سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 138
غزوۂ بدر کے بعد کی جنگی سرگرمیاں:
نابینا صحابیؓ کے ہاتھوں گستاخ شاعرہ کا قتل:
یہودی قبیلہ بنی خطمہ میں "عصمہ" نامی شاعرہ تھی جو مروان بن زید کی بیٹی تھی، وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی ہجو لکھتی اور خاص طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی، اپنے ایام ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈال دیا کرتی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی بدر سے واپس نہیں ہوئے تھے کہ اس نے ایک ہجو لکھی، ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے یہ ہجو سنی تو عہد کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدر سے بہ سلامتی واپسی کے بعد اس شاعرہ کو قتل کردوں گا۔
چنانچہ بدر میں فتح کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لئے تلوار لے کر نکلے اور رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہو کر اسے قتل کردیا-
صبح میں بعد نماز فجر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی اور عرض کیا کہ کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "دو بھیڑیں بھی آپس میں سر نہ ٹکرائیں گی۔"
ان کی یہ جرأت دیکھ کر اس قبیلہ کے چند لوگ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن ڈر کر ظاہر نہیں کررہے تھے، اب ان میں بھی جرأت پیدا ہوگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: "اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جس نے ﷲ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔" یہ بھی فرمایا کہ: "ان کو نابینا نہ کہو، یہ بینا اور بصیر ہیں۔" جب وہ بیمار ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عصمہ نامی اس گستاخ شاعرہ کا قتل ۲۶ رمضان کو کیا تھا۔ (ابن کثیر)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید بن ولید بن مغیرہ مخزومی اسیرانِ جنگ میں سے فدیہ کی ادائی کے بعد آزاد ہوئے تو ایمان لائے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے۔
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، وہ جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے مسلمان ہیں۔
غزوہ بدر سے لوٹنے کے بعد بہ اختلاف روایت ماہ شوال یا ذی الحجہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا، اس کے علاوہ غزوۂ بدر کے بعد حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔
بدر کا معرکہ مسلمانوں اور مشرکین کا سب سے پہلا مسلح ٹکراؤ اور فیصلہ کن معرکہ تھا، جس میں مسلمانوں کو فتحِ مبین حاصل ہوئی اور سارے عرب نے اس کا مشاہدہ کیا، اس معرکے کے نتائج سے سب سے زیادہ وہی لوگ دل گرفتہ تھے جنہیں براہ راست یہ نقصان عظیم برداشت کرنا پڑا تھا یعنی مشرکین، یا وہ لوگ جو مسلمانوں کے غلبہ وسربلندی کو اپنے مذہبی اور اقتصادی وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے یعنی یہود، چنانچہ جب سے مسلمانوں نے بدر کا معرکہ سر کیا تھا یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور رنج والم سے جل بھن رہے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا (۵: ۸۲)
'تم اہلِ ایمان کا سب سے زبردست دشمن یہود کو پاؤ گے اور مشرکین کو۔''
مدینے میں کچھ لوگ ان دونوں گروہوں کے ہمرازو دمساز تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ اپنا وقار برقرار رکھنے کی اب کوئی سبیل باقی نہیں رہ گئی ہے تو بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے، یہ عبداللہ بن اُبی اور اس کے رفقاء کا گروہ تھا، یہ بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور مشرکین سے کم غم وغصہ نہ رکھتا تھا۔
ان کے علاوہ ایک چوتھا گروہ بھی تھا، یعنی وہ بدو جو مدینے کے گرد وپیش بود وباش رکھتے تھے، انہیں کفر و اسلام سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن یہ لٹیرے اور رہزن تھے، اس لیے بدر کی کامیابی سے انہیں بھی قلق و اضطراب تھا، انہیں خطرہ تھا کہ مدینے میں ایک طاقتور حکومت قائم ہوگئی تو ان کی لوٹ کھسوٹ کا راستہ بند ہوجائے گا، اس لیے ان کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف کینہ جاگ اٹھا اور یہ بھی مسلم دشمن ہوگئے۔
اس طرح مسلمان چاروں طرف سے خطرے میں گھر گئے، لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں ہر فریق کا طرز عمل دوسرے سے مختلف تھا، ہر فریق نے اپنے حسب حال ایسا طریقہ اپنایا تھا جو اس کے خیال میں اس کی غرض وغایت کی تکمیل کا کفیل تھا۔
چنانچہ اہل مدینہ نے اسلام کا اظہار کرکے درپردہ سازشوں، دسیسہ کا ریوں اور باہم لڑانے بھڑانے کی راہ اپنائی، یہود کے ایک گروہ نے کھلم کھلا رنج وعداوت اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا، اہل مکہ نے کمر توڑ ضرب کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور بدلہ اور انتقام لینے کا کھلا اعلان کیا، ان کی جنگی تیاریاں بھی کھلے عام ہورہی تھیں اور سال بھر کے بعد وہ عملاً ایک ایسی معرکہ آرائی کے لیے مدینے کی چہاردیواری تک چڑھ آئے جو تاریخ میں غزوہ احد کے نام سے معروف ہے اور جس کا مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر برا اثر پڑا تھا۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں نے بڑے اہم اقدامات کیے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائدانہ عبقریت کا پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینے کی قیادت گرد وپیش کے ان خطرات کے سلسلے میں کس قدر بیدار تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے کتنے جامع منصوبے رکھتی تھی۔ اگلی اقساط میں اسی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے گا۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں