قرآن فہمی کی اہمیت
از
استاذہ فرحت ہاشمی
♦️ قرآن سیکھنا چاہتے ہیں
کسی سائل نے شیخ سے کہا:
میں قرآن سیکھنا چاہتا ہوں لیکن میں زندگی کی مصروفیات مسلسل کاموں کی وجہ سے سستی اور غفلت کا شکار ہوجاتا ہوں ، تو آپ مجھے کیا نصیحت کریں گے ؟!
شیخ نے جواب دیا :
جان لو کوئی بھی قرآن آسانی سے نہیں سیکھتا، لازما اس کو آزمایا جاتا ہے اس کا امتحان ہوتا ہے!
لازما سامنے والا کتاب اللہ سیکھنے والے کو سختی سے بھینچتا ہے جیسے جبريل عليه السلام نے رسول الله ﷺ کو تین مرتبہ بھینچا پھر چھوڑ دیا پھر اس کے بعد قرآن پڑھا
پھر بھینچنے کے خوف کے بعد اللہ نے ان سے یہ نہیں کہا : سو جاٶ یا محمد یہاں تک کہ تم سے خوف دور ہوجائے!
بلکہ انہیں اس پکار سے پکارا جسے ہم ہميشہ قرآن مجيد ميں تلاوت کرتے رہيں گے جب تک ہم زندہ ہيں:
"يا أيها المدثر قم فأنذر"
"يا أيها المزمل قم الليل إلا قليلاً"
اسی طرح ہے قرآن ..
(وهكذا من يريد أخذه)
اسی طرح اس کے ساتھ بھی معاملہ ہوگا جو بھی اس کو لینے والا ہوگا ..
ان کومشکلات گھيرتی ہيں پھر ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے پھر بھینچا جاتا ہے پھر چھوڑ ديا جاتا ہے تو وہ اس کے بعد قرآن سے لطف اٹھاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنا مقام دیکھ لے .
تو اے وہ جو اہل القرآن میں سے ہونا چاہتا ہے وہ کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے !
آپ نے کیا سمجھا کہ آپ کو تاج پہنایا جائے اور آپ اہل اللہ اور اس کے خاص بندوں کی دوستی سے حصہ پائیں حالانکہ ابھی اللہ نے آپ کے اخلاص ,کوشش, آپ کی پابندی آپ کے غور سے سننے ,آپ کے دہرانے اور سننے کو نہیں جانا ؟!
جان لیں اللہ کے تاج بہت مہنگے ہیں..
اور وہ انہی کو تاج پہناتا ہے جو سخت صبر کرنے والے ہوتے ہیں..
اور نرم دل ہی کو اس سے حصہ ملتا ہے ..
اور اسے صبر کرنے والوں اور بہت خوش نصیبوں کو ہی دیا جاتا ہے۔
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
▪️ علم کے لئے نکلنے والے کو نبی ﷺ کی نصیحت کے مطابق خوش آمدید کہا جاتا ہے.
▪️ علم کے لئے آنا کوئی عام چیز نہیں ہے بہت خاص ہے اس کی تلاش میں فرشتے بھی رہتے ہیں.
▪️ علم کا راستہ جنت کا راستہ ہے علم کو حاصل کرنے سے مقصد دنیا کا نہیں ہو بلکہ اللہ کو راضی کرنا ہو۔
▪️ ایسی مجالس جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، قرآن پڑھا جاتا ہے، سیکھا جاتا ہے اور سکھایا جاتا ہے ایسی مجالس میں شرکت بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔
▪️ قرآن کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ، اسے سیکھنا ، براہ راست پڑھنا ، اس پر غور و فکر کرنا ، اس کو اپنے عمل کے لئے مشعل راہ بنانا ایک نہایت عظیم کام ہے اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
▪️ قرآن ہم سب پر اللہ کا فضل اور اللہ کی رحمت ہے اس وقت ہم قرآن کے موتی جمع کر رہے ہیں اور دوسرے لوگ ہو سکتا ہے ڈالرز جمع کر رہے ہوں کسی اور چیز کو اکٹھا کر رہے ہوں یہ قرآن ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کر رہے ہیں
▪️ قرآن کا علم سب سے اشرف ہے سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ یہ اللہ کی کتاب کا علم ہے یہ کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہے ۔
♦️ شیخ صالح المرجم کہتے ہیں :
قرآن کا پڑھنا ، اس کا سیکھنا ، سکھانا ، اس کا حفظ کرنا ، اس کو حفظ کروانا ، اس کا مطالعہ کرنا ، اس کی تعلیم دینا یہ سب سے افضل و اشرف کام ہیں ۔
سب سے اشرف ہے جس میں وقت خرچ کرنا چاہیے جس میں اپنا مال لگانا چاہیے ۔
اہل قرآن خواہ وہ قرآن سیکھنے کے اعتبار سے ہوں یا سیکھانے کے اعتبار سے وہ تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ اس کو حفظ کرنے کی صورت میں ، اس کا مطالعہ کرنے کی صورت میں ، فہم حاصل کرنے کی صورت میں جو لوگ مصروف ہوتے ہیں وہ اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے شمار کیے جاتے ہیں ؔوی آئی پی" لوگ ہیں اللہ کے نزدیک بہت بڑا مرتبہ اور مقام رکھتے ہیں ۔
▪️ علم کا ملنا اللہ کی طرف سے بھلائی ہوتی ہے لیکن دین کا علم سیکھنا یہ اس بندے پر اللہ کا فضل اور رحمت ہوتی ہے ۔
کسی سلف کا قول ہے :
جب میں اپنے وقت میں بے برکتی محسوس کرتا ہوں تو قرآن کی تلاوت بڑھا دیتا ہوں کیونکہ قرآن بابرکت کتاب ہے۔
(تلاوت کا مطلب سمجھ کر پڑھنا بھی ہے۔)
♦️لیکن یہ کتاب آئی کس لیے ؟
آیات میں غور و فکر کے لیے۔
اور آیات میں غور و فکر ہو نہیں سکتا جب تک اس کے معنی نہیں آتے مطلب نہیں آتا۔
قرآن کی تلاوت پہلا قدم ہے لیکن اس تلاوت سے مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لیے کتاب آئی ہے اور مقصد تدبر ہے ، اہل عقل و دانش اس سے نصیحت حاصل کریں۔
اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جو آپ پڑھ رہے ہیں آپ کو اس کا معنی بھی سمجھ آ رہا ہو۔
♦️ حسن بصری کہتے ہیں:
قرآن اس لیے نازل کیا گیا تاکہ اس پر غور و فکر کیا جائے اور عمل کیا جائے لیکن لوگوں نے محض اسکی تلاوت کو اپنا عمل بنا لیا۔
غور و فکر کی صلاحیت زیادہ ہو گی قرآن کو سن کر
کچھ چیزیں پڑھ کر آتی ہیں ، کچھ چیزیں سمجھ کر آتی ہیں اور کچھ چیزیں سن کر آتی ہیں پڑھ کر ایک طریقے سے سمجھ آتا ہے لیکن سن کر عجب معنی ہی کھل جاتے ہیں الگ طرح سے اثر رکھتا ہے اور سننے پر بھی اجر ہے۔
♦️ ابن القیم کہتے ہیں :
جہاں تک قرآن میں غور و فکر کا سوال ہے تو اس سے مراد ہے کہ دل کی نگاہوں کو اس کے معنی کے اوپر خوب گاڑ دینا اور اس کے سمجھنے میں اپنی تمام فکر کو یکجا کرنا قرآن کے نازل ہونے کا یہی مقصد ہے محض تلاوت مقصد نہیں ہے جو فہم و تدبر کے بغیر ہو ۔
کیا قرآن کے لیے دل کے تالے نہیں کھولیں گے؟
قرآن کے لیے دل کو حاضر نہیں کریں گے ؟
بیکار چیزوں کو دل سے باہر نکالیں اور اصل چیز کو دل میں ڈالیں۔
▪️ جتنا قرآن کو شوق سے سیکھیں گے ، محبت سے سیکھیں گے ، توجہ سے سیکھیں گے دل کے اندر سے ہر طرح کی بیکار چیزیں، خواہشات اور فضولیات نکلنا شروع ہو جائیں گی۔
♦️ ابن کثیر کہتے ہیں :
جو اس قرآن کو پڑھنے سیکھنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اللہ نے اس کے لیے اس کے الفاظ کو بھی آسان بنائے اس کے معنی کو بھی آسان بنایا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کرسکیں۔
اصل چیز ارادہ ہے نیت ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟
♦️ ابن رجب کہتے ہیں :
نفلی اعمال میں سے عظیم عمل جس کے ذریعہ انسان اللہ کا تقرب حاصل کرسکتا ہے وہ قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنا ہے اس کو تدبر کے ساتھ پڑھنا ہے ۔
▪️ اللہ تعالی کو اپنے کلام سے بہت محبت ہے لہذا جو لوگ اس کے کلام کو پڑھیں گے پڑھ کر اللہ کا قرب حاصل کریں گے وہ سب سے آگے ہو جائیں گے
کیونکہ یہ سب سے عظیم چیز ہے۔
♦️ قرآن کو پڑھنے کے فوائد :
🔹شفا
🔹 رحمت
🔹 اللہ کی محبت اور قرب پانے کا ذریعہ
🔹فرشتوں کی محبت حاصل ہوتی ہے
🔹تمام مخلوق طالب علم کے لیے بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں
🔹فرشتے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں
🔹قرآن کی بدولت ہدایت بھی ملتی ہے
🔹دل کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔
🔹 شفا 3 طرح سے :
▪️ گمراہی سے شفا ہے ہدایت پا کر
▪️ بیماری سے شفا ہے جسمانی ہو یا روحانی
▪️ فرائض اور احکام معلوم کرنے کے بارے میں شفا ہے کیونکہ انسان کے اندر سوال ہوتے ہیں اور جواب مل کر وہ خوش ہو جاتا ہے۔
🔹 پریشانی ہم و غم گھٹن تنگی یہ بھی دور ہوتے ہیں
🔹قرآن سے مال اور اولاد ، وقت میں برکت ہوتی ہے ۔
🔹قرآن کے ذریعے بلندی اور عزت ملتی ہے ۔
🔹صاحب علم آسمان اور زمین میں محبوب ہوتا ہے اللہ محبت کرتا ہے فرشتے محبت کرتے ہیں اور مخلوق بھی محبت کرتی ہے ۔
♦️ کعب کہتے ہیں :
قرآن کو لازم پکڑو کیونکہ یہ عقل کی تیزی علم کی روشنی ہدایت کا سرچشمہ ہے رحمان کی طرف سے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے نئی کتاب ہے۔
♦️ محمد بن کعب کہتے ہیں :
جو قرآن پڑھتا رہتا ہے وہ عقل سے سرفراز رہتا ہے چاہے وہ سو برس تک پہنچ جائے ۔
♦️ بعض مفسرین کہتے ہیں :
ہم قرآن پڑھنے میں مشغول ہوئے تو ہمیں دنیا میں برکات اور رحمتوں نے ڈھانپ لیا .
♦️ ابن عمر کہتے ہیں :
علم کی مجلس عبادت سے بہتر ہے فقہ کی مجلس 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
( ایسی باتیں سیکھ لی جاتی ہیں کہ ایک دم درجات بلند ہوجاتے ہیں )
♦️ امام شافعی کہتے ہیں :
علم کی مجلس نفل نماز سے بہتر ہے فرائض ادا کرنے کے بعد علم حاصل کرنے سے افضل کوئی چیز نہیں۔
🔹یہ وہ چیز ھے جس کا فائدہ انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے ۔
نیک عمل کی خوشبو ایسی ہوتی ہے جو دوسروں تک ضرور پہنچ جاتی ہے خواہ ہم نہ بھی بتائیں کسی کو وہ دوسرے کے دل تک پہنچ جاتی ہے لوگ خاموشی سے inspire ہو رہے ہوتے ہیں اور آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا ۔
اور اسی طرح جب ہم اللہ سے دور ہوتے ہیں ، قرآن سے دور ہوتے ہیں ، دین سے دور ہوتے ہیں تو شیطان حاوی ہو جاتا ہے اور شیطانی اثرات بھی دوسروں تک پہنچتے ہیں کبھی بد اخلاقی کی شکل میں ، کبھی بدزبانی کی شکل میں ، کبھی برے رویے کی شکل میں کسی نہ کسی طرح وہ دوسرے تک ٹرانسفر ہوتے ہیں ۔
🔹اس لیے یہ نفع مند علم ہے جس کا سب سے پہلا نفع خود ہمیں ملتا ہے پھر ہمارے قریب والوں کو ملتا ہے اور زیادہ کوشش ہو تو دور والوں تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔
♦️ ابن جوزی کہتے ہیں :
جان لو کہ ابلیس کا لوگوں کو سب سے پہلا دھوکا یہ ہے کہ وہ ان کو علم سے روک دیتا ہے کیونکہ علم نور ہے پھر جب وہ علم کے چراغوں کو بجھا دیتا ہے تو وہ ان کو اندھیروں میں جیسے چاہے ٹوکریں لگواتا ہے۔
♦️ ابن ہبیرہ کہتے ہیں :
شیطان کی چالوں میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو قرآن کے غوروفکر سے نفرت دلاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس غور و فکر کے نتیجے میں ان کو ہدایت حاصل ہو جائے گی ۔
قرآن تو ہر دفعہ پڑھنے سے نیا ہی لگتا ہے
▪️ علم سے دوری غفلت کا باعث بن جاتی ہے
▪️ دل سخت ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔
💠 قرآن مجید سیکھنے کے آداب :
🔸اللہ کی رضا کے لئے علم حاصل کیا جائے
اگر رب راضی ہوگیا تو کسی چیز کی کمی رہے گی کیا ؟ پھر کوئی خسارا رہے گا ؟ پھر تو سب کچھ پا لیا۔
♦️ امام احمد کہتے ہیں :
جس کی نیت صحیح ہو تو علم کے برابر کوئی چیز نہیں ان سے کہا کہ نیت کیسے صحیح ہو ؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ سے اور دوسروں سے جہالت کو دور کرے ۔
یعنی اللہ کی رضا کے لئے سیکھیں مقصد یہ ہو کہ خود کو فائدہ پہنچانا ہے اپنی جہالت کو دور کرنا ہے
▪️ جہالت دو طرح کی ہے :
علم کا نہ ہونا ، علم ہے لیکن بھولا ہوا ہے
🔸علم کا حریص ہونا چاہیے
🔸 شوق ہونا چاہیے خوشی سے کریں
🔸علم سیکھنے میں حیا نہ کریں
🔸علم میں پختگی حاصل کریں
🔸کوئی غلطی بتائے تو ناراض نہ ہوں
🔸علم کی مجلس میں آگے بڑھیں
🔸علم کو عمل کے ذریعے محفوظ کرنا ہے۔
علم کا راستہ مشکل راستہ ہے اس لئے تو اجر زیادہ ہے نقصان کوئی نہیں
♦️ یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں :
جسم کی راحت سے علم حاصل نہیں ہوتا۔
( مشقت اٹھانی پڑتی ہے )
♦️ خطیب بغدادی لکھتے ہیں :
اے طالب علم میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ علم کو اخلاص نیت کے ساتھ حاصل کرنا اس کے مطابق عمل کرنے کے لئے نفس پر محنت کرنا بے شک علم درخت ہے اور عمل اس کا پھل ہے اس کا شمار علم والوں میں نہیں ہوتا جو اس پر عمل نہیں کرتا (وہ عالم نہیں کہلاتا)
علم والد ہے عمل اس کا بیٹا ہے علم عمل کے ساتھ ہوتا ہے
تم عمل کو فراموش نہ کرو جب تک تم علم سے وابستہ رہو
اور تم علم کو فراموش نہ کرو اگرچہ تم عمل میں سستی کیوں نہ کر رہے ہو دونوں کو ملا کر رکھو اگرچہ تمہارا نصیب ان دونوں میں سے کم ہو ۔
علم کے راستے کو چھوڑنا نہیں ہے۔
نوٹس از رحماء بنت وسیم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں