۶۱ )



*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں