مدینہ کے یہود کی عیاری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا تھا، اس کی دفعات پچھلی اقساط میں ذکر کی جاچکی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو، لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پُر ہے، وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے اور مسلمانوں کی صفوں کے اندر دسیسہ کاری، سازش، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی "شاش بن قیس" جو قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھا اور مسلمانوں سے سخت عدوات وحسد رکھتا تھا، ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گزرا جس میں اوس خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے، اسے یہ دیکھ کر کہ اب ان کے اندر جاہلیت کی باہمی عداوت کی جگہ اسلام کی الفت واجتماعیت نے لے لی ہے اور ان کی دیرینہ شکر رنجی کا خاتمہ ہو گیا ہے، سخت رنج ہوا، کہنے لگا: ''اوہ! اس دیار میں قیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں، واللہ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گزر نہیں۔''
چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا، حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں، کچھ ان میں سنائے، اس یہودی نے ایسا ہی کیا، اس کے نتیجے میں اوس و خزرج میں ''تُو تُو مَیں مَیں'' شروع ہوگئی، لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے، حتیٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ و قدح شروع کردی، پھر ایک نے اپنے مدّ مقابل سے کہا: "اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں۔" مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے۔
اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے: "چلو تیار ہیں! حرہ میں مقابلہ ہوگا۔" اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ہوگئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: ''اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ اللہ! کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرما چکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کاٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطان کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اطاعت شعار و فرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھا دی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۵۵۵، ۵۵۶)
یہ ہے ایک نمونہ ان ہنگاموں اور اضطراب کا جنہیں یہود مسلمانوں کی صفوں میں بپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور یہ ہے ایک مثال اس روڑے کی جسے یہ یہود اسلامی دعوت کی راہ میں اٹکاتے رہتے تھے، اس کام کے لیے انہوں نے مختلف منصوبے بنا رکھے تھے، وہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے تھے، صبح مسلمان ہو کر شام کو پھر کافر ہوجاتے تھے، تاکہ کمزور اور سادہ لوح قسم کے لوگوں کے دلوں میں شک وشبہے کے بیج بو سکیں، کسی کے ساتھ مالی تعلق ہوتا اور وہ مسلمان ہوجاتا تو اس پر معیشت کی راہیں تنگ کردیتے، چنانچہ اگر اس کے ذمے کچھ بقایا ہوتا تو صبح وشام تقاضے کرتے اور اگر خود اس مسلمان کا کچھ بقایا ان پر ہوتا تو اسے ادا نہ کرتے، بلکہ باطل طریقے پر کھا جاتے اور کہتے کہ تمہارا قرض تو ہمارے اُوپر اُس وقت تھا جب تم اپنے آبائی دین پر تھے، لیکن اب جبکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے تو اب ہمارا اور تمہارا کوئی لین دین نہیں۔
(مفسرین نے سورہ آل عمران وغیرہ میں ان کی اس قسم کی حرکات کے نمونے ذکر کیے ہیں)
واضح رہے کہ یہود نے یہ ساری حرکتیں بدر سے پہلے ہی شروع کردی تھیں اور اس معاہدے کے علی الرغم شروع کردیں تھیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کر رکھا تھا، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ ان یہود کی ہدایت یابی کی امید میں ان ساری باتوں پر صبر کرتے جارہے تھے، اس کے علاوہ یہ بھی مطلوب تھا کہ اس علاقے میں امن وسلامتی کا ماحول برقرار رہے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں