۲۱۔۔۔ اتل مآاوحی کے مضامین
۱۔ نماز فحاشی اور برے کاموں سے روکتی ہے
(اے نبیﷺ ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں ۔ اور ان سے کہو کہ ’’ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پربھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مسلم (فرمانبردار) ہیں ‘‘۔ (اے نبیﷺ ) ہم نے اسی طرح تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے، اس لیے وہ لوگ جن کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور ان لوگوں میں سے بھی بہت سے اس پر ایمان لا رہے ہیں ، اور ہماری آیات کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں ۔(العنکبوت۔۔۔ ۴۷)
۲۔ حضرت محمدﷺ پڑھنا لکھنا نہ جانتے تھے
(اے نبیﷺ ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔ دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں ۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے‘‘؟ کہو، ’’؟نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر‘‘۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔ (العنکبوت:۵۱)
۳۔کفار کے لیے عذاب کا وقت مقرر ہو چکا ہے
(اے نبیﷺ ) کہو کہ ’’میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ جانتا ہے۔ جو لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ سے کفر کرتے ہیں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں ‘‘۔یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔اگر ایک وقت مقرر نہ کر دیا گیا ہوتا تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا۔ اور یقیناً (اپنے وقت پر) وہ آ کر رہے گا اچانک، اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ یہ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ، حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے میں لے چکی ہے (اور انہیں پتہ چلے گا) اس روز جب کہ عذاب انہیں اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں کے نیچے سے بھی اور کہے گا کہ اب چکھو مزا ان کرتُوتوں کا جو تم کرتے تھے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۵۵)
۴۔جانور اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے
اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، میری زمین وسیع ہے، پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ۔ ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ۔ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے۔وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔(العنکبوت۔۔۔ ۶۰)
۵۔اللہ ہی رزق کشادہ اور تنگ کرتا ہے
اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں ؟ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (العنکبوت۔۔۔ ۶۲)
۶۔ دنیا کی زندگی ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ہے
اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مُردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔کہو، الحمدللہ، مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں ۔اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔(العنکبوت۔۔۔ ۶۴)
۷۔اللہ کی عطا کردہ نجات پر کفرانِ نعمت کرنا
جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پرلے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کا کُفرانِ نعمت کریں اور (حیاتِ دنیا کے) مزے لوٹیں ۔ اچھا، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پُر امن حرم بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں ؟ کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کُفران کرتے ہیں ؟ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھُوٹ باندھے یا حق کو جھُٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آ چکا ہو؟کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم ہی نہیں ہے؟ جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔(العنکبوت۔۔۔ ۶۹)
سورۂ روم
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان ، اور رحم فرمانے والا ہے۔
۸۔رومیوں کی شکست کے بعد فتح کی پیشین گوئی
ا۔ل۔م۔رُومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں ، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نُصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (الروم۔۔۔ ۶)
۹۔ ہر چیز کو مقررہ مدت کے لیے پیدا کیا گیا
لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں ۔کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مدت مقرر ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے ولا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔ آخرکار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت بُرا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (الروم۔۔۔ ۱۰)
۱۰۔اللہ نے خلق کی ابتدا کی: اعادہ بھی کرے گا
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا، پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔ اور جب وہ ساعت برپا ہو گی اُس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے۔ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔جس روز وہ ساعت برپا ہو گی، اس دن (سب انسان)الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ۔جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایک باغ میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے، اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔(الروم۔۔۔ ۱۶)
۱۱۔ زندہ سے مُردہ اور مُردے سے زندہ کا نکلنا
پس تسبیح کرو اللہ کی جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔ آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے حمد ہے۔اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے۔ وہ زندہ کو مُردے میں سے نکالتا ہے اور مُردے کو زندہ میں سے نکال لاتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے)نکال لیے جاؤ گے۔ (الروم۔۔۔ ۱۹)
۱۲۔بیویاں سکون کے لیے بنائی گئیں
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں ) پھیلتے چلے جا رہے ہو۔اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔(الروم۔۔۔ ۲۱)
۱۳۔ زبان و رنگ کا اختلاف :اللہ کی نشانیاں
اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات کو سونا اور دن کو اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غور سے) سُنتے ہیں ۔(الروم۔۔۔ ۲۳)
۱۴۔بجلی کی چمک میں خوف بھی ہے اور طمع بھی
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ا ن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔(الروم۔۔۔ ۲۴)
۱۵۔دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔ پھر جوں ہی کہ اس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اس کے بندے ہیں ۔سب کے سب اُسی کے تابع فرمان ہیں ۔ وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔آسمانوں اور زمین میں ا س کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ (الروم۔۔۔ ۲۷)
۱۶۔بے سمجھے بُوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چلنا
وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیئے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو۔اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ مگر یہ ظالم بے سمجھے بُوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔ اب کون اُس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو؟ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔ (الروم۔۔۔ ۲۹)
۱۷۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی
پس (اے نبیﷺ ، اور نبی کے پیروؤ) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (قائم ہو جاؤ اس بات پر) اللہ کی طرف رجُوع کرتے ہوئے،اور ڈرو اُس سے، اور نماز قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے او ر گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے۔(الروم۔۔۔ ۳۲)
۱۸۔ اللہ کی رحمت پر بذریعہ شرک ناشکری کرنا
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتے ہیں ، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں ۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اُس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں ؟(الروم۔۔۔ ۳۵)
۱۹۔مال میں اضافہ : سود سے نہیں زکوٰۃ سے
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھُول جاتے ہیں ۔اور جب ان کے اپنے کیے کرتُوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے)؟ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق)۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں ، اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں ۔( الروم۔۔۔ ۳۹)
۲۰۔رزق، زندگی، موت سب اللہ ہی دیتا ہے
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ (الروم۔۔۔ ۴۰)
۲۱۔زمین میں فساد کا سبب ہمارے اعمال ہیں
خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں ۔ (اے نبیﷺ ) ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں سے اکثر مشرک ہی تھے۔ پس (اے نبیﷺ ) اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اس دینِ راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ اُس دن لوگ پھٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے، اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے (فلاح کا راستہ) صاف کر رہے ہیں تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے۔یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم۔۔۔ ۴۵)
۲۲۔ مومنوں کی مدد کرنا اللہ کا حق ہے
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اس غرض کے لیے کہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو۔ اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں ۔(الروم۔۔۔ ۴۷)
۲۳۔ہواؤں کے ذریعہ بادلوں کی تقسیم کا نظام
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اُٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں ۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جلا اٹھاتا ہے، یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفر کرتے رہ جاتے ہیں ۔ (اے نبیﷺ ) تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے، نہ اُن بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہوں ،ا ور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر راہِ راست دکھا سکتے ہو۔ تم تو صرف اُنہی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں ۔ ( الروم۔۔۔ ۵۳)
۲۴۔انسان کا کمزور سے طاقتور اور پھر کمزور بننا
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔اور جب وہ ساعت برپا ہو گی تو مُجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھیرے ہیں ،اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔ مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روزِ محشر تک پڑے رہے ہو۔ سو یہ وہی روز حشر ہے،لیکن تم جانتے نہ تھے۔ پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔ (الروم۔۔۔ ۵۷)
۲۵۔ قرآن لوگوں کو طرح طرح سے سمجھاتا ہے
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے۔تم خواہ کوئی نشانی لے آؤ جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔اس طرح ٹھپّہ لگا دیتا ہے اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں ۔ پس (اے نبیﷺ ) صبر کرو،یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔ ( الروم۔۔۔ ۶۰)
سورۂ لقمان
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۲۶۔راہِ حق سے بھٹکانے والا کلامِ دلفریب
ا ۔ ل۔ م۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ، ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں کے لیے، جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں ۔ اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رُخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں ، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں ۔اچھا، مُژدہ سُنا دو اسے ایک دردناک عذاب کا۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ،ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ (لقمان۔۔۔ ۹)
۲۷۔پہاڑ زمین کا توازن برقرار رکھتے ہیں
اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔ اس نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈَھلک نہ جائے۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیئے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگا دیں ۔ یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ (لقمان۔۔۔ ۱۱)
۲۸۔شکر گزاری انسان ہی کے لیے مفید ہے
ہم نے لُقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکرگزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا ’’بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔۔۔۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دُودھ چھُوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا۔ میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو اُن کی بات ہرگز نہ مان۔دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔(لقمان۔۔۔ ۱۵)
۲۹۔ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت
(اور لقمان نے کہا تھا کہ) ’’بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو اللہ اُسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے‘‘۔(لقمان۔۔۔ ۱۹)
۳۰۔ارضی و سماوی چیزیں انسان کے لیے مسخر
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں ؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے ان کے پاس کوئی علم ہو،یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔ اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو؟ (لقمان۔۔۔ ۲۱)
۳۱۔اللہ سینوں کے چھُپے راز تک جانتا ہے
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے اور عملاً وہ نیک ہو، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں ۔یقیناً اللہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ ہم تھوڑی مدت انہیں دنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں ، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔ (لقمان۔۔۔ ۲۴)
۳۲۔ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ اللہ کا ہے
اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدللہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔بیشک اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے)جس کے ساتھ مزید سات سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو(پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (لقمان:۲۸)
۳۳۔ اللہ نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پِروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ؟ اس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ، اور (کیا تم نہیں جانتے) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے؟ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اُسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے۔ (لقمان۔۔۔ ۳۰)
۳۴۔اللہ کی نشانیوں کا انکار غداری ہے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟ درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ اور جب (سمندر میں ) ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اُسی کے لیے خالص کر کے۔ پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے ، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے۔ (لقمان۔۔۔ ۳۲)
۳۵۔ اپنی جائے موت سے کوئی بشر واقف نہیں
لوگو، بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جب کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہو گا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے۔اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(لقمان۔۔۔ ۳۴)
۳۶۔معاملاتِ دنیا کی ہزار سالہ رپورٹ
سجدہ:اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ا۔ل۔م۔ اس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ نہیں ، بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے تاکہ تُو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا، زبردست اور رحیم۔ جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی۔ اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اس کی نسل ایک ایسے سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھُونک دی، اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔ تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔ (السجدہ۔۔۔ ۹)
۳۷۔ اللہ انہیں بھُلا دے گا جو اللہ کو بھُلاتے ہیں
اور یہ لوگ کہتے ہیں :’’جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے‘‘؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ان سے کہو ’’موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پُورا کا پُورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے‘‘۔ کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) ’’اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ، ہمیں اب یقین آ گیا ہے‘‘۔ (جواب میں ارشاد ہو گا) ’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جِنوں اور انسانوں ، سب سے بھر دوں گا۔پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتُوتوں کی پاداش میں ‘‘ (السجدہ۔۔۔ ۱۴)
۳۸۔مومن و فاسق کبھی برابر نہیں ہو سکتے
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سُنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزاء میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔ بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں ، ضیافت کے طور پران کے اعمال کے بدلے میں ۔ اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اُسی میں دھکیل دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اُسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (السجدہ۔۔۔ ۲۰)
۳۹۔اُخروی عذاب سے قبل دُنیوی عذاب
اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آ جائیں ۔ اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔(السجدہ۔۔۔ ۲۲)
۴۰۔ فیصلہ کے دن ایمان لانا بے فائدہ ہو گا
اس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں ، لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے۔ اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں ۔اور کیا ان لوگوں کو (ان تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ، کیا یہ سُنتے نہیں ہیں ؟ اور کیا ان لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب و گیاہ زمین کی طرف پانی بہا لاتے ہیں اور پھر اُسی زمین سے وہ فصل اُگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ ملتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ تو کیا انہیں کچھ نہیں سُوجھتا؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچے ہو‘‘؟ ان سے کہو ’’فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے اور پھر ان کو کوئی مہلت نہ ملے گی‘‘۔ اچھا، اِنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں (السجدہ:۳۰)
سورۂ احزاب
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۴۱۔اللہ پر توکل کرو کہ وہی بہتر وکیل ہے
اے نبیﷺ ، اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔ پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے،اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۳)
۴۲۔منہ بولے رشتوں کی کوئی حقیقت نہیں
اللہ نے کسی شخص کے دَھڑ میں دو دل نہیں رکھے، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظِہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ۔ نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۵)
۴۳۔ عام لوگوں سے رشتہ دار زیادہ حقدار ہیں
بلاشبہ نبیﷺ تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبیﷺ کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں ، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو۔یہ حکم کتابِ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۶)
۴۴۔ تمام پیغمبروں سے اللہ کا عہد و پیمان
اور (اے نبیﷺ ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں ۔ تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۸)
۴۵۔ غیر مرئی لشکروں کی خدائی امداد
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں ۔ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں ، کلیجے مُنہ کو آ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۱۱)
۴۶۔ منافقین کی میدانِ جنگ میں عہد شکنی
یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے۔جب ان سے ایک گروہ نے کہا کہ ’’اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو‘‘۔ جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیﷺ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ’’ہمارے گھر خطرے میں ہیں ‘‘۔حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا۔ ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے، اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پُرس تو ہونی ہی تھی۔ (الاحزاب۔۔۔ ۱۵)
۴۷۔ جنگ میں موت سے بھاگنا نفع بخش نہیں
اے نبیﷺ ، ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہو گا۔ اس کے بعد زندگی کے مزے لُوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا۔ ان سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مددگار نہیں پا سکتے ہیں ۔(الاحزاب۔۔۔ ۱۷)
۴۸۔جہاد میں رکاوٹیں ڈالنے والے
اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں ) رُکاوٹیں ڈالنے والے ہیں ، جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ’’آؤ ہماری طرف‘‘۔جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کو، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں ۔ خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں ۔ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے، اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دیئے۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں ۔ اور اگر وہ پھر حملہ آور ہو جائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں ۔ تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے(الاحزاب۔۔۔ ۲۰)
۴۹۔مومنین کے لیے نبیﷺ بہترین نمونہ ہیں
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولﷺ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ)جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے،بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۲۴)
۵۰۔اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے
اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا۔ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا، اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اُتار لایا اور ان کے دلوں میں اس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۲۷)
۵۱۔نیکوکار کے لیے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے
اے نبیﷺ ، اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رُخصت کر دوں ۔اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولﷺ اور دارِ آخر کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔نبیﷺ کی بیویو! تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا، اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۳۰)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۲۲ ۔۔۔ و من یقنت کے مضامین
۱۔ دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو
اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے اور ہم نے اس کے لیے رزقِ کریم مہیا کر رکھا ہے۔نبیﷺ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سَج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبیﷺ سے گندگی کو دُور کرے اور تمہیں پُوری طرح پاک کر دے۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی اُن باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۔ بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۳۴)
۲۔خدائی فیصلہ کے بعد ذاتی فیصلہ کا اختیار نہیں
بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ،مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ،اللہ کے آگے جھُکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزے رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اُسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ (الاحزاب۔۔۔ ۳۶)
۳۔منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے
اے نبیﷺ ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ ’’اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر‘‘۔اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے،حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اسے سے ڈرو۔پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں ۔(الاحزاب۔۔۔ ۳۷)
۴۔محمدﷺ اللہ کے رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں
اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا۔ نبیﷺ پر کسی ایسے کام میں رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو۔ یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاءؑ کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے۔ (یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے۔(لوگو) محمدﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۴۰)
۵۔ کفار کی اذیت رسانی کے سبب ان سے نہ دبو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے، ان کا استقبال سلام سے ہو گا اور ان کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔اے نبیﷺ ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔ بشارت دے دو ان لوگوں کو جو (تم پر) ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پروا نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے۔(الاحزاب۔۔۔ ۴۸)
۶۔رخصتی سے قبل طلاق پر کوئی عدت نہیں
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پُورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو۔لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ (الاحزاب۔۔۔ ۴۹)
۷۔ نبیﷺ کے لیے خصوصی رعایتِ نکاح
اے نبیﷺ ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں ، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں ، اور تمہاری وہ چچازاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیﷺ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبیﷺ اسے نکاح میں لینا چاہے۔ یہ رعایت خالصًٍ تمہارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حُدود عائد کئے ہیں ۔ (تمہیں ان حُدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔اس معاملہ میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی، اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی۔اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے، اور اللہ علیم و حلیم ہے۔ اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں ، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے۔ اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۵۲)
۸۔ نبیﷺ کے گھروں میں جانے کے آداب
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیﷺ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ۔مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبیﷺ کو تکلیف دیتی ہیں ، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبیﷺ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۵۴)
۹۔اللہ اور فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں
ازواجِ نبیﷺ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں ۔ (اے عورتو) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔اللہ اور اس کے ملائکہ نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و و سلام بھیجو۔جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رُسوا کُن عذاب مہیا کر دیا ہے۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۵۸)
۱۰۔خواتین چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں
اے نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۵۹)
۱۱۔ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے
اگر منافقین ، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں ، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے۔ ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (الاحزاب۔۔۔ ۶۲)
۱۲۔اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی۔ کہو اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ تمہیں کیا خبر، شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، کوئی حامی و مددگار نہ پا سکیں گے۔جس روز ان کے چہرے آگ پر اُلٹ پُلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ ’’کاش ہم نے اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی‘‘۔ اور کہیں گے ’’اے رب ہمارے ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کر دیا۔اے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر‘‘۔ (الاحزاب۔۔۔ ۶۸)
۱۳۔اطاعتِ رسولﷺ بڑی کامیابی ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اُن لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں ، پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برات فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا۔ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔(الاحزاب۔۔۔ ۷۱)
۱۴۔ انسان نے بارِ امانت اٹھا لیا
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے۔، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ (اس بارِ امانت کو اُٹھانے کا لازمی نتیجہ ہے) تاکہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں ، اور مشرک مَردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔(الاحزاب۔۔۔ ۷۳)
سورۂ سبا
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۵۔اللہ ہر چیز کو جانتا ہے
حمد اس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اُسی کے لیے حمد ہے۔وہ دانا اور باخبر ہے۔جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے،ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور ہے۔( سبا۔۔۔ ۲)
۱۶۔قیامت جزا و سزا کے لیے آئے گی
منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے! کہو، ’’قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی۔اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں ۔ نہ ذرے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی۔ سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے‘‘۔ اور یہ قیامت اس لیے آئے گی کہ جزا دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں ۔ ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔ اے نبیﷺ ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے۔ ( سبا۔۔۔ ۶)
۱۷۔ منکرینِ آخرت عذاب میں مبتلا ہوں گے
منکرین لوگوں سے کہتے ہیں ’’ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیئے جاؤ گے؟ نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے‘‘۔ نہیں ، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بُری طرح بہکے ہوئے ہیں ۔ کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں ، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔(سبا۔۔۔ ۹)
۱۸۔ لوہا داؤدؑ کے لیے نرم کر دیا گیا تھا
ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا۔ ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ زِرہیں بنا اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھ۔ (اے آل داؤد،) نیک عمل کرو، جو کچھ تم کرتے ہو اس کو میں دیکھ رہا ہوں ۔ (سبا۔۔۔ ۱۱)
۱۹۔ جن سلیمانؑ کے لیے تعمیراتی کام کرتے
اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک۔ ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور ایسے جِن اس کے تابع کر دیئے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں ، تصویریں ،بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ۔ اے آل داؤدؑ، عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں ۔ (سبا۔۔۔ ۱۳)
۲۰۔جن غیب کا علم نہیں رکھتے
پھر جب سلیمانؑ پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جِنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھُن کے سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمانؑ گر پڑا تو جِنوں پر یہ بات کھُل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مُبتلا نہ رہتے۔ (سبا۔۔۔ ۱۴)
۲۱۔ملکِ سبا والوں کے لیے نشانی
سبا کے لیے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں ۔کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا۔ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا۔ مگر وہ منہ موڑ گئے۔ آخرکار ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیئے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں ۔ یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔ (سبا۔۔۔ ۱۷)
۲۲۔بستیوں کے درمیان برکت والی بستیاں
اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں ۔ چلو پھرو ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔ مگر انہوں نے کہا ’’اے ہمارے رب، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے‘‘۔ انہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔ آخرکار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل تِتر بِتر کر ڈالا۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شا کر ہو۔ ان کے معاملہ میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں نے اسی کی پیروی کی، بجُز ایک تھوڑے سے گروہ کے جو مومن تھا۔ ابلیس کو ان پر کوئی اقتدار حاصل نہ تھا، مگر جو کچھ ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے۔ تیرا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔(سبا۔۔۔ ۲۱)
۲۳۔جسے اللہ نے سفارش کی اجازت دی
(اے نبیﷺ ، ان مشرکین سے) کہو کہ ’’پکار دیکھو اپنے ان معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں ۔ وہ آسمانوں و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں ۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے۔ اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجُز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دُور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا؟ وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے‘‘۔ (سبا۔۔۔ ۲۳)
۲۴۔آسمانوں اور زمین سے رزق دینے والا
(اے نبیﷺ ) ان سے پوچھو، ’’کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے‘‘؟ کہو، ’’اللہ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ ان سے کہو، ’’جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہوں اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ کہو، ’’ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔ وہ ایسا زبردست حاکم ہے جو سب کچھ جانتا ہے‘‘۔ان سے کہو، ’’ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی وہ کون ہستیاں ہیں جنہیں تم نے اس کے ساتھ شریک لگا رکھا ہے‘‘۔ہرگز نہیں ، زبردست اور دانا تو بس وہ اللہ ہی ہے (سبا۔۔۔ ۲۷)
۲۵۔ نبیﷺ بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے
اور (اے نبیﷺ ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ ’’وہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو‘‘؟ کہو ’’تمہارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس کے آنے میں نہ ایک گھڑی بھر کی تاخیر تم کر سکتے ہو اور نہ ایک گھڑی بھر پہلے اسے لا سکتے ہو‘‘۔(سبا۔۔۔ ۳۰)
۲۶۔ ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘
یہ کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہرگز اس قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ اس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو تسلیم کریں گے‘‘۔کاش تم دیکھو ان کا حال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔ وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’کیا ہم نے تمہیں اُس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں ، بلکہ تم خود مجرم تھے‘‘۔ وہ دبے ہوئے لوگ اُن بڑے بننے والوں سے کہیں گے، ’’نہیں ، بلکہ شب و روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں ‘‘۔ آخرکار جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پچھتائیں گے اور ہم ان مُنکرین کے گلوں میں طَوق ڈال دیں گے۔کیا لوگوں کو اس کے سوا اور کوئی بدلہ دیا جا سکتا ہے کہ جیسے اعمال ان کے تھے ویسی ہی جزا وہ پائیں ؟ ( سبا۔۔۔ ۳۳)
۲۷۔ کھاتے پیتے لوگوں کا رویہ
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیجا ہو اور اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہ نہ کہا ہو کہ ’’جو پیغام تم لے کر آئے ہو اس کو ہم نہیں مانتے‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ’’ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہرگز سزا پانے والے نہیں ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’میرا رب جسے چاہتا ہے، کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے‘‘۔ (سبا۔۔۔ ۳۶)
۲۸۔ مال و اولاد خدا سے قرب کا ذریعہ نہیں
یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو۔ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے عمل کی دُہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دَوڑ دھوپ کرتے ہیں ، تو وہ عذاب میں مُبتلا ہوں گے۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھُلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے‘‘۔ (سبا۔۔۔ ۳۹)
۲۹۔جِنوں کی عبادت کرنے والے
اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا ’’کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے‘‘؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے۔دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جِنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے‘‘۔ (اس وقت ہم کہیں گے کہ) آج میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذابِ جہنم کا مزہ جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔ (سبا۔۔۔ ۴۲)
۳۰۔ رسولوں کو جھٹلانے والوں کی سزا سخت ہے
ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ‘‘۔ اور کہتے ہیں کہ ’’یہ (قرآن) محض ایک جھُوٹ ہے گھڑا ہوا‘‘۔ ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ’’یہ تو صریح جادو ہے‘‘۔ حالانکہ نہ ہم نے ان لوگوں کو پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا۔ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھُٹلا چکے ہیں ۔جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس کے عشرِ عَشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے ہیں ۔ مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ (سبا۔۔۔ ۴۵)
۳۱۔تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا
اے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ ’’ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر کون سی بات ہے جو جُنون کی ہو؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے‘‘۔ ان سے کہو، ’’اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے۔ میرا اجرتو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے‘‘۔ان سے کہو ’’میرا رب (مجھ پر) حق کا القا کرتا ہے اور وہ تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا ہے‘‘۔ کہو ’’حق آ گیا اور اب باطل کے لیے کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔ کہو ’’اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے‘‘۔ (سبا۔۔۔ ۵۰)
۳۲۔بلا تحقیق دُور کی کوڑیاں لانے والے
کاش تم دیکھو انہیں اس وقت جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جا سکیں گے، بلکہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔ اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے۔ حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں ہاتھ آ سکتی ہے۔ اس سے پہلے یہ کفر کر چکے تھے اور بلا تحقیق دُور دُور کی کوڑیاں لایا کرتے تھے۔ اس وقت جس چیز کی یہ تمنا کر رہے ہوں گے اس سے محروم کر دیئے جائیں گے جس طرح ان کے پیش رو ہم مشرب محروم ہو چکے ہوں گے۔ یہ بڑے گمراہ کن شک میں پڑے ہوئے تھے۔ (سبا۔۔۔ ۵۴)
سورۂ فَاطِر
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔
۳۳۔دو، تین اور چار بازو والے فرشتے
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں ۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں ۔ وہ زبردست اور حکیم ہے۔( فاطر۔۔۔ ۲)
۳۴۔اللہ کے احسانات کو یاد رکھو
لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟۔۔۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟ اب اگر (اے نبیﷺ ) یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں )، تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ، اور سارے معاملات آخرکار اللہ ہی کی طرف سے رجوع ہونے والے ہیں ۔(فاطر۔۔۔ ۴)
۳۵۔ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے
لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔ درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر اس لیے بُلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں ۔ جو لوگ کفر کریں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔(فاطر۔۔۔ ۷)
۳۶۔جس کے لیے بُرا عمل خوشنما بنا دیا جائے
(بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اُس کا بُرا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبیﷺ ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھُلے۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے اسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں ۔ جو مری پڑی تھی۔مرے ہوئے انسانوں کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہو گا۔ (فاطر۔۔۔ ۹)
۳۷۔پاکیزہ قول اور عملِ صالح
جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔رہے وہ لوگ جو بے ہودہ چال بازیاں کرتے ہیں ، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔ (فاطر۔۔۔ ۱۰)
۳۸۔انسان کی مقررہ عمر میں کمی بیشی نہیں ہوتی
اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے بنا دیئے (یعنی مرد اور عورت)۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے، مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔ (فاطر۔۔۔ ۱۱)
۳۹۔کھارے اور میٹھے پانی سے تازہ گوشت
اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں ۔ایک میٹھا اور پیاس بُجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار، اور دُوسرا سخت کھاری کہ حلق چھیل دے۔ مگر دونوں سے تم تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو۔ ( فاطر۔۔۔ ۱۲)
۴۰۔ اللہ کے سوا کوئی دعا نہیں سُن سکتا
وہ دن کے اندر رات اور رات کے اندر دن کو پِروتا ہوا لے آتا ہے۔ چاند اور سورج کو اس نے مسخر کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں ) تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اُسے چھوڑ کر جن دُوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پر کاہ کے مالک بھی نہیں ہیں ۔ انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سُن نہیں سکتے اور سُن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔(فاطر۔۔۔ ۱۴)
۴۱۔ کوئی کسی دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا
لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔وہ چاہے تو تمہیں ہٹا کر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے، ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اُٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ (اے نبیﷺ )تم صرف اُنہی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے۔ اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔(فاطر۔۔۔ ۱۸)
۴۲۔ زندے اور مُردے مساوی نہیں ہو سکتے
اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں ۔ نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھُوپ کی تپش ایک جیسی ہے۔ اور نہ زندے اور مُردے مساوی ہیں ۔اللہ جسے چاہتا ہے سُنواتا ہے، مگر(اے نبیؐ) تم اُن لوگوں کو نہیں سُنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ۔ تم تو بس ایک خبردار کرنے والے ہو۔ ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اب اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ۔ ان کے پاس اُن کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب لے کر آئے تھے۔ پھر جن لوگوں نے نہ مانا ان کو میں نے پکڑ لیا اور دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی(فاطر۔۔۔ ۲۶)
۴۳۔ علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سُرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (فاطر۔۔۔ ۲۸)
۴۴۔ راہِ خدا خرچ کرنا منافع بخش تجارت ہے
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھُپے خرچ کرتے ہیں ،یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔ (اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس لیے کھپایا ہے) تاکہ اللہ اُن کو اجر پُورے کے پُورے اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائے۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے۔(فاطر۔۔۔ ۳۰)
۴۵۔اللہ باخبر ہے، ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے
(اے نبیﷺ )جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اس سے پہلے آئی تھیں ۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چُن لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے۔ اور کوئی اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہو گا، اور وہ کہیں گے کہ ’’شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے، جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے‘‘۔ (فاطر۔۔۔ ۳۵)
۴۶۔جہنم میں کبھی موت نہیں آئے گی
اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ نہ اُن کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں اور اُن کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی۔ اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اُس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو۔ وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں اُن اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے‘‘۔ (انہیں جواب دیا جائے گا) ’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے‘‘۔(فاطر۔۔۔ ۳۷)
۴۷۔ کافروں کے لیے خسارہ ہے، ترقی نہیں
بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اُسی پر ہے،اور کافروں کو اُن کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں ۔ (فاطر۔۔۔ ۳۹)
۴۸۔اللہ ہی زمین و آسمان کو تھامے ہوئے ہے
(اے نبیﷺ ) ان سے کہو، ’’کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے اُن شریکوں کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے بتاؤ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے‘‘۔(اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے) کوئی صاف سندھ رکھتے ہو؟ نہیں ، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کے محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے، اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دُوسرا انہیں تھامنے والا نہیں ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (فاطر۔۔۔ ۴۱)
۴۹۔ اللہ کی سنت کو کوئی طاقت بدل نہیں سکتی
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رَو ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا اِن کے ہاں آ گیا تو اُس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بُری بُری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں ۔اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔(فاطر۔۔۔ ۴۳)
۵۰۔اللہ لوگوں کے کرتُوتوں پر مُہلت دیتا ہے
کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اگر کہیں وہ لوگوں کو ان کے کیے کرتُوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑتا۔ مگر وہ انہیں ایک مقرر وقت تک کے لیے مُہلت دے رہا ہے۔ پھر جب ان کا وقت آن پُورا ہو گا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا۔(فاطر۔۔۔ ۴۵)
سورۂ یٰسین
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۵۱۔عذاب کے مستحق لوگوں کو کچھ نہیں سوجھتا
یٰس ٓ۔ قسم ہے قرآن حکیم کی کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو، سیدھے راستے پر ہو (اور یہ قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ان میں سے اکثر لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ، اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے۔ ہم نے ان کے گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں ، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے، انہیں اب کچھ نہیں سُوجھتا۔ ان کے لیے یکساں ہے، تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، یہ نہ مانیں گے۔ تم تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔ اُسے مغفرت اور اجرِ کریم کی بشارت دے دو۔ (یٰسین۔۔۔ ۱۱)
۵۲۔لوگوں کے اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں
ہم یقیناً ایک روز مُردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ۔ جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں ، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں ۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھُلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔(یٰسین۔۔۔ ۱۲)
۵۳۔نبی کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے
انہیں مثال کے طور پر اُس بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہ اُس میں رسُول آئے تھے۔ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے اور انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا۔ پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا اور ان سب نے کہا ’’ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں ‘‘۔ بستی والوں نے کہا ’’تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے چند انسان، اور خدائے رحمٰن نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے، تم محض جھُوٹ بولتے ہو‘‘۔رسولوں نے کہا ’’ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم ضرور تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ، اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔ بستی والے کہنے لگے ’’ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں ۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے‘‘۔رسُولوں نے جواب دیا ’’تمہاری فالِ بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو‘‘۔ اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’’اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کر لو۔ پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں ۔ (یٰسین۔۔۔ ۲۱)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۲۳ ۔۔۔ و مالی کے مضامین
۱۔ خدا نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا
آخر کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟ کیا میں اسے چھوڑ کر دُوسرے معبود بنا لوں ؟ حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھُڑا ہی سکتے ہیں ۔ اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مُبتلا ہو جاؤں گا۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا، تم بھی میری بات مان لو‘‘۔(آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور ) اُس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ’’داخل ہو جا جنت میں ‘‘۔ اُس نیک نے کہا ’’کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا‘‘۔(یٰسین۔۔۔ ۲۷)
۲۔اللہ کو لشکر بھیجنے کی حاجت نہیں
اُس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اُتارا۔ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس ایک دھماکا ہوا اور یکایک وہ سب بُجھ کر رہ گئے۔ افسوس بندوں کے حال پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اُس کا وہ مذاق ہی اُڑاتے رہے۔ کیا اُنہوں نے دیکھا نہیں کہ اُن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟ ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے۔(یٰسین۔۔۔ ۳۲)
۳۔اللہ نے نباتات میں بھی جوڑے بنائے
ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے۔ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلّہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے، تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ۔یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ۔ (یٰسین۔۔۔ ۳۶)
۴۔چاند، سورج ایک فلک میں تیر رہے ہیں
ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اس کے اوپر سے دن ہَٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ اور چاند، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ (یٰسین۔۔۔ ۴۰)
۵۔اللہ کی رحمت ہی کشتیوں کو پار لگاتی ہے
ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا، اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔ ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں ، کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں ۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو انہیں پار لگاتی اور ایک وقتِ خاص تک زندگی سے متمع ہونے کا موقع دیتی ہے۔ (یٰسین۔۔۔ ۴۴)
۶۔کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو
ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اُس انجام سے جو تمہارے آگے آ رہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سُنی ان سُنی کر جاتے ہیں ) ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں ’’کیا ہم اُن کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم بالکل ہی بہک گئے ہو‘‘۔ (یٰسین۔۔۔ ۴۷)
۷۔ وصیت تک نہ کر سکیں گے
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’یہ قیامت کی دھمکی آخرت کب پوری ہو گی؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو‘‘۔ دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھما کہ ہے جو یکایک انہیں اس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دنیوی معاملات میں ) جھگڑ رہے ہوں گے، اور اُس وقت یہ وصیت تک نہ کر سکیں گے، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے۔پھر ایک صُور پھُونکا جائے گا۔ اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ گھبرا کر کہیں گے ’’ارے، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا کھڑا کیا‘‘؟۔۔۔ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی‘‘۔ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے۔ (یٰسین۔۔۔ ۵۳)
۸۔جنت میں ہر طلب پوری کی جائے گی
آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے تھے ۔۔۔ آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں ۔ وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے، ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں ، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے، رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے ۔ (یٰسین۔۔۔ ۵۸)
۹۔جب مجرموں کے ہاتھ پاؤں بولیں گے
اور اے مُجرمو، آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ۔ آدمؑ کے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے؟ مگر اس کے باوجود اُس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟ یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا جا رہا تھا۔ جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اُس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو۔آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔ (یٰسین۔۔۔ ۶۵)
۱۰۔لمبی عمر والوں کی ساخت اُلٹ دی جاتی ہے
ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں مُوند دیں ، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں ، کہاں سے انہیں راستہ سُجھائی دے گا؟ ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں ۔جس شخص کو ہم لمبی عُمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم اُلٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی؟ (یٰسین۔۔۔ ۶۸)
۱۱۔نبیﷺ کو شعر گوئی نہیں سکھائی گئی
ہم نے اِس (نبیﷺ ) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب، تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے۔ (یٰسین۔۔۔ ۷۰)
۱۲۔ سواری، گوشت ، مشروبات اور مویشی
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ اُن کے مالک ہیں ۔ ہم نے انہیں اس طرح ان کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں ، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں ، اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں ۔ پھر کیا یہ شکرگزار نہیں ہوتے؟ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ یہ لوگ اُلٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں ۔ اچھا، جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں ، ان کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں ۔ (یٰسین۔۔۔ ۷۶)
۱۳۔اللہ ہی نے درختوں سے آگ پیدا کی
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالُو بن کر کھڑا ہو گیا؟ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے۔ کہتا ہے ’’کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں ‘‘؟ اس سے کہو، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا، اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے، وہی ہے ،جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو۔ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں ، جب کہ وہ ماہر خلّاق ہے۔ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔(یٰسین۔۔۔ ۸۳)
سورۂ صٰفّٰت
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۴۔ شیاطین ملاءِ اعلیٰ کی باتیں نہیں سُن سکتے
قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم، پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں ، پھر اُن کی قسم جو کلام نصیحت سنانے والے ہیں ، تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی ہے۔۔۔ وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام اُن چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں ، اور سارے مشرقوں کا مالک۔ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر شیطانِ سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے۔ یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سُن سکتے،ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے۔ تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۰)
۱۵۔اللہ کی قدر ت پر حیران ہونا اور مذاق اڑانا
اب ان سے پُوچھو، ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ؟ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔ تم (اللہ کی قدرت کے کرشموں پر) حیران ہو اور یہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ سمجھایا جاتا ہے تو سمجھ کر نہیں دیتے۔ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ’’یہ تو صریح جادو ہے، بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھ کھڑے کیے جائیں ؟ اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آباؤ اجداد بھی اٹھائے جائیں گے‘‘؟ ان سے کہو ہاں ، اور تم (خدا کے مقابلے میں ) بے بس ہو۔بس ایک ہی جھڑکی ہو گی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے) دیکھ رہے ہوں گے۔ اس وقت یہ کہیں گی ’’ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے‘‘ یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۲۱)
۱۶۔جھوٹے معبود کچھ مدد نہ کر سکیں گے
(حکم ہو گا) ’’گھیر لاؤ سب ظالموں اور ان کے ساتھیوں اور اُن معبودوں کو جن کی وہ خدا کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے، پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ اور ذرا انہیں ٹھیراؤ، ان سے کچھ پُوچھنا ہے۔ کیا ہو گیا تمہیں ، اب کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ ارے، آج تو یہ اپنے آپ کو (اور ایک دوسرے کو) حوالے کیے دے رہے ہیں ‘‘! اس کے بعد وہ ایک دوسرے کی طرف مڑیں گے اور باہم تکرار شروع کر دیں گے۔(پیروی کرنے والے اپنے پیشواؤں سے) کہیں گے، ’’تم ہمارے پاس سیدھے رُخ سے آتے تھے‘‘۔ وہ جواب دیں گے، ’’نہیں ، بلکہ تم خود ایمان لانے والے نہ تھے، ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، تم خود ہی سرکش لوگ تھے۔آخرکار ہم اپنے رب کے اس فرمان کے مستحق ہو گئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں ۔سو ہم نے تم کو بہکایا، ہم خود بہکے ہوئے تھے‘‘۔ اس طرح وہ سب اس روز عذاب میں مشترک ہوں گے۔ ہم مجرموں کے ساتھ یہی کچھ کیا کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے‘‘ تو یہ گھمنڈ میں آ جاتے تھے اور کہتے تھے ’’کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ‘‘؟حالانکہ وہ حق لے کر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی۔ (اب ان سے کہا جائے گا کہ) تم لازماً دردناک سزا کا مزا چکھنے والے ہو۔ اور تمہیں جو بدلہ بھی دیا جا رہا ہے انہی اعمال کا دیا جا رہا ہے جو تم کرتے رہے ہو۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۳۹)
۱۷۔ شرابِ طہور سے عقل ماؤف نہ ہو گی
مگر اللہ کے چیدہ بندے (اس انجام بد سے) محفوظ ہوں گے۔ ان کے لیے جانا بُوجھا رزق ہے، ہر طرح کی لذیذ چیزیں اور نعمت بھری جنتیں جن میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔ چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں کے لیے لذت ہو گی۔ نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہو گا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گی۔ اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی، خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی، ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۴۹)
۱۸۔ جنّتی اپنے جہنمی احباب کو دیکھ سکیں گے
پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حالات پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا، ’’دنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا ، کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا واقعی جب ہم مر چکے ہوں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں جزا و سزا دی جائے گی؟اب کیا آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں ‘‘؟ یہ کہہ کر جونہی وہ جھکے گا تو جہنم کی گہرائی میں اس کو دیکھ لے گا اور اس سے خطاب کر کے کہے گا ’’خدا کی قسم، تُو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا۔ میرے رب کا فضل شاملِ حال نہ ہوتا تو آج میں بھی ان لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں ۔ اچھا تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آ چکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا‘‘؟ یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۶۱)
۱۹۔ جہنم کی تہ سے نکلنے والا زقّوم کا درخت
بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقّوم کا درخت؟ ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے۔وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے۔ اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔ جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر اس پر پینے کے لیے ان کو کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ اور اس کے بعد ان کی واپسی اُسی آتشِ دوزخ کی طرف ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا اور اُنہی کے نقشِ قدم پر دوڑ چلے حالانکہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہو چکے تھے اور ان میں ہم نے تنبیہ کرنے والے رسول بھیجے تھے۔ اب دیکھو لو کہ ان تنبیہ کیے جانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس بد انجامی سے بس اللہ کے وہی بندے بچے ہیں جنہیں اس نے اپنے لیے خالص کر لیا ہے۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۷۴)
۲۰۔جو اللہ کو پکارے، اُسے اچھا جواب ملتا ہے
ہم کو (اس سے پہلے) نوحؑ نے پکارا تھا، تو دیکھو کہ ہم کیسے اچھے جواب دینے والے تھے۔ ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے بچا لیا، اور اُسی کی نسل کو باقی رکھا، اور بعد کی نسلوں میں اس کی تعریف و توصیف چھوڑ دی ۔ سلام ہے نوحؑ پر تمام دنیا والوں میں ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں ۔ درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ پھر دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کر دیا۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۸۲)
۲۱۔ابراہیمؑ کا بُتوں کو ضربیں لگانا
اور نوحؑ ہی کے طریقے پر چلنے والا ابراہیمؑ تھا۔ جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ’’یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کو چھوڑ کر جھوٹ گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟ آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے‘‘؟پھر اس نے تاروں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا میری طبیعت خراب ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے پیچھے وہ چپکے سے ان کے معبودوں کے مندر میں گھس گیا اور بولا ’’آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں ہیں ؟کیا ہو گیا، آپ لوگ بولتے بھی نہیں ‘‘؟ اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں ۔ (واپس آ کر) وہ لوگ بھاگے بھاگے اس کے پاس آئے۔اس نے کہا ’’کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو؟ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جنہیں تم بناتے ہو‘‘۔انہوں نے آپس میں کہا کہ ’’اس کے لیے ایک الاؤ تیار کرو اور اسے دہکتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں پھینک دو‘‘۔ انہوں نے اس کے خلاف ایک کارروائی کرنی چاہی تھی، مگر ہم نے اُنہی کو نیچا دکھا دیا۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۹۸)
۲۲۔ابراہیمؑ کا خواب میں بیٹے کو قربان کرنا
ابراہیمؑ نے کہا ’’میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں ، وہی میری رہنمائی کرے گا۔ اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ (اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم (بُرد بار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز ) ابراہیمؑ نے اس سے کہا، ’’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اب تو بتا ، تیرا کیا خیال ہے‘‘؟ اس نے کہا، ’’ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے ابراہیمؑ ، تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اُس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ اور ہم نے اسے اسحاقؑ کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے۔ اور اسے اور اسحاقؑ کو برکت دی۔ اب ان دونوں کی ذریّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۱۳)
۲۳۔ موسیٰؑ و ہارونؑ کی قوم کو نجات دی گئی
اور ہم نے موسیٰؑ و ہارونؑ پر احسان کیا، ان کو اور ان کی قوم کو کرب عظیم سے نجات دی، انہیں نصرت بخشی جس کی وجہ سے وہی غالب رہے، ان کو نہایت واضح کتاب عطا کی، انہیں راہ راست دکھائی، اور بعد کی نسلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔سلام ہے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ، درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۲۲)
۲۴۔ ا لیاسؑ بھی مرسلین میں سے تھے
اور ا لیاسؑ بھی یقیناً مرسلین میں سے تھا۔ یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ کیا تم لعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو، اس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آباؤ اجداد کا رب ہے‘‘؟مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا، سو اب یقیناً وہ سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں ، بجز ان بندگانِ خدا کے جن کو خالص کر لیا گیا تھا۔ اور ا لیاسؑ کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا۔ سلام ہے ا لیاسؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ ( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۳۲)
۲۵۔جب اللہ نے لوطؑ کو نجات دی
اور لوطؑ بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔یاد کرو جب ہم نے اس کو اور اس کے سب گھر والوں کو نجات دی، سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ پھر باقی سب کو تہس نہس کر دیا۔ آج تم شب و روز ان کے اُجڑے دیار پر سے گزرتے ہو۔کیا تم کو عقل نہیں آتی؟( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۳۸)
۲۶۔اور مچھلی نے یونسؑ کو نگل لیا
اور یقیناً یونسؑ بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا، پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی۔ آخرکار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روزِ قیامت تک اُسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔ آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا۔ اور اُس پر ایک بیلدار درخت اُگا دیا۔ اس کے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ ، یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا، وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقتِ خاص تک انہیں باقی رکھا۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۴۸)
۲۷۔فرشتے اللہ کی بیٹیاں نہیں ہیں
پھر ذرا ان لوگوں سے پوچھو، کیا (ان کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ) تمہارے رب کے لیے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے؟ کیا واقعی ہم نے ملائکہ کو عورتیں ہی بنایا ہے اور یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟ خوب سُن رکھو، دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے، اور فی الواقع یہ جھوٹے ہیں ۔ کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں اپنے لیے پسند کر لیں ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے، کیسے حکم لگا رہے ہو؟ کیا تمہیں ہوش نہیں آتا؟ یا پھر تمہارے پاس اپنی ان باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے، تو لاؤ اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو۔ انہوں نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں (اور وہ کہتے ہیں کہ) ’’اللہ ان صفات سے پاک ہے جو اس کے خالص بندوں کے سوا دُوسرے لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ پس تم اور تمہارے یہ معبود اللہ سے کسی کو پھیر نہیں سکتے مگر صرف اس کو جو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھلسنے والا ہو۔ اور ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقام مقرر ہے ، اور ہم صف بستہ خدمت گار ہیں اور تسبیح کرنے والے ہیں ‘‘۔(صٰفّٰت۔۔۔ ۱۶۶)
۲۸۔ اللہ کا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا
یہ لوگ پہلے تو کہا کرتے تھے کہ کاش ہمارے پاس وہ ’’ذکر‘‘ ہوتا جو پچھلی قوموں کو ملا تھا تو ہم اللہ کے چیدہ بندے ہوتے۔ مگر (جب وہ آ گیا) تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا۔ اب عنقریب انہیں (اس روش کا نتیجہ) معلوم ہو جائے گا۔ اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔ پس اے نبیﷺ ، ذرا کچھ مدت تک انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو، عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ جب وہ ان کے صحن میں اترے گا تو وہ دن ان لوگوں کے لیے بہت بُرا ہو گا جنہیں متنبہ کیا جا چکا ہے۔ بس ذرا انہیں کچھ مدت کے لیے چھوڑ دو اور دیکھتے رہو، عنقریب یہ خود دیکھ لیں گے۔پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک ، ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں اور سلام ہے رسولوں پر، اور ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔( صٰفّٰت۔۔۔ ۱۸۲)
سورۂ ص ٓ
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۲۹۔قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی
ص ٓ،قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی، بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں ۔ ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب ان کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں ، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آ گیا۔ منکرین کہنے لگے کہ ’’یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے، کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘۔ اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ ’’چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانۂ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات۔ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا‘‘؟ ( صٓ۔۔۔ ۸)
۳۰۔رسولوں کو جھٹلانے والے جتھے
اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے ’’ذکر‘‘ پر شک کر رہے ہیں ، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے۔ کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں ؟ کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں ؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں ! یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔ ان سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون، اور ثمود، اور قوم لوطؑ ، اور ایکہ والے جھٹلا چکے ہیں ۔ جتھے وہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا۔( صٓ۔۔۔ ۱۴)
۳۱۔داؤدؑ کے سامنے دنبوں کی ضبطی کا مقدمہ
یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھما کہ نہ ہو گا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے۔اے نبیﷺ ، صبر کرو ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں ، اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤدؑ کا قصہ بیان کرو جو بڑی قوتوں کا مالک تھا۔ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ ہم نے پہاڑوں کو اس کے ساتھ مسخر کر رکھا تھا کہ صبح و شام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ پرندے سمٹ آتے، سب کے سب اس کی تسبیح کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھی،اس کو حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی۔ ( صٓ۔۔۔ ۲۰)
پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالاخانے میں گھس آئے تھے؟ جب وہ داؤدؑ کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔ انہوں نے کہا ’’ڈریے نہیں ،ہم دو فریقِ مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے، بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں راہِ راست بتایئے۔ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف یک ہی دُنبی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دُنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا‘‘۔ داؤدؑ نے جواب دیا :’’اس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جُل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں ، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں ، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ‘‘۔ (یہ بات کہتے کہتے) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا۔ تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اُس کے لیے تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے۔ (ہم نے اُس سے کہا) ’’اے داؤدؑ ، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقیناً ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے‘‘۔( صٓ۔۔۔ ۲۶)
۳۲۔ نیکوکار اور فساد کرنے والے یکساں نہیں
ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لاتے اور نیک اعمال کرتے ہیں اور ان کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں ؟ کیا متقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں ؟۔۔۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیﷺ ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں ۔( صٓ۔۔۔ ۲۹)
۳۳۔ سلیمانؑ کے لیے معمار شیاطین مسخر
اور داؤدؑ کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا، بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا۔ قابل ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس کے سامنے خوب سَدھے ہوئے گھوڑے پیش کیے گئے تو اس نے کہا ’’میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے‘‘۔ یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو(اس نے حکم دیا کہ) انہیں میرے پاس لاؤ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے اور (دیکھو کہ) سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا اور کہا کہ ’’اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے‘‘۔ تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا، اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے۔ (ہم نے اس سے کہا) ’’یہ ہماری بخشش ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں ‘‘۔ یقیناً اس کے لیے ہمارے ہاں تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے۔( صٓ۔۔۔ ۴۰)
۳۴۔ایوبؑ کے اہل و عیال واپس کر دیے گئے
اور ہمارے بندے ایوبؑ کا ذکر کرو، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے۔ (ہم نے اسے حکم دیا) اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے۔ہم نے اسے اس کے اہل و عیال واپس دیئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور ، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لیے درس کے طور پر۔(اور ہم نے اس سے کہا) تنکوں کا ایک مٹّھا لے اور اس سے مار دے، اپنی قسم نہ توڑ۔ ہم نے اسے صابر پایا، بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔( صٓ۔۔۔ ۴۴)
۳۵۔متقیوں کے لیے شرمیلی بیویاں ہوں گی
اور ہمارے بندوں ، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو۔ بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدۂ ور لوگ تھے۔ ہم نے ان کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دارِ آخرت کی یاد تھی۔ یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چُنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے۔ اور اسماعیلؑ اور الیسعؑ اور ذوالکفلؑ کا ذکر کرو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔یہ ایک ذکر تھا۔ (اب سنو کہ) متقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے، ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے، اور ان کے پاس شرمیلی ہم سنِ بیویاں ہوں گی۔ یہ وہ چیزیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ۔یہ تو ہے متقیوں کا انجام۔( صٓ۔۔۔ ۵۵)
۳۶۔ سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا جہنم ہے
اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے، جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے، بہت ہی بُری قیام گاہ ۔ یہ ہے ان کے لیے، پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ لہو اور اسی قسم کی دوسری تلخیوں کا۔ (وہ جہنم کی طرف اپنے پیروں کو آتے دیکھ کر آپس میں کہیں گے) ’’یہ ایک لشکر تمہارے پاس گھسا چلا آ رہا ہے، کوئی خوش آمدید ان کے لیے نہیں ہے، یہ آگ میں جھلسنے والے ہیں ‘‘۔ وہ ان کو جواب دیں گے ’’نہیں بلکہ تم ہی جھلسے جا رہے ہو، کوئی خیرمقدم تمہارے لیے نہیں ۔ تم ہی تو یہ انجام ہمارے آگے لائے ہو، کیسی بُری ہے یہ جائے قرار‘‘۔ پھر وہ کہیں گے ’’اے ہمارے رب، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا اس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے‘‘۔ اور وہ آپس میں کہیں گے ’’کیا بات ہے، ہم ان لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں بُرا سمجھتے تھے؟ ہم نے یونہی ان کا مذاق بنا لیا تھا، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں ‘‘؟ بے شک یہ بات سچی ہے، اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں ۔( صٓ۔۔۔ ۶۴)
۳۷۔ ابلیس نے تکبر میں آدمؑ کو سجدہ نہیں کیا
(اے نبیﷺ ) ان سے کہو، ’’میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں ۔کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا ہے، سب پر غالب، آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان ساری چیزوں کا مالک جو ان کے درمیان ہیں ، زبردست اور درگزر کرنے والا‘‘۔ ان سے کہو ’’یہ ایک بڑی خبر ہے جس کو سُن کر تم منہ پھیرتے ہو‘‘۔(ان سے کہو) ’’مجھے اس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہو رہا تھا۔مجھ کو تو وحی کے ذریعے سے یہ باتیں صرف اس لیے بتائی جاتی ہیں کہ میں کھلا کھلا خبردار کرنے والا ہوں ‘‘۔ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ’’میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ، پھر جب میں اسے پُوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دُوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ‘‘۔ اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ رب نے فرمایا ’’اے ابلیس، تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’میں اس سے بہتر ہوں ، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے‘‘۔ فرمایا ’’اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردُود ہے اور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے‘‘۔ وہ بولا ’’اے میرے رب، یہ بات ہے تو پھر اُس وقت تک کے لیے مجھے مُہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے‘‘۔ فرمایا، ’’اچھا، تجھے اس روز تک کی مُہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے‘‘۔ فرمایا ’’تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں ، کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے‘‘۔ (اے نبیﷺ ) ان سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں ۔ یہ تو ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے۔ اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمہیں اس کا حال خود معلوم ہو جائے گا۔( صٓ۔۔۔ ۸۸)
سورۂ الزمر
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔
۳۸۔اللہ تک رسائی کے لیے غیر اللہ کی عبادت؟
اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے۔(اے نبیؐ) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں ، اللہ یقیناً ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو۔( الزُمر۔۔۔ ۳)
۳۹۔اللہ نے آٹھ نر و مادہ مویشی پیدا کیے
اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر لیتا، پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اس کا بیٹا ہو)، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اُسی نے سُورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔ اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟ ( الزُمر۔۔۔ ۶)
۴۰۔ اللہ کافروں کے کفر سے بے نیاز ہے
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ ( الزُمر۔۔۔ ۷)
۴۱۔نعمت ملنے پر اللہ کو بھول جانے کی غلط روش
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے۔ پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے۔ (اے نبیﷺ ) اس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لُطف اٹھا لے،یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے۔ (کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے؟ ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں ۔ ( الزُمر۔۔۔ ۹)
۴۲۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنا
(اے نبیﷺ ) کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے۔ اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔(اے نبیﷺ ) ان سے کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کروں ، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں ۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا، تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔ کہو، اصل دیوا لیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔خوب سُن رکھو، یہی کھُلا دیوالیہ ہے۔ ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، پس اے میرے بندو، میرے غضب سے بچو۔ ( الزُمر۔۔۔ ۱۶)
۴۳۔طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو
بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ پس (اے نبیﷺ ) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں ۔ (اے نبیﷺ ) اُس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو؟ کیا تم اسے بچا سکتے ہو جو آگ میں گر چکا ہو؟ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ( الزُمر۔۔۔ ۲۰)
۴۴۔بارش، دریا، کھیتیاں ، فصلیں اور بھُس
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں ، پھر وہ کھیتیاں پک کر سُوکھ جاتی ہیں ، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں ، پھر آخرکار اللہ ان کو بھُس بنا دیتا ہے۔ درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ( الزُمر۔۔۔ ۲۲)
۴۵۔قرآن میں مضامین دہرائے گئے ہیں
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں ۔ اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔ اب اس شخص کی بدحالی کا تم کیا انداز ہ کر سکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا؟ ایسے ظالموں سے تو کہہ دیا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اس کمائی کا جو تم کرتے رہے تھے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ اسی طرح جھٹلا چکے ہیں ۔ آخر ان پر عذاب ایسے رُخ سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔ پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھایا، اور آخرت کا عذاب تو اس سے شدید تر ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔( الزُمر۔۔۔ ۲۶)
۴۶۔قرآن میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں آئیں ۔ ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے، جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، تاکہ یہ بُرے انجام سے بچیں ۔اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اُسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دُوسرا شخص پُورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟۔۔۔ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں ۔(اے نبیﷺ ) تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے۔ آخرکار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ( الزُمر۔۔۔ ۳۱)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۲۴ ۔۔۔ فمن اظلم کے مضامین
۱۔اللہ نیک لوگوں کے بُرے اعمال ساقط کر دے گا
پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا۔ کیا ایسے لوگوں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے؟اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں ۔ اُنہیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔ یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا، تاکہ جو بدترین اعمال انہوں نے کیے تھے انہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کو اجر عطا فرمائے۔ ( الزُمر۔۔۔ ۳۵)
۲۔دیویاں نہ نفع پہنچا سکتی ہیں نہ نقصان
(اے نبیﷺ ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں ۔ کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے؟ ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ ان سے پوچھو، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ، جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو، مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچا لیں گی؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ا ن سے صاف کہو کہ ’’اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رُسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں ‘‘۔ (اے نبیﷺ ) ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہو گا، تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو۔( الزُمر۔۔۔ ۴۱)
۳۔اللہ نیند میں روح قبض کر لیتا ہے
وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت رُوحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی رُوح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دُوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں ۔ کیا اس خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے اختیار میں کچھ ہو نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی نہ ہوں ؟ کہو، شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔ پھر اُسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔ ( الزُمر۔۔۔ ۴۴)
۴۔اللہ کے ذکر پر منکرینِ آخرت کا کُڑھنا
جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کُڑھنے لگتے ہیں ، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اٹھتے ہیں ۔ کہو، خدایا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، حاضر و غائب کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔ اگر ان ظالموں کے پاس زمین کی ساری دولت بھی ہو، اور اتنی ہی اور بھی، تو یہ روزِ قیامت کے بُرے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیے میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ آئے گا جس کا انہوں نے کبھی اندازہ ہی نہیں کیا ہے۔ وہاں اپنی کمائی کے سارے بُرے نتائج ان پر کھل جائیں گے اور وہی چیز ان پر مسلط ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔(الزُمر۔۔۔ ۴۸)
۵۔ رزق میں کشادگی و تنگی اللہ ہی کرتا ہے
یہی انسان جب ذرا سی مصیبت اسے چھُو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اَپھار دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے!نہیں ، بلکہ یہ آزمائش ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔یہی بات ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی کہہ چکے ہیں ، مگر جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا۔ پھر اپنی کمائی کے بُرے نتائج انہوں نے بھُگتے، اور ان لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے بُرے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں ۔اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے؟ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔( الزُمر۔۔۔ ۵۲)
۶۔ عذاب آنے سے قبل اللہ کی طرف پلٹ آؤ
(اے نبیﷺ ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے، پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اس کے قبل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کر لو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔( الزُمر۔۔۔ ۵۵)
۷۔ ’’کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی‘‘
کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے ’’افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا، بلکہ میں تو اُلٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا‘‘۔ یا کہے ’’کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا‘‘۔ یا عذاب دیکھ کر کہے ’’کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں ‘‘۔(اور اس وقت اسے یہ جواب ملے کہ) ’’کیوں نہیں ، میری آیات تیرے پاس آ چکی تھیں ، پھر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تُو کافروں میں سے تھا‘‘۔( الزُمر۔۔۔ ۵۹)
۸۔اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے
آج جن لوگوں نے خدا پر جھُوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیا جہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے؟ اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کُنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں ۔ ( الزُمر۔۔۔ ۶۳)
۹۔ شر ک کرنے والوں کا عمل ضائع ہو جائے گا
(اے نبیﷺ ) ان سے کہو ’’پھر کیا اے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرے کے لیے مجھ سے کہتے ہو‘‘؟ (یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیونکہ) تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا۔ اور تم خسارے میں رہو گے۔ لہٰذا (اے نبیﷺ ) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔( الزُمر۔۔۔ ۶۶)
۱۰۔روزِ حشر دو بار صور پھونکا جائے گا
ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ اور اس روز صُور پھونکا جائے گا اور وہ سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔ زمین اپنے رب کے نُور سے چمک اٹھے گی، کتابِ اعمال لا کر رکھ دی جائے گی،انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیئے جائیں گے، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا، ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اس نے عمل کیا تھا اس کا پُورا پُورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔( الزُمر۔۔۔ ۷۰)
۱۱۔کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے
(اس فیصلہ کے بعد) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ’’کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہو گا‘‘؟وہ جواب دیں گے ’’ہاں ، آئے تھے، مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا‘‘۔ کہا جائے گا، داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں ، یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ی بُرا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لیے۔ ( الزُمر۔۔۔ ۷۲)
۱۲۔نافرمانی سے پرہیز کرنے والے
اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ’’سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے‘‘۔ اور وہ کہیں گے ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ‘‘۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کر رہے ہوں گے۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پُکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لیے۔ ( الزُمر۔۔۔ ۷۵)
سورۂ المومن
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۱۳۔ باطل سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش
ح۔م۔اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے، گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا،سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں اُن کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ ان سے پہلے نوحؑ کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے، اور اس کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے ۔ ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، مگر آخرکار میں نے ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔اسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی ان سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بہ جہنم ہونے والے ہیں ( المومن۔۔۔ ۶)
۱۴۔مومنوں کے حق میں فرشتوں کی دعا
عرش الٰہی کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں ۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں : ’’اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے رب، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) ۔ تو بلا شُبہ قادر مطلق اور حکیم ہے۔اور بچا دے ان کو برائیوں سے۔ جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔( المومن۔۔۔ ۹)
۱۵۔دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی
جن لوگوں نے کُفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا ’’آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اس سے زیادہ غضب ناک اس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے‘‘۔ وہ کہیں گے ’’اے ہمارے رب، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں ، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے‘‘؟ (جواب ملے گا) ’’یہ حالات جس میں تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے‘‘۔(المومن:۱۲)
۱۶۔اللہ کی طرف رجوع کرنے والے
وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے، مگر (ان نشانیوں کے مشاہدے سے) سبق صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ (پس اے رجوع کرنے والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، خواہ تمہارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ ( المومن۔۔۔ ۱۴)
۱۷۔ اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے
وہ بلند درجوں والا، مالک عرش ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے رُوح نازل کر دیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے۔ وہ دن جب کہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ (اس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے؟ (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحد قہار کی۔ (کہا جائے گا) آج ہر متنفس کو اس کمائی کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کی تھی، آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ اے نبیﷺ ، ڈرا دو ان لوگوں کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے۔جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہو گا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔ اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔ اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لگا فیصلہ کرے گا۔ رہے وہ جن کو (یہ مشرکین) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں ۔ بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔(المومن۔۔۔ ۲۰)
۱۸۔زور آور گناہگاروں کے انجام سے سبق لینا
کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑ گئے ہیں ۔ مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور اُن کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ یہ ان کا انجام اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول بیّنات لے کر آئے اور انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ آخرکار اللہ نے ان کو پکڑ لیا۔ یقیناً وہ بڑی قوت والا اور سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ ( المومن۔۔۔ ۲۲)
۱۹۔ میں موسیٰؑ کو قتل کیے دیتا ہوں ،فرعون
ہم نے موسیٰؑ کو فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف اپنی نشانیوں اور نمایاں سند ماموریت کے ساتھ بھیجا، مگر انہوں نے کہا ’’ساحر ہے، کذاب ہے‘‘۔ پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا تو انہوں نے کہا ’’جو لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دو‘‘۔ مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی۔ ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا ’’چھوڑو مجھے، میں اس موسیٰؑ کو قتل کیے دیتا ہوں ، اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا‘‘۔موسیٰؑ نے کہا ’’میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے‘‘۔ ( المومن۔۔۔ ۲۷)
۲۰۔ اللہ کذّاب کو ہدایت نہیں دیتا
اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا: ’’کیا تم ایک شخص کو صرف اس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی کی طرف سے تمہارے پاس بّینات لے آیا۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذّاب ہو۔ اے میری قوم کے لوگو، آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو، لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آ گیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کر سکے گا‘‘۔فرعون نے کہا ’’میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے‘‘ ۔ ( المومن۔۔۔ ۲۹)
۲۱۔ اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے
وہ شخص جو ایمان لایا تھا اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آ جائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آ چکا ہے، جیسا دن قوم نوحؑ اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔اے قوم، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر فریاد و فغاں کا دن نہ آ جائے جب تم ایک دوسرے کو پکارو گے اور بھاگے بھاگے پھرو گے، مگر اس وقت اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ سچ یہ ہے کہ جسے اللہ بھٹکا دے اسے پھر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ ( المومن۔۔۔ ۳۳) اس سے پہلے یوسفؑ تمہارے پاس بینات لے کر آئے تھے مگر تم ان کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم نے کہا اب ان کے بعد اللہ کوئی رسول ہرگز نہ بھیجے گا‘‘۔۔۔ اسی طرح اللہ ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکّی ہوتے ہیں اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو۔ یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔اسی طرح اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ ( المومن۔۔۔ ۳۵)
۲۲۔جب بد عملی خوشنما بنا دی جائے
فرعون نے کہا ’’اے ہامان، میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں راستوں تک پہنچ سکوں ، آسمانوں کے راستوں تک، اور موسیٰؑ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں ۔ مجھے تو یہ موسیٰؑ جھوٹا ہی معلوم ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح فرعون کے لیے اس کی بد عملی خوشنما بنا دی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا۔ فرعون کی ساری چال بازی (اس کی اپنی) تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی۔( المومن۔۔۔ ۳۷)
۲۳۔ جنت میں بے حساب رزق ملے گا
وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا ’’اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں ۔ اے قوم، یہ دُنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جو بُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے بُرائی کی ہو گی۔ اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بُلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بُلا رہا ہوں ۔ نہیں ،حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بُلا رہے ہو ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں ، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں ۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔ ( المومن۔۔۔ ۴۴)
۲۴۔آلِ فرعون اور دوزخ کی آگ
آخرکار ان لوگوں نے جو بُری سے بُری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں ، اللہ نے اُن سب سے اس کو بچا لیا، اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ، اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔ ( المومن۔۔۔ ۴۶)
۲۵۔ کافروں کی دُعا اِکارت ہی جائے گی
پھر ذرا خیال کرو اس وقت کا جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے۔دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ’’ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا یہاں تم نارِ جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے‘‘؟ وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے ’’ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں ، اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے‘‘۔ پھر یہ دوزخ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کے اہلکاروں سے کہیں گے ’’اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں بس ایک دن کی تخفیف کر دے‘‘۔ وہ پوچھیں گے ’’کیا تمہارے پاس رسول بّینات لیکر نہیں آتے رہے تھے‘‘؟ وہ کہیں گے ’’ہاں ‘‘۔ جہنم کے اہلکار بولیں گے:’’پھر تو تم ہی دُعا کرو، اور کافروں کی دعا اکارت ہی جانے والی ہے‘‘۔( المومن۔۔۔ ۵۰)
۲۶۔مومنوں کو دنیا و آخرت میں اللہ کی مدد
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ، اور اس روز بھی کریں گے، جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا۔ آخر دیکھ لو کہ موسیٰؑ کی ہم نے رہنمائی کی اور بنی اسرائیل کو اُس کتاب کا وارث بنا دیا جو عقل و دانش رکھنے والوں کے لیے ہدایت و نصیحت تھی۔ پس اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے، اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند و حجّت کے بغیر، جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیات میں جھگڑ رہے ہیں ان کے دلوں میں کبر بھرا ہُوا ہے، مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں ۔ بس اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ دیکھتا اور سُنتا ہے۔( المومن۔۔۔ ۵۶)
۲۷۔اللہ کو پکارو،وہ دعائیں قبول کرتا ہے
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اندھا اور بینا یکساں ہو جائے اور ایماندار و صالح اور بدکار برابر ٹھیریں ۔ مگر تم لوگ کم ہی کچھ سمجھتے ہو۔ یقیناً قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ تمہارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘( المومن۔۔۔ ۶۰)
۲۸۔رات سکون حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ وہی اللہ (جس نے تمہارے لیے یہ کچھ کیا ہے) تمہارا رب ہے۔ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ پھر تم کدھر سے بہکائے جا رہے ہو؟ اسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ ( المومن۔۔۔ ۶۳)
۲۹۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اُوپر آسمان کا گُنبد بنا دیا جس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی۔جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے۔ بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اُسی کو تم پکارو اپنے دین کو اُسی کے لیے خالص کر کے۔ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔اے نبیﷺ ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو ان ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں ) جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے بّینات آ چکی ہیں ۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں ۔( المومن۔۔۔ ۶۶)
۳۰۔ کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔ وہی ہے زندگی دینے والا، اور وہی موت دینے والا ہے۔ وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے، بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔ ( المومن۔۔۔ ۶۸)
۳۱۔ جب زنجیروں سے باندھ کر کھینچا جائے گا
تم نے دیکھا ان لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں ، کہاں سے وہ پھرائے جا رہے ہیں ؟ یہ لوگ جو اس کتاب کو اور ان ساری کتابوں کو جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں ، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے، اور زنجیریں ، جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے اور پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ پھر ان سے پُوچھا جائے گا کہ ’’اب کہاں ہیں اللہ کے سوا وہ دوسرے خدا جن کو تم شریک کرتے تھے‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے‘‘۔ اس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق کر دے گا۔ ان سے کہا جائے گا ’’یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیر حق پر مگن تھے اور پھر اس پر اتراتے تھے۔ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ تم کو وہیں رہنا ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے متکبرین کا‘‘۔ پس اے نبیﷺ ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے۔اب خواہ ہم تمہارے سامنے ہی ان کو ان بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں ، یا (اس سے پہلے) تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ، پلٹ کر آنا تو انہیں ہماری ہی طرف ہے۔ ( المومن۔۔۔ ۷۷)
۳۲۔ اِذن الٰہی کے بغیر کوئی نبی کچھ نہیں کر سکتا
اے نبیﷺ ، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر خود کوئی نشانی لے آتا۔ پھر جب اللہ کا حکم آ گیا تو حق کے مطابق فیصلہ کر دیا گیا اور اس وقت غلط کار لوگ خسارے میں پڑ گئے۔( المومن۔۔۔ ۷۸)
۳۳۔مویشیوں میں بہت سے منافع ہیں
اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔ ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں ۔وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو وہاں تم اُن پر پہنچ سکو۔ ان پر بھی اور کشتیوں پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو۔ اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے، آخر تم اُس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔ ( المومن۔۔۔ ۸۱)
۳۴۔عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان نافع نہیں
پھر کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کو اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے، ان سے بڑھ کر طاقتور تھے، اور زمین میں ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں ۔جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی، آخر وہ ان کے کس کام آئی؟ جب ان کے رسول ان کے پاس بّینات لے کر آئے تو وہ اُسی علم میں مگن رہے جو ان کے اپنے پاس تھا، اور پھر اُسی چیز کے پھیر میں آ گئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں اُن سب معبودوں کا جنہیں ہم اس کا شریک ٹھیراتے تھے۔مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکتا تھا، کیونکہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے، اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔( المومن۔۔۔ ۸۵)
حٰم ٓالسجدۃ
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۳۵۔قرآنی آیات صاف اور واضح ہیں
حٰ م ٓ، یہ خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن،ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ، بشارت دینے والا اور ڈرا دینے والا۔مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رُوگردانی کی اور وہ سُن کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ’’جس چیز کی طرف تو ہمیں بُلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہو گئے ہیں ، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے۔ تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے‘‘۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۵)
۳۶۔زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے تباہی ہے
اے نبیﷺ ، ان سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رُخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں ۔رہے وہ لوگ جنہوں نے مان لیا اور نیک اعمال کیے، ان کے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۸)
۳۷۔ زمین میں ضرورت کا سامان مہیا ہے
اے نبیﷺ ، ان سے کہو، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے۔ اس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اُس پر پہاڑ جما دیئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۱۰)
۳۸۔ آسمان کو اللہ نے چراغوں سے آراستہ کیا
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ’’وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو‘‘۔ دونوں نے کہا ’’ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح‘‘۔ تب اس نے دو دن کے اندر آسمان بنا دیئے، اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۱۲)
۳۹۔ اچانک آ جانے والے عذاب سے ڈرو
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد و ثمود پر نازل ہوا تھا۔ جب خدا کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے، ہر طرف سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انہوں نے کہا ’’ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا ہم اس بات کو نہیں مانتے جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو‘‘۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۱۴)
۴۰۔عذابِ آخرت دنیا سے زیادہ رسوا کن ہے
عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے ’’کون ہے ہم سے زیادہ زور آور‘‘۔ ان کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زورآور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے، آخرکار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں ، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔رہے ثمود، تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہوں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا ہی پسند کیا۔ آخر اُن کے کرتوتوں کی بدولت ذلت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بد عملی سے پرہیز کرتے تھے۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۱۸)
۴۱۔ کان ، آنکھیں ، جسم کی کھالیں گواہی دیں گی
اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا، پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کچھ کرتے رہے ہیں ۔وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے ’’تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی‘‘؟ وہ جواب دیں گی ’’ہمیں اسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے۔ اُسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھُپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی۔بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے‘‘۔ اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں ) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اور اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع اُنہیں نہ دیا جائے گا۔ ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دیئے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے،آخرکار ان پر بھی وہی فیصلۂ عذاب چسپاں ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جِنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہو چکا تھا، یقیناً وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۲۵)
۴۲۔ منکرینِ حق کا قرآن سننے میں خلل ڈالنا
یہ منکرین حق کہتے ہیں ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اسی طرح تم غالب آ جاؤ‘‘۔ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ انہیں دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اُسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہو گا۔یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔وہاں یہ کافر کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب، ذرا ہمیں دکھا دے ان جِنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خود ذلیل و خوار ہوں ‘‘۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۲۹)
۴۳۔ ثابت قدم رہے تو فرشتے بھی ساتھ ہیں
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہو گی، یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔ (حٰمٓ السجدہ:۳۲)
۴۴۔بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں ۔اور اے نبیﷺ ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں ، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں ۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ (حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۳۶)
۴۵۔ سُورج ا ور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں
اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سُورج اور چاند۔ سُورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آ کر اپنی ہی بات پر اَڑے رہیں تو پروا نہیں ، جو فرشتے تیرے رب کے مقرّب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۳۸)
۴۶۔ خدا مری ہوئی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے
اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سُونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھُول جاتی ہے۔ یقیناً جو جو خدا اِس مری ہوئی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے وہ مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۳۹)
۴۷۔اللہ انسان کی ساری حرکتوں کو دیکھ رہا ہے
جو لوگ ہماری آیات کو اُلٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھُپے ہوئے نہیں ہیں ۔ خود ہی سوچ لو کہ آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں جھونکا جانے والا ہے یا وہ جو قیامت کے روز اَمن کی حالت میں حاضر ہو گا؟ کرتے رہو جو کچھ تم چاہو، تمہاری ساری حرکتوں کو اللہ دیکھ رہا ہے۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۴۰)
۴۸۔قرآن ایک زبر دست کتاب ہے
یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلامِ نصیحت آیا تو انہوں نے اُسے ماننے سے انکار کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے، باطل نہ سامنے سے اِس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔اے نبیﷺ ، تم کو جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کو نہ کہی جا چکی ہو۔ بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۴۳)
۴۹۔ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت و شفا ہے
اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے ’’کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟ کیا ہی عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مُخاطب عربی‘‘۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے۔ اُن کا حال تو ایسا ہے جیسے اُن کو دُور سے پکارا جا رہا ہو۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۴۴)
۵۰۔نیکی و بدی :ہر دو عمل اپنے لیے ہی ہوتا ہے
اس سے پہلے ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اس کے معاملے میں بھی یہی اختلاف ہوا تھا۔ اگر تیرے رب نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر دی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اُسی پر ہو گا، اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔ ( حٰمٓ السجدہ۴۶)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۲۵۔۔۔ الیہ یرد کے مضامین
۱۔سارے پھل شگوفوں میں سے نکلتے ہیں
اس ساعت کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، وہی اُن سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں ، اُسی کو معلوم ہے کہ کون سی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے۔ پھر جس روز وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے، ’’ہم عرض کر چکے ہیں ، آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے‘‘۔ اُس وقت وہ سارے معبود اِن سے گم ہو جائیں گے جنہیں یہ اس سے پہلے پکارتے تھے، اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ اِن کے لیے اب کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۴۸)
۲۔انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا
انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا، اور جب کوئی آفت اِس پر آ جاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے، مگر جونہی کہ سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اِسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں ، یہ کہتا ہے کہ ’’میں اسی کا مستحق ہوں ، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی، لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا‘‘۔ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے۔ اور جب اسے کوئی آفت چھُو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۵۱)
۳۔ آفاق کی نشانیاں قرآن کو برحق قرار دیں گی
اے نبیﷺ ، ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور تم اس کا انکار کرتے رہے تو اُس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہو گا جو اس کی مخالفت میں دُور تک نکل گیا ہو؟ عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھُل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟ آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں ۔ سُن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے۔ ( حٰمٓ السجدہ۔۔۔ ۵۴)
سورۂ الشُوریٰ
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۴۔فرشتوں کا اہلِ زمین کے لیے سفارش کرنا
ح م، ع س ق۔ اِسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں ) کی طرف وحی کرتا رہا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اُسی کا ہے، وہ برتر اور عظیم ہے۔ قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں ۔ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں ۔ آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے۔ جن لوگوں نے اُس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں ، اللہ ہی اُن پر نگراں ہے، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو۔(الشوریٰ۔۔۔ ۶)
۵۔شہرِ مکہ دنیا کی بستیوں کا مرکز ہے
ہاں ، اسی طرح اے نبیﷺ ، یہ قرآنِ عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہرِ مکہ) اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۷)
۶۔ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مددگار
اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مددگار۔ کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ) انہوں نے اُسے چھوڑ کر دوسرے ولی بنا رکھے ہیں ؟ ولی تو اللہ ہی ہے، وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۹)
۷۔کائنات کی کوئی چیز اللہ کے مشابہ نہیں
تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، اور اِسی طرح جانوروں میں بھی (اُنہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے، اور اس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اُس کے مشابہ نہیں ، وہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے، آسمان اور زمین کے خزانوں کی کُنجیاں اُسی کے پاس ہیں ، جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا دیتا ہے، اُسے ہر چیز کا علم ہے۔(الشوریٰ۔۔۔ ۱۲)
۸۔اللہ اُسی کو راستہ دکھاتا ہے جو رجوع کرے
اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدﷺ ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدﷺ ) تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۱۳)
۹۔تفرقہ کی وجہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا ہے
لوگوں میں جو تفرقہ رُو نما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا، اور اِس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقتِ مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چُکا دیا گیا ہوتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اُس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔(الشوریٰ۔۔۔ ۱۴)
۱۰۔مجھے انصاف کا حکم دیا گیا ہے، محمدؐ
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدﷺ ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور اِن سے کہہ دو کہ: ’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں ۔ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۱۵)
۱۱۔منکرین قیامت کے لیے جلدی مچاتے ہیں
اللہ کی دعوت پر لبیک کہے جانے کے بعد جو لوگ (لبیک کہنے والوں سے) اللہ کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں ، اُن کی حجّت بازی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے، اور اُن پر اُس کا غضب ہے اور اُن کے لیے سخت عذاب ہے۔وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے۔ اور تمہیں کیا خبر، شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو۔ جو لوگ اُس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اُس کے لیے جلدی مچاتے ہیں ، مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقیناً وہ آنے والی ہے۔ خوب سُن لو، جو لوگ اُس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۱۹)
۱۲۔طالبِ دنیا کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں
جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں ، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقیناً ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تم دیکھو گے کہ یہ ظالم اُس وقت اپنے کیے کے انجام سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ اِن پر آ کر رہے گا۔(الشوریٰ۔۔۔ ۲۲)
۱۳۔ایمان اور عملِ صالح کا انعام جنت ہے
بخلاف اِس کے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہوں گے، جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے، یہی بڑا فضل ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے۔ اے نبیﷺ ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ ’’میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں ‘‘۔ جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور قدردان ہے(الشوریٰ۔۔۔ ۲۳)
۱۴۔اللہ نیک مومنوں کی دعا قبول کرتا ہے
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھُوٹا بہتان گھڑ لیا ہے؟ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مُہر کر دے۔ وہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں سے حق کر دکھاتا ہے۔ وہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز جانتا ہے۔ وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور بُرائیوں سے درگزر فرماتا ہے، حالانکہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُسے علم ہے۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے ، تو ان کے لیے سخت سزا ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۲۶)
۱۵۔ سب کو کھلا رزق ملتا تو سرکشی کا طوفان ہوتا
اگر اللہ اپنے سب بندوں کو کھُلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور اُن پر نگاہ رکھتا ہے۔ وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے۔ اُس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اُس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں ۔ وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۲۹)
۱۶۔اللہ بیشتر قصوروں سے درگزر کر جاتا ہے
تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجز کر دینے والے نہیں ہو، اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و ناصر نہیں رکھتے۔ اُس کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ اللہ جب چاہے ہوا کو ساکن کر دے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں ۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو کمال درجہ صبر و شکر کرنے والا ہو __ یا (اُن پر سوار ہونے والوں کے) بہت سے گناہوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کے چند ہی کرتُوتوں کی پاداش میں انہیں ڈبو دے، اور اُس وقت ہماری آیات میں جھگڑا کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔(الشوریٰ۔۔۔ ۳۵)
۱۷۔مالِ دنیا عارضی ، مالِ آخرت بہتر و پائیدار
جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جاتے ہیں ، جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔(الشوریٰ۔۔۔ ۳۸)
۱۸۔زیادتی کا مقابلہ اور ظلم کا بدلہ لینا
اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں __ بُرائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کی ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دُوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ بڑی اُولو العزمی کے کاموں میں سے ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۴۳)
۱۹۔ ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے
جس کو اللہ ہی گمراہی میں پھینک دے اُس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ہے۔ تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اُس کو نظر بچا بچا کر کن انکھیوں سے دیکھیں گے۔ اُس وقت وہ لوگ جو ایمان لائے تھے کہیں گے کہ واقعی اصل زیاں کار وہی ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا۔ خبردار رہو، ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں ۔ جسے اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کے لیے بچاؤ کی کوئی سبیل نہیں ۔ ( الشوریٰ۔۔۔ ۴۶)
۲۰۔اپنے ہاتھوں کی لائی مصیبت پر ناشکرا بننا
مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صُورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ اُس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا۔ اب اگر یہ لوگ مُنہ موڑتے ہیں تو اے نبیﷺ ، ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔ تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اُس پر پھُول جاتا ہے، اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اُس پر اُلٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے۔(الشوریٰ۔۔۔ ۴۸)
۲۱۔اللہ ہی بیٹا بیٹی دیتا ہے ،وہی بانجھ کر دیتا ہے
اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جُلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشوریٰ۔۔۔ ۵۰)
۲۲۔اللہ کسی بشر سے رُو برُو بات نہیں کرتا
کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برُو بات کرے۔ اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے۔ اور اِسی طرح (اے نبیﷺ ) ہم نے اپنے حکم سے ایک رُوح تمہاری طرف وحی کی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اُس رُوح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ۔ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو، اُس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رُجوع کرتے ہیں ۔(الشوریٰ۔۔۔ ۵۳)
سورۂ الزُخرف
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۲۳۔قرآن حکمت سے لبریز اُمُّ الکتاب ہے
ح۔ م۔ قسم ہے اِس واضح کتاب کی کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اسے سمجھو۔ اور درحقیقت یہ اُم الکتاب میں ثبت ہے، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب۔اب کیا ہم تم سے بیزار ہو کر یہ درسِ نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اس لیے کہ تم حد سے گزرے ہوئے ہو؟ پہلے گزری ہوئی قوموں میں بھی بارہا ہم نے نبی بھیجے ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی اُن کے ہاں آیا ہو اور انہوں نے اُس کا مذاق نہ اُڑایا ہو۔ پھر جو لوگ اِن سے بدرجہا زیادہ طاقتور تھے اُنہیں ہم نے ہلاک کر دیا، پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں ۔(الزُخرف۔۔۔ ۸)
۲۴۔انسانی قابو سے باہر کی چیزیں مسخّر کی گئیں
اگر تُم اِن لوگوں سے پُوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اُسی زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔ وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پا سکو۔ جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا اور اُس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھایا، اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے۔ وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم اُن کی پُشت پر چڑھو اور جب اُن پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ ’’پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخّر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے، اور ایک روز ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے‘‘۔(یہ سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی) اِن لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جُز بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھُلا احسان فراموش ہے۔( الزُخرف۔۔۔ ۱۵)
۲۵۔جو اپنا مدعا پوری طرح واضح نہیں کر سکتیں
کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمن کی طرف منسوب کرتے ہیں اُس کی ولادت کا مُژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اُس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدّعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟انہوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمن کے خاص بندے ہیں ، عورتیں قرار دے لیا۔ کیا اُن کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے؟ اِن کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اِس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔(الزُخرف۔۔۔ ۱۹)
۲۶۔جب باپ دادا کے نقشِ قدم غلط ہوں
یہ کہتے ہیں ’’اگر خدائے رحمن چاہتا (کہ ہم اُن کی عبادت نہ کریں ) تو ہم کبھی اُن کو نہ پوجتے‘‘۔ یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض تیر تُکے لڑاتے ہیں ۔ کیا ہم نے اِس سے پہلے کوئی کتاب اِن کو دی تھی جس کی سند (اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے) یہ اپنے پاس رکھتے ہوں ؟ نہیں ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں ۔ اِسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا، اُس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقشِ قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔ ہر نبی نے اُن سے پوچھا، کیا تم اُسی ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں تمہیں اُس راستے سے زیادہ صحیح راستہ بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بُلانے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اُس کے کافر ہیں ۔ آخرکار ہم نے اُن کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ (الزُخرف۔۔۔ ۲۵)
۲۷۔ متاعِ حیات اللہ کو نہ پوجنے پر بھی ملتا ہے
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرا تعلق صرف اُس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہنمائی کرے گا‘‘۔ اور ابراہیمؑ یہی کلمہ اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اِس کی طرف رجوع کریں ۔ (اس کے باوجود جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرنے لگے تو میں نے ان کو مٹا نہیں دیا) بلکہ میں انہیں اور اِن کے باپ دادا کو متاع حیات دیتا رہا یہاں تک کہ اِن کے پاس حق، اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسولﷺ آ گیا۔ مگر جب وہ حق اِن کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ (الزُخرف۔۔۔ ۳۰)
۲۸۔کچھ لوگوں کو دوسروں پر فوقیت کیوں ملی؟
کہتے ہیں ، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟ کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں ، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دُوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں ۔ اور تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں ۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمٰن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں ، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں ، اور اُن کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، سب چاندی اور سونے کے بنا دیتے۔ یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے، اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے۔ (الزُخرف۔۔۔ ۳۵)
۲۹۔ذکرِ الٰہی سے تغافل پر شیطان کا مسلط ہونا
جو شخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اُس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہِ راست پر آنے سے روکتے ہیں ، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ۔ آخرکار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا، ’’کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد ہوتا، تُو تو بدترین ساتھی نکلا‘‘۔ اُس وقت اِن لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تم ظلم کر چکے تو آج یہ بات تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہے کہ تم اور تمہارے شیاطین عذاب میں مشترک ہیں ۔ (الزُخرف۔۔۔ ۳۹)
۳۰۔قرآن ہمارے لیے ایک بڑا اعزاز ہے
اب کیا اے نبیﷺ ، تم بہروں کو سناؤ گے؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے؟ اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ ہم تمہیں دنیا سے اُٹھا لیں ، یا تم کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، ہمیں اِن پر پوری قدرت حاصل ہے۔ تم بہرحال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے اُن سب سے پُوچھ دیکھو، کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ اُن کی بندگی کی جائے؟ (الزُخرف۔۔۔ ۴۵)
۳۱۔آلِ فرعون عذاب ہٹتے ہی مُکر جاتے
ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اُس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا اور اس نے جا کر کہا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ۔ پھر جب اُس نے ہماری نشانیاں اُن کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے۔ ہم ایک پر ایک ایسی نشانی ان کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی، اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آئیں ۔ ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر، ہم ضرور راہِ راست پر آ جائیں گے۔ مگر جُوں ہی کہ ہم اُن پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے تھے۔ ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا، ’’لوگو، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں ؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا‘‘؟ اُس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔ آخرکار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا اور بعد والوں کے لیے پیش رَو اور نمونۂ عبرت بنا کر رکھ دیا۔(الزُخرف۔۔۔ ۵۶)
۳۲۔ عیسیٰؑ قیامت کی ایک نشانی ہیں
اور جونہی کہ ابن مریمؑ کی مثال دی گئی، تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غُل مچا دیا اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔ ابنِ مریمؑ اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اُسے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا۔ ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کر دیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں ۔ اور وہ (یعنی ابن مریم) دراصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم اُس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے، ایسا نہ ہو شیطان تم کو اُس سے روک دے کہ وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے۔ اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اُس نے کہا تھا کہ ’’میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں ، اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض اُن باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ اُسی کی تم عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔ مگر (اُس کی اِس صاف تعلیم کے باوجود) گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا، پس تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک دن کے عذاب سے۔(الزُخرف۔۔۔ ۶۵)
۳۳۔ جنتیوں کے آگے ساغر گردش کریں گے
کیا یہ لوگ اب بس اِسی چیز کے منتظر ہیں کہ اچانک ان پر قیامت آ جائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو؟ وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ ’’اے میرے بندو، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں ، تمہیں خوش کر دیا جائے گا‘‘۔ اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا، ’’تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ تم اس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔ تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے‘‘۔(الزُخرف۔۔۔ ۷۳)
۳۴۔جہنم کے عذاب میں کبھی کمی نہ ہو گی
رہے مجرمین، تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مُبتلا رہیں گے، کبھی ان کے عذاب میں کمی نہ ہو گی، اور وہ اُس میں مایوس پڑے ہوں گے۔ ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتے رہے۔ وہ پکاریں گے، ’’اے مالک،میرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے‘‘۔ وہ جواب دے گا، ’’تم یوں ہی پڑے رہو گے، ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی ناگوار تھا‘‘۔ (الزُخرف۔۔۔ ۷۸)
۳۵۔اللہ بھی سنتا ہے اور فرشتے بھی لکھتے ہیں
کیا ان لوگوں نے کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اچھا تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کیے لیتے ہیں ۔ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم اِن کی راز کی باتیں اور اِن کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں ؟ ہم سب کچھ سُن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔اِن سے کہو، ’’اگر واقعی رحمٰن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا‘‘۔ پاک ہے آسمانوں اور زمین کا فرماں روا، عرش کا مالک، اُن ساری باتوں سے جو یہ لوگ اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اچھا، انہیں اپنے باطل خیالات میں غرق اپنے کھیل میں منہمک رہنے دو، یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے۔ (الزُخرف۔۔۔ ۸۳)
۳۶۔اللہ ہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے
وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے۔ بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اُس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، الاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔اور اگر تم ان سے پُوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں ، قسم ہے رسولﷺ کے اس قول کی کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔اچھا، اے نبیﷺ ، اِن سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں ، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا۔ (الزُخرف۔۔۔ ۸۹)
سورۂ الدُخان
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۳۷۔اللہ زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے
ح م۔ قسم ہے اِس کتابِ مُبین کی کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے، تیرے رب کی رحمت کے طور پر، یقیناً وہی سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے، آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اُس چیز کا رب جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو۔ کوئی معبُود اُس کے سوا نہیں ہے، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تمہارا رب اور تمہارے اُن اسلاف کا رب جو پہلے گزر چکے ہیں (مگر فی الواقع ان لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں ۔ (الدُخان۔۔۔ ۹)
۳۸۔ جس روز اللہ بڑی ضرب لگائے گا
اچھا، انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے دردناک سزا۔ (اب کہتے ہیں کہ)’’پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں ‘‘۔ اِن کی غفلت کہاں دُور ہوتی ہے؟ اِن کا حال تو یہ ہے کہ اِن کے پاس رسولِ مبین آ گیا پھر بھی یہ اُس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ ’’یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے‘‘۔ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں ، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہو گا جب ہم تم سے انتقام لیں گے۔(الدُخان۔۔۔ ۱۶)
۳۹۔پھر نہ آسمان اُن پر رویا نہ زمین
ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں ۔ اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا اور اس نے کہا ’’اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں ۔ اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں اِس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو‘‘۔ آخرکار اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں ۔ (جواب دیا گیا) ’’اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ۔ تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اُس کے حال پر کھُلا چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے‘‘۔ کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے۔ کتنے ہی عیش کے سر و سامان، جن میں وہ مزے کر رہے تھے، اُن کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا اُن کا انجام، اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔ پھر نہ آسمان اُن پر رویا نہ زمین، اور ذرا سی مُہلت بھی ان کو نہ دی گئی۔ (الدُخان۔۔۔ ۲۹)
۴۰۔ بعد از موت اُٹھنے کا وقت طے شدہ ہے
اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب، فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا، اور اُن کی حالت جانتے ہوئے اُن کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی، اور انہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی۔یہ لوگ کہتے ہیں ’’ہماری پہلی موت کے سوا اور کچھ نہیں ، اُس کے بعد ہم دوبارہ اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔ اگر تم سچے ہو تو اُٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو‘‘۔ یہ بہتر ہیں یا تُبع کی قوم اور اُس سے پہلے کے لوگ؟ ہم نے اُن کو اِسی بنا پر تباہ کیا کہ وہ مُجرم ہو گئے تھے۔ یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں ۔ ان کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ ان سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے، وہ دن جب کوئی عزیز قریب اپنے کسی عزیز قریب کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کہیں سے انہیں کوئی مدد پہنچے گی، سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم کرے، وہ زبردست اور رحیم ہے۔ (الدُخان۔۔۔ ۴۲)
۴۱۔زَقّوم کا درخت گناہ گار کا کھاجا ہو گا
زَقّوم کا درخت گناہ گار کا کھاجا ہو گا، تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔ ’’پکڑو اسے اور رگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ اور اُنڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب۔ چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزّت دار آدمی ہے تُو۔ یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے‘‘(الدُخان۔۔۔ ۵۰)
۴۲۔جنت :گوری گوری آہو چشم عورتیں ملیں گی
خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں ، حریر و دیبا کے لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہو گی ان کی شان۔ اور ہم گوری گوری آہُو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔ وہاں موت کا مزا وہ کبھی نہ چکھیں گے۔ بس دنیا میں جو موت آ چکی سو آ چکی۔ اور اللہ اپنے فضل سے اُن کو جہنم کے عذاب سے بچا دے گا، یہی بڑی کامیابی ہے۔اے نبیﷺ ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ اب تم بھی انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں ۔ (الدُخان۔۔۔ ۵۹)
سورۂ الجاثیہ
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۴۳۔اہلِ یقین کے لیے نشانیاں بے شمار
ح م۔ اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے۔ اور تمہاری اپنی پیدائش میں ، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں ) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں ۔ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں ، اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اُس کے ذریعہ سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے، اور ہواؤں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں ۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔(الجاثیہ۔۔۔ ۶)
۴۴۔ قرآن سراسر ہدایت ہے
تباہی ہے ہر اُس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں ، اور وہ اُن کو سُنتا ہے، پھر پُورے غرور کے ساتھ اپنے کفر پر اِس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اُس نے اُن کو سُنا ہی نہیں ۔ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مژدہ سُنا دو۔ ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اُن کا مذاق بنا لیتا ہے۔ ایسے سب لوگوں کے لیے ذلّت کا عذاب ہے۔ اُن کے آگے جہنم ہے۔ جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز اُن کے کسی کام نہ آئے گی، نہ اُن کے وہ سرپرست ہی اُن کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے۔ اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔یہ قرآن سراسر ہدایت ہے، اور اُن لوگوں کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا۔(الجاثیہ۔۔۔ ۱۱)
۴۵۔اللہ نے سمندر کو انسان کے لیے مسخر کیا
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ اُس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے ۔ اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں ۔(الجاثیہ۔۔۔ ۱۳)
۴۶۔ منکرین کی حرکتوں پر درگزر سے کام لو
اے نبیﷺ ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے بُرے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے، اُن کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھُگتے گا۔ پھر جانا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۱۵)
۴۷۔ بنی اسرائیل کو فضیلت عطا کی گئی تھی
اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حُکم اور نبوت عطا کی تھی۔ اُن کو ہم نے عمدہ سامانِ زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی، اور دین کے معاملہ میں اُنہیں واضح ہدایات دے دیں ۔ پھر جو اختلاف اُن کے درمیان رُو نما ہوا وہ (ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آ جانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ اللہ قیامت کے روز ان معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۱۷)
۴۸۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں
اس کے بعد اب اے نبیﷺ ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت اُن لوگوں کے لیے جو یقین لائیں ۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۲۰)
۴۹۔ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا
کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں ۔ اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے۔ لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۲۲)
۵۰۔جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مُہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟(الجاثیہ۔۔۔ ۲۳)
۵۱۔قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو‘‘۔ درحقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں ۔ اور جب ہماری واضح آیات اِنہیں سُنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اُٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہی تم کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۲۶)
۵۲۔اللہ کا تیار کرایا ہوا اعمال نامہ
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، اور جس روز قیامت کی گھڑی آ کھڑی ہو گی اُس دن باطل پرست خسارے میں پڑ جائیں گے۔اُس وقت تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گِرا دیکھو گے۔ ہر گروہ کو پکارا جائے گا کہ آئے اور اپنا نامہ اعمال دیکھے۔ اُن سے کہا جائے گا: ’’آج تم لوگوں کو اُن اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ یہ ہمارا تیار کرایا ہوا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے اُسے ہم لکھواتے جا رہے تھے‘‘۔(الجاثیہ۔۔۔ ۲۹)
۵۳۔جنہوں نے تکبر کیا اور مجرم بن کر رہے
پھر جو لوگ ایمان لائے تھے اور نیک عمل کرتے رہے تھے ۔انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا (اُن سے کہا جائے گا) ’’کیا میری آیات تم کو نہیں سُنائی جاتی تھیں ؟ مگر تم نے تکبر کیا اور مجرم بن کر رہے۔ اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے‘‘۔ اس وقت اُن پر اُن کے اعمال کی برائیاں کھل جائیں گی اور وہ اُسی چیز کے پھیر میں آ جائیں گے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (الجاثیہ۔۔۔ ۳۳)
۵۴۔ کلام اللہ کا مذاق بنانے والوں کا انجام
اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ ’’آج ہم بھی اُسی طرح تمہیں بھُلائے دیتے ہیں جس طرح تم اِس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔ تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو‘‘۔پس تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین اور آسمانوں کا مالک اور سارے جہان والوں کا پروردگار ہے۔ زمین اور آسمانوں میں بڑائی اُسی کے لیے ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے۔(الجاثیہ۔۔۔ ۳۷)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں