سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 123


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 123

کفار مکہ کو اطلاع:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزل مقصود مقام بدر تھا، کیونکہ ابوسفیان کا قافلہ جس کاروانی شاہراہ سے آرہا تھا وہ مقام بدر سے گزرتی تھی اور دستور تھا کہ قافلے یہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے تھے، یہ مقام بدر کوئی ایک میل لمبا اور اس سے کچھ کم چوڑا ایک میدان ہے جو ہر طرف بلند وبالا اور ناقابل عبور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، آنے جانے کے لیے ان پہاڑوں کے درمیان صرف تین یا چار راستے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پلان غالباً یہ تھا کہ قافلہ یہاں اترپڑے، اس کے بعد ان راستوں کو بند کرکے اسے گھیر لیا جائے، اس صورت میں کوئی آدمی یا کوئی اونٹ بچ کر جا نہیں سکتا تھا، غالباً اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھیمی رفتار سے اور بدر کے رخ سے قدرے ہٹ کر جارہے تھے۔

دوسری طرف قافلے کی صورت حال یہ تھی کہ ابو سفیان، (سردار قریش اور تاحال کافر تھے) جو اس کے نگہبان تھے، حددرجہ محتاط تھے، انہیں معلوم تھا کہ مکے کا راستہ خطروں سے پُر ہے، اس لیے وہ حالات کا مسلسل پتا لگاتے رہتے تھے اور جن قافلوں سے ملاقات ہوتی تھی ان سے کیفیت دریافت کرتے رہتے تھے، چنانچہ ان کا جلد ہی یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو قافلے پر حملے کی دعوت دے دی ہے، لہٰذا ابو سفیان نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکے بھیجا کہ وہاں جاکر قافلے کی حفاظت کے لیے قریش میں نفیر عام کی صدا لگائے۔

ضمضم نہایت تیز رفتاری سے مکہ آیا اور عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیڑی، کجاوہ الٹا، کرتا پھاڑا اور وادی مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی:

"اے جماعت قریش! قافلہ، قافلہ تمہارا مال جو ابوسفیان کے ہمراہ ہے، اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی دھاوا بولنے جارہے ہیں، مجھے یقین نہیں کہ تم اسے پاسکو گے، مدد! مدد! ''

یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے، کہنے لگے: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! اللہ کی قسم! انہیں پتا چل جائے گا کہ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔"

چنانچہ سارے مکے میں دو ہی طرح کے لوگ تھے، یا تو آدمی خود جنگ کے لیے نکل رہا تھا یا اپنی جگہ کسی اور کو بھیج رہا تھا اور اس طرح گویا سبھی نکل پڑے، خصوصاً معززین مکہ میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا، صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک قرض دار کو بھیجا، گردوپیش کے قبائل عرب کو بھی قریش نے بھرتی کیا اور خود قریشی قبائل میں سے سوائے بنوعدی کے کوئی بھی پیچھے نہ رہا، البتہ بنو عدی کے کسی بھی آدمی نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔

ابتدا میں قریش کے لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی، جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں، اونٹ کثرت سے تھے، جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہوسکی، لشکر کا سپہ سالار ابوجہل بن ہشام تھا، قریش کے نو معزز آدمی اس کی رسد کے ذمے دار تھے، ایک دن نو اور ایک دن دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے، بہرحال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزر کر جحفہ پہنچے تو ابوسفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے، اپنے آدمیوں اور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ خدا نے ان سب کو بچا لیا ہے، لہٰذا اب واپس چلے جائیے۔

ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلے تو آرہے تھے، لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھے، انہوں نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دوچند کر رکھی تھیں، جب وہ بدر کے قریب پہنچے تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر مدینہ کی بابت دریافت کیا، مجدی نے کہا: "میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا، البتہ دو سوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے، پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے۔''

ابوسفیان لپک کر وہاں پہنچے اور ان کے اونٹ کی مینگنیاں اُٹھا کر توڑیں تو اس میں کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی، ابو سفیان نے کہا: "اللہ کی قسم! یہ یثرب کا چارہ ہے۔" اس کے بعد وہ تیزی سے قافلے کی طرف پلٹے اور اسے مغرب کی طرف موڑ کر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا اور بدر سے گزرنے والی کاروانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑدیا، اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچالیا اور فوراْ ہی مکی لشکر کو اپنے بچ نکلے کی اطلاع دیتے ہوئے اسے واپس جانے کا پیغام دیا جو اسے جحفہ میں موصول ہوا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں