سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 285


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 285

حجۃ الوداع ۔۔۔ عرفات روانگی:

آنحضرت ﷺ قصویٰ (اونٹنی) پر سوار ہو کر عرفات تشریف لے گئے، اونٹنی کا پیٹ صخرات(چٹانوں) کی طرف کیا، پیدل چلنے والوں کا راستہ اپنے سامنے رکھا ، جبل المشاۃ کے سامنے قبلہ رو ہو کر کھڑے ہوئے، عرفہ کے دن زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگیں، امت کی مغفرت کی دعا کے جو اب میں فرمایا گیا کہ سوائے ظالم کے جس سے مظلوم کا انتقام لیا جائے گا، عرض کیا ! اے اللہ ! تو مالک ہے ، تو چاہے تو مظلوم کا جنت میں درجہ بلند کر دے اور ظالم کو معاف فرما دے، یہ دعا اس وقت قبول نہیں ہوئی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، نجد والوں کے استفسار پر منادی کرائی گئی کہ حج عرفات کے قیام کا نام ہے، جو شخص طلوع فجر سے قبل مزدلفہ پہنچ گیا وہ حج پا گیا۔

حضرت اسامہؓ بن زید کو اپنے پیچھے سوار کر لیا اور مزدلفہ کی طرف چل پڑے، دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے کہ آرام اور سکون سے چلو، آپﷺ ناقہ کی زمام کھینچے ہوئے تھے یہاں تک کہ اس کی گردن کجاوے میں آ کر لگتی تھی، اثنائے راہ میں ایک جگہ اتر کر طہارت سے فارغ ہوئے پھر وضو کئے، حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے، فرمایا : آگے جا کر پڑھیں گے، مزدلفہ پہنچ کر پھر وضو کیا اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازجمع کر کے عشاء کے وقت ادا فرمائی، یہ " جمع تاخیر" کہلاتی ہے، دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی گئی البتہ برابر لبیک کہتے رہے، نماز سے فارغ ہو کر آپﷺ لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرمایا، بیچ میں روزانہ دستور کے مطابق تہجد کے لئے بھی بیدار نہیں ہوئے ، محدثین نے لکھا ہے کہ یہی ایک شب ہے جس میں آپﷺ نے نماز تہجد ادا نہیں فرمائی ، سویرے اٹھ کر با جماعت نماز پڑھی ، فرمایا : پورا مزدلفہ وقوف کا مقام ہے سوائے بطن محسر کے۔

۱۰ ذی الحجہ کی رات مزدلفہ میں گزاری، صبح کی نماز کے بعد مظلوم و ظالم کے بارے میں اپنی دعاء دُہرائی، کچھ دیر بعدچہرے پر تبسّم کے آثار نمودار ہوئے، حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ نے پوچھا … یا رسول اللہ! اللہ آپﷺ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے ، اس تبسّم کا سبب کیا ہے؟ فرمایا ! ابلیس کو اب یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ہے تو وہ روتے ہوئے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، اس کی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے ہنسی آئی، حضرت سودہؓ اور اہل بیت کے کمزور افراد کو رات ہی میں منیٰ جانے کی اجازت دے دی، ان میں حضرت عبداللہؓ بن عباس بھی تھے، قریش مزدلفہ سے اس وقت کوچ کرتے تھے جب آفتاب پورا نکل آتا تھا اور آس پاس کے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دھوپ چمکنے لگتی تھی، اس وقت بہ آواز بلند کہتے تھے، " کوہ شبیر ! دھوپ سے چمک جاؤ" آنحضرت ﷺ نے اس رسم کے ابطال کے لئے سورج نکلنے سے پہلے یہاں سے کوچ فرمایا، یہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور سنیچر کا دن تھا۔ ( سیرت النبی جلد اول )

آپ قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر حرام آئے جو مزدلفہ میں ایک ٹیلہ ہے، یہاں خو ب روشنی پھیلنے تک قبلہ رو ہو کر تسبیح ، تہلیل ، تکبیر اور دعاؤں میں مشغول رہے، طلوع آفتاب کے بعد مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوئے، حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ، آپ ﷺ کے برادر عم زاد حضرت فضلؓ بن عباس ناقہ پر سوار تھے، لوگ داہنے بائیں حج کے مسائل دریافت کرنے کے لئے آرہے تھے، آپﷺ جواب دیتے تھے اور زور زور سے مناسک حج کی تعلیم دیتے جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری بحوالہ سیرت النبی جلد اول)

اس قدر ہجوم تھا کہ حضرت عائشہؓ نے کہا: کاش! حضرت سودہؓ کی طرح میں بھی اجازت لے کر منیٰ چلی جاتی، حضور ﷺ لوگوں کو تلقین فرما رہے تھے کہ سکون سے چلو، کبھی کوڑے سے اشارہ فرماتے ہوئے کہتے، اے لوگو ! اطمینان اختیار کرو ، اونٹوں کو دوڑانا کوئی اچھی بات نہیں، قبیلہ غثم کی ایک عورت نے قریب آکر پوچھا کہ حج ایسے موقع پر فرض ہوا ہے کہ میرا باپ ضعیف ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا: ہاں ، حضرت فضلؓ بن عباس اس عورت کو اور وہ انہیں دیکھنے لگے، حضور ﷺ نے فضلؓ کا منہ دوسری طرف پھیر دیا، حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں عرفہ سے مزدلفہ تک اور فضلؓ بن عباس مزدلفہ سے منیٰ تک حضور ﷺ کے پیچھے اونٹنی پر بیٹھے رہے، وادیٔ محسّر میں آئے تو رمی جمار کے لئے چنے سے بڑے اور چھوٹے بیر سے کم کسی قدر کم کنکریاں جمع کرنے کا حکم ہوا، لوگوں نے تعمیل کی، وادیٔ محسّر میں جو اصحاب فیل پر اللہ کے غضب کی جگہ ہے اونٹنی کو تیزی سے دوڑایا۔

حضرت عبداللہ ؓ بن عباس نے آپ ﷺ کے لئے بھی کنکریاں چنیں ، پھر آپﷺاونٹنی کو دوڑاتے درمیانی راستہ سے جمرۂ کبریٰ کی طرف چلے اسے جمرۂ عقبہ اور جمرۂ اولیٰ بھی کہتے ہیں، نزدیک جا کر ایک درخت کے نیچے رک گئے، اس وقت آپﷺ وادی کے نشیب میں تھے، آپﷺ کی بائیں جانب منیٰ داہنی طرف مکہ تھا، آپﷺ نے قصویٰ ہی پر سے ہر بار اللہ اکبر کہہ کر کنکریاں جمرۂ کبریٰ پر ماریں ، یہ رمی جمار آپﷺ نے آفتاب طلوع ہونے کے بعد فرمایا اور تلبیہ موقوف کیا، چاشت کا وقت تھا، اونٹنی پر بیٹھ کر فرمایا : مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، مجھے معلوم نہیں کہ اس حج کے بعد دوسرا حج کر سکوں گا کہ نہیں، یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہوئے ، حضرت اسامہؓ ساتھ بیٹھے دھوپ سے بچنے کے لئے چادر تانے ہوئے تھے، حضر ت بلالؓ قصویٰ کی مہار تھامے ہوئے تھے، داہنے بائیں‘ آگے پیچھے تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کا مجمع تھا، مہاجرین قبلہ کے داہنے ‘ انصار بائیں اور بیچ میں عام مسلمانوں کی صفیں تھیں، آپﷺ نے نظر اٹھا کر اس عظیم الشان مجمع کی طرف دیکھا تو فرائض نبوت کے (۲۳) سالہ نتائج نگاہوں کے سامنے تھے، زمین سے آسمان تک قبول و اعتراف حق کا نور ضو فشاں تھا، دیوان قضا میں انبیاء سابق کے فرائض تبلیغ کے کارناموں پر ختم رسالت کی مہر ثبت ہو رہی تھی اور دنیا اپنی تخلیق کے لاکھوں برس بعد دین فطرت کی تکمیل کا مژدہ کائنات کے ذرہ ذرہ کی زبان سے سن رہی تھی، اسی عالم میں قصویٰ پر سوار ہو کر افصح العرب و العجم نے خطبہ دیا ۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں