تدبر سورۃ الرحمن
از
نعمان علی خان
پارٹ 4 (آیت 4)
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ
اب اللہ انسانوں کی سب سے منفرد خوبی کا ذکر کر رہے ہیں۔۔
اسی نے اس کو بولنا سکھایا
بیان = الگ کرنا
البیان کا مطلب ہے لفظوں کو واضح طور پر الگ الگ ادا کرنا
کیونکہ جب ہم چیزوں کو الگ الگ کرتے ہیں تو بات زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے
بیان سے لفظ بٙیْنٙ نکلا ہے ۔ (درمیان)
دو چیزوں کے درمیان فرق
عربی زبان میں ایک سائنس ہے "البلاغة" جس کا مطلب ہے خوش بیانی، فصاحت، نفاست (Eloquence)
یعنی البیان کا ایک اور مطلب ہے فصاحت یا فصیح ،نفاست ،خوش بیانی.
ہماری زبان میں جتنی بھی نفاست، خوش بیانی اور فصاحت یا بلاغت ہے ، وہ صرف اللہ کی طرف سے ہے۔
کیا وجہ ہے کہ اللہ نے "البیان" کے لئے "علم البیان" یعنی "بلاغہ " کو منتخب کیا. کیونکہ وہ سب سے زیادہ نفیس زبان ہے ساری زبانوں میں سے ۔
بیان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اچھائی کو برائی سے الگ کرنا ، سچی بات کو جھوٹی بات سے الگ کرنا ، منطقی بات کو غیر منطقی بات سے الگ کرنا۔ ۔
انسانوں کو اللہ نے یہ خوبی دی ہے کہ وہ چیزوں کو بہتر طریقے سے بیان کر سکتے ہیں جیسے کوئی دوسری مخلوق نہیں کر سکتی ۔۔۔
نظریات، پیراگراف، ابواب، موضوع، کتابیں، سائنس وغیرہ کو الگ کرنے کی صلاحیت
اللہ نے ہمیں چیزوں کو الگ الگ کرکے واضح کرنے کی خوبی کیوں دی ہے؟
آج دنیا کا سارا علم اس "بیان" کی وجہ سے اتنا واضح ہے ۔
اگر ہمارے اندر یہ صلاحیت نہ ہوتی تو ان چیزوں کو آسانی سے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے۔۔
ہم چیزوں کی درجہ بندی کرتے ہیں ان کی اقسام بناتے ہیں,ایک قسم کی چیزوں کو دوسرے قسم کی چیزوں سے الگ کرتے ہیں ۔۔۔
جیسے فزکس کیمسٹری ، بائیولوجی ,پروگرامنگ۔
اور اسی طرح سارے سائنسی علوم ترقی کرنے کے قابل ہوئے ہیں ۔یہ خوبی اللہ نے صرف انسانوں کو دی ہے سبحان اللہ ۔۔۔
اگر ہمارے جسم پرندوں کی طرح ہوتے تو ہم اپنے علم کو لکھنے یا بیان کرنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔
وہ سارا علم ہمارے دماغ میں ہی ہوتا لیکن ہم اس کو کہنے کے قابل نہ ہوتے ۔۔
اس آیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا لیکن کونسی زبان بولنا سکھائی؟
اللہ نے یہ نہیں کہ میں نے اردو پنجاب یا بنگالی سکھائی۔
قرآن کس نے سکھایا؟
اللہ نے۔
زبان کس نے سکھائی؟ اللہ نے ۔
جب ہم قرآن کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ نے سکھایا ہے پھر ہمیں باقی زبانوں کی بھی عزت کرنی چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمیں اللہ نے سکھائی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم کسی کی زبان یا لہجے کا مذاق نہیں اڑا سکتے ۔
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا فرق یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں
(30:22)
وَمِنۡ ءَايَـٰتِهِۦ خَلۡقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفُ أَلۡسِنَتِڪُمۡ وَأَلۡوَٲنِكُمۡ ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّلۡعَـٰلِمِينَ
اور اسی کے نشانات میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہلِ دانش کے لیے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
ہمیں کسی کے رنگ یا اس کی نسل یا اسکی زبان کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔۔
ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دیکھو یہ کس طرح سے بول رہا ہے، اس کو انگلش نہیں بول نہیں آتی ،دیکھو کیسے پنجابی بول رہا ہے، اس کا رنگ دیکھو کتنا کالا ہے ،ہم کسی کو بھی حقارت سے نہیں دیکھ سکتے۔
ہمارے رنگ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں
When we are Making Other's Skins .. We Are Making Fun Of Allah Ayaat..
اب شروع سے لے کے ان چار آیات پر غور کریں
الرحمن علم القران خلق الانسان عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ
الرحمن ۔ اللہ کی سب سے بڑی محبت اور رحمت کی نشانی کیا ہے کہ اس نے قرآن سکھایا.
کس کو سکھایا؟
خلق الانسان
اللہ کو معلوم تھا کہ انسانوں کو باتیں بار بار یاد کروانے کی ضرورت پڑے گی اسی لیے اللہ نے ہمیں ایسی کتاب تھی جس میں باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں
پھر اللہ کہتا ہے کہ میں نے انسانوں کو بولنا سکھایا چیزوں کو الگ الگ کرنا سکھایا
اور ان کو یہ اسی لیے سکھایا کہ ایک دن اللہ نے انسانوں کے پاس ایسی کتاب بھیجنی ہے جو ہمیشہ کے لیے حق اور باطل کو الگ کر دے گی، ہدایت کو گمراہی سے الگ کر دے گی ۔۔
اگر انسانوں کے پاس البیان نہیں ہے , وہ القرآن کی قدر نہیں کرسکیں گے ..
ایسا لگ رہا ہے کہ اللہ کہہ رہا ہے کہ اصل میں جو تم بول سکتے ہو اور باتوں کی درجہ بندی کرسکتے ہو، تمہیں یہ خوبی اسی لیے دی گئی ہے کہ ایک دن تم اللہ کی کتاب کو سمجھ سکو۔
استاد نعمان علی خان
جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں