پیغامِ حدیث ۔ کتاب آغازِ وحی


موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی ’پیغامِ قرآن‘ کی عوام الناس میں بے پناہ مقبولیت کے بعد اسی انداز میں ’پیغامِ حدیث‘ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جس نے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی (النساء۔۸۰)۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بجا طور پر شارح قرآن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر نازل ہوا اور آپ ہی اس کی بہترین تشریح و تعبیر کر سکتے ہیں۔قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے احادیث کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ چونکہ صحاحِ ستہ یعنی احادیث کے چھ صحیح ترین مجموعوں (بخاری، مسلم، ترمذی،ابو داؤد، ابن ماجہ، نسائی) میں سرِ فہرست ہونے کے ناطے بخاری شریف کو قرآن کے بعد مستند ترین کتاب یعنی اصح الکتب کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لیے ہم نے بخاری شریف کو بنیاد بنا کر’ پیغامِ حدیث ‘ مرتب کی ہے،جس کی خصوصیات حسب ذیل ہیں۔ 

بخاری شریف کی کتب کی اصل ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے ابواب کے عنوانات کو حذف کر دیا گیا ہے تاہم کتب اور ابواب میں موجود احادیث کی اصل ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے احادیث کے تذکرے میں غیر ضروری تفاصیل اور مکرر بیانات کو حذف کر دیا گیا ہے۔اسی طرح ایک ہی حدیث کے مختلف کتب میں بار بار آمد کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے بعد میں آنے والی تمام مکرر احادیث کو بھی حذف کر دیا گیا ہے۔۔ صرف انہی راویوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے براہِ راست نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔طویل احادیث کو موضوع کی مناسبت سے چھوٹے چھوٹے نثر پاروں میں تقسیم کر کے ایسے ذیلی عنوانات قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو حدیث کے متعلقہ حصہ سے ہم آہنگ ہوں۔ طویل احادیث کی ترتیبِ نو کرتے ہوئے احادیث کی اصل روح کو برقرار رکھنے کی بھی ہر ممکن سعی کی گئی ہے۔ قارئین کی سہولت کی خاطر ’پیغامِ حدیث‘ کو عام کتابوں کی طرز پر مرتب کیا گیا ہے اور احادیث کا لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے با محاورہ اور رواں اردو مفہوم کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو حدیث کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔

پیغامِ حدیث کو پیغامِ قرآن کی ویب سائٹ پر بھی پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس کتاب تک رسائی نہ رکھنے والے قارئین بھی دنیا بھر میں ہر جگہ اس سے استفادہ کر سکیں۔ شیخ التفسیرو شیخ الحدیث مفتی محمد ابراہیم حنیف صاحب ہما رے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے پیغامِ حدیث کے مسودے پر نظر ثانی کرتے ہوئے گرانقدر مشوروں سے نوازا۔پیغامِ حدیث کو مزید بہتر بنانے کے لیے قارئین کی تجاؤیز کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا۔ اللہ مولف کی اس کاوش کو قبول کرتے ہوئے جملہ ادارتی، انتظامی اور مالی معاونین کو اجرِ عظیم عطا کرے۔ آمین، ثُم آمین۔

طالبِ دُعاء . یوسف ثانی
8 اپریل 2010 ء

اشاعتِ ثانی


پیغامِ حدیث کے موجودہ ایڈیشن میں تقریباً سَو صفحات پر مشتمل چار خصوصی ضمیمے شامل کئے گئے ہیں۔ ان ضمیموں میں صحاحِ ستہ کے دیگر مجموعوں یعنی صحیح سلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، ابن ماجہ، سنن نسائی،کے علاوہ مسند احمد، سنن دارمی، موطا امام مالک، اوسط للطبرانی، بیہقی اور شرح السنہ سے اُن اضافی احادیث کو شامل کیا گیا ہے جو بخاری شریف کے جملہ کتب کی تلخیص میں شامل نہیں ہیں۔ گویا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ احادیث نبویؐ کے ذخیروں کے سمندرکو پیغامِ حدیث کے کوزے میں سمودیا گیا ہے۔

اشاعتِ اوّل پر اہلِ علم اور دینی اسکالرز کی موصول شدہ رائے اور تجاؤیز کی روشنی میں اس دوسری اشاعت میں مناسب ترامیم کرنے کے علاوہ کمپوزنگ کی اُن اغلاط کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے جو سابقہ اشاعت میں پائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم خوبی کا اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ متن میں جہاں کہیں بھی امر و نہی (DOs and DON'Ts) کا بلاواسطہ یابالواسطہ (DIRECTLY OR INDIRECTLY)حکم موجود ہے اُن سطور کو جلی اور خط کشیدہ الفاظ میں تحریر کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو ایک نظر میں ہی اندازہ ہو جائے کہ حدیث میں کن باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور کن باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ مطلوبہ احکام کی تلاش میں آسانی کی غرض سے کتاب کے آخر میں امر و نہی کا اشاریہ (INDEX) بھی شامل کیا گیا ہے۔

الحمد للہ ترامیم و اضافہ شدہ اس ایڈیشن کا اختتامی کام حالیہ سفرحج کے دوران مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔اللہ مولف کی اس کاوش کو قبول کرتے ہوئے جملہ ادارتی، انتظامی اور مالی معاونین کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین، ثُم آمین۔

طالبِ دعا : یوسفِ ثانی،
۱۴ دسمبر ۲۰۱۰ء
مسجدِ نبوی ، مدینہ منورہ

۱۔کتاب بدء الوحی (آغازِ وحی)


۱۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے

خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولتِ دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، پس اُس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے شمار ہو گی جن کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے ہجرت کی ہے۔

۲۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کس طرح آتی تھی؟

اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام کے پوچھنے پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح کی آواز آتی ہے،جو مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ جب فرشتے کی کہی بات کو اخذ کر چکتا ہوں تو یہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے۔کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے سخت سردی والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتے ہوئے دیکھی۔جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔

۳۔ وحی کا آغاز اچھے خواب سے ہوا

اُمُّ المومنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی، وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تھے وہ صاف صاف صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت کی محبت دے دی گئی چنانچہ آپصلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات لگاتار عبادت کیا کرتے تھے، بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادِ راہ بھی لے جاتے۔

۴۔ پہلی مرتبہ وحی آنے کا احوال

غار ِحراء میں فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر زور سے بھینچا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے تین مرتبہ ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا کہ اِقْرَا بِاسْمِ رَبِکَ الخ (العلق : ۳ - ا)’’اپنے پروردگار کے نام کی برکت سے پڑھو جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور یقین کر لو کہ تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہےٍ۔

۵۔ ورقہ بن نوفل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پہلی وحی کے واقعہ سے خوف کے مارے ہلنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ المومنین خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اُڑھا دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے خوف جاتا رہا تو خدیجہؓ سے سارا حال بیان کیا۔ خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بوڑھا نابینا تھا اور انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کیا تو ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اے کاش میں اس وقت زندہ رہتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قوم مکہ سے نکالے گی۔کیونکہ جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی بات بیان کی اس سے ہمیشہ دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دَور مل گیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بھرپور طریقے سے مدد کروں گا۔ مگر چند ہی روز میں ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لئے رک گئی۔

۶۔ زمین و آسمان کے درمیان معلق فرشتہ

سیدناجابر بن عبداللہ مروی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن میں چلا جا رہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارِ حراء میں میرے پاس آیا تھا ایک کرسی پر زمین و آسمان کے درمیان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس کے دیکھنے سے ڈرگیا تو میں نے گھر میں آ کر کہا مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ اس موقعہ پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (ترجمہ) اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے ! اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو۔ (المدثر: ۵ - ۱) اس کے بعد وحی کی آمد خوب سرگرم ہو گئی اور لگاتار آنے لگی۔

۷۔ ہونٹوں کو جلد ی جلدی ہلا کر وحی کو یاد کرنا

سیدنا ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ قرآن کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں : (ترجمہ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ‘‘(سورۃ القیامتہ: ۱۷۔۱۶)۔ پھر اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیلؑ کلامِ الٰہی لے کر آتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیلؑ چلے جاتے تو اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُسی طرح پڑھتے تھے جس طرح جبرئیلؑ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تھا۔

۸ ۔ رمضان کی ہر رات جبرئیلؑ کا آپؐ سے ملنا

سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سخی ہو جاتے تھے خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرئیلؑ آ کر ملتے تھے اور جبرئیلؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقیناً اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خلق اﷲ کی نفع رسانی میں تند و تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت میں تیز ہوتے تھے۔

۹۔ شاہِ روم ہرقل کی گواہی

سیدنا ابن عباسؓ نے ابو سفیانؓ بن حرب سے بیان کیا کہ شاہِ روم ہر قل نے قریشی تاجروں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب النّسب، ابوسفیانؓ سے کہا کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں،جو اپنے کو نبی کہتا ہے۔ پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقیناً میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے مجھ سے پوچھا تھا، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں۔ پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں پھر ہر قل نے کہا کہ کیا اُن کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر ہر قل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ میں نے کہا امیروں نے نہیں بلکہ کمزور لوگوں نے۔ پھر ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیروکار دن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں ؟ میں نے کہا کم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ پھر ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان لوگوں میں سے کوئی اُن کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بد ظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں، اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مہلت کے زمانہ میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو ہر قل بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مثل رہتی ہے کہ کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ۔ ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرکیہ کی باتیں وعبادتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو۔ اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ یہ باتیں سن کر ہرقل نے کہا کہ اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے۔ اور بے شک میں کتب سابقہ کی پیش گوئی سے جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا.

۱۰۔ شاہِ روم کے نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط

’’ اﷲ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے یہ خط ہے اﷲ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہِ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو قہرالٰہی سے بچ جاؤ گے اور اﷲ تمہیں تمہارا ثواب دو گنا دے گا اور اگر تم میری دعوت سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر تمہاری تمام رعیت کے ایمان نہ لانے کا گناہ ہو گا اور … ’’اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اﷲ کے پروردگار بنائے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہلِ کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ ہو کہ ہم تو اﷲ کی اطاعت کرنے والے ہیں ‘‘ (آل عمران: ۶۴)

۱۱۔ کاہن ہرقل کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب دیکھنا

ابوسفیان کہتے ہیں کہ ابن ناطور جو ایلیا کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیرپادری، وہ بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب ایلیاؔ میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان اٹھا۔ ہر قل کا ہن تھا اور علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے خواص سے یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو دیکھو کہ اس دَور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں حاکموں کو لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیئے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا۔ سو جب ہر قل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو اپنے لوگوں سے کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے۔ اور ہر قل نے اس سے عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہر قل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس دَور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔

۱۲۔ ہرقل کے کاہن دوست کی تصدیق

پھر ہر قل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ یہ حال لکھ بھیجا اور وہ علم نجوم میں اسی کا ہم پایہ تھا اور یہ لکھ کر ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط آ گیا وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہر قل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور اُس نے لکھا تھا کہ وہ نبی ہیں۔

۱۳۔ نبی کی بیعت کر لو، ہرقل کا مشورہ

اس کے بعد ہر قل نے سردارانِ روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں، تو وہ بند کر دئیے گئے۔ پھر ہر قل اپنے بالا خانے سے نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارا بھی ہے ؟ اور تمہیں یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لو۔ یہ بات سنتے ہی وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہر قل نے ان کی نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا مقصودتھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔

٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں