پیغام قرآن : پارہ 20-16


۱۶ ۔۔۔ قال الم کے مضامین


۱۔ موسیٰ ؑ کو خضر کی وضاحت

اس نے کہا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تُم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘؟ موسیٰؑ نے کہا ’’اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں ۔ لیجئے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا ’’بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں اُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں ، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں ۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں ۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۸۲)

۲۔ ذوالقرنین کا کالے پانی تک پہنچنا

اور اے نبیﷺ ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں ۔ہم نے اُس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا) سر و سامان کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا، ’’اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے‘‘۔ اس نے کہا، ’’جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، اس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اُس کو نرم احکام دیں گے‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۸۸)

۳۔یاجوج ماجوج سے بچاؤ کے لیے آہنی بند

پھر اُس نے (ایک دوسری مہم کی) تیاری کی یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دھُوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔پھر اُس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ’’اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کا م کے لیے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟‘‘اس نے کہا، ’’جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔تم بس محنت سے میری مدد کرو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں ۔ مجھے لوہے کی چادریں لادو‘‘۔ آخر جب دونوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سرخ کر دی تو اس نے کہا ’’لاؤ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا‘‘۔ (یہ بند ایسا تھا کہ) یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا ’’یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۹۸)

۴۔جب صور پھونکا جائے گا

اور اس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے اور وہ دن ہو گا جب ہم جہنم کو کافروں کے سامنے لائیں گے، اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔(الکھف۔۔۔ ۱۰۱)

۵۔ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟

تو کیا یہ لوگ، جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں ؟ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اُس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی جزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو ان کا جی نہ چاہے گا۔ (الکھف۔۔۔ ۱۰۸)

۶۔سمندر بھر روشنائی بھی ناکافی ہے

اے نبیﷺ ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ اے نبی ﷺ ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ (الکھف۔۔۔ ۱۱۰)


سورۂ مریم

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۷۔زکریاؑ کو بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری

ک، ہ، ی، ع، ص۔ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی،جبکہ اس نے اپنے رب کو چُپکے چُپکے پکارا۔اُس نے عرض کیا ’’اے پروردگار، میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی بُرائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوبؑ کی میراث بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا‘‘۔ (جواب دیا گیا) ’’اے زکریاؑ، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا‘‘۔ عرض کیا، ’’پروردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں ؟‘‘ جواب ملا ’’ایسا ہی ہو گا۔تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جبکہ تو کوئی چیز نہ تھا، زکریا نے کہا، ’’پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے‘‘۔ فرمایا ’’تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے‘‘۔ چنانچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔’’اے یحییٰ، کتابِ الٰہی کو مضبوط تھام لے‘‘۔ہم نے اُسے بچپن ہی میں ’’حکم‘‘ سے نوازا، اور ا پنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی، اور وہ بڑا پرہیزگار اور اپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ جبار نہ تھا اور نہ نافرمان۔ سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔(مریم۔۔۔ ۱۵)

۸۔کنواری مریم کو بیٹے کی بشارت

اور اے نبیﷺ ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی۔ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا۔مریم یکایک بول اٹھی کہ ’’اگر تو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ‘‘۔ اس نے کہا ’’میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دُوں ‘‘۔ مریم نے کہا ’’میرے ہاں کیسے لڑکا ہو گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھُوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں ‘‘۔ فرشتے نے کہا ’’ایسا ہی ہو گا، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت۔ اور یہ کام ہو کر رہنا ہے‘‘۔ (مریم۔۔۔ ۲۱)

۹۔ حوصلہ دینا فرشتے کا،غمزدہ مریمؑ کو

مریمؑ کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی ’’کاش میں اس سے مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا‘‘۔ فرشتے نے پائینتی سے اس کو پکار کر کہا ’’غم نہ کر۔ تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے اور تو ذرا اس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تر و تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اسے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی‘‘۔ (مریم۔۔۔ ۲۶)

۱۰۔گہوارے میں عیسیٰؑ کا لوگوں سے بات کرنا

پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ’’اے مریمؑ ، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن، نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی‘‘۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ لوگوں نے کہا ’’ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘بچہ بول اٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں ۔ اس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں ، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں ، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں ‘‘۔ (مریم۔۔۔ ۳۳)

۱۱۔ عیسیٰؑ ابنِ مریم اللہ کے بیٹے نہیں

یہ ہے عیسیٰؑ ابنِ مریم اور یہ ہے اس کے بارے میں سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں ۔ اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔وہ پاک ذات ہے۔وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا،اور بس وہ ہو جاتی ہے۔(اور عیسیٰؑ نے کہا تھا کہ) ’’اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، پس تم اُسی کی بندگی کرو،یہی سیدھی راہ ہے‘‘۔ مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے۔سو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہو گا جب کہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور اُن کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی، مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔اے نبیﷺ ، اس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ، انہیں اُس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا۔ آخرکار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہمارے طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔(مریم۔۔۔ ۴۰)

۱۲۔ابراہیمؑ کا اپنے مشرک باپ سے مکالمہ

اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔(انہیں ذرا، اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ ’’ابا جان، آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟ ابا جان، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں ، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ ابا جان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں ، شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ ابا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں ‘‘۔ باپ نے کہا، ’’ابراہیمؑ ، کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں ۔میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کرنا مراد نہ رہوں گا‘‘۔ پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودانِ غیراللہ سے جدا ہو گیا تو ہم نے اس کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی نام وری عطا کی۔ (مریم۔۔۔ ۵۰)

۱۳۔ذکرِ موسیٰؑ ، ہارونؑ ، اسماعیلؑ اور ادریسؑ

اور ذکر کرو اس کتاب میں موسیٰؑ کا۔وہ ایک چیدہ شخص تھا اور رسول نبی تھا۔ ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا، اور اپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارونؑ کو نبی بنا کر اسے (مددگار کے طور پر) دیا۔اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ اور اسے ہم نے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے۔اور یہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (مریم۔۔۔ ۵۸)

۱۴۔ توبہ کر کے ایمان لانا اور نیک عمل کرنا

پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کر رکھا ہے اور یقیناً یہ وعدہ پورا ہو کر رہنا ہے۔وہاں وہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے، جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔ (مریم۔۔۔ ۶۳)

۱۵۔اللہ بھولنے والا نہیں ہے

اے نبیﷺ ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترا کرتے۔جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہیں ، پس تم اس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (مریم۔۔۔ ۶۵)

۱۶۔حیات بعد موت سے انکار کرنے والے

انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟تیرے رب کی قسم، ہم ضرور ان سب کو اور ا ن کے ساتھ شیاطین کو بھی گھیر لائیں گے، پھر جہنم کے گرد لا کر انہیں گھٹنوں کے بل گرا دیں گے، پھر وہ ہر گروہ میں سے ہر اس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمن کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہوا تھا، پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے بڑھ کر جہنم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے۔ پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں ) متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ (مریم۔۔۔ ۷۲)

۱۷۔ منکرینِ حق کی شاندار مجلسوں کی حقیقت

ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ’’بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں ؟‘‘ حالانکہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے زیادہ سر و سامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں ۔ ان سے کہو، جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اسے رحمن ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ، خواہ وہ عذابِ الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی ۔۔۔ تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور! اس کے برعکس جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ اُن کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں ۔(مریم۔۔۔ ۷۶)

۱۸۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا

پھر تو نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گے؟ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟ ۔۔۔ ہر گز نہیں ، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سر و سامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے پشتی بان ہوں گے۔ کوئی پشتی بان نہ ہو گا۔ وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے۔ (مریم۔۔۔ ۸۲)

۱۹۔منکرینِ حق کو شیاطین اکساتے ہیں

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے منکرینِ حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو انہیں خوب خوب (مخالفتِ حق پر) اکسا رہے ہیں ؟ اچھا، تو اب ان پر نُزولِ عذاب کے لیے بیتاب نہ ہو۔ ہم ان کے دن گن رہے ہیں ۔وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمن کے حضور پیش کریں گے، اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔اس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اس کے جس نے رحمن کے حضور سے پروا نہ حاصل کر لیا ہو (مریم۔۔۔ ۸۷)

۲۰۔رحمن نے بیٹا بنایا کہنا سخت لغو بات ہے

وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔۔۔ سخت بے ہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں ، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا! رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔ سب پروہ محیط ہے اور اُس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (مریم۔۔۔ ۹۵)

۲۱۔ قرآن کو آسان زبان میں نازل کیا گیا

یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ پس اے نبیﷺ ، اس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں ، پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بھَِنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے؟(مریم۔۔۔ ۹۸)


سور طٰہ

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۲۔ متقی لوگوں کے لیے قرآن یاد دہانی ہے

طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کی ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔ نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔وہ رحمن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں ۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اُس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔(طٰہٰ۔۔۔ ۸)

۲۳۔ موسیٰؑ آگ لینے گئے، نبوت مل گئی

اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟ جبکہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ’’ذرا ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں ، یا اس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے‘‘۔وہاں پہنچا تو پکارا گیا ’’اے موسیٰؑ ! میں ہی تیرا رب ہوں ، جُوتیاں اتار دے۔ تو وادی مقدسِ طُویٰ میں ہے اور میں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور ا پنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۱۶)

۲۴۔ عصائے موسیٰؑ کا سانپ بننے کا معجزہ

اور اے موسیٰؑ ،یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘موسیٰؑ نے جواب دیا ’’یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں ، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں ، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں ‘‘۔ فرمایا ’’پھینک دے اس کو موسیٰؑ ‘‘ ۔ اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا ’’پکڑ لے اس کو اور ڈر نہیں ، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ دوسری نشانی ہے اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں ۔ اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘۔(طٰہٰ۔۔۔ ۲۴)

۲۵۔ کارِ نبوت :بھائی کی شرکت کی درخواست

موسیٰؑ نے عرض کیا ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے لیے میرے اپنے کُنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون،ؑ جو میرا بھائی ہے، اس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں اور خوب تیرا چرچا کریں ۔ تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگراں رہا ہے‘‘۔(طٰہٰ۔۔۔ ۳۵)

۲۶۔صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالا جانا

فرمایا ’’دیا گیا جو تو نے مانگا، اے موسیٰؑ ، ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھا لے گا‘‘۔’’میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے۔یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، میں تمہیں اس کا پتہ دوں جو اس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟ اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۴۰)

۲۷۔سرکش فرعون کے پاس موسیٰؑ کو بھیجا جانا

اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مدین کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔ جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔اور دیکھو تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔ دونوں نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا‘‘۔ فرمایا ’’ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں ، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے، اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۴۸)

۲۸۔ موسیٰؑ کا فرعون سے مکالمہ

فرعون نے کہا ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰؑ ؟‘‘ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا‘‘۔ فرعون بولا ’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی‘‘؟موسیٰؑ نے کہا ’’اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے‘‘۔۔۔۔ وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۵۵)

۲۹۔ فرعون کا حق کو جھٹلانا اور مقابلہ پر آنا

ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا کہنے لگا ’’اے موسیٰؑ ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادو لاتے ہیں ۔ طے کر لے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔نہ ہم اس قرار داد سے پھریں گے نہ تو پھریو۔ کھلے میدان میں سامنے آ جا‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں ‘‘۔ فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آ گیا۔ موسیٰؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے) کہا ’’شامت کے مارو، نہ جھوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا‘‘۔ (طٰہٰ:۶۱)

۳۰۔عصائے موسیٰؑ نے جادوگروں کو ہرا دیا

یہ سُن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخرکار کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’یہ دونوں تو محض جادوگر ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں ۔ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کر کے میدان میں آؤ۔ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا‘‘۔ جادوگر بولے، ’’موسیٰؑ ،تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں ؟‘‘موسیٰؑ نے کہا، ’’نہیں ، تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ، اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں ، یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خواہ کسی شان سے وہ آئے‘‘۔(طٰہٰ۔۔۔ ۶۹)

۳۱۔جادوگروں کا موسیٰؑ کے رب پر ایمان لانا

آخر کو یہ ہوا کہ سارے جادوگر سجدے میں گرا دیئے گئے اور پُکار اٹھے ’’مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے رب کو‘‘۔ فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں ۔ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے‘‘ (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ )۔ جادوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں ۔تو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں ،سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی،ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۷۶)

۳۲۔ فرعون کا سمندر میں غرق ہونا

ہم نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور ان کے لیے سمندر میں سوکھی سڑک بنا لے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے۔پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر ان پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طُور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا ۔پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں ۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۸۲)

۳۳۔قومِ موسیٰؑ کا بچھڑے کو خدا بنا لینا

اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟ اس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں ۔میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں ، اے میرے رب،تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے، فرمایا ’’اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا‘‘۔موسیٰؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟‘‘انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا‘‘۔ پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اٹھے ’’یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ کا خدا، موسیٰؑ اسے بھُول گیا‘‘۔کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔ (طٰہٰ۸۹)

۳۴۔ موسیٰؑ کا سامری جادوگر کو اللہ سے ڈرانا

ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے) پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ’’لوگو تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا رب تو رحمن ہے، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو‘‘۔ مگر انہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ ہمارے پاس واپس نہ آ جائے‘‘۔موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور ) بولا ’’ہارون، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھُوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔موسیٰؑ نے کہا ’’اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے‘‘۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۹۸)

۳۵۔روزِ حشر دنیوی زندگی ایک روزہ لگے گی

اے نبیﷺ ، اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سناتے ہیں ، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ’’ذکر‘‘ (درس نصیحت) عطا کیا ہے۔جو کوئی اس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اٹھائے گا، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے، اور قیامت کے دن ان کے لیے (اس جرم کی ذمہ داری کا بوجھ) بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا۔ اس دن جبکہ صُور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی، آپس میں چُپکے چپکے کہیں گے کہ ’’دنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے‘‘۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہوں گے۔ (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اس وقت ان میں سے جو زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں ، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۱۰۴)

۳۶۔پہاڑ دھول بن کر اڑ جائیں گے

یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سلوَٹ نہ دیکھو گے۔۔۔۔ اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں رحمن کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی، الاّ یہ کہ کسی کو رحمن اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے۔۔۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے ، لوگوں کے سراس حیّ و قیوم کے آگے جھُک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اٹھائے ہوئے ہو۔اور کسی ظلم و حق تلفی کا خطرہ نہ ہو گا اس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۱۱۲)

۳۷۔قرآن میں طرح طرح کی تنبیہات ہیں

اور اے نبیﷺ ، اسی طرح ہم نے اسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہوش کے آثار اس کی بدولت پیدا ہوں ۔پس بالا و برتر ہے اللہ، بادشاہِ حقیقی۔ اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔ہم نے اس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۱۱۵)

۳۸۔قیامت میں گمراہوں کو اندھا اٹھا یا جائے گا

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے‘‘۔ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا، کہنے لگا ’’آدمؑ، بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟‘‘ آخرکار دونوں (میاں بیوی) اس درخت کا پھل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے۔آدمؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ پھر اُس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی اور فرمایا ’’تم دونوں (فریق،یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گانہ بدبختی میں مبتلا ہو گا۔ اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔۔۔۔ وہ کہے گا، ’’پروردگار، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ہاں ، اسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھی، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے‘‘۔۔۔ اس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو (دنیا میں ) بدلہ دیتے ہیں ، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔پھر کیا ان لوگوں کو (تاریخ کے اس سبق سے) کوئی ہدایت نہ ملی کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ) بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟ درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں ۔(طٰہٰ۔۔۔ ۱۲۸)

۳۹۔دنیا کی شان و شوکت آزمائش ہے

اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور ان کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔ پس اے نبیﷺ ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے۔ رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں ۔ اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔(طٰہٰ۔۔۔ ۱۳۲)

۴۰۔ ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے

وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیان واضح نہیں آ گیا؟ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے؟ اے نبیﷺ ،ان سے کہو، ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے، پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں ۔ (طٰہٰ۔۔۔ ۱۳۵)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۷۔۔۔ اقترب للناس کے مضامین


سورۂ الانبیاء

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۔ حساب کا وقت قریب آ گیا ہے

قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں ، دل ان کے (دوسری ہی فکروں میں ) منہمک ہیں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۳)

۲۔ایمان نہ لانے والی بستیاں ہلاک ہو گئیں

اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ ’’یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟‘‘رسولﷺ نے کہا میرا رب ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں ، بلکہ یہ اس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے، ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے‘‘۔ حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی، جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟(الانبیاء۔۔۔ ۶)

۳۔کوئی رسول سدا جینے والا نہ تھا

اور اے نبیﷺ ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پُوچھ لو۔ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں ،اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ آخرکار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کیے، اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا،ا ور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔لوگ وہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ (الانبیاء۔۔۔ ۱۰)

۳۔ظالم بستیوں کی تباہی اور دوسری قوم کا ابھرنا

کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا۔جب ان کو ہمارا عذاب محسوس ہوا تو لگے وہاں سے بھاگنے۔ (کہا گیا) ’’بھاگو نہیں ، جاؤ اپنے انہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے‘‘۔ کہنے لگے ’’ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے‘‘۔ اور وہ یہی پکارتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا۔ (الانبیاء۔۔۔ ۱۵)

۴۔ زمین و آسمان کی تخلیق کوئی کھیل نہیں

ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ (الانبیاء۔۔۔ ۱۸)

۵۔اگر ایک سے زائد خدا ہوتے

زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں ۔ شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ، دم نہیں لیتے۔کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ (بے جان کو )جان بخش کر اُٹھا کھڑا کرتے ہوں ؟ اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین و آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔ وہ اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں ہے اور سب جواب دہ ہیں (الانبیاء۔۔۔ ۲۳)

۶۔ قرآن کا موازنہ دیگر الہامی کتب سے

کیا اسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں ؟ اے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی‘‘۔ مگر ان میں سے اکثر حقیقت سے بے خبر ہیں ، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ (الانبیاء۔۔۔ ۲۵)

۷۔ خدائی کے جھوٹے دعویدار کی سزا جہنم ہے

یہ کہتے ہیں ’’رحمن اولاد رکھتا ہے‘‘۔ سُبحان اللہ، وہ (یعنی فرشتے) تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں ۔ اور جو ان میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں ، تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں ، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ (الانبیاء۔۔۔ ۲۹)

۸۔سب زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے

کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی؟ کیا وہ (ہماری اس خلاّقی کو) نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھُلک نہ جائے، اور اُس میں کشادہ راہیں بنا دیں ، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں ۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔ مگر یہ ہیں کہ کائنات کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۳۳)

۹۔کسی انسان کو ابدی زندگی نہیں ملی

اور اے نبیﷺ ، ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے، اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں ۔ آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟‘‘اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمن کے ذکر سے منکر ہیں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۳۶)

۱۰۔انسان جلد باز مخلوق ہے

انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں مجھ سے جلدی نہ مچاؤ۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’آخر یہ دھمکی پوری کب ہو گی اگر تم سچے ہو؟‘‘کاش ان کافروں کو اس وقت کا علم ہوتا جبکہ نہ یہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں ، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گی۔مذاق تم سے پہلے بھی رسولوں کا اڑایا جا چکا ہے، مگر ان کا مذاق اڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (الانبیاء۔۔۔ ۴۱)

۱۱۔زمین مختلف سمتوں سے گھٹ رہی ہے

اے نبیﷺ ، ان سے کہو، کون ہے جو را ت کو یا دن کو تمہیں رحمن سے بچا سکتا ہو؟‘‘ مگر یہ اپنے رب کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کی حمایت کریں ؟ وہ تو نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید ان کو حاصل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آباؤ اجداد کو ہم زندگی کا سر و سامان دیئے چلے گئے یہاں تک کہ ان کو دن لگ گئے۔ مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ؟ پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟ ان سے کہہ دو کہ ’’میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں ‘‘۔۔۔ مگر بہرے پُکار کو نہیں سُنا کرتے جبکہ انہیں خبردار کیا جائے۔ اور اگر تیرے رب کا عذاب ذرا سا انہیں چھو جائے تو ابھی چیخ اٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔ قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا ۔جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے۔اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۴۷)

۱۲۔بن دیکھے رب سے ڈرنے والے

پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’’ذکر‘‘ عطا کر چکے ہیں ان متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈریں اور جن کو (حساب کی) اس گھڑی کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ اور اب یہ بابرکت ’’ذکر‘‘ ہم نے (تمہارے لیے) نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟(الانبیاء۔۔۔ ۵۰)

۱۳۔ ابراہیمؑ کا باپ دادا کی بت پرستی سے انکار

اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اس کو خوب جانتے تھے۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟‘‘انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟‘‘۔ اُس نے جواب دیا ’’نہیں ، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۵۶)

۱۴۔ ابراہیمؑ نے بتوں کو توڑ دیا

ا ور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا‘‘۔ چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ (انہوں نے آ کر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے ’’ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ‘‘۔(بعض لوگ) بولے ’’ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’تو پکڑ لاؤ اسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)۔‘‘ (ابراہیمؑ کے آنے پر) انہوں نے پوچھا ’’کیوں ابراہیمؑ ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں ‘‘۔یہ سُن کر وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں ) کہنے لگے ’’واقعی تم خود ہی ظالم ہو‘‘۔ مگر پھر ان کی مت پلٹ گئی اور بولے ’’تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں ‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پُوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ (الانبیاء۔۔۔ ۶۶)

۱۵۔ ابراہیمؑ کے لئے آگ ٹھنڈی ہو گئی

تُف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘انہوں نے کہا ’’جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے‘‘۔ ہم نے کہا ’’اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر‘‘۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ برائی کریں ۔ مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا (الانبیاء:۷۰)

۱۶۔ ابراہیمؑ اور لوطؑ کا بابرکت خطے کو جانا

اور ہم اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں ۔اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ا ور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔اور لوطؑ کو ہم نے حُکم اور علم بخشا اور اُسے اس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بد کاریاں کرتی تھی ۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری، فاسق قوم تھی۔ اور لوطؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔(الانبیاء۔۔۔ ۷۵)

۱۷۔نوحؑ کی پکار اور کربِ عظیم سے نجات

اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ ان سب سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تھا۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کربِ عظیم سے نجات دی اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے، پس ہم نے اُن سب کو غرق کر دیا۔ (الانبیاء۔۔۔ ۷۷)

۱۸۔کھیت کے مقدمہ میں سلیمانؑ کا فیصلہ

اور اِسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں ،ا ور ہم ان کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔ (الانبیاء۔۔۔ ۷۹)

۱۹۔داؤدؑ کے لئے پہاڑ اور پرندے مسخر تھے

داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے، اور ہم نے اس کو تمہارے فائدے کے لیے زِرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے، پھر کیا تم شکرگزار ہو؟ (الانبیاء۔۔۔ ۸۰)

۲۰۔ سلیمانؑ کے لیے جن و ہوا مسخر تھے

اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں ، ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگران ہم ہی تھے۔ (الانبیاء۔۔۔ ۸۲)

۲۱۔ ایوبؑ کی دعا اور بیماری سے نجات

اور یہی (ہوش مندی اور حُکم و علم کی نعمت) ہم نے ایوبؑ کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کر دیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیئے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیئے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ اور یہی نعمت اسمٰعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔(الانبیاء۔۔۔ ۸۶)

۲۲۔ یونسؑ :غم سے نجات کی دعا قبول

اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا ’’نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا‘‘۔ تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں ۔ (الانبیاء۔۔۔ ۹۹)

۲۳۔ زکریاؑ : بیوی کو شفا اور وارث کا عطا ہونا

اور زکریاؑ کو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے‘‘۔ پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰؑ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھُکے ہوئے تھے۔ (الانبیاء۔۔۔ ۹۰)

۲۴۔بی بی مریم کے اندر اللہ نے روح پھونکی

اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا اور اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔۔۔ یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ، پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔(الانبیاء۔۔۔ ۹۳)

۲۵۔ جب یاجُوج و ماجوج نکل پڑیں گے

پھر جو نیک عمل کرے گا، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہو گی، اور اسے ہم لکھ رہے ہیں ۔ا ور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے۔ یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدۂ برحق کے پُورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ کہیں گے ’’ہائے ہماری کم بختی، ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطاکار تھے‘‘۔ (الانبیاء۔۔۔ ۹۷)

۲۶۔جھوٹے معبود اور ان کو پوجنے والے

بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں ، وہیں تم کو جانا ہے۔ اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ پھُنکارے ماریں گے اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سنائی دے گی۔ رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً اس سے دور رکھے جائیں گے، اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے، وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کران کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ ’’یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘۔ (الانبیاء۔۔۔ ۱۰۳)

۲۷۔زمین کے وارث نیک بندے ہونگے

وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طُومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں ۔جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہونگے۔ اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔(الانبیاء۔۔۔ ۱۰۶)

۲۸۔مہلت کافروں کے لئے فتنہ ہے

اے نبیﷺ ، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ان سے کہو ’’میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے، پھر کیا تم سرِ اطاعت جھُکاتے ہو؟‘‘اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ’’میں علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور۔ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآواز بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھپا کر کرتے ہو۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقتِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے‘‘۔ (آخرکار) رسول ﷺ نے کہا کہ ’’اے میرے رب، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے ، اور لوگوں ، تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔ (الانبیاء۔۔۔ ۱۱۲)

سورۂ حج

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۹۔ حشر میں ماں بچے سے بھی غافل ہو جائے گی

لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے جس روز تم اسے دیکھو گے،حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔(الحج۔۔۔ ۲)

۳۰۔ انسانی تخلیق کے مراحل کی تفصیل

بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطانِ سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں ،حالانکہ اس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنم کا راستہ دکھائے گا۔ لوگو، اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں ۔ ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقتِ خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔(الحج۔۔۔ ۵)

۳۱۔اللہ ہی مردوں کو زندہ کرتا ہے

اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اس پرمیہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے، اور وہ مْردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ (اس بات کی دلیل ہے) کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ، اور اللہ ضرور ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں جا چکے ہیں ۔ (الحج۔۔۔ ۷)

۳۲۔علم کے بغیر خدا کے بارے میں جھگڑنا

بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر گردن اکڑائے ہوئے، خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں ۔ ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے روز اس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے ۔ یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔(الحج۔۔۔ ۱۰)

۳۳۔ذاتی مفادات کے لئے اللہ کی بندگی کرنا

اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو نہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ۔ یہ ہے گمراہی کی انتہا۔ وہ ان کو پکارتا ہے جن کا نقصان ان کے نفع سے قریب تر ہے، بدترین ہے اس کا مولیٰ اور بدترین ہے اس کا رفیق۔ (اس کے برعکس) اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے،یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا، اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ (الحج۔۔۔ ۱۵)

۳۴۔مومن و مشرک کا فیصلہ قیامت میں ہو گا

ایسی ہی کھلی کھلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے،اور صابئی،اور نصاریٰ، اور مجوس، اور جن لوگوں نے شرک کیا، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ (الحج۔۔۔ ۱۸)

۳۵۔کافروں کے لئے آگ کے لباس تیار ہیں

یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں ، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں گے،اور ان کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ(الحج۔۔۔ ۲۲)

۳۶۔مومنوں کے لئے آراستہ ریشمی لباس

(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا۔( الحج۔۔۔ ۲۴)

۳۷۔ کعبہ میں سب کے حقوق برابر ہیں

جن لوگوں نے کفر کیا اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اس مسجد حرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں (ان کی روش یقیناً سزا کی مستحق ہے)۔ اس (مسجد حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ (الحج۔۔۔ ۲۵)

۳۸۔ کعبہ کی تعمیر کا مقصد

یاد کرو وقت جبکہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو، اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں ، تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں ، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں ، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں ،اور اس قدیم گھر کا طواف کریں ۔یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔(الحج۔۔۔ ۳۰)

۳۹۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا

اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ماسوا ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں ۔ پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو،یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔یہ ہے اصل معاملہ، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ تمہیں ایک وقت مقرر تک ان (ہَدِی کے جانوروں ) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے، پھر ان (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔(الحج۔۔۔ ۳۳)

۴۰۔ہر امت کے لئے قربانی کا قاعدہ مقرر ہے

ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ۔ (ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیعِ فرمان بنو۔ اور اے نبیﷺ ، بشارت دے دے عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ (الحج۔۔۔ ۳۵)

۴۱۔اللہ کو قربانی کا گوشت نہیں ، تقویٰ پہنچتا ہے

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں ۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔ اور اے نبیﷺ ، بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو۔یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں یقیناً اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔(الحج۔۔۔ ۳۸)

۴۲۔ظلم کے خلاف جنگ کی اجازت ہے

اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔(الحج۔۔۔ ۴۱)

۴۳۔کتنے ہی عالیشان قصر کھنڈر بن چکے ہیں

اے نبیﷺ ، اگر وہ (یعنی کفار) تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قومِ نوحؑ اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیمؑ اور قومِ لوطؑ اور اہل مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ۔ان سب منکرین حق کو میں نے پہلے مہلت دی پھر پکڑ لیا۔اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ کتنی ہی خطاکار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں ، کتنے ہی کنوئیں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ( الحج۔۔۔ ۴۶)

۴۴۔اللہ کا ایک دن ہزار برس کے برابر ہے

یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا، اور سب کو واپس تو میرے ہی پاس آنا ہے۔(الحج۔۔۔ ۴۸)

۴۵۔قرآن کو نیچا دکھانے والے دوزخ کے یار ہیں

اے نبیﷺ ، کہہ دو کہ ’’لوگو، میں تو تمہارے لیے صرف وہ شخص ہوں جو (بُرا وقت آنے سے پہلے) صاف صاف خبردار کر دینے والا ہو‘‘۔ پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی۔اور جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ دوزخ کے یار ہیں ۔اور اے نبیﷺ ، تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسولؑ ایسا بھیجا ہے نہ نبیؑ (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ) جب اس نے تمنا کی، شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہو گیا۔ اس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے، اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، اللہ علیم ہے اور حکیم۔ (وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے) تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔۔۔ اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں ، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔(الحج۔۔۔ ۵۴)

۴۶۔قیامت کی گھڑی یا منحوس دن کا عذاب

انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے، یا ایک منحوس دن کا عذاب نازل ہو جائے۔ اس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے، اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہو گا ان کے لیے رسوا کن عذاب ہو گا۔ (الحج۔۔۔ ۵۷)

۴۷۔ ہجرت کے دوران مارے جانے والے

اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ، پھر قتل کر دیئے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھا رزق دے گا۔اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔ وہ انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ بیشک اللہ علیم اور حلیم ہے۔یہ تو ہے ان کا انجام، اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔(الحج۔۔۔ ۶۰)

۴۸۔ رات سے دن اور دن سے رات نکلنا

اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ سب باطل ہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں اور اللہ ہی بالا دست اور بزرگ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، بے شک وہی غنی و حمید ہے۔ (الحج۔۔۔ ۶۴)

۴۹۔ کشتی ایک قاعدے کے تحت تیرتی ہے

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے کہ اس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا؟ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے۔(الحج۔۔۔ ۶۶)

۵۰۔ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے

ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریقِ عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے نبیﷺ ، وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں ۔ تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ (الحج۔۔۔ ۷۰)

۵۱۔ منکرینِ حق کے لیے آگ کا وعدہ

یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود ان کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں ۔ ان ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔ اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرینِ حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں ، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں ۔ ان سے کہو ’’میں بتاؤں تمہیں کہ اس سے بدتر چیز کیا ہے؟ آگ، اللہ نے اسی کا وعدہ ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبولِ حق سے انکار کریں ، اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(الحج۔۔۔ ۷۲)

۵۲۔ جھوٹے معبود مکھی سے بھی چیز نہیں چھڑا سکتے

لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔(الحج۔۔۔ ۷۴)

۵۳۔ انسان اور فرشتے دونوں پیغام رساں ہیں

حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ وہ سمیع اور بصیر ہے، جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے، اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں ۔ (الحج۔۔۔ ۷۶)

۵۴۔مومنوں کا نام پہلے بھی مسلم ہی تھا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسولﷺ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج۔۔۔ ۷۸)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔


۱۸۔۔۔ قد افلح کے مضامین


سورۂ مؤمنون

:اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۔جنت الفردوس کے وارث کون ہیں ؟

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ، لغویات سے دور رہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو اِن کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں ، اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(المؤمنون۔۔۔ ۱۱)

۲۔ سب سے اچھا کاریگر انسان کا خالق ہے

ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے۔ (المؤمنون۔۔۔ ۱۶)

۳۔آسمان سے پانی اور زمین سے فصلیں

اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ا ور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں ۔ پھرا س پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیئے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیر پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔ (المؤمنون۔۔۔ ۲۰)

۴۔ مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے

اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اس میں سے ایک چیز (یعنی دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں ، او ر تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ۔ ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔(المؤمنون۔۔۔ ۲۲)

۵۔نوحؑ کی کشتی :ہر جانور کا ایک جوڑا لیا گیا

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟‘‘ اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ ’’ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا۔ یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آئے)۔ کچھ نہیں ، بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے۔ کچھ مدت اور دیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے)‘‘۔ نوحؑ نے کہا ’’پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تُو ہی میری نصرت فرما‘‘۔ ہم نے اس پرو حی کی کہ ’’ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور وہ تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور ا پنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں ۔ پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تو بہترین جگہ دینے والا ہے‘‘۔اس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں ، اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں ۔ (المؤمنون۔۔۔ ۳۰)

۶۔خوش حال سرداروں کا رویہ

ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دور کی قوم اٹھائی۔ پھر ان میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا (جس نے انہیں دعوت دی) کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا، وہ کہنے لگے ’’یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کر لی تو تم گھاٹے ہی میں رہے۔ یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اس وقت تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے؟ بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔ زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی۔ یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں ہیں ‘‘۔رسول نے کہا ’’پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری نصرت فرما‘‘۔ جواب میں ارشاد ہوا ’’قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے‘‘۔ آخرکار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامۂ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا ۔۔۔ دُور ہو ظالم قوم! (المؤمنون۔۔۔ ۴۱)

۷۔ قومیں اپنے مقررہ وقت تک رہتی ہیں

پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اٹھائیں ۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی۔ پھر ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے۔ جس قوم کے پاس بھی اس کا رسول آیا،اس نے اسے جھٹلایا، اور ہم ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے، حتیٰ کہ ان کو بس افسانہ ہی بنا کر چھوڑا ۔ پھِٹکار ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے! (المؤمنون۔۔۔ ۴۴)

۸۔فرعون نے تکبر کیا اور ہلاک ہوا

پھر ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر انہوں نے تکبر کیا اور بڑی سرکشی کی۔ کہنے لگے ’’کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے‘‘۔ پس انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے۔ اور موسیٰؑ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں ۔ (المؤمنون۔۔۔ ۴۹)

۹۔اللہ نے ابن مریمؑ کو نشانی بنایا

اور ابن مریمؑ اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا اور ان کو ایک سطح مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔(المؤمنون۔۔۔ ۵۰)

۱۰۔ لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر لیے

اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح،تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں ۔اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ،پس مجھی سے تم ڈرو۔مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے ، اچھا، تو چھوڑو انہیں ، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک۔ (المؤمنون۔۔۔ ۵۴)

۱۱۔مال و اولاد کی فراوانی ہی میں بھلائی نہیں

کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں ؟ نہیں ، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے۔حقیقت میں تو جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں ،جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں ، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، وہی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے ہیں ۔ (المؤمنون۔۔۔ ۶۱)

۱۲۔انسان کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ملتی

ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے، جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔ مگر یہ لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں ۔ اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) مختلف ہیں ۔ (وہ اپنے یہ کرتوت کیے چلے جائیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے۔ اب بند کرو اپنی فریاد و فُغان، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی۔ میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم (رسول کی آواز سنتے ہی) الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے، اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے۔ (المؤمنون۔۔۔ ۶۷)

۱۳۔ حق لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا

تو کیا ان لوگوں نے کبھی اس کلام پر غور نہیں کیا؟ یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟ یا یہ اپنے رسول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہونے کے باعث) اس سے بِدکتے ہیں ؟ یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنون ہے؟ نہیں ، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔۔۔۔ اور حق اگر کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔۔۔ نہیں ، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر ان کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ ( المؤمنون۔۔۔ ۷۱)

۱۴۔جو تکلیف میں بھی رب کے آگے نہ جھکے

کیا تو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تو تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ تُو تو ان کے سیدھے راستے کی طرف بلا رہا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں ۔اگر ہم ان پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مبتلا ہیں ، دُور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں تکلیف میں مبتلا کیا ، پھر بھی یہ اپنے رب کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔البتہ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں تو یکایک تم دیکھو گے کہ اس حالت میں ہر خیر سے مایوس ہیں ۔ (المؤمنون۔۔۔ ۷۷)

۱۵۔گردش لیل و نہار اللہ کے اختیار میں ہے

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیئے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا،اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ گردش لیل و نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟ مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رَو کہہ چکے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں ’’کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟ ہم نے بھی یہ وعدے بہت سُنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں ۔ یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۔۔۔ ۸۳)

۱۶۔اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں

ان سے کہو، بتاؤ، اگر تم جانتے ہو، کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ کہو، پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ۔ کہو، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتا ہے؟ جو امر حق ہے وہ ہم ان کے سامنے لے آئے ہیں ، اور کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔ اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے، اور کوئی دُوسرا خدا س کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ۔ کھلے اور چھپے کا جاننے والا، وہ بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں ۔ (المؤمنون۔۔۔ ۹۲)

۱۷۔شیاطین کی اُکساہٹوں سے اللہ کی پناہ

اے نبیﷺ ، دعا کرو کہ ’’پروردگار، جس عذاب کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ اگر میری موجودگی میں تُو لائے، تو اے میرے رب، مجھے ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو‘‘۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی وہ چیز لے آنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں جس کی دھمکی ہم انہیں دے رہے ہیں ۔ اے نبیﷺ ، برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں ۔اور دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں ‘‘۔ (المؤمنون۔۔۔ ۹۸)

۱۸۔موت اور دوسری زندگی ،بیچ میں برزخ ہے

(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ’’اے میرے رب، مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا‘‘۔۔۔ ہر گز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بَک رہا ہے۔اب ان سب (مرنے والوں ) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ پھر جونہی کہ صُور پھُونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔۔۔ ’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے‘‘؟ وہ کہیں گے ’’اے ہمارے رب، ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہم واقعی گمراہ لوگ تھے۔اے پروردگار، اب ہمیں یہاں سے نکال دے۔ پھر ہم ایسا قصور کریں تو ظالم ہوں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ جواب دے گا ’’دُور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔(المؤمنون۔۔۔ ۱۰۸)

۱۹۔اللہ نے انسان کو فضول پیدا نہیں کیا

تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر دے،ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے، تو تم نے ان کا مذاق بنا لیا۔ یہاں تک کہ ان کی ضد نے تمہیں یہ بھی بھلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں ، اور تم ان پر ہنستے رہے۔ آج ان کے اس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں ‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھے گا ’’بتاؤ، زمین میں تم کتنے سال رہے‘‘؟وہ کہیں گے ’’ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھیرے ہیں ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے‘‘۔ ارشاد ہو گا ’’تھوڑی ہی دیر ٹھیرے ہونا، کاش تم نے یہ اس وقت جانا ہوتا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے‘‘؟ پس بالا و برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ، مالک ہے عرشِ بزرگ کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے، جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ، تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔اے نبیﷺ ، کہو، میرے رب درگزر فرما اور رحم کر، تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔ (المؤمنون۔۔۔ ۱۱۸)

سورۂ نُور

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۰۔ زانی و زانیہ دونوں کو سو کوڑے مارو

یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں شاید کہ تم سبق لو۔زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔اور زانیہ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک کے ساتھ۔ اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔(النور۔۔۔ ۳)

۲۱۔نیک عورتوں پر تہمت کی سزا اسی کوڑے ہے

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ لیکر نہ آئیں ، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں ، سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (ان کے حق میں ) غفور و رحیم ہے۔ (النور۔۔۔ ۵)

۲۲۔ بیویوں پر الزام لگانا جب گواہ نہ ہو

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں ) سچا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں ) جھوٹا ہو۔ا ور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں ) جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں ) سچا ہو۔ تم لوگوں پرا للہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا) (النور۔۔۔ ۱۰)

۲۳۔ مومن کو بہتان لگانا زیب نہیں دیتا

جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں ۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں ) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں ، اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ۔ا گر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ (ذرا غور تو کرو، اس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ’’ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے‘‘۔اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔ اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔(النور۔۔۔ ۱۸)

۲۴۔مومن گروہ میں فحاشی پھیلانے والے

جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ،ا للہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھیں بدترین نتائج دکھا دیتی)۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ (اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا ۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے۔(النور۔۔۔ ۲۱)

۲۵۔اللہ سے معافی چاہئے تو خود بھی معاف کرو

تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے ۔(النور۔۔۔ ۲۲)

۲۶۔ نیک عورتوں پر تہمتیں لگانا لعنت ہے

جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ان کا دامن پاک ہے ان باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم۔ (النور۔۔۔ ۲۶)

۲۷۔بلا اجازت دوسرے گھروں میں داخل ہونا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دیدی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو۔ تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، سب کی اللہ کو خبر ہے۔ (النور۔۔۔ ۲۹)

۲۸۔مرد و زن دونوں نظروں کی حفاظت کریں

اے نبیﷺ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے،جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔اور اے نبیﷺ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ (النور۔۔۔ ۳۱)

۲۹۔ کن مردوں سے حجاب کرنا ضروری نہیں

وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ ،شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں ،ا پنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہو، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔(النور۔۔۔ ۳۱)

۳۰۔غریب نکاح کرے تو اللہ غنی کر دیتا ہے

تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیں کہ عفت مآبی اختیار کریں ، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔(النور۔۔۔ ۳۳)

۳۱۔ جبراً بُرا کام کرنا پڑے تو اللہ غفور و رحیم ہے

اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کر لو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے، اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں ، اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے۔ ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں ، اور ان قوموں کی عبرتناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ (النور۔۔۔ ۳۴)

۳۲۔اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں ) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو۔چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں )۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔ (اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اِذن دیا ہے۔ ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی، (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں ) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ (النور۔۔۔ ۳۸)

۳۳۔کافروں کے اعمال سراب کی مانند ہیں

(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے، جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔ (النور۔۔۔ ۴۰)

۳۴۔ساری مخلوق اللہ کی تسبیح کر رہی ہے

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ (النور۔۔۔ ۴۲)

۳۵۔ بادل، بجلی، بارش اور اولے

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے۔ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں ۔ اور وہ آسمان سے، ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں ، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔ (النور۔۔۔ ۴۴)

۳۶۔ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا گیا

اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر۔جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ہم نے صاف صاف حقیقت بتانے والی آیات نازل کر دی ہیں ، آگے صراط مستقیم کی طرف ہدایت اللہ ہی جسے چاہتا ہے ، دیتا ہے۔ (النور۔۔۔ ۴۶)

۳۷۔تنازعات میں اللہ کی طرف رجو ع کرنا

لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولﷺ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں ۔جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسولﷺ کی طرف، تاکہ رسولﷺ ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسولﷺ کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں ۔ کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں ۔(النور۔۔۔ ۵۰)

۳۸۔ اللہ اور رسولﷺ کے تابع فرمان بنو

ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولﷺ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولﷺ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں ۔ یہ (منافق)اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ’’آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں ‘‘۔ ان سے کہو ’’قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے‘‘۔ کہو،’’اللہ کے مطیع بنو اور رسولﷺ کے تابع فرمان بن کر رہو۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھو لو کہ رسولﷺ پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم۔ اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے ورنہ رسولﷺ کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے‘‘۔ (النور۔۔۔ ۵۴)

۳۹۔اللہ حالتِ خوف کو امن سے کب بدلتا ہے

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ۔نماز قائم کرو،زکوٰۃ دو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے(النور۔۔۔ ۵۷)

۴۰۔والدین کے کمرے میں بلا اجازت نہ جاؤ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے لونڈی غلام اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں ، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ۔ صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں ۔ان کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر،تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں ، اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ (النور۔۔۔ ۵۹)

۴۱۔عمر رسیدہ عورتوں کو حجاب میں رخصت

اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں ، نکاح کی امیدوار نہ ہوں ، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم وہ بھی حیا داری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ (النور۔۔۔ ۶۰)

۴۲۔کن گھروں میں بلا تکلف کھانا پینا روا ہے

کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے،یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں ، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ (النور۔۔۔ ۶۱)

۴۳۔گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرو

اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔ مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے مواقع پر رسولﷺ کے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں ۔ اے نبیﷺ ، جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسولﷺ کے ماننے والے ہیں ، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو، اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے۔(النور۔۔۔ ۶۲)

۴۴۔رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی

مسلمانو، اپنے درمیان رسولﷺ کے بُلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں ۔ رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے۔خبردار ہو، آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ تم جس روش پر بھی ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔جس روز لوگ اس کی طرف پلٹائے جائیں گے وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں ۔وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النور۔۔۔ ۶۴)


سورۂ فرقان

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۴۵۔ہر مخلوق کی ایک تقدیر ہے

نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کر دینے والا ہو۔۔۔ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔ لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ،جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔ (الفرقان۔۔۔ ۳)

۴۶۔جن لوگوں نے نبیﷺ کی بات نہ مانی

جن لوگوں نے نبیﷺ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے‘‘۔بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔(الفرقان۔۔۔ ۶)

۴۷۔اگر اللہ چاہے تو سب کچھ دے سکتا ہے

کہتے ہیں ’’یہ کیسا رسولﷺ ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو)دھمکاتا؟ یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا ‘‘۔ اور یہ ظالم کہتے ہیں ’’تم لوگ تو ایک سحرزدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو‘‘۔ دیکھو، کیسی کیسی حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں ، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات ان کو نہیں سوجھتی۔ بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے، (ایک نہیں ) بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں ، اور بڑے بڑے محل۔ (الفرقان۔۔۔ ۱۰)

۴۸۔ جب لوگ موت کو پکارنے لگیں گے

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ’’اس گھڑی‘‘ کو جھٹلا چکے ہیں ۔۔۔ اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔ وہ جب دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے۔ اور جب یہ دست و پا بستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے، (اس وقت ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو۔ (الفرقان۔۔۔ ۱۴)

۴۹۔پرہیزگاروں سے ابدی جنت کا وعدہ

ان سے پوچھو یہ انجام اچھا ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے جو ان کے عمل کی جزا اور ان کے سفر کی آخری منزل ہو گی، جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔ (الفرقان:۱۶)

۵۰۔ جھوٹے معبود کا پجاریوں کے خلاف ہونا

اور وہی دن ہو گا جب کہ (تمہارا رب) ان لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے ان معبودوں کو بھی بلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پُوج رہے ہیں ، پھر وہ ان سے پوچھے گا ’’کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے‘‘؟ وہ عرض کریں گے ’’پاک ہے آپ کی ذات ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں ۔ مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے۔‘‘یُوں جھٹلا دیں گے وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو، پھر تم نہ اپنی شامت کو ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پاسکو گے اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ (الفرقان۔۔۔ ۱۹)

۵۱۔سارے رسول انسان ہی تھے

اے نبیﷺ ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ کیا تم صبر کرتے ہو؟ تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے۔ (الفرقان۔۔۔ ۲۰)


۱۹۔۔۔ وقال الذین کے مضامین


۱۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا بے وفا ہے

جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ’’کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں ؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ‘‘۔ بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں ۔ جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہو گا۔چیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا، اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔ بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں اس دن اچھی جگہ ٹھیریں گے اور دوپہر گزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے۔آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہو گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیئے جائیں گے۔ اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمن کی ہو گی۔اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا۔ ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا ’’کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا‘‘۔ اور رسول کہے گا کہ ’’اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا‘‘۔اے نبیﷺ ، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے۔ (الفرقان۔۔۔ ۳۱)

۲۔قرآن بتدریج کیوں نازل کیا گیا

منکرین کہتے ہیں ’’اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟‘‘؟۔۔۔ ہاں ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے) کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال) لے کر آئے،اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی ۔۔۔ جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت بُرا ہے اور ان کی راہ حد درجہ غلط۔(الفرقان۔۔۔ ۳۴)

۳۔ہر قوم کو سابقہ تباہ شدہ قو م کی خبر دی گئی

ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ ان کے بھائی ہارونؑ کو مددگار کے طور پر لگایا اور ان سے کہا کہ جاؤ اس قوم کی طرف جس نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ آخرکار ان لوگوں کو ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا۔ یہی حال قوم نوحؑ کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ ہم نے ان کو غرق کر دیا اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنا دیا اور ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہم نے مہیا کر رکھا ہے۔ اسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے۔ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے (پہلے تباہ ہونے والوں کی) مثالیں دے دے کر سمجھایا اور آخرکار ہر ایک کو غارت کر دیا۔ اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔(الفرقان۔۔۔ ۴۰)

۴۔ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا

یہ لو گ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں ۔ (کہتے ہیں ) ’’کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے‘‘۔ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور کل گیا تھا۔کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ (الفرقان۔۔۔ ۴۴)

۵۔رات کو لباس اور نیند کو سکونِ موت بنایا گیا

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں ۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔(الفرقان۔۔۔ ۴۷)

۶۔بارش کا پانی مردہ علاقہ کو زندگی بخشتا ہے

اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے تاکہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔ اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں تاکہ وہ کچھ سبق لیں ، مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اٹھا کھڑا کرتے۔ پس اے نبیﷺ ،کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔(الفرقان۔۔۔ ۵۲)

۷۔سمندر میں میٹھا اور کھارا پانی ساتھ ساتھ

اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیر و شیریں ، دوسرا تلخ و شور، اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔ (الفرقان۔۔۔ ۵۴)

۸۔ کافر اللہ کے ہر باغی کے مددگار ہیں

اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔اے نبیﷺ ، تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ان سے کہہ دو کہ ’’میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے‘‘۔(الفرقان۔۔۔ ۵۷)

۹۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی

اے نبیﷺ ، اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دہاجو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی ’’عرش‘‘ پر جلوہ فرما ہوا۔ رحمن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو۔ (الفرقان۔۔۔ ۵۹)

۱۰۔آسمان میں بْرج اور چمکتا چاند بنایا گیا

ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں ’’رحمن کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اُسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں ‘‘؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے۔ بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔ (الفرقان۔۔۔ ۶۲)

۱۱۔جو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل

رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں ۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ الاّ یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے(الفرقان۔۔۔ ۷۰)

۱۲۔توبہ کر کے نیک عمل کرنے والے

جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔۔۔ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں ) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پران کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔۔۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے۔آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا۔وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔اے نبیﷺ ، لوگوں سے کہو ’’میرے رب کو تہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے، عنقریب وہ سزا پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہو گی‘‘ (الفرقان۔۔۔ ۷۷)


سورۂ الشعراء

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔

۱۳۔ نباتات کی کثیر مقدار میں ایک نشانی ہے

ط ۔ س ۔ م۔ یہ کتاب مُبین کی آیات ہیں ۔ اے نبیﷺ ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں ۔ ان لوگوں کے پاس رحمن کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔اب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں ، عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہو جائے گا جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں ؟ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ (الشعراء۔۔۔ ۹)

۱۴۔فرعون کے پاس جانے سے موسیٰؑ کا گریز

انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا ’’ظالم قوم کے پاس جا ۔۔۔ فرعون کی قوم کے پاس ۔۔۔ کیا وہ نہیں ڈرتے‘‘؟ اس نے عرض کیا، ’’اے میرے رب، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلا دیں گے۔میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں ۔ اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے‘‘۔ فرمایا ’’ہرگز نہیں ، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو، ہم کو رب العالمین نے اس لیے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے‘‘۔ (الشعراء۔۔۔ ۱۷)

۱۵۔فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا

فرعون نے کہا ’’کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے،اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے‘‘۔موسیٰؑ نے جواب دیا ’’اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کر دیا تھا۔پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔ رہا تیرا احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تُو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا‘‘۔(الشعراء۔۔۔ ۲۲)

۱۶۔فرعون کے دربار میں موسیٰؑ کا معجزہ دکھلانا

فرعون نے کہا ’’اور یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’آسمانوں اور زمین کا رب، اور ان سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں ، اگر تم یقین لانے والے ہو‘‘۔ فرعون نے اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے کہا ’’سنتے ہو‘‘؟ موسیٰؑ نے کہا ’’تمہارا رب بھی اور تمہارے ان آباء و اجداد کا رب بھی جو گزر چکے ہیں ‘‘۔ فرعون نے (حاضرین سے) کہا ’’تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔موسیٰؑ نے کہا ’’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب،اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں ‘‘۔ فرعون نے کہا ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں ‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی‘‘؟ فرعون نے کہا ’’اچھا تو لے آ اگر تو سچا ہے‘‘۔(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدہا تھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔(الشعراء۳۳)

۱۷۔فرعون کا جادوگروں کو اکٹھا کرنا

فرعون اپنے گرد و پیش کے سرداروں سے بولا ’’یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو‘‘؟انہوں نے کہا ’’اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں ‘‘۔ چنانچہ ایک روز مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کر لیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا ’تم اجتماع میں چلو گے؟ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے‘‘۔(الشعراء۔۔۔ ۴۰)

۱۸۔جادو گروں کا موسیٰؑ سے شکست کھانا

جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا ’’ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے‘‘؟اس نے کہا ’’ہاں ،اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے‘‘۔موسیٰؑ نے کہا ’’پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے‘‘۔ انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ’’فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے‘‘۔ پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ ’’مان گئے ہم رب العالمین کو۔موسیٰؑ اور ہارونؑ کے رب کو‘‘ ( الشعراء۔۔۔ ۴۸)

۱۹۔فرعون کا جادوگروں پر ناراض ہونا

فرعون نے کہا ’تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے،میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تم سب کو سُولی پر چڑھا دوں گا‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کچھ پروا نہیں ، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے۔ اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا، کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں ‘‘۔ (الشعراء۔۔۔ ۵۱)

۲۰۔موسیٰؑ کا ساتھیوں سمیت شہر سے نکلنا

ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ ’’راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔ اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیئے (اور کہلا بھیجا) کہ ’’یہ کچھ مُٹھی بھر لوگ ہیں ، اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے، اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے‘‘۔ اس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا ان کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا۔ (الشعراء۔۔۔ ۵۹)

۲۱۔ لشکرِ فرعون کا سمندر میں غرق ہونا

صبح ہوتے یہ لوگ ان کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ہرگز نہیں ۔ میرے ساتھ میرا رب ہے۔وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا‘‘۔ ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ ’’مار اپنا عصا سمندر پر‘‘۔ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰؑ اور ان سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا، اور دوسروں کو غرق کر دیا۔ اس واقعہ میں ایک نشانی ہے، مگر ان لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ (الشعراء۔۔۔ ۶۸)

۲۲۔ابراہیمؑ کا بت پرست قوم سے مکالمہ

اور انہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ ’’یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو‘‘؟ انہوں نے جواب دیا ’’کچھ بُت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں ‘‘۔ اس نے پوچھا ’’کیا یہ تمہاری سُنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو؟ یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ‘‘؟ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں ، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے‘‘۔ اس پر ابراہیمؑ نے کہا ’’کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) ان چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا بجا لاتے رہے؟( الشعراء:۷۶)

۲۳۔ رب العالمین موت کے بعد زندگی بخشے گا

میرے تو یہ سب دشمن ہیں ،بجز ایک رب العٰلمین کے،جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا۔ اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا‘‘۔ (اس کے بعد ابراہیمؑ نے دعا کی کہ) ’’اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر۔ اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔ اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔ اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء۔۔۔ ۸۹)

۲۴۔ دوزخ گمراہوں کے سامنے کھلی ہو گی

(اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی۔ اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ؟‘‘۔ پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ، اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اوپر تلے دھکیل دیئے جائیں گے۔ وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکے ہوئے لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے کہ ’’خدا کی قسم، ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العٰلمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنہوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا۔ اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں ‘‘۔یقیناً اس میں ایک بڑی نشانی ہے،مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۔۔۔ ۱۰۴)

۲۵۔نوحؑ کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں بچا لیا گیا

قوم نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ ان کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (بے کھٹکے) میری اطاعت کرو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے‘‘؟ نوحؑ نے کہا ’’میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں ، ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو۔میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں ۔میں تو بس ایک صاف صاف متنبہ کر دینے والا آدمی ہوں ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے نوحؑ ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا‘‘۔نوحؑ نے دعا کی ’’اے میرے رب، میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے‘‘۔ آخرکار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔اور اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ۔اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۔۔۔ ۱۲۲)

۲۶۔قومِ عاد کا لاحاصل یادگار عمارات بنانا

عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہودؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو،اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیئے، اولا دیں دیں ، باغ دیئے اور چشمے دیئے۔مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’تُو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے سب یکساں ہے۔ یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں ۔اور ہم عذاب میں مُبتلا ہونے والے نہیں ہیں ‘‘۔ آخرکار انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے۔اور رحیم بھی۔ (الشعراء۔۔۔ ۱۴۰)

۲۷۔اہلِ ثمود کے لیے اونٹنی کی نشانی

ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں ، بس یونہی اطمینان سے رہنے دیئے جاؤ گے؟ان باغوں اور چشموں میں ؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں ؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا۔ ’’تُو محض ایک سِحرزدہ آدمی ہے۔ تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے؟ لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے‘‘۔ صالحؑ نے کہا ’’یہ اونٹنی ہے۔ ایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔ اس کو ہرگز نہ چھیڑنا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو آلے گا‘‘۔ مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے۔عذاب نے انہیں آ لیا۔یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۔۔۔ ۱۵۹)

۲۸۔قومِ لوطؑ کے لیے بارش کا عذاب

لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔یاد کرو جب کہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا، ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے لوطؑ ، اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں ان میں تو بھی شامل ہو کر رہے گا‘‘۔ اس نے کہا ’’تمہارے کرتوتوں پر جو لوگ کُڑھ رہے ہیں ،میں ان میں شامل ہوں ۔ اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بد کرداریوں سے نجات دے‘‘۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا،بجز ایک بوڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیر ارب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۔۔۔ ۱۷۵)

۲۹۔پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو، شعیبؑ

اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔میرا اجر تو رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔ پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’تو محض ایک سِحرزدہ آدمی ہے،اور تو کچھ نہیں ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا،اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں ۔اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے‘‘۔شعیبؑ نے کہا ’’میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو‘‘۔انہوں نے اسے جھٹلا دیا، آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آ گیا،اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ا ور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۔۔۔ ۱۹۱)

۳۰۔قرآن کو واضح عربی زبان میں اتارا گیا

یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ چیز ہے۔اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلقِ خدا کو) متنبہ کرنے والے ہیں ، صاف صاف عربی زبان میں ۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ کیا ان (اہل مکہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں ؟ (لیکن ان کی ہٹ دھرمی کا حال تو یہ ہے کہ) اگر ہم اسے کسی عجمی پربھی نازل کر دیتے تو اور یہ (فصیح عربی کلام) وہ ان کو پڑ ھ کر سناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے۔اسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے۔وہ اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک کہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں ۔ پھر جب وہ بے خبری میں ان پر آ پڑتا ہے اس وقت وہ کہتے ہیں کہ ’’کیا اب ہمیں کچھ مہلت مل سکتی ہے‘‘؟ تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مہلت بھی دے دیں اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے تو وہ سامان زیست جو ان کو ملا ہوا ہے ان کے کس کام آئے گا؟ (الشعراء۔۔۔ ۲۰۷)

۳۱۔اللہ خبردار کیے بغیر کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا

(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کو اس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اس کے لیے خبردار کرنے والے حق نصیحت ادا کرنے کو موجود تھے۔ اور ہم ظالم نہ تھے۔اس (کتاب مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں ، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے،ا ورنہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۔وہ تو اس کی سماعت تک سے دور رکھے گئے ہیں ۔پس اے نبیﷺ ، اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ، اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ، لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ۔اور اس زبردست اور رحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (الشعراء۔۔۔ ۲۲۰)

۳۲۔ شیاطین جعل ساز،بدکار پر اترا کرتے ہیں

لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں ؟وہ ہر جعل ساز،بدکار پر اترا کرتے ہیں ۔سنی سنائی باتیں کانوں میں پھُونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔ (الشعراء:۲۲۳)

۳۳۔ شعراء نہ کرنے والی باتیں کرتے ہیں

رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں ۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں ۔۔۔ بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا۔۔۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں ۔ الشعراء۔۔۔ ۲۲۷)

سورۂالنمل

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۳۴۔منکرینِ کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں

ط۔س۔یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی، ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں ۔ اور (اے نبیﷺ ) بلاشبہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پا رہے ہو۔(النمل۔۔۔ ۶)

۳۵۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف نو نشانیاں

(انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ) جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ’’مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چُن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم ہو سکو‘‘۔ وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ ’’مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے۔ پاک ہے اللہ، سب جہان والوں کا پروردگار۔ اے موسیٰؑ ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا۔اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی‘‘۔جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ’’اے موسیٰؑ ، ڈرو نہیں ۔ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے، الاّ یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو۔ پھر اگر بُرائی کے بعد اس نے بھلائی سے (اپنے فعل کو) بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں ۔اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ (دو نشانیاں ) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لیے)، وہ بڑے بدکردار لوگ ہیں ‘‘۔مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں ان لوگوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلم کھلا جادو ہے۔ انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل۔۔۔ ۱۴)

۳۶۔ سلیمانؑ کے لشکر: جن ، انسان اور پرندے

(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ ، سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی‘‘ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔ اور اس نے کہا ’’لوگوں ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں ، بے شک یہ (اللہ کا) نمایاں فضل ہے‘‘۔ سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ (ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا ’’اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔ سلیمانؑ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا۔۔۔ ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔(النمل۔۔۔ ۱۹)

۳۷۔ملکہ سبا کی خبر سلیمانؑ کو ہدہد نے دی

(ایک اور موقع پر) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا ’’کیا بات ہے کہ میں فلاح ہُدہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں ؟ کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟ میں اسے سخت سزا دوں گا۔ یا اسے ذبح کر دوں گا۔ ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہو گی‘‘۔ کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے آ کر کہا ’’میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں ۔ جو آپ کے علم میں نہیں ہیں ۔ میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں ۔ میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمراں ہے۔ اس کو ہر طرح کا سر و سامان بخشا گیا ہے۔ اور اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے‘‘۔۔۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیئے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا،اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں ۔ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ، جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ (النمل۔۔۔ ۲۶)

۳۸۔ملکہ سبا کو ہدہد نے سلیمانؑ کا خط پہنچایا

سلیمانؑ نے کہا ’’ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ‘‘۔ملکہ بولی ’’اے اہل دربار، میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔وہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ مضمون یہ ہے کہ ’’میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ‘‘۔(النمل۔۔۔ ۳۱)

۳۹۔ملکہ سبا کا سلیمانؑ کو تحائف بھیجنا

(خط سنا کر) ملکہ نے کہا ’’اے سردارانِ قوم، میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں ‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں ۔ آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے‘‘۔ملکہ نے کہا کہ ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں ۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں ۔ میں ان لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں ،پھر دیکھتی ہوں کہ میرے ایلچی کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں ‘‘۔جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا ’’کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے۔تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے۔ (اے سفیر) واپس جا اپنے بھیجنے والوں کی طرف۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کا مقابلہ وہ نہ کر سکیں گے اور ہم انہیں ایسی ذلت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے‘‘۔ (النمل۔۔۔ ۳۷)

۴۰۔ملکہ سبا کا تخت سلیمانؑ کے دربار میں

سلیمانؑ نے کہا ’’اے اہلِ دربار، تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں ؟ جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا ’’میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں ۔میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں ‘‘۔ جس شخص کے پاس کتاب کا ایک علم تھا وہ بولا ’’میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں ‘‘۔ جونہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اٹھا ’’یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں ۔اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے‘‘۔ (النمل۔۔۔ ۴۰)

۴۱۔ سلیمانؑ کے اوصاف دیکھ کر ملکہ سبا کا ایمان لانا

سلیمانؑ نے کہا ’’انجان طریقے سے اس کا تخت اس کے سامنے رکھ دو، دیکھیں وہ صحیح بات تک پہنچتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو راہ راست نہیں پاتے‘‘۔ ملکہ جب حاضر ہوئی تو اسے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی ’’یہ تو گویا وہی ہے۔ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سر اطاعت جھکا دیا تھا۔(یا ہم مسلم ہو چکے تھے)‘‘۔اس کو (ایمان لانے سے) جس چیز نے روک رکھا تھا وہ ان معبودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھیں ، کیوں کہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔ اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اترنے کے لیے اس نے اپنے پائنچے اٹھا لیے۔ سلیمانؑ نے کہا ’’ یہ شیشے کا چکنا فرش ہے‘‘۔ اس پر وہ پکار اٹھی ’’اے میرے رب (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کر لی‘‘۔ (النمل۔۔۔ ۴۴)

۴۲۔ نیک و بد شگون کا سر رشتہ اللہ کے پاس ہے

اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو یکایک وہ دو متخاصم فریق بن گئے۔ صالحؑ نے کہا، ’’اے میری قوم کے لوگو، بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو؟ کیوں نہیں اللہ سے مغفرت طلب کرتے؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بد شگونی کا نشان پایا ہے‘‘۔ صالحؑ نے جواب دیا ’’تمہارے نیک و بد شگون کا سر رشتہ تو اللہ کے پاس ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے‘‘۔ (النمل۔۔۔ ۴۷)

۴۳۔جو ملک میں فساد پھیلاتے تھے

اس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں کہا ’’خدا کی قسم کھا کر عہد کر لو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہیں تھے، ہم بالکل سچ کہتے ہیں ‘‘۔ یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ان کو اور ان کی پوری قوم کو۔ وہ ان کے گھر خالی پڑے ہیں ۔اس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے، اس میں ایک نشان عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۔ اور بچا لیا ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے۔ (النمل۔۔۔ ۵۳)

۴۴۔قومِ لوطؑ کی بدکاری اور تباہی

اور لوطؑ کو ہم نے بھیجا ۔یاد کرو وہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم آنکھوں دیکھتے بدکاری کرتے ہو‘‘؟ کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو‘‘۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’نکال دو لوطؑ کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں ‘‘۔ آخرکار ہم نے بچا لیا اس کو اور اس کے گھر والوں کو، بجز اس کی بیوی کے جس کا پیچھے رہ جانا ہم نے طے کر دیا تھا، اور برسائی ان لوگوں پر ایک برسات، بہت ہی بری برسات تھی وہ ان لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جا چکے تھے۔ (اے نبیﷺ )کہو، حمد ہے اللہ کے لیے اور سلام اس کے ان بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا۔(ان سے پوچھو) اللہ بہتر ہے یاوہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں ؟ (النمل۔۔۔ ۵۹)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۲۰۔۔۔ امن خلق کے مضامین


۱۔اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا

بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اُس کے ذریعہ وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟(نہیں )، بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں ۔ اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیئے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟ نہیں بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں ۔ (النمل۔۔۔ ۶۱)

۲۔انسان کو زمین کا خلیفہ کس نے بنایا؟

کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ (النمل۔۔۔ ۶۳)

۳۔خلق کی ابتدا اور اس کا اعادہ کرنے والا

اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی) نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان لوگوں سے گم ہو گیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں ، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں ۔(النمل۔۔۔ ۶۶)

۴۔ کیا عجب کہ عذاب کا ایک حصہ قریب ہی ہو

یہ منکرین کہتے ہیں ’’کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ خبریں ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں اور پہلے ہمارے آباء و اجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں ، مگر یہ بس افسانے ہی افسانے ہیں جو اگلے وقتوں سے سنتے چلے آرہے ہیں ‘‘۔کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔اے نبیﷺ ، ان کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چالوں پر دل تنگ ہو۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ دھمکی کب پوری ہو گی اگر تم سچے ہو‘‘؟ کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آ لگا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ بلاشبہ تیرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ آسمان و زمین کی کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جو ایک واضح کتاب میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو ۔(النمل:۔۔۔ ۷۵)

۵۔ جانور لوگوں سے کلام کرے گا

یہ واقعہ ہے کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔ یقیناً (اسی طرح) تیرا رب ان لوگوں کے درمیان بھی اپنے حکم سے فیصلہ کر دے گا اور وہ زبردست اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ پس اے نبیﷺ ، اللہ پر بھروسہ رکھو، یقیناً تم صریح حق پر ہو۔ تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے، نہ اُن بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں ، اور نہ اندھوں کو راستہ بتا کر بھٹکنے سے بچا سکتے ہو۔ تم تو اپنی بات انہی لوگوں کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرماں بردار بن جاتے ہیں ۔اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ (النمل۔۔۔ ۸۲)

۶۔روشن دن اور سکون آور رات نشانیاں ہیں

اور ذرا تصور کرو اس دن کا جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج ان لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھُٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب سب آ جائیں گے، تو (ان کا رب ان سے) پُوچھے گا کہ ’’تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کر رہے تھے‘‘؟ اور ان کے ظلم کی وجہ سے عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہو جائے گا، تب وہ کچھ بھی نہ بول سکیں گے۔ کیا ان کو سُجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اس میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے۔(النمل۔۔۔ ۸۶)

۷۔جب پہاڑ بادلوں کی طرح اْڑیں گے

اور کیا گزرے گی اس روز جبکہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا ۔۔۔ اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں ، مگر اس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ اُستوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے، اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟ (النمل۔۔۔ ۹۰)

۸۔ ہدایت اختیار کرو، اپنے ہی بھلے کے لیے

(اے نبیﷺ ، ان سے کہو) ’’مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں اور یہ قرآن پڑھ کر سُناؤں ‘‘۔ اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ ’’میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں ‘‘۔ ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لو گے، اور تیرا رب بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔(النمل۔۔۔ ۹۳)


سورۂ القصص

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۹۔فرعون و موسیٰؑ کے قصہ میں سبق ہے

ط ۔ س۔ م ۔ یہ کتاب مُبین کی آیات ہیں ۔ ہم موسیٰؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں ، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں ۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور اُنہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔ (القصص۔۔۔ ۶)

۱۰۔ موسیٰؑ کا دریا سے فرعون کے گھر پہنچنا

ہم نے موسیٰؑ کی ماں کو اشارہ کیا کہ ’’اس کو دُودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے‘‘۔ آخرکار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں ) بڑے غلط کار تھے۔ فرعون کی بیوی نے (اس سے ) کہا ’’یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کو ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا ہی بنا ڈالیں ‘‘۔ اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔ (القصص۔۔۔ ۹)

۱۱۔ نومولود موسیٰؑ کا ماں سے دوبارہ ملنا

اُدھر موسیٰؑ کی ماں کا دل اُڑا جا رہا تھا۔وہ اُس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ اس نے بچے کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو) اس کا پتہ نہ چلا۔اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دُودھ پلانے والوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں ۔ (یہ حالت دیکھ کر) اس لڑکی نے اُن سے کہا ’’میں تمہیں ایسے گھرکا پتا بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیرخواہی کے ساتھ اسے رکھیں ‘‘؟ اس طرح ہم موسیٰؑ کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔(القصص۔۔۔ ۱۳)

۱۲۔جھگڑے میں موسیٰؑ کے ہاتھوں قتل

جب موسیٰؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کا نشوونما مکمل ہو گیا تو ہم نے اسے حُکم اور علم عطا کیا، ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ (ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوا جبکہ اہل شہر غفلت میں تھے۔ وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں ۔ ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اُسے مدد کے لیے پکارا۔ موسیٰؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا، ’’یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کُن ہے‘‘، پھر وہ کہنے لگا ’’اے میرے رب، میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے؟‘‘۔ چنانچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی، وہ غفور رحیم ہے۔موسیٰؑ نے عہد کیا کہ ’’اے میرے رب، یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اس کے بعد اب میں کبھی مجرم کا مددگار نہ بنوں گا‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۱۷)

۱۳۔ موسیٰؑ کا شہر چھوڑ کر نکل جانا

دوسرے روز وہ صبح سویرے ڈرتا اور ہر طرف سے خطرہ بھانپتا ہوا شہر میں جا رہا تھا کہ یکایک کیا دیکھتا ہے کہ وہی شخص جس نے کل اسے مدد کے لیے پکارا تھا آج پھر اسے پکا ر رہا ہے۔موسیٰؑ نے کہا ’’تُو تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے‘‘۔ پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے تو وہ پکار اٹھا ’’اے موسیٰؑ ، کیا آج تو مجھے اُسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کر چکا ہے؟ تو اس ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتا ہے،اصلاح کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور بولا، ’’موسیٰؑ ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں ،یہاں سے نکل جا میں تیرا خیرخواہ ہوں ‘‘۔ یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہما نکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ ’’اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا‘‘(القصص۔۔۔ ۲۱)

۱۴۔ مدین میں کنویں پر عورتوں کی مدد کرنا

(مصر سے نکل کر) جب موسیٰؑ نے مدین کا رخ کیا تو اس نے کہا ’’امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘۔ اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ موسیٰؑ نے ان عورتوں سے پوچھا ’’تمہیں کیا پریشانی ہے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں ، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں ‘‘۔ یہ سُن کر موسیٰؑ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا ’’پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں ‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۲۴)

۱۵۔۱۰ سال تک ملازمت اور شادی کا معاہدہ

(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی ’’میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں ‘‘۔موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا ’’کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو‘‘۔ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو‘‘۔ اس کے باپ نے (موسیٰؑ سے) کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم ان شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے‘‘۔موسیٰؑ نے جواب دیا ’’یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی پوری کر دوں اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۲۸)

۱۶۔طور کی جانب روانگی اور اللہ سے ہم کلامی

جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ’’ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو‘‘۔ وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا کہ ’’اے موسیٰؑ ، میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہان والوں کا مالک‘‘۔ اور (حکم دیا گیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی۔ جوں ہی موسیٰؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (ارشاد ہوا) ’’موسیٰؑ پلٹ آ اور خوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے۔ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازو بھینچ لے۔ (القصص۔۔۔ ۳۲)

۱۷۔موسیٰؑ کی نبوت میں ہارونؑ کا شریک ہونا

یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں ‘‘۔ موسیٰؑ نے عرض کیا ’’میرے آقا، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں ، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے، اور میرا بھائی ہارونؑ مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے‘‘ فرمایا ’’ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۳۵)

۱۸۔ اونچی عمارت بنا کہ خدا کو دیکھ سکوں : فرعون

پھر جب موسیٰؑ ان لوگوں کے پاس ہماری کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا ’’یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادو۔ اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سنی ہی نہیں ‘‘۔موسیٰؑ نے جواب دیا ’’میرا رب اس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کس کا اچھا ہونا ہے، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے‘‘۔اور فرعون نے کہا ’’اے اہل دربار، میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰؑ کے خدا کو دیکھ سکوں ، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں ‘‘۔(القصص۔۔۔ ۳۸)

۱۹۔لشکرِ فرعون کا گھمنڈ اور ان کی تباہی

اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پا سکیں گے۔ ہم نے اس دنیا میں اس کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مُبتلا ہوں گے۔ (القصص۔۔۔ ۴۲)

۲۰۔ جب موسیٰؑ کو فرمانِ شریعت عطا ہوا

پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بنا کر،ہدایت اور رحمت بنا کر، تاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں ۔ (اے نبیﷺ ) تم اس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰؑ کو یہ فرمان شریعت عطا کیا، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے، بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک) ہم بہت سی نسلیں اٹھا چکے ہیں اور ان پر بہت زمانہ گزر چکا ہے۔ تم اہل مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ان کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے، مگر (اس وقت کی یہ خبریں ) بھیجنے والے ہم ہیں ۔ اور تم طور کے دامن میں بھی اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جا رہی ہیں ) تاکہ تم ان لوگوں کو متنبہ کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں ۔ (اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ) کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اپنے کیے کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر آئے تو وہ کہیں ’’اے پروردگار، تُو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور ا ہل ایمان میں سے ہوتے‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۴۷)

۲۱۔خدائی ہدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی

مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آ گیا تو وہ کہنے لگے ’’کیوں نہ دیا گیا اس کو وہی کچھ جو موسیٰؑ کو دیا گیا تھا‘‘؟ کیا یہ لوگ اس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا ’’دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ‘‘۔ اور کہا ’’ہم کسی کو نہیں مانتے‘‘۔ (اے نبیﷺ ) ان سے کہو، ’’اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو، میں اسی کی پیروی اختیار کروں گا‘‘۔ اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں ، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا۔(القصص۔۔۔ ۵۰)

۲۲۔جو بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں

اور (نصیحت کی) بات پے درپے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں ۔جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور جب یہ ان کو سُنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس پر ایمان لائے، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں ‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی۔ وہ بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جب انہوں نے بے ہودہ بات سُنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘ اے نبیﷺ ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔(القصص۔۔۔ ۵۶)

۲۳۔خوشحالی پر اترانے والی بستیاں تباہ ہو گئیں

وہ کہتے ہیں ’’اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے‘‘۔کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پُر امن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں ، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِترا گئے تھے۔سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔(القصص۔۔۔ ۵۸)

۲۴۔جب بستی والے ظالم ہو جائیں

اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سُناتا۔ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔ تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ (القصص۔۔۔ ۶۰)

۲۵۔ صرف حیاتِ دنیا کا سامان پانے والے

بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سر و سامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟اور (بھول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جبکہ وہ ان کو پکارے گا اور پُوچھے گا ’’کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے‘‘؟ یہ قول جن پر چسپاں ہو گا وہ کہیں گے ؟’’اے ہمارے رب! بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنے برأت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے‘‘۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو۔ یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے۔(القصص۔۔۔ ۶۴)

۲۶۔اللہ جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے

اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ)وہ دن جب کہ وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ ’’جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا‘‘؟ اس وقت کوئی جواب ان کو نہ سوجھے گا اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ ہی سکیں گے۔ البتہ جس نے آج توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہو گا۔تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں ۔ وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، فرماں روائی اس کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ (القصص۔۔۔ ۷۰)

۲۷۔ اگر رات یا دن تا قیامت طول پکڑ جائیں

اے نبیﷺ ، ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟ کیا تم سُنتے نہیں ہو؟ ان سے پوچھو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سُوجھتا نہیں ؟ یہ اُسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں ) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو،شاید کہ تم شکرگزار بنو۔ (القصص۔۔۔ ۷۳)

۲۸۔اللہ ہر امت سے ایک گواہ نکال لائے گا

(یاد رکھیں یہ لوگ) وہ دن جب کہ وہ انہیں پکارے گا پھر پُوچھے گا ’’کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے‘‘؟اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر کہیں گے کہ ’’لاؤ اب اپنی دلیل‘‘۔ اُس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق اللہ کی طرف ہے، اور گم ہو جائیں گے ان کے وہ سارے جھُوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔(القصص۔۔۔ ۷۵)

۲۹۔ قارون کا خزانہ اور اس کی سرکشی

یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اُس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ’’پھُول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ا س سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ تو اس نے کہا ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔۔۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے (القصص۔۔۔ ۷۸)

۳۰۔ قارون کا خزانہ زمین میں دھنسا دیا گیا

ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نکلا۔ جو لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے ’’کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے‘‘۔ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے ’’افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘۔آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا۔ اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے ’’افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپَا تُلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے‘‘۔ (القصص۔۔۔ ۸۲)

۳۱۔ انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے

وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں ۔ اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔ جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے ، اور جو برائی لے کر آئے تو برائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔ اے نبیﷺ ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچا نے والا ہے۔ ان لوگوں سے کہہ دو کہ ’’میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے‘‘۔ تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے (تم پر نازل ہوئی ہے)، پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو۔ اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفار تمہیں ان سے باز رکھیں ۔ اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔(القصص۔۔۔ ۸۸)

سورۂ العنکبوت

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۳۲۔کیا لوگوں کو آزمایا نہ جائے گا؟

ا۔ ل۔ م ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں ۔یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں ۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا۔اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۷)

۳۳۔شرک میں والدین کی اطاعت نہ کرو

ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۹)

۳۴۔دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم ہے

لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ ’’ہم تو تمہارے ساتھ تھے‘‘۔ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ اور اللہ کو تو ضروریہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون۔ (العنکبوت۔۔۔ ۱۱)

۳۵۔ کافروں کے طریقے کی پیروی کرنا

یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔ حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں ، وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں ۔ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔ اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افترا پردازیوں کی باز پرس ہو گی جو وہ کرتے رہے ہیں ۔ (العنکبوت۔۔۔ ۱۳)

۳۶۔ نوحؑ ساڑھے نو سو برس تک جیے

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کے درمیان رہا۔ آخرکار ان لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا،اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ پھر نوحؑ کو اور کشتی والوں کو ہم نے بچا لیا اور اسے دنیا کے لیے ایک نشان عبرت بنا کر رکھ دیا۔ (العنکبوت۔۔۔ ۱۵)

۳۷۔اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو

اور ابراہیمؑ کو بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پُوج رہے ہو وہ تو محض بُت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو۔ درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔اور اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں ، اور رسولﷺ پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔ (العنکبوت۔۔۔ ۱۸)

۳۸۔ اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہیں

کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو) اللہ کے لیے آسان تر ہے۔ ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتداء کی ہے، پھر اللہ بارِ دیگر بھی زندگی بخشے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جسے چاہے سزا دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے، اُسی کی طرف تم پھیرے جانے والے ہو۔ تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں ، اور اللہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۲۲)

۳۹۔جنہوں نے اللہ سے ملاقات کا انکار کیا

جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے۔ وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔پھر ابراہیمؑ کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’قتل کر دو اسے یا جلا ڈالو اس کو‘‘۔آخرکار اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ، ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں ۔ اور اُس نے کہا ’’تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا‘‘۔ اس وقت لوطؑ نے اس کو مانا۔ اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں ، وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔ اور ہم نے اسے اسحاقؑ اور یعقوبؑ (جیسی اولاد) عنایت فرمائی اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی، اور اسے دنیا میں اُس کا اجر عطا کیا اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔ (العنکبوت۔۔۔ ۲۷)

۴۰۔قومِ لوطؑ نے فحش کام کا آغاز کیا

اور ہم نے لوطؑ کو بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا ’’تم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ہے۔ کیا تمہارا حال یہ ہے کہ مَردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو‘‘؟ پھر کوئی جواب اُس کی قوم کے پاس اس کے سوا نہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچا ہے‘‘۔ لوطؑ نے کہا ’’اے میرے رب، ان مفسدوں کے مقابلے میں میری مدد فرما‘‘ ( العنکبوت۔۔۔ ۳۰)

۴۱۔قومِ لوطؑ کی تباہی کی خبر ابراہیمؑ کودی گئی

اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے تو انہوں نے اس سے کہا ’’ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ، اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں ‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’وہاں تو لوطؑ موجود ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے۔ ہم اُسے، اور اُس کی بیوی کے سوا، اس کے باقی سب گھر والوں کو بچا لیں گے‘‘۔ اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔پھر جب ہمارے فرستادے لوطؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا۔ انہوں نے کہا ’’نہ ڈرو اور نہ رنج کرو۔ ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں ‘‘۔ اور ہم نے اس بستی کی ایک کھلی نشانی چھوڑ دی ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ (العنکبوت۔۔۔ ۳۵)

۴۲۔زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرو

اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزِ آخر کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو‘‘۔ مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ آخرکار ایک سخت زلزلے نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۳۷)

۴۳۔جنہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا

اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔ ان کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے۔ اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا۔ موسیٰؑ ان کے پاس بینات لے کر آیا، مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا، حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے۔ آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا۔ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔(العنکبوت۔۔۔ ۴۰)

۴۴۔غیر اللہ کی سرپرستی یا مکڑی کا گھر

جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں ۔ مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہل ایمان کے لیے۔(العنکبوت۔۔۔ ۴۴)

۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں