سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 129
معرکے کا پہلا ایندھن:
اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبد الاسد مخزومی تھا، یہ شخص بڑا اڑیل اور بدخُلق تھا، یہ کہتے ہوئے میدان میں نکلا کہ: "میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ان کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا، ورنہ اسے ڈھا دوں گا، یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔"
جب یہ اُدھر سے نکلا تو اِدھر سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے، دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈ بھیڑ ہوئی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑ گیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا، اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھا جس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا، لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا تاکہ اپنی قسم پوری کرلے، اتنے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہوگیا۔
یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا اور اس سے جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی، چنانچہ اس کے بعد عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔
سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مد مقابل طلب کیا، مقابلے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک غلام "مہجع" رضی اللہ عنہ نکلے اور چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کردیا جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔
اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوار نکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے، ایک عُتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا، انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مُبارزت دی۔
مقابلے کے لیے انصار کے تین جوان نکلے، ایک عوف رضی اللہ عنہ، دوسرے معوذ رضی اللہ عنہ، یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا، تیسرے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ۔
قریشیوں نے کہا: "تم کون لوگ ہو؟"
انہوں نے کہا: "انصار کی ایک جماعت ہیں۔"
قریشیوں نے کہا: "آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں، لیکن ہمیں آپ سے سروکار نہیں، ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں۔" پھر ان کے منادی نے آواز لگائی: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں، ہمارے پاس قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عبیدہ بن حارث اٹھو! حمزہ اٹھئے! علی اٹھو!" جب یہ لوگ اٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا: "آپ کون لوگ ہیں"؟ (غالبا" دور ہونے کی وجہ سے پہچان نہ پائے)
انہوں نے اپنا تعارف کرایا، قریشیوں نے کہا: "ہاں! اب ہمارا جوڑ ہے۔" اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔
حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جو سب سے معمر تھے، عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ سے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید سے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مار لیا، لیکن حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مدّمقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آتے ہی عتبہ کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا لائے، ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اور آواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی، یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادیٔ صفراء سے گزر رہے تھے، ان کا انتقال ہوگیا۔
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا عبیدہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبا ہوا صف سے نکلا اور پکارا کہ میں ابو کرش ہوں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ کو نکلے اور چونکہ صرف اس کی آنکھیں نظرآتی تھیں، تاک کرآنکھ میں برچھی ماری، وہ زمین پر گرا ور مر گیا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو اس معرکہ میں کئی کاری زخم آئے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں