سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 145


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 145

انتقامی جنگ کے لئے قریش کی تیاریاں:

اہل مکہ کو معرکہ بدر میں شکست وہزیمت کی جو زک اور اپنے صَنادید واَشراف کے قتل کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا، اس کے سبب وہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب سے کھول رہے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنے مقتولین پر آہ وفغاں کرنے سے بھی روک دیا تھا اور قیدیوں کے فدیے کی ادائیگی میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کرنے سے منع کردیا تھا، تاکہ مسلمان ان کے رنج وغم کی شدت کا اندازہ نہ کرسکیں، پھر انہوں نے جنگ بدر کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں اور اپنے جذبۂ غیظ وغضب کو تسکین دیں، اس کے ساتھ ہی اس طرح کی معرکہ آرائی کی تیاری بھی شروع کردی، اس معاملے میں سردارانِ قریش میں سے عِکرمَہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ، ابو سفیان بن حرب اور عبد اللہ بن ربیعہ زیادہ پُرجوش تھے اور سب سے پیش پیش تھے۔

ان لوگوں نے اس سلسلے میں پہلا کام یہ کیا کہ ابو سفیان کا وہ قافلہ جو جنگ بدر کا باعث بنا تھا اور جسے ابوسفیان بچا کر نکال لے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا، اس کا سارا مال جنگی اخراجات کے لیے روک لیا اور جن لوگوں کا مال تھا ان سے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت دھچکا لگایا ہے اور تمہارے منتخب سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے، لہٰذا ان سے جنگ کرنے کے لیے اس مال کے ذریعے مدد کرو، ممکن ہے کہ ہم بدلہ چکا لیں۔

قریش کے لوگوں نے اسے منظور کر لیا، چنانچہ یہ سارامال جس کی مقدار ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی، جنگ کی تیاری کے لیے بیچ ڈالا گیا، پھر انہوں نے رضاکارانہ جنگی خدمات کا دروازہ کھول دیا کہ جو اَحَابِیش، کنانہ اور اہل تِہامہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہیں وہ قریش کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔

انہوں نے اس مقصد کے لیے ترغیب وتحریص کی مختلف صورتیں بھی اختیار کیں، یہاں تک کہ ابوعزہ شاعر جو جنگ بدر میں قید ہوا تھا اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عہد لے کر کہ اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کبھی نہ اٹھے گا، ازراہِ احسان بلا فدیہ چھوڑدیا تھا، اسے صفوان بن امیہ نے ابھارا کہ وہ قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا کام کرے اور اس سے یہ عہد کیا کہ اگر وہ لڑائی سے بچ کر زندہ وسلامت واپس آگیا تو اسے مالا مال کردے گا، ورنہ اس کی لڑکیوں کی کفالت کرے گا، چنانچہ ابوعزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے ہوئے عہد وپیمان کو پسِ پشت ڈال کر جذبات غیرت وحمیت کو شعلہ زن کر نے والے اشعار کے ذریعے قبائل کو بھڑکانا شروع کردیا، اسی طرح قریش نے ایک اور شاعر مسافع بن عبد مناف جُمحی کو اس مہم کے لیے تیار کیا۔

ادھر ابوسفیان نے غزوہ سَویق سے ناکام ونامراد بلکہ سامان رسد کی ایک بہت بڑی مقدار سے ہاتھ دھو کر واپس آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو ابھارنے اور بھڑکانے میں کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھائی۔

پھر اخیر میں سَریۂ زید بن حارثہ کے واقعے سے قریش کو جس سنگین اور اقتصادی طور پر کمر توڑ خسارے سے دوچار ہونا پڑا اور انہیں جس قدر بے اندازہ رنج والم پہنچا، اس نے آگ پر تیل کا کام کیا اور اس کے بعد مسلمانوں سے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے قریش کی تیاری کی رفتار میں بڑی تیزی آگئی۔

چنانچہ سال پورا ہوتے ہوتے قریش کی تیاری مکمل ہوگئی، ان کے اپنے افراد کے علاوہ ان کے حلیفوں اور احابیش کو ملا کر مجموعی طور پر کل تین ہزار فوج تیار ہوئی، قائدین قریش کی رائے ہوئی کہ اپنے ساتھ عورتیں بھی لے چلیں، تاکہ حرمت وناموس کی حفاظت کا احساس کچھ زیادہ ہی جذبہ جان سپاری کے ساتھ لڑنے کا سبب بنے، لہٰذا اس لشکر میں ان کی عورتیں بھی شامل ہوئیں جن کی تعداد پندرہ تھی، سواری وبار برداری کے لیے تین ہزار اونٹ تھے اور رسالے کے لیے دو سو گھوڑے، ان گھوڑوں کو تازہ دم رکھنے کے لیے پورے راستے ان پر سواری نہیں کی گئی، حفاظتی ہتھیاروں میں سات سو زِرہیں تھیں۔

ابو سفیان کو پورے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا گیا، رسالے کی کمان خالد بن ولید کو دی گئی اور عکرمہ بن ابی جہل کو ان کا معاون بنایا گیا، پرچم مقررہ دستور کے مطابق قبیلہ بنی عبدالدار کے ہاتھ میں دیا گیا۔

==================ََ>>جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں