سیرت النبی کریم ﷺ
حضور ﷺ اور شہری منصوبہ بندی:
ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ (صحیح بخاری ) ان نو واردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نو آبادی (colonization )اور شہری منصوبہ بندی (town planning ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہورہے تھے، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں، جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے۔
رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی، روحانی بالیدگی، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کا سبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا، دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔
مدینة الرسول، ایک لحاظ سے ”مہاجر بستی“ تھی، گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے، عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نا منظور کردیا اور انہیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی، ریاست کی نو آبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے، بے سرو سامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے، بلکہ ان نو واردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا، گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انہیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا، تا آں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہو جاتا، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے۔ اولاً: یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں، مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا، جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پزیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے، یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا، البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے، (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )
عہد نبوی صلى الله عليه وسلم کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک، مشرق میں بقیع الغرقد تک اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، جنہیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰) پانچ سو ہاتھ مقرر کی اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے۔
ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طرف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے، دوسری طر ف یہ کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا، تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ (نسائی، کتاب الصلاة )
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انہیں زریں اصولوں پر جنہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایا تھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں