تدبر سورۃ الرحمن
از
استاد نعمان علی خان
پارٹ 6 (آیت 6)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔
اس آیت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؛
اللہ کہہ رہے ہیں کہ ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔یعنی ستارے اور درخت اللہ کے آگے سر تسلیم خم ہیں۔
نماز میں ہمارا سب سے عاجزانہ عمل سجدہ ہوتا ہے۔ جب ہمارے اندر کوئی غرور اور تکبر باقی نہیں رہتا اور ہم اپنی خوشی سے اپنا سر اللہ کے آگے رکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح ستارے اور درخت بھی اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
امام العوسی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ
جب ہم کوئی ٹوٹتا ہوا تارا دیکھتے ہیں تو وہ اللہ کو سجدہ کر رہا ہوتا ہے
اور جب کسی درخت پر پھل لگتا ہے تو اس کی شاخیں جھک جاتی ہیں جیسے وہ اللہ کو سجدہ کر رہی ہوں۔
لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ عربوں کو صحرا میں ستارے اور درخت دلکش لگتے تھے اور وہ انہیں دو چیزوں کا نظارہ کرتے تھے ۔ وہاں پہاڑ یا دریا ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
صحرا میں اگر دن کے وقت کوئی درخت نظر آجائے تو ان کو بھلا معلوم ہوتا تھا اور رات میں وہ ستاروں کی مدد سے راستے تلاش کرتے تھے۔
اسی لئے ان دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
یعنی وہ دو چیزیں جن کا وہ احترام کرتے تھے؛ "وہ گرنے والی ہیں"
یعنی وہ دو چیزیں جو عربوں کو دلکش لگتی تھی وہ بھی گرنے والی ہیں ،ختم ہونے والے ہیں۔ ۔
قیامت کے روز ستارے اور درخت سب سجدے میں گر جائیں گے۔۔
کچھ کہتے ہیں کہ یہ دنیا میں ابھی بھی ہو رہا ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ روز آخرت کی بات ہو رہی ہے
قیامت کے روز ستارے کرنے لگیں گے جیسے وہ سجدے میں گر رہے ہوں اور وہ درخت بھی گر جائیں گے ۔ ہر چیز ختم ہوجاۓ گی ۔
وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ يَسۡجُدَانِ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں