سیرت النبی کریم ﷺ
غیروں کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کا حُسنِ سلوک:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سارے مسلمانوں کےلئے تونمونۂ عمل ہے ہی، پر غیروں کے لئے بھی اس میں کچھ کم درس نہیں. چند نمونے پیش ہیں۔
زخم کھا کے بھی جس نے دعاء دی:
اُحد کا میدان ہے، لات ومنات کے پجاریوں سے جنگ ہورہی ہے، دشمنانِ خدا زمین پر اکڑ رہے ہیں، ”اللہ واحد“ کہنے والوں کا صفایا کرنے کےلئے اکٹھا ہوگئے ہیں، رسول رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مسعود ان کےلئے سب سے بڑی نفرت کی چیز ہے، ایمان و کفر کی فیصلہ کن جنگ ہورہی ہے، اتنے میں ایک شقی نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا، چہرۂ انور زخمی ہوگیا، خود (جنگی ٹوپی) کے دو حلقے رخسارِ مبارک میں گھس گئے، اور اتنے اندر اترگئے کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے بمشکل انہیں دانتوں سے نکالا، اسی میں ان کے دانت بھی کام آگئے، چہرۂ انور سے مسلسل خون جاری تھا، درد و کرب سے بے چین تھے، اسی اثنا میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ سے عرض کیا: ”یارسول اللہ! کاش آپ ان بد بختوں کےلئے بد دعاء فرما دیتے، تاکہ یہ اپنے کیفرِ کردار تک پہنچ جاتے“ لیکن قربان جائیے اس ذات پر کہ جس نے سب کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”میں لعنت و بددعاء کرنے کےلئے نہیں آیاہوں؛ بلکہ راہِ راست پر بلانے کےلئے آیا ہوں اور خدا نے مجھے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے دعاء فرمائی: ”بارِ الٰہا! میری قوم کو بخش دے، اور ان کو راہِ راست کی ہدایت فرما، کیوں کہ یہ مجھے جانتے نہیں۔“ (شفا،ص:۴۷) بحوالہ نقوش رسول نمبر۴/۱۷۹)
سفر میں بدسلوکی کرنے والے اعرابی کے ساتھ آپ کا سلوک:
خادم دربارِ نبوت حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ: میں ایک سفر میں رسول اللہ کے ہم رکاب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر زیب تن فرمائی تھی، جس کی کور موٹی تھی، ایک اعرابی آ دھمکا اور چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ چادر کی کور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن اور شانوں پر نشان پڑگئے، آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تواس نے بدویانہ لہجے میں کہا: ”خدا کا دیا ہوا مال جو تیرے پاس ہے، اس میں سے میرے دونوں اونٹوں پر لاد دے اور یہ بھی سن لے! کہ جو کچھ تو مجھے دے گا وہ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں۔“
اس بدوی کی تلخ نوائی کو بھی آپ نے دامن عفو میں جگہ دی، اور خاموش رہے، اسے صرف اتنا کہا کہ: بے شک مال تو اللہ کا ہے، اور میں اس کا بندہ ہوں، مگر اے اعرابی! تو بتا کیا تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے، جو تونے میرے ساتھ کیا ہے؟ اس نے کہا: ”نہیں“، آپ نے پوچھا: کیوں نہیں؟ اس نے بے باک ہوکر کہا: ”اس لیے کہ تو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا“، یہ سنتے ہی رسول اللہ کو ہنسی آگئی اور آپ نے حکم دیا کہ : اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک پر کھجوریں لاد کر دے دی جائیں۔
ایک بد کلام یہودی کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک:
زید بن سعنہ یہودی سے کسی موقع پر آپ نے قرض لیا تھا اور واپسی کی ایک تاریخ متعین تھی، لیکن وہ مقررہ تاریخ سے تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضا کرنے آگیا اور گستاخانہ انداز میں شانہٴ مبارک سے چادر کھینچتے ہوئے بد زبانی شروع کردی، کہنے لگا کہ: ”تم بنی عبدالمطلب بڑے نادہندہ اور وعدہ خلاف ہو“، اس کی بدکلامی پر برابر رسالت مآب مسکرا رہے تھے، حضرت عمر وہیں موجود تھے، ان کو برداشت نہ ہوا، انہوں نے جھڑک کر اسے بے ہودہ گوئی سے روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ نے روکا اور فرمایا: ”اے عمر! تم نے ہم دونوں سے وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا، اور جس کی ہم کو ضرورت تھی، یعنی مناسب یہ تھا کہ تم اسے جھڑکنے کے بجائے مجھے ادائے قرض اور وعدہ وفائی کی تلقین کرتے اور اُسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے، یہ کہہ کر آپ نے حضرت عمر فاروق کو ارشاد فرمایا کہ: اس کا قرض ادا کردیں اور اس کو جھڑکنے کے معاوضہ میں مزید بیس صاع (ساٹھ کلو سے زائد) جَو دے دیں“
اس طرزِ عمل، خوش خلقی، اور حسن ادا سے یہودی بہت متاثر ہوا، بالآخر وہ مسلمان ہوگیا، روایتوں میں آتا ہے کہ: وہ کہا کرتا تھا کہ نبی آخر الزماں میں مجھے ساری نشانیاں معلوم تھیں، البتہ دوباتوں کو میں نے آزمایا نہیں تھا: ایک یہ کہ آپ کا حلم آپ کے غصہ سے زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ: ان پر جتنی سختی کی جائے اتنی ہی نرمی و مہربانی بڑھتی چلی جاتی ہے، ان دو علامتوں کو بھی میں نے بڑی وضاحت سے دیکھ لیا، اب آپ کی رسالت پر مجھے کوئی شبہ نہیں۔
زہر دینے والی عورت کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک:
زینب بنت حارث نامی خیبر کی ایک یہودی خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری پیش کی، جس میں اس نے زہر ملادیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کھانے لگے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ہاتھ روکنے کے لیے ارشاد فرمایا اور کہا کہ:
گوشت میں زہر ملا ہوا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حارث کو بلاکر پوچھا تو اس نے یہ عذر پیش کیا کہ میں نے آپ کے دعویٴ نبوت کی تصدیق کے لیے ایسا کیا ہے، اس کا غلط خیال تھا کہ پیغمبر کو زہر اثر نہیں کرتا۔
قربان جائیے آپ کی ذات والا صفات پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جان لیوا تدبیر کرنے والی عورت کو بھی معاف کردیا، حالانکہ اسی زہر کی وجہ سے بعض صحابہ کرام وفات پاگئے، اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی زہرکا اثر ہوگیا تھا، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے کوئی باز پرس نہ کی۔ (بخاری شریف:۱/۴۴۹)
فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک:
جب مکہ فتح ہوا تو حرم کے صحن میں قریش کے تمام سردار مفتوحانہ انداز میں کھڑے تھے، ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کے مٹانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاچکے تھے، وہ بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو خود اس پیکر قدسی کے ساتھ گستاخیوں کا حوصلہ رکھتے تھے، وہ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلواریں چلائی تھیں، وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے، ان کو جلتی ریتوں پر لٹاتے تھے، دہکتے شعلوں سے ان کے جسم کو داغتے تھے، آج یہ سب مجرم سرنگوں سامنے تھے، پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں، مگر قربان جائیے محمد عربی ﷺ پر کہ اس نے ان تمام جرائم سے قطع نظر، جانی دشمنوں پر ہر طرح سے غلبہ کے باوجود ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور اپنی بلند اخلاق کا کیسا دائمی اور عالمگیری نمونہ دنیا والوں کے لئے قائم کردیا؟ اس سلسلے میں مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے قریشیو! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم و شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: ”لا تثریب علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء“ آج تم پر کوئی الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو (نبی رحمت:۴۵۷)
ابوسفیان جو غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق وغیرہ میں لڑائیوں کا سرغنہ تھا، جس نے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرایا، کتنی دفعہ خود حضور صلى الله عليه وسلم کے قتل کا فیصلہ کیا، جو ہر ہر قدم پر اسلام کا سخت ترین دشمن ثابت ہوا، لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباس رضى الله تعالى عنه کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے آتا تھا تو اس کا ہرجرم اس کے قتل کا مشورہ دیتا ہے، مگر رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کریمانہ اور عفو عام، ابوسفیان سے کہتے ہیں کہ ڈر کا مقام نہیں، محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہیں، پھر حضور صلى الله عليه وسلم نے نہ صرف ان کو معاف فرما دیا، بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ: ”من دخل دار أبی سفیان کان آمناً“ جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امن ہے۔
بلند اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی پیش کرسکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرض وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ فضل خاص ہے جو اللہ رب العزت نے آپ صلى الله عليه وسلم کو عطا کیاتھا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں