سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 130
کفار کا حملہ:
اس مبارزت کا انجام مشرکین کے لیے ایک برا آغاز تھا، وہ ایک ہی جست میں اپنے کئی بہترین شہ سواروں اور کمانڈروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس لیے انہوں نے غیظ وغضب سے بے قابو ہو کر یکبار گی حملہ کردیا۔
دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعا کرنے اور اس کے حضور اخلاص و تضرع اپنانے کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر جمے اور دفاعی موقف اختیار کیے مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں کو روک رہے تھے اور انہیں خاصا نقصان پہنچا رہے تھے، زبان پر أحد أحد کا کلمہ تھا۔
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت ومدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا یہ تھی:
*اللّٰھم انجزلی ما وعدتنی، اللّٰہم أنشدک عہدک ووعدک۔*
''اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے، اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔''
جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، نہایت زور کا رَن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:
*اللھم إن تھلک ھذہ العصابۃ الیوم لا تعبد اللھم إن شئت لم تعبد بعد الیوم أبداً*
''اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی، اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوب تضرع کے ساتھ دعا کی، یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر درست کی اور عرض پرداز ہوئے: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بس فرمائیے! آپ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دعا فرمالی۔"
(غالباً ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حالت و کیفیت برداشت نہ ہوئی اور مضطرب ہو کر فرمایا)
ادھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وحی کی کہ:
أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ (۸: ۱۲)
''میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رُعب ڈال دوں گا۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وحی بھیجی کہ:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ ﴿٩﴾ (۸: ۹)
''میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔"
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک جھپکی آئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھا یا اور فرمایا: "ابوبکر! خوش ہو جاؤ! یہ جبریل ہیں، گرد وغبار میں اٹے ہوئے۔" ابن اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''ابوبکر! خوش ہو جاؤ! تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی، یہ جبریل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گرد وغبار میں اَٹے ہوئے ہیں۔"
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھپر کے دروازے سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زرہ پہن رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پُرجوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جارہے تھے:
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔''
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رُخ کرکے فرمایا:
"شاھتِ الوجوہ''
"چہرے بگڑ جائیں"
اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی، پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں، نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو، اسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ (۸: ۱۷)
''جب آپ نے پھینکا تو درحقیقت آپ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔''
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں