سیرت النبی کریم ﷺ حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی: ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخرکار مدینہ میں مقا...
تدبر سورۃ الرحمن
از
نعمان علی خان
حصہ 7 آیات (7-9)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَٱلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِيزَانَ وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ أَلَّا تَطۡغَوۡا۟ فِى ٱلۡمِيزَان
اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی ۔۔ تاکہ تم تولنے میں تجاوز نہ کرو ۔۔ انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو۔۔
اگلی تین آیات "میزان" کے بارے میں ہے
سب سے پہلے" آسمان کی بات کی کہ اس کو بلند کیا اور میزان قائم کیا"
اور پھر اس کے فوراً بعد ہماری بات کی کہ
" تاکہ تم لوگ میزان کی خلاف ورزی نہ کرو۔ "
(میں نے آسمان توازن کے ساتھ بنایا ہے تاکہ تم میزان کی خلاف ورزی نہ کرو ۔)
ہم نے پہلے پڑھا تھا کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی باقی مخلوق کو دیکھیں سوچیں اور پھر ان کی اچھی خوبیوں کو اپنے اندر اپنائے۔۔
"جیسے ہم سورج اور چاند کا نظم و ضبط دیکھیں اور اس کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔"
اسی طرح جب ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں یا دوسروں کو چیٹ کرتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اللہ کی کائنات توازن میں ہے ، سارے سیارے آسمان زمین سب متوازن ہیں۔ تو ہمیں بھی بیلنس رکھنا چاہیے، ہمیں بے ایمانی نہیں کرنی چاہیے ۔۔
قرآن کا نقطہ نظر
جب ہم ناانصافی یا کسی کو دھوکہ دینے لگتے ہیں تو اس بارے میں قرآن کیا کہتا ہے ؟
اوپر آسمان کو دیکھو، کیسے وہ توازن کے ساتھ بنایا گیا ہے، سورج, چاند اور ستارے سب متوازن ہے اور ساری کائنات کا بیلنس برقرار ہے ،اس کا مطلب ہے کہ مجھے بھی اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔۔
اللہ کو توازن پسند ہے وہ چاہتا ہے کہ ہر چیز متوازن رہے اللّه کو دھوکہ نہیں پسند۔۔
اگلی دفعہ جب بھی ہم کوئی دھوکہ کرنے لگیں تو ہمیں آسمان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ ابھی بھی اپنی جگہ پرصحیح سلامت ہے، ہمیں بھی اپنی حدود میں واپس آجانا چاہیے۔۔
جب تک کائنات متوازن ہے تب تک ہمارے پاس بھی موقع ہے کہ ہم بھی خود کو توازن میں رکھیں جس دن کائنات اپنا توازن کھو دے گی اس دن ہمارے اعمال کا میزان بلند کیا جائے گا ۔
مثال کے طور پر ؛
اگر ہم کہیں جاب کرتے ہیں اور وہاں ہم اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وقت پر کام نہیں کرتے ،
یا ہمارے ماں باپ نے ہم پر بھروسہ کرکے ہمیں کالج/ یونیورسٹی بھیجا ہے اور وہاں ہم دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور اسائمنٹ یا پیپر کی تیاری نہیں کرتے ،
تو ہم نہ صرف خود کو اور اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ ہم میزان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔۔
یہ عدل اور انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ ہم پر کسی کام کے لئے بھروسہ کیا گیا تھا اور ہم اس کو پورا نہیں کر رہے ۔۔
وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان حصہ 7 آیات (7-9) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ وَٱلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِيزَانَ وَأ...
سیرت النبی کریم ﷺ عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام: مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک ...
تدبر سورۃ الرحمن
از
استاد نعمان علی خان
پارٹ 6 (آیت 6)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔
اس آیت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؛
اللہ کہہ رہے ہیں کہ ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔یعنی ستارے اور درخت اللہ کے آگے سر تسلیم خم ہیں۔
نماز میں ہمارا سب سے عاجزانہ عمل سجدہ ہوتا ہے۔ جب ہمارے اندر کوئی غرور اور تکبر باقی نہیں رہتا اور ہم اپنی خوشی سے اپنا سر اللہ کے آگے رکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح ستارے اور درخت بھی اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
امام العوسی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ
جب ہم کوئی ٹوٹتا ہوا تارا دیکھتے ہیں تو وہ اللہ کو سجدہ کر رہا ہوتا ہے
اور جب کسی درخت پر پھل لگتا ہے تو اس کی شاخیں جھک جاتی ہیں جیسے وہ اللہ کو سجدہ کر رہی ہوں۔
لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ عربوں کو صحرا میں ستارے اور درخت دلکش لگتے تھے اور وہ انہیں دو چیزوں کا نظارہ کرتے تھے ۔ وہاں پہاڑ یا دریا ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
صحرا میں اگر دن کے وقت کوئی درخت نظر آجائے تو ان کو بھلا معلوم ہوتا تھا اور رات میں وہ ستاروں کی مدد سے راستے تلاش کرتے تھے۔
اسی لئے ان دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
یعنی وہ دو چیزیں جن کا وہ احترام کرتے تھے؛ "وہ گرنے والی ہیں"
یعنی وہ دو چیزیں جو عربوں کو دلکش لگتی تھی وہ بھی گرنے والی ہیں ،ختم ہونے والے ہیں۔ ۔
قیامت کے روز ستارے اور درخت سب سجدے میں گر جائیں گے۔۔
کچھ کہتے ہیں کہ یہ دنیا میں ابھی بھی ہو رہا ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ روز آخرت کی بات ہو رہی ہے
قیامت کے روز ستارے کرنے لگیں گے جیسے وہ سجدے میں گر رہے ہوں اور وہ درخت بھی گر جائیں گے ۔ ہر چیز ختم ہوجاۓ گی ۔
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان پارٹ 6 (آیت 6) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ اور تا...
تدبر سورۃ الرحمن
از
استاد نعمان علی خان
حصہ 5 (آیت 5)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ بِحُسۡبَان
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔۔
سورج اور چاند بالکل مقررہ حساب کتاب کی پیروی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ !!
حسبان- حساب کتاب
(This is hyperbolized form which Means Extreme Calculations)
"The Sun and Moon Follow Extreme precise Calculations"
اللہ کہہ رہا ہے کہ دیکھو تم ساری مخلوق میں سے سب سے بہترین ہو اور تمہارے پاس وہ خوبی ہے جو کسی دوسری مخلوق کے پاس نہیں ہے(البیان)
وہ بھی اللہ کی شاندار مخلوق ہیں لیکن وہ وقت کی قدر کرتی ہیں ۔۔۔
اور وہ نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا نظم و ضبط بھی ان پر منحصر کرتا ہے اور جب وہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور نظم و ضبط کے پابند ہیں تو۔۔
ہم کیوں نہیں اس کی پیروی کرسکتے؟
ہمارے سارے کیلنڈر سورج اور چاند پر منحصر ہیں
اس نکتہ نظر سے قرآن نظم وضبط کی دعوت دے رہا ہے۔
ہماری نمازکےاوقات سورج کی نقل و حرکات پر منحصر ہیں اور ہمارے روزے اور حج کے دن چاند کی حرکات پر منحصر ہے ۔
اللہ چاہتا ہے کہ ہم باقی مخلوق کی اچھی خوبیاں دیکھیں اور ان کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں
"ہم نظم و ضبط کی امت ہیں"
اگر ہم سے سورج اور شام پر غور کریں تو ہم اپنے وقت کی زیادہ قدر ہوگی۔
جس خالق نے مجھے اور آپ کو بنایا ہے اس کو ایسی چیزیں بنانا پسند ہے جو نظم و ضبط کی پابندی کرتی ہوں۔
جیسے سورج اورچاند ناقابل حد تک نظم و ضبط کا مظاہرہ کررہے ہیں، اللہ ہم سے بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم بھی نظم و ضبط اور اصولوں کی پیروی کریں۔۔!
حسبان کا ایک اور خوف ناک معنی
عربی میں حسبان کا ایک اور مطلب ہے؛"عظیم تباہی جو صحیح وقت پر ہونے والی ہوں "
"Timely Destruction "
سوره کہف:40
وَيُرۡسِلَ عَلَيۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا
اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے
اللہ کہہ رہا ہے کہ سورج اورچاند نہ صرف ایک کیلنڈر کو فالو کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہ کہہ رہا ہے کہ سورج اور چاند ایک مقرر ہ تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔۔ ۔۔ ۔۔
یعنی سورج اورچاند تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ۔ !
اس کا یہاں کیوں ذکر کیا گیا ہے؟
قیامت کی سب سے عظیم نشانی کون سی ہے؟
قرآن اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ۔۔۔
ان واقعات کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے اہم آخری واقعہ "قیامت" کا آنا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی ایک بڑی نشانی ہے (شق القمر )
جس کا ذکر اس سے پچھلی سورت میں کیا گیا ہے (سورہ قمر )
"قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا "۔۔۔ (سورہ قمر : 1 )
لیکن چاند کے پھٹنے سے بھی زیادہ بڑی نشانی ہے قرآن کا نازل ہونا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ۔
اس کے بعد اب جو سب سے بڑا واقعہ ہونے والا ہے وہ سورج اور چاند کا تباہ ہونا ہے۔۔
انسانی تاریخ میں اب جو اہم واقعہ رہ گیا ہے وہ قیامت کا دن ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
تدبر سورۃ الرحمن از استاد نعمان علی خان حصہ 5 (آیت 5) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ بِحُسۡبَان سورج اور ...
سیرت النبی کریم ﷺ رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر ی...
تدبر سورۃ الرحمن
از
نعمان علی خان
پارٹ 4 (آیت 4)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ
اب اللہ انسانوں کی سب سے منفرد خوبی کا ذکر کر رہے ہیں۔۔
اسی نے اس کو بولنا سکھایا
بیان = الگ کرنا
البیان کا مطلب ہے لفظوں کو واضح طور پر الگ الگ ادا کرنا
کیونکہ جب ہم چیزوں کو الگ الگ کرتے ہیں تو بات زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے
بیان سے لفظ بٙیْنٙ نکلا ہے ۔ (درمیان)
دو چیزوں کے درمیان فرق
عربی زبان میں ایک سائنس ہے "البلاغة" جس کا مطلب ہے خوش بیانی، فصاحت، نفاست (Eloquence)
یعنی البیان کا ایک اور مطلب ہے فصاحت یا فصیح ،نفاست ،خوش بیانی.
ہماری زبان میں جتنی بھی نفاست، خوش بیانی اور فصاحت یا بلاغت ہے ، وہ صرف اللہ کی طرف سے ہے۔
کیا وجہ ہے کہ اللہ نے "البیان" کے لئے "علم البیان" یعنی "بلاغہ " کو منتخب کیا. کیونکہ وہ سب سے زیادہ نفیس زبان ہے ساری زبانوں میں سے ۔
بیان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اچھائی کو برائی سے الگ کرنا ، سچی بات کو جھوٹی بات سے الگ کرنا ، منطقی بات کو غیر منطقی بات سے الگ کرنا۔ ۔
انسانوں کو اللہ نے یہ خوبی دی ہے کہ وہ چیزوں کو بہتر طریقے سے بیان کر سکتے ہیں جیسے کوئی دوسری مخلوق نہیں کر سکتی ۔۔۔
نظریات، پیراگراف، ابواب، موضوع، کتابیں، سائنس وغیرہ کو الگ کرنے کی صلاحیت
اللہ نے ہمیں چیزوں کو الگ الگ کرکے واضح کرنے کی خوبی کیوں دی ہے؟
آج دنیا کا سارا علم اس "بیان" کی وجہ سے اتنا واضح ہے ۔
اگر ہمارے اندر یہ صلاحیت نہ ہوتی تو ان چیزوں کو آسانی سے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے۔۔
ہم چیزوں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان کی اقسام بناتے ہیں,ایک قسم کی چیزوں کو دوسرے قسم کی چیزوں سے الگ کرتے ہیں ۔۔۔
جیسے فزکس کیمسٹری ، بائیولوجی ,پروگرامنگ۔
اور اسی طرح سارے سائنسی علوم ترقی کرنے کے قابل ہوئے ہیں ۔یہ خوبی اللہ نے صرف انسانوں کو دی ہے سبحان اللہ ۔۔۔
اگر ہمارے جسم پرندوں کی طرح ہوتے تو ہم اپنے علم کو لکھنے یا بیان کرنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔
وہ سارا علم ہمارے دماغ میں ہی ہوتا لیکن ہم اس کو کہنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔
اس آیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا لیکن کونسی زبان بولنا سکھائی؟
اللہ نے یہ نہیں کہ میں نے اردو پنجاب یا بنگالی سکھائی۔
قرآن کس نے سکھایا؟
اللہ نے۔
زبان کس نے سکھائی؟ اللہ نے ۔
جب ہم قرآن کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ نے سکھایا ہے پھر ہمیں باقی زبانوں کی بھی عزت کرنی چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمیں اللہ نے سکھائی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم کسی کی زبان یا لہجے کا مذاق نہیں اڑا سکتے ۔
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا فرق یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں
(30:22)
وَمِنۡ ءَايَـٰتِهِۦ خَلۡقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفُ أَلۡسِنَتِڪُمۡ وَأَلۡوَٲنِكُمۡ ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّلۡعَـٰلِمِينَ
اور اسی کے نشانات میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہلِ دانش کے لیے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
ہمیں کسی کے رنگ یا اس کی نسل یا اسکی زبان کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔۔
ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دیکھو یہ کس طرح سے بول رہا ہے، اس کو انگلش نہیں بول نہیں آتی ،دیکھو کیسے پنجابی بول رہا ہے، اس کا رنگ دیکھو کتنا کالا ہے ،ہم کسی کو بھی حقارت سے نہیں دیکھ سکتے۔
ہمارے رنگ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں
When we are Making Other's Skins .. We Are Making Fun Of Allah Ayaat..
اب شروع سے لے کے ان چار آیات پر غور کریں
الرحمن علم القران خلق الانسان عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ
الرحمن ۔ اللہ کی سب سے بڑی محبت اور رحمت کی نشانی کیا ہے کہ اس نے قرآن سکھایا.
کس کو سکھایا؟
خلق الانسان
اللہ کو معلوم تھا کہ انسانوں کو باتیں بار بار یاد کروانے کی ضرورت پڑے گی اسی لیے اللہ نے ہمیں ایسی کتاب تھی جس میں باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں
پھر اللہ کہتا ہے کہ میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا چیزوں کو الگ الگ کرنا سکھایا
اور ان کو یہ اسی لیے سکھایا کہ ایک دن اللہ نے انسانوں کے پاس ایسی کتاب بھیجنی ہے جو ہمیشہ کے لیے حق اور باطل کو الگ کر دے گی، ہدایت کو گمراہی سے الگ کر دے گی ۔۔
اگر انسانوں کے پاس البیان نہیں ہے , وہ القرآن کی قدر نہیں کرسکیں گے ..
ایسا لگ رہا ہے کہ اللہ کہہ رہا ہے کہ اصل میں جو تم بول سکتے ہو اور باتوں کی درجہ بندی کرسکتے ہو، تمہیں یہ خوبی اسی لیے دی گئی ہے کہ ایک دن تم اللہ کی کتاب کو سمجھ سکو۔
استاد نعمان علی خان
جاری ہے ۔۔۔
تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان پارٹ 4 (آیت 4) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ اب اللہ انسانوں ک...
سیرت النبی کریم ﷺ آپ ﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی: کسی بھی انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی آزمائش کی جگہ خود اس کا گھر ہے، گھر کے لوگوں سے ص...
قرآن فہمی سیریز
سورۃ الفاتحہ
تھکاوٹ اور مایوسی میں کہاں جائیں؟
اف! کیا کوئی ہم میں سے ایسا ہے جو یہ نہ کہے کہ ہمارے ارد گرد کے انسانوں نے ہمیں توڑا نہیں، ہمیں تھکایا نہیں، ہمیں آخری حد تک پہنچایا نہیں، ہمیں سراہا نہیں، ہمیں سمجھا نہیں، ہمیں راستہ دکھایا نہیں، ہم سے راضی ہوئے نہیں۔
کوئی بھی نہیں یہ کہہ سکتا نا ۔۔۔ پھر اتنے تھکنے ٹوٹنے، بکھرنے کو بار بار تجربہ کرنے کے بعد بھی کیوں نہیں اپنا اور اپنی زندگی کا رخ تبدیل کردیتے؟۔
کیوں اپنے آپ کو وہ راہ نہیں دکھا رہے کہ جس میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے۔
کیوں نہیں پلٹتے اس رب کی طرف؟
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
اللہ رب العالمین کے لیے تمام تعریفیں اس کے کمال کی وجہ سے ہیں جو سراسر خوبیوں کا مالک ہے۔ اور جو تمام جن و انس، فرشتوں اور تمام عالم کا رب ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
جس کی رحمت خاص و عام کے لیے ہے۔ اور جس نے ہمیں ہر چھوٹی بڑی نعمت کو عطا کیا ہوا ہے۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
جس کی ملکیت اور باشاہت میں وہ بدلے کا دن ہے جس دن کوئی ہمارے کام نہ آئے گا۔ جب ہمیں اپنے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا ذرہ برابر عمل بھی چھوڑا نہیں جائے گا۔ کوئی آنسو بغیر جزا کے نہیں ضائع ہوگا۔
اِیَّاكَ نَعْبُدُ
جس نے ہم سے خود فرمایا ہے کہ صرف میری عبادت کرو تاکہ ہمارا ہر قلبی، لسانی اور اعضاء کا فعل اس کو راضی کرنے والا بن جائے۔ اور اس کو غیبی طاقتوں کا مالک سمجھ کر اس سے انتہائی عقیدت رکھو اور عاجزی سے جھک جاؤ۔
وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
جس نے ہمیں استعانت یعنی مانگنے کا فارمولا خود سکھایا ہے کہ صرف مجھ سے ہی مانگو۔ کہیں ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں تم سے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اسباب اختیار کرو اور پھر توکل اور بھروسہ مجھ پر کرو۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
جس نے ہمیں خود سکھایا ہے روزانہ کے چیلنجز میں ادھر ادھر بھٹکنے کے لیے خود کو کھلا نہیں چھوڑو بلکہ میری طرف مانگتے ہوئے پلٹو کہ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھادے کیونکہ وہی توفیق دینے والا ہے۔ جو ایسا راستہ ہے جس کا آغاز ایک نکتے سے لے کر اختتام دوسرے نکتے تک ہوتا ہے جیسے خط مستقیم (straight line) ہوتی ہے۔ یہ راستہ قرآن و سنت کا راستہ ہے۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠
جس نے ہمیں ہدایت حاصل کرنے کے لیے رول ماڈلز بتادیے کہ صراط مستقیم کے لیے انبیاء صدیقین شھداء صالحین کی پیروی کرنی ہے جن پر اللہ نے فضل کیا۔
جس نے ہمیں یہ بھی سکھادیا کہ کن لوگوں کا راستہ ہم نے اختیار نہیں کرنا اور ان کے جیسے کام نہیں کرنے ۔ان لوگوں کا جنھوں نے دین کو اپنے مطابق تبدیل کردیا، اللہ کی کتاب میں تحریف کردی، اللہ پر جھوٹ باندھا۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل کردیں۔ آمین۔
منقول
قرآن فہمی سیریز سورۃ الفاتحہ تھکاوٹ اور مایوسی میں کہاں جائیں؟ اف! کیا کوئی ہم میں سے ایسا ہے جو یہ نہ کہے کہ ہمارے ارد گرد کے انسانوں نے ہ...
تدبر سورۃ الرحمن
از
نعمان علی خان
حصہ 3 (آیت 3)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ
اسی نے انسان کو پیدا کیا
سب سے پہلے اللہ نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں قرآن سیکھایا
اور پھر کہا:
خلق الانسان
بے انتہا رحم اور محبت کرنے والے نے انسان کو بنایا
یعنی ہمارا تخلیق کِیا جانا بھی اللہ کی محبت اور رحمت ہے ..
جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اللہ نے انہیں کیوں بنایا ہے؟
یہ اللہ کی محبت کیسے ہو سکتی ہے؟
لیکن اللہ کہتا ہے کہ یہ واقعی اس کی محبت اور رحمت ہے کہ اس نے مجھے اور آپ کو زندگی دی
اس passage کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ ؛ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ نے ہمیں تخلیق کیا اور پھر ہمیں قرآن سکھایا۔۔ بلکہ یہاں اللہ نے پہلے قرآن سکھانے کا ذکر کیا ہے اور پھر انسان کے تخلیق کرنے کا ۔ ۔ !
اس کا مطلب ہے کہ یہ زندگی اللہ کی رحمت اور محبت کا ثبوت ہے اور قرآن کا سکھانا ہماری زندگی سے بھی بڑا تحفہ ہے۔
ایسا کیوں ہے؟؟
مفتی محمد شفیع رحمہ نے اس آیت پر غور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؛
انسان اللہ کی ایک تخلیق ہے۔
ایک کاریگر جب کوئی مصنوعہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ایجاد کے مقصد پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ۔
اور جب وہ ایجاد ہو جاتا ہے تو اس کاایک Manual ساتھ آتا ہے کہ وہ چیز کس طرح کام کرے گی ,اس کو کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟
اسانیت کا Manual اللہ تعالی کی وحی ہے۔
اگر کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو اور ہمیں اس کو استعمال ہی نہ کرنا آتا ہوں پھر اس کا کیا فائدہ ہے؟
اسی طرح یہ زندگی اللہ تعالی کا بہترین تحفہ ہے ۔
لیکن "وحی" کے بغیر ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس زندگی کا کیا مقصد ہے؟
Our Life is Purpose less Without this Revelation.
اسی لیے یہاں قرآن کے سکھائے جانے کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور ہمارے تخلیق کرنے کا بعد میں، کیونکہ وہ ہماری تخلیق سے بھی بڑا ثبوت ہے اللہ کی رحمت کا ۔ ۔ ۔ !
خلق الانسان
لفظ انسان کے دو Origin ہیں ۔
1) اُنس
2) نسیان
اُنس؛ رحم /ہمدردی /محبت
ابن فارس کہتے ہیں کہ انسان "اُنس" سے نکلا ہے,
جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک طرف محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف اس کو محبت اور ہمدردی کی ضرورت بھی ہوتی ہے
جانوروں یا پرندوں میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا وہ اتنے ایموشنل نہیں ہوتے جتنا انسان ہوتا ہے ۔۔
جب انسان اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے بھی محبت کی جائے۔۔
اللہ نے انسانوں کو ایک ذریعہ دیا ہے جس سے وہ اللہ کی باقی مخلوق سے محبت کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اصل محبت بھی پاسکتے ہیں۔۔
وہ اللہ کی محبت پا سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کا اصل مقصد ڈھونڈ سکتے ہیں ۔۔
نسیان ؛" بھولنا "
یعنی انسان بھولنے والی مخلوق ہے
دوسرے لفظوں میں جب ہمیں تخلیق کیا گیا تھا، ہم اللہ کو جانتے تھے لیکن جب ہم زمین پر آئے تب ہم اللہ کو بھول گئے۔
جب کوئی بھولنے کا عادی ہوں تو اس کے لیے سب سے بہترین چیز کیا ہے؟؟
یاد دہانی
یعنی سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ اس کو یاد کروایا جائے اور اللہ نے بار بار قرآن کو ذکر یا نصیحت کہا ہے .
قرآن انسانوں کو بار بار یاد کرواتا ہے کہ ان کا رب کون ہے ان کا اس دنیا میں کیا کام ہے اور آخرت کیا ہے
جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور وہ اس لیے ہے کہ ہمیں یاد دہانی کروائی جائے ۔
اور بھولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کی اپنا نام یا گھر بھول جانا بلکہ اپنے فرائض مقاصد اور ذمہ داریاں بھولنا ۔۔۔
کیا یہ ہمارے ساتھ روزانہ نہیں ہوتا ؟؟
جیسے آپ کا دو دن بعد پیپر ہو اور آپ فٹبال کھیل رہے ہوں۔ آپ کی امی کہیں تمہیں یاد نہیں ہے کہ پرسوں تمہارا پیپر ہے اور آپ کہیں "میں بھول گیا تھا"۔
جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا نہیں چاہتے تو ہم ان کو بھولنے لگ جاتے ہیں اسی طرح ہم تلخ حقیقتوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بھولنا چاہتے ہیں ہم ان کو سوچنا نہیں چاہتے ۔
اسی طرح جب اللہ آخرت کی بات کرتے ہیں تو ہم اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے
ہمارے لئے موت، قبر، آخرت، میدان حشر، ان سب کے بارے میں سوچنا ہمیں ناگوار لگتا ہے۔ ۔ ۔
اسی لیے ہمیں کچھ ایسا چاہیے جو ہمیں بار بار "یاد دہانی" کروائے۔
اسی لیے اللہ نے ہمارے لیے قرآن پاک نازل کیا ہے کیونکہ وہ ہمیں آخرت کے بارے میں یاددہانی کرواتا ہے تاکہ ہم اس کے لیے پہلے سے تیاری کر لیں ۔ ۔
تدبر سورۃ الرحمن از نعمان علی خان حصہ 3 (آیت 3) بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ اسی نے انسان کو پیدا کیا سب...
سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق
بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ
الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء
یہ سورہ مبارکہ زبر دست فضیلت کی حامل ہے۔سیدنااُ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز میں سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکا، اُن کا بچہ یحییٰ اُس کے قریب لیٹا ہوا تھا وہ ڈرے کہ گھوڑابچے کو کہیں کچل نہ ڈالے، اُنہوں نے قرآن پڑھنا بند کر دیا توگھوڑا بھی پر سکون ہوگیا۔ پھر جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا دوبارہ مضطرب ہو گیا۔ تیسری مرتبہ جب اُنہوں نے نماز ختم کر کے سر اُونچا کیا تو ایک بادل سا نظر آیا جس میں جلتے ہوئے چراغوں کی مانند روشنی تھی۔ یہ واقعہ نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ سکینت تھی ٫یہ فرشتے تھے جو تیرا قرآن سننے کے لیے آسمان سے نازل ہو ئے تھے۔1
اسی طر ح سورہ کہف کی آخری اور پہلی دس آیات فتنہ دجال سے ڈھال ہیں۔نبی کریمﷺ فرماتے ہیں :
''جس نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔''2
ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے اس لیے کہ دجل آج جتنا زوردار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو خلافت کا نظام مفقود ہے، دوسراہمارا ایمان کمزور اور علم ناقص ہے جس کی وجہ سے فتنہ قبول کرنے میں کچھ دیرنہیں لگتی۔پھر کفارگمراہ کرنے کے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں، مواصلات کا نظام دنیا بھر کے کفر و شرک، فحاشی و عریانی کو اہل اسلام میں نشر کررہا ہے۔ ان حالات میں صرف اور صرف وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے بچالے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور جاہلیت کے حملوں سے باخبر رہنا بے حد ضروری ہے۔
اس سورت کی اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہو گی کہ اس میں ایک ایسا واقعہ بیان ہوا ہے جس میں اللہ کی عبادت کے لیے زبردست رہنمائی ہے خاص کر ایسے دور میں جب اہل توحید کمزور اور اجنبی ہوں، کفر کی ہر سو حکمرانی ہو، قوت و غلبہ دشمنان اسلام کو حاصل ہو، ایسے مشکل حالات میں اللہ کی توحید پر قائم رہنا، وقت کے باطل خدائوں کا انکار کرنا، پھر باطل سے مفاہمت، سودے بازی کرنے کی بجائے اللہ کے لیے سب کو ناراض کر لینا، سب سے علیحدگی اختیار کر لینا، بس ایک اللہ کا ہی ہو رہنا اس واقعہ کا بنیادی سبق ہے۔ جسے جاننے کے بعد کوئی شخص یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ آج ہم کمزور ہیں، ہر طرف کفر، شرک، بدعت، اور بے حیائی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دھوکہ بازی ہے۔اس لیے ہم دین کی بنیاد پر باطل سے ٹکر نہیں لے سکتے۔یہ واقعہ اُن لوگوں کے فلسفے کو رد کرتا ہے جو کہتے ہیں اتنے تھوڑے لوگ حق کا آوازہ بلند نہیںکر سکتے ہیں، لڑکیوں کے رشتوں کے لیے، لڑکوں کی نوکری کے لیے اور یہاں زندہ رہنے کے لیے کہتے ہیں، بھائی اس دنیا کا بھی کچھ خیا ل کرو، پتہ نہیں تم کس دنیاکی بات کر تے ہو۔
(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا)
''سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔''
یہ وہ کتاب ہے جو اپنے اندرہمارے لیے ہر قسم کی راہنمائی لیے ہوئے ہے۔(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ) ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر ہر مثال بیان کر دی ہے۔ جس کو جس مشکل، پریشانی میں بھی اللہ کا راستہ دیکھنا ہے وہ قرآن کے ذریعے سے اللہ کا را ستہ اس طرح سے دیکھ سکتا ہے کہ اندھیرے قریب نہ پھٹکیں گے او ر وہ اجالوں کے اندر سفر کرتا ہوا اس پگڈنڈی پر ایسا گامزن ہوگا کہ اس کی آخری منزل جنت کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔ یہ سیدھا اور مستقیم راستہ ہے جو اللہ کی خوشنودی اور جنت کی طرف جا تا ہے۔
(وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا o مَّا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِآبَائِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِن یَقُولُونَ اِلَّا کَذِبًا)
''اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔اس بات کا انہیں کوئی علم نہیں اورنہ ہی ان کے آباء و اجداد کو تھا، بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔''
بیٹا بنانا اللہ رب العزت کے ساتھ گستاخی اور تکبر کی ایک مثال ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ ، یہودیوں نے عزیر کواللہ کا بیٹا کہا۔ صادق المصدوقﷺنے فرما یا تھا ''کہ تم پہلوں کا راستہ چلو گے یہاں تک جیسے بالشت بالشت کے برابر ہو جاتی ہے تم انکے برابر ہو جاؤگے۔ اور اگر وہ کسی جانور کے بل میں گھسے تو تم بھی گھسو گے۔ پوچھا گیا کیا آپ کی مرادیہودونصاریٰ ہیں۔ فرمایا اور کون ہیں۔''
انہوں نے کہا خدا تین ہیں (معاذاللہ) مریم، عیسیٰ اور اللہ ربّ العزت۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ہر چیز ہی خدا ہے، وحدت الوجود کا خبیث عقیدہ جسے غالی صوفیاء نے اپنایا اُ س کی رو سے کائنات کی ہر چیز اللہ کا مظہر ہے، یقینا یہ یہود ونصاریٰ کے کفر سے کہیں بڑھ کر کفرکرنے والے ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بیٹے بنائے تو اسلام کے دعویداروں نے سیدھانبی ۖ کو اللہ کے نورکاٹکڑاور جزوبنادیا اور کہا:
((الصلوٰة والسلام علیک یا نورمن نوراللّٰہ.))
کسی نے یوں کہا :
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر
(وَجَعَلُوا لَہُ مِنْ عِبَادِہِ جُزْئً ا اِنَّ الْاِنسَانَ لَکَفُور مُّبِیْن)
''انہوں نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزو بنا دیابے شک انسان صریح ناشکرا ہے۔''
انسان تو ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے اور اس محتاجی کا وہ دن رات نظارہ کرتا ہے، دن رات اللہ تبارک وتعالیٰ کے چلائے سے چلتا ہے۔ جسے دلیل چاہیے صرف ایک چھوٹا سا کا م کرے، اپنے ناک اورمنہ پر اچھے طریقے سے ہاتھ رکھے تاکہ سانس نہ آ ئے۔ اسے تھوڑی دیر میں پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنا عا جز ہے اور اس کا رب کتنا عظیم ہے۔رب ذوالجلال والاکرام کے بارے میں یہ گندی بات، اتنی بڑی گالی کہ اللہ نے بیٹا بنایا، اللہ کے نور سے کو ئی جدا ہوا۔ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔
(فَلَعَلَّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ اِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا)
''آپ شاید ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے اس غم سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔''
نبی اکرم ﷺاور ہر نبی و رسول قوم کا سخت ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو جہنم کی وعید سنا کر خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ جہنم کی وعید اسی لیے سناتا ہے کہ شاید وہ اس سے ڈر کر جنت کا راستہ اختیار کرلیں اور وہ جنت کی خوشخبری بار بار اس لیے سناتا ہے کہ شاید وہ مغفرت طلب کرتے ہوئے بار گاہ الٰہی میں جنت کھری کر لیں۔وہ انھیں مغفرت پر ابھارتا ہے، انہیں امید دلاتا ہے۔جو عمل کرنا چا ہے اس کے لیے اللہ کا دین موزوں ہے۔البتہ جس کی نیت خراب ہو اور جس کی کو شش صادق نہ ہو اس کے لیے کو ئی راستہ نہیں۔ اور جو دین کے متعلق یہ سمجھے کہ اس کے فلاں اور فلاں احکامات پر چلنا ممکن نہیں تو وہ اللہ رب العزت پر بہتان تراش رہا ہے۔ اللہ کا سارا دین ہی قابل عمل ہے۔ فرمایا کہ آپ غمزدہ نہ ہوں۔ آپ تو اللہ کا دیا ہو ا پیغام پہنچا رہے ہیں یہی بد نصیب ہیں۔
(اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo وَاِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْْہَا صَعِیْدًا جُرُزًا)
''جو کچھ ارض پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔''
اس میں لطیف نکتہ ہے کہ اے نبی ﷺ! آپ اتنا غم نہ کریں کہ اپنی جان کے درپے ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی رونق اور لذات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ورنہ آپ کا رسول ہونا ان پر عیاں ہے۔
(الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَاء ہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون) (البقرہ : ١٤٦)
''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول اور اسلام ) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو، تب بھی ان میں یقینا ایک گروہ ایسا ہے جو عمدًا حق چھپاتا ہے۔''
آپ یہ غم ہرگزنہ کریں کہ آپ نے منصب نبوت کا حق اداکرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہے، آپ تو حق پہنچا رہے ہیں، یہی اس دنیا پر ریجھ گئے ہیں۔اہل حق کو ہمیشہ یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جب یہ شرک کرنے والے کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے تو پھر یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور کیوں جہنم کی طرف سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں۔جب اہل شرک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر تم ہمارے عقیدہ کو باطل ثابت کردو تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اس پرداعیان حق غمگین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کہیں غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے واقعتا انہیں سمجھ نہیں آ رہی جبکہ حقیقت میں غیراللہ کے پجاری یہ بات اہل ایمان کو ستانے کے لیے کرتے ہیں۔اصل میں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ توحید کے راستے پر چلتے ہوئے ہماری رنگین دنیا ہم سے چھن جائے گی۔توحید کو عملًا قبول نہ کرنے کا اکثروبیشتر سبب دوستیاں، خاندان، رشتہ داریاں اوراس زمین کی خوبصورتیوں کے چھن جانے کا خوف ہے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کفر کرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں بہت سے لوگوں کو کلمہ پڑھنے کے بعد ساری سمجھ ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ اورتو اور کلمہ نہ پڑھنے والوں کے پاس بھی حق اس وضاحت کے ساتھ پہنچ چکاہے کہ اگر وہ سچے دل سے حق جاننا چاہیں تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ یورپ وامریکہ میں بے شمار لوگ مسلمان ہو چکے اورہو رہے ہیں، روس اور چائنہ تک میں اسلام پھیل چکا ہے، اسلام کی کرنیں ہر طرف روشنی کر رہی ہیں۔ آج کے اس پڑھے لکھے دور میں، مواصلات کے ان ذرائع کے ہوتے ہوئے جو اس وقت اللہ نے انسان کو دے دئیے ہیں۔ کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں حق جاننا چاہتا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں چلتا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج دنیا بھی پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور خوبصورت ہو گئی ہے۔ آج ایک مزدور آدمی جو سارا دن مزدوری کرتا ہے، دوسو، تین سوروپے خون پسینا ایک کر کے کما تا ہے، بدنصیبی دیکھئے وہ بھی 15روپے میں چائے کا کپ پینے کے ساتھ اس بے حیا عو رت کاڈانس دیکھتا ہے جس کا ڈانس براہ راست دیکھنے کے لیے لوگ 10,10 ہزار کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ یہ عیاشی ہے جو آج گھر گھر پہنچا دی گئی ہے۔ جیسے نبی کریمﷺنے فرمایا تھا: کہ گھر گھر عورتیں ناچیں گی اور گانے گائے جائیں گے۔ اللہ کی بغاوت و نافرمانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیا اور اس کی خوبصورتی میں مگن ہیں۔
(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ نَبَاَہُم بِالْحَقِّ ط اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی)
''ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتلاتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی۔''
یہ قصہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے کہ امت میں بعض اوقات اتنی قدرت نہیں ہوتی کہ کفر کے ساتھ لڑ سکیں۔ اورحالات ایسے بن جاتے ہیں اگر وہ انہی میں رہے تو ڈر ہے کہ انہیں کفر میں گھسیٹ لیا جائے، ایسے حالات میں فرض ہے کہ وہ جگہ چھوڑ دیں چاہے جنگلوں میں جاکرہی اللہ کی عبادت کیوں نہ کرنی پڑے، مگراللہ کے ساتھ شرک نہ کریں۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ کہ اہل ایمان پر لڑائی مسلط کر دی جاتی ہے تب اپنا دفاع کرنافرض ہے۔ جیسا عراق اور افغانستان میں ہوا۔ تو پھر لڑنے کا ہی حکم ہے وہاں سے بھاگنے کا حکم نہیں۔ آج اسی جہاد کی بدولت کفار پرمجاہدین کی ہیبت طاری ہے، جو احیائے خلافت کے لیے، دفاع اسلام کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے میدانوں میں کھڑے ہیں۔ان کی نصرت و مدد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔اسی طرح جب معاشروں میں دعوت کاکام کرنا ممکن ہو تب بھی اس فریضہ کو ترک کرکے لوگوں سے قطع تعلقی کرنا درست نہیں ہے۔
لیکن اس بات کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ لا الٰہ الا اللہ اس دین کا وہ حصہ ہے کہ جسے کسی مصلحت کے نام پر چھپانا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ توحید ہی سب سے بڑی مصلحت ہے۔ہر وہ نیکی جسے پانے کے لیے کلمہ توحید پر سودے بازی کرنی پڑے شریعت کی نگاہ میں محض شر ہے کیونکہ دین میں ہر بھلائی توحید ہی سے پھوٹتی ہے، 'شرک و مشرکین سے براء ت، توحید کی اساس ہے۔لا الٰہ الا اللہ کے اس بنیادی اور پہلے رکن کی قربانی دیناحقیقت میں ہر خیر اور بھلائی کی قربانی دینا ہے۔پس جس بھلے کام میں لا الٰہ الا اللہ کو پس پشت ڈالنا پڑے، شرک کے رد سے زبان روکنی پڑے، مشرکوں کو جہنمی کی بجائے جنتی، ائمہ کفر کو مشائخ اسلام، داعیان شرک، کو علمائے کرام کہنا پڑے یقینا وہ کام شریعت کی نگاہ میں ایک بدترین جرم، گناہ اور برائی ہے۔ایسی برائی کو نیکی اورمصلحت کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔
یقینا ان معاشروں میں رہ کرنیکی کا حکم دینا، لوگوں کو توحید، سچائی، رزق حلال، اطاعت والدین، صلہ رحمی کی طرف بلانا اور انہیں شرک، سود، بدکاری، جھوٹ، غیبت، قطع تعلقی سمیت اُن کاموں سے روکنا جنہیں رب تعالیٰ نے حرام قرار دیانہایت عظیم کام ہے بلکہ یہی وہ کام ہیں جن کی خاطر انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے۔مگر ان سب کاموں میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ایسا مسئلہ ہے کہ جب باقی نیکیاں کرنے کے لیے اس سے خاموشی اختیار کرنی پڑے، باطل خداؤں کے انکار سے رکنا پڑے تب باقی تمام نیکیاں لغو قرار پاتی ہیں کیونکہ لا الٰہ الا اللہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے، اور شرک و مشرکین سے براء ت و عداوت لا الٰہ الا اللہ کا اساسی رکن ہے۔پس جب غیر اللہ کی عبادت کا رد نہ رہا تب کوئی اور نیکی چہ معنی دارد؟
اس واقعہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب معاشروں میں لا الٰہ الا اللہ کی پکار لگانا، باطل خداؤں سے کفر و دشمنی کرنا ممکن نہ رہے تب مومن معاشرے تو چھوڑ دیا کرتے ہیں، غاروں میں پناہ تو لے لیتے ہیں مگر وہ لا الٰہ الا اللہ پر سمجھوتہ نہیں کیاکرتے، وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کی جھوٹی الوہیت کے پردے چاک کرنے سے نہیں رکا کرتے۔
توحید کے اس فہم کی آج اسلامی تحریکوں کو شدید حاجت ہے۔آج دین کے نام پر دین کی اساس'' توحید ''پر سودے بازی ہو رہی ہے۔حرمت رسول کے نام پر اُن لوگوں کو پاسبان رسول اور محب نبی قرار دیا جارہا ہے جو آپ کے بد ترین گستاخ ہیں، جنہوں نے آپﷺکی دعوت کے اُس شجرمبارک کوجڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جسے آپ نے اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا، جس بات پر آپ کو طائف میں پتھر پڑے، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، مکہ مکرمہ سے نکالا گیا، قتل کی سازشیں کی گئیں آج اُسی بات کا انکار کرنے والوں کو حرمت رسول کے پروگراموں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔جن ائمہ کفر نے اس دھرتی پر آپﷺکے دین کو بدلا، شرک کو توحید اور کفر کو ایمان بتلایا، مساجد کو بے آباد اور شرک کے اڈوں کو آباد کیا، لوگوں کو شریعت کی بجائے طریقت کی تعلیم دی، اللہ کیساتھ سیدنا علی کو مشکل کشا، علی ہجویری کو داتا، دستگیر، گنج بخش، بری امام کو حاجت روا، بابا جمال شاہ کو اولاد دینے والا، اجمیر والی سرکار کو کائنات میں تصرف کرنے والا، اور نہ جانے کتنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا آج ایسے مشرکوں اور کافروں کو ہم نے اسلام کے نام پر اسلام کا قائد اور لیڈر بنا دیا جبکہ وہ کفر کے امام اور رہنما ہیں۔یہ سارا ظلم صرف دنیا کی چار دن کی زندگی کے لیے کیا جا رہا ہے۔کبھی یہ ظلم وطن کے مفاد میں کیا جاتا ہے اور کبھی قوم کے مفاد میں، کبھی جماعت کے مفاد میں تو کبھی مسلک کے مفاد میں، کبھی خاندان کے مفاد میںتو کبھی علاقہ اور شہر کے مفاد میں۔رب تعالیٰ نے کیا سچ فرمایا ہے :
( لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ اَوْ اَبْنَاء ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ)
'' جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور رسول کے مخالفین سے دوستی گانٹھیں۔ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں۔یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی مدد و تائید سے انہیں ہمکنار کیا۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے، یہی اللہ کی پارٹی ہے سن لو اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پائیں گے۔''
ہماری تحریکوں کے لیے کہف میں پناہ لینے والے ان نوجوانوں کے قصے میں بڑی عبرت ہے جن کا رب یوں تذکرہ کرتا ہے۔
( اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی) وہ کچھ جوان تھے، دین پر لبیک کہنے والے جوان ہی ہوا کرتے ہیں بوڑھوں پر اپنے ماحول کی چھاپ زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نئی بات مشکل ہی سے قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن پر خاندان اورمعاشرے کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
یہ نوجوان اپنے رب پر ایمان لے آئے، ان کا یہ ایمان ایسا پکا اور سچا تھا کہ اللہ نے ان کی راہنمائی میں اضافہ کردیا، بے شک اللہ ان کے ایمان میں اضا فہ کرتا ہے جن کا ایمان سچا ہو اور وہ عمل کے میدان میں اس سچائی کو ثابت کر دیں۔ (لِیَزْدَادُوْا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ) (الفتح:٤) ہم نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔یہ عمل کرنے سے بڑھتا ہے، جو ڈر کر بیٹھ گیا اور کہا کہ یہ عمل کا زمانہ نہیں ہے، تو خطرہ ہے، اس کا ایمان، آخر کار اس کے دل سے نکل نہ جائے۔
(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ اِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)
''ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو ارض و سماوات کا رب ہے ہم ا س کے سوا کسی الٰہ کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بعید از عقل بات ہوگی ''
(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ )
''ہم نے ان کے دل ایمان پر جما دئیے ''
ایمان کے بعد انعام ملتا ہے۔ انعام یہ ہے کہ اللہ دلوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ طواغیت کا خوف دلوں سے جاتا رہتا ہے، اللہ پر توکل ایمان کا ایسا مزہ دیتا ہے کہ پھر آدمی باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی گواہی دیتا ہے۔ وہ دعوت حقہ لے کراٹھے، انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلا ن کیا:
( رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)
اپنی قوم کو سنا دیا کہ ہما را رب تو وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے۔ جب رب وہی ہے تو الٰہ بھی وہی ہے، تو پھر اس کے سوا کسی الٰہ کو نہ پکاریں گے۔ ہمیشہ قوموں نے رب ایک مانا ہے الٰہ کئی بنائے ہیں۔ لارب الا اللّٰہ پر کفار مکہ کا ایمان تھا لیکن انہوں نے الٰہ کئی ایک بنا رکھے تھے۔الٰہ کہتے ہیں جس کی عبادت اور تعظیم کی جائے،جس کی اطاعت کی جائے، جس کے سامنے دل اور عمل سے ذلیل ہوکر اپنے آپ کو بچھادیاجائے۔ انہوں نے کہا:
( لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)
ہم اس کے علاوہ کسی کی پکار نہ لگائیں گے۔ پکار کا شرک سب سے پہلا شرک ہے۔ کیونکہ تکالیف میں پکار لگانااورمشکلات میں کسی نہ کسی کا سہارا تلاش کرناہر انسان کی ضرورت ہے۔ جنگل کے انسان کو بھی اپنے دشمن کا خوف ہوتاہے یا کوئی نہ کوئی ضرورت لا حق ہوتی ہے۔ جب ضرورت وخوف میں وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بڑی چیز کی پناہ پکڑتا ہے اگرموحدہو تو آسمان و زمین میںغور کرکے اس کوبنانے والے کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور اگر کو تاہ نظر ہے تو کسی شجر و ہجر(جس کے اندر وہ کوئی کرشمہ دیکھتا ہے) کے سامنے جھک جاتا ہے، اسی شرک کا ان مومن جوانوں کو سامنا تھا، انہوں نے قوم و علاقہ کا کوئی مفاد خاطر میں لائے بغیر صاف صاف اعلان کیا :
(ہٰؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ اٰلِہَةً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا)
''یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھاہے، یہ ان پر واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔''
ہماری قوم نے کئی الٰہ بنا لیے۔ الوہیت (حاجت روائی و مشکل کشائی )کے لیے انھوں نے اللہ کو دور جانا اور غیر اللہ کو قریب، اس لیے کسی کو بارش اورکسی کو جنگ کا الٰہ بنا لیا۔ان کی الو ہیت پریہ کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ؟اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا قوم کو صاف صاف بتا دیا کہ تم شرک کے راستے پر ہو، یہی قوم کی خیر خواہی ہے۔ شرک کرنے والوں سے فنڈ اور ووٹ لے کر جنت کی بشارت دینا، انہیں عالم دین ہو نے کا تأثر دینا، ان کی جماعتوں کو اسلامی جماعتیں باور کروانا اوراُن کی جدو جہد کو اسلام کی خدمت کہنا درحقیقت جہاں اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے وہاں اُن کے ساتھ بھی بدخواہی کرنا ہے۔اگر مشرک کو یہ صاف صاف بتلا دیا جائے کہ تو اگر اسی حال میں مر گیا تو جہنم میں جائے گا، نہ تیرا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور نہ تجھے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، نہ تجھ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کرنا درست ہے اور نہ تیرے پیچھے نماز ادا کرناتو شاید وہ فکر کرے اور شرک سے توبہ کرلے۔اسی لیے ان اللہ والوں نے اپنی قوم کو صاف صاف کہہ دیا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو کہ اُس کے کئی شریک ہیں۔
(وَاِذِاعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہَ فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحّمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)
''اور اب جب تم نے اپنی قوم اور اور ان معبودوں سے جن کی یہ عبادت کرتے ہیں کنارہ کر لیا ہے تو آئو اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملے میں آسانی کر دے گا۔''
(وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہ)
یہاں اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ سے پہلے اُن کے پجاریوں سے کنارہ کشی کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ بت تو کوئی قوت نہیں رکھتے۔ معاشرے کی اصل قوت تو مشرکین ہیں جن سے دشمنی مول لینا مشکل ہوا کرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جس کے اندر صحیح معنوں میں ایمان داخل ہوگیاپھر وہ شرک برداشت نہیںکر سکتا۔ جب حالت یہ ہوکہ نظر آرہا ہو کہ میں اتنا کمزور ہوں کہ اگر میں یہاں رہا تو ایک نہ ایک دن یہ ظالم مجھ سے شرک کروا کر چھوڑیں گے ، تب ہجرت کرنا اور قوم سے علیحدہ ہونا واجب ہے۔ایسا نہ کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کتنے ہی نیک لوگوں نے کہا کہ اگر طاغوت کوئی نیک کام کرواتا ہے تو کر لینے میں کیا حرج ہے ؟ طاغوت طاقتور تھا اور یہ کمزور تھے۔ یہ ا س کے چنگل میں آگئے اب اتنا مجبور ہوئے کہ انھیں ان لوگوں کو اسلامی رہنما کہنا پڑا جو اسلام کے اندر ایک دھبہ ہیں، جو شرک کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، جو قرآن و سنت سمجھنے کے باوجود شرک کی وکا لت کرتے ہیں، وہ لوگ جو صحابہf کو گالی نکالتے ہیں اور قرآن کو بدلی ہوئی کتاب کہتے ہیں۔ توحید کے دعویداروں کو انھیں اپنا بھائی کہنا پڑا۔ یقینا اصحاب کہف بصیرت والے تھے جنہوں نے کہا تھا :
(اِنَّہُمْ اِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ اَوْ یُعِیْدُوکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَن تُفْلِحُوا اِذًا اَبَدًا)
''اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں رجم کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے اس صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔''
اس لیے طواغیت اورمشرکوں سے محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کے بارے میں کہنا کہ وہ توحید کے زبردست داعی ہیں فہم توحید سے جہالت کی دلیل ہے۔یا د رکھیے کوئی توحید بیان کرتا ہو اور طواغیت اور ان کے اولیاء اس کی عزت بھی کرتے ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ یا تو یہ تحریک اور شخص توحید بیان نہیں کرتا یا پھر جو اس کی عزت کرتے ہیں وہ سارے موحد ہو چکے ہیں۔ اور اگر ایسا ہے پھر تو مسئلہ حل ہو گیا یعنی اسلام آگیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی توحید پر قائم رہنے اوراس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی پرہمارا خاتمہ فرمائے۔
( فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحْمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)
''آؤ اس غار میں پنا ہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی کر دے گا۔''
اللہ کی رحمتیں، ملکوں کا دفاع، معیشت میں ترقی، امن و سکون، خوشحالی اور خوشیاں صرف ایک اللہ پر ایمان لانے میں مضمر ہیں۔جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔اس ملک اور اس کی عوام کے حقیقی محسن اورنجات دہندہ وہی لوگ ہیں جو انہیں ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔اس کے سوا تمام راستے ہلاکت و بربادی کے ہیں۔جب بھی ہمیں دنیا کی چکا چوند، مایوسی اور دشمن کے ہجوم کے غم نے گھیرا ہو تو یہ دعا کرنی چاہیے پس ہما رے لیے رحمت الٰہی کے دروازے کھل جائیں گے۔
(رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا)
''اے ہمارے رب !اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔(آمین)
۱ بخاری :٣٦١٤، مسلم:٧٩٥.
۲ (مسند احمد ) جبکہ مسلم کی روایت میں آخری دس آیات کا ذکر ہے۔ (مسلم:٨٠٩)
سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء یہ سورہ مبارکہ ز...
نمایاں پوسٹ
سورة الکہف : عبرت و نصیحت کے چار قصے
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم نزول قرآن کا مقصد: الله تعالی نے قرآن مجید کو نازل کیا تاکہ اس کی تلاوت کی جائے، اس کی آیات میں غور...
حالیہ تبصرے
مقبول اشاعتیں
بلاگ محفوظات
-
▼
2023
(54)
- ◄ اپریل 2023 (22)
-
▼
فروری 2023
(16)
- سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی:
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی سماجی زندگی
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ آپ ﷺ کی عائلی (خانگی) زندگی
- قرآن فہمی سیریز ۔۔ 01
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق
- سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ غیرمسلموں کے ساتھ آپ ﷺ کا سل...
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- سیرت النبی ﷺ ۔۔۔ غیروں کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کا حُسن...
- تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ ح...
- قرآن فہمی کی اہمیت
-
◄
2022
(3)
- ◄ اکتوبر 2022 (1)
- ◄ ستمبر 2022 (1)
- ◄ جولائی 2022 (1)
-
◄
2021
(6)
- ◄ اکتوبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (4)
- ◄ فروری 2021 (1)
-
◄
2020
(199)
- ◄ نومبر 2020 (10)
- ◄ اکتوبر 2020 (6)
- ◄ جولائی 2020 (22)
- ◄ اپریل 2020 (15)
- ◄ فروری 2020 (27)
- ◄ جنوری 2020 (27)
-
◄
2019
(143)
- ◄ دسمبر 2019 (35)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (35)
- ◄ ستمبر 2019 (29)
- ◄ جولائی 2019 (3)
-
◄
2018
(21)
- ◄ دسمبر 2018 (1)
- ◄ ستمبر 2018 (16)
- ◄ فروری 2018 (1)
- ◄ جنوری 2018 (1)
-
◄
2017
(4)
- ◄ اپریل 2017 (2)
- ◄ جنوری 2017 (1)