سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 286
١۰ ذی الحجہ کا خطبہ:
حضورﷺ کے الفاظ حضرت ربیعہؓ بن امیہ بن خلف بلند آواز سے دُہراتے تھے چاروں طرف مکبر موجود تھے، آپﷺ نے فرمایا :ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے طریق عبادت(حج) کا موسم اپنی جگہ سے ہٹ گیا تھا، اس کا سبب یہ ہے کہ اس زمانہ میں کسی قسم کی خونریزی جائز نہیں تھی اس لئے عربوں کے خوں آشام جذبات حیلۂ جنگ کے لئے اس کو کبھی گھٹا اور کبھی بڑھا دیتے تھے، آج وہ دن آیا کہ اس اجتماع عظیم کے اشہر حرم کی تعین کر دی جائے، آپ نے فرمایا ، سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار مہینے قابل احترام ہیں، تین تو متواترمہینے ہیں یعنی ذیقعدہ ، ذی الحجہ، اور محرم اور چوتھا رجب کا مہینہ جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ میں ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف اور جور و ستم کا محور صرف تین چیزیں ہیں، جان، مال اور آبرو۔
آنحضرت ﷺ گزشتہ خطبہ میں گو ان کے متعلق ارشاد فرماچکے تھے لیکن عرب کے صدیوں کے زنگ کو دور کرنے کے لئے مکرر تاکید کی ضرورت تھی، آپﷺ نے اس کے لئے عجیب بلیغ انداز اختیار فرمایا، لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا … کچھ معلوم ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، آپﷺ دیر تک خاموش رہے ، لوگ سمجھے کہ شاید آپﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے، دیر تک سکوت اختیار فرمایا اور پھرکہا ! کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے، پھر ارشاد ہوا : یہ کونسا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا ، آپ ﷺ نے دیر تک سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے ، پھر پوچھا : یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا، آپﷺ نے دیر تک سکوت کے بعد فرمایا : کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں بے شک ہے ، تب لوگوں کے دل میں یہ خیال پوری طرح جا گزیں ہو چکا کہ آج کا دن بھی ‘ مہینہ بھی اور خود شہر بھی محترم ہے یعنی اس دن اور اس مقام میں خوں ریزی جائز نہیں ، تب فرمایا :
" تو تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ( تاقیامت) اس طرح محترم ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور شہر میں محترم ہے، "
قوموں کی بربادی ہمیشہ آپس کے جنگ و جدال اور باہمی خوں ریزیوں کا نتیجہ رہی ہے ، وہ پیغمبر جو ایک لازوال قومیت کا بانی بن کر آیا تھا اس نے اپنے پیروؤں سے بہ آواز بلند کہا :
" ہاں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا "
ظلم و ستم کا ایک عالمگیر پہلو یہ تھا کہ اگر خاندان میں کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اس خاندان کاہر شخص اس جرم کا قانونی مجرم سمجھا جاتا تھا اور اکثر اصلی مجرم کے روپوش ہونے یا فرار ہو جانے کی صورت میں بادشاہ کا اس خاندان میں سے جس پر قابو چلتا تھا اس کو سزا دیتا تھا، باپ کے جرم میں بیٹے کو سولی دی جاتی تھی اور بیٹے کے جرم کا خمیازہ باپ کو بھگتنا پڑتا تھا، یہ سخت ظالمانہ قانون تھا جو مدت سے دنیا میں نافذ تھا، اگر چہ قرآن مجید نے اس ظلم کی ہمیشہ بیخ کنی کر دی تھی، لیکن خاتم النبینﷺ نے اسے یاد دلاتے ہوئے فرمایا :
" ہاں مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا جواب دہ باپ نہیں"
عرب کی بد امنی اور نظام ملک کی بے ترتیبی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ہر شخص اپنی خداوندی کا آپ مدعی تھا اور دوسرے کی ماتحتی اور فرمانبرداری کو اپنے لئے ننگ و عار جانتا تھا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
" اگر کوئی حبشی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو"
ریگستان عرب کا ذرہ ذرہ اس وقت اسلام کے نور سے منور ہو چکا تھا اور خانہ کعبہ ہمیشہ کے لئے ملت ِابراہیم کا مرکز بن چکا تھا اور فتنہ پرداز قوتیں پامال ہو چکی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا :
" ہاں شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا تھا کہ اب تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش قیامت تک نہ کی جائے گی، لیکن البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی پیروی کروگے اور وہ اس پر خوش ہو گا"
سب سے آخر میں آپﷺ نے اسلام کے فرض اولین یاد دلائے:
" اپنے پرورگار کا حکم مانو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور میرے احکام کی اطاعت کرو، خدا کی جنت میں داخل ہو جاؤگے "
یہ فرما کر آپﷺ نے مجمع کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا :
" کیوں میں نے پیغام خداوندی سنا دیا" سب بول اٹھے، بے شک بے شک، آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا، آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکا کر تین بار فرمایا : " اے اللہ تو بھی گواہ رہیو ، گواہ رہیو ، گواہ رہیو"
خطبہ سے فار غ ہو کر حضور اکرم ﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازیں دو دو رکعت یکے بعد دیگرے ادا فرمائیں، نماز کے بعد دامن کوہ میں تشر یف لانے اور عجز وانکسار کے ساتھ دعا میں مصروف ہو گئے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :
الیوم اکمَلتُ لَکُم دینکُم وَ اتمَمْتُ عَلیکُم نعمتی وَ رَضِیت ُ لَکُم الا سلَامَ دِیناًط ( سورہ المائدہ :۳)
" آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کا دین ہونا پسند کیا "
اس آیت کو سن کر حضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے، لوگوں نے پوچھا، آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا ! اس لئے کہ کمال کے بعد زوال ہی ہوتا ہے، مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تکمیل دین اور اتمام نعمت کی آیت سن کر رونے والے حضرت ابوبکر ؓ صدیق تھے اس لئے کہ یار غار کی فراست نے بھانپ لیا تھا کہ اب خاتم الانبیاء کے دنیا سے رخصت ہونے کے دن قریب ہیں۔ حضورﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے مجمع سے ارشاد فرمایا:
"حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو یہ بات پہنچا دے اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پہنچانے والا کسی ایسے شخص کو پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ اس کو محفوظ کرنے والا ہوتا ہے۔"
خطبہ کے وقت آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ نحر ( قربانی) ‘ ر می جمار ( کنکریاں مارنے) حلق ( بال منڈوانے) میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا ! لا حرج، لا حرج، کوئی مضائقہ نہیں، خطبہ کے اختتام پر آپ ﷺ نے تمام مسلمانوں کو الوداع کہا، اس کے بعد آپﷺ قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا کہ قربانی کے لئے منیٰ کی کچھ تخصیص نہیں ہے، بلکہ منیٰ اور مکہ کی ایک ایک گلی میں قربانی ہو سکتی ہے۔ ( سیرت النبی جد اول)
==================>> جاری ہے ۔۔۔
*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں