سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی:



سیرت النبی کریم ﷺ 

حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی:


ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ (صحیح بخاری ) ان نو واردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نو آبادی (colonization )اور شہری منصوبہ بندی (town planning ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہورہے تھے، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں، جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے۔

رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی، روحانی بالیدگی، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کا سبب بنے۔

مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا، دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔

مدینة الرسول، ایک لحاظ سے ”مہاجر بستی“ تھی، گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے، عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نا منظور کردیا اور انہیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی، ریاست کی نو آبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے، بے سرو سامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے، بلکہ ان نو واردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا، گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔

مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انہیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا، تا آں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہو جاتا، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے۔ اولاً: یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں، مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا، جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پزیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔

مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے، یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا، البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے، (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )

عہد نبوی صلى الله عليه وسلم کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک، مشرق میں بقیع الغرقد تک اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، جنہیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰) پانچ سو ہاتھ مقرر کی اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے۔

ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طرف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے، دوسری طر ف یہ کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا، تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ (نسائی، کتاب الصلاة )

آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انہیں زریں اصولوں پر جنہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایا تھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی: ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخرکار مدینہ میں مقا...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 7


تدبر سورۃ الرحمن

از

نعمان علی خان

حصہ 7 آیات (7-9)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

وَٱلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِيزَانَ وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ أَلَّا تَطۡغَوۡا۟ فِى ٱلۡمِيزَان

اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی ۔۔ تاکہ تم تولنے میں تجاوز نہ کرو ۔۔ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو۔۔


اگلی تین آیات "میزان" کے بارے میں ہے 

سب سے پہلے" آسمان کی بات کی کہ اس کو بلند کیا اور میزان قائم کیا

اور پھر اس کے فوراً بعد ہماری بات کی کہ 

" تاکہ تم لوگ میزان کی خلاف ورزی نہ کرو۔ "

(میں نے آسمان توازن کے ساتھ بنایا ہے تاکہ تم میزان کی خلاف ورزی نہ کرو ۔)


ہم نے پہلے پڑھا تھا کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی باقی مخلوق کو دیکھیں سوچیں اور پھر  ان کی اچھی خوبیوں کو اپنے اندر اپنائے۔۔

"جیسے ہم سورج اور چاند کا  نظم و ضبط  دیکھیں اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔"


اسی طرح جب ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں یا دوسروں کو چیٹ کرتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اللہ کی کائنات توازن میں ہے ، سارے سیارے آسمان زمین سب متوازن ہیں۔ تو ہمیں بھی بیلنس رکھنا چاہیے، ہمیں بے ایمانی نہیں کرنی چاہیے ۔۔


قرآن کا نقطہ نظر

جب ہم ناانصافی یا کسی کو دھوکہ دینے لگتے ہیں تو اس بارے میں قرآن کیا کہتا ہے ؟

اوپر آسمان کو دیکھو، کیسے وہ توازن کے ساتھ بنایا گیا ہے، سورج, چاند اور ستارے سب متوازن ہے اور ساری کائنات کا بیلنس برقرار ہے ،اس کا مطلب ہے کہ مجھے بھی اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔۔

اللہ کو توازن پسند ہے وہ چاہتا ہے کہ ہر چیز متوازن رہے اللّه کو دھوکہ نہیں پسند۔۔

اگلی دفعہ جب بھی ہم کوئی دھوکہ کرنے لگیں تو ہمیں آسمان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ ابھی بھی اپنی جگہ پرصحیح سلامت  ہے، ہمیں بھی اپنی حدود میں واپس آجانا چاہیے۔۔ 

جب تک کائنات متوازن ہے تب تک ہمارے پاس بھی موقع ہے کہ ہم بھی خود کو توازن میں رکھیں جس دن کائنات اپنا توازن کھو دے گی اس دن ہمارے  اعمال کا میزان بلند  کیا جائے گا ۔


مثال کے طور پر ؛

اگر ہم کہیں جاب کرتے ہیں اور وہاں ہم اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وقت پر کام  نہیں کرتے ،

یا ہمارے ماں باپ نے ہم پر بھروسہ کرکے ہمیں کالج/ یونیورسٹی بھیجا ہے اور وہاں ہم دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور اسائمنٹ یا پیپر کی تیاری نہیں کرتے ،

 تو ہم نہ صرف خود کو اور اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ ہم میزان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔۔


 یہ عدل اور انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ ہم پر کسی کام کے لئے بھروسہ کیا گیا تھا اور ہم اس کو پورا نہیں کر رہے ۔۔

وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ



جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان حصہ 7 آیات (7-9) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ وَٱلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِيزَانَ وَأ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام



سیرت النبی کریم ﷺ

عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام:


مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔

اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا، تاہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا، کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں، عربوں میں نا صرف مرکزیت کا فقدان تھا، بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، وہ کسی ”غیر“ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی، جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے، اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یا خون“ کے بجائے ”اسلام یا دین“ معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیا لوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی۔

ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو نضیر و بنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے، ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے، لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہورہا تھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنادیں، حتی کہ بخاری اور ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاجِ شہر یاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سپرد ہوچکی تھی، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کا الگ راج تھا اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتا تھا، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فوری ضرورتیں تھیں:

۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔
۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزر بسر کا انتظام۔
۳- شہرکے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔
۴ - شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام۔
۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ۔

ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی، جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ “
(ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں: مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)

اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے:

۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا، تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔
۳- فتنہ وفساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔

اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا۔
 (محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: ڈاکٹر حمید اللہ )

اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں:

۱- امن و امان کا قیام۔
۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں۔
۳- روزگار، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام: مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 6

 


تدبر سورۃ الرحمن

از

استاد نعمان علی خان

پارٹ 6 (آیت 6)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ

اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔


اس آیت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؛

اللہ کہہ رہے ہیں کہ ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔یعنی ستارے اور درخت اللہ کے آگے سر تسلیم خم ہیں۔

نماز میں ہمارا سب سے عاجزانہ عمل سجدہ ہوتا ہے۔ جب ہمارے اندر کوئی غرور اور تکبر باقی نہیں رہتا اور ہم اپنی خوشی سے اپنا سر اللہ کے آگے رکھ دیتے ہیں۔

اسی طرح ستارے اور درخت بھی اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔


امام العوسی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ 

جب ہم کوئی ٹوٹتا ہوا تارا دیکھتے ہیں تو وہ اللہ کو سجدہ کر رہا ہوتا ہے

اور جب کسی درخت پر پھل لگتا ہے تو اس کی شاخیں جھک جاتی ہیں جیسے وہ اللہ کو سجدہ کر رہی ہوں۔


لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ عربوں کو صحرا میں ستارے اور درخت دلکش لگتے تھے اور وہ انہیں دو چیزوں کا نظارہ کرتے تھے ۔ وہاں پہاڑ یا دریا ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

صحرا میں اگر دن کے وقت کوئی درخت نظر آجائے تو ان کو بھلا معلوم ہوتا تھا اور رات میں وہ ستاروں کی مدد سے راستے تلاش کرتے تھے۔


اسی لئے ان دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ


وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ

یعنی وہ دو چیزیں جن کا وہ احترام کرتے تھے؛ "وہ گرنے والی ہیں"


یعنی وہ دو چیزیں جو عربوں کو دلکش لگتی تھی وہ بھی گرنے والی ہیں ،ختم ہونے والے ہیں۔ ۔

قیامت کے روز ستارے اور درخت سب سجدے میں گر جائیں گے۔۔


کچھ کہتے ہیں کہ یہ دنیا میں ابھی بھی ہو رہا ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ روز آخرت کی بات ہو رہی ہے

قیامت کے روز ستارے کرنے لگیں گے جیسے وہ سجدے میں گر رہے ہوں اور وہ درخت بھی گر جائیں گے ۔ ہر چیز ختم ہوجاۓ گی ۔

وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 6 (آیت 6) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ اور تا...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 5

 


تدبر سورۃ الرحمن

از

استاد نعمان علی خان 

حصہ 5 (آیت 5)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ بِحُسۡبَان

سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔۔


سورج اور چاند بالکل مقررہ حساب کتاب کی پیروی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ !!


حسبان- حساب کتاب

(This is hyperbolized form which Means Extreme Calculations)

"The Sun and Moon Follow Extreme precise Calculations"


اللہ کہہ رہا ہے کہ دیکھو تم ساری مخلوق میں سے سب سے بہترین ہو اور تمہارے پاس وہ خوبی ہے جو کسی دوسری مخلوق کے پاس نہیں ہے(البیان)

وہ بھی اللہ کی شاندار مخلوق ہیں لیکن وہ وقت کی قدر کرتی ہیں ۔۔۔

اور وہ نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا نظم و ضبط بھی ان پر منحصر کرتا ہے اور جب وہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور نظم و ضبط کے پابند ہیں تو۔۔

ہم کیوں نہیں اس کی پیروی کرسکتے؟


ہمارے سارے کیلنڈر سورج اور چاند پر منحصر ہیں

اس نکتہ نظر سے قرآن نظم وضبط کی دعوت دے رہا ہے۔


ہماری نمازکےاوقات سورج کی نقل و حرکات پر منحصر ہیں اور ہمارے روزے اور حج کے دن چاند کی حرکات پر منحصر ہے ۔

اللہ چاہتا ہے کہ ہم باقی مخلوق کی اچھی خوبیاں دیکھیں اور ان کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں

"ہم نظم و ضبط کی امت ہیں"

اگر ہم سے سورج اور شام پر غور کریں تو ہم اپنے وقت کی زیادہ قدر ہوگی۔


جس خالق نے مجھے اور آپ کو بنایا ہے اس کو ایسی چیزیں بنانا پسند ہے جو نظم و ضبط کی پابندی کرتی ہوں۔

جیسے سورج اورچاند ناقابل حد تک نظم و ضبط کا مظاہرہ کررہے ہیں، اللہ ہم سے بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم بھی نظم و ضبط اور اصولوں کی پیروی کریں۔۔!


 حسبان کا ایک اور خوف ناک معنی


عربی میں حسبان کا ایک اور مطلب ہے؛"عظیم تباہی جو صحیح وقت پر ہونے والی ہوں "

"Timely Destruction "

سوره کہف:40

وَيُرۡسِلَ عَلَيۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا

اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے


اللہ کہہ رہا ہے کہ سورج اورچاند نہ صرف ایک کیلنڈر کو فالو کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہ کہہ رہا ہے کہ سورج اور چاند ایک مقرر ہ تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔۔ ۔۔ ۔۔

یعنی سورج اورچاند تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ۔ !

اس کا یہاں کیوں ذکر کیا گیا ہے؟

قیامت کی سب سے عظیم نشانی کون سی ہے؟

قرآن اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ۔۔۔

ان واقعات کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے اہم آخری واقعہ "قیامت" کا آنا ہے ۔


اس کے علاوہ بھی ایک بڑی نشانی ہے (شق القمر )

جس کا ذکر اس سے پچھلی سورت میں کیا گیا ہے (سورہ قمر )


"قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا "۔۔۔ (سورہ قمر : 1 )


لیکن چاند کے پھٹنے سے بھی زیادہ بڑی نشانی ہے قرآن کا نازل ہونا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ۔


اس کے بعد اب جو سب سے بڑا واقعہ ہونے والا ہے وہ سورج اور چاند کا تباہ ہونا ہے۔۔


انسانی تاریخ میں اب جو اہم واقعہ رہ گیا ہے وہ قیامت کا دن ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

  تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان  حصہ 5 (آیت 5) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ بِحُسۡبَان سورج اور ...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی



سیرت النبی کریم ﷺ 

رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی


حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر یکساں پڑتی ہے۔ سیاسی زندگی ہو یا معاشی زندگی، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، سماجی زندگی ہو یا زندگی کا کوئی اور ایسا پہلو اور پھر زندگی کے کسی بھی شعبہ کا کوئی بھی مرحلہ درپیش ہو، سیرت طیبہ کے بحر بیکراں میں اس کی ہدایت و رہنمائی کی در نایاب موجود ملتے ہیں، اس لیے کہنے والے نے درست کہا ہے:

انسانی زندگی اپنے حقیقی روپ میں سماج کے اندر ہی جلوہ فگن ہوتی ہے۔ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہا متاع گراں مایہ ہے، بہتر انسانی سماج کی تشکیل اور ہر فرد سماج کی فلاح و بہبود حیات طیبہ کی وہ عطر بیزی ہے جس کی خوشگوار بھینی بھینی خوشبوؤں سے انسانی چمن بارہا معطر ہوتا رہتا ہے۔

سماج افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کی جان عزت اور مال و آبرو کا تحفظ اس کے وجود و بقاء کے لیے لازم ہوتا ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی انسان کی جان لینے کو نہ صرف بہت بڑا گناہ بتایا، بلکہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا اوراس دروازے کو سختی سے بند کرنے کا مضبوط نظام قائم فرمایا، عزت و آبرو اور دوسرے کے مال پر کسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جرم قرار دے کر ہر فرد کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم فرمائی۔

رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے، رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے۔“ اخلاق کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، خود آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی، قرآن نے کہا: ”اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“ بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔

مساوات و برابری اور عدل وانصاف بہتر انسانی سماج کی تشکیل کےلیے ضروری ہیں، رسول صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں مساوات اور انصاف کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ قریش کی ایک خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی، بعض عزیز ترین صحابہ نے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کی نہ سنی، اور فرمایا: ”تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جرم نظر انداز کردیا جاتا تھا۔

مظلوموں کو مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ صلى الله عليه وسلم کا شیوہ رہا ہے، مکہ مکرمہ کی زندگی میں جب ایک مظلوم نے مدد کے لیے خانہٴ کعبہ کے پاس فریاد کی تواس کی مدد کے لیے چند دیگر افراد کے ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی کھڑے ہوئے، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں انہوں نے باہم مشورہ کرکے ایک جماعت بنائی اور یہ عہد کیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم کیا جائے گا ہم سب اس مظلوم کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ”حَلَفُ الْفُضُول“ کے نام سے سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے، ظلم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنا اور مظلوم کو اس کاحق دلانا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ مدنی زندگی میں بھی ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے آج بھی حلف الفضول میں بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔

سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں۔ ایک صحابی حضرت خباب رضي الله تعالى عنه کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم روزانہ ان کے گھر جاکر دودھ دوہ آتے تھے، دوسروں کے کام کردینا آپ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوچکی تھی، اسی دوران ایک بدو نے آپ صلى الله عليه وسلم کا دامن پکڑ کر کہا میرا تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، آپ پہلے اسے کردیجئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم چپ چاپ اس کے ساتھ ہولیے، اور اس کا کام پورا کرنے کے بعد نماز کے لیے تشریف لائے۔

مکہ میں ایک بار قحط پڑگیا، اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت وتنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کرکے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کرسکیں۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اور ہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں، کوئی دعوت دیتا تو فوراً قبول کرلیتے تھے، سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی، ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اور اس کا کھانا کھایا، اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمار ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے خود مہمانداری کی، اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا، حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا، اگر کبھی اختلاف ہوتا تو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔

آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور اس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں، سماجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پُرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول ”میثاق مدینہ“ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم جب مدینہ آئے تو وہاں کے مختلف قبائل اور اہل مذاہب کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم نے معاہدہ فرمایا، یہی معاہدہ میثاق مدینہ ہے، اس کی دفعات کتنی مدبرانہ اور معقول ہیں، اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے کیا جاسکتا ہے۔

۱- سب لوگ ایک ہی قوم کے فرد سمجھے جائیں گے، یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی۔
۲- اگرمعاہدہ کرنے والے کسی قبیلہ پر کوئی دشمن حملہ آوار ہوگا تو تمام قبیلے مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۳- شریک معاہدہ قبیلوں کے تعلقات خیر خواہی، نفع رسانی اور نیک اطواری پر مبنی ہوں گے، تاکہ جبر پر، اور خلاف اخلاق امور میں کوئی اعانت نہیں کی جائے گی۔
۴- یہودیوں اور مسلمانوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
۵- مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔ وغیرہ

میثاق مدینہ کی ان دفعات نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کی تشکیل کا اصول فراہم کیا ہے، اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیرلسانی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔

مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدوی نے آکر پیشاب کردیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک بالٹی پانی منگواکر اس کو صاف کردیا، دیوار پر کسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبو لگادی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیاگیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں، اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے: ”ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث“ یعنی لوگوں کے لیے اچھی وطیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا۔ شہری زندگی کے نوع بہ نوع سماجی مسائل اور ماحولیات سے متعلق سوالات کا بہترین حل اور جواب ہمیں کہیں مثالوں کی صورت میں اور کبھی اصولوں کی شکل میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کے احساس کو محرک بنایا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی مفوضہ ذمہ داریوں اور اس کے ماتحتوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ احساس ذمہ داری اور احساس جوابدہی کا یہ تصور رشوت کے دروازے کو بند کر دیتا ہے، سماجی زندگی میں آج کچھ سماجی لعنتیں گھس گئی ہیں، جس میں خواندگی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل میں طلاق کی بڑھتی شرح اور جہیز کی مانگ سر فہرست ہیں۔

سماج میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے، ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقع پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے، کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے، ہر انسان سے محبت کی جائے، اس کے تئیں حسن ظن رکھا جائے، باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیا گیا کہ، فرمایا: جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر ی...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 4


تدبر سورۃ الرحمن

از

نعمان علی خان

پارٹ 4  (آیت 4)


   بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

    

 عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ 


اب اللہ انسانوں کی سب سے منفرد خوبی کا ذکر کر رہے ہیں۔۔

اسی نے اس کو بولنا سکھایا


بیان = الگ کرنا


البیان کا مطلب ہے لفظوں کو واضح طور پر الگ الگ ادا کرنا 

کیونکہ  جب ہم چیزوں کو الگ الگ کرتے ہیں تو بات زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے 


بیان سے لفظ  بٙیْنٙ نکلا ہے ۔ (درمیان)

دو چیزوں کے درمیان فرق


عربی زبان میں ایک سائنس ہے "البلاغة"  جس کا مطلب ہے خوش بیانی، فصاحت، نفاست  (Eloquence)

یعنی البیان کا ایک اور مطلب ہے فصاحت یا فصیح ،نفاست ،خوش بیانی.

ہماری زبان میں جتنی بھی نفاست، خوش بیانی اور فصاحت یا بلاغت ہے ، وہ صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ 


کیا وجہ ہے کہ اللہ نے "البیان" کے لئے "علم البیان" یعنی "بلاغہ " کو منتخب کیا. کیونکہ وہ سب سے زیادہ نفیس زبان ہے ساری زبانوں میں سے ۔


بیان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اچھائی کو برائی سے الگ کرنا ، سچی بات کو جھوٹی بات سے الگ کرنا ، منطقی بات کو غیر منطقی بات سے الگ کرنا۔ ۔ 


انسانوں کو اللہ نے یہ خوبی دی ہے کہ وہ چیزوں کو بہتر طریقے سے بیان کر سکتے ہیں جیسے کوئی دوسری مخلوق نہیں کر سکتی   ۔۔۔

نظریات، پیراگراف، ابواب، موضوع، کتابیں، سائنس وغیرہ کو الگ کرنے کی صلاحیت

اللہ نے ہمیں چیزوں کو الگ الگ کرکے واضح کرنے کی خوبی کیوں دی ہے؟

آج دنیا کا سارا علم اس "بیان" کی وجہ سے اتنا واضح ہے  ۔

اگر ہمارے اندر یہ صلاحیت نہ ہوتی تو ان چیزوں کو آسانی سے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے۔۔

 ہم چیزوں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان کی اقسام بناتے ہیں,ایک قسم کی چیزوں کو دوسرے قسم کی چیزوں سے الگ کرتے ہیں ۔۔۔

جیسے فزکس کیمسٹری ، بائیولوجی ,پروگرامنگ۔

 اور اسی طرح سارے سائنسی علوم ترقی کرنے کے قابل ہوئے ہیں ۔یہ خوبی اللہ نے صرف انسانوں کو دی ہے سبحان اللہ ۔۔۔

اگر ہمارے جسم پرندوں کی طرح ہوتے تو ہم اپنے علم کو لکھنے یا بیان کرنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔

وہ سارا علم ہمارے دماغ میں ہی ہوتا لیکن ہم اس کو کہنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔


اس آیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا لیکن کونسی  زبان بولنا سکھائی؟

اللہ نے یہ نہیں کہ میں نے اردو پنجاب یا بنگالی سکھائی۔

 قرآن کس نے سکھایا؟

 اللہ نے۔

 زبان کس نے سکھائی؟ اللہ نے ۔

جب ہم قرآن کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ نے سکھایا ہے  پھر ہمیں باقی زبانوں کی بھی عزت کرنی چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمیں اللہ نے سکھائی  ہیں۔

 اس کا مطلب ہے کہ ہم کسی کی زبان یا لہجے کا مذاق نہیں اڑا سکتے ۔

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا فرق یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

(30:22)

 وَمِنۡ ءَايَـٰتِهِۦ خَلۡقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفُ أَلۡسِنَتِڪُمۡ وَأَلۡوَٲنِكُمۡ  ۚ  إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّلۡعَـٰلِمِينَ 

اور اسی کے نشانات میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہلِ دانش کے لیے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں


ہمیں کسی کے رنگ یا اس کی نسل یا اسکی زبان کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔۔ 

 ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دیکھو یہ کس طرح سے بول رہا ہے، اس کو انگلش نہیں بول نہیں آتی ،دیکھو کیسے پنجابی بول رہا ہے، اس کا رنگ دیکھو کتنا کالا ہے ،ہم کسی کو بھی حقارت سے نہیں دیکھ سکتے۔ 

ہمارے رنگ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں 


When we are Making Other's Skins .. We Are Making Fun Of Allah Ayaat..


اب شروع سے لے کے ان چار آیات پر غور کریں

 الرحمن علم القران خلق الانسان عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ 

الرحمن ۔ اللہ کی سب سے بڑی محبت اور رحمت کی نشانی کیا ہے کہ اس نے قرآن سکھایا. 

کس کو سکھایا؟

خلق الانسان 

اللہ کو معلوم تھا کہ انسانوں کو باتیں بار بار یاد کروانے کی ضرورت پڑے گی اسی لیے اللہ نے ہمیں ایسی کتاب تھی جس میں باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں 

پھر اللہ کہتا ہے کہ میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا چیزوں کو الگ الگ کرنا سکھایا 

اور ان کو یہ اسی لیے سکھایا کہ ایک دن اللہ نے انسانوں کے پاس ایسی کتاب بھیجنی ہے جو ہمیشہ کے لیے حق اور باطل  کو الگ کر دے گی، ہدایت کو گمراہی سے الگ کر دے گی ۔۔


اگر انسانوں کے پاس البیان نہیں ہے , وہ القرآن کی قدر نہیں کرسکیں گے ..


ایسا لگ رہا ہے کہ اللہ کہہ رہا ہے کہ اصل میں جو تم بول سکتے ہو اور باتوں کی درجہ بندی کرسکتے ہو، تمہیں یہ خوبی اسی لیے دی گئی ہے کہ ایک دن تم اللہ کی کتاب کو سمجھ سکو۔ 


استاد نعمان علی خان


جاری ہے ۔۔۔ 

تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان پارٹ 4  (آیت 4)     بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ       عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ  اب اللہ انسانوں ک...

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی



سیرت النبی کریم ﷺ 

آپ ﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی:


کسی بھی انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی آزمائش کی جگہ خود اس کا گھر ہے، گھر کے لوگوں سے صبح و شام اور شب و روز کا سابقہ پڑتا ہے، گھر کے ماحول میں انسان اپنا ”حقیقی مزاج“ چھپا نہیں سکتا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”تم میں سب سے بہتر اخلاق اس کے ہیں، جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر اخلاق رکھتا ہو۔“

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، آج کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل ترین بات تھی، لیکن حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج مطہرات ہوں یا اولاد، خدام ہوں یا اقربا، متعلقین ہوں یا احباب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے۔ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حقوق کی فکر دامن گیر رہتی، ایسا بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماتحت افراد کے لیے تُندخو اور سخت گیر سرپرست کی حیثیت رکھتے ہوں، بلکہ بیویوں کے حق میں ایک محبت کرنے والے شوہر، اولاد کے حق میں ایک شفیق ومہربان باپ اور خدام کے حق میں ایک فراخ چشم اور حلیم و بردبار آقا کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ابھرتی ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ گیارہ شادیاں کیں اور بیک وقت نو بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب مدینہ میں ہوتے تو عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج کے پاس جاتے اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کرتے اوراس کی تکمیل فرماتے، ازواج کے مابین شب باشی کی باری متعین ہوتی، گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ طور خود پوری سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت حفصہ نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو ہبہ کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم معمول اور باری کے مطابق حضرت حفصہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہؓ موجود ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں؟ یہ حفصہ کی باری ہے، حضرت عائشہ نے کہا: یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ ازواج کے مابین انصاف کا خیال اور اس سلسلہ میں عند اللہ جواب دہی کا احساس اتنا شدید تھا کہ اللہ رب العزت سے دعا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، جس کا نام قرعہ میں نکل آتا ان کو ساتھ لے جاتے۔

آپ کی عائلی زندگی بھی اسلام کے اس مزاج و مذاق کی آئینہ دار ہے۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں عیدالفطر کے موقع پر چند حبشی نوجوان نیزوں سے کھیل رہے تھے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے دیکھنے کی خواہش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے اور گردن کے درمیان سے میں کھیل دیکھتی رہی۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے اور پانی لینے میں چھینا جھپٹی بھی ہوتی، کبھی دوڑ کا مقابلہ بھی ہوتا۔ ایک مرتبہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، حضرت عائشہ دبلی پتلی تھیں، آگے بڑھ گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے، پھر کچھ زمانے کے بعد یہی مقابلہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت حاصل کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہوگیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو آپ پہلے سلام کرتے اور ایسا انداز ہوتا کہ سونے والے بیدار نہ ہوں اور جو بیدار ہوں سلام کی آواز سن لیں، اگر گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو خود انجام دے لیتے۔ حضرت اسود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آکر کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے اور گھر کا کام بھی کرتے تھے، مثلاً بکری کا دودھ دوھ لینا، اپنے نعلین مبارک سی لینا۔ (زاد المعاد)

گھر میں جو کھانا تیار ہوتا حاضر کردیا جاتا، آپ کی مرغوب اور پسندیدہ شے ہوتی تو تناول فرماتے، ورنہ خاموشی اختیار کرتے، لیکن کھانے میں کوئی عیب نہیں لگاتے، دن کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرتے، رات میں عشاء کی نماز کے بعد غیرضروری جاگنے کو بالکل ناپسند کرتے، آپ کا بستر بالکل معمولی ہوتا، بسا اوقات چمڑے کا بستر ہوتا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی اور کبھی چمڑا ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر آرام فرماتے۔

آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی، راستہ میں بچے کھیلتے ہوئے مل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سلام کرتے، گھر میں بچوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے، ان کو کاندھے پر بٹھاتے، گود میں لیتے، پیار کرتے، چومتے۔ معلوم ہوا کہ مزاج میں اتنی سختی نہ ہونی چاہیے کہ بچے دیکھتے ہی سہم جائیں اور چھپنے لگیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کسی ضرورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے محسوس کیا آپ کچھ اٹھائے ہوئے ہیں، میں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھیلی کھولی، اس میں حضرت حسنؓ اور حسینؓ تھے، آپ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور اس شخص سے بھی جو ان دونوں سے محبت رکھے۔

خادموں کے ساتھ شب و روز اور ہروقت کا ساتھ ہوتا ہے، کوتاہی، لغزش، بھول چوک انسانی فطرت ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی، لیکن کبھی اُف تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا، اور جس کام کو میں نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ تونے یہ کام کیوں نہیں کیا؟۔ دس سال کی رفاقت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ”اف“ تک نہیں کہا، یہ تحمل و بردباری اور شفقت کی ایک مثال ہے۔

ایک کامل اور مکمل انسانی زندگی کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم، دوست و دشمن، اپنے اور پرائے، امیر وغریب، ہرسطح اور ہرطبقہ کے لوگوں سے جہاں اس کے تعلقات روشنی میں ہوں اور لوگوں کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہوں، وہیں اپنی ازواج، خدام، اولاد، متعلقین اور اقرباء و رشتہ داروں میں بھی وہ محبوب و مقبول ہوں اور ان کے ساتھ تعلق و سلوک کے باب میں بھی اس کی زندگی اسوہ اور مثال ہو۔ اس طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی زندگی اپنی مثال آپ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائلی زندگی کا جو نقشہ بنایا اور خود اس پر عمل کرکے دکھایا، حقیقت یہ ہے کہ وہ عائلی اور ازدواجی زندگی کے لیے بہترین نمونہ اور ہرطرح کی بے سکونی کا علاج اور اکسیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آئینہ میں ہم اپنی گھریلو زندگی کی صحیح صورت گری کرسکتے ہیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

سیرت النبی کریم ﷺ  آپ ﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی: کسی بھی انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی آزمائش کی جگہ خود اس کا گھر ہے، گھر کے لوگوں سے ص...

قرآن فہمی سیریز ۔۔ 01


قرآن فہمی سیریز

سورۃ الفاتحہ


تھکاوٹ اور مایوسی میں کہاں جائیں؟


اف! کیا کوئی ہم میں سے ایسا ہے جو یہ  نہ کہے کہ ہمارے ارد گرد کے انسانوں نے ہمیں توڑا نہیں، ہمیں تھکایا نہیں، ہمیں آخری حد تک پہنچایا نہیں، ہمیں سراہا نہیں، ہمیں سمجھا نہیں، ہمیں راستہ دکھایا نہیں، ہم سے راضی ہوئے نہیں۔ 

کوئی بھی نہیں یہ کہہ سکتا نا ۔۔۔ پھر اتنے تھکنے ٹوٹنے، بکھرنے کو بار بار تجربہ کرنے کے بعد بھی کیوں نہیں اپنا اور اپنی زندگی کا رخ تبدیل کردیتے؟۔ 

کیوں اپنے آپ کو وہ راہ نہیں دکھا رہے کہ جس میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ 

کیوں نہیں پلٹتے اس رب کی طرف؟


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ

اللہ رب العالمین کے لیے تمام تعریفیں اس کے کمال کی وجہ سے ہیں جو سراسر خوبیوں کا مالک ہے۔ اور جو تمام جن و انس، فرشتوں اور تمام عالم کا رب ہے۔ 


الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ

جس  کی رحمت خاص و عام کے لیے ہے۔ اور جس نے ہمیں ہر چھوٹی بڑی نعمت کو عطا کیا ہوا ہے۔ 


مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ

جس کی ملکیت اور باشاہت میں وہ بدلے کا دن ہے جس دن کوئی ہمارے کام نہ آئے گا۔ جب ہمیں اپنے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا ذرہ برابر عمل بھی چھوڑا نہیں جائے گا۔ کوئی آنسو بغیر جزا کے نہیں ضائع ہوگا۔ 


اِیَّاكَ نَعْبُدُ

جس نے ہم سے خود فرمایا ہے کہ صرف میری عبادت کرو تاکہ ہمارا ہر قلبی، لسانی اور اعضاء کا فعل اس کو راضی کرنے والا بن جائے۔ اور اس کو غیبی طاقتوں کا مالک سمجھ کر اس سے انتہائی عقیدت رکھو اور عاجزی سے جھک جاؤ۔ 


وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ

جس نے ہمیں استعانت یعنی مانگنے کا فارمولا خود سکھایا ہے کہ صرف مجھ سے ہی مانگو۔ کہیں ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں تم سے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اسباب اختیار کرو اور پھر توکل اور بھروسہ مجھ پر کرو۔ 


اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ

جس نے ہمیں خود سکھایا ہے روزانہ کے چیلنجز میں ادھر ادھر بھٹکنے کے لیے خود کو کھلا نہیں چھوڑو بلکہ میری طرف مانگتے ہوئے پلٹو کہ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھادے کیونکہ وہی توفیق دینے والا ہے۔ جو ایسا راستہ ہے جس کا آغاز ایک نکتے سے لے کر اختتام دوسرے نکتے تک ہوتا ہے جیسے خط مستقیم (straight line) ہوتی ہے۔ یہ راستہ قرآن و سنت کا راستہ ہے۔ 


صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠

جس نے ہمیں ہدایت حاصل کرنے کے لیے رول ماڈلز بتادیے کہ صراط مستقیم کے لیے  انبیاء صدیقین شھداء صالحین کی پیروی کرنی ہے جن پر اللہ نے فضل کیا۔ 

جس نے ہمیں یہ بھی سکھادیا کہ کن لوگوں کا راستہ ہم نے اختیار نہیں کرنا اور ان کے جیسے کام نہیں کرنے ۔ان لوگوں کا جنھوں نے دین کو اپنے مطابق تبدیل کردیا، اللہ کی کتاب میں تحریف کردی، اللہ پر جھوٹ باندھا۔


اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل کردیں۔ آمین۔


منقول

قرآن فہمی سیریز سورۃ الفاتحہ تھکاوٹ اور مایوسی میں کہاں جائیں؟ اف! کیا کوئی ہم میں سے ایسا ہے جو یہ  نہ کہے کہ ہمارے ارد گرد کے انسانوں نے ہ...

تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 3

 


تدبر سورۃ الرحمن

از

نعمان علی خان

حصہ 3 (آیت 3)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


 خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ

اسی نے انسان کو پیدا کیا


سب سے پہلے اللہ نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں قرآن سیکھایا  

اور پھر کہا:

 خلق الانسان

 بے انتہا رحم اور محبت کرنے والے نے انسان کو بنایا 

یعنی ہمارا تخلیق کِیا جانا بھی اللہ کی محبت اور رحمت ہے .. 


جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اللہ نے انہیں کیوں بنایا ہے؟

یہ اللہ کی محبت کیسے ہو سکتی ہے؟

لیکن اللہ کہتا ہے کہ یہ واقعی اس کی محبت اور رحمت ہے کہ اس نے مجھے اور آپ کو زندگی دی

 

اس passage  کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ ؛ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ نے ہمیں تخلیق کیا اور پھر ہمیں قرآن سکھایا۔۔  بلکہ یہاں اللہ نے پہلے قرآن سکھانے کا ذکر کیا ہے اور پھر انسان کے تخلیق کرنے کا ۔ ۔ !


اس کا مطلب ہے کہ یہ زندگی اللہ کی رحمت اور محبت کا ثبوت ہے اور قرآن کا سکھانا ہماری زندگی سے بھی بڑا تحفہ ہے۔

ایسا کیوں ہے؟؟


مفتی محمد شفیع رحمہ نے اس آیت پر غور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؛

انسان اللہ کی ایک تخلیق ہے۔

ایک کاریگر جب کوئی مصنوعہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ایجاد کے مقصد پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ۔

 اور جب وہ ایجاد ہو جاتا ہے تو اس کاایک  Manual  ساتھ آتا ہے کہ وہ چیز کس طرح کام کرے گی ,اس کو کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟

اسانیت کا Manual اللہ تعالی کی وحی ہے۔


اگر کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو اور ہمیں اس کو استعمال ہی نہ کرنا آتا ہوں پھر اس کا کیا فائدہ ہے؟

اسی طرح یہ زندگی اللہ تعالی کا بہترین تحفہ ہے ۔

لیکن "وحی" کے بغیر ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس زندگی کا کیا مقصد ہے؟

Our Life is Purpose less Without this Revelation.

اسی لیے یہاں قرآن کے سکھائے جانے کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور ہمارے تخلیق کرنے کا بعد میں، کیونکہ وہ ہماری تخلیق سے بھی بڑا ثبوت ہے اللہ کی رحمت کا ۔ ۔ ۔ !

خلق الانسان

 

لفظ انسان کے دو Origin ہیں ۔

1) اُنس

 2) نسیان 


اُنس؛ رحم /ہمدردی /محبت

ابن فارس کہتے ہیں کہ انسان "اُنس" سے نکلا ہے, 

جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک طرف محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف اس کو محبت اور ہمدردی کی ضرورت بھی ہوتی ہے  

جانوروں یا پرندوں میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا وہ اتنے ایموشنل نہیں ہوتے جتنا انسان ہوتا ہے ۔۔

جب انسان اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے بھی محبت کی جائے۔۔

اللہ نے انسانوں کو  ایک ذریعہ دیا ہے جس سے وہ اللہ کی باقی مخلوق سے محبت کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اصل محبت بھی پاسکتے ہیں۔۔

 وہ اللہ کی محبت پا سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کا اصل مقصد ڈھونڈ سکتے ہیں ۔۔


نسیان ؛" بھولنا " 

یعنی انسان بھولنے والی مخلوق ہے 

دوسرے لفظوں میں جب ہمیں تخلیق کیا گیا تھا، ہم اللہ کو جانتے تھے لیکن جب ہم زمین پر آئے تب ہم اللہ کو بھول گئے۔

جب کوئی بھولنے کا عادی ہوں تو اس کے لیے سب سے بہترین چیز کیا ہے؟؟

 یاد دہانی

یعنی سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ اس کو یاد کروایا جائے اور اللہ نے بار بار قرآن کو ذکر یا نصیحت کہا ہے .

قرآن انسانوں کو بار بار یاد کرواتا ہے کہ ان کا رب کون ہے ان کا اس دنیا میں کیا کام ہے اور آخرت کیا ہے 

جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور وہ اس لیے ہے کہ ہمیں یاد دہانی کروائی جائے ۔

اور بھولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کی اپنا نام یا گھر بھول جانا بلکہ اپنے فرائض مقاصد اور ذمہ داریاں بھولنا ۔۔۔

کیا یہ ہمارے ساتھ روزانہ نہیں ہوتا ؟؟

جیسے آپ کا دو دن بعد پیپر ہو اور آپ فٹبال کھیل رہے ہوں۔ آپ کی امی کہیں تمہیں یاد نہیں ہے کہ پرسوں تمہارا پیپر ہے اور آپ کہیں "میں بھول گیا تھا"۔

جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا نہیں چاہتے تو ہم ان کو بھولنے لگ جاتے ہیں اسی طرح ہم تلخ حقیقتوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بھولنا چاہتے ہیں ہم ان کو سوچنا نہیں چاہتے ۔


اسی طرح جب اللہ آخرت کی بات کرتے ہیں تو ہم اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے 

ہمارے لئے موت، قبر، آخرت، میدان حشر، ان سب کے بارے میں سوچنا ہمیں ناگوار لگتا ہے۔ ۔ ۔  

اسی لیے ہمیں کچھ ایسا چاہیے جو ہمیں بار بار "یاد دہانی" کروائے۔


 اسی لیے اللہ نے ہمارے لیے قرآن پاک نازل کیا ہے کیونکہ وہ ہمیں آخرت کے بارے میں یاددہانی کرواتا ہے تاکہ ہم اس کے لیے پہلے سے تیاری کر لیں ۔ ۔ 


استاد نعمان علی خان

جاری ہے ۔۔۔ 

  تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان حصہ 3 (آیت 3) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ   خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ اسی نے انسان کو پیدا کیا سب...

سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق

 


سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق

بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ


الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء

یہ سورہ مبارکہ زبر دست فضیلت کی حامل ہے۔سیدنااُ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز میں سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکا، اُن کا بچہ یحییٰ اُس کے قریب لیٹا ہوا تھا وہ ڈرے کہ گھوڑابچے کو کہیں کچل نہ ڈالے، اُنہوں نے قرآن پڑھنا بند کر دیا توگھوڑا بھی پر سکون ہوگیا۔ پھر جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا دوبارہ مضطرب ہو گیا۔ تیسری مرتبہ جب اُنہوں نے نماز ختم کر کے سر اُونچا کیا تو ایک بادل سا نظر آیا جس میں جلتے ہوئے چراغوں کی مانند روشنی تھی۔ یہ واقعہ نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ سکینت تھی ٫یہ فرشتے تھے جو تیرا قرآن سننے کے لیے آسمان سے نازل ہو ئے تھے۔1

اسی طر ح سورہ کہف کی آخری اور پہلی دس آیات فتنہ دجال سے ڈھال ہیں۔نبی کریمﷺ فرماتے ہیں :

''جس نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔''2

ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے اس لیے کہ دجل آج جتنا زوردار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو خلافت کا نظام مفقود ہے، دوسراہمارا ایمان کمزور اور علم ناقص ہے جس کی وجہ سے فتنہ قبول کرنے میں کچھ دیرنہیں لگتی۔پھر کفارگمراہ کرنے کے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں، مواصلات کا نظام دنیا بھر کے کفر و شرک، فحاشی و عریانی کو اہل اسلام میں نشر کررہا ہے۔ ان حالات میں صرف اور صرف وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے بچالے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور جاہلیت کے حملوں سے باخبر رہنا بے حد ضروری ہے۔

اس سورت کی اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہو گی کہ اس میں ایک ایسا واقعہ بیان ہوا ہے جس میں اللہ کی عبادت کے لیے زبردست رہنمائی ہے خاص کر ایسے دور میں جب اہل توحید کمزور اور اجنبی ہوں، کفر کی ہر سو حکمرانی ہو، قوت و غلبہ دشمنان اسلام کو حاصل ہو، ایسے مشکل حالات میں اللہ کی توحید پر قائم رہنا، وقت کے باطل خدائوں کا انکار کرنا، پھر باطل سے مفاہمت، سودے بازی کرنے کی بجائے اللہ کے لیے سب کو ناراض کر لینا، سب سے علیحدگی اختیار کر لینا، بس ایک اللہ کا ہی ہو رہنا اس واقعہ کا بنیادی سبق ہے۔ جسے جاننے کے بعد کوئی شخص یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ آج ہم کمزور ہیں، ہر طرف کفر، شرک، بدعت، اور بے حیائی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دھوکہ بازی ہے۔اس لیے ہم دین کی بنیاد پر باطل سے ٹکر نہیں لے سکتے۔یہ واقعہ اُن لوگوں کے فلسفے کو رد کرتا ہے جو کہتے ہیں اتنے تھوڑے لوگ حق کا آوازہ بلند نہیںکر سکتے ہیں، لڑکیوں کے رشتوں کے لیے، لڑکوں کی نوکری کے لیے اور یہاں زندہ رہنے کے لیے کہتے ہیں، بھائی اس دنیا کا بھی کچھ خیا ل کرو، پتہ نہیں تم کس دنیاکی بات کر تے ہو۔

(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا)

''سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔''

یہ وہ کتاب ہے جو اپنے اندرہمارے لیے ہر قسم کی راہنمائی لیے ہوئے ہے۔(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ) ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر ہر مثال بیان کر دی ہے۔ جس کو جس مشکل، پریشانی میں بھی اللہ کا راستہ دیکھنا ہے وہ قرآن کے ذریعے سے اللہ کا را ستہ اس طرح سے دیکھ سکتا ہے کہ اندھیرے قریب نہ پھٹکیں گے او ر وہ اجالوں کے اندر سفر کرتا ہوا اس پگڈنڈی پر ایسا گامزن ہوگا کہ اس کی آخری منزل جنت کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔ یہ سیدھا اور مستقیم راستہ ہے جو اللہ کی خوشنودی اور جنت کی طرف جا تا ہے۔

(وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا o مَّا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِآبَائِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِن یَقُولُونَ اِلَّا کَذِبًا)

''اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔اس بات کا انہیں کوئی علم نہیں اورنہ ہی ان کے آباء و اجداد کو تھا، بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔''

بیٹا بنانا اللہ رب العزت کے ساتھ گستاخی اور تکبر کی ایک مثال ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ ، یہودیوں نے عزیر کواللہ کا بیٹا کہا۔ صادق المصدوقﷺنے فرما یا تھا ''کہ تم پہلوں کا راستہ چلو گے یہاں تک جیسے بالشت بالشت کے برابر ہو جاتی ہے تم انکے برابر ہو جاؤگے۔ اور اگر وہ کسی جانور کے بل میں گھسے تو تم بھی گھسو گے۔ پوچھا گیا کیا آپ کی مرادیہودونصاریٰ ہیں۔ فرمایا اور کون ہیں۔''

انہوں نے کہا خدا تین ہیں (معاذاللہ) مریم، عیسیٰ اور اللہ ربّ العزت۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ہر چیز ہی خدا ہے، وحدت الوجود کا خبیث عقیدہ جسے غالی صوفیاء نے اپنایا اُ س کی رو سے کائنات کی ہر چیز اللہ کا مظہر ہے، یقینا یہ یہود ونصاریٰ کے کفر سے کہیں بڑھ کر کفرکرنے والے ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بیٹے بنائے تو اسلام کے دعویداروں نے سیدھانبی ۖ کو اللہ کے نورکاٹکڑاور جزوبنادیا اور کہا:

((الصلوٰة والسلام علیک یا نورمن نوراللّٰہ.))

کسی نے یوں کہا :

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر

اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر​

(وَجَعَلُوا لَہُ مِنْ عِبَادِہِ جُزْئً ا اِنَّ الْاِنسَانَ لَکَفُور مُّبِیْن)

''انہوں نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزو بنا دیابے شک انسان صریح ناشکرا ہے۔''


انسان تو ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے اور اس محتاجی کا وہ دن رات نظارہ کرتا ہے، دن رات اللہ تبارک وتعالیٰ کے چلائے سے چلتا ہے۔ جسے دلیل چاہیے صرف ایک چھوٹا سا کا م کرے، اپنے ناک اورمنہ پر اچھے طریقے سے ہاتھ رکھے تاکہ سانس نہ آ ئے۔ اسے تھوڑی دیر میں پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنا عا جز ہے اور اس کا رب کتنا عظیم ہے۔رب ذوالجلال والاکرام کے بارے میں یہ گندی بات، اتنی بڑی گالی کہ اللہ نے بیٹا بنایا، اللہ کے نور سے کو ئی جدا ہوا۔ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔


(فَلَعَلَّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ اِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا)

''آپ شاید ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے اس غم سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔''


نبی اکرم ﷺاور ہر نبی و رسول قوم کا سخت ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو جہنم کی وعید سنا کر خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ جہنم کی وعید اسی لیے سناتا ہے کہ شاید وہ اس سے ڈر کر جنت کا راستہ اختیار کرلیں اور وہ جنت کی خوشخبری بار بار اس لیے سناتا ہے کہ شاید وہ مغفرت طلب کرتے ہوئے بار گاہ الٰہی میں جنت کھری کر لیں۔وہ انھیں مغفرت پر ابھارتا ہے، انہیں امید دلاتا ہے۔جو عمل کرنا چا ہے اس کے لیے اللہ کا دین موزوں ہے۔البتہ جس کی نیت خراب ہو اور جس کی کو شش صادق نہ ہو اس کے لیے کو ئی راستہ نہیں۔ اور جو دین کے متعلق یہ سمجھے کہ اس کے فلاں اور فلاں احکامات پر چلنا ممکن نہیں تو وہ اللہ رب العزت پر بہتان تراش رہا ہے۔ اللہ کا سارا دین ہی قابل عمل ہے۔ فرمایا کہ آپ غمزدہ نہ ہوں۔ آپ تو اللہ کا دیا ہو ا پیغام پہنچا رہے ہیں یہی بد نصیب ہیں۔


(اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo وَاِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْْہَا صَعِیْدًا جُرُزًا)

''جو کچھ ارض پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔''


اس میں لطیف نکتہ ہے کہ اے نبی ﷺ! آپ اتنا غم نہ کریں کہ اپنی جان کے درپے ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی رونق اور لذات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ورنہ آپ کا رسول ہونا ان پر عیاں ہے۔


(الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَاء ہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون) (البقرہ : ١٤٦)

''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول اور اسلام ) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو، تب بھی ان میں یقینا ایک گروہ ایسا ہے جو عمدًا حق چھپاتا ہے۔''


آپ یہ غم ہرگزنہ کریں کہ آپ نے منصب نبوت کا حق اداکرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہے، آپ تو حق پہنچا رہے ہیں، یہی اس دنیا پر ریجھ گئے ہیں۔اہل حق کو ہمیشہ یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جب یہ شرک کرنے والے کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے تو پھر یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور کیوں جہنم کی طرف سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں۔جب اہل شرک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر تم ہمارے عقیدہ کو باطل ثابت کردو تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اس پرداعیان حق غمگین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کہیں غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے واقعتا انہیں سمجھ نہیں آ رہی جبکہ حقیقت میں غیراللہ کے پجاری یہ بات اہل ایمان کو ستانے کے لیے کرتے ہیں۔اصل میں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ توحید کے راستے پر چلتے ہوئے ہماری رنگین دنیا ہم سے چھن جائے گی۔توحید کو عملًا قبول نہ کرنے کا اکثروبیشتر سبب دوستیاں، خاندان، رشتہ داریاں اوراس زمین کی خوبصورتیوں کے چھن جانے کا خوف ہے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کفر کرتے ہیں۔


آج کی دنیا میں بہت سے لوگوں کو کلمہ پڑھنے کے بعد ساری سمجھ ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ اورتو اور کلمہ نہ پڑھنے والوں کے پاس بھی حق اس وضاحت کے ساتھ پہنچ چکاہے کہ اگر وہ سچے دل سے حق جاننا چاہیں تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ یورپ وامریکہ میں بے شمار لوگ مسلمان ہو چکے اورہو رہے ہیں، روس اور چائنہ تک میں اسلام پھیل چکا ہے، اسلام کی کرنیں ہر طرف روشنی کر رہی ہیں۔ آج کے اس پڑھے لکھے دور میں، مواصلات کے ان ذرائع کے ہوتے ہوئے جو اس وقت اللہ نے انسان کو دے دئیے ہیں۔ کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں حق جاننا چاہتا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں چلتا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج دنیا بھی پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور خوبصورت ہو گئی ہے۔ آج ایک مزدور آدمی جو سارا دن مزدوری کرتا ہے، دوسو، تین سوروپے خون پسینا ایک کر کے کما تا ہے، بدنصیبی دیکھئے وہ بھی 15روپے میں چائے کا کپ پینے کے ساتھ اس بے حیا عو رت کاڈانس دیکھتا ہے جس کا ڈانس براہ راست دیکھنے کے لیے لوگ 10,10 ہزار کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ یہ عیاشی ہے جو آج گھر گھر پہنچا دی گئی ہے۔ جیسے نبی کریمﷺنے فرمایا تھا: کہ گھر گھر عورتیں ناچیں گی اور گانے گائے جائیں گے۔ اللہ کی بغاوت و نافرمانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیا اور اس کی خوبصورتی میں مگن ہیں۔


(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ نَبَاَہُم بِالْحَقِّ ط اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی)

''ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتلاتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی۔''


یہ قصہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے کہ امت میں بعض اوقات اتنی قدرت نہیں ہوتی کہ کفر کے ساتھ لڑ سکیں۔ اورحالات ایسے بن جاتے ہیں اگر وہ انہی میں رہے تو ڈر ہے کہ انہیں کفر میں گھسیٹ لیا جائے، ایسے حالات میں فرض ہے کہ وہ جگہ چھوڑ دیں چاہے جنگلوں میں جاکرہی اللہ کی عبادت کیوں نہ کرنی پڑے، مگراللہ کے ساتھ شرک نہ کریں۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ کہ اہل ایمان پر لڑائی مسلط کر دی جاتی ہے تب اپنا دفاع کرنافرض ہے۔ جیسا عراق اور افغانستان میں ہوا۔ تو پھر لڑنے کا ہی حکم ہے وہاں سے بھاگنے کا حکم نہیں۔ آج اسی جہاد کی بدولت کفار پرمجاہدین کی ہیبت طاری ہے، جو احیائے خلافت کے لیے، دفاع اسلام کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے میدانوں میں کھڑے ہیں۔ان کی نصرت و مدد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔اسی طرح جب معاشروں میں دعوت کاکام کرنا ممکن ہو تب بھی اس فریضہ کو ترک کرکے لوگوں سے قطع تعلقی کرنا درست نہیں ہے۔


لیکن اس بات کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ لا الٰہ الا اللہ اس دین کا وہ حصہ ہے کہ جسے کسی مصلحت کے نام پر چھپانا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ توحید ہی سب سے بڑی مصلحت ہے۔ہر وہ نیکی جسے پانے کے لیے کلمہ توحید پر سودے بازی کرنی پڑے شریعت کی نگاہ میں محض شر ہے کیونکہ دین میں ہر بھلائی توحید ہی سے پھوٹتی ہے، 'شرک و مشرکین سے براء ت، توحید کی اساس ہے۔لا الٰہ الا اللہ کے اس بنیادی اور پہلے رکن کی قربانی دیناحقیقت میں ہر خیر اور بھلائی کی قربانی دینا ہے۔پس جس بھلے کام میں لا الٰہ الا اللہ کو پس پشت ڈالنا پڑے، شرک کے رد سے زبان روکنی پڑے، مشرکوں کو جہنمی کی بجائے جنتی، ائمہ کفر کو مشائخ اسلام، داعیان شرک، کو علمائے کرام کہنا پڑے یقینا وہ کام شریعت کی نگاہ میں ایک بدترین جرم، گناہ اور برائی ہے۔ایسی برائی کو نیکی اورمصلحت کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔


یقینا ان معاشروں میں رہ کرنیکی کا حکم دینا، لوگوں کو توحید، سچائی، رزق حلال، اطاعت والدین، صلہ رحمی کی طرف بلانا اور انہیں شرک، سود، بدکاری، جھوٹ، غیبت، قطع تعلقی سمیت اُن کاموں سے روکنا جنہیں رب تعالیٰ نے حرام قرار دیانہایت عظیم کام ہے بلکہ یہی وہ کام ہیں جن کی خاطر انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے۔مگر ان سب کاموں میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ایسا مسئلہ ہے کہ جب باقی نیکیاں کرنے کے لیے اس سے خاموشی اختیار کرنی پڑے، باطل خداؤں کے انکار سے رکنا پڑے تب باقی تمام نیکیاں لغو قرار پاتی ہیں کیونکہ لا الٰہ الا اللہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے، اور شرک و مشرکین سے براء ت و عداوت لا الٰہ الا اللہ کا اساسی رکن ہے۔پس جب غیر اللہ کی عبادت کا رد نہ رہا تب کوئی اور نیکی چہ معنی دارد؟


اس واقعہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب معاشروں میں لا الٰہ الا اللہ کی پکار لگانا، باطل خداؤں سے کفر و دشمنی کرنا ممکن نہ رہے تب مومن معاشرے تو چھوڑ دیا کرتے ہیں، غاروں میں پناہ تو لے لیتے ہیں مگر وہ لا الٰہ الا اللہ پر سمجھوتہ نہیں کیاکرتے، وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کی جھوٹی الوہیت کے پردے چاک کرنے سے نہیں رکا کرتے۔


توحید کے اس فہم کی آج اسلامی تحریکوں کو شدید حاجت ہے۔آج دین کے نام پر دین کی اساس'' توحید ''پر سودے بازی ہو رہی ہے۔حرمت رسول کے نام پر اُن لوگوں کو پاسبان رسول اور محب نبی قرار دیا جارہا ہے جو آپ کے بد ترین گستاخ ہیں، جنہوں نے آپﷺکی دعوت کے اُس شجرمبارک کوجڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جسے آپ نے اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا، جس بات پر آپ کو طائف میں پتھر پڑے، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، مکہ مکرمہ سے نکالا گیا، قتل کی سازشیں کی گئیں آج اُسی بات کا انکار کرنے والوں کو حرمت رسول کے پروگراموں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔جن ائمہ کفر نے اس دھرتی پر آپﷺکے دین کو بدلا، شرک کو توحید اور کفر کو ایمان بتلایا، مساجد کو بے آباد اور شرک کے اڈوں کو آباد کیا، لوگوں کو شریعت کی بجائے طریقت کی تعلیم دی، اللہ کیساتھ سیدنا علی کو مشکل کشا، علی ہجویری کو داتا، دستگیر، گنج بخش، بری امام کو حاجت روا، بابا جمال شاہ کو اولاد دینے والا، اجمیر والی سرکار کو کائنات میں تصرف کرنے والا، اور نہ جانے کتنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا آج ایسے مشرکوں اور کافروں کو ہم نے اسلام کے نام پر اسلام کا قائد اور لیڈر بنا دیا جبکہ وہ کفر کے امام اور رہنما ہیں۔یہ سارا ظلم صرف دنیا کی چار دن کی زندگی کے لیے کیا جا رہا ہے۔کبھی یہ ظلم وطن کے مفاد میں کیا جاتا ہے اور کبھی قوم کے مفاد میں، کبھی جماعت کے مفاد میں تو کبھی مسلک کے مفاد میں، کبھی خاندان کے مفاد میںتو کبھی علاقہ اور شہر کے مفاد میں۔رب تعالیٰ نے کیا سچ فرمایا ہے :

( لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ اَوْ اَبْنَاء ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ)

'' جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور رسول کے مخالفین سے دوستی گانٹھیں۔ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں۔یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی مدد و تائید سے انہیں ہمکنار کیا۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے، یہی اللہ کی پارٹی ہے سن لو اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پائیں گے۔''

ہماری تحریکوں کے لیے کہف میں پناہ لینے والے ان نوجوانوں کے قصے میں بڑی عبرت ہے جن کا رب یوں تذکرہ کرتا ہے۔


( اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی) وہ کچھ جوان تھے، دین پر لبیک کہنے والے جوان ہی ہوا کرتے ہیں بوڑھوں پر اپنے ماحول کی چھاپ زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نئی بات مشکل ہی سے قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن پر خاندان اورمعاشرے کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔


یہ نوجوان اپنے رب پر ایمان لے آئے، ان کا یہ ایمان ایسا پکا اور سچا تھا کہ اللہ نے ان کی راہنمائی میں اضافہ کردیا، بے شک اللہ ان کے ایمان میں اضا فہ کرتا ہے جن کا ایمان سچا ہو اور وہ عمل کے میدان میں اس سچائی کو ثابت کر دیں۔ (لِیَزْدَادُوْا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ) (الفتح:٤) ہم نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔یہ عمل کرنے سے بڑھتا ہے، جو ڈر کر بیٹھ گیا اور کہا کہ یہ عمل کا زمانہ نہیں ہے، تو خطرہ ہے، اس کا ایمان، آخر کار اس کے دل سے نکل نہ جائے۔


(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ اِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)

''ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو ارض و سماوات کا رب ہے ہم ا س کے سوا کسی الٰہ کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بعید از عقل بات ہوگی ''


(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ )

 ''ہم نے ان کے دل ایمان پر جما دئیے ''


ایمان کے بعد انعام ملتا ہے۔ انعام یہ ہے کہ اللہ دلوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ طواغیت کا خوف دلوں سے جاتا رہتا ہے، اللہ پر توکل ایمان کا ایسا مزہ دیتا ہے کہ پھر آدمی باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی گواہی دیتا ہے۔ وہ دعوت حقہ لے کراٹھے، انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلا ن کیا:

( رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)

اپنی قوم کو سنا دیا کہ ہما را رب تو وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے۔ جب رب وہی ہے تو الٰہ بھی وہی ہے، تو پھر اس کے سوا کسی الٰہ کو نہ پکاریں گے۔ ہمیشہ قوموں نے رب ایک مانا ہے الٰہ کئی بنائے ہیں۔ لارب الا اللّٰہ پر کفار مکہ کا ایمان تھا لیکن انہوں نے الٰہ کئی ایک بنا رکھے تھے۔الٰہ کہتے ہیں جس کی عبادت اور تعظیم کی جائے،جس کی اطاعت کی جائے، جس کے سامنے دل اور عمل سے ذلیل ہوکر اپنے آپ کو بچھادیاجائے۔ انہوں نے کہا:

( لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)

ہم اس کے علاوہ کسی کی پکار نہ لگائیں گے۔ پکار کا شرک سب سے پہلا شرک ہے۔ کیونکہ تکالیف میں پکار لگانااورمشکلات میں کسی نہ کسی کا سہارا تلاش کرناہر انسان کی ضرورت ہے۔ جنگل کے انسان کو بھی اپنے دشمن کا خوف ہوتاہے یا کوئی نہ کوئی ضرورت لا حق ہوتی ہے۔ جب ضرورت وخوف میں وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بڑی چیز کی پناہ پکڑتا ہے اگرموحدہو تو آسمان و زمین میںغور کرکے اس کوبنانے والے کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور اگر کو تاہ نظر ہے تو کسی شجر و ہجر(جس کے اندر وہ کوئی کرشمہ دیکھتا ہے) کے سامنے جھک جاتا ہے، اسی شرک کا ان مومن جوانوں کو سامنا تھا، انہوں نے قوم و علاقہ کا کوئی مفاد خاطر میں لائے بغیر صاف صاف اعلان کیا :

(ہٰؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ اٰلِہَةً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا)

''یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھاہے، یہ ان پر واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔''


ہماری قوم نے کئی الٰہ بنا لیے۔ الوہیت (حاجت روائی و مشکل کشائی )کے لیے انھوں نے اللہ کو دور جانا اور غیر اللہ کو قریب، اس لیے کسی کو بارش اورکسی کو جنگ کا الٰہ بنا لیا۔ان کی الو ہیت پریہ کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ؟اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا قوم کو صاف صاف بتا دیا کہ تم شرک کے راستے پر ہو، یہی قوم کی خیر خواہی ہے۔ شرک کرنے والوں سے فنڈ اور ووٹ لے کر جنت کی بشارت دینا، انہیں عالم دین ہو نے کا تأثر دینا، ان کی جماعتوں کو اسلامی جماعتیں باور کروانا اوراُن کی جدو جہد کو اسلام کی خدمت کہنا درحقیقت جہاں اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے وہاں اُن کے ساتھ بھی بدخواہی کرنا ہے۔اگر مشرک کو یہ صاف صاف بتلا دیا جائے کہ تو اگر اسی حال میں مر گیا تو جہنم میں جائے گا، نہ تیرا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور نہ تجھے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، نہ تجھ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کرنا درست ہے اور نہ تیرے پیچھے نماز ادا کرناتو شاید وہ فکر کرے اور شرک سے توبہ کرلے۔اسی لیے ان اللہ والوں نے اپنی قوم کو صاف صاف کہہ دیا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو کہ اُس کے کئی شریک ہیں۔


(وَاِذِاعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہَ فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحّمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)

''اور اب جب تم نے اپنی قوم اور اور ان معبودوں سے جن کی یہ عبادت کرتے ہیں کنارہ کر لیا ہے تو آئو اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملے میں آسانی کر دے گا۔''


(وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہ)

یہاں اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ سے پہلے اُن کے پجاریوں سے کنارہ کشی کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ بت تو کوئی قوت نہیں رکھتے۔ معاشرے کی اصل قوت تو مشرکین ہیں جن سے دشمنی مول لینا مشکل ہوا کرتا ہے۔


معلوم ہوا کہ جس کے اندر صحیح معنوں میں ایمان داخل ہوگیاپھر وہ شرک برداشت نہیںکر سکتا۔ جب حالت یہ ہوکہ نظر آرہا ہو کہ میں اتنا کمزور ہوں کہ اگر میں یہاں رہا تو ایک نہ ایک دن یہ ظالم مجھ سے شرک کروا کر چھوڑیں گے ، تب ہجرت کرنا اور قوم سے علیحدہ ہونا واجب ہے۔ایسا نہ کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کتنے ہی نیک لوگوں نے کہا کہ اگر طاغوت کوئی نیک کام کرواتا ہے تو کر لینے میں کیا حرج ہے ؟ طاغوت طاقتور تھا اور یہ کمزور تھے۔ یہ ا س کے چنگل میں آگئے اب اتنا مجبور ہوئے کہ انھیں ان لوگوں کو اسلامی رہنما کہنا پڑا جو اسلام کے اندر ایک دھبہ ہیں، جو شرک کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، جو قرآن و سنت سمجھنے کے باوجود شرک کی وکا لت کرتے ہیں، وہ لوگ جو صحابہf کو گالی نکالتے ہیں اور قرآن کو بدلی ہوئی کتاب کہتے ہیں۔ توحید کے دعویداروں کو انھیں اپنا بھائی کہنا پڑا۔ یقینا اصحاب کہف بصیرت والے تھے جنہوں نے کہا تھا :

(اِنَّہُمْ اِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ اَوْ یُعِیْدُوکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَن تُفْلِحُوا اِذًا اَبَدًا)

''اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں رجم کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے اس صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔''


اس لیے طواغیت اورمشرکوں سے محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کے بارے میں کہنا کہ وہ توحید کے زبردست داعی ہیں فہم توحید سے جہالت کی دلیل ہے۔یا د رکھیے کوئی توحید بیان کرتا ہو اور طواغیت اور ان کے اولیاء اس کی عزت بھی کرتے ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ یا تو یہ تحریک اور شخص توحید بیان نہیں کرتا یا پھر جو اس کی عزت کرتے ہیں وہ سارے موحد ہو چکے ہیں۔ اور اگر ایسا ہے پھر تو مسئلہ حل ہو گیا یعنی اسلام آگیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی توحید پر قائم رہنے اوراس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی پرہمارا خاتمہ فرمائے۔


( فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحْمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)

''آؤ اس غار میں پنا ہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی کر دے گا۔''


اللہ کی رحمتیں، ملکوں کا دفاع، معیشت میں ترقی، امن و سکون، خوشحالی اور خوشیاں صرف ایک اللہ پر ایمان لانے میں مضمر ہیں۔جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔اس ملک اور اس کی عوام کے حقیقی محسن اورنجات دہندہ وہی لوگ ہیں جو انہیں ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔اس کے سوا تمام راستے ہلاکت و بربادی کے ہیں۔جب بھی ہمیں دنیا کی چکا چوند، مایوسی اور دشمن کے ہجوم کے غم نے گھیرا ہو تو یہ دعا کرنی چاہیے پس ہما رے لیے رحمت الٰہی کے دروازے کھل جائیں گے۔


(رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا)

''اے ہمارے رب !اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔(آمین)


۱ بخاری :٣٦١٤، مسلم:٧٩٥.

۲ (مسند احمد ) جبکہ مسلم کی روایت میں آخری دس آیات کا ذکر ہے۔ (مسلم:٨٠٩)

  سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء یہ سورہ مبارکہ ز...