سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 146
مکی لشکر کی روانگی اور مدینے میں اطلاع:
بھرپور تیاری کے بعد مکی لشکر نے اس حالت میں مدینے کا رُخ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور انتقام کا جذبہ ان کے دلوں میں شعلہ بن کر بھڑک رہا تھا اور یہ عنقریب پیش آنے والی جنگ کی خونریزی اور شدت کا پتا دے رہا تھا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ قریش کی اس ساری نقل وحرکت اور جنگی تیاریوں کا بڑی چابک دستی اور گہرائی سے مطالعہ کررہے تھے، چنانچہ جوں ہی یہ لشکر حرکت میں آیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی ساری تفصیلات پر مشتمل ایک خط فوراً نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ فرما دیا۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قاصد پیغام رسانی میں نہایت پُھر تیلا ثابت ہوا، اس نے مکے سے مدینے تک کوئی پانچ سو کلومیٹر کی مسافت تین دن میں طے کرکے ان کا خط نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کیا، اس وقت آپ مسجد قباء میں تشریف فرما تھے، یہ خط حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں رازداری برتنے کی تاکید کی اور جھٹ مدینہ تشریف لا کر انصار ومہاجرین کے قائدین سے صلاح ومشورہ کیا۔
اس کے بعد مدینے میں عام لام بندی کی کیفیت پیدا ہوگئی، لوگ کسی بھی اچانک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت ہتھیار بند رہنے لگے، حتی کہ نماز میں بھی ہتھیار جدا نہیں کیا جاتا تھا، ادھر انصار کا ایک مختصر سا دستہ جس میں سعد بن معاذ، اُسَید بن حُضیر اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی پر تعینات ہوگیا، یہ لوگ ہتھیار پہن کر ساری ساری رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر گزار دیتے تھے۔
کچھ اور دستے اس خطرے کے پیش نظر کہ غفلت کی حالت میں اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے، مدینے میں داخلے کے مختلف راستوں پر تعینات ہوگئے، چند دیگر دستوں نے دشمن کی نقل وحرکت کا پتا لگانے کے لیے طلایہ گردی شروع کردی، یہ دستے ان راستوں پر گشت کرتے رہتے تھے جن سے گزر کر مدینے پر چھا پہ مارا جاسکتا تھا۔
ادھر مکی لشکر معروف کاروانی شاہراہ پر چلتا رہا، یہاں تک کہ مدینے کے قریب پہنچ کر پہلے وادیٔ عقیق سے گزرا، پھر کسی قدر داہنے جانب کترا کر کوہ اُحد کے قریب عینین نامی ایک مقام پر جو مدینہ کے شمال میں وادئ قناۃ کے کنارے ایک بنجر زمین ہے، پڑاؤ ڈال دیا، یہ جمعہ 6 شوال 3 ھ کا واقعہ ہے۔
مدینے کے ذرائع اطلاعات مکی لشکر کی ایک ایک خبر مدینہ پہنچارہے تھے، حتیٰ کہ اس کے پڑاؤ کی بابت آخری خبر بھی پہنچادی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوجی ہائی کمان کی مجلس شوریٰ منعقد فرمائی، جس میں مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے صلاح مشورہ کرنا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا دیکھا ہوا ایک خواب بتلایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ واللہ! میں نے ایک بھلی چیز دیکھی، میں نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کے سرے پر کچھ شکستگی ہے اور یہ بھی دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ زِرہ میں داخل کیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گائے کی یہ تعبیر بتلائی کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قتل کیے جائیں گے، تلوار میں شکستگی کی یہ تعبیر بتلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا کوئی آدمی شہید ہوگا اور محفوظ زِرہ کی یہ تعبیر بتلائی کہ اس سے مراد شہر مدینہ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینے سے باہر نہ نکلیں، بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہوجائیں، اب اگر مشرکین اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بے مقصد اور بُرا قیام ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کوچے کے ناکوں پر ان سے جنگ کریں گے اور عورتیں چھتوں کے اُوپر سے ان پر خشت باری کریں گی۔
یہی صحیح رائے تھی اور اسی رائے سے عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے بھی اتفاق کیا جو اس مجلس میں خزرج کے ایک سر کردہ نمائندہ کی حیثیت سے شریک تھا، لیکن اس کے اتفاق کی بنیاد یہ نہ تھی کہ جنگی نقطۂ نظر سے یہی صحیح موقف تھا، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور کسی کو اس کا احساس بھی نہ ہو۔
لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس نے چاہا کہ یہ شخص اپنے رفقاء سمیت پہلی بار سر عام رسوا ہوجائے اور اُن کے کفر ونفاق پر جو پردہ پڑا ہوا ہے، وہ ہٹ جائے اور مسلمانوں کو اپنے مشکل ترین وقت میں معلوم ہوجائے کہ ان کی آستین میں کتنے سانپ رینگ رہے ہیں۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں