پیغامِ قرآن : پارہ 5-1

۱ ۔ الٓمٓ کے مضامین


۱۔ اللہ کے بندے اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں

سورۂ فاتحہ:
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔ (فاتحۃ ۔۔۔ ۷)


۲۔ اللہ کی کتاب کیا ہے؟

سورۂ البقرۃ :
الف، لام، میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں ، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۵)

۳۔ کتاب اللہ کا انکار کرنے والے

جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۷)

۴۔ منافقین کی دھوکہ بازی

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ہے، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں ، اس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں __ خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟__ خبردار حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں ، مگر یہ جانتے نہیں ہیں ۔ جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ، اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں __ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نورِ بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں __ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کر لیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۰)

۵۔ رب کی بندگی اختیار کرو

لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت سے ہو سکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھیراؤ۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲)

۶۔ قرآن کی نقل ممکن نہیں

اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں ، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور یقیناً کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴)

۷۔عاملِ قرآن کو جنت کی خوشخبری

اور اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں ، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۵)

۸۔اللہ تمثیلیں کیوں بیان کرتا ہے

ہاں ، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ جو لوگ حق کو قبول کرنے والے ہیں ، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اس سے گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں ، اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں ، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۷)

۹۔اللہ دوبارہ زندگی عطا کرے گا

تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۹)

۱۰۔تخلیقِ آدمؑ پر فرشتوں کا اعتراض

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا)، تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ‘‘۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا: ’’تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے، تو اللہ نے فرمایا: ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں ‘‘۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔(البقرۃ۔۔۔ ۳۴)

۱۱۔ نکلنا خلد سے آدمؑ کا

پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے‘‘۔ آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور ر نج کا موقع نہ ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرۃ۔۔۔ ۳۹)

۱۲۔ بنی اسرائیل سے اللہ کا خطاب

اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔ میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں ، اور مجھ ہی سے تم ڈرو۔ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۴۶)

۱۳۔ بنی اسرائیل کو فضیلت عطا کی گئی

اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔ اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔(البقرۃ۔۔۔ ۴۸)

۱۴۔ فرعون کا لڑکوں کو ذبح کروانا

یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی__ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔(البقرۃ۔۔۔ ۴۹)

۱۵۔ اللہ نے سمندر پھاڑ کر راستہ بنایا

یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ یاد کرو، جب ہم نے موسیٰؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی، مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔(البقرۃ۔۔۔ ۵۲)

۱۶۔ بنی اسرائیل کا بچھڑے کو معبود بنانا

یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔یاد کرو جب موسیٰؑ (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے‘‘۔ اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۵۴)

۱۷۔ بنی اسرائیل کا خدا کو دیکھنے پر اصرار

یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں ۔ اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست کڑکے نے تم کو آ لیا۔ تم بے جان ہو کر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔(البقرۃ۔۔۔ ۵۶)

۱۸۔ قومِ موسیٰ ر من و سلویٰ کا نزول

ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا، من و سلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں ، انہیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا۔پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ ’’یہ بستی، جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار، جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حِطّۃ حِطّۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے‘‘ مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کر دیا۔ آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے۔(البقرۃ۔۔۔ ۵۹)

۱۹۔ اور چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے

یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے۔ (اس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔(البقرۃ۔۔۔ ۶۰)

۲۰۔ وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے

یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ ’’اے موسیٰؑ ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں ، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘۔ تو موسیٰؑ نے کہا : ’’کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا،کسی شہری آبادی میں جا رہو۔ جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا‘‘۔ آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اِس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۶۱)

۲۱۔ نیک عمل کا اجر رب کے پاس ہے

یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ ’’جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے‘‘۔ مگر اس کے بعد تم نے اپنے عہد سے پھِر گئے۔ اس پر بھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے۔(البقرۃ۔۔۔ ۶۴)

۲۲۔ نافرمان انسانوں کا بندر بننا

پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا۔ ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔ اس طرح ہم نے ان کے انجام کو اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا۔(البقرۃ۔۔۔ ۶۶)

۲۳۔ قومِ موسیٰ کو گائے ذبح کرنے کا حکم

پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰؑ نے کہا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ۔ بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے۔ موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو۔ پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰؑ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے۔ پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعیین میں اشتباہ ہو گیا ہے، اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے۔ موسیٰؑ نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں ، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۷۱)

۲۴۔ پتھر سا دِل رکھنے والے

اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو__ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخرکار تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ اُن سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۷۴)

۲۵۔ کلام اللہ میں تحریف کرتے رہے

اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ (محمد رسول اللہﷺ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں ، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہو گئے ہو؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ؟__ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے؟__ ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں ، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں ۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔ وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھُونے والی نہیں الّا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۸۲)

۲۶۔ بنی اسرائیل سے اللہ کا عہد

یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھِر گئے اور اب تک پھِرے ہوئے ہو۔ پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو۔ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں ، تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو__ یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔(البقرۃ۔۔۔ ۸۶)

۲۷۔ عیسیٰؑ کو روحِ پاک سے مدد کی گئی

ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، آخرکار عیسیٰؑ ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی۔ پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا!__ وہ کہتے ہیں ، ہمارے دل محفوظ ہیں ۔ نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں __ اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آ گئی، جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر، کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا۔ نواز دیا! لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۹۰)

۲۸۔ بنی اسرائیل کا حق کو ماننے سے انکار

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں ’’ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں ، جو ہمارے ہاں (یعنی نسلِ اسرائیل میں ) اتری ہے‘‘۔ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟ تمہارے پاس موسیٰؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو: اگر تم مومن ہو تو یہ عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۹۳)

۲۹۔ کافر کبھی موت کی تمنا نہ کرینگے

ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو__ یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انہوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا تقاضہ یہی ہے (کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں )، اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے حتیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں ، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۹۶)

۳۰۔ فرشتوں کا دشمن اللہ کا دشمن ہے

ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔ (اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے، تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں ، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۹۸)

۳۱۔ قرآن کا انکار کرنے والے

ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں ۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں ۔ کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا، تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو اِن کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پُشت ڈالا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۰۱)

۳۲۔ سلیمانؑ ا ور ہاروت و ماروت کا ذکر

اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے، جو شیاطین، سلیمانؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمانؑ نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابِل میں دو فرشتوں ، ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی، حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے کہ ’’دیکھ، ہم محض ایک آزمائش ہیں ، تو کفر میں مبتلا نہ ہو‘‘۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں ۔ ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں ، بلکہ نقصان دہ تھی اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انہیں معلوم ہوتا! اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے، تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا، وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ کاش انہیں خبر ہوتی! (البقرۃ۔۔۔ ۱۰۳)

۳۳۔ اہل کتاب و مشرکین کا رویہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رَاعِنا نہ کہا کرو، بلکہ اُنظُرنا کہو اور توجہ سے بات کو سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں ۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چُن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھُلا دیتے ہیں ، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبرگیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟ پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبے کرنا چاہتے ہو جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ سے کیے جا چکے ہیں ؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا، وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں ۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے۔ مطمئن رہو کہ اللہ (تعالیٰ) ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۱۰)

۳۴۔ عیسائی و یہودی کا جنتی ہونے کا دعویٰ

ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ۔ ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی۔ حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۱۲)

۳۵۔ یہودی و عیسائی کے اختلافات

یہودی کہتے ہیں : عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ۔ عیسائی کہتے ہیں : یہودیوں کے پاس کچھ نہیں __ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں __ اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۱۳)

۳۶۔ بڑا ظالم شخص کون ہو گا؟

اور اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں ۔ ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۱۴)

۳۷۔ مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں

مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۱۵)

۳۸۔ اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے

ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی مِلک ہیں ۔ سب کے سب اس کے مطیعِ فرمان ہیں ، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۱۷)

۳۹۔ نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی

نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں ) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں ۔ یقین دلانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں ۔ (اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہو گی کہ) ہم نے تم کو علمِ حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۱۹)

۴۰۔ یہودی اور عیسائی راضی نہ ہوں گے

یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ورنہ اگر اُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں ۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں ، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۲۱)

۴۱۔ بنی اسرائیل کو عطا کردہ نعمت

اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری وہ نعمت، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا، اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی۔ اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۲۳)

۴۲۔ حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش

یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ‘‘۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے‘‘؟اس نے جواب دیا: ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۲۴)

۴۳۔ کعبہ امن کی جگہ ہے

اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۲۵)

۴۴۔ سامانِ زندگی تو کافروں کو بھی ملے گا

اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دُعا کی: ’’اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں ، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے‘‘۔ جواب میں اس کے رب نے فرمایا: ’’اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا، مگر آخرکار اسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۲۶)

۴۵۔ تعمیر کعبہ اور ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کی دعا

اور یاد کرو، ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مُطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے‘‘۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۲۹)

۴۶۔ دینِ ابراہیمؑ سے نفرت کرنے والے

اب کون ہے جو ابراہیمؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیمؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہو گا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا: ’’مسلم ہو جا‘‘، تو اس نے فوراً کہا: ’’میں مالکِ کائنات کا ’’مسلم‘‘ ہو گیا۔‘‘ اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۳۱)

۴۷۔ حضرت یعقوبؑ کی وصیت

اور اسی کی وصیت ابراہیمؑ اور یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچّو، اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟ اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا:’’بچّو، میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟‘‘ ان سب نے جواب دیا: ’’ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے خدا مانا ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں ‘‘۔وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے۔ جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۳۴)

۴۸۔ یہودی عیسائی راہِ راست پر نہیں

یہودی کہتے ہیں : یہودی ہو، تو راہ راست پاؤ گے۔ عیسائی کہتے ہیں : عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو: ’’نہیں ، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیمؑ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘۔ مسلمانو! کہو کہ: ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں ‘‘۔ پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں ، جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں ، اور اگر اس سے منہ پھیریں ، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں ، لہٰذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۳۷)

۴۹۔ اللہ کا رنگ سب سے بہتر ہے

کہو: ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو: ’’کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں ، تمہارے اعمال تمہارے لیے، اور ہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۳۹)

۵۰۔ انبیاؑ یہودی یا نصرانی نہ تھے

یا پھر تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیمؑ ، اسمٰعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے؟ کہو: ’’تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟ تمہاری حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے __ وہ کچھ لوگ تھے جو گزر چکے ان کی کمائی ان کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہو گا‘‘۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۴۱)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۲۔۔ سیقول کے مضامین


۱۔ قبلہ کی تبدیلی کا حکم

نادان لوگ ضرور کہیں گے: انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھِر گئے؟ اے نبیﷺ ، ان سے کہو: ’’مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے‘‘۔ اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’اُمتِ وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔پہلے جس طرف تم رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسولﷺ کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھِر جاتا ہے۔ یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر ان لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے۔ اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے۔اے نبیﷺ ، یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔ یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی، خوب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور برحق ہے، مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں ، اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ تم ان اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں ، اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہے، اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں ، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ، مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھُپا رہا ہے۔ یہ قطعی ایک امر حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو۔ ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔ جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پالے گا۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ۔ تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہیں سے اپنا رُخ (نماز کے وقت) مسجد حرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رُخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرا کرو، اور جہاں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حُجت نہ ملے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۵۰)

۲۔فلاح کا راستہ، اللہ کے حکم کی پیروی

ہاں ان میں سے جو ظالم ہیں ، ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہو گی۔ تو اُن سے تم نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو__ اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں اور اس توقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم اُسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے جس طرح (تمہیں اس چیز سے فلاح نصیب ہوئی کہ) ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو، کُفران نعمت نہ کرو۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۵۲)

۳۔شہید زندہ ہیں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو۔ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۵۴)

۴۔جان و مال کا خسارہ آزمائش ہے

اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، انہیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۵۷)

۵۔ حج و عمرہ میں صفا اور مروہ کی سعی کرنا

یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عُمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۵۸)

۶۔ ہدایت کو چھپانے والے پر اللہ کی لعنت

جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھُپاتے ہیں ، در آں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اُسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۶۰)

۷۔حالتِ کفر میں جان دینے والے

جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ اُن کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۶۲)

۸۔ عقلمندوں کے لئے نشانیاں

تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمن اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے (اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، اُن کِشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں ، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا رکھے گئے ہیں ، بے شمار نشانیاں ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۶۴)

۹۔غیر اللہ کی پیروی کرنے والے

(مگر وحدتِ خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھُلے کھُلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اُس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے__ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں __ کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی ان ظالموں کو سُوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور رہنما جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔ اور وہ لوگ جو دنیا میں اُن کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں ، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۶۷)

۱۰۔شیطان بد ی اور فحاشی کا حکم دیتا ہے

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۶۹)

۱۱۔باپ دادا کی بے ہدایت تقلید

ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟ یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۷۱)

۱۲۔ خون ،سور اور غیر اللہ کے نام کا کھانا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۷۳)

۱۳۔مجبوراً حرام شئے کھانا

ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۷۳)

۱۴۔دُنیوی فائدوں پر اللہ کے احکام چھپانا

حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھُپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں ، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا، اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا۔ کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ! یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۷۶)

۱۵۔نیکی کیا ہے ؟

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں ، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں ۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۷۷)

۱۶۔قتل کے قصاص اور خوں بہا کا حکم

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو تو اُس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اُس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خُوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خُوں بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ عقل و خِرَد رکھنے والو، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۷۹)

۱۷۔ وصیت میں تبدیلی گناہ ہے

تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا، تو اس کا گناہ اُن بدلنے والوں پر ہو گا۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نا دانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۲)

۱۸۔روزے کی فرضیت اور دیگر احکامات

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے، اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۵)

۱۹۔ اللہ سنتا اور جواب دیتا ہے

اور اے نبی، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سُنتا اور جواب دیتا ہوں ۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۔ (یہ بات تم انہیں سُنا دو) شاید کہ وہ راہ راست پا لیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۶)

۲۰۔روزہ و اعتکاف میں حدود اللہ

تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۷)

۲۱۔ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ

اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۸)

۲۲۔چاند کا گھٹنا بڑھنا اور تاریخیں

اے نبی، لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو: یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں ۔ نیز ان سے کہو: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو۔ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۱۸۹)

۲۳۔لڑنے والوں سے بھی زیادتی نہ کرو

اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ بُرا ہے، مگر فتنہ اُس سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں ، تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں ، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں ، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۹۲)

۲۴۔ظالموں سے لڑنا تاکہ فتنہ باقی نہ رہے

تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں ، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۹۳)

۲۵۔ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے

ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حُرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہو گا۔ لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے، تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کی حُدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۹۴)

۲۶۔فی سبیل اللہ خرچ اور احسان کا طریقہ

اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۱۹۵)

۲۷۔حج و عمرے کے مسائل

اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھِر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اَسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکّے پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پُورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہو گا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہییں ۔ پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں __ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۰۳)

۲۸۔دنیا داروں کی بھلی باتوں کی حقیقت

انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھیراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمنِ حق ہوتا ہے۔ جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے،کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے__ حالانکہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا__ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۰۷)

۲۹۔ شیطان کی پیروی نہ کرو

اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے۔ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آ چکی ہیں ، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغزش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں ، تو) کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پَرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۱۰)

۳۰۔کافروں کے لئے دنیا پسندیدہ ہے

بنی اسرائیل سے پوچھو: کیسی کھُلی کھُلی نشانیاں ہم نے انہیں دکھائی ہیں (اور پھر یہ بھی انہی سے پوچھ لو کہ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اُسے اللہ کیسی سخت سزا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے۔ ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ، مگر قیامت کے روز پرہیزگار لوگ ہی اُن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے۔ رہا دُنیا کا رزق، تو اللہ کو اختیار ہے، جسے چاہے بے حساب دے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۱۲)

۳۱۔پہلے سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے

ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رُو نما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رُو نما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں ،) اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے__ پس جو لوگ انبیاؑ پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۱۳)

۳۲۔آزمائشیں جنت کا ٹکٹ ہیں

پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟__ (اس وقت اُنہیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۱۴)

۳۳۔ یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ

لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہو گا۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۱۵)

۳۴۔پسندیدہ شئے بری بھی ہو سکتی ہے

تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۱۶)

۳۵۔فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے

لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اُس میں لڑنا بہت بُرا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بُرا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔ وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں ۔ (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۱۷)

۳۶۔مجاہد اور مہاجر کی فضیلت

بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے، وہ رحمت الٰہی کے جائز امیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۱۸)

۳۷۔شراب اور جوئے میں گناہ زیادہ ہے

پوچھتے ہیں : شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں ، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۱۹)

۳۸۔راہِ خدا میں کتنا خرچ کریں

پوچھتے ہیں : ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں ؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۲۰)

۳۹۔یتیموں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ

پوچھتے ہیں : یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو: جس طرزِ عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔ اگر تم اپنا اور اُن کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں ۔ بُرائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے۔ اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲۰)

۴۰۔مشرکوں سے نکاح کی ممانعت

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بُلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲۱)

۴۱۔تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں

پوچھتے ہیں : حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں ۔ پھر جب وہ پاک ہو جائیں ، تو اُن کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیﷺ ، جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں (فلاح و سعادت کی) خوشخبری دے دو۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲۳)

۴۲۔غلط باتوں پر اللہ کی قسم نہ کھاؤ

اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بندگانِ خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو۔ اللہ تمہاری ساری باتیں سُن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی باز پرس وہ ضرور کرے گا۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲۵)

۴۳۔بیوی سے تعلق نہ رکھنے کی قسم

جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انہوں نے رجوع کر لیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۲۷)

۴۴۔طلاق کی عدت اور حمل کا چھپانا

جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ، اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں ۔ انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں ۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں ، تو وہ اس عدت کے دوران میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حقدار ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۲۸)

۴۵۔ مرد کو ایک بلند درجہ حاصل ہے

عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں ۔ البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۲۸)

۴۶۔بعد از طلاق لین دین میں احسان کرنا

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم اُنہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حُدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۲۹)

۴۷۔تین طلاق اور حلالہ

پھر اگر (دو بار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، الاّ یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنہیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں ۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۳۰)

۴۸۔مطلقہ عورت پر ظلم نہ کرو

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بَھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمتِ عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۳۱)

۴۹۔مطلقہ عورت کی شادی: رکاوٹ نہ ڈالو

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں ، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں ، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں ۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو، تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ ا للہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۳۲)

۵۰۔مطلقہ کا بچہ کو دودھ پلانا

جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدتِ رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں ۔ اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہو گا۔ مگر کسی پر اُس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اُس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے__ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں ، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کرو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۳۳)

۵۱۔بیوہ کی عدت اور دوران عدت منگنی

تم میں سے جو لوگ مر جائیں ، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں ، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے، دس دن روکے رکھیں ۔ پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے، تو انہیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں ، کریں ۔ تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ زمانۂ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھُپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو، خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بُرد بار ہے (چھوٹی چھوٹی باتوں سے) درگزر فرماتا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۳۵)

۵۲۔طلاق قبل از رخصتی کے مسائل

تم پر کچھ گناہ نہیں ، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں اُنہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہو گا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۳۷)

۵۳۔نمازوں کی نگہداشت کا طریقہ

اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسنِ صلوٰۃ کی جامع ہو۔ اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ۔ بدامنی کی حالت ہو، تو خواہ پیدل ہو، خواہ سوار، جس طرح ممکن ہو، نماز پڑھو۔ اور جب امن میسر آ جائے، تو اللہ کو اُس طریقے سے یاد کرو، جو اس نے تمہیں سکھا دیا ہے۔ جس سے تم پہلے ناواقف تھے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۳۹)

۵۴۔بیوہ کے لئے سال بھر کا نان و نفقہ

تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں ، ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں ۔ پھر اگر وہ خود نکل جائیں ، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں ، اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انہیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴۲)

۵۵۔موت کے ڈر سے

تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ۔ پھر اس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴۳)

۵۶۔اللہ کی راہ میں جنگ کرو

مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان رکھو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسَن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴۵)

۵۷۔ بنی اسرائیل کا جنگ سے گریز

پھر تم نے اُس معاملے پر بھی غور کیا جو موسیٰؑ کے بعد سردارانِ بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟ انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں ۔ نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو؟ وہ کہنے لگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ خدا میں نہ لڑیں ، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں ۔ مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا، تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے، اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴۶)

۵۸۔ طالوت کو بادشاہ ماننے سے گریز

ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سُن کر وہ بولے: ’’ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں ۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے‘‘۔ نبی نے جواب دیا: ’’اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۴۷)

۵۹۔آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کے تبرکات

اس کے ساتھ اُن کے نبی نے ان کو یہ بھی بتایا کہ ’’خدا کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے، جس میں آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۴۸)

۶۰۔طالوت کی لشکر کشی اور اللہ کی آزمائش

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا: ’’ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں ۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ چُلّو کوئی پی لے‘‘۔ مگر ایک گروہِ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۴۹)

۶۱۔لشکر طالوت کا جنگ سے انکار

پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۴۹)

۶۲۔ قلیل گروہ استقامت دکھانا

لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے، تو انہوں نے دعا کی: ’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۵۰)

۶۳۔داؤد علیہ السلام کی سلطنت کا قیام

آخرکار اللہ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا __ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دُنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۵۱)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۳۔ تلک الرسل کے مضامین


۱۔رسولوں پر اختلاف اور اللہ کی مشیّت

یہ اللہ کی آیات ہیں ، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور اے محمدﷺ تم یقیناً اُن لوگوں میں سے ہو جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰؑ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور رُوح پاک سے اُس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے۔ مگر (اللہ کی مشیّت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) اُنہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ہاں ، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (البقرۃ۔۲۵۳)

۲۔کفر کرنے والے ہی ظالم ہیں

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۵۴)

۳۔اللہ تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے

اللہ، وہ زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی۔ الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۵۵)

۴۔ایمان یا کفر اختیار کرنے میں آزادی

دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں ، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۵۷)

۵۔ ابراہیمؑ کا رب کون ہے

کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اُس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیمؑ نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے‘‘ تو اُس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا : ’’اچھا، اللہ سُورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سُن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۵۸)

۶۔ سو برس کے بعد دوبارہ زندہ ہو گیا

یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا: ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا‘‘؟ اس پر اللہ نے اس کی رُوح قبض کر لی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: ’’بتاؤ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟‘‘ اُس نے کہا: ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اسکا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے)۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں ۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ‘‘۔ اس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۵۹)

۷۔ابراہیمؑ : ذبح شدہ پرندوں کا زندہ ہونا

اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ ’’میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اچھا، تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۶۰)

۸۔ ایک کے بدلہ سات سو ملے گا

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں ۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۶۱)

۹۔صدقہ خیرات دینے کا صحیح طریقہ

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دُکھ دیتے ہیں ، ان کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۶۳)

۱۰۔احسان جتلا کر صدقہ دینا

اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۶۴)

۱۱۔اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرنا

بخلاف اس کے جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسی کسی سطح مُرتفع پر ایک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اُس کے لیے کافی ہو جائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۶۵)

۱۲۔عمل ضائع ہونے کی مثال

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھُلس جائے جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں ؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۶۶)

۱۳۔شیطان مفلسی سے ڈراتا ہے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانشمند ہیں ۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۶۹)

۱۴۔حاجت مندوں کی خفیہ امداد افضل ہے

تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ اگر اپنے صدقات عَلانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھُپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ تمہاری بہت سی بُرائیاں اس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہرحال اُس کی خبر ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۷۱)

۱۵۔ہدایت تو اللہ ہی دیتا ہے

اے نبیﷺ ، لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔ اور راہِ خیر میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے۔ آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم راہِ خیر میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۷۲)

۱۶۔دینی کام والے مدد کے زیادہ مستحق ہیں

خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ اُن کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں ۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں ۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۷۳)

۱۷۔سود حرام ہے اور سود خور جہنمی

جو لوگ اپنے مال شب و روز کھُلے اور چھُپے خرچ کرتے ہیں اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں ۔ مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں ، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھُو کر باؤلا کر دیا ہو۔ اور اس حالت میں اُن کے مُبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی ہے‘‘، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خواری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سُود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں ، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، اُن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۷۹)

۱۸۔ تنگدست قرض دار کو مہلت دو

تمہارا قرض دار تنگدست ہو، تو ہاتھ کھُلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔ اُس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہو گا۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۱)

۱۹۔ قرض کو گواہوں کے سامنے لکھنا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اُس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، یا املا نہ کرا سکتا ہو، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۲)

۲۰۔دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر

پھر اپنے مَردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھُول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہُل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۲)

۲۱۔بغیر لکھے تجارت میں بھی گواہ رہے

ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۸۲)

۲۲۔رہن بالقبض پر معاملہ کرنا

اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو۔اگر تم سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے۔اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۳)
۲۳۔اللہ سے کچھ بھی چھپانا ممکن نہیں


آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو، خواہ چھُپاؤ، اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۴)

۲۴۔حکم سُنا اور اطاعت قبول کی

رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اُس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سُنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ (البقرۃ۔۔۔ ۲۸۵)

۲۵۔اللہ طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا

اللہ کسی متنفِس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اُسی پر ہے۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۸۶)

۲۶۔اللہ سے دعا کیسے مانگی جائے

(ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب، ہم سے بھُول چوک میں جو قصور ہو جائیں ، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔(البقرۃ۔۔۔ ۲۸۶)


سورۂ آل عمران
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے 

۲۷۔قرآن سے پہلے تورات اور انجیل

ا، ل، م۔ اللہ، وہ زندۂ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔اے نبیؐ، اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جو حق لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں ۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے، اور اس نے کسوٹی اتاری ہے (جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے)۔ اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں ، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی۔ اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور بُرائی کا بدلہ دینے والا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۴)

۲۸۔ کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں

زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔ وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے۔ اس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۶)

۲۹۔آیات متشابہات: اللہ ہی جانتا ہے

ا ے نبیﷺ ، وہی خدا ہے جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں : ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں ، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پُختہ کار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا ان پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں ‘‘۔ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں ۔ وہ اللہ سے دُعا کرتے رہتے ہیں کہ ’’پروردگار، جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔ پروردگار، تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ تو ہرگز اپنے وعدہ سے ٹلنے والا نہیں ہے‘‘۔(آلِ عمران۔۹) 

۳۰۔کافروں کو مال و اولاد کچھ کام نہ دے گا

جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، انہیں اللہ کے مقابلے میں اُن کا مال کچھ کام دے گا، نہ اولاد۔ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ان کا انجام ویسا ہی ہو گا، جیسا فرعون کے ساتھیوں اور ان سے پہلے کے نافرمانوں کا ہو چکا ہے کہ انہوں نے آیاتِ الٰہی کو جھٹلایا، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور حق یہ ہے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۱)

۳۱۔ نبیﷺ کا انکار کرنے والے جہنمی ہیں

پس اے نبیﷺ ، جن لوگوں نے تمہاری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، ان سے کہہ دو کہ قریب ہے وہ وقت، جب تم مغلوب ہو جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور جہنم بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دوچند ہے۔ مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے۔ دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۳)

۳۲۔مال و اولاد چند روزہ سامان ہیں

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس_ عورتیں ، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں __ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں ، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں ۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۴)

۳۳۔بہتر ٹھکانا تو اللہ کے پاس ہے

حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۵)

۳۴۔اللہ بندوں پر گہری نظر رکھتا ہے

اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ’’مالک! ہم ایمان لائے، ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتشِ دوزخ سے بچا لے‘‘۔ یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں ، راست باز ہیں ، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۷)

۳۵۔اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے

اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اُس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اب اگر اے نبیﷺ ، یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں ، تو ان سے کہو: ’’میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا ہے‘‘۔ پھر اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب دونوں سے پوچھو: ’’کیا تم نے بھی اُس کی اطاعت و بندگی قبول کی؟‘‘ اگر کی تو وہ راہِ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۲۰)

۳۶۔ قتلِ ناحق کی دردناک سزا ہے

جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جو خلقِ خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اٹھیں ، ان کو دردناک سزا کی خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو گئے، اور ان کا مددگار کوئی نہیں ہے۔(آلِ عمران:۲۲)

۳۷۔ دینی معاملات میں غلط فہمیاں

تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، ان کا حال کیا ہے؟ انہیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بُلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’آتشِ دوزخ تو ہمیں مَس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز‘‘۔ ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔ مگر کیا بنے گی اُن پر جب ہم انہیں اس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دے دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہو گا۔کہو، خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو۔ اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۲۷)

۳۸۔ کافروں کو اپنا مددگار ہرگز نہ بنائیں

مومنین اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں ۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ۔ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۲۸)

۳۹۔ہر نفس اپنے کیے کا پھل پائے گا

اے نبیﷺ ! لوگوں کو خبردار کر دو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔ وہ دن آنے والا ہے، جب ہر نفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا خواہ اس نے بھلائی کی ہو یا بُرائی۔ اُس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا! اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۳۰)

۴۰۔ اللہ سے محبت کی نشانی ، نبیﷺ کی پیروی

اے نبیﷺ ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ ان سے کہو کہ ’’اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو‘‘۔ پھر ا گر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں ، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۳۲)

۴۱۔حضرت مریمؑ کی پیدائش

اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا۔ یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (وہ اس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ ’’میرے پروردگار! میرے اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں ، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہو گا۔ میری اس پیشکش کو قبول فرما۔ تو سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ’’مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے__ حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی__ اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ خیر، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردُود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ‘‘۔ آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا، اور زکریا کو اس کا سرپرست بنا دیا۔(آلِ عمران۔۔۔ ۳۷)

۴۲۔حضرت زکریاؑ کو اللہ کی خوشخبری

زکریا جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔ پوچھتا مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ یہ حال دیکھ کر زکریا نے اپنے رب کو پکارا ’’پروردگار، اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔ جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جبکہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ’’اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہو گی۔ کمال درجہ کا ضابط ہو گا۔ نبوت سے سرفراز ہو گا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا‘‘۔ زکریا نے کہا ’’پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا؟ میں تو بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے‘‘۔ جواب ملا ’’ایسا ہی ہو گا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ عرض کیا ’’مالک! پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے‘‘۔کہا ’’نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے (یا نہ کر سکو گے) اس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہنا‘‘۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۴۱)

۴۳۔حضرت مریمؑ کو خوشخبری

پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آ کر کہا ’’اے مریمؑ ، اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ اے مریم! اپنے رب کی تابعِ فرماں بن کر رہ، اس کے آگے سر بسجود ہو، اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ تو بھی جھک جا‘‘۔اے نبیﷺ ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعے سے بتا رہے ہیں ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔
اور جب فرشتوں نے کہا ’’اے مریم! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوشخبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا، دنیا اور آخرت میں معزز ہو گا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا، لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مرد صالح ہو گا‘‘۔ یہ سن کر مریمؑ بولی ’’پروردگار، میرے ہاں بچہ کہاں سے ہو گا، مجھے تو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘۔ جواب ملا ’’ایسا ہی ہو گا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ (فرشتوں نے پھر اپنے سلسلۂ کلام میں کہا) ’’اور اللہ اسے کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا، تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول مقرر کرے گا‘‘۔(آلِ عمران:۴۹)

۴۴۔ عیسیٰؑ کا مردے کو زندہ کرنا

(اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تو اس نے کہا) ’’میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھُونک مارتا ہوں ، وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اس کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرتا ہوں ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر کے رکھتے ہو۔ اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ اور میں اُس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اِس وقت میرے زمانہ میں موجود ہے۔ اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔ دیکھو، میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں ، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔ جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا ’’کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا ’’ہم اللہ کے مددگار ہیں ، ہم اللہ پر ایمان لائے، آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینے والے ) ہیں ۔ مالک! جو فرمان تو نے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی قبول کی، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘(آلِ عمران:۵۳)

۴۵۔اللہ کا عیسیٰؑ کو واپس اٹھا لینے کا اعلان

پھر بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔ (وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اس نے کہا کہ ’’اے عیسیٰؑ اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور جنہوں نے تیرا انکا ر کیا ہے ان سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالا دست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے۔ پھر تم سب کو آخرکار میرے پاس آنا ہے، اس وقت میں ان باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کی ہے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں سخت سزا دوں گا اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے، اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے انہیں ان کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے اور (خوب جان لے کہ) ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا‘‘۔(آلِ عمران۔۔۔ ۵۷)

۴۶۔ عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے

اے نبیﷺ ! یہ آیات اور حکمت سے لبریز تذکرے ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا۔ یہ اصل حقیقت ہے جو تمہارے رب کی طرف سے بتائی جا رہی ہے اور تم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جو اس میں شک کرتے ہیں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۶۰)

۴۷۔جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت

یہ علم آ جانے کے بعد اب جو کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے نبیﷺ ! اس سے کہو کہ ’’آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ یہ بالکل صحیح واقعات ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خداوند نہیں ہے، اور وہ اللہ ہی کی ہستی ہے جس کی طاقت سب سے بالا اور جس کی حکمت نظام عالم میں کارفرما ہے۔ پس اگر یہ لوگ (اس شرط پر مقابلہ میں آنے سے) منہ موڑیں تو (ان کا مفسد ہونا صاف کھل جائے گا) اور اللہ تو مُفسدوں کے حال سے واقف ہی ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۶۳)

۴۸۔اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں

اے نبیﷺ کہو، ’’اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں ، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘__ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۶۴)

۴۹۔ ابراہیمؑ یہودی عیسائی نہیں مسلم تھا

اے اہلِ کتاب! تم ابراہیمؑ کے (دین کے) بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو ابراہیمؑ کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں ۔ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے__ تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں ۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلمِ یکسُو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبیﷺ اور اس کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حقدار ہیں ۔ اللہ صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۶۸)

۵۰۔وہ مومنوں کی گمراہی چاہتے ہیں

(اے ایمان لانے والو) اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹا دے، حالانکہ درحقیقت وہ اپنے سوا کسی کو گمراہی میں نہیں ڈال رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اے اہلِ کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟ اے اہلِ کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟ اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھِر جائیں ۔ نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہہ دو کہ ’’اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجّت مل جائے‘‘۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ ’’فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے۔ وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے‘‘۔(آلِ عمران۔۔۔ ۷۴)

۵۱۔اہلِ کتاب میں اچھے اور برے لوگ

اہلِ کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کر دے گا، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا الاّ یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالات کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’امیوں (غیر یہودی لوگوں ) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے‘‘۔ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے۔ آخر کیوں ان سے باز پرس نہ ہو گی؟(آلِ عمران:۷۵)

۵۲۔عہد کو پورا کرنے والے اللہ کو پسند ہیں

جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا، کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۷۷)

۵۳۔اللہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا

ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ۔(آلِ عمران۔۔۔ ۷۸)

۵۴۔نبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے

کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم مسلم ہو؟ (آلِ عمران۔۔۔ ۸۰)
۵۵۔ دیگر رسولوں کو ماننے کا عہد

یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ ’’آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی‘‘۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا ’’کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ‘‘۔ اللہ نے فرمایا ’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھِر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔ اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ اے نبیﷺ ! کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں ، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر نازل ہوئی تھیں ، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں ۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابعِ فرمان (مسلم) ہیں ‘‘۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔(آلِ عمران۔۔۔ ۸۵)
۵۶۔کافروں کو ہدایت نہیں ملتی

کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمتِ ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں ۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھِٹکار ہے، اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اِس کے بعد توبہ کر کے اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں ، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہ ہو گی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں ۔ یقین رکھو، جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اُسے قبول نہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۹۱)


۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔

۴۔۔۔ لن تنالوا کے مضامین


۱۔خدا کی راہ میں عزیز شئے خرچ کرو

تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہو گا۔(آلِ عمران۔۔۔ ۹۲)
۲۔ ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرو

کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدیﷺ میں حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل (حضرت یعقوبؑ) نے خود اپنے اُوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو، اگر تم (اپنے اعتراض میں ) سچے ہو تو لاؤ توراۃ اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت__ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنی جھُوٹی گھڑی ہوئی باتیں اللہ کی طرف منسوب کرتے رہیں وہی درحقیقت ظالم ہیں ۔ کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسُو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۹۵)
۳۔پہلی عبادت گاہ ،کعبہ کا حج کرو

بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھُلی ہوئی نشانیاں ہیں ، ابراہیمؑ کا مقامِ عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۹۷)
۴۔اہل کتاب کا اللہ کے راستہ سے روکنا

کہو، اے اہل کتاب! تم کیوں اللہ کی باتیں ماننے سے انکار کرتے ہو؟ جو حرکتیں تم کر رہے ہو اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ کہو، اے اہل کتاب! یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اُسے بھی تم اللہ کے راستہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے، حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر) گواہ ہو۔ تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے ان اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ تمہارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پا لے گا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۰۱)
۵۔اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۰۳)
۶۔نیکی کی طرف بلانا اور برائیوں سے روکنا

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیئے جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۰۴)
۷۔فرقوں میں نہ بٹ جانا

کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روز سخت سزا پائیں گے جبکہ کچھ لوگ سرخرو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہو گا۔ جن کا منہ کالا ہو گا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمتِ ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اس کفرانِ نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔ رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامنِ رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے۔ یہ اللہ کے ارشادات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں ، کیونکہ اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں (آلِ عمران:۱۰۹)

۸۔بیشتر اہل کتاب نافرمان ہیں

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔ یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں ۔ اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی۔ یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۱۲)
۹۔سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں

مگر سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں ۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہِ راست پر قائم ہیں ، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں ، اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔ یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے ا س کی ناقدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو نہ ان کا مال کچھ کام دے گا نہ اولاد، وہ تو آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔ جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا، درحقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں ۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۱۷)
۱۰۔مومن غیر مومن کو راز دار نہ بنائے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں ، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)(آلِ عمران:۱۱۸)
۱۱۔مسلم کی مصیبت پر کافر خوش ہوتے ہیں

تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتبِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں __ ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو، اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے__ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں ۔ مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس پر حاوی ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۲۰)
۱۲۔جنگ اُحد میں بزدلی کا مظاہرہ

(اے پیغمبرﷺ ، مسلمانوں کے سامنے اس موقع کا ذکر کرو) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (اُحُد کے میدان میں ) مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے۔ اللہ ساری باتیں سنتا ہے اور وہ نہایت باخبر ہے۔یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ بُزدلی دکھانے پر آمادہ ہو گئے تھے، حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۲۲)
۱۳۔ جنگِ بدر میں تین ہزار فرشتوں سے مدد

آخر اس سے پہلے جنگِ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔ اے نبیﷺ ، یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے ’’کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے؟‘‘ بے شک، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اُوپر چڑھ کر آئیں گے اسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں ) پانچ ہزار صاحبِ نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ یہ بات اللہ نے تمہیں اس لیے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں ۔ فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا و بینا ہے۔ (اور یہ مدد وہ تمہیں اس لیے دے گا) تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے، یا ان کو ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کے ساتھ پسپا ہو جائیں (آلِ عمران:۱۲۷)

۱۴۔فیصلہ کا اختیار پیغمبر کو نہیں اللہ کو ہے

(اے پیغمبرﷺ !) فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے، جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے، وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۲۹)
۱۵۔سود کھانا چھوڑ دو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سُود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ اللہ اور رسولﷺ کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۳۲)
۱۶۔غصے کو پی جانا اور قصور معاف کر دینا

دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔ (آلِ عمران:۱۳۴)
۱۷۔گناہ پر اصرار نہیں کرنا چاہئے

اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔ تم سے پہلے بہت سے دَور گزر چکے ہیں ۔ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا۔ یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت ۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۳۸)

۱۸۔ نشیب و فراز مسلمان کے لئے آزمائش

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ، اور اُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں __ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں __ اور وہ اس آزمائش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں ۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی، لو اب وہ تمہارے سامنے آ گئی اور تم نے اسے آنکھوں دیکھ لیا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۴۳)
۱۹۔محمدﷺ بس ایک رسول ہیں

محمدﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۴۴)
۲۰۔موت کا اک دن معین ہے

کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۴۵)
۲۱۔ثوابِ دنیا اور ثوابِ آخرت

جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم ان کی جزا ضرور عطا کریں گے۔ اِس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں اُن سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ اُن کی دعا بس یہ تھی کہ ’’اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہو اسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر‘‘۔ آخرکار اللہ نے اُن کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں ۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۴۸)
۲۲۔کافروں کے اشاروں پر چلنے کا نتیجہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔ (اُن کی باتیں غلط ہیں ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارا حامی و مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرینِ حق کے دلوں میں رُعب بٹھا دیں گے، ا س لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اُن کو خدائی میں شریک ٹھیرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے اور بہت ہی بُری ہے وہ قیام گاہ جو اُن ظالموں کو نصیب ہو گی۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۵۱)
۲۳۔کافروں سے پسپا ئی آزمائش ہے

اللہ نے (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اُس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے __ اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے __ تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظرِ عنایت رکھتا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۵۲)
۲۴۔نقصان و مصیبت پر ملول نہ ہو

یاد کرو جب تم بھاگے چلے جا رہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمہیں نہ تھا، اور رسول تمہارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا۔ اُس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کر دی کہ وہ اونگھنے لگے۔ مگر ایک دوسرا گروہ، جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنی ذات ہی کی تھی، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلافِ حق تھے۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ’’اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟‘‘ ان سے کہو ’’(کسی کا کوئی حصہ نہیں ) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ‘‘۔ دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ ’’اگر (قیادت کے) اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے‘‘۔ ان سے کہہ دو کہ ’’اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے‘‘۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا، یہ تو اس لیے تھے کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اُسے آزما لے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اُسے چھانٹ دے، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگا دیے تھے۔ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے (آلِ عمران:۱۵۵)
۲۵۔مارنے اور جِلانے والا تو اللہ ہی ہے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز و اقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا جنگ میں شریک ہوتے ہیں (اور وہاں کسی حادثہ سے دوچار ہو جاتے ہیں ) تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔ اللہ اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت و اندوہ کا سبب بنا دیتا ہے۔ ورنہ دراصل مارنے اور جِلانے والا تو اللہ ہی ہے اور تمہاری تمام حرکات پر وہی نگراں ہے۔ اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ تو اللہ کی جو رحمت اور بخشش تمہارے حصہ میں آئے گی وہ اُن ساری چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں ۔ اور خواہ تم مرو یا مارے جاؤ بہرحال تم سب کو سمٹ کر جانا اللہ ہی کی طرف ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۵۸)
۲۶۔ اللہ پر بھروسہ کرو

(اے پیغمبرﷺ ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چَھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دُعائے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں ۔ اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۶۰)
۲۷۔روز قیامت ہر ایک کو پورا بدلہ ملے گا

کسی نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کر جائے__ اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا، پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا__ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھِر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانا جہنم ہو جو بدترین ٹھکانا ہے؟ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۶۲)
۲۸۔اللہ سب کے اعمال پر نظر رکھتا ہے

اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں بدرجہا فرق ہے اور اللہ سب کے اعمال پر نظر رکھتا ہے۔ درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سُناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۶۴)
۲۹۔مومن کی پہچان مصیبت میں ہوتی ہے

اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں ) اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریقِ مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیﷺ ! ان سے کہو، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون۔ وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا ’’آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم (اپنے شہر کی) مدافعت ہی کرو‘‘، تو کہنے لگے ’’اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے‘‘۔ یہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اس وقت وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۶۷)
۳۰۔موت کو ٹالا نہیں جا سکتا

وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے اور ان کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اسے ٹال کر دکھا دینا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۶۸)
۳۱۔شہید زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں

جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں ، اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں اور فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (آلِ عمران۔ ۱۷۱)
۳۲۔مومن صرف اللہ سے ڈرتا ہے

(ایسے مومنوں کے اجر کو) جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسُول کی پکار پر لبیک کہا، اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سُن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۷۵)
۳۳۔کافروں کو ڈھیل دینا اللہ کی سنت ہے

(اے پیغمبرﷺ ) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دَوڑ دھُوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں ، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر اُن کو سخت سزا ملنے والی ہے۔ جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں وہ یقیناً اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں ، اُن کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۷۸)
۳۴۔اللہ مومنوں کی حالت ضرور بدلے گا

اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم لوگوں کو غیب پر مطلع کر دے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے۔ لہٰذا (اُمورِ غیب کے بارے میں ) اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو۔ اگر ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۷۹)

۳۵۔کنجوس کا مال روز حشر گلے کا طوق ہو گا

جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بُخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں ، یہ ان کے حق میں نہایت بُری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہیں اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے باخبر ہے۔اللہ نے اُن لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ ان کی یہ باتیں بھی ہم لکھ لیں گے، اور اس سے پہلے جو وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں وہ بھی ان کے نامۂ اعمال میں ثبت ہے۔ (جب فیصلہ کا وقت آئے گا اُس وقت) ہم ان سے کہیں گے کہ لو، اب عذابِ جہنم کا مزا چکھو، یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۸۲)
۳۶۔ دنیا محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں ’’اللہ نے ہم کو ہدایت کر دی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے (غیب سے آ کر) آگ کھا لے‘‘، ان سے کہو ’’تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتے ہو، پھر اگر (ایمان لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں ) تم سچے ہو تو اُن رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟‘‘ اب اے نبیﷺ ! اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو بہت سے رسول تم سے پہلے جھٹلائے جا چکے ہیں جو کھُلی کھُلی نشانیاں اور صحیفے اور روشنی بخشنے والی کتابیں لائے تھے۔ آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۸۵)
۳۷۔ جان و مال کی آزمائشیں لازمی ہیں

مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ ان اہلِ کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہو گا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہو گا۔ مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا۔ کتنا بُرا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں ۔ تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہو جو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں ۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ زمین اور آسمانوں کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے(آلِ عمران:۱۸۹)
۳۸۔عقلمند لوگوں کا طریقہ

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں ۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) ’’پروردگار! یہ سب کچھ تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، تُو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ مالک، ہم نے ایک پکارنے والے کو سُنا جو ایمان کی طرف بُلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو بُرائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خداوندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کیے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۹۴)
۳۹۔اللہ کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا

جواب میں اُن کے رب نے فرمایا ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ۔ خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو، لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے‘‘۔(آلِ عمران۔۔۔ ۱۹۵)
۴۰۔کافروں کا لطفِ زندگی چند روزہ ہے

اے نبیﷺ ! دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چَلَت پھِرَت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے۔ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۱۹۷)

۴۱۔مومنوں کے لئے ابدی نعمتیں ہیں

برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، اُن باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کی طرف سے یہ سامانِ ضیافت ہے اُن کے لیے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے۔ اہلِ کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں ، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اللہ کے آگے جھُکے ہوئے ہیں ، اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے۔ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ا للہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (آلِ عمران۔۔۔ ۲۰۰)

سورۂ النساء
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
۴۲۔رشتہ داری نہ بگاڑو، اللہ دیکھ رہا ہے

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء۔۔۔ ۱)

۴۳۔یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے

یتیموں کے مال ان کو واپس دو، اچھے مال کو بُرے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء۔۔۔ ۲)
۴۴۔چار شادیوں کی اجازت

اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔ (النساء۔۔۔ ۳)
۴۵۔عورتوں کے مہر کی ادائیگی اور معافی

اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہنّے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو۔ (النساء۔۔۔ ۵)

۴۶۔یتیموں اور ان کے مال کی دیکھ بھال

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں ۔ پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال اُن کے حوالے کر دو۔ ایسا کبھی نہ کرنا کہ حدّ انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مالدار ہو وہ پرہیزگاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۔ پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۶)
۴۷۔ترکہ میں مردوں اور عورتوں کا حصہ

مَردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔(النساء۔۔۔ ۸)
۴۸۔یتیموں کا خیال اپنی اولاد کی طرح کرنا

لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں ۔ جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ (النساء۔۔۔ ۱۰)
۴۹۔عورتوں کا میراث میں نصف حصہ

تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں ، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۱)
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حقدار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا۔ بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے۔ (النساء۔۔۔ ۱۲) 
اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہو) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کُن سزا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۴)
۵۰۔ بعد از تصدیق بدکار عورتوں کی سزا

تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(النساء۔۔۔ ۱۶)
۵۱۔مرتے وقت کی توبہ قبول نہیں

ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی بُرا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔ اور اسی طرح توبہ ان لوگوں کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کار فرما رہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔(النساء۔۔۔ ۱۸)
۵۲۔بیویوں کے ساتھ بھلائی سے بسر کرو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے)۔ ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم اُسے کس طرح لے لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے لُطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ؟(النساء۔۔۔ ۲۱)
۵۳۔کن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے

اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ اور بُرا چلن ہے۔ تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دُودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے ۔ اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شَو ہو چکا ہو۔ ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور ) تعلق زن و شَو نہ ہوا ہو تو (انہیں چھوڑ کر اُن کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں ) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صُلب سے ہوں ۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(النساء۔۔۔ ۲۳)


۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔

۵۔۔۔ والمحصنٰت کے مضامین


۱۔ہاتھ آنے والی لونڈیاں

اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصَنات)، البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں ) تمہارے ہاتھ آئیں ۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۲۴) ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لُطف تم ان سے اُٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو، البتہ مَہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضا مندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ علیم اور دانا ہے۔ اور جو شخص تم میں سے اتنی مقتدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (مُحصَنات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں ۔ اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقہ سے اُن کے مَہر ادا کر دو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ (مُحصَنات) ہو کر رہیں ۔ آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھُپے آشنائیاں کریں ۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (مُحصَنات) کے لیے مقرر ہے۔ یہ سہولت تم میں سے ان لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۲۵)
۲۔ اللہ پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے

اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور اُنہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صُلَحا کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی۔ ہاں ، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دُور نکل جاؤ۔ اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۲۸)
۳۔ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دُوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اُوپر مہربان ہے۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی بُرائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے۔ (النساء۔۔۔ ۳۱)
۴۔دوسروں کو حاصل مال کی حرص نہ کرو

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں ، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑیں ۔ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ اُنہیں دو، یقیناً اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔ (النساء۔۔۔ ۳۳)
۵۔مرد عورتوں پر قوّام ہیں

مرد عورتوں پر قوّام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔ (النساء۔۔۔ ۳۴)
۶۔سرکش بیویوں کو مارنے کی اجازت

اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیٰحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔(النساء۔۔۔ ۳۴)

۷۔میاں بیوی کے درمیان ثالث کا کردار

اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صُورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔ (النساء۔۔۔ ۳۵)
۸۔حسن سلوک کن لوگوں سے کی جائے

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں ، احسان کا معاملہ رکھو، (النساء۔۔۔ ۳۶)
۹۔غرور، کنجوسی اور دکھاوا پسند نہیں

یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دُوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُسے چھپاتے ہیں ۔ ایسے کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کُن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بُری رفاقت میسر آئی۔ (النساء۔۔۔ ۳۸)
۱۰۔اللہ نیکیوں کو بڑھاتا ہے

آخر اِن لوگوں پر کیا آفت آ جاتی اگر یہ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے۔ اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھُپا نہ رہ جاتا۔ اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دوچند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔ پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔ (النساء۔۔۔ ۴۲)
۱۱۔بیماری، سفر یا پانی نہ ملنے پر تیمم کرو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غُسل نہ کر لو، الّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو۔ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۴۳)
۱۲۔ ضلالت کے خریدار بنے ہوئے

تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت و مددگاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے اُن میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو اُن کے محل سے پھیر دیتے ہیں ، اور دینِ حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لیے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا اور اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا۔ حالانکہ اگر وہ کہتے سَمِعْنَا وَ اطَعْنَا، اور اِسْمَعْ اور اُنظُرنَا تو یہ انہی کے لیے بہتر تھا اور زیادہ راستبازی کا طریقہ تھا۔ مگر اُن پر تو اُن کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ (النساء۔۔۔ ۴۶)
۱۳۔شرک ناقابل معافی گناہ ہے

اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی۔ اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا اُن کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے۔ اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھُوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔ (النساء۔۔۔ ۴۸)

۱۴۔اپنی پاکیزگی کا دم بھرنے والے

۳م نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت اپنی پاکیزگی ٔ نفس کا دم بھرتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور (انہیں جو پاکیزگی نہیں ملتی تو درحقیقت) ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔ دیکھو تو سہی، یہ اللہ پر بھی جھُوٹے افترا گھڑنے سے نہیں چُوکتے اور ان کے صریحاً گناہ گار ہونے کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۵۰)
۱۵۔ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جِبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اُس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ کیا حکومت میں اُن کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دُوسروں کو ایک پھُوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔ پھر کیا یہ دُوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ (النساء۔۔۔ ۵۴)
۱۶۔جنت و جہنم میں جانے والے

اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور مُلکِ عظیم بخش دیا، مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا، اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو بس جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے۔ جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں ، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔ (النساء۔۔۔ ۵۷)
۱۷۔امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو

مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۵۸)
۱۸۔باہمی تنازعات کا فیصلہ کیسے؟

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولﷺ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ اے نبیﷺ ، تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ، مگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رُجوع کریں ، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۶۰)
۱۹۔اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔ پھر اُس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بَھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے۔ (النساء۔۔۔ ۶۲)
۲۰۔اللہ دلوں کا حال جانتا ہے

اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرُّض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔ (انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ (النساء۔۔۔ ۶۴)
۲۱۔باہمی اختلافات میں مومن کی نشانی

نہیں ، اے محمدﷺ ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ۔ اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم انہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے۔ جو لوگ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاؑ اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۷۰)
۲۲۔اللہ کی راہ میں لڑنا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر۔ ہاں ، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چُراتا ہے، اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا، اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے __ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔ (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں ، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔ جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں ۔ (النساء۔۔۔ ۷۷)
۲۳۔دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے

تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو اُنہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مُہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آ کر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ (النساء۔۔۔ ۷۸)
۲۴۔نفع نقصان سب اللہ کی طرف سے ہے

اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ اے نبی، یہ آپ کی بدولت ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔ (النساء۔۔۔ ۷۹)
۲۵۔رسول کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے

اے محمدﷺ ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۸۰)
۲۶۔اللہ بھروسہ کے لئے کافی ہے

وہ مُنہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیعِ فرمان ہیں ۔ مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔ (النساء۔۔۔ ۸۲)
۲۷۔خبر پہلے ذمہ داران تک پہنچائی جائے

یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سُن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ، حالانکہ اگر اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں ۔ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔ (النساء۔۔۔ ۸۳)
۲۸۔اللہ کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے

پس اے نبیﷺ ! تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ البتہ اہلِ ایمان کو لڑنے کے لیے اُکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔ جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بُرائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے و الا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۸۵)

۲۹۔سلام کا بہتر طریقہ سے جواب دو

اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں ، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۸۷)
۳۰۔منافقین کو دوست نہ بناؤ

پھر یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں ، حالانکہ جو بُرائیاں انہوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انہیں اُلٹا پھیر چکا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اسے تم ہدایت بخش دو؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے بھٹکا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں ، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ البتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اسی طرح وہ منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں ، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہو جائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے اُن پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ ایک اور قسم کے منافق تمہیں ایسے ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب کبھی فتنہ کا موقع پائیں گے اس میں کُود پڑیں گے۔ ایسے لوگ اگر تمہارے مقابلہ سے باز نہ رہیں اور صلح و سلامتی تمہارے آگے پیش نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو جہاں وہ ملیں انہیں پکڑو اور مارو، ان پر ہاتھ اُٹھانے کے لیے ہم نے تمہیں کھُلی حُجتّ دے دی ہے۔ (النساء۔۔۔ ۹۱)
۳۱۔قتل کا کفارہ اور خوں بہا

کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے،ا لّا یہ کہ اُس سے چُوک ہو جائے۔ اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے، الاّ یہ کہ وہ خون بہا معاف کر دیں ۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دُشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خُوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہو گا۔ پھر جو غلام نہ پائے وہ پے درپے دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے۔ رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بُوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اُس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۹۳)
۳۲۔دوست دشمن میں تمیز کرو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اگر تم دُنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموالِ غنیمت ہیں ۔ آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا۔ لہٰذا تحقیق سے کام لو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ (النساء۔۔۔ ۹۴)
۳۳۔مجاہدین کا درجہ بلند ہے

مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۹۶)
۳۴۔اللہ کی راہ میں ہجرت کرنا

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی رُوحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آ جائے اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہو گیا،اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۰۰)
۳۵۔سفر میں قصر نماز پڑھنا

اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تُلے ہوئے ہیں ۔ (النساء۔۔۔ ۱۰۱)
۳۶۔میدان جنگ میں نماز کا طریقہ

اور اے نبیؐ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالتِ جنگ میں ) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے اسلحہ لیے رہے، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آ کر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنّا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں ۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں ، مگر پھر بھی چوکنّے رہو۔ یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رُسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو۔ اور جب اطمینان نصیب ہو جائے تو پوری نماز پڑھو۔ نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی ٔ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔اِس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں ۔ اور تم اللہ سے اُس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں ۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ حکیم و دانا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۰۴)
۳۷۔فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کرو

اے نبیﷺ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو، اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔ یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو اُس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ راتوں کو چھپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں ۔ ان کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے۔ ہاں ! تم لوگوں نے ان مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا، مگر قیامت کے روز ان کے لیے اللہ سے کون جھگڑا کرے گا؟ آخر وہاں کون ان کا وکیل ہو گا؟ اگر کوئی شخص بُرا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔ مگر جو بُرائی کما لے تو اس کی کمائی اُسی کے لیے وبال ہو گی، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے اور وہ حکیم و دانا ہے۔ پھر جس نے کوئی خطا یا گناہ کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپ دیا اُس نے تو بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ (النساء۔۔۔ ۱۱۲)
۳۸۔ نبیﷺ پر اللہ کا فضل

اے نبیﷺ ! اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شاملِ حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالانکہ درحقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے اور تمہارا کوئی نقصان نہ کر سکتے تھے۔ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا، اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۱۳)
۳۹۔خفیہ سرگوشیاں :بھلائی سے عاری ہیں

لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔ مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، در آں حالے کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۱۵)
۴۰۔شرک ناقابل معافی ہے

اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دُور نکل گیا۔ وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبُود بناتے ہیں ۔ وہ اُس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اُس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں ) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزوؤں میں اُلجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں اُنہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے‘‘۔ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔ وہ اِن لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں اُمیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ، تو انہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہو گا۔ (النساء۔۔۔ ۱۲۲)
۴۱۔ صرف مومن جنت میں داخل ہوں گے

انجامِ کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو بھی بُرائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مددگار نہ پا سکے گا۔ اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔ اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریقِ زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۲۶)
۴۲۔ یتیم لڑکیوں سے متعلق ہدایت

لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتویٰ پُوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمہیں ان کے معاملہ میں فتویٰ دیتا ہے، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سُنائے جا رہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو اُن یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو (یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو)، اور وہ احکام جو اُن بچوں کے متعلق ہیں جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو، اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھُپی نہ رہ جائے گی۔ (النساء۔۔۔ ۱۲۷)
۴۳۔میاں اور بیوی آپس میں صلح کر لیں

اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں ۔ صلح بہرحال بہتر ہے۔ نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں ، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرزِ عمل سے بے خبر نہ ہو گا۔ (النساء۔۔۔ ۱۲۸)
۴۴۔بیویوں کے درمیان عدل کرنا

بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا (قانون الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھُک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔ اگر تم اپنا طرزِ عمل درست رکھو اور ا للہ سے ڈرتے رہو تو اللہ چشم پوشی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۲۹)

۴۵۔اگر زوجین الگ ہو جائیں

لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا ملک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق۔ (النساء۔۔۔ ۱۳۱)
۴۶۔ثوابِ دُنیا اور ثوابِ آخرت

ہاں !اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کاجو آسمانوں اور جو زمین میں ہیں ، اور کارسازی کے لیے بس وہی کافی ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے، اور وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔جو شخص محض ثوابِ دنیا کا طالب ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے پاس ثوابِ دُنیا بھی ہے اور ثوابِ آخرت بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۳۴)

۴۷۔خدا واسطے کے گواہ بنو

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۳۵)
۴۸۔کافروں کو رفیق بنانے والوں کا حشر

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی اُن کو راہِ راست دکھائے گا۔ اور جو منافق اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مژدہ سُنا دو کہ ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۳۹)

۴۹۔کفر یہ محفلوں سے دور رہو

اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور اُن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں ۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو۔ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔(النساء۔۔۔ ۱۴۰)
۵۰۔منافقین کی پالیسی اور ان کا رویہ

یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے)۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اگر کافروں کا پلّہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟ بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور (اس فیصلہ میں ) اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۔ کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ۔ نہ پُورے اِس طرف ہیں نہ پُورے اُس طرف۔ جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ (النساء۔۔۔ ۱۴۳)

۵۱۔ کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو؟ یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پاؤ گے۔ البتہ جو ان میں سے تائب ہو جائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں ، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔ (النساء۔۔۔ ۱۴۷)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں