سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 124
مسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ کا انعقاد:
ابو سفیان کا پیغام سن کر مکی لشکر نے چاہا کہ واپس چلا جائے، لیکن قریش کا طاغوت اکبر ابو جہل کھڑا ہوگیا اور نہایت کبر وغرور سے بولا: "اللہ کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے، یہاں تک کہ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے اور اس دوران اونٹ ذبح کریں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے، لونڈیاں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور سارا عرب ہمارا اور ہمارے سفر واجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔"
لیکن ابو جہل کے علی الرغم اخنس بن شُرَیْق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو، مگر لوگوں نے اس کی بات نہ مانی، اس لیے وہ بنو زہرہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر واپس ہوگیا، کیونکہ وہ بنو زہرہ کا حلیف اور اس لشکر میں ان کا سردار تھا، بنو زہرہ کی کل تعداد کوئی تین سو تھی، ان کا کوئی بھی آدمی جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا، بعد میں بنو زہرہ اخنس بن شریق کی رائے پر حد درجہ شاداں وفرحاں تھے اور ان کے اندر اس کی تعظیم واطاعت ہمیشہ برقرار رہی۔
بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں، لیکن ابو جہل نے بڑی سختی کی اور کہا کہ جب تک ہم واپس نہ ہوں، یہ گروہ ہم سے الگ نہ ہونے پائے۔
غرض لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا، بنو زہرہ کی واپسی کے بعد اب اس کی تعداد ایک ہزار رہ گئی تھی اور اس کا رخ بدر کی جانب تھا، بدر کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیلے کے پیچھے پڑاؤ ڈالا، یہ ٹیلہ وادی کے حدود پر جنوبی دہانے کے پاس واقع ہے۔
ادھر مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبکہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے ہی میں تھے اور وادی زفران سے گزررہے تھے، قافلے اور لشکر دونوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اطلاعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یقین کر لیا کہ اب ایک خون ریز ٹکراؤ کا وقت آگیا ہے اور ایک ایسا اقدام ناگزیر ہے جو شجاعت وبسالت اور جرأت وجسارت پر مبنی ہو، کیونکہ یہ بات قطعی تھی کہ اگر مکی لشکر کو اس علاقے میں یوں ہی دندناتا ہوا پھرتے دیا جاتا تو اس سے قریش کی فوجی ساکھ کو بڑی قوت پہنچ جاتی اور ان کی سیاسی بالادستی کا دائرہ دور تک پھیل جاتا، مسلمانوں کی آواز دب کر کمزور ہو جاتی اور اس کے بعد اسلامی دعوت کو ایک بے روح ڈھانچہ سمجھ کر اس علاقے کا ہرکس وناکس جو اپنے سینے میں اسلام کے خلاف کینہ وعداوت رکھتا تھا، شر پر آمادہ ہوجاتا۔
پھر ان سب باتوں کے علاوہ آخر اس کی کیا ضمانت تھی کہ کفار کا لشکر مدینے کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا اور اس معرکہ کو مدینہ کی چہار دیواری تک منتقل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر تباہ کرنے کی جرأت اور کوشش نہیں کرے گا؟ اگر مسلمانوں کے لشکر کی جانب سے ذرا بھی گریز کیا جاتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو مسلمانوں کی ہیبت وشہرت پر تو بہرحال اس کا نہایت بُرا اثر پڑتا۔
حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی، جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلۂ خیالات کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جان نثارانہ تقریریں کیں، پھر حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا:
''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے، اس پر رواں دواں رہئیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اللہ کی قسم! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ "تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو، ہم یہیں بیٹھے ہیں-" (۵: ۲۴) بلکہ ہم کہیں گے کہ آپ اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ لڑیں گے، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہم کو برکِ غماد تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔"
ان کی اس تقریر سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دمک اٹھا، آپ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی۔
یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں، کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والا تھا، درآں حالیکہ بیعت عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں، اس لیے آپ نے مذکورہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا: ''لوگو! مجھے مشورہ دو۔" مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے بھانپ لی، چنانچہ انہوں نے عرض کیا: "واللہ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"
انہوں نے کہا: ''ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے، لہٰذا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے، ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا، ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دشمن سے ٹکرا جائیں، ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جواں مرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، پس آپ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت دے۔"
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے، آپ پر نشاط طاری ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
''چلو اور خوشی خوشی چلو، اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے، واللہ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔"
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں