سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 143
کعب بن اشرف یہودی کا قتل:
کعب بن اشرف یہودیوں میں وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہلِ اسلام سے نہایت سخت عداوت اور جلن تھی، یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کی کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا، اس کا تعلق قبیلہ طی کی شاخ بنو نبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی۔
یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا، عرب میں اس کے حسن وجمال کا شہرہ تھا اور یہ ایک معروف شاعر بھی تھا، اس کا قلعہ مدینے کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا، اسے جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سردارانِ قریش کے قتل کی پہلی خبر ملی تو بے ساختہ بول اٹھا: "کیا واقعتاً ایسا ہوا ہے؟ یہ عرب کے اشراف اور لوگوں کے بادشاہ تھے، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مارلیا ہے تو روئے زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔''
اور جب اسے یقینی طور پر اس خبر کا علم ہوگیا تو اللہ کا یہ دشمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی پر اتر آیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے لگا، اس سے بھی اس کے جذبات آسودہ نہ ہوئے تو سوار ہوکر قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی کا مہمان ہوا، پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے، ان کی آتشِ انتقام تیز کرنے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدانِ بدر میں قتل کیے جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔
مکے میں اس کی موجودگی کے دوران ابو سفیان اور مشرکین نے اس سے دریافت کیا کہ ہمارا دین تمہارے نزدیک زیادہ پسندیدہ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا اور دونوں میں سے کون سا فریق زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟" کعب بن اشرف نے کہا: ''تم لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو۔'' اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
''تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہیں۔'' ﴿٥١﴾ (۴: ۵۱)
کعب بن اشرف یہ سب کچھ کرکے مدینہ واپس آیا تو یہاں آکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار کہنے شروع کیے اور اپنی زبان درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچائی، اس نے اپنی خبیث طبیعت کی بنا پر اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہنے لگا۔ یہی حالات تھے جن سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دی ہے۔''
اس کے جواب میں محمد بن مسلمہ، عبادہ بن بشر، ابو نائلہ (جن کا نام سلکان بن سلامہ تھا اور جو کعب کے رضاعی بھائی تھے) حارث بن اوس اور ابو عبس بن جبر رضی اللہ عنہم نے اپنی خدمات پیش کیں، اس مختصر سی کمپنی کے کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ حکمت عملی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کعب بن اشرف سے کچھ ایسا کہہ سکیں کہ جس کی مدد سے اسے پھانسا جا سکے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔
اس کے بعد محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور بولے: ''اس شخص نے (اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔'' کعب نے کہا: ''واللہ! ابھی تم لوگ اور بھی اکتا جاؤ گے۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک یہ دیکھ نہ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اچھا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وَسق یا دو وسق غلہ دے دیں۔" کعب نے کہا: ''میرے پاس کچھ رہن رکھو۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''آپ کون سی چیز پسند کریں گے۔؟'' کعب نے کہا: ''اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''بھلا ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں، جبکہ آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں۔'' اس نے کہا: ''تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دو وسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا، یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے، البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔''
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ہتھیار لے کر اس کے پاس آئیں گے،
ادھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے، کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے، پھر بو لے: ''بھئ ابن اشرف! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں، لیکن اسے آپ ذرا صیغۂ راز ہی میں رکھیں گے۔" کعب نے کہا: '' ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔"
ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''بھئ اس شخص (اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تھا) کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے، ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے، سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چور چور ہیں۔" اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کی تھی، دورانِ گفتگو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقاء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں، انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں، آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
محمد بن مسلمہ اور ابو نائلہ رضی اللہ عنہم اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے، کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیار اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پر کعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔
اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد 14 ربیع الاول 3 ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی، پھر فرمایا: "اللہ کے نام لے کر جاؤ، اللہ تمہاری مدد فرمائے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے قدرے زور سے آواز دی، آواز سن کر وہ ان کے پاس آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی، کہا: ''اس وقت کہاں جارہے ہیں؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔''
کعب نے کہا: ''یہ تو میرا بھائی محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہ ہے۔" اس کے بعد وہ باہر آگیا، خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں، جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں، پھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ''ابن اشرف! کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذر آج رات باتیں کی جائیں۔''
اس نے کہا: "اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں۔" اس پر سب لوگ چل پڑے، اثناء راہ میں ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آج جیسی عمدہ خوشبو تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔" یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا، کہنے لگا: "میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عورت ہے۔"
ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اجازت ہوتو ذر آپ کا سر سونگھ لوں؟" وہ بو لا: "ہاں ہاں۔" ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا، پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا، کچھ اور چلے توابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "بھئ ایک بار اور۔" کعب نے کہا: "ہاں ہاں۔" ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حرکت کی، یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔
اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: "بھئ ایک بار اور۔" اس نے کہا: "ٹھیک ہے۔" اب کی بار ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے: ''لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔'' اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔
یہ دیکھ کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے، کدال آر پار ہوگئی اور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا، حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)۔
کارروائی کے دوران حضرت حارث بن اوس رضی اللہ عنہ کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، چنانچہ واپسی میں انہیں اٹھا لیا اور بقیع غرقد پہنچ کر اس زور کا نعرہ لگایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی سنائی پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے اسے مار لیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اللہ اکبر کہا۔
پھر جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((افلحت الوجوہ )) "یہ چہرے کامیاب رہیں۔" ان لوگوں نے کہا: (ووجہک یا رسول اللہ) "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ بھی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!" اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد وثنا کی اور حارث رضی اللہ عنہ کے زخم پر لعابِ دہن لگا دیا، جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔
اس واقعے کی تفصیل ابن ہشام ۲/۵۱ - ۵۷ , صحیح بخاری ۱/۳۴۱ -۴۲۵ ، ۲/۵۷۷ , سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/۴۲، ۴۳ اور زاد المعاد ۲/۹۱ سے ماخوذ ہے۔
ادھر یہود کو جب اپنے طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کا علم ہوا تو ان کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہر دوڑ گئی، ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن وامان کے ساتھ کھیلنے والوں، ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے والوں اور عہد وپیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کار گر نہیں ہورہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے، اس لیے انہوں نے اپنے اس طاغوت کے قتل پر چوں تک نہ کیا، بلکہ ایک دم، دم سادھے پڑے رہے۔
اس طرح ایک مدّت تک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیرون مدینہ سے پیش آنے والے متوقع خطرات کا سامنا کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور مسلمان ان بہت سی اندرونی مشکلات کے بارِ گراں سے سبکدوش ہوگئے جن کا اندیشہ انہیں محسوس ہورہا تھا اور جن کی بُو وقتاً فوقتاً وہ سونگھتے رہتے تھے۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..