پیغام قرآن و حدیث کی تعارفی تقریب


پیغام قرآن و حدیث کی تعارفی تقریب

اتوار 24 جولائی 2011 کی شام اسلامی تہذیبی مرکز جمعیت الفلاح کراچی میں اس احقر کی نئی کتاب " پیغامَ قرآن و حدیث" کی تعارفی تقریب سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان جناب اسداللہ بھٹو کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جمعیت الفلاح کے سیکریٹری جنرل حکیم مجاہد محمود برکاتی نے کتاب اور صاحب کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ نوجوان دانشور جناب شاہنواز فاروقی نے قرآن اور تفہیم قرآن کے حوالے سے علم و دانش سے بھر پور تقریر کر تے ہوئے کتاب پر بھی اظہار خیال کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق نےاس خیال کی نفی کی کہ قرآن کے عربی متن کے بغیر پیغام قرآن و حدیث کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتاب ہے اور ایسی اور بھی بہت سی کتب عربی متن کے بغیر شائع ہوچکی ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی مظفر احمد ہاشمی نے کہا کہ اس کتاب میں کمیوں کی تو نشاندہی کی جاسکتی ہے، مگر خامیوں کی نہیں۔استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری نے کتاب اور صاحب کتاب پر اپنا تفصیلی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے نہ صرف یہ کہ مصنف بلکہ قارئین کا بھی بہت بھلا ہوگا۔ ممتاز شاعر یونس رمز نے منظوم ہدیہ تبرک پیش کیا۔

منظوم ہدیہ تبریک



ترا دل مومن و مسلم شناسا نور وحدت کا
محمد کی رسالت کا محمد کی شریعت کا

تری آنکھوں میں جلوہ چہرہ قرآں کی اشاعت کا
کہ شعلہ ہے ترے دل میں مضامیں کی بلاغت کا

ترا جینا ، ترا مرنا ، عقیدت کے تلازم میں
تعلم ساز تفہیم و تدبر کی صلابت کا

رواں ہے دجلہ خوننابہ دل میں نفس تیرا
جگر کی آگ ، ادراکِ نظر کی قدر و قیمت کا

خوشا تو غلبہ اسلام کا حامی ، مبلغ ہے
ترا دل ہے جریدہ حرف جاں شوقِ شہادت کا

شگفتہ لب تکلم ، نغمگی کے تار میں محکم
ترے اظہار کی قوت میں محور ہے اشارت کا

دماغِ شعلہ احساس میں پیہم سلگتا ہے
جنوں تیرا پتنگا ہے شرارِ جذب و جرات کا

سلامت ، مرحبا صد مرحبا اے یوسفِ ثانی
مرقع رمز کے دل ، ہدیہ ذوقِ طبیعت کا


کتاب کے مؤلف کی حیثیت سے احقر نے عرض کیا کہ میں بنیادی طور پرایک قلمکار ہوں یعنی میرا کام لکھنا ہے،بولنا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ لکھنے لکھانے کا جو تھوڑا بہت ہنر میرے پاس تھا اسے میں نے ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ اور اس کتاب پر گفتگو کرنے کے لئے آج بہت سے فاضل مقررین آپ کے سامنے موجود ہیں ۔ پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست دعوت دین کا فریضہ ادا کرنا ہے، جو ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ فرض مجھے بھی ادا کرنا تھا اور چونکہ میں یہ کام تحریری طور پر ہی انجام دے سکتا تھا، لہٰذا میں نے یہ کام پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی صورت میں انجام دیا ہے اور میں اس کام کو اپنے لئے اُخروی نجات کا ذریعہ بنانا چاہتا ہوں ۔ ابلاغ عامہ کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ آج کا ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات سے مکمل طور پرآگاہ نہیں ہے ۔ عربی زبان سے ناواقفیت اور ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں قرآن و حدیث کی عدم شمولیت اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ تاہم ان دو بڑی رکاوٹوں کو عبور کر کے اگر کوئی فرد قرآن کو تراجم و تفاسیر اور احادیث کو شروحات کی مدد سے پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے دو مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک تو تفاسیر و شروحات بذاتِ خود خاصی ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر مبنی ہوتی ہیں ۔ دوسرے ان کتب کا انداز تحریر و ترتیب اگر متروک نہیں تو نامانوس ضرورہے ۔ چنانچہ آج کا سہل پسند انسان اخبارات، رسائل و جرائد اور کتب کا باقاعدہ قاری ہونے کے باجودقرآن و حدیث کے ان عظیم ذخیروں سے استفادہ کرنے سے بالعموم محروم ہی رہتا ہے ۔ پیغامِ قرآن اور پیغامِ حدیث کو عام کتب کی طرز پر مرتب کر کے میں نے انہی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے ،تاکہ ایک عام قاری بھی بہ سہولت انہیں پڑھ اور سمجھ سکے ۔ پیغامِ قرآن و حدیث ان دونوں کتب کا مشترکہ ایڈیشن ہے ۔ دونوں کتب الگ الگ بھی شائع ہو چکی ہیں اور ان شا اللہ آئندہ بھی شائع ہوتی رہیں گی۔ یہ کتب غیر تجارتی بنیادوں پر شائع و تقسیم کی جاتی ہیں ۔ ان کتب کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں یعنی انہیں کوئی بھی شائع و تقسیم کر کے صدقہ جاریہ کے قیمتی خزانہ سے اپنا دامن بھر سکتا ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کتاب، سی ڈی اور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کے ا جزاکو یو ٹیوب پربھی اَپ لوڈ کیا جا رہا ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کی جملہ تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر وقار زبیری صاحب نے اس موقع پر اپنا ایک مضمون پڑھ کر سنایا: میں مجاہد برکاتی صاحب کا اور یوسف ثانی صاحب کا شکر گذار ہوں کہ ہر دو حضرات میری بے بضاعتی سے خوب واقف ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس بابرکت محفل میں مجھے اظہار خیال کا موقعہ دیا۔ میں نے اس کو اپنے لئے باعث سعادت جانا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر بڑا کام کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتے ہیں اور مقام شکر ہے کہ یوسف ثانی کو اللہ نے ہی ایسا بڑا اور مفید کام کرنے کی توفیق عطا کی جو ان کے لئے بہت سے فیوض و برکات کا سبب تو ہو گی ہی، اور بھی بہت سے لوگ ان کے کام سے استفادہ کریں گے ۔ خرم مراد صاحب نے ’’قرآن کا راستہ‘‘ میں کہا تھا: ’’ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ قرآن کو اپنی ذات کی شہرت، عزت، حیثیت یا مالی دولت جیسی دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ مل بھی جائے مگر اس طرح آپ ایک بیش بہا خزانے کا نہایت حقیر اشیا سے سودا کر رہے ہوں گے ‘‘۔ بلا شبہ یوسف ثانی نے یہ کام تو کیا مگر معاوضے میں کسی حقیر شئے کی تمنا نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہی اپنی محنت کا صلہ جانا۔ ان شا ء اللہ انہیں یہ صلہ ضرور حاصل ہو گا۔ 

پیغام قرآن و حدیث دراصل دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ پہلے پانچ سال قبل ’’پیغامِ قرآن‘‘ شوئع ہوئی اور پانچ سال میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ’’پیغامِ حدیث‘‘ الگ شائع کی گئی۔ پھر ۲۰۱۱ء میں دونوں کتابوں کو ملا کر ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ شائع کی گئی۔ دونوں کتابیں الگ الگ پہلے ہی مقبول ہو چکی ہیں اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بھی ان شاء اللہ بہت مقبول ہو گی۔ ’’پیغامِ قرآن‘‘، قرآن کا ترجمہ نہیں ہے ۔ شاید قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے، جس کا کم و بیش دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ ترجموں کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں ہو گئی تھی۔ حضرت سلمان فارسی نے فارسی میں پہلا ترجمہ کیا تھا۔ اردو میں بھی اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ۔ یوسفِ ثانی نے اردو میں ۹۰ ترجموں کی خبر دی ہے ۔ مولانا مودودی علیہ رحمۃ نے اپنے ترجمہ قرآن میں بجا طور پر فرمایا تھا:’’ اب کسی شخص کا محض برکت و سعادت کی خاطر ایک نیا ترجمہ شائع وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں ہے ‘‘ تراجم رہتی دنیا تک ہوتے ہی رہیں گے مگر پیغام قرآن میں یوسف ثانی نے خود وضاحت کی ہے ’’ قرآن مجید کا کسی حاشیے اور تشریح کے بغیر با محاورہ اردو مفہوم، بالترتیب آیات کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں کے ساتھ اردو زبان میں پہلی بارپیغام قرآن میں پیش کیا جرہا ہے ۔ چونکہ اس میں عربی متن نہیں ہے اس لیے اس کو لیٹے بیٹھے، گاڑی میں کسی بھی فرصت کے وقت پڑھا جاسکتا ہے ۔ وضو کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ ہاں اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو قرآن کریم سے رجوع کیا جائے ۔ پیغام حدیث کی خوبی بھی یہی ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں، کیونکہ اس میں بہت ایسی تفصیل کو حذف کر دیا گیا ہے جو سب کے لیے ضروری نہیں ہیں ۔ ان ہی راویوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔ طویل احادیث کو چھوٹے چھوٹے پیراگراف میں تقسیم کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین سہولت سے پڑھ سکیں اور یاد بھی رکھ سکیں ۔ یہاں بھی یہی درست ہے کہ کسی مزید وضاحت کے لیے اصل مآخذ اور راویوں کے تسلسل سے استفادہ کے لیے بخاری شریف سے رجوع کیا جائے ۔ 

یوسف صاحب نے مسلمانوں کے عروج و زوال دونوں کا سبب قرآن کریم کو ہی قرار دیا ہے ۔ یعنی جب ہم قرآن سے پوری طرح استفادہ کر رہے تھے تو صدیوں تک علم و دانش، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم دنیا کے امام تھے ۔ اقبال نے بھی یہی کہا تھا ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ۔ یعنی جب ہم نے قرآن کریم کی سچی رہبری اور رہنمائی سے اغماض برتنا شروع کیاتو بربادی ہمارا مقدر ہو گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اہلِیورپ اپنے تحریف شدہ مذہب سے جڑے رہے، ان کا تاریک دور جاری رہا۔ جب انہوں نے اس سے چھٹکاراپایا تو کامرانیوں کے در وَا ہو گئے ۔ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یوں تو ہر دور میں قرآن پر غور و فکر اور عمل کی ضرورت تھی مگر فی الوقت ہم جس بربادی اور تباہی سے دوچار ہیں، اس دور میں قرآن سے جڑنے کی ضرورت اہم سے اہم تر اور اہم ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے ماحول میں قرآن کے مفہوم سمجھنے سمجھانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے، اس کی بہت ہمت افزائی کی جانی چاہئے ۔ یوسف ثانی نے یہی کام کیا ہے ۔ 

آج کل مسلمانوں میں اور بطور خاص نوجوانوں میں اس ضرورت کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ قرآن کو سمجھا جائے، اس کے اسرار و رموز پر غور و فکر کیا جائے ۔ ترکی کے ڈاکٹر بلوک نوریافی نے قرآن کی آیات کے معنی کو گلاب کے پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی آیات کے معنی ایسے ہی پنکھڑیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں کہ ہر پنکھڑی الگ ہونے پر ایک نیا جہانِ معنی کھول دیتی ہے ۔ یعنی جتنا غور و فکر کیا جائے، نئے نئے مفہوم سامنے آتے جاتے ہیں، جیسے کسی بحر ذخار میں ہر غواص کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے ۔ یوسف ثانی نے بھی نہایت تابدار موتی تلاش کر لیے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ ڈاکٹر بلوک نے یہ بھی کہا تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہر تحریر کا بے اثر ہونا اس کی قسمت ہے مگر قرآن کسی فرد کی تحریر نہیں ہے اس لیے آج بھی تر و تازہ ہے ۔ اگر پوری توجہ اور انہماک سے مسلمان قرآن کی طرف رجوع کریں تو قرآن کریم ان کو ایسی قوت فراہم کرے گا جو مسلمانوں کی رہنمائی اعلیٰ کارناموں کے حصول کی طرف کرے گی۔ یوسف ثانی نے اپنا کام کر دیا ہے ۔

اب جس کے دل میں آئے ، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا

میں برادرم یوسف ثانی کو ا س عظیم کام کو انجام دینے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اس کا فیض تا دیر جاری رہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں